بدھ، 16 دسمبر، 2015

ماں کا نوحہ

یہ پھولوں،جھرنوں اور جھولوں سے بھرا کوئی باغ ہے۔۔۔یہاں نہر بھی ہے۔۔شفاف پانی میں تیرتی مچھلیاں اور کھلکھلاتے معصوم بچے۔۔یہ سب میرے بچے تھے۔ابھی نیلی آنکھوں والے ایک گل گوتھنے بچے کو میوے والی چُوری کھلا کر اٹھی ہوں۔تعداد مجھے معلوم نہیں۔۔دادی سے سنا تھا کہ بچوں کی تعداد بتانے سے نظرِ بد کا خدشہ ہوتا ہے۔بس یہ سب میرے بچے ہیں۔۔ان کا رنگ،شکل، آنکھیں مختلف ہیں مگر سب کی بولی ایک ہی ہے۔کانوں میں رس گھولتی شہد سے میٹھی بولی۔۔۔
مگر کچھ سسکتی سرگوشیاں ۔۔۔۔
 "اماں سے کہنا مجھے اب ٹھنڈ نہیں لگتی ۔۔۔سویٹر کب تک بنتی اور اُدھیڑتی رہے گی۔۔"
"بابا کو کہو ان کا بہادر بیٹا یہاں خوش ہے،ہاں میں خوش ہوں کہ بابا کا بوجھ ہلکا ہوا،اب ایک بہن یا بھائی کی تعلیم مفت ہوگی۔وہ روتے ہیں تو نمکین آنسو ان کے بہادر بیٹے کو اداس کرتے ہیں۔
۔۔"
"بہنا اب چلغوزے چھیل کر کس سے چھپاؤ گی ۔۔۔۔"
"بھیا ! کرکٹ کیوں نہیں کھیلتے ؟ گلی میں اتنے بچے ہیں کسی کو پارٹنر بنا لو نا۔۔میں یہاں خوش ہوں ۔۔۔"
"یہ ٹی۔وی والے انکل اور آنٹی بہت بُرے ہیں۔۔۔کیوں بار بار میری ماں اور بابا کو رُلاتے ہیں ؟ میں کُٹی ہوں ان سب سے۔۔۔اور کل تو میرے سکول کے دوستوں کو بھی تنگ کیا۔۔۔وہ ہمیں نہیں بھولے مگر ۔۔۔۔"
"میرے دادا مجھے بڑا آدمی بنانا چاہتے تھے۔۔۔سنا ہے اب ہر سال میرے نام کا میڈل اور اسناد وصول کیا کریں گے۔۔۔سر فخر سے بلند ہوگا نا ان کا۔۔۔۔۔"
"ابو ! آپ کیوں جھگڑتے ہیں اِن سے۔۔۔کیا ہوا جو ناکے سے وہ ظالم بچ نکلے۔۔۔کیا ہوا جو اُنہیں کسی نے سکول کی دیوار سے سیڑھی لگاتے نہ دیکھا۔۔۔ میں یہاں خوش ہوں ابو۔۔آپ میری قبر پر آکر کیوں روتے ہیں۔۔پریشان ہوجاتا ہوں۔۔۔۔"
یہ آوازیں میرے کان میں کہاں سے آ رہی ہیں۔۔۔ یہ میں کیوں سسک رہی ہوں۔۔ چہرہ کیوں بھیگا ہوا ہے۔۔۔۔۔اوہ۔۔تو یہ خواب تھا۔۔شکر ہے کہ یہ بس " خواب " ہی تھا۔
میں ایک عام پاکستانی شہری ہوں۔ایک معمولی سی گھریلو بندی،واجبی تعلیم اور ثانوی سمجھ بوجھ والی خاتون۔مجھے ہر انسان کی طرح بچے ، پھول اور کھلا آنگن اچھا لگتا ہے۔ ماں کہتی ہے سال چھوٹے بھائی پر بھی مامتا لٹاتی تھی اور آج بھی راہ چلتے بچوں کو اسی مامتا کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
کل پندرہ دسمبرکی رات بہت کڑی تھی۔میں نے کسی بچے کو جنم نہیں دیا مگر نیند کی دو گولیاں کھانے کے بعد آنکھیں بند کرتے ہی خون میں لتھڑے بچوں کے چہرے مجھے جاگنے پر مجبور کرتے رہے۔۔۔ کوئی سیال تھا جو آنکھوں سے بہتا رہا۔یوں محسوس ہورہا تھا کہ کہیں ننھی سسکیاں اور کسی ماں کی دبی آہیں کانوں میں لاوا انڈیل رہی ہیں۔
میں نے تین افسانے لکھے اور ہر بار ایک ہی کلک سے تلف کرڈالے۔کھوکھلے الفاظ،جھوٹے استعارے اور سُلگتے اشاروں میں مجھے اپنا آپ چھوٹا محسوس ہوتا رہا۔دنیا میں ہر روز کتنی ہی ماؤں کی گود اجڑتی ہے،کتنے ہی باپ اپنے لختِ جگر کو آخری سفر پر روانہ کردیتےہیں تو آخر ایسا کیا ہے سولہ دسمبر میں جو مجھے چین نہیں پڑتا۔۔۔بہت سوچا اور اپنی کم مائیگی کا احساس بڑھتا ہی رہا۔
ابھی اخبار،ٹی۔وی اور سوشل میڈیا کا راگ پڑھ سُن کر احساس ہوا کہ ہم تو زندہ قوم ہیں ۔۔۔ اور مت سمجھو ہم نے بھلا دیا۔۔بس مٹی میں مِلا دیا۔۔۔۔کوئی میرے ان فرشتوں کو ننھے سپاہی کہہ رہا ہے۔۔میں ، ان بچوں کی ماں ، تمہیں بتانا چاہتی ہے کہ میرے بچے مرنا نہیں چاہتے تھے۔۔وہ زندگی کا استعارہ تھے۔۔وہ والدین کا سہارا تھے۔۔۔بہنوں کا مان تھے۔۔وہ اس ملک کے ڈاکٹرز،انجینئرز،اساتذہ اور مستقبل کے معمار تھے۔۔۔تم دشمنوں کو پڑھاؤ یا مارو میرے بچوں کو واپس لا سکتے ہو تو بتاؤ۔۔ ذمہ داروں کو قوم کے سامنے لا سکتے ہو تو احسان جتلاؤ۔۔۔اب تم ہر سال ایک تقریب منعقد کرو گے۔۔۔ نغمے ریلیز کرو گے۔۔۔نوافل پڑھنے والے موم بتیوں کو رگیدیں گے اور موم بتی روشن کرنے والے اپنا راگ الاپیں گے۔۔میں ، ان پھولوں کی ماں ، جب تک سانس چلتی رہے گی یہ خواب آور گولیاں کھا کر ہر رات کانٹوں پر کاٹتی رہوں گی۔۔ہر دِن سولہ دسمبر مناتی رہوں گی۔۔۔میرے پھولوں کا یہ شہر خون کی خوشبو سے مہکتا رہے گا۔۔۔زخم صرف ماؤں کا ہرا رہے گا اور ان فرشتوں کے بابا اپنے لاشے ناتواں کندھوں پر اٹھائے زندگی ڈھوتے رہیں گے۔

منگل، 17 نومبر، 2015

ادھوری ہجرت

دودھ میں گندھے،مکھن اور تل لگے روغنی نان کا آرڈر دے کر گاڑی کے شیشے چڑھائے وہ ارد گرد کا جائزہ لے رہاتھا۔پوریوں کا آرڈر پہلے ہی دے چکا تھا۔یہ پاکستان میں بچوں کےساتھ اس کا آخری ناشتہ تھا۔شام کی فلائٹ سے واپس اسی پردیس لوٹ جانا تھا جہاں اس نے بیالیس سالہ زندگی کے چوبیس برس گزار دیے تھے۔
بارہ سالہ بچہ پیڑے کررہا تھا اور ایک نوجوان نہایت پھرتی سے پوریاں نکال رہا تھا۔اس سے کچھ فاصلے پر اخباروں کے بنڈلوں کا ڈھیر تھا۔ اور دو نوجوان اپنے حصے کے پرچےگن کر نکالتے اورسائیکل پر لگی ٹوکری میں مختلف اخبارات کو لپیٹ کر اڑس رہے تھے۔وہیں کریانہ سٹور کا مالک کاپی پینسل ہاتھ میں پکڑے حساب لکھ رہا تھا۔اس سے آگے چوراہےکی نکڑ پر سبزی والاجمائیاں لیتا،آنکھیں ملتا ڈبےمیں پانی لیے سڑک پر چھڑکاؤ کررہاتھا۔ساتھ ہی دیہاڑی دار مزدوروں نے فٹ پاتھ پر اپنی کدالیں اور بیلچے،رنگ وروغن کا سامان ، شیڈ کارڈز اور برش لگا کر آج کے دن کی مزدوری کیلیے اجتماعی دعا کا اہتمام کررکھاتھا۔فٹ پاتھ کی دوسری جانب ایک مالی اپنی نرسری کو سنوار رہا تھا۔۔اور اس سے آگے لگ بھگ اسی سالہ اپاہج زمین پر گھسٹتا مسجد کے سامنے اللہ سے سب کی خیر مانگ رہاتھا۔۔۔۔یہ سلسلہ قطار اندر قطار۔۔۔مگر اس کی دور کی نظر والی عینک بھی اس سے آگے کا منظر دھندھلا رہی تھی۔۔آگے شاید وہ پردیس تھا جس نے ماں کی آغوش کی مانند اس کی پرورش کی تھی۔
اس کا ناشتہ پیک ہوکر آگیا تھا۔۔۔بل ادا کیا اور بٹوے میں چند ہرے نوٹ اس کا منہ چڑھانے اور کام پر واپس جانےکی یاددہانی کو کافی تھے۔گھرلوٹتے اس نے جیب میں موجود رقم کا سب حساب لگا لیا تھا۔۔۔بیوی کو اس مہینے کا خرچ،نوبیاہتا بیٹی اور داماد کو شگن،اور ایک دو رشتہ داروں کو بھی نبٹانا تھا۔جدہ ائیرپورٹ پر لینڈ ہوتے تک شاید اس کے پاس ٹیکسی کا کرایہ ہی بچنے والاتھا
ناشتہ بھی ٹھیک سے نہیں کرپایا تھا۔۔۔اس بار تین سال میں اس کا دوسرا چکرتھا یہ پاکستان کا۔پہلے بیٹی کی شادی نبٹاتے کمرتوڑ گیا تھا اور اب سوچ کر آیا تھا کہ یہیں حالات اور موقع دیکھ کر سیٹ ہوجائے۔۔ایک بار ریڈیئٹر کا ابلتا پانی ہاتھ جلا بیٹھا تھا۔دل کی تکلیف اور شوگر کے مرض نے اسے دو ہی سالوں میں نچوڑ ڈالا تھا۔مگر یہاں کے حالات ہی نرالے تھے۔ہر بار یہ سوچ کر آتا تھا کہ اب سب کچھ سمیٹ کر اپنے گھر کی روکھی سوکھی کھاؤں اور ہر بار بیوی نے کوئی بڑی کمیٹی ڈال رکھی ہوتی۔۔بڑا بیٹا پہلے انجینئرنگ کے نام پر تین سال کا ڈپلومہ کرتا رہا اور اب پھر بی۔ایس۔سی میں داخلہ لےلیا تھا۔گھر کے خرچ اور شریکا برادری چلانے کے نام پر ماہانہ خرچ بھیجتے اس کے بالوں میں وقت سے پہلے سفیدی اتر آئی تھی۔افسوس تو اسے یہ تھا کہ ابھی تک چار سال سے گھر کی تعمیر تک مکمل نہ ہوپائی تھی۔یہ بھی غنیمت تھا کہ بیرونِ ملک مقیم بھائی اور اس کی فیملی نے اپنا گھر کرائے پر دینے کی بجائے انہیں رہائش کیلیے سالوں سے دے رکھا تھا۔

 اس کا نام "مرد" تھا ۔۔۔ سیٹ بیلٹ باندھ کر اس نے آنکھیں بند کرلیں۔۔حلق کڑواہٹ اور آنکھیں مرچی سے بھررہی تھیں۔۔۔جہازرن وے پر بھاگ رہا تھا اور ساتھ میں اس کا ذہن اس بار ہمیشہ کی طرح اپنے تین ہفتوں کے قیام کی بجائے پردیس میں گزاری زندگی کے چوبیس سالوں کو ٹٹول رہا تھا۔
اس کا باپ سعودیہ بھلے وقتوں میں گیا تھا اور پھر وہیں مزدوری کرتا ایک روز تابوت میں پاکستان لوٹا تھا۔ دھندلی سی یادیں تھیں ،ماں نے بہت بین ڈالے تھے اور آٹھ سالہ بیٹے کے واسطے دےکر جگانے کی کوشش کی تھی۔اسے یاد تھا کہ ماں ہاتھ جوڑکر کہتی رہی "سائیاں وے مُڑ آ۔۔۔۔ ایتھے تھوڑی کھا کے طعنہ نئیں دیاں گی۔" مگر اس کا باپ شاید جانتا تھا کہ اس ابدی نیند سے جاگ گیا تو تین چار ہفتوں بعد ہی گھر کے خرچے گنوا کر بہانے سے واپس پردیس کاٹنے کی تاریخ پوچھی جائے گی۔سو نہ جاگا۔
خاندان کے بیشتر مرد سعودیہ ہی محنت مزدوری کرکے پاکستان بیٹھے گھروں کو پال رہے تھے۔دو تین سال بعد چکر لگتا اور گھر کے افراد میں اضافےکی خوشخبری وہیں پردیس میں ملا کرتی۔باپ کے بعد پہلے اس کا بڑا بھائی ،پھر منجھلا سعودیہ چلا گیا۔ایک نے اے۔سی مرمت اور دوسرے نے ورکشاپ کا کام نبٹاتے آخراپنی دکان کا انتظام کرہی لیاتھا۔چھوٹا "مرد" بھی اٹھارویں برس میں بھائیوں نےاپنے پاس بلوالیاتھا۔ورکشاپ چل نکلی تھی۔اور دو سال بعد جب وہ ماں سے ملنے آیا تو بیس برس کی عمر میں سولہ سالہ بیوی ماں کی خدمت کرنے کو پاکستان چھوڑ آیا تھا۔پہلی اولاد کی پیدائش کی خبر اسے تار کی گئی تھی۔ماں کے گزرنے پر پاکستان گیا اور پھر کچھ عرصہ بعد فیملی کو وہیں بلوا لیا۔بچے بڑے ہونے لگے تو "ادھوری ہجرت" پھر سے کرنے کا وقت آن پہنچا تھا۔وہ بہرحال مزدوری کرتا رہا ۔۔۔وقت گزرتا رہا۔
ہر بار پاکستان سے واپسی پر اس کے حصے کی مسکراہٹیں اور تلخیاں معکوس ہوتی جارہی تھیں۔ڈاکٹروں نے اسے محنت طلب کام سے منع کیا تھا۔سادہ غذا اور آرام کے بنا دوا اثر نہیں کررہی تھی۔مگر اس کی ہم سفر کا ماننا تھا کہ پاکستان آتےہی منرل پانی،کُکنگ آئل، مرچیں اور چینی کے معاملے پر سارے گھر کا نظام تلپٹ ہوجاتا ہے۔مہمانوں کا تانتا ، نندوں کا گھیرا، سسرالیوں کی چھاؤنیاں۔۔۔خرچ تین گنا۔۔۔۔۔وقت کم مقابلہ سخت۔۔۔ایسے میں ہر بار ائیرپورٹ کے لاؤنج میں وہی بیوی جو کبھی آنسوؤں سے رخصت کیا کرتی تھی۔۔۔"اب تین چار سال دل لگا کر کام کرلیجیے۔" کہتی نگاہیں چرا جاتی تھی۔
اس بار اچھے علاقے میں ورکشاپ وغیرہ سب دیکھ لی تھی۔۔شاید بیعانہ بھی نبٹا لیتا مگر داماد نے کچھ ماہ بعد اس کی نازوں پلی بیٹی کو سعودیہ بلوانے کا اشارہ دے دیا تھا۔۔۔باپ ہونے کے ناطے اسے فرض یاد دلوایا گیا تھا کہ بیٹی کو اچھے سے وہاں سیٹ کرکے ہی لوٹے۔پھر بیٹے کو نوکری ملنے میں پانچ سال باقی تھے۔چھوٹی بیٹی کا جہیز بھی بنانا تھا۔۔۔۔ قصہ مختصر پھر وہی پردیس اور وہی اپنوں سے دوری کا زخم چاٹنا تھا۔۔۔
سینے میں ٹیس شدید تھی۔۔آنکھوں کو زبردستی کھول کر اطلاعی گھنٹی بجائی۔۔خشک ہوتی زبان پر چند قطرے پانی ٹپکانا چاہتا تھا۔۔۔۔۔ ائیر ہوسٹس کی آواز کانوں میں مدہم ہورہی تھی۔۔۔۔۔۔۔۔اب کی بار شاید ایک اور تابوت وطن کی مٹی اور اپنوں میں جینے کی آس لیے پلٹنے والا تھا۔

پیر، 9 نومبر، 2015

اسرارِ خودی سے رموزِ بے خودی تک

یومِ اقبال  کے نام پر اس برس اسلامی جمہوریہ پاکستان میں اتنی گفتگو ہوئی کہ ایک اندازے کے مطابق اتنا تذکرہ ١٣۹ برس میں امن کی فاختہ کا نہیں ہوا۔اقبالؒ بھی اپنے مخصوص انداز میں بیٹھے سوچتے ہوں گے کہ جتنی کاوش چھٹی کی بحالی کے لیے کی گئی ہے اتنی محنت تو شاید ان کی قوم نے کبھی عربی یا فارسی کا اختیاری مضمون پاس کرنے میں نہیں لگائی ۔
جلاؤ گھراؤ، شہر بند ،مقامی ضلعی انتظامیہ کی جانب سے مختلف عرس کی چھٹیاں، شٹرڈاؤن ، یومِ سیاہ اور آدھی دنیا کا غم پال کر آئے روز سکول دفاتر بند کروانے کے علاوہ یومِ مزدورپر آپ نے کبھی کسی دیہاڑی دار کو پکنک مناتے دیکھا ہو یا کشمیر ڈے پر کشمیری پلاؤ کے علاوہ کوئی اہم پیش رفت دیکھی ہو تو آگاہ کیجیے گا۔یومِ تکبیر کے نام پر چھٹی سے ہمارے ایٹمی اثاثوں کو خراجِ تحسین پیش کرلیجیے۔یومِ دفاع ہو یا پھر یومِ پاکستان ہم بھرپور ملی جذبے سے سو کر گزارتےہیں۔ عید الاضحیٰ کی تین اور ہفتہ اتوار جوڑ کر پوری پانچ چھٹیوں کے بعدبھی دفاتر و سکولزمیں حاضری قابلِ رشک نہیں ہوتی ۔عیدالفطرکی دوچھٹیاں ہوں یا عاشورہ کی ، عید میلاد النبی
ہو یا پھریومِ آزادی۔۔۔۔ایک طویل فہرست ہے تعطیلات کے نام پر ۔اس کے باوجود ٢٥دسمبر کو ولادتِ جناحؒ اور کرسمس کی چھٹی کفایت شعاری میں نبٹاتے اعتراض ہوجائے گا۔
مشاہیر نے کب چاہا ہوگا کہ ان کے نام پر چھٹی منائی جائے اور معیشت کو اربوں کا ٹیکہ لگے۔ ٢١ اپریل ہو یا ١١ ستمبر دونوں چھٹیاں متروک ہوئیں تو عوام ایک دو سال میں بھول بھی گئے۔ وجہ شاید ان دنوں سوشل میڈیا کا اثر و رسوخ اور معاوضہ وصول کرتی ٹیموں کا نہ ہونا ہے۔
جتلایا گیا کہ ہمارے ہاں تو دنیا میں سب سے کم چھٹیاں ہورہی ہیں۔حساب لگانے بیٹھی تو صرف سرکاری سطح پرہی ٢
۰١٤ء تک اٹھارہ چھٹیاں موجود تھیں۔اس برس وفاق کو جانے کیا سوجھی کہ اقبال کے شاہینوں کو آدھے دن منہ کھول کر سونے اور بھرپور ناشتہ کرکے خاندان کیساتھ پکنک منا کر اقبالؒ کے "رموزِ بےخودی" پر بحث سے روک دیا گیا۔
خدا سلامت رکھے گوگل سرچ انجن کو کہ جس کی بدولت ہمارے علم میں اضافہ ہوا اور اُن اقوام پر بہت ہی ترس آیا کہ جن کے ہاں سرکاری چھٹیوں کی تعداد اس قدر کم ہے۔ ہمارا "ازلی دشمن" بھارت سرکاری طور پر چھ
 چھٹیوں کی عیاشی کرتا ہے۔برطانیہ میں سنا ہے کہ آٹھ اور امریکہ میں فقط بارہ جبکہ چین میں دس اور نیوزی لینڈ میں شاید سات سرکاری تعطیلات ہوا کرتی ہیں۔ مگر ہمیں ان اعداد و شمار سے کیا غرض۔
شاعرِ مشرق کے یومِ ولادت پر چھٹی منسوخ ہونے کا غم یوں بھی دوگنا ہے کہ مووی اور لنچ کے سب منصوبے دھرے رہ گئے۔جواز یہ پیش کیا جاتا رہا کہ اقبال نے پاکستان کا خواب دیکھا تھا۔ایک دو سے پوچھا کہ اجتہادی بصیرت ، اتحاد اور مسلمانوں کی زندگی میں محنت اور عمل پیدا ہوتے دیکھنا شاید علامہ کا اصل خواب تھا؟!؟ تو جواب میں کچھ القابات سے نواز دیا گیا۔ شکر کیا کہ چوھدری رحمت علی ایسے کسی بھی مسئلے سے مستثنیٰ ہیں کہ نہ ان کے یومِ ولادت کا مسئلہ اور نا ہی یومِ وفات کی چھٹی وغیرہ پر واویلا۔
ایک وہ گروہ ہے جس نے اقبال کے چند اشعار کی بنیاد پر دل میں ایسی مخاصمت پال لی ہے کہ اُنہیں نیچا دکھانے کو نجی زندگی اور مشاغل کو زیرِ بحث لانے کے علاوہ اقبالیات کے نام پر ایک لفظ پڑھ کر نہیں دیکھا ۔ساری تحقیق اور تمام مطالعہ اُن کی شادیوں، بچے،گھریلو حالات اور مصائب کے گرد ہی گھومتا ہے۔نہ کبھی
 جاوید نامہ کھول کر دیکھا اور نہ ہی سمجھنے کی کوشش کریں گے کہ غالب سے لے کر کارل مارکس اور جمال الدین افغانی کے ذکر سے لے کر رومی کیساتھ افلاک کے تخیلاتی سفر میں اقبال کیا کچھ کہہ گئے۔۔فارسی میں ہے تو شاید زبان کا مسئلہ ہو ۔اردو ترجمہ پڑھ لیجیے جناب۔  بس مخالفت برائے مخالفت۔دلائل اورحوالہ جات علمی رہیں تو مناسب رہتا ہے۔
دوسرا گروہ فتوے کا بیانیہ ضرور دےگا،وہ الگ معاملہ کہ تینوں مساجد/مدارس کانام معلوم نہیں ہوگا جبکہ مسالک والی بات کو ہڑپ کرجائیں گے۔ آج اقبال
ؒ کے خلاف مولوی دیدار علی اور مولانا احمد علی کے فتوے کہاں کھڑے ہیں؟ ہاں مگر انہی کے نام لیوا چھٹی منسوخ ہونے پر چلاتے ضرور پائے گئے ہیں کہ "ہمارے ہیں اقبال"۔۔۔
اُس دور میں پنجاب کی ابھرتی مڈل کلاس متضاد خیالات کی مالک سمجھی جاتی تھی اور علامہ اقبال کا تعلق بھی اسی کلاس سے تھا۔
بعض جگہوں پر اقبال سے اختلاف کیا جاسکتا ہے مگر ان کا یہ اعترافی جملہ  "میری ایک ہی خصوصیت ہے اور وہ ہے میرا ذہنی ارتقاء۔۔۔" قابلِ غور ہے۔
سوچ کو جمود کا شکار نہیں ہونے دیا۔ انہوں نے "اسرارِ خودی" میں انفرادی تخلیقی صلاحیتوں کو پہچاننے کا سبق دیا تو
 "رموزِ بےخودی" میں ملت کے ساتھ فرد کا ربط ،عائلی زندگی اور ریاست کا نظم و ضبط بیان کرکے فلسفہء خودی میں غرور کا عنصر تلاش کرنے والوں کو خاموش کروادیا۔ آج کی تاریخ میں سیاستدان ، دانشور ، صحافی اور سوشل میڈیا پر بیٹھے بقراط فلسفہء خودی کی ضرورت پر زور دیں گے مگر اس کی روح کو سمجھ کر مفہوم بتانے اور عمل کرنے والوں کی تعداد کتنی ہے؟ رموزِ بےخودی کو یکسر نظر انداز کرکے ریاست سے رابطہ کیسے قائم رہے گا۔یہ تذکرہ کون کرے۔
ایک اور گروہ پایا جاتا ہے جس نے " اسلام میں مذہبی خیالات کی تشکیلِ نو" پڑھے بنا ہی فیصلہ کرلیا ہے۔انہیں چاہیے کہ "محاورہ مابین خدا و انسان" پڑھیں۔شاید بغض سے چھٹکارہ مل جائے۔
التماس تو یہ بھی ہے کہ علامہ محمد اقبال کو وہی حضرتِ انسان رہنے دیجیے جس کو ملائکہ نے سجدہ کیا۔خطاؤں سے مبرا کوئی بھی نہیں ۔ عقیدت کے بتوں کو پوجنے کی بجائے انسانوں کے بہتر معاملات کی تقلید مناسب راہ سجھا سکتی ہے ۔ ادبی تشبیہات و استعارے اور اسلوب پر فتوے لگانا اگر ناجائز ہے تو اُنہیں زمانے و حالات کے مطابق ڈھال کر سمجھنے کی سعی نہ کرنا بھی جرم ہے۔
باقی یہ کہ شیر، شاہین، کرگس،عقاب اور فاختہ و مینا کے لاحاصل موازنے سے انسانوں کی بھلائی ہونے والی ہوتی تو انسان پتے باندھ کر، پتھر رگڑ کر آگ تاپتا اور بچے جنتا رہتا۔اور یوں سرکاری و مقامی تعطیلات والا جھگڑا بھی جنم نہ لیتا۔

جمعہ، 30 اکتوبر، 2015

زلزلے کی پاکستانی وجوہات

آپ کا شکریہ کہ مصنف کے طور پر ایک خاتون کا نام دیکھ کر اس صفحے تک پہنچ گئے۔۔۔اور معذرت خواہ ہوں کہ تیس سالہ پرانا واقعہ بے وجہ دہرانے کی گستاخی کرنے جا رہی ہوں ۔
٢٦ اکتوبر ٢۰١٥ء کی دوپہر بدخشاں سے چلی زلزلے کی لہر پاکستان کو ہلا گئی اور اس سے زیادہ سوشل میڈیا ہِل گیا۔

١ : پراؤڈ پٹاخہ ایٹ بیچی بَگ
"زلزلہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"
جونہی ملازمہ نے جاگرزمیں تسمے پروتے زمین پر کانپتے یہ آواز لگائی میں نے تو جھٹ سمارٹ فون اٹھایا جھولتی تھرکتی wind chime کی وڈیو بنائی اور جھولتے پنکھے کو ٹیگ کرکے 
ھیش ٹیگ #زلزلہ کا آغاز کردیا۔یوں پاکستان میں اس تاریخی زلزلےکو سوشل میڈیا پر متعارف کروانے کا سہرا میرے سر ہے۔پھر جو اس کی شدت اور ہلاکتوں بارے ہر مصدقہ/غیر مصدقہ خبر کو عوام تک پہنچایا وہ تو ایک الگ ہی محنت و عظمت بھری داستان ہے۔
آج جِم جانے کا کوئی موڈ نہیں تھا۔ممی کو آواز دی کہ اچھی سی کافی بنوا کر بھیجیں۔بہت کام تھے۔زلزلے کی وجوہات اور اثرات بارے سیر حاصل بحث کرنی تھی اور حکومتی اقدامات کو دل کھول کر رگیدنے کا موقع تو قدرت نے فراہم کر ہی دیا تھا۔پھر ہمارے ویر جوانوں کی جفاکشی کو ہائی لائٹ کرنا صرف باجوہ صاحب کے ناتواں کندھوں پر تو ڈالا نہیں جا سکتا۔۔۔کچھ کام ہمیں بھی اپنے ذمہ لینے چاہییں۔
مجھے Earthquake بارے پڑھےکافی سال ہوگئے۔مگر یار دوست مل کر کچھ نہ کچھ حصہ ڈال کر ٹرینڈ لسٹ میں دھوم تو مچا ہی لیں گے ۔۔۔فلڈز وغیرہ کے دنوں میں بھی توسب نے سوشل میڈیا پر اتنی محنت کی تھی۔۔آج بھی اپریل ٢۰۰٥ء میں نیپال میں آنے والے زلزلے کی تصاویر نکال کر تھوڑی بہت جھاڑ پھونک کرکے اچھا خاصا کراؤڈ اکٹھا کیا جاسکتا تھا۔اور کوئی نیوز چینل اس پوسٹ کو "ایکسکلوزو" واٹر مارک کے ساتھ دِکھا دے تو بلے بلے ۔
ویسے تو Numerology کے کچھ اعداد سے کھیل کر بھی اس زلزلے کو ثابت کرنے کی کوشش کردی ہے۔شہرت تو ملے گی ہی ، فالوورز الگ۔۔۔۔

٢: استغفرللہ ایٹ کلیم اللہ

زلزلہ کیوں آتا ہے؟
یہ سوال سوشل میڈیا پر بیٹھےکاہل و جاہل کرتے ہیں۔ مجھے تو پتنگے لگ گئے ان نامرادوں کی باتیں پڑھ کر ۔ یعنی کہ قرآن کو جھٹلا رہے ہیں اور کہتے ہیں زمینی پلیٹوں کا ٹکراؤ ہے۔
میاں جب پورا ملک سود پر چلاؤ گے، فحاشی عام ہوگی۔۔۔ عورتیں ٹخنوں سے پانچ اِنچ اونچےتنگ پاجامے زیب تن کرکے مجھ سے متقی کا وضو خطا کروائیں گی ، جہوریت جیسا کفر کا نظام رائج کرکے چور لٹیروں کو برسرِ اقتدار لاؤ گے تو اللہ کا عذاب ہی نازل ہوگا نا۔ اور مزید یہ کہ لغو گوئی۔۔استغفرللہ۔۔ایسی گندی گندی ذومعنی گفتگو ہوتی ہے ٹائم لائن پر۔۔عورتوں کی تو آنکھ کا پانی مر چکا۔۔۔عورت کو برسرِ اقتدار لا کر اللہ سے کھلی جنگ کرچکا ہے یہ ملک۔۔۔
بےحیائی کی مرتکب یہ عورتیں ہوتی ہیں اور عذاب پورے ملک پر نازل ہوتا ہے۔ظاہر ہے جب اپنی عورتوں کو چار دیواری سے نکالیں گے تو بھگتیں پھر۔۔۔زنا کے اڈے ہیں کہ بڑھتے چلے جارہے ہیں۔انہی عورتوں کا چلایا کاروبار ہے۔۔یہی قصور وار
میں نے تو لگایا پھر فون اپنی سوشل میڈیا ٹیم کو کہ آجاؤ میدان میں۔۔زلزلےبارے قرآنی احکام لگاؤ اور بتاؤ اس جاہل قوم کو کہ فالٹ لائن نامی کوئی شے نہیں ہوتی بلکہ قوم کی عورتوں کا "فالٹ" ہے ۔اور تاکید کی کہ جو شخص اس سے اختلاف کرے یا کسی قسم کی کوئی سائنسی دلیل لانے کی کوشش کرے فوراً سے پہلے کافر قرار دے کر ایسا زدوکوب کرو کہ پبلک میں کلمہ پڑھ کر گواہی دے۔ہمیں ثواب کا ثواب اور وہ فاسق سبق الگ سیکھے گا ۔

٣ : سویٹ سوبر ایٹ براؤنی بَبّر

ٹائم لائن پر بکھرے علم کے موتی بیس منٹ سمیٹنے کے بعد مجھے احساس ہوا کہ زلزلے بارے میری معلومات کا کوزہ بھر چکا ہے۔آٹھ دس اچھے نامور لوگوں کو آرٹی کیا۔۔ایک دو نیوز چینلز کے سوشل میڈیا اکاؤنٹس اور کچھ صحافیوں کی گفتگو کا بغور جائزہ لے کر محتاط طریقے سے تمام معلومات کو ری۔سائیکل کرکے پوسٹ کرنا شروع کردیا۔۔۔۔ اتنے فیورٹس،اتنے کمنٹس۔۔میں حیران پریشان۔۔
پھر یاد آیا کہ آج صبح ہی اپنی ڈی۔پی بدلی تھی۔۔اتنے کوئی بےوقوف لوگ ہیں نا۔۔یہ بھی نہیں جانتے کہ یہ تصویر ایک نئی پاپ سٹار کی ہے جس نے ابھی کوک اسٹوڈیو میں گایا نہیں ،اسی لیے زیادہ مقبول نہیں ہو پائی۔۔میں نے تو شکر کیا۔۔۔ایک ہی دن میں پچیس فالوورز مل جانا کوئی معمولی بات تو نہیں تھی۔
اب دو چار درد بھرے اشعار کاپی پیسٹ کرلوں پھر زلزلہ متاثرین کی امداد کیلیے ایک آدھ تھریڈ لکھنے سے کام پورا۔

٤ : انجینئررومیو ایٹ ڈسکو ڈیوا

تین سال قبل ڈپلومہ مکمل کرکے مناسب نوکری ملی تو سب سے پہلا کام گھر کے باہر نمبر پلیٹ لگوائی جس پر جلی حروف میں "انجینئر" لکھا دیکھ کر آس پڑوس کو میری پھپھو کپتی سے زیادہ آگ لگی۔
چھبیس اکتوبر کو زلزلہ آیا تو مجھ پر فرض تھا کہ سوشل میڈیا کا درست استعمال کرکے زیادہ سے زیادہ لوگوں کو زلزلے کے حقائق بارے آگاہ کروں۔۔۔ پہلے تو بھلا ہو اس گوگل سرچ کا، تیس منٹ کی محنت میں دو اردو آرٹیکلز اور ایک سادہ انگریزی کا مکالہ زلزلے پر تلاش کیا۔بک مارک لگایا اور اچھے سے سب سمجھ کر دھیرے دھیرے ساری معلومات پوسٹ کرنا شروع کیں۔۔مگر مجال ہے جو دو تین لوگوں کے علاوہ کسی نے توجہ دی ہو۔۔۔
بھاڑ میں جائے ایسا علم۔۔اس قوم نے کبھی علم کی قدر نہیں کی۔یہاں فساد پھیلانے والا ہی اہمیت بٹورتا ہے۔۔بس پھر ایک ہی وقت میں دو لوگوں سے پنگا لیا۔۔۔ استغفرللہ ایٹ کلیم اللہ جانے خود کو سمجھتا کیا ہے۔۔دھجیاں اڑا ڈالیں اس کے سطحی مطالعہ کی۔۔اس دوران ایک بندہ  آیا میری طرف داری کرنے۔۔۔ اس کے لبرلزم بلکہ سیکولرازم کی بھی ٹِکا کر چٹنی بنائی۔۔دو چار گالیاں لکھیں اور جب کام اچھے سے "پَخ" گیا تو سب کی توجہ خود پر پا کر روح کو راحت اور دل کو چین ملا۔۔میں تو نکل آیا آرام سےڈی۔ایم کی جانب۔۔۔۔۔۔

٥ : پخیرراغلے ایٹ آزاد سوچ

زلزلے کی خبر پڑھتے ہی آنسو رواں ہوگئے۔مانا کہ میرا آبائی علاقہ فالٹ لائن پر واقع ہے مگر وفاقی حکومت اور ٢۰۰٥ء کے زلزلے میں ملنے والی امداد ہڑپ کرجانے والی حکومت کے خلاف سوشل میڈیا پر اکھاڑ پچھاڑ کا یہ موقع مجھے اللہ نے دیا تھا ۔۔۔۔ پراؤڈ پٹاخہ کی پوسٹ کردہ تصاویر پر دو روتے ایموجی اور اپنے صوبے کے عوام کی خستہ حالی پر ایک آدھ جملہ جلتی پر تیل کا کام کرنے کو بتیہرا تھا۔
کچھ کام اس ڈسکو ڈیوا اور استغفرللہ  کے حوالے سے بھی کرڈالا۔۔۔ایک کی گوگل معلومات کو رگیدا اور دوسرے کو یاد دہانی کروائی کہ فحاشی اور زنا تو ان معاشروں میں زیادہ ہے جہاں سے زلزلہ متاثرین کے نام پر اربوں کی امداد کھسوٹی جاتی ہے۔


٦ : فیک اکاؤنٹ ایٹ منظم اداراہ

جماعت چہارم تھی یا شاید سوئم۔۔۔۔ نیلا ، لال ، پیلا رنگ اور ایک عدد سیب۔۔۔۔ زمین کی ساخت سمجھانے اور زلزلے کی بنیادی وجوہات بارے ایسا خوبصورت بیانیہ شاید بی۔ایڈ کی وہ طالبات بھی تیار نہ کر پائیں جن کو Viva میں بڑے بڑے پراجیکٹس بنا کر ایک لیکچر دینا لازمی ہوتا ہے۔ سلام ہے ایس محنتی معلمہ کو۔
زلزلے سمندر کی گہرائی سے لے کر چاند،مریخ تک پر آتے ہیں۔ سمجھ یہ نہیں آتی کہ وہاں کون سی عورتیں ٹخنے اور سر ننگے کرتی ہیں۔۔ اور کونسا کفر کا نظام سود پر پل رہا ہے۔۔۔
یہاں تین روز سے کُڑھ کُڑھ کر برا حال ہے کہ جونہی کوئی دلیل یا سوال کیا استغفرللہ برگیڈ نے فتویٰ لگا کر دائرہء اسلام سے "ایک بار پھر" خارج کردینا ہے۔
ہمیں یہ تو یاد رہتا ہے کہ فلاں فلاں قوم صبح کو اوندھے منہ پڑی تھی۔۔۔یہ بھول جاتے ہیں کہ قومِ لوط والے اوصاف تو قصور شہر اور پشاور بچہ جیل میں بھی دہرائے گئے تو زلزلہ صرف ان جگہوں پر ہی کیوں نہ آگیا۔۔۔یا پھر مسخ شدہ لاشوں نے کیوں نہ کچھ بگاڑ دیا۔۔۔
ہم یہ بھول گئے کہ ہمارا پہلا سبق "اقراء" ہے۔۔۔ پڑھنا۔۔تحقیق۔۔۔جستجو۔۔اور غور کرنے کا حکم ہے۔۔۔۔
یہاں تو ریکٹر اسکیل اور مومنٹ میگنیٹیوڈ سکیل کا فرق تک بتانے کی زحمت گوارا نہیں کی گئی۔
پاکستان کا دو تہائی علاقہ فالٹ لائن پر ہے۔۔۔اس کے پیچھے آبادی ، غربت،وسائل اور دیگر معاملات بھی کارفرما ہیں۔
صرف بلڈنگ کوڈز پر ایک پوسٹ کرکے خوب گالیاں کھائیں۔کسی نے نہیں سوچا کہ زلزلہ اگر اللہ کا عذاب ہے تو گھروں کا گرنا ناقص تعمیرات کا نتیجہ ہے۔انسانی غلطی یا کوتاہی۔۔ یا پھر غربت جیسی مجبوری

٧ : کالم نگار ایٹ دانشوراینکر

شہرِ اقتدار میں زلزلہ آیا اور میری تو باچھیں کھل گئیں جناب۔۔۔۔
بھلا ہو اس راہگیر کا جس نے میٹرو بس روٹ کا جھولا فلم بند کرلیا۔۔۔ورنہ قوم کو اس کرپٹ ٹولے کی اربوں کی کرپشن کا ثبوت دکھانے میں دیر ہوجاتی۔۔۔ اب میں کسی تعمیراتی ماہر یا انجینئر کو اپنے شو میں بلواتا تو خاک ریٹنگ ملتی۔۔لہذا اپوزیشن میں سب سے زیادہ چلانے والا بدزبان تلاش کیا کہ اس سے بہتر ماہرانہ رائے کون دے سکتا تھا۔
ساتھ میں پراؤڈ پٹاخہ کی پوسٹ کردہ زلزلے کی تصاویر چلا دیں۔
اب میری بلا سے زلزلہ گناہوں کے باعث آیا یا "براعظموں کے کونے ٹکرانے سے" ۔۔۔ بہرحال پروڈیوسر سے کہہ دیا ہے کہ اس "قومی طلاق" ، لودھراں کے ضمنی انتخاب اور بلدیاتی الیکشنز کی گہما گہمی سے قبل دور افتادہ ایک آدھ گاؤں میں جانے کا بندوبست کرے تاکہ عوام کو اس حکومت کی نا اہلی دکھائی جا سکے۔اللہ کرے کسی اچھے ہوٹل میں قیام ہو تو مزہ آجائے گا۔موسم یوں بھی بے ایمان ہے اور مفت کی تو ہمیں حلال ہے۔

اتوار، 25 اکتوبر، 2015

جیدا نامہ

اگر پاکستان کا کوئی شہری اردو اخبار کی جان نکالنا چاہتا ہے تو وہ اس میں سے عامل بابوں اور حکیم حضرات کےساتھ موٹاپےسے چھٹکارہ اور ضرورتِ رشتہ کے اشتہارات نکال دے۔ یہ اخبار چند سیکنڈ میں بے روح ہوجائیں گے۔اور اگر کوئی شخص اُس اخبار کو بے ادب کرنا چاہتا ہے جس میں خاکسار کالم نویسی کرتا ہو تو۔۔۔۔ کالم نگاری کی دنیا ویران ہوجائے گی جب اس میں سیاست کو سمجھانے کے لیے سیاحت،ادب،سائنس،شاعری اور صوفی ازم کا تڑکا لگانے والا موجود نہ ہوگا۔
کل شام بارش کا مزہ لوٹنے رین کوٹ پہن کرگاڑی میں باہر نکلا تو گلی کی نکڑ پر کھڑا پکوڑے بیچنے والا مجھے پاؤ بھر بینگن اور ہری مرچ کے پکوڑے اخبار کے اس تراشے پر رکھ کر تھما گیا جہاں میرا کالم چھپا تھا۔آپ اس شخص کی عقیدت کا اندازہ لگایے۔آپ اس کے حلال رزق میں برکت کا تصور کیجیے۔آپ سوچیے کہ اس ملک میں ایک پکوڑے والا خاکسار کے کالم کو اپنے رزق کمانے کا ذریعہ بنائے ہوئے ہے۔آنکھیں بھیگ گئیں اور چشمِ تصور سے ان بزرگ کو سلامِ محبت پیش کیا جنہوں نے بچپن میں میری گردن کا پھوڑا اپنے انگوٹھے سے پھوڑ ڈالا تھا۔ورنہ میں تو مجذوب بن کر آخرت سنوار بیٹھتا مگر آپ کو گھر بیٹھے دنیا جہاں کی سیرکون کرواتا؟ میٹا فزکس کی گتھیاں کون سلجھا پاتا اور ایک ہی کالم میں سکندرِ اعظم کے ١٧ لاکھ مربع میل کے ساتھ فاروق اعظمؓ کے ٢٢ لاکھ مربع میل کی فتح کا موازنہ کون فطین کر پاتا۔۔۔۔
اسی قوم کا غم پالتےنہایت کم عمری میں خون کی شکر بڑھا بیٹھا۔مٹھاس تو میرے لہو میں شامل ہے۔آپ کبھی مجھے غصے میں کرسیاں اچھالتے،پستول تانتے نہیں دیکھیں گے۔
اسی پھوڑے کا فیض ہے کہ مجھے ہر بات جان لینے کی جستو بچپن سے ہی ہے۔گھر کی لائبریری میں پڑی ہرے سروق والی واحد ضخیم کتاب میری پسندیدہ رہی۔آپ اس کتاب کو پڑھیں۔یہ دین و دنیا سنوار کر آپ کوکسی اور ہی جہان میں لے جائے گی۔آپ اس کے ان ابواب کا مطالعہ کیجیے جو شبِ زفاف سے متعلق ہیں۔۔حقوق و فرائض کی ایسی ضخامت،تفسیر و تفصیل آپ کو کہیں نہیں ملے گی۔یہی وہ باب ہے جہاں میں نے سعادت حسن منٹو جیسے فحش نگار کی "اوپر،نیچے اور درمیان" چھپا کر پڑھی۔گھر میں بہن۔ بیٹوں کی موجودگی میں اس شخص کی تصانیف سرِعام پڑھنا کوئی شریف النفس انسان تصور نہیں کر سکتا۔
منٹو ایک "فحش نگار اور بے حیاء " لکھاری ہے۔ اس بات کا ادراک مجھے اس وقت ہوا جب میں نے اس کی "باردہ شمالی"پڑھی۔آپ اس کے استعارے دیکھیے،اس کی چالاکی اور ہوشیاری سمجھیے۔میں ایک معصوم بچہ ہوتے "گوگلز،بش شرٹ،لائبریری" جیسے استعاروں کی چال سمجھ گیا تو آج کا نوجوان یہ سب پڑھ کر کیوں نہ بہکے گا۔
آپ علم کی تڑپ اور جان لینے کی جستجو میں میری تکلیف کا اندازہ کیجیے کہ ٹوائلٹ سیٹس جیسی سہولت کی عدم دستیابی کے باوجود "الٹی شلوار" میں نے قدمچے پر بیٹھ کر پڑھی۔۔۔۔جس روز سٹور روم میں لحاف کی اوٹ میں چھپ کر "کھول دو" پڑھی تو میں آب آب ہوگیا۔
کالج دور میں ایک بولڈ کلاس فیلو خاکسار سےبہت متاثر تھی اسی لیے اچھی گپ شپ تھی۔تحائف کا لین دین بھی ہوجاتا۔ "ٹھنڈا گوشت" کا تحفہ میں نے کیفے ٹیریا میں بیٹھ کر پڑھا۔۔۔۔۔آنکھیں پھوٹ گئیں ایسی بے شرمی اور غلاظت پڑھتے۔جانے کون لوگ ہوتے ہیں جو اپنے گھر کی طاقچوں میں منٹونامہ سجاتے ہیں۔بہن اور بیٹی کو ایسی تحاریر پڑھانا کسی حیاءدار گھرانے کا شیوہ نہیں ہوسکتا۔
لوگ مجھے کہتے ہیں کہ منٹو نے بہت کچھ اچھا لکھا۔مگر میرے دل کا گھڑا بھر چکا ہے اس کی درج بالا تحاریر پڑھنے کے بعد میں اندازہ لگا سکتا ہوں کہ "موج دین" ہو یا "تیقن" یا ایسی کوئی بھی تحریر منٹو جیسا شرابی،ضدی اور بےحس انسان کچھ اچھا لکھ ہی نہیں سکتا۔آپ بتایےاقبال اور جناح کے بنائے اس ارضِ پاک میں طوائف اور جنسیات جیسے معاملات کیسے پنپ سکتے ہیں۔۔۔ معاشرے میں کیسی ہی گندگی ہو مگر اسے اچھالنے کا فن سراہنے کے لائق نہیں ہوسکتا۔
میں نے آخری کوشش میں سرمد کھوسٹ کی "منٹو" بھی دیکھ ڈالی۔۔ دل مکدر ہوگیا کہ جو اور جیسا میں نے پڑھا تھا وہ مناظر اسی طرح پکچرائز نہ کیے گئےجس طرح میرے ذہن کے پردے پر چلا کرتے تھے۔یہ سرمد کی مذموم چال ہے کہ لوگ ایک شرابی،ضدی اور بے حیاء افسانہ نگار سے عقیدت پال لیں۔
مانا کہ کوئی فلم شکتی کپور،گلشن گروور اور پریم چوپڑا کے بنا ادھوری ہے۔سیدھی بات ہے یہ ولن اگر ھیروئن کو اغواء نہیں کرے گا تو لوگ ھیرو کی عظمت کیسے سمجھیں گے۔۔۔یہ ولن پریش راول ہی تھا جس نے اجے دیوگن کو پاگل بنا کر "اک ایسی لڑکی تھی جسے میں پیار کرتا تھا" جیسے لازوال نغمے کا موقع فراہم کیا ورنہ "دل والے" جیسی فلم ڈبہ ثابت ہوتی۔۔
اس تمہید کا مطلب یہ ہے کہ اگر منٹو کی فحش نگاری کا راستہ بند نہ کیا جاتا تو سوچیے آج اس جیسے افسانہ نگار پر فلم بن سکتی تھی جو شراب نوشی کے باعث بیالیس سال میں ہی چل بسا ہو۔۔۔سرمد نے بہت نا انصافی کی ہے۔چوھدری صاحب نےہر وہ رسالہ بند کروایا جس نے منٹو کا فحش نامہ چھاپنے کا گناہ کیا۔۔۔وہ پڑھ کرہی فیصلہ کرتے ہوں گے نا کہ اس کا مواد اقبال کے شاہین پڑھ کر گمراہ ہوجائیں گے۔۔۔یتیموں کی کفالت کرنے والے نے کیا برا کیا جو منٹو پر زندگی تنگ کی،کوئی گناہ نہیں اگر ایک کچرہ نگار کو راہِ راست پر لانے کےلیے اس کی روزی روٹی پر لات ماری جائے۔۔اب منٹو کبڑا ہوتا تو کُب نکل بھی جاتا۔وہ بےحس تو جگر پانی اور پھیپھڑے دھواں کرکے مرگیا اور آپ یقین مانیے آج بھی اسے ھیرو سمجھنے والے منٹو کا کوئی افسانہ اپنی بہن کے ہاتھ میں دیکھ کر زمین میں گڑ جاتے ہیں۔چوھدری کو ولن نہیں ثمرن کے باپ کا کردار ہی دےدیاجاتا جو آخری سین میں زندگی جی لینے کا سکھ دیتا ہے۔۔۔۔آپ تصور کیجیے کہ اگر منٹو کے تمام افسانے چھپ جاتےتو آج اقبال کے پاکستان میں لوگ خودی بیچنے کی بجائے غریبی میں نام پیدا کرنے کا ہنر نہ سیکھ پاتے۔

             جسم نہ بیچ ، غریبی میں بھوک سے مرجا ؎

ہفتہ، 17 اکتوبر، 2015

نلکا ، بانس اور جِن

پرانے وقتوں کی بات ہے کہ کسی بندے نے ایک خاص چِلے میں جن قابو کرلیا۔یہ  آگ کی ایسی ترکیب سے تخلیق کیا گیا تھا جس کو ایک پل چین نہیں تھا۔۔۔۔۔"مجھےکام بتاؤ،میں کیا کروں" والی صفت تھی۔۔۔
پہلے پہل تو جن کے مالک کو بہت سہولت کا احساس ہوا کہ اِدھر کوئی کام کہا اور اُدھر پلک جھپکتے "ہوگیا" ۔۔۔۔۔۔ مگر آخر کتنے کام ہیں جو ایک عام انسان کی روز مرہ زندگی میں ہوسکتے ہیں؟ جبکہ جِن بھائی صاحب کو تو کام کی لگن تھی۔تنگ آکر مالک نے اسے نلکا گیڑ گیڑ کر پانی فصلوں کو لگانے کا کام سونپ دیا۔۔ ایک روز فصل بھی اسی سے کٹوائی گئی۔جِن کی مصروفیت تلاش کرنا مشکل ہوچلا تھا۔مالک کو ترکیب سوجھی اور حکم دیا کہ ایک بانس گھر کے آنگن کے بیچوں بیچ گاڑے اور اس پر چڑھتا اترتا رہے۔۔۔لیجیے جناب ! اچھا خاصا آگ سے بنا جِن حضرتِ انسان کی عقل سے مات کھا کر اسی کے آباء یعنی بندروں والی خصلت پر معمور کردیا گیا۔ اس دوران
 جب کوئی کام کروانا ہوتا تو بانس بریک لے لی جاتی۔
دادا جی سے سنا کرتے تھے کہ اکثر کسی جِن کے ساتھ ایک "چھلیڈا" بھی ہوتا ہے۔جو کبھی کتا بن جاتا ہے،کبھی بکری اور بعض اوقات سانپ بن کر پھنکارتا ہے۔بہروپیا ہی سمجھیے۔۔۔۔۔واللہ اعلم بالصواب
سنا ہے جنات میں ھڈی،رگ،پٹھے اور جوڑ وغیرہ نہیں ہوتے۔۔۔بس سراپا آگ۔۔سوال یہ ہے کہ کیا ان کا دماغ ہوتا ہے ؟ اگر نہیں ہوتا تو کیا وہ بھی پاکستانیوں کی طرح بنا سوچ کے ہی اولاد پیدا کیے جاتے ہیں ؟ دماغ ہے تو مخلوقات سے افضل کاہے نہیں ؟ اور اگر دماغ نہیں ہوتا تو پاکستانی شہریت کے حامل "شریر جِن" سبق پڑھنے کیونکر آجاتے ہیں ؟ اور پھر جو دماغ موجود ہے تو سوچ بھی ہے۔۔سوچ ہے تو۔۔۔۔۔۔ خیریہ تو سوالات کا ختم نہ ہونے والا جال ہے ۔۔۔۔
ویسے سنا ہے کہ جنات شدید قسم کے حسن پرست اور عاشق مزاج ہوا کرتے ہیں۔ یونہی تو خواتین کو خوشبو لگا کر مغرب کے وقت درختوں تلے جانے سے نہیں روکا جاتا نا۔
۔۔۔روایات کے مطابق گوبر اور ہڈیاں ان کی خوراک ہیں۔۔۔۔مگر ہمارے ہاں کے بزرگوں نے مٹھائیوں کے کاروبار میں ترقی کا سہرا بھی جنات ہی کی رغبت کو پہنا رکھا ہے۔۔۔اس شاپنگ کے لیے کرنسی نوٹ کہاں چھپتےہیں کچھ علم نہیں۔۔۔ سیانے کہتے ہیں کوئی بھی جگہ زیادہ عرصہ خالی رہے تو وہاں جنات آباد کاری کرلیتے ہیں۔اور جو بھی خوبصورت و طاقت ور شے انہیں بھاتی ہے بس قبضہ جما کربغیر رجسٹریشن ہی اسے اپنی ملکیت تصور کرلیتے ہیں۔

ہمارے ہاں تو پاکستان اٹامک انرجی کمیشن نے ایسے ایسے "ھیرے" پیدا کیے ہیں کہ جو میتھین گیس کا مجموعہ قرار دیتے آج دن تک جنات پر قابو پا کر توانائی کے شعبےمیں تھرتھلی مچا دینے کا خواب دیکھا کرتے ہیں۔
بہرحال بات چلی تھی اس بندے کی جس نے خاص عمل کے ذریعے ایک بےچین ھڈی والاجِن قابو کرلیا۔۔۔۔۔آج کے زمانے میں نظر دوڑائی جائے تو ایسے خوش نصیب لوگ تو نہیں لیکن عناصر ضرور دکھائی دیتے ہیں ۔۔۔بدقسمتی مگر ان کی یہ رہی ہے کہ کچھ مدت بعد ان کے جمورے سمجھ و شعور سے کام لیتے بانس سے اتر کر معمول کے میدانِ زندگی و سیاست کی جانب رجوع کرلیتے ہیں ،اب کی بار معاملہ مختلف دکھائی دیتا ہے۔ قابو کیا جانے والا آتشی دماغ نما شے کا مالک اپنی ذات سے عشق میں مبتلا ہر تخریبی صلاحیت سے مالا مال ہے۔۔۔۔ ریاستی املاک تہس نہس کروا کر ملک میں ہیجان پیدا کروایے،نعرے لگوایے،نئے خواب سستے داموں بیچیے، مالک سے زیادہ طاقتور کو "کٹ ٹو سائز" کرنا ہو تو پگڑیاں بیچ بازار اچھال دے ، ہجوم اکٹھا کرنا ہو یا پھرمیڈیا و عوام کی توجہ اندرونی و بین الاقوامی معاملات سے ہٹانی ہو۔۔۔۔۔۔۔ نلکا "گیڑتا" جائے گا۔نفرت کی فصل کو تعصب اور جہالت کے پانی سے سیراب کرتا جائے گا۔۔۔ہاں بانس مگر آنگن کے عین وسط میں مستقل نہیں گاڑا گیا۔مرکز بدلتا رہتا ہے۔۔۔۔۔ کبھی شہرِاقتدار،کبھی ملک کا دھڑکتا دل۔۔۔۔

بیل آنکھوں پر بندھی پٹی میں سارا دن ایک دائرے میں گھومتا ہے فقط یہ سوچتے کہ آگے بڑھ رہا ہے مگر اُس کی اس خوش فہم حرکت سے فائدہ یہ ہے کہ کوہلو سے تیل اور رہٹ کا پانی لوگوں کے کام تو آتا ہے۔۔۔ اس جِن کو جانے کب سمجھ آئے گی کہ نلکے اور بانس کی اس کسرت میں حاصل وصول کچھ بھی نہیں۔بس پنجابی والا  لارا  لگا کر سب کو  آرے  لگایا ہوا ہے۔

بدھ، 2 ستمبر، 2015

عورت

میرا نام "عورت " ہے۔ کہانی میری پیدائش سے بہت پہلے شروع ہوتی ہے ۔۔۔شاید میری اماں یا پھران کی والدہ کی پیدائش سے بھی پہلے سے پنپتی اس داستان کو ہزاروں زاویوں سے لکھا جا چکا ہوگا۔۔کیسا عجب معاملہ ہے کہ نصف صدی سے بھی زیادہ عرصہ گزرنے کے باوجود بنیادی معاملات میں کچھ کمی بیشی کے بعد کہانی یوں ہی ایک رہٹ کی مانند چلتی جاتی ہے۔
میرا جنم اپنے ددھیال اور ننھیال کی اگلی نسل کے پہلے بچے کے طور پر ہوا تھا۔کیسا لمحہ ہوگا کہ جب ہندؤوں کے دور کے بنے اس محل کے ایک تہہ خانےمیں دائی ماں نے ایک گل گوتھنا وجود ساڑھے پندرہ سال کی لڑکی کےپہلومیں یہ کہتے ڈالا ہوگا کہ "بیٹی۔۔۔۔دھی رانی آئی ہے۔۔۔رحمت اتری ہے ۔۔۔" سنا ہے اس لمحے ماں کی دادی نے اپنے پلو سے آنسو پونچھے تھے کہ "ہائے ! میری پھولوں جیسی پوتی ایک "بیٹی" کی ماں بن گئی۔۔۔۔آج سے جہیز کی فکر شروع ہوگئی۔۔" اور ایک سرد آہ کھینچی تھی۔
حیرت ہوتی ہے کسی کو یہ دُکھ نہ تھا کہ سولہ سال سے بھی کم عمر بچی ایک بچے کی ماں بن گئی ہے۔غم تھا تو یہ کہ بیٹی آگئی ہے۔ابا بھی یہی کوئی ساڑھے اکیس بائیس برس کے تھے۔اور یونہی ایک بار دل پر گھونسا سا پڑا تھا جب انہوں نے کہا تھا "سلکھی (جمعدارنی) نے لڈوکھاتےکہا تھا۔۔۔۔ دھی آگئی،ویہڑے جوائی۔۔۔۔" اور پھر اگلے ہی برس لہ سالہ ماں نے ایک حسین بیٹے کو جنم دیا۔۔۔۔

ددھیال نے پوتی کی پیدائش پر لڈو بانٹے تھے۔دادا نےہمیشہ پوتی کوگود اٹھایا اور ایک برس چھوٹے وتے کا ہاتھ پکڑتے۔ لوگ کہتے کہ "بابوؤں کے گھر پوتی کو بہت مان دیتے ہیں۔۔۔" مگر اسے اپنی پھوپھیاں یادہیں جو شام کو تَوی لگا کرپھونکنی سےلکڑیاں سلگاتی، دھوئیں میں آنسو پونچھتے ڈھیروں ڈھیرروٹیاں پکایا کرتی تھیں۔اور رات کو لالٹین کی روشنی میں صبح کے امتحان کی تیاری کرتیں۔بقول ابا کی پھپھو ان لڑکیوں کا پڑھ لکھ جانا ہی اچھے رشتوں کی تلاش میں حائل تھا۔ قطع نظر اس کے کہ برادری ازم دادا کا پیچھا نہیں چھوڑ پایا تھا۔بیٹیاں پڑھتی چلی گئیں۔ہاں مگر بیٹی کی کمائی کھانے کاطعنہ ایسا سخت گیر تھا کہ انہیں کبھی نوکری کی اجازت ہی نہ ملی۔بہرحال شادی تو ہونا ہی تھی۔بہت کچھ کمپرومائز کرکے ہو ہی گئی۔

خاندان کی اگلی نسل کی "عورت" نازوں پلی پوتی۔جسے پڑھنے کی بھرپور آزادی تھی مگر کچھ مضامین، موضوعات اور بہت سی کتب کے علاوہ۔
بےچین روح روزِ اول سے ہر وہ کام کرتی چلی گئی جس سے منع کیاجاتا رہا۔الجبرا اور انگریزی گرائمر دادا سے ایسا سیکھا کہ پھرچپکےسے زندگی کی پہلی کمائی ٹیوشن فیس کی صورت ڈیڑھ سوروپیہ پڑوس کی بچی کوپڑھاتے وصول کی۔طوفان جانتے ہیں کب کھڑا ہوا؟ جب اسی بچی کے بارہ سالہ بھائی کو ٹیوشن پڑھانے بٹھایا۔اور اس روز احساس ہوا کہ پھپھو کی نشست پر چپکے سے ہی سہی مگر زبردستی بٹھا دیا گیا ہے۔

بہت مضبوط دکھائی دینے والی وہ لڑکی کہ جسے گھر کے اندر سے ابا موٹر بائیک پر بٹھاتے اور سکول کالج سے واپسی پر گھر کے صحن میں ہی آکر اتارتے۔ہونق بنی ساتھی لڑکیوں سے پبلک ٹرانسپورٹ کے رونے سنا کرتی۔
وقت چلتا رہا کہ ایک باغی عورت نے مرضی کے مضامین ضد میں ہی سہی پڑھ کر دکھادیے تھے۔اور پوسٹ گریجویٹ کے لیے جس مضمون کا ارادہ تھا اس کے لیےتو بہت رقم کی ضرورت تھی۔جو فی الحال مڈل کلاس گھرانہ افورڈ نہ کرسکتاتھا۔
ماں نے اپنی سونے کی چوڑیاں بیچ دی تھیں۔بھائی کو اچھےنام والے پرائیویٹ کالج میں داخلہ لینا تھا۔۔۔بیٹا پڑھے تو سارے گھر کو کھلاتا ہے تو بس اس کی تعلیم پر لگا سرمایہ واپس ہی تو آنا تھا۔
اس ضدی عورت نے دو سال گھر سنبھالا،کینسر کی مریضہ ماں کو لے کر دھکے کھائے۔ٹیوشنز پڑھائیں۔اسے یاد ہے کہ دوسرے مہینے ابا 
نےٹیوشن فیس سے حاصل ہوئے اٹھارہ ہزار روپے لینےسے انکار کردیا کہ بیٹی کی کمائی نہیں کھانی۔ہاں مگر اسی رقم سے ماں کی کیموتھراپی اور دیگراخراجات پورے کردیے۔شام کی کلاسز سے تعلیم کا سلسلہ پھرسےجوڑ لیا اور پھرایک روز سکول میں نوکری بھی کرڈالی۔ابا اس بار سختی سے انکار بھی نہ کرپائے کہ حالات ہی ایسے تھے۔بس یہ ہوا کہ لانے لیجانے کی ذمہ داری پھر ابا ہی کے کندھوں پر تھی۔

سینئر سیکشن میں لڑکوں کو پڑھاتے اسے اکثر خیال آجاتا کہ اگر گھر والوں کو خبر ہوجائے کہ "جوان" لڑکوں کو پڑھا رہی ہے تو کیسی درگت بنے خاندان بھر میں۔اس خیال کے آتے ہی ہر طالب علم بیٹا/بچہ ہی بنتا چلا گیا۔سٹاف روم کی سیاست اور قصے کہانیوں سے دور اسے فرصت ہی نہ ملتی کہ کبھی کاپیاں چیک کرنےور ٹائم ٹیبل بنانے کے علاوہ ارد گرد بھی جھانک سکے۔ عجب عورت تھی۔سب کی دوست،سب کی سامع مگر پلٹ کر نہ سوال نہ کرید یاٹوہ بس یہ کہ یہاں بھی کچھ نظروں کو سرزنش کرنے کا خمیازہ استعفیٰ کی صورت بھگتنا پڑا۔ وہ اپنی حدود سے گاہ تھی۔
پڑھنے اور پڑھانے کے سوا اس کی زندگی کا تیسرا محور باورچی خانہ تھا۔دراصل اس کی پناہ گاہ بھی یہی کونہ تھا کہ جب خاندان کی عورتوں کا محبوب مشغلہ اس کی ہم عمر لڑکیوں کی شادیاں،ازدواجی و زچگی کے معاملات کو سرگوشیوں میں چسکے لے کر جتلانا ہوتا۔ مقصد ان کا یہ بھی ہوتا کہ "بوڑھی ہوچلی اتنا پڑھا کر برادری میں رشتہ ملنے سے رہا۔"
وہ بھی کیا کرتیں کہ ضرورت سے زیادہ پڑھ لکھ جانے والیاں کبھی اچھی بہو بنتے نہ دیکھی تھیں اور اب تو نوکری اور لڑکوں کو ٹیوشن پڑھانے کا اضافی کلنک بھی موجود تھا۔
شادی بیاہ اور دیگر خاندانی تقریبات پر موضوعِ سخن صرف اسی کی ذات ہونے لگی تھی جہاں پہلے اس کے اماں باوا کے جھگڑوں کے قصے چٹخارے لے کر سنائے جاتے تھے۔کڑواہٹ بھرتی چلی جارہی تھی۔اس کا قصور شاید انگوروں کے اس گچھے سے الگ ہوجانا تھا ۔
ہمارے معاشرے کا اہم ترین اور شاید واحد کام جس کے لیے انسان دنیا میں آتا ہے "شادی" سرانجام پا ہی گیا۔۔۔کمپرومائزز کی بھرمار کے ساتھ۔
اور پھر اگلا مرحلہ۔۔۔شادی کے ڈیڑھ ہفتے بعدہی خوشخبری کے لیے ترسے کانوں کے لیے عورت ایک بار پھر امیدوں کا گہوارہ بن بیٹھی تھی۔ کچھ مہینوں بعد وہی زبانیں اب آہیں بھرنے لگیں۔الگ بات کہ بیٹی ہوجاتی تو بیٹے کامطالبہ ہوتا۔بیٹا جنا جاتا تو جوڑی مِلانے کی آس۔۔۔۔یعنی ایک نا ختم ہونے والا سلسلہ۔۔۔۔مگر اس کا اختتام یوں تو نہ سوچا تھا۔۔۔

زندگی نے پھر پلٹا کھایا تھا اور "عورت" کو اپنے حق کے لیے ایک بار پھر مردوں کے معاشرے کا سامنا تھا۔اپنے جینے کاحق چھننے کا فن بھی سیکھ گئی اور گِدھ بنے جنسی لذت کے شکاریوں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالنے کا ہنربھی وقت سکھاتا چلاگیا ۔۔۔
سنا ہے اکثر محافل میں اب بھی اسی کی ذات پسندیدہ موضوع ہے مگر کہیں نہ کہیں کچھ تو بدل چکا ہے جو وقت کے ساتھ واضح ہوجائے گا۔

جمعرات، 20 اگست، 2015

کاجل

مشتاق صاحب کے تین بیٹوں میں بڑا پتر ملک کاظم زرعی ترقیاتی بینک میں ریکوری آفیسر تھا۔ یہ اُن دِنوں کی بات ہے جب کسان کو قرض دینے میں حکومت جس عجلت کا مظاہرہ کرتی تھی اس کی واپسی کے لیے بھی اسی تندہی سے مزارع کی عزتِ نفس "پیلیوں" میں جوتے مار کر کچلی جاتی تھی۔اور اس فرض کی ادائیگی کےلیے ریکوری افسروں نے اپنی جیپ میں دو بندے دفتر سے اور تین زمیندار کےعطا کیے بٹھائے ہوتے۔ ہاں مگر گولڈن شیک ھینڈ سے مستفید ہونے سے قبل کسان دوست قرضے  کے نام پر وڈیروں کے ساتھ مل کر ان افسروں نے کتنا مال بنایا وہ ایک الگ ہی داستان ہے۔
گھر سے میلوں دور کاظم کی فیلڈ ڈیوٹی کا ہی شاخسانہ تھا کہ خاندان والوں کو مجبور کرکے جھنگ شہر کی کوثر سے شادی کی تھی۔ صاحب پہلے اس اجنبی جگہ پر شام کے فارغ اوقات دوست کی اس بہن کو ٹیوشن پڑھانےمیں گزارتے تھے۔پھر خیال آیا کہ اچھی طالبہ ہے،تاحیات شاگردی میں لے لیا جائے۔
 
کاظم کو دنیا کے ہر بندے کا نام بگاڑنے کا حق حاصل تھا مگر اس کا نام کوئی بگاڑ کر جائے کہاں۔سب بھائیوں کے الٹے نام رکھ چھوڑے تھے۔۔۔

کاجل کو کوثر کے تیسرے miscarriage
 کےبعد خدمت گزاری کےلیے لایا گیاتھا۔ اُس کا نام کرن تھا۔وہ بھی قرض کے بوجھ تلے دبے کسی "کمی کمین" کی اولاد تھی۔ مگر جب ١٣ سال کی عمرمیں جھنگ کے نواحی گاؤں سے صاحب لوگوں کے اس حویلی نما بنگلےمیں آئی تو اس نے باجی کوثر کی ساس کو جھنگ کے مشہور "تیلی والےکاجل" دیتےسمجھایا تھا کہ کیسےکُنالی مٹی کے چولہے پر اوندھی دھری رہتی ہے جب تمام رات جلتا دیا اس کے نیچے رکھتے ہیں۔اور صبح کو وہ ساری کالک کاجل کی صورت پیلی تیلیوں پر اکٹھی کی جاتی ہے۔۔۔بس نام تو عطاء ہونا ہی تھا۔۔۔تو وہ گھر بھر کی کاجل بن گئی۔
لڑکوں کے بھرے پرے گھر میں اس تیرہ سالہ بچی کو چند ہی ماہ میں اچھے سے سمجھ آگئی تھی کہ "کاظم بھائی" کو خوش رکھےگی تو باقی "ستے خیراں" ہیں۔پھر گُلو صاحب بھی بہت خیال رکھتے تھے۔آتے جاتے آئسکریم دلواتے۔ان کےلیے چائے بنا کر لاتی تو کس محبت سے اس کا ہاتھ سہلاتے ، کتنے ناز نخرے اٹھاتے ، اور کبھی تو۔۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔۔
شروع میں بات بات پر دہل جانے والی کرن اب کبھی گاؤں جانے کاتذکرہ ہی نہیں کرتی تھی۔۔۔ سال ڈیڑھ میں ہی کاجل بڑی ہوگئی تھی اور "سمجھدار" بھی کردی گئی تھی۔ کوثر نے ساس صاحبہ کو اشارتاً کہا بھی کہ پرائی بچی جوان ہورہی ہے واپس بھجوائے دیتےہیں۔مگر اب چوتھی بارخوشخبری تھی اور اماں جان اب کی بار بہو کو ہِل کر پانی تک نہ پینے دیتیں۔ایسے میں کاجل کا بہت سہارا تھا۔سارا گھر سنبھال رکھا تھا۔جبکہ کوثر کو محسوس ہوتا کہ اسے گھر والے سنبھالنے کا فن بھی آگیا ہے۔

رب نے مہر کردی تھی اور اس بار صحتمند بیٹا ملک کاظم کی گود میں ڈالتے کوثر شاداں تھی۔بینک کی جانب سے تبادلہ دور دراز کے علاقےمیں ہواتو ملک کاظم بیٹے،بیوی اور کاجل کےساتھ وہیں منتقل ہوگئے کہ اب بازار کےکھانے سے دل اُوب گیا تھا۔۔۔چھوٹے بھائی مہینےمیں دو تین چکر لگاہی لیتے تھے۔ذیشان کو پیار سے شانی کہاجانےلگا اور کاجل سارا دن گھراور گھروالوں کےساتھ اس بچےکو بھی سنبھالتی کیونکہ باجی کوثر کی طبیعت ایک بار پھر خراب تھی۔۔۔۔
دوسرےبیٹےکی پیدائش پر کوثرکومحسوس ہوا کہ سسرال میں اب اس کا مقام پسند کی شادی کرنے والی سے بڑھ کر نسل بڑھانے والی چودہرائن جیسا ہوگیا تھا۔۔۔ایسے میں مان اور غرور کا آ جانا کچھ اچھنبے کی بات تو نہ تھی۔

"کاجل ۔۔۔تیری ماں نے پھر بیٹی پیدا کرلی ہے۔۔۔ہونہہ۔۔۔ اسے کہہ اب بس کردے،پہلے ہی دَس بچےہیں۔" کوثر نے نخوت سے فون پٹخ کر پونچھا لگاتی بچی کو لتاڑا۔
"باجی ہمارے علاقے میں بچوں کی تعداد کی فکر اس لیے بھی کم ہے کہ آدھے تو "گُڈی پٹولے اور بینٹے" کھیلنے کی عمرمیں صاحب لوگوں کے بچوں کو سنبھالنے،بیگمات کے پیر صاف کرنے اور بڑے صاحب کے جوتےچمکانے شہرآ جاتے ہیں۔۔۔" کاجل نے حلق کی کڑواہٹ محسوس کی مگر اگلے لمحے کمر میں لگنے والے جوتے اور باجی کی گالیوں نے اس عمر میں ایسی "پکی" بات کرنے کا مزہ چکھ لیا تھا ۔۔۔۔۔
شانی اب پری نرسری جانے لگا تھا مگر گھرکےبعد سکول میں بھی یہی بات سامنے آئی کہ بچہ گم سم اور سہما رہتا ہے۔کوثرکو بھی آرام کرنے اور "چھوٹو" کی دیکھ بھال سے فرصت ملتی تو شانی کے رویےمیں تبدیلی محسوس ہوتی۔ٹھیک سے کھاتاپیتا بھی نہ تھا۔ڈاکٹر کودکھایا گیا توکچھ نسخہ جات کے علاوہ ماہرِ نفسیات کی راہ سجھا دی گئی۔جس کا پہلے ہی "وزٹ" میں مشورہ تھا کہ بچے کی دوستی اور سرگرمیوں پر نظر رکھی جائے۔
بات یونہی آئی گئی ہوچلی تھی کہ کاجل کو پانچ روز کے لیےاپنی بہن کی شادی دیکھنے گاؤں جانا پڑ گیا۔پہلےتو بچوں کے کمرےمیں وہ ہوتی تھی تو کاظم اور کوثر کو کچھ دقت نہ تھی مگر دو ہی روزمیں کوثر کی ہمت جواب دے گئی تھی۔آج بھی چھوٹو کو "فنرگن" پلا کر شانی کو کھیلتے دیکھ کرنیند پوری کرنے اپنے کمرے میں چلی آئی۔۔۔مگر کچھ ہی دیر میں برقی گھنٹی کی چنگھاڑ سے جاگ اٹھی۔۔گوالے سے دودھ لےکر فریج میں رکھتے اور دل میں کاجل کو گالیاں نکالتے بچوں کے کمرے میں جھانکا تو چیخ دبا کر رہ گئی۔۔۔۔
"شاااااانی ی ی ۔۔۔۔۔۔ یہ کیا کررہے ہو ؟ "
کوثر نے پھٹی آنکھوں کے ساتھ شانی کو ایک جھٹکے سے چھوٹو سے الگ کیا۔۔۔۔۔
"یہ سب۔۔۔۔۔۔ یہ سب کس نے سکھایا ؟ کہاں دیکھا ؟ بولتے کیوں نہیں ؟" وہ اپنے لختِ جگر کو جھنجھوڑ رہی تھی کہ کاظم گھر میں داخل ہوا۔۔۔۔
"کاظم۔۔۔۔۔ یہ شانی ۔۔۔۔۔ یہ چھوٹو کے ساتھ ۔۔۔۔ یہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔" کوثر نے ہکلاتے ہوئے کچھ کہنا چاہا اور ننگ دھڑنگ بچوں کی جانب اشارہ کیا
"کیا بکواس ہے یار۔۔۔۔ میں فیلڈ سے سیدھا آرہا ہوں۔۔
 کچھ روز کاجل کے بنا دو بچے نہیں سنبھال سکتی ؟ " کاظم نے غصے میں پھنکارا
"آپ سمجھ نہیں رہے۔۔۔۔۔ میں کمرے میں داخل ہوئی تو شانی اس وقت چھوٹو کے ساتھ ۔۔۔۔۔" کوثر گھٹی گھٹی آواز میں بتا رہی تھی کہ اچانک کاظم نے شانی کو کندھے سے پکڑا
"شانی ! پارٹنر۔۔۔۔۔ یہ سب کہاں دیکھا تھا؟ پاپا کو بتاؤ۔۔۔ہمارا Secret ہوگا۔۔ماما کو نہیں بتائیں گے۔۔" کاظم نے بچے کو پھسلایا

"پاپا۔۔۔۔ جیسے آپ ماما کے فرینڈ ہیں۔۔۔
میں اور کاجل بھی Friends ہیں ۔۔۔۔ ۔۔۔۔اور کاجل تو اتنی اچھی ہے۔۔۔ آپ اور گلو چاچو سےبھی فرینڈشِپ ہے مگربیسٹ والی پکی فرینڈشِپ توشانی سے ہے  ۔۔۔ مجھے پتا ہے نا بس ۔۔۔۔ فرینڈز میں "ایسا" کرنا Rule ہے نا ۔۔۔ میں تو چھوٹو سے فرینڈشِپ کررہا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔" شانی آج اپنے والدین کو دوستی کے "اصول" سکھا رہا تھا اور وہ دونوں ایک دوسرے سے نظریں چرائے سامنے دیوار کو گھور رہے تھے ۔۔۔۔۔۔۔

ہفتہ، 15 اگست، 2015

عصمت

"عصمت کہاں مرگئی ہو؟ پانی لاؤ جلدی سے۔۔۔۔۔"
"پانی بعد میں دینا اس چڑیل کو،پہلے میرے جاگرز صاف کرو۔۔۔گارے سے لتھڑے پڑے ہیں۔خود بھی کبھی دیکھ کر کام کرلیا کرو۔"
یحییٰ اور سمیرا میں اب بہن بھائی والے جھگڑے کی بجائے پاک بھارت گھمسان کا رن پڑنے والاتھا۔عصمت نے جلدی سے پانی کا گلاس میز پر رکھا اور جاگرز اٹھائےگیراج میں چلی آئی۔

عصمت جب پہلی بار چنیوٹ کے نواحی گاؤں سے اس "زندہ دلانِ لاہور" کے گھر لائی گئی تو فقط سات آٹھ برس کی ہی تھی۔اسے یہاں آئے 4 سال ہوچلے تھےاوربیگم صاحبہ کا آدھا بوجھ اس کے ننھےکندھوں پر آن پڑا تھا۔پہلے پہل تو سٹول رکھ کر برتن دھوتی مگر اب تو ایک دم قد نکلا تھا اور بقول ذیشان "مٹن تو ہم کھاتے نہیں ،سب کچھ اسی کے حلق میں اترتا ہے۔۔۔ تو صحت کیسے نہ بنے۔۔۔"
سال دو سے تو ہر تیسرے روز "بیگم صاحبہ" کی نگرانی میں واشنگ مشین لگا کر کپڑے دھوتی اور پھر استری بھی کرتی۔چائےبنانا،سبزی کاٹنا،کوئی چھوٹا موٹا سودا قریبی سٹور سے لانا،جھاڑوپونچھا ، "بھائی جان" کے کپڑے دھوبی کودینا اور "کلف زدہ "کڑکڑاتے سوٹ لاکر الماریوں میں ترتیب سےلگانا۔۔۔۔۔مانو کوئی ننھا سا روبوٹ ہاتھ لگ گیا تھا۔
آج کل کے دور میں "کُل وقتی ملازمہ" ملنا کتنا دشوار ہے یہ کوئی مِسزطاہر سے پوچھے۔پہلی ملازمہ گاؤں والدین کو ملنے گئی تھی اور پھر لوٹ کر نہ آئی ۔ اس دوران 6 ماہ جس "اذیت" میں انہوں نے گزارے تھے بس وہی جانتی تھیں۔لہذا عصمت کو لاتے وقت یہی شرط رکھی تھی کہ سال میں ایک بار،وہ بھی "میٹھی عید" پر ملنے جائے گی کہ عید الاضحیٰ پر جانوروں کا کام بہت ہوتا ہے۔غریب والدین تھے اور ماہانہ ٦000 روپے کے حساب سے سال کا پورے بہتر ہزار ہتھیلی پر دھر دیا گیا۔۔ساتھ یہ اضافہ بھی کہ صدقہ ۔خیرات وغیرہ جو بھی نکلے گا انہی کو ملے گا کہ عصمت کے والد ایک حادثےمیں ٹانگیں گنوا بیٹھے تھے۔غریب کو اور کیا چاہیے تھا۔۔۔۔ سال کی گندم ، چاول ، گڑ وغیرہ خرید کر بھی بہت رقم بچ جانی تھی۔پھر کپڑا لتا،اور صاحب لوگوں کی "اُترن" کی بھی آس بندھ گئی تھی۔مگر اس سارے منظر میں "کسی" کی آنکھیں دھندلائے جارہی تھیں۔
عصمت کو ماں نے برآمدے میں لےجاکر پچکارتے ہوئے سمجھایا "دھی رانی۔۔۔۔اپنے ابے کو دیکھ،دو بہنیں جوان ہیں۔۔بھائی سکول جاتےہیں۔کون پورا کرے گا؟ میری سمجھدار دھی ہے نا؟ پھر وہاں شہر میں مشینیں ہیں ۔۔۔۔ زیادہ کام نہیں ہوتا۔صاحب لوگوں کےساتھ گاڑیوں میں گھومنا،باجی کہتی ہے تجھے خود پڑھائے لکھائے گی۔چل شاباش۔۔۔۔اب رونا نہیں۔"
طاہرشیخ صاحب کاروباری حلقے میں اپنی پہچان بنانے میں مصروف تھے اور ان کی بیگم صاحبہ "گھر بنانے" میں جُتی رہتیں۔یحییٰ ، سمیرا اور ذیشان تین ہی بچے تھے۔مگر ان تینوں نے گھن چکر بنا رکھا تھا۔عصمت کے آنے سے کچھ سہولت اور آرام میسر آیا تھا۔شام میں ذیشان کو قاری صاحب پڑھانے آتے تھے ۔ سال بعد عصمت نے ڈرتے ہوئے قرآن پڑھنے کی استدعا کی تو بیگم صاحبہ کو جانے کیسے ترس آگیا اور ذیشان کےساتھ اب شام کا آدھا گھنٹہ وہ بھی قاری صاحب سے پڑھنے لگی۔ذہین تھی ۔۔۔شاید اسی لیے ذیشان ابھی آدھا سپارہ ہی مکمل کرپاتا جبکہ عصمت اس سے ڈیڑھ پارہ آگے ہوتی۔
سمیرا "باجی" کا کبھی موڈ ہوتا تو اسے گنتی اور جمع تفریق سکھا دیتی۔یحییٰ کا فرسٹ ائیر میں داخلہ ہوگیا تھا اورکالج میں نئے دوست بن گئے تھے تو اب گھر بھی آنا جانا لگا رہتا تھا ۔ایسے میں ڈرائینگ روم تک کھانے پینے کی ترسیل کا سب ذمہ عصمت ہی کا تھا۔ بیگم صاحبہ نے اس بار سمیرا باجی کے دوپٹوں والے تین جوڑے دیے تھے اور ساتھ نصیحت کی تھی کہ "اب بڑی ہورھی ہو ،لڑکے ہوتے ہیں گھر پر۔اچھے سے کندھوں پر دوپٹہ ڈالا کر۔۔۔۔یہ گاؤں نہیں کہ کلانچیں بھرتی پھرے۔۔۔۔۔۔"

ذیشان آج پھر قاری صاحب کے آنے سے قبل سائیکل لے کر "فرار" ہوچکا تھا اور چاروناچار عصمت کو اکیلے ہی سبق لینا تھا ۔ کچھ دنوں سے وہ گھبرائی رہتی اور "بڑی باجی " کو بہانے سے کہا بھی کہ قاری صاحب کے سامنے ذیشان بھائی جان ساتھ ہی بیٹھا کریں۔۔۔باجی نے پہلے تو چُٹیا مروڑی پھر دو تھپڑ رسید کیے "بے غیرت کہیں کی۔۔۔یہ شہر ہے۔اور وہ قاری صاحب ہیں کوئی تیرے گاؤں کا لفنگا نہیں۔۔بہت نخرے ہوگئے ہیں تیرے۔۔۔" عصمت نے آنسو صاف کیے اور وضو کرکے "سبق" لینےڈرائینگ روم میں چلی آئی۔
رمضان کا آخری عشرہ شروع ہوگیا تھا اور شیخ صاحب کو فیکٹری سے لوٹتے دیر ہوجاتی۔۔۔لہذا آج بیگم صاحبہ نے سمیرا کے ساتھ ہی شاپنگ کا پلان بنا لیا تھا۔عصمت معمول کے مطابق "سرف" کا پونچھا لگا کر اب گرم پانی کے پونچھے سے ٹائلز چمکا رہی تھی۔"کیا خیال ہے عصمت کو لے جائیں ساتھ۔۔ "شاپنگ بیگز" اٹھانے میں 
سہولت رہتی ہے ۔۔۔" مِسز طاہر نے پرفیوم کا چھڑکاؤ کرتے بیٹی سے سوال کیا۔۔۔نخوت سے جواب آیا، "رہنے دیں ممی ۔۔۔۔حلیہ دیکھا ہے اس کا۔۔۔مجھے کوئی ضرورت نہیں اپنی پوزیشن خراب کروانے کی۔۔ڈرائیور ہے نا ساتھ۔۔۔"
ماں بیٹی گیراج کی جانب نکلیں تو بیگم صاحبہ کی گرجدار آواز سے پانی کی بھری بالٹی عصمت کے ہاتھ سے چھلک گئی "عصمت کتنی بار سمجھایا ہے کہ "سرف" کا پونچھا سوکھنے سے پہلے گرم والا مارا کرو۔۔۔ساری ٹائلز پر جابجا نشان پڑے دکھائی دے رہے ہیں۔بہت ھڈ حرام ہوگئی ہو۔۔۔۔ اور یحییٰ کا واش روم میں نےکل دیکھا ، باتھ ٹب کی حالت دیکھی ہے؟ وہ سو کر اٹھتا ہے تو آج "ہارپک" لگاؤ۔۔تمہارا چہرہ دکھائی دے مجھے ان ٹائلز میں۔۔۔تمہارے روزے ہیں تو بی۔بی ہم بھی روزے ہی سے کھپتے ہیں۔۔"

شام ہورہی تھی مگر اسے اکیلے گھر میں اب "خوف" نہیں آتا تھا۔پہلے سال تو بہت ڈری رہتی،پھر عادت ہوگئی اور ٹی۔وی لگانا،چینل بدلنا بھی سیکھ گئی تھی۔۔۔۔آج بھی سب کام نبٹا کر کارٹونز دیکھ کر خوش ہوتی رہی۔ بچی ہی تو تھی۔۔۔۔۔ افطار کا وقت ہورہا تھا۔باجی لوگ ابھی تک بازار سے لوٹی نہیں تھیں۔یوں بھی روزہ تو عصمت اور بیگم صاحبہ کا ہی ہوتا تھا۔لڑکے سنتے کہاں تھے۔سمیرا باجی بہت "کمزور" تھیں اور شیخ صاحب کو آج کل فیکٹری میں کام بہت تھا تو 3000 روپے فی کَس کے حساب سے "فدیہ" دینے کا ہی فیصلہ ہوا تھا۔۔۔

عصمت نے اپنے لیے سکنجبین کا گلاس بنا کر فریج میں رکھا اور ابھی وضو کا سوچ ہی رہی تھی کہ چوکیدار کے گیٹ کھولنے کی آواز آئی اور گیراج میں موٹر سائیکلوں کی گڑگڑاہٹ سے عصمت سمجھ گئی کہ یحییٰ دوستوں کے ساتھ آیا ہے۔۔۔ جلدی سے دوپٹہ درست کرتی کچن سے نکلی تو آواز آئی۔۔ "عصمت ابھی تک ممی واپس نہیں آئیں؟" اس نے نفی میں سر ہلایا تو فریزر کا جائزہ لے کر بولا۔۔۔۔" یہ فریزر میں سموسے اور کچھ اور چیزیں پڑی ہیں۔۔جلدی سے فرائی کرلو۔۔۔کوک بھی رکھنا ساتھ۔۔ تین دوست ہیں اور چوتھا میں۔۔۔" یحییٰ "آرڈر" دے کر خود فریش ہونے چل دیا۔۔۔
عصمت لوازمات سے سجی ٹرالی ڈرائینگ روم میں لائی اور ابھی باہر جانے کو پلٹ ہی رہی تھی کہ "یحییٰ بھائی" کے دوست نے دوپٹے کا پلو کھینچ لیا۔۔۔۔"بھائی جان کیا کررہے ہیں؟ چھوڑیں مجھے۔۔۔۔۔۔"
"ابے یحییٰ ! یہ تیری "میڈ" تو ایک دم تیر کمان نکلی ہے۔۔۔"
"چھوڑ یار۔۔۔الو کی پٹھی ہے پوری۔۔۔گھامڑ کہیں کی۔۔کوئی اشارہ نہیں سمجھتی۔۔۔۔"
"ہم سمجھا دیتے ہیں یار۔۔۔ آخر دوست کس روز کام آئیں گے؟"یہ کہتے ہوئے عصمت کے منہ پر ہاتھ رکھ دیا۔۔۔اس کی گھٹی گھٹی چیخیں وہیں کہیں دفن ہو گئی تھیں۔۔۔۔۔۔۔۔

باورچی خانے کے ٹھنڈے فرش پر خاموش سسکیاں ۔۔خشک آنکھیں۔۔بکھرے بال اور زخمی چہرہ عصمت کی روح کا حال سمجھانے کو کافی تھا۔۔بیگم صاحبہ شاپنگ سے لدی پھندی عشاء سےپہلے گھر میں داخل ہوئیں ۔۔۔۔۔ عصمت کو وہاں بیٹھے دیکھ کر ٹھٹھک گئیں۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔
"کمینی۔۔۔ بدذات ۔۔۔ تم کمی کمینوں کے گھروں میں یہی تربیت دی جاتی ہے کہ بڑے گھرانوں کے بچوں پر الزامات لگا کر پیسے اینٹھ سکو۔۔۔۔ دو ٹکے کی اوقات نہیں اور چلی ہے شہتیروں کو جَپھے ڈالنے۔۔۔۔ بےغیرت نا ہو تو۔۔۔اسی لیے کہتے ہیں کہ گاؤں کے بچے ذہنی طور پر شہروں کے بیاہتا لوگوں جتنے ہوشیار ہوتے ہیں۔۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔" بیگم صاحبہ تھپڑوں اور ٹھڈوں سے زخمی روح کا جسم داغدار کررہی تھیں اور عصمت "چمکتی ٹائلز" پرلڑھکتی ہاتھ جوڑ رہی تھی۔۔۔۔۔۔
"یحییٰ ملاؤ ذرا نمبر اس کے چاچے کی "ہَٹی" کا۔۔ بات کروائے اس کی ماں سے۔۔لےجائے اپنے گند کا ٹوکرا ۔۔۔ ہم بھر پائے ایسی چَتُر چالاکیوں سے۔۔۔"
یحییٰ نے نمبر ملا کر بات کی اور پانچ منٹ میں عصمت کی ماں کو بلوانے کا کہہ کر فون رکھ دیا۔۔۔ مسز طاہر نے خشمگیں نگاہوں سے یحییٰ کو گھورا مگر پھر حقارت سے عصمت کو دیکھنے لگیں۔۔۔۔۔۔
"ہیلو۔۔۔ ہاں بھئی۔۔یہ تمہاری بیٹی نے تو شہر میں خوب پَر نکال لیے ہیں۔۔۔ یحییٰ کے معصوم دوستوں پر ڈورے ڈال رہی ہے۔۔جانے کیا من گھڑت بکواس پَلّے ڈال رہی ہے بچوں کے۔۔۔۔ آؤ اور حساب چُکتا کرکے اسے لے جاؤ۔۔میں حفاظت نہیں کرسکتی۔۔یوں بھی "میٹھی عید" آرہی ہے۔۔سال کا حساب کرو اور جان بخشو ہماری۔۔۔۔"
عصمت کی ماں کا ہاتھ ایک لمحے کو لرزا تھا ۔۔۔۔ بھیگی آواز میں صرف اتنا ہی کہہ سکی ۔۔۔۔۔۔ "بیگم صاحبہ ! ہم نے آپ کو دی ہے نا۔۔۔ہماری طرف سے زندہ گاڑ دو۔۔۔باپ اس کا "مرن کنارے" پہنچا ہے۔بڑی بیٹی کے "دِن مِتھ " دیے ہیں۔۔۔ عید پر گھر لاکرہم نے اس کا کوئی اچار نہیں ڈالنا  ۔۔۔ آپ بھی بہن بیٹیوں والے ہیں۔۔عزتیں تو سانجھی ہی ہوتی ہیں۔۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ "

"یہ ہوئی نا سمجھدارلوگوں والی بات۔۔۔۔ اپنی بیٹی کو بھی کچھ عقل دیا کرو۔۔۔ قصور میرا بھی ہے،ساتھ بِٹھا لیتی ہوں ڈرامہ دیکھنے کو۔۔۔تو بس وہی دیکھ دیکھ کر اِس کے ذہن میں کہانیاں بننے لگی ہیں۔۔یقین مانو شیخ صاحب اور میں اپنے بچوں سے بڑھ کر اس کا خیال رکھتے ہیں۔۔اور ہاں اس بار فدیہ کی رقم بھی تم لوگوں کو ہی دینی ہے۔۔۔شناختی کارڈ نمبر ہے یحییٰ کے پاس۔۔کل ہی "ایزی پیسہ" کروادیتا ہے۔۔۔باقی تمہاری بیٹی کی شادی پر شیخ صاحب الگ سے بھجوا دیں گے۔۔۔۔۔"

عصمت کی ماں نے کپکپاتی آواز میں جواب دیا " اللہ سلامت رکھے شیخ صاحب کو۔۔برکت دے رزق میں۔۔۔ عزت اور بچوں کی خوشیاں دیکھیں آپ لوگ۔۔۔۔ رب سوہنا آپ کی بیٹی کا نصیب اچھی جگہ کھولے۔۔۔۔ ہماری عصمت آپ ہی کی ہے بیگم صاحبہ۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔۔ "

منگل، 11 اگست، 2015

مکھنی

فاطمہ کُنالی میں آٹا لیے چولہے کے پاس چلی آئی۔سلگتی لکڑیاں آگے پیچھے کرتی اور جلدی میں آٹے کو "مُکی" دیتے بار بار برآمدےکی جانب منہ کرکے آوز بھی لگا رہی تھی۔۔۔" سانول پتر ! چھیتی سے آجا میرا شہزادہ۔۔۔۔ پراٹھا کھائے گا نا چائے کےساتھ ؟"  سانول تیل لگے بالوں کو ٹھیک سے جماتا ہوا ،بستہ کاندھے پر ڈالے باہر نکلا ۔۔۔"اماں پہلے ابا کو دے۔۔آج اس نے ڈیرے جانا ہے نمبردار کے۔۔میں سکول دیر سے بھی پہنچا تو ماسٹر صاحب نے بس دو بید ہی مارنے ہیں۔۔یاد کر پچھلی بار نمبردار نے کتنی بے عزتی کی تھی ۔ مجھے اچھا نہیں لگا تھا۔" یہ کہہ کر پیالےمیں کچھ دودھ لے کر رات کی روٹی توڑنے لگا۔
سانول کا ایک ہی تو دوست تھا۔۔۔"شَکری" اسےسکول سے واپسی پر سڑک کنارے زخمی حالت میں ملاتھا۔ فاطمہ نے اسےگھر نہیں رکھنے دیاتھا کہ رحمت کے فرشتے نہیں آتے۔مگر سانول کا معمول تھا کہ روزانہ
سکول جانے سے پہلےباہر گلی میں شَکری کو دودھ روٹی ڈال کرجاتا۔
سانول اپنے والدین فاطمہ اور اکبر کی مَنتوں مُرادوں والی اکلوتی اولاد تھا۔ شاید اسی لیےاس کی ضد مان لی جاتی تھی۔بیبا بچہ تھا۔۔رنگ روپ ماں کا چُرایا تھا اور سب قصبے والے کہتے کہ باپ کی طرح قد کاٹھ نکالے گا۔ابھی تو پانچویں میں ہی پڑھتا تھا۔فاطمہ خیالوں میں اسے کبھی ڈاکٹر کے روپ میں سوچتی تو کبھی جہاز اڑاتے دیکھتی۔ہر روز میاں بیوی اپنے بیٹے کے لیے ایک نیا خواب آنکھوں میں سجاتے۔

اس قصبےکی اچھی بات یہ تھی کہ آس پڑوس میں آباد سب گھرانے کم وبیش رشتےدار تھے۔ایک دوسرے کا دکھ سُکھ سانجھا تھا۔کھیتی باڑی ،مزدوری اور نمبردار کے ڈیرے پرخدمت گزاری سے دال روٹی سب کی چل ہی رہی تھی۔مشکل مگرتب پیش آتی جب کوئی لیڈی ھیلتھ وزیٹر بچوں کی تعداد کے حوالے سے مرن کنارے پہنچی کسی خاتون کو سمجھانے کی کوشش کرتی۔یہ قصبہ بھی تو اسی معاشرے کا حصہ تھا جہاں بچوں کی تعداد کو  فخر اورخاندان کی طاقت کا سرچشمہ سمجھا جاتا تھا۔
اکبر کو اکثر ہی طعنے ملتے کہ دوسری شادی کرلے۔بیٹے تو باپ کے بازو ہوتے ہیں۔مگر اسے ہر بار فاطمہ کے آنسو دھیان میں آ جاتے۔ ہنس کر ٹال دیتا کہ "شیر دا اک ای بچہ ہندا اے یار ۔"

آج نمبردار کے ڈیرے پر معمول سے زیادہ چہل پہل تھی۔اکبر بھی ایک کونے میں جا بیٹھا۔چوہدی صاحب کے پانچ بیٹھے تھے۔اور اس وقت سب ہی موجود تھے۔کچھ دیرحقہ گُڑگُڑانے کے بعد چوہدری نےمونچھوں کو تاؤ دیا اور ہنکارا بھر کر کڑک دار آواز میں بولا ۔۔۔۔" آپ سب کو اس لیے بلوایا ہے کہ الیکشن سر پر ہے۔ٹھپہ آپ نے "گھنٹی" پر ہی لگانا ہے۔۔۔اپنا بھتیجا ہے اور آپ کے "سیاپے" بھی یہی دیکھ سکتا ہے۔کیا کرنا ہےزیادہ پڑھےلکھے نمونوں کو؟ اپنا مارے بھی تو چھاؤں میں ہی بٹھاتا ہے۔۔۔باقی یاد رکھنا وائی بیجی تھانہ کچہری میں کسی بابو نے نہیں مدد کرنی تم لوگوں کی۔۔۔۔"
ابھی چوہدری نے احسان جتانےکا سلسلہ شروع کرنا ہی تھا کہ چھوٹے چوہدری کی راج دُلاری "مکھنی" کو جانے کیا بات گراں گزری،مسلسل غراتے ہوئے لال پٹے کیساتھ الجھ رہی تھی ۔ نمبر دار نے دو موٹی گالیاں بخشو کی سات نسلوں کی خواتین کو بھیج کر چھوٹے چوہدری کو اشارہ کیا۔اس نے جاکر مکھنی کو بہلایا اور بخشو کو جوتے کی نوک سے "ٹھڈے" مار کر احاطے سے باہر بھیج دیا۔۔۔۔اورسب کو شام میں آنے کا حکم مل گیا۔

" شہد رنگ مکھنی ۔۔۔۔۔3 سال پہلے چھوٹے چوہدری کی سالگرہ پر کسی سیاستدان نے تحفے میں دی تھی۔نمبردارکے گھرمیں تو اسے بچوں کی طرح ہی سمجھا جاتا ہے۔سب لاڈ نخرے اٹھاتے تھکتے نہیں اورشہر سے لائی گئی خاص خوراک جن رنگ برنگ برتنوں میں پیش کی جاتی ہے وہ بھی شاندار ہے۔
سنا ہے کہ اس کے نہانے کو خاص شیمپو شہر کے بڑے سٹورسے آتا ہے۔ دیکھ بھال کا سب انتظام بخشو کے ذمے ۔۔۔ بتا رہا تھا کہ اسے شہر لے کر جاناہے۔ بھلا بتاؤ، کتے کی نسل بڑھانے کو بھی اونچی نسل کا دھیان رکھتے ہیں۔۔۔۔۔"
اکبر نے یہ سب تفصیل فاطمہ کو جانے کتنی بار سنائی تھی اور آخر میں ایک بڑی سی ہونہہ کرکے ایک ہی جملے پر بات ختم ہوتی "امیراں ہائیں۔۔۔۔وڈے لوکاں دیاں وڈیاں گلاں۔"

انتخابات کے دن قریب تھے اور روزانہ شام کونمبردار کے ڈیرے پر حاضری ضروری تھی۔اگرچہ قصبے کے مردوں اور بچوں کی وجہ سے
 ڈیرے پر اچھی خاصی رونق لگ جاتی تھی، اکبر بہرحال سانول کو لے جانے سے ہچکچاتا تھا۔آج بھی سانول نے بہت ضد کی تو ساتھ لے آیا۔مگرآغوش میں یوں دبوچے بیٹھا تھا جیسے مرغی نے چوزے کو سمیٹا ہو۔
چھوٹا چوھدری مکھنی  کی کمر پر ہاتھ پھیرتا مونچھوں کو تاؤ دیتا جا کر باپ کے برابر بیٹھ چکا تھا ۔۔۔ سانول کا دل چاہ رہا تھا کہ جیسے وہ شَکری کے ساتھ کھیلتا ہے اس شہد رنگ مکھنی کو بھی چھو کر دیکھے۔باپ سے نظر بچا کر اس کے قریب پہنچا توبخشو نے دور سے آواز لگائی۔۔۔"اوئے ! ہاتھ نہ لگانا۔۔۔ گندے سندے اٹھ کر چلے آتےہیں۔" سانول سہم کرواپس باپ کے پاس چلا آیا۔

سانول سکول سے واپسی پرنمبردار کی حویلی کے سامنے سے گزرا تو مکھنی کو دیکھتے ہی اس کی جانب بڑھ گیا۔مگر چھوٹے چوہدری کو دیکھ کر واپس ہونے لگا تو آواز آئی "اوئے کاکے ! ادھر کیا کررہاہے؟" سانول نے ڈرتے ڈرتے مکھنی  کی جانب اشارہ کیا تو قہقہہ لگاتے چھوٹے چوہدری نے اسے گود میں اٹھا لیا۔۔"اندر آجاؤ شہزادے۔۔۔جی بھر کر کھیلو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"
شام ہونے آرہی تھی۔۔فاطمہ نے پانچویں بار دیوار پر ٹنگی گھڑی دیکھی اورپریشانی میں چادر اٹھائےگھر سے باہر آگئی۔سانول کا شَکری بھی ہانپتا ہوا دروازے کے باہر شاید اسی کا منتظر تھا۔۔۔اکبر آج شہر گیا ہواتھا۔فاطمہ آس پڑوس میں بچوں سے پوچھ رہی تھی مگر سب نے یہی بتایا کہ سانول چھٹی کے بعد ساتھ ہی نکلا تھا۔وہ تیز تیز قدم اٹھاتی سکول کی جانب چل پڑی۔۔۔حویلی کے سامنے کھیتوں سے گزرتے اسے محسوس ہوا کہ کوئی کراہ رہا ہے۔آگے بڑھ کر دیکھا تو سانول لت پت ، زخمی حالت میں پڑا تھا اور مکھیاں بھنبھنا رہی تھیں۔
اکبر گھر میں داخل ہوا تو غیرمعمولی خاموشی نے پریشان کردیا۔سانول کو آوازیں دیتا برآمدے کی جانب بڑھا تو فاطمہ کی سسکیاں اور بخار میں تپتے زخمی سانول کے ہنکاروں نے استقبال کیا۔
اکبر علاقے کے تھانے میں پہلی بار آیا تھا۔"ہاں بھئی جواناں۔۔۔۔ کوئی ڈنگر چوری ہوگیا؟" حوالدار نے اسے راہداری میں بیٹھے دیکھ کر پوچھا تو اکبر ہاتھ جوڑے کھڑا ہوگیا ، ہکلاتے ہوئے بولا " جناب بڑا ظلم ہوگیا ہے۔۔۔ میرے معصوم بچے پر بہت ظلم ہوگیا ہے۔۔۔۔وہ نمبردار کے پتر نے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"
حوالدار نے اس کی کلائی پکڑی اور ساتھ والے کمرے میں گھسیٹ لیا "دیکھ جواناں۔۔۔۔۔ تیری اس بکواس کو میں نے تو سن لیا مگر کہیں اور یہ بات کی تو کتے چھڑوادے گا نمبردار تیرے خاندان پر۔۔۔۔او یار! تیرے اپنے بیٹے کی بدنامی ہوگی۔شکر کر تیرے گھر والی کی عزت محفوظ ہے ۔۔۔۔۔اور ہاں دوبارہ یہاں آیا تو پہلا چھتر تیری تشریف پرمیں نے رسید کرنا ہے۔۔چل شاباش۔۔۔ جا اپنے گھر اور شکر کر کہ عورت کی عزت بچ گئی۔۔۔۔۔۔۔۔۔"
اکبر خشک آنکھوں اور غائب دماغی سے باہر نکل آیا۔ گھر کے دروازے پر شکری کو دیکھ کر جانے کیا سوجھی ۔۔۔۔ا سے گود میں اٹھائےحویلی کی جانب بڑھ گیا۔۔۔۔
"اوئے بے غیرتو۔۔۔۔۔ اوئے کتے دے پترو۔۔۔۔ نسل خراب کر دی۔۔۔ میں پوچھتا ہوں یہ آوارہ کتا اندر آیا کیسے؟ تم لوگ بھنگ پیے سو مر رہے تھے کیا ؟؟ حرام خورو۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔" چھوٹا چوہدری پاگلوں کی طرح چیخ رہا تھا اور شَکری حویلی کے دروازے سے باہر بھاگ رہا تھا جبکہ مکھنی ایک کونے میں بیٹھی ہانپ رہی تھی۔

ہفتہ، 8 اگست، 2015

قصوروار کون

جونہی کوئی معاملہ الیکٹرانک یا پرنٹ میڈیا کے ذریعےمنظرِ عام پر آتا ہے پاکستانی سوشل میڈیا کی بھی روزی روٹی نیز"فکری عیاشی" کا بندوبست اگلی "بریکنگ نیوز" تک تو ہو ہی جاتا ہے۔خاندانی مسئلہ ہو،گروہی،انفرادی یا اجتماعی ۔۔۔ آخری تان مسلک،مدرسہ ، ملا ، مذہب اور کسی خاص سیاسی یا مذہبی جماعت سے ہوتی ہوئی صوبائی /وفاقی حکومت پر ہی ٹوٹتی ہے۔

فرد معاشرے کی اکائی ہے۔حکومت، ریاست اور ادارے انسانوں ہی کے بنائے ہوئے ہیں۔ ہم لوگ نہایت آسانی کےساتھ تمام تر مسائل ، غلطیوں،کوتاہیوں یا گناہوں کا سارا بار کسی ایک فرد یا ادارے پر ڈال کر بری الذمہ کیسے ہوسکتے ہیں۔

کوئی واقعہ منظرِ عام پر آجائےاس کے محرکات ، اثرات اور نتائج کو یکسر نظرانداز کرکے جس بات پر سینہ کوبی کی جاتی ہے وہ سسٹم کی خرابی سے شروع ہوکر حکومت کی نا اہلی پر ہی ختم ہوتی ہے۔ مانا کہ سسٹم گلا سڑا ہے،یہ بھی انکارنہیں کہ حکومت بہت سے معاملات میں بیوروکریسی کی "سب اچھا ہے" رپورٹ پر آنکھیں بند کیے "ڈنگ ٹپاؤ" کام کیا کرتی ہے۔مگر کیا اس سب کے علاوہ انفرادی حیثیت میں ہم اپنے فرائض سے غافل نہیں ہیں ؟ کیا ہم اپنے گھروں کے معاملات میں سنجیدگی سے دلچسپی لیتےہیں؟۔۔۔۔ ایک گھر کسی ریاست سے کم نہیں ہوتا۔وہاں ہم کیا کررہےہیں۔۔۔۔
دو اصطلاحات جو کہ ہمارے ہاں کثرت سے استعمال کی جاتی ہیں۔۔۔۔ "جنسی بےراہ روی" اور "عصمت ریزی" جسے "جنسی زیادتی" کا نام بھی دیا جاتا ہے۔کبھی سوچا ہےکہ اس کی وجوہات اور محرکات کیا ہیں؟ بچہ کیونکربلیک میل ہوجاتاہے۔۔بچہ تو خیر کیا والدین بھی بلیک میل ہوتےہیں۔کیوں۔۔۔۔۔۔۔۔

ابتداءگھرسے کیجیےنا۔۔۔جنسی تعلیم و آگہی کےمعاملےپر خود کو "مذہبی" کہنےوالا یہ معاشرہ بچےکو جسمانی تبدیلیوں تک سے آگاہی نہیں دیتا بلکہ اسے "بےشرمی" کےزمرےمیں رکھا جاتا ہے۔حکم تو یہ ہے کہ سنِ بلوغت سے پہلےبچے کو سمجھایاجائے۔آسان،قابلِ فہم اور دوستانہ طریقےسے۔۔۔۔۔ یہ کام بیٹی کیلیے ماں،پھپھو،دادی کرے۔۔۔بیٹوں کیلیے باپ،بڑابھائی آگے کیوں نہیں بڑھتے۔ نہیں،مگر یہاں تو ان معاملات کیلیے بچوں کےوہ "دوست" معلومات فراہم کررہےہوتےہیں جواکثر کسی غلط سرگرمی میں ہی شامل ہوتےہیں۔یا پھر انٹرنیٹ ہے نا۔۔۔ویب سائٹس ہیں نا۔۔آپ کی ذمہ داری ختم ۔۔۔۔۔۔۔
اس کے علاوہ معاشرتی گھٹن کوہی موردِ الزام مت ٹہرایے کہ آزاد معاشروں میں بھی بہت کچھ ہوتا ہےبچوں کےساتھ۔ والدین خود کتنے محتاط ہیں کہ بچےان کی کسی حرکت یا منظر کوذہن میں نقش کرکے "ٹوہ" میں نہ لگیں۔۔۔کبھی اس معاملےپرسوچاہے کہ ایک ہی کمرے میں والدین،بچےسو رہے ہیں تو
معصوم اذہان پرکیا نفسیاتی اثرات ہوسکتےہیں ۔۔۔یونہی الگ کمروں کےمکین کبھی جھانکتےہیں کہ ساتھ والے کمرےمیں بچہ کس سرگرمی میں مصروف ہے۔۔
ذاتی رائے ہےکہ بچوں کو چند نکات چھوٹی عمرسے دھیرے دھیرے مختلف انداز سے ذہن نشین کروا دینے چاہییں۔
١:ابتدائی عمرسےبچوں کوغیرمحسوس طریقےسےسمجھایا جائے کہ ان کے جسم کے کچھ حصے "پرائیویٹ" ہیں۔اور لوگوں کے سامنےنہلانے،دھلانے،لباس تبدیل کرنےسےگریزکیاجائےتاکہ اسے احساس رہےکہ یہ "اچھی بات" نہیں ہے۔

٢: خدارا ! بچوں کو آگہی دیجیےکہ ان کے جسم کے کچھ حصےماں کے علاوہ کسی بھی،کسی بھی رشتہ دار یا باہر والے کو دیکھنےکی اجازت نہیں۔باپ کیوں بیٹی کے پیمپرز بدلےیا نہلائے؟ یہ عجیب رواج چلا ہے۔
بچوں کو سمجھایے کہ ان کے "پرائیویٹ پارٹس" کو چھونےکی اجازت نہیں اور نہ ہی کسی اور شخص کے جسم کے ان حصوں کو چھونا اچھی بات ہے۔والدین جملے کا دوسرا حصہ نہ تو خود ذہن نشین کرتےہیں اور نہ ہی بچے کوسمجھانا "مناسب" جانتےہیں۔جبکہ اکثرغلاظت کا "آغاز" اسی بات سے ہوتا ہے۔

٣: بچوں کوچھوٹی عمرسے ہی شعور دیجیے۔غیرلوگوں کی گود میں بچے سوار کروانےسےپرہیزکریں۔ڈرائیورز،گھریلوملازمین کے سر پر بچوں کو مت پالیے۔اسی طرح چھوٹی عمرکےبچوں کو"صاحب لوگ" کےہاں بھیجنےوالوں کوبھی بچےکوغلط صحیح سِیکھاناہوگا۔مدارس،سکولز اور دیگرجگہوں پربچوں کو ایسی کسی صورتحال سے نبٹنےکیلیےآسان الفاظ میں سمجھائیں کہ اگر ایسی کوئی بات ہو تو بچہ اونچی آواز میں "نہ" کرسکے یا کوئی بہانہ کرکےوہاں سے نکلے۔

٤: بچےکوسمجھانا آپ ہی کا فرض ہےکہ "بےلباسی " کیا ہے اور ایسی حالت میں کسی کو فوٹو یا وڈیو شرارت/فَن کے نام پربنانےکی اجازت نہیں۔بالفرضِ محال ایسا کچھ ہوگیا ہےتو "راز" بنانا نقصان کا باعث ہے۔
ماں،باپ،بڑا بہن بھائی،پھپھو، دادی میں سےکوئی ایک تو ہو جو بچوں کےساتھ دوستی کا ایسا درجہ رکھتا ہو جسے بچہ باآسانی بتاسکےکہ وہ فلاں رشتہ دار،دوست یا شخص کےساتھ  "اَن کمفرٹیبل" رہتا ہے۔
اکثردیکھاہےکہ بچہ کسی خاص مہمان کی آمد پر گھبراہٹ کا شکار ہوتا ہے۔والدین اس معاملےکوسمجھنےکی بجائے ڈانٹ ڈپٹ سےکام لیتےہیں۔نتیجتاً بچہ اس دلدل میں دھنستےہوئے نفسیاتی مریض بن جاتا ہے۔

٥: بچےکو اعتماد ابتدائی عمرسےدیجیے۔اس کو یقین ہونا چاہیےکہ ماں کےعلاوہ کسی کےساتھ کوئی بھی بات "سیکریٹ/راز" نہیں ہوتی۔اسی ایک لفظ کا سہارا لیے بھیڑیے آپ کے بچے کو بھنبھوڑ ڈالیں گے۔
بچوں کو یہ باور کروانا والدین کا ہی فرض ہے کہ باہر کچھ بھی غلط کام ہوا ہےتو والدین کو بتانے پر ڈانٹ نہیں پڑے گی اور نہ ہی اس میں کوئی خطرہ ہے۔ذہنی تحفظ کا احساس ایسے معاملات میں معاون رہتا ہے۔

٦: اکثر ماہرین "بیڈ ٹَچ" "گُڈ ٹَچ" جیسی اصطلاحات استعمال کرتے ہیں۔شاید بہت سے کیسز میں یہ مددگار بھی ہو۔مگر ابتدائی عمرمیں بچوں کو کنفیوز مت کیجیے۔سادہ اصول اور آسان زبان ہی واحد حل ہے کہ بچوں کو جنسی پجاریوں سےبچایا جائے۔

٧: اہم ترین نکتہ یہ ہے کہ بچے کو احساس ہو کہ یہ تمام باتیں نہ صرف اس کی ذات کیلیے بلکہ کسی دوسرے کیلیے بھی یوں ہی اہم ہیں۔
والدین،بڑے بھائی بہن کے بعد اہم فریضہ اساتذہ کا بھی بنتا ہے کہ وہ طلباء کوغیرمحسوس طریقے سے اس سلسلے میں رہنمائی دیں۔۔۔یہاں لفظ "استاد" انہی کےلیے استعمال ہواہے جو اس کی حرمت سے آگاہ ہیں۔
کتنے ہی واقعات ہیں جنہیں والدین خود دبا دیتے ہیں کہ خاندان اور معاشرے میں "بدنامی" ہوگی۔۔۔اسی طرح چند کیسز ہیں کہ آپ انگلیوں پر گِن لیجیے جنہیں ان جرائم کی سزا دے کر عبرت کا نشان بنایا گیا ہو۔۔۔۔
یہ تو معاملہ ہوا گھر کا۔۔۔اب ذرا معاشرے اور ریاست کی جانب آئیں۔ معاشرےکو فرصت ہےکہ اگلی نسلوں کےلیے صحتمند تفریح / کھیل کود فراہم کرے ؟۔۔۔ اور ویسے ہمارا یہ "پاکباز" معاشرہ جنسی تعلیم و تربیت بارے کیا "مواد" فراہم کررہاہے ؟ ۔۔۔۔ ریاستی قوانین کس حد تک کارگر اور سخت ہیں کہ جن کا ڈر/خوف لوگوں کو "بدفعلی" کرنے سے روکنا تو دور کی بات ان محرکات پر قابو پا سکے جو کسی شخص کو ذہنی طور پر اس پستی میں گرا دیتے ہیں کہ وہ جنس/عمر/رشتے تک کا لحاظ بھول جاتا ہے۔۔۔۔
حکومتیں آتی جاتی رہتی ہیں اور افسوس تو یہ ہے کہ ہمارے ہاں "ریاستی پالیسی سازی" نہیں ہوتی بلکہ حکومتی/سیاسی جماعت کی پالیسیاں بنتی ہیں جو ہر حکومت کے ساتھ ہی دفن ہوجاتی ہیں۔

آج
 "میڈیا رپورٹ" کے مطابق قصورشہر میں284 بچے سالوں سے "جنسی زیادتی" کا نشانہ بنتے رہے۔اس قوم کے بچے "انجیکشنز" اور بلیک میلنگ کے سر پر "جنسی کھلونا" بنے وڈیوز کی صورت "عالمی جِنسی منڈی" میں بِکتے رہے۔اور والدین سے لے کر،پولیس۔۔۔۔"عوامی نمائندے" سے لے کر سارا نظام اپنے اپنے گرداب میں پھنسا چُپ کا لبادہ پہنے یا رشوت بٹور کر جرم میں حصہ دار بنا رہا۔سوال میرا سب سے پہلے ان والدین سے ہے جوبرسوں"عزت" کے نام پر  بلیک میل ہوکر رقوم ان "خنزیروں" کو دیتے رہے جبکہ اسی رقم سے معاملہ قانون کےسامنے لایا جاسکتا تھا۔
سوال تو پھر یہ بھی ہے کہ عوام کو قانون پر اعتماد/اعتبار ہی کتنا ہے۔بقول اخباری رپورٹر، آپ کے "عوامی نمائندے"  کا اس سارے اسکینڈل میں براہِ راست ملوث ہونا اس جانب اشارہ کرتا ہے کہ نظام میں "جس کی لاٹھی اس کی بھینس" کس قدر راج کررہی ہے۔
اب یہ معاملہ سامنے آیا ہےتو قانون جانے کب حرکت میں آئے گا ۔۔ لوگ بہرحال اس پر بھی "ایک" نہیں ہوں گے،وہی پشاور سانحہ والا معاملہ ہوگا۔کچھ روز بعد نہ صرف بھول جائیں گے بلکہ نیا جھنجھنا ملنے پر اس کھلونے سے منہ بھی موڑ لیں گے۔فی الحال تو صبح سے لوگوں کو "مسلکی،مذہبی،معاشرتی اور سیاسی" گروہوں میں منقسم ہی دیکھ رہی ہوں۔سب اپنی "دکان" پر "بازار سے بارعایت خریدیں" کا بورڈ آویزاں کیے سودا بیچ رہے ہیں۔خریدنے والے ہر قسم کی "تھیوری" خرید بھی رہے ہیں اور کوسنے بھی جاری ہیں۔
"جنسی زیادتی اور بے راہ روی" کا مسئلہ نہ تو مدارس تک محدود ہے اور نہ ہی نام نہاد "فحاشی" اس کی پوری ذمہ دار ہے۔۔۔ہمارا معاشرہ مکمل طور پر ملوث اور ذمہ دار ہے۔کسی ایک مسلک یا گروہ کو رگیدنے سے مسائل حل ہوتے تو شاید لوگ جنت کی آرزو میں جگہ جگہ پھٹ نہ رہے ہوتے۔کوئی بم لگا کر پھٹ رہا ہے تو کوئی الفاظ کے زیرو بم پر بیٹھا ہے۔

ترجیحات۔۔۔۔ جی ہاں ! گھریلو،معاشرتی اور ریاستی ترجیحات میں اگلی نسلوں کا تحفظ جب صرف پیسے کمانا، مفت انٹرنیٹ پیکجز یا ذرائع آمدو رفت ہی رہےگا تو قصورشہر جیسے معاملات سامنے آتےرہیں گے۔یا پھر ہم "عزت" کے نام پر دباتے رہیں گے۔
اس وقت یہ معاملہ حکومتِ پاکستان کے لیے ویسا ہی ٹیسٹ کیس بن کر ابھرا ہے جس نہج پر "پشاور سانحہ" نے سب کولاکھڑا کیا تھا۔ قصور واقعہ میں ایک پہلو یہ بھی یاد رہے کہ ابھی تک "
غیرجانبدارانہ تحقیقات/ آزادانہ کاروائی " عمل میں نہیں آئیں۔۔۔ابتدائی اور وہ بھی پرنٹ و الیکٹرانک میڈیا کی رپورٹس پر من وعن یقین کرلینا قطعاً مناسب نہیں ہوگا۔ ۔ ۔ کچھ انتظار کیجیے کہ حکومتی ادارے کیا کرتے ہیں۔تحقیقات کیا نتیجہ سامنے لاتی ہیں۔منظر ابھی تک واضح نہیں۔

منگل، 30 جون، 2015

مرد روتا نہیں

اس کی بند ہوتی آنکھوں کےسامنے زندگی کی فلم یوں چل رہی تھی جیسے کسی نے "ریوائنڈ"  کرکے "فاسٹ فارورڈ" کا بٹن دبا دیا ہو۔۔
چولہےکےگرد بھاگتا ٥ سالہ بِلو اماں سے ادھ جلی لکڑی سے "پاسے" سینکوا رہا تھا۔جب ابا ٹوٹی پھوٹی سائیکل لیےگھرمیں داخل ہوئے۔ بِلو نےجان خلاصی ہونےپر ابا کا ٹفن بھاگ کر تھاما اور ایک ہاتھ سے آنسو پونچھنےلگا۔ابا نے سینےسے لگایا اور ہمیشہ کی نصیحت کرنے لگے "نہ پتر! مرد روتا نہیں سَجتا۔۔۔پھر ستایا اپنی ماں کو؟" بِلو کا وہی شکوہ "اماں پراٹھانہیں بنا کردیتی ابا۔۔۔" اس لمحے بِلو کی اماں کا واویلا شروع ہوچکا تھا۔۔اور چند ہی لمحوں میں دوپٹہ سرپر باندھ کربین کا وہی سلسلہ جاری تھا جس سے بِلو کو گھبراہٹ ہوتی تھی۔

اماں کوپڑوس کی دیوار سے لگےگھنٹوں بیت جاتے،زمانےبھرکےقصے،بِلو کےابا کی غربت،بے اعتنائی اورگونگےکاگُڑ کھائے رہنےکا رونا روتے اپنےساس سسر کو کوسنے دینےسےباز نہ آتیں۔ جو بِلو کی ماں کو "جہنم" میں جھونک کر
خود کسی بس حادثےمیں گزرگئےتھے۔۔۔۔گزشتہ دنوں ماں نے چارپائی ہی پکڑ لی تھیآج بھی بہت دن بعد اماں اپنی روٹین پر واپس آئی تھیں، اور اب پڑوسن کیساتھ رازونیاز کاسلسلہ جاری تھا۔ایک بار پھر کسی خالہ نسرین  کی "مدد" سے جانےکونسا "قصہ" ختم کرنےکاذکر ہورہاتھا۔۔۔۔شام کو پھر وہی معاملہ،اماں چیخ چلا کر کم آمدن کا رونا رو رہی تھیں اور ابا تسلیاں دے رہےتھے۔بِلو کو محسوس ہواکہ ان کی آنکھیں شاید بھیگی سی تھیں مگر پھر یاد آیا کہ ابا تو کہتے ہیں "مرد روتےنہیں۔"

آج گلی کےبچوں نےاسےخوب پیٹا تھا۔کرکٹ کھیلتےایک زوردار شاٹ سے گیند شیخ صاحب کے لان میں جاگری تھی،جہاں سے وصولی ناممکن سمجھی جاتی تھی۔شکرہواکہ بڑا بھائی کام سے واپسی پر اُس گلی سے آرہا تھا،بِلو اسی کےسینےمیں چھپ کربلکتارہا۔دل ہلکا ہوا تو بھائی نے کہا "کتنی بار سمجھایا ہے بِلو۔۔۔۔مرد ہوکر روتا ہے یار؟ کیا کہیں گے لوگ؟ چل ہنس دے، کل لا دوں گا تجھےگیند۔"

میٹرک کےامتحان ہونے والےتھےاور بِلو کو ایک ہی دھن سوار تھی کہ پرچے اچھےہوجائیں تاکہ وظیفہ اور کالج پڑھائی کا انتظام ہوسکے۔گھر میں ایک وہی تو تھا جو "ویہلیاں" توڑ رہا تھا۔ورنہ تو ابا سارا دن ریلوے ٹریک پر کانٹے بدلتےاور بڑا بھائی درزی کا کام سیکھ کراب کاریگر کماؤ پوت بن چکا تھا۔۔بِلو سے دوسال بڑی بہن میٹرک کےبعد گھرپرہی اماں سے ہدایات لےکرمحلےبھرکےکپڑےسلائی کرتی تھی۔
۔مناسب گزر بسر چل رہی تھی،ریلوے کی جانب سےکوارٹر بھی ملاہواتھا۔ہاں مگر اماں کا رونا ختم ہونے کا نام نہیں لیتا تھا۔بشریٰ کے جہیز اور ابا کی ریٹائرمنٹ پررہائش ان کے پسندیدہ موضوعات تھے،جونہی ابا گھرمیں داخل ہوتےیوں محسوس ہونےلگا تھا کہ ایک عذاب بھی اٹھا لاتے جو اماں کی بدزبانی اور طعنوں کی صورت میں آدھا محلہ سنتا تھا۔۔

بِلو نے میٹرک امتحانات میں بورڈ بھر میں ٹاپ کیا تھا۔اور جب اسےاطلاع ملی تو آنسوؤں کا ایک سیلاب اُمڈ آیاتھا جسے بڑی مشکل سے اندر ہی گراتا رہا،مگرابا اسے گلےلگاتے رو پڑے تھے۔اس نےپہلی بار انہیں روتے دیکھاتھا۔ گھبرا کر ان کے گال پونچھے اور انہی کی نصیحت دہرانے لگا "ابا مرد ہوکر رو رہے ہیں؟" ابا کھلکھلا کر ہنس دیتٓے اور جیب سے پیسے نکال کر بولے "جا میرا سیانا لائق پتر ! مٹھائی لے آ سب کے لیے۔"

بِلو نے پرائیویٹ ٹیوشنز پڑھا کر،عید تہوار پرمختلف سٹالز لگا کر اپنی تعلیم کا بوجھ ابا اور بھائی پرپڑنے نہ دیا،اور ایک روز اماں کو پورے اٹھائیس ہزار بشریٰ کےجہیزکیلیے پکڑائے توان کی پھٹی آنکھوں میں سوال دیکھ کر بولا "رکھ لے اماں۔۔۔۔دوٹیوشن فیس کی کمیٹی ڈالی ہوئی تھی ۔تجھے بتایانہیں تھا۔۔اب بس ابا سے مت جھگڑنا۔" مگر وہاں تو سوالات کا نیا سلسلہ شروع ہوچکا تھا،کتنے کماتا ہے؟ آج تک کبھی ماں کو حساب نہ دیا،میسنے کے گُن کھل رہے ہیں۔۔۔۔باپ کی ہی اولاد ہیں ،ماں کس کھاتے۔۔۔۔۔۔۔۔۔

وقت سرکتا رہا۔وہ اب بِلو سےابا کا انجینئر پتر فلک شیر بن چکا تھا۔ابا کی ریٹائرمنٹ کےبعد پہلےکرائے پر فلیٹ  اور اب اچھےعلاقےمیں ٥مرلے کا ذاتی گھرتھا۔بڑےبھائی کو پھوپھا نےسعودیہ بلوا لیا تھا۔بشریٰ بھی وہیں تھی اور پھپھو کی بہو بن کر عیش کررہی تھی۔اماں کی بہرحال ناشکریاں ختم نہیں ہوسکی تھیں۔پہلے پڑوس کی دیوار تھی اور اب بہن کیساتھ موبائل فون پر زمانے بھر کی برائیاں۔

خالہ کی ١٢ پاس بیٹی فلک شیر کی بیوی بن کر کیا آئی،گھر کے رنگ ڈھنگ ہی بدل گئے تھے۔بِلو کو محسوس ہوتا کہ وہ اب اپنے ابا کا کردار نبھانے لگا تھا۔کتنا انکار کیا تھا اُس نےاِس رشتےسے،مگر اماں نے بھوک ہڑتال اور ہر طرح کی بلیک میلنگ سے باپ بیٹے کو راضی کرلیا تھا۔اماں کا ماننا تھا کہ باہر سے آئی بھی تو عیش کرےگی ،اپنی بھانجی لائیں گی تو کم از کم عزت تو کرے گی۔وہ الگ بات کہ شادی سے ڈیڑھ ماہ بعد وہی بھانجی تھی اور وہی اماں کے کوسنے۔

  فلک شیرکی بیوی شائستہ (محض نام کی) ہوبہو اپنی خالہ یعنی بِلو کی ماں کا عکس تھی۔۔۔۔شاید یہی وجہ تھی کہ زندگی کچھ ردو بدل لیے پھر وہی کہانی اورپرانے رویوں کاچلن اٹھائے نئےاداکاروں کےساتھ اپنا کھیل دُہرا رہی تھی۔

آج بھی بات تو کچھ ایسی خاص نہ تھی،بس وہی ساس بہو کا معمول کا جھگڑا تھا۔ادھر فلک شیرکو کسی حاسد نے انکوائری میں پھنسا دیا تھا۔دفتر سے پریشانی کی حالت میں نکلا،مگر گھر پر توایک طوفانِ بدتمیزی برپا تھا۔ماں اسے "زن مریدی" کے طعنےدےرہی تھی اور شائستہ بیٹے کےساتھ میکے جانے کیلیے سامان باندھےکھڑی تھی اور چلاتی جارہی تھی کہ "بڈھے بڑھیا کو ہی سینے سے لگا کر رکھو،اب الگ گھر لو گے تو بیٹے کی شکل دیکھنے آ جانا۔" اماں کے طنز کے نشتر بھی جاری تھے۔۔۔اور لاکھ روکنے پر بھی وہ فلک شیر کےسینےسےلگا اکلوتا بیٹا چھین کر لےجا چکی تھی۔۔۔ویران کمرے کی دیواریں گھورتےاسے جبڑے میں کھنچاؤ محسوس ہورہا تھا کہ ابا کمرے میں داخل ہوئے تو دل چاہا کہ 
وہی ٥ سالہ بِلو بن جائےاور ان کے سینے سے لگ کر پھوٹ پھوٹ کر رو دے مگر اس کے کانوں میں ابا کی آواز گونجی "حوصلہ کر پتر! مرد ہمت والا ہوتا ہے۔معاملہ دو چار دن میں ٹھنڈا ہوجائے گا تو جاکر لے آنا۔"
رات جانے کس پہر بِلو گھٹی گھٹی آواز میں "اماں ،ابا" پکارتا ان کے کمرے کے سامنے گر گیا۔۔۔۔۔آنکھیں بند ہوتے دو آنسو لڑھک گئے تھےاور زندگی کی فلم جھکڑ کی مانند چل رہی تھی۔۔۔۔۔۔۔۔

بدھ، 24 جون، 2015

امپورٹڈ مال

ماموں نے پیناڈول کی دو شیشیاں نکال کر نانا کو تھمائیں اور واپس ہینڈ بیگ پر جھک گئے۔شاید وہی خوبصورت medicine organiser تلاش کررہےتھےجو نانا ابو کی معمول کی ادویات یاد رکھنےکیلیےلایا کرتے تھے۔علینہ کے نانا دل کے مریض ہیں اور اپنی اولاد کے بہت لاڈلے دوست بھی۔۔۔ جونہی ماموں نے "مطلوبہ شے" برآمد کی اسی لمحے روبی خالہ کمرےمیں داخل ہوئیں اور نانا کے ہاتھ میں ادویات دیکھ کر ان کی آنکھوں میں ویسی ہی چمک لپکی جو چوزے کو دیکھ کر بلی کی نگاہوں میں آتی ہے۔
علینہ کی خالہ روبی عجیب عادت کی مالکن ہیں۔ جونہی ان کے سامنے کوئی پیناڈول / پیراسِٹامول نگلے بلکہ گلہ صاف کرنے کیلیے اسٹریپسیلز ہی کیوں نہ کھائے،خالہ کو سر درد،گلےمیں خراش اور بخار کی سی کیفیات محسوس ہونے لگتی ہیں۔اور بچوں کی طرح "گولیوں ٹافیوں" میں اپنا حصہ وصول کرکے فوراً جوس کیساتھ نگلنا اپنا فرض گردانتی ہیں۔

ہر سال علینہ کے ماموں لندن سے پاکستان کے "دورے" پر آتے ہیں تو نانا کےلیے پیناڈول کی شیشیاں لاتےہیں اور جب یہ "سازوسامان" روبی خالہ کی نظروں میں آتا ہےتو فوری طور پر ٹانگوں،سر اور کمر میں درد کی شکایت کا واویلا شروع ہوجاتا ہے۔لہذا جلدی سے آدھی شیشی پیناڈول کے "گولے" ان کو پرانی بوتل میں انڈیل کر دےدیے جاتےہیں۔

خالہ کو چھیڑنے کے واسطے جب بھی پوچھا جائے کہ "کیا پاکستان میں یہ ادویہ نہیں ملتیں ؟ تو جواب ہوتا ہے "تمہیں نہیں پتہ،باہر سے آئی دوا خالص ہوتی ہے۔۔فوراً اثر کرتی ہے،پاکستان میں تو سب ملاوٹ اور لوٹ مار ہے۔" یہ معاملہ ادویات تک رہتا تو بھی بات تھی۔مگر ایک طویل فہرست تھی جو کہ پاکستان میں ہر بڑے اسٹور پر دستیاب ہے لیکن کیا کیا جائے کہ "باہر سے آیا مال"  کبھی اس "لوکل" شے کا مقابلہ نہ کرپایا تھا۔۔۔۔"امیریکن روسٹڈ بادام" ہوں یا چمکتے فرش کو مزید چمکانےکیلیے مخصوص طرز کے
 sponge mops ۔ ٹوتھ پیسٹ ہو یا موبائل فونز۔۔۔غرض یہ کہ آسٹریلیا، ڈنمارک، برطانیہ اور امریکہ میں مقیم سب رشتہ داروں پر فرض تھا کہ پاکستان آنے سے قبل روبی خالہ سے ان کی فرمائشی فہرست پوچھی جائے کہ پاکستان میں وہ 'معیار' نہیں ملتا۔خالہ کا تو حال یہ ہے کہ ڈرامہ بھی پاکستانی پسند نہیں آتا۔ایک وقت تھا کہ الارم لگا کر رات کے دو بجے اٹھتی تھیں،وجہ کسی "کُم کُم" نامی بیوہ کی اس کے دیور سے شادی کروانا مقصود تھی۔پھر نگوڑ مارا "میرا سلطان" آگیا اور دنیا نے دیکھا کہ علینہ کے بھائی کے ولیمے پر "حورم" بنی گھوم رہی تھیں۔خالو کا بھی حال یہ ہے کہ ملکی خبروں میں کم اور پڑوس میں جھانک کر دیپیکا نامی اداکارہ کی آنے والی فلم کے قصےسناتے پائے جاتےہیں۔انہیں کوئی خبر بتادیجیے،کوئی ملکی معاملہ ہو جواب ہوتا ہے "اچھا؟" اور لگے ہاتھوں پوچھنا نہیں بھولتے کہ فلاں بین الاقوامی نشریاتی ادارہ کیا کہتا ہے اس بارےمیں؟ ۔ حتیٰ کہ برائیلر کی قیمت بڑھے یا کم ہو،تصدیق انہیں "باہر" سے ہی درکار ہوتی ہے۔

ہمارے ہاں ایک خبر مہینوں گردش میں رہے گی،سامنے کا معاملہ ہوگا مگرکیا مجال ہے کہ عوام و خواص کے کان پر جوں بھی رینگ جائے۔وہی بات،وہی خبر حتیٰ کہ ایک پرلے درجے کی گھٹیا پریس کانفرنس ہی کیوں نہ ہو جونہی کسی بین الاقوامی نشریاتی ادارے کی زینت بنے گی تمام گردنیں ایک ہی سمت میں مڑ جاتی ہیں۔ مخالفین کو فوراً حُب الوطنی کا مروڑ اٹھتا ہے، سر میں حق سچ کا درد ہوتا ہے اور جناب سر پر کفن باندھے "غدار' "دشمن ایجنٹ" اور "کافر" تو کیا "واجب القتل" کے فتوے صادر کرتے سب چاقو چھریاں تیز کرکے میدان میں پیشہ ور قصاب بنے حاضر ہوجاتےہیں۔اگرچہ معاملہ بیشتر کا وہی موسمی قصاب والا ہوتا ہے جو عیدِ قربان پر ایسا گوشت بناکر جاتےہیں کہ مجال ہے آپ کوایک چانپ سلامت مل جائے یا گردن کے حصے کا گوشت سمجھ آجائے۔

بھیا جب تک "امپورٹڈ" کا ٹھپہ نہ لگا ہو ہم تو ٹوائلٹ کلینر پر بھروسہ کرنے سے کتراتےہیں چہ جائیکہ کوئی خبر۔ ردِعمل اور مسلسل تیزابی ردِ عمل انسان میں تعصب اور خود پسندی کے علاوہ دوسروں سے نفرت اور دوری کا پیش خیمہ ہوتا ہے۔صرف خود کو ہی راست گو اور حق پر سمجھنے والا انسان دلدل میں دھنسے رہنا پسند کرتا ہے بلکہ کسی کو مدد کرتے دیکھےتو اس کو بھی اسی کیچڑ زدہ ماحول میں کھینچ لیتا ہے۔اور یوں الزام تراشی اور بہتان کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ چل نکلتا ہے۔

بہرحال "امپورٹڈ مال" دیکھ کر رال ٹپکاتے بلا ضرورت چورن کی "خریداری" سے پرہیز اکثرہی بےوقت کی بدہضمی سے بچالیتا ہے۔ اللہ کرے یہ بات کسی کو سمجھ نہ آئے کیونکہ علینہ کی روبی خالہ تو خاندان کی ہر محفل کا پسندیدہ موضوعِ سخن ہیں۔تقاریب پھیکی ہوجائیں گی جناب۔

بدھ، 17 جون، 2015

خون آشام ہجرت

ہجرت کا لفظ جواس کی یاداشت میں محفوظ تھا شایدپہلی بار دادی مرحومہ اور ابا کی پھپھو حسین بی بی ،جنہیں سب پیار سے "سینی بوا" کہتےتھے،ان ہی کے منہ سے سنا تھا۔۔۔
شیریں کے ددھیال کا تعلق تقسیمِ ہند سے قبل جالندھرشہر سےتھا۔اس کےدادا گھرکےسب سےچھوٹےبچےتھے۔ان کے ابا ریلوےمیں ملازم تھے اور بڑے بھائی مجسٹریت کے ریڈر جبکہ دوسرے بھائی فوڈگرین انسپکٹر تھے۔
شیریں نے داداجی کو اگست کے مہینےمیں ہمیشہ رنجور اور خاموش ہی دیکھا۔اسے یاد ہےکہ ایک باراس کی دادی اپنی نندکےساتھ چپکےچپکےباتیں کررہی تھیں اور ساتھ میں گڑ والی چوری کی تیاری میں مشغول تھیں۔وہیں باورچی خانےکی چھوٹی سی "پیڑھی" پربیٹھےاس کا ننھا سا ذہن ان خواتین کی باتوں سے منظرکشید کررہاتھا۔
دادا کی بڑی بہن تایاکے ہاں لدھیانہ بیاہی گئی تھیں اور ان کےہاں پہلےبچےکی پیدائش تھی لہذا منجھلی بہن کوبڑی کی سہولت کے لیے بھجوایا گیا تھا۔دادا ان دنوں بہت شریرمگر ذہین بچےتھے۔سکول سے واپسی پر اپنی اس بہن حسین بی بی کو چپکے سے اناج والے گودام میں پڑھاتے تھے۔پھر ایک شام یوں ہواکہ راتوں رات انہیں وہ اناج کا گودام اور بڑے سے گھر کا آنگن خاموشی سے چھوڑنا پڑا۔دادا نے سر پر کتب کا ٹرنک اٹھا رکھا تھا۔اطلاع یہی تھی کہ لدھیانہ والے بھی نکلنےکی تیاری میں تھےاور انہیں لاہورہی ملیں گے۔مگرننھی شیریں نے سینی بوا کی لال آنکھیں اور بھیگی پلکوں کولرزتے ہاتھوں سے پونچھتے دیکھا ۔جانے کیا کہہ رہی تھیں کہ "بلوائیوں" کا حملہ ہوا اور قافلہ دولخت ہوگیا۔بچوں کو کچھ بڑوں کےساتھ ٹرین میں سوار کروادیاگیاتھا۔ سینی بوا پیڑھا گھسیٹ کر اس کی پھپھوجان کوسرگوشی کررہی تھیں۔۔۔"لاہور ریلوے اسٹیشن پہنچےتو ننھا اور میں اپنوں کی لاشوں میں دبےسانس لےرہےتھے۔"جہاں سے انہیں کیمپ پہنچایا گیا ۔ پھرخاندان کےکچھ دیگر افراد بھی ملتےگئے۔نہیں آئیں تو لدھیانہ سے وہ جوان دو بہنیں۔۔۔٦ سالہ شیریں کو سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ سینی بوا نے یہ کیوں کہا "بڑی کے پیٹ پر برچھیوں کے وار سے بچہ اور ماں مرگئے اور چھوٹی نے کنوئیں میں چھلانگ لگا دی۔۔۔"اس ساری گفتگو میں ننھی کےذہن میں فلم کی طرح مناظر چل رہےتھےاور دادی کےہاتھ سے گڑ والی چوری اس کا حلق کڑوا کررہی تھی۔
بڑے ہونے پربہت عرصہ تک دادی یا سینی بوا سے پوچھنےکی ہمت ہی نہ ہوتی تھی،ان خواتین کی پیلی رنگت یاد کرکےشیریں خوف زدہ ہوجاتی۔دادی کو جب بھی کریدا تو انہیں ایک ہی غم رہتا تھا کہ ہجرت کےوقت آنکھوں کی وبا پھیلی تھی۔۔ان کا بڑا بھائی اسی میں مبتلا ہوکربینائی گنوابیٹھا۔ان کےبھائی کو دکھائی نہیں دےرہاتھا سہارا دے کررفعِ حاجت کیلیے لےجارہی تھیں کہ حملہ ہوگیا اور دادی اپنے ننھے ہاتھ جوڑکرمنتیں کرتیں "میرا بھائی نابینا ہے،اسے کچھ مت کہو۔۔۔" دادی نے اپنی چاندی کی ننھی بالیاں کانوں سے نوچنےپرچیخ دبالی تھی۔ ان کےکان کی لودوحصوں میں بٹی دیکھ کر ہمیشہ جھرجھری آجاتی تھی۔
شیریں نےجانے ایسی کتنی ہی خون آشام ہجرت کی داستانیں کتنے ہی بزرگوں سے سن رکھی ہیں۔یونہی بچپن میں ننھیال جانا ہوتا تو وہ بچوں کےساتھ کھیلنےکی بجائےاماں کےدادا کو کریدتی رہتی۔اور وہ اکثر ہی اخبارکےپیچھےآنسو چھپاتے کچھ نہ کچھ بتاتے تھک جاتے اور پھر ڈپٹ کر کھیلنے بھیج دیتے۔یہ لوگ وہاں ہندوستان میں اپنی حویلی چھوڑ کرنکلےتھے۔۔شیریں کےنانالاڈلےاتنےتھےکہ ہجرت  کےوقت ٥ برس کےہورہےتھےمگرابھی تک صحیح سے پاؤں پاؤں چلنا نہیں سیکھا تھا۔بڑی بہن اور پھوپھی ماں ہمیشہ گودمیں سوار رکھتی تھیں۔اورجب پاکستان آئے زمین جائیداد توچھوڑی ہی جانےکتنےکلو کے حساب سےسونابھی لُٹا کرآئے۔جب یہاں کلیم کیا گیا تو کسی ہندو کا گھرمِلا۔حویلیوں کے مالک ٦ خاندان ایک ایسے گھرمیں رہنےلگےجہاں سونےکی دیگ اس وقت کا کمشنر"بحقِ سرکار" لےگیاتھا۔اور نانا کےابا سے سنا تھا کہ جنہیں وہاں "کَچوں" میں بیٹھے دیکھا یہاں آ کر کلیم میں فقط ٢ گواہان کےبل بوتے حویلیاں سنبھال کر بیٹھ رہے۔واللہ العلم بالصواب۔
اللہ نے ایک خاندان کی نیتوں کو پھل لگایا۔دوسرے کےنوجوانوں کی تعلیم نےبہترنوکریوں کے راستے کھولے۔اوریوں ہجرت کےبعد زندگی کا نیا آغاز ہوا۔شیریں مگراگست شروع ہوتے ہی بزرگوں کےچہروں پر خوشی اور بےچینی ہی دیکھا کرتی۔آج بھی١٤ اگست پرچراغاں میں ان کی جھلملاتی لال آنکھیں اسےہمیشہ پریشان کرتی ہیں۔
حیرت تب ہوتی ہےکہ جب ہجرت کی داستان سنانےکےباوجود "مہاجر" لفظ کہیں سنائی نہیں دیتا۔پوچھا تھا بچپن میں۔۔۔دادا نےجواب دیا "کیاضرورت ہےزبردستی احساسِ کمتری طاری کرنےکی۔اس ملک کےلیے آئے،اس نے آغوش میں لےلیا اور ہمیں ہماری صلاحیتوں سے بڑھ کر نوازا۔ جس وقت "سینی" کےساتھ اپنوں کی لاشوں میں دبا رو رہا تھا تب ہی فیصلہ کیاتھاکہ ہجرت کرلی۔اب پیچھےکی سوچ ختم۔"
ہمارے ہاں ہجرت بھی تو دو بار کی گئی۔۔حیرت ہوتی ہے ١٩٤٧ء والےالگ داستان سناتےہیں اور ١٩٥٢ء والے کچھ اور ہی قصہ بتاتے ہیں۔
سنا ہے تب ٹرینوں میں لاشوں تلے دبے زندہ انسان نہیں آئے تھےاور نہ ہی
خاندان کی بچیوں نےعصمتوں کی قربانی دےکرکنوئیں میں چھلانگ لگائی اورنہ کوئی وہیں "مالِ غنیمت" کی صورت بچھڑ گئی۔
شیریں کو بہت بری عادت ہے،جہاں کسی بزرگ کو دیکھتی ہے۔۔فٹ انہیں اِدھر اُدھرکی باتوں میں لگا کر ١٩٤٧ء کی ہجرت  پر بات کرنے کےلیے اکسانے لگتی ہے۔اماں سے ہمیشہ ڈانٹ پڑتی ہے کہ کیوں زخم ادھیڑتی ہو بڑوں کے۔مگر اسے تو جاننا ہےکہ شاید کبھی تو کوئی خود کو "مہاجر" کہہ دے۔

جمعرات، 4 جون، 2015

ذکر لاہور میٹروبس سفر کا



اب کی بار لاہور 2 برس بعد جانا ہوا توگھرسےہی فیصلہ کیاتھاکہ میٹرو بس پراجیکٹ بارے جتنا سن رکھا ہےدیکھنا تو چاہیےکہ واقعی ایسی ہی آرام دہ اور وقت کی بچت والی عوامی سہولت ہے یاکچھ لچھےداروضاحتیں زیادہ ہیں۔
گھرسےگاڑی میں سوار میٹرو کا سفر کرنےکا ارادہ لیے نکلےاور اچھرہ کارپارکنگ میں ڈرتےڈرتےگاڑی پارک کی۔آپس کی بات ہےدل میں آیت الکرسی پڑھ کربھی پھونک دی۔ادھرسےسڑک پارکریں تودوسری جانب بیسمنٹ میں ٹکٹ گھرہے۔
       
صفائی کا انتظام دیکھ کر کچھ اطمینان ہوا وہ الگ بات کہ
 ہم بحثیت قوم اپنا فرض سمجھتےہیں قومی املاک پراشتہاربازی،ذاتی رابطہ نمبر نتھی کرنا۔اور یہی سوچ تشدد سکھاتی ہے کیونکہ سکھایا تو گیا ہی نہیں کہ ریاستی عمارات و املاک آپ کےمعاشرےکی آئینہ دار ہیں۔ابھی یہ نمونہ دیکھیے۔


بہرحال ہم ٹکٹ گھر کی جانب بڑھےجہاں سے آپ کو بیس روپے میں ٹوکن ملتا ہے اور شاہدرہ سے گجومتہ آپ 27 اسٹیشنز میں سے کہیں بھی اپنی منزلِ مقصود تک سفر کرسکتےہیں۔ہمیں فی الحال پہلے بھاٹی چوک جانا تھا۔ٹکٹ خریدے اور اوپر بس اسٹیشن کی جانب بڑھ گئے۔یہاں اوپر جانے کیلیے برقی سیڑھیوں کی سہولت فراہم کی گئی ہے۔
                                                
پہلےتو ٹوکن ایک ریڈ ایبل مشین سےچیک ہوتاہے اورپھرایک ایک کرکےمسافرآگےبڑھتےہیں ۔۔۔یہاں آپ کو بینچ بھی ملیں گے،پینے کا ٹھنڈا پانی اور گرمیوں میں پنکھےبھی ہر بینچ کے عقب میں موجود ہیں۔



ابھی تک مجھے سب کچھ بہترین معلوم ہورہاتھا۔۔خاص کر خواتین کیلیے یہ نظام نہ صرف سہولت والا ہےبلکہ محفوظ بھی سمجھا جاسکتا ہے۔میری اس بات کی تائید آگے چل کر وہ لوگ ضرور کریں گےجنہوں نے پبلک ٹرانسپورٹ میں کمر دہری کرکےگرمی میں جوتیاں چٹخائی ہیں اور جن خواتین نے ان بسوں میں مردوں کی بدسلوکی سہہ رکھی ہے۔
ایک اندازے کے مطابق ہر تین منٹ بعد ایک میٹرو بس آتی ہے اور خود کار نظام کےتحت یہ شیشے کےدروازےآپ کیلیے کھل جاتےہیں۔بس آئی اور ہماری والدہ محترمہ ہم سے پہلے سوار ہوکر یہ جا وہ جا۔جبکہ ہم لوگ منہ تکتے رہ گئے۔یہ بھی لطیفہ ہی تھا۔بہرحال اگلی بس کچھ وقفے سے آئی اور ہم بھی بھاٹی چوک روانہ ہوگئے۔مطلوبہ اسٹیشن پر اترے۔اوریہاں جب اوپر سے ٹریفک کے حالات دیکھے تو صحیح معنوں میں اندازہ ہواکہ میٹروبس لاہور جیسے گنجان آباد شہر کیلیے کتنی ضروری تھی۔




یہیں ایک جانب حضرت علی ہجویریؒ المعروف داتا صاحب کا دربار ہے،اور اس کے ارد گرد آپ کو لاہور کے رنگ بکھرے ملتے ہیں ۔انواع و اقسام کےدیسی لوازمات اور لنگر بھی۔
  


یہاں سے فارغ ہوکراب بزرگوں کوگھر واپسی کا ٹکٹ لے کر دیا اور ہم نے گجومتہ کے ٹکٹ خریدے۔۔۔مجھے لوگوں کی رائے جاننی تھی اور آخری اسٹیشن تک سہولت کا جائزہ بھی لینا تھا۔
کچھ مسافروں کے تاثرات انہی کی زبانی بیان کررہی ہوں۔۔۔
عارف صاحب کا کہنا تھا "سگنل فری ،ہر تین منٹ بعد بس آتی ہے۔وقت کی بچت اور حادثات سےبھی حفاظت ہے۔" ایک خاتون جنرل ہسپتال سے بلال گنج کا سفر گزشتہ 5 روز سے کررہی تھیں ۔ان کا بیٹا وہاں داخل تھا۔سہولت سے خوش تھیں اورواحد گلہ جو کیا "بیٹا سیٹس کم ہیں۔" قینچی سے گجومتہ جاتی ایک آنٹی کا کہناتھا کہ "روزانہ سفر کرتی ہوں۔لوگوں کےگھروں میں کام کرتی ہوں۔پہلےبہت کھپ جاتی تھی،کرایہ،وقت،دھکے۔مگراب بہت سہولت ہے۔"میں نے مسکراتے ہوئے ان سے پوچھا کہ "جنگلہ بس سروس" پسند ہے؟ تو غصے سے بولیں"باجی جو اسے جنگلہ بس کہتےہیں ان کی اولادوں نے سفر نہیں کرنا اس میں یہ ہماری سواری ہے اور عوام اسے میٹروبس سروس ہی کہتے ہیں۔" ملتان سے ایک خاندان لاہور سیر کیلیے آیا ہواتھا۔ان کے سربراہ کا کہنا تھاکہ "ہم ملتان والوں کا بھی حق بنتا ہے ایسی سہولت پر،وہاں بھی یہ منصوبہ ہوناچاہیے۔خواتین کیلیے نہایت محفوظ اور آرام دہ سفر ہے۔" بچے کافی خوش دکھائی دے رہے تھے
                     

سنیتا روزانہ یوحنا آباد سے شمع تک کا سفرکرتی ہیں اورنہایت مطمئن دکھائی دیں۔میں مذاق میں پوچھا "گالاں شالاں تے نئیں کڈدے؟" تو قہقہہ مار کر کہنے لگیں" اک تے سہولت اُتوں گالاں؟ اے رواج ساڈے 'چ نئیں ہیغا،جتھوں آیا سی اوہناں واسطےکون نکلیا فیر؟" ایک صاحب میانوالی سے تعلق رکھتے تھے مگر روزگار کےسلسلےمیں لاہورمیں مقیم تھے۔وقار صاحب کا کہنا تھا کہ انہوں نے کارڈ بنوا رکھا ہے جس کے باعث ٹوکن کیلیے قطارمیں کھڑے ہونے کا بھی وقت بچ جتا ہے اور کبھی دفتر پہنچنےمیں تاخیر کا سامنا نہیں ہوا۔شکوہ ان کا محض یہ تھا کہ رش بہت ہوتا ہے۔
ایک اماں جی سے گفتگو ہوئی تو اس خوبصورتی سے لاہوری سٹائل میں تسلی کہ مجھے ہنسی آگئی۔۔"پتر اوئے! لاہور پہلےوی شریفاں دا سی،ایس سہولت نے ساڈے دل جِت لے نیں۔لہورنئیں اوں بند ہونا کدےکسی آستے۔"
فارماسوٹیکل کمپنی میں کام کرتی ماریہ کا کہنا تھا کہ "ٹیکسی کا کرایہ اور پبلک ٹرانسپورٹ کی خواری،میں دونوں بھول چکی ہوں۔میرے خیال میں پاکستان کے تمام بڑے شہروں میں میٹروبس کی سہولت ہونی چاہیے۔" میں مسکراتی آگے بڑھ گئی۔
ایک بچی ٹیوشن سینٹر جارہی تھی اور اس کا کہنا تھا "انڈر پاس میں کبھی کبھار روشنی کم ہوتی ہے،مگر میں اسے سب سے محفوظ سفر سمجھتی ہوں،مردوں کا سیکشن الگ ہے نیز بھکاریوں وغیرہ کا بھی کوئی سلسلہ نہیں ہے۔وقت کی بچت الگ ہے۔"
فیصل بینک سے ایک خاتون اقراء بھی اسی بس میں سوار تھیں ۔ ان کا کہنا تھا"اسلام آباد سے شفٹ ہوئی ہوں،4ماہ سے اپنی گاڑی ہونے کےباوجود میٹرو بس کی سہولت سے فائدہ اٹھا رہی ہوں۔" پوچھا کہ سیٹس کی کمی بارے کیا رائے ہے تو جواب تھا "نشست یا معزوراوربیماروں کیلیے ہوتی ہےیا بزرگوں کیلیے ضروری ہے۔اُس تعداد میں موجودہیں۔باقی لوگوں کا شکوہ کرنا بنتا نہیں ہے۔"
 

  


آخری اسٹیشن گجومتہ آیا تو ہم اتر کر کچھ تصاویرتارنے لگے اور واپسی کا ٹکٹ خریدا۔اب ہماری منزل یادگار چوک تھی۔بھوک لگ رہی تھی لہذا فوڈ سٹریٹ جانے کا ارادہ تھا۔

 
واپسی پھر کچھ لوگوں کے تاثرات جاننے کی کوشش کی۔یہاں ایک صاحب واسا ملازم تھےجوکہ 6 ماہ سے میٹرو بس استعمال کررہے تھےان کے ساتھ ایک بھائی صاحب لاہورڈویلمپنٹ اتھارٹی میں ملازم تھے جو کہ 4 ماہ سے اس میٹروبس سہولت سے فائدہ اٹھا رہےتھے۔دونوں کا کہنا تھا کہ وقت اور کرائےکی بچت کےعلاوہ دھکم پیل سے بھی چھٹکارہ ہوچکاہے۔ان کا مطالبہ تھاکہ بسوں کی تعداد بڑھائی جائے۔

 

کراچی سے 14 افراد کا کنبہ لاہور دیکھنے آیا تھا اور ان لوگوں کے چہروں کی خوشی دیدنی تھی۔رفیق صاحب کاکہناتھا" ہمارے ہاں کہتے ہیں جس نے لاہور نہیں دیکھا وہ "جمیا" ہی نہیں۔تو ہم اسے سچ کرنے آئےہیں۔" ان کی بیٹی جرمنی سے 6 سال بعد آئی تھی اور اسی کیساتھ لاہور سیر کوخاندان سمیت نکلے تھے۔سب کا کہنا تھا "کراچی کو اس سہولت کی سب سے زیادہ ضرورت ہے۔وہاں بھی میٹروبس منصوبہ آنا چاہیے۔" سر ہلاتے تائید کرنا مناسب جانا۔
دو بہنیں کسی جنازے پر جا رہی تھیں ان کے بقول "پہلے کسی خوشی غمی میں آنے جانے کو تمام دن خرچ ہوجاتاتھااور جیب پر بھی بہت گراں گزرتا تھا۔مگر اب 20 روپےمیں آدھےگھنٹےمیں پہنچ جاتےہیں ۔"سب مسافروں کا ایک ہی بات پر اتفاق تھا کہ پبلک ٹرانسپورٹ کی طرح یہاں عملےکی بدتمیزی نہیں ہے۔

بتاتی چلوں کہ شاہدرہ سے گجومتہ،ستائیس اسٹیشنز کا فاصلہ ایک گھنٹہ تین منٹ میں طے ہوتا ہے۔
آزادی چوک آیا اور گزر گیا۔مجھے دھیان نہیں رہا اوربچہ پارٹی وہاں اتر کر مجھے فون کررہی تھی "باجی کدھر رہ گئیں ؟" اور میں نیازی چوک اترکر نیا ٹکٹ لیے دوسری بس میں سوار ہوکر آزادی چوک اسٹیشن پہنچی۔یہاں فوڈ اسٹریٹ سے لنچ کیا اور کچھ دیر سستائے۔




ہمیں اب اچھرہ اسٹیشن کیلیے ٹکٹس خریدنےتھے،لہذا ٹوکن لیتے وقت اس کونے پر نظر پڑی جہاں کارڈکی سہولت والوں کیلے انتظام موجود تھا۔ادھر ایک نوجوان نے کافی مسئلہ بنا رکھا تھا۔جس کی تسلی پھر سیکیورٹی گارڈ نے خوب کی۔



تمام دن میں صرف ایک ایسی مسافر خاتون سے بات کرنے کا موقع ملا جو میٹرو سہولت سے سخت نالاں تھیں۔پوچھا تو منہ بسور کربولیں "میں جھنگ سےپہلی بار لاہور آئی ہوں،میاں کو کہا تھا ٹیکسی میں شہردکھاؤ،وہ میٹروبس میں لےکر نکل  پڑے۔" مسکراہٹ چھپانا پڑی۔
واپسی پر بس ڈرائیور سے کچھ گفتگو کی۔ یہ بھائی صاحب پہلےنیازی بس سروس میں ملازم تھے مگر میٹرو بس سروس لاہور میں درخواست دی،ٹیسٹ پاس کیا اور اب سکون سے نوکری کررہے تھے۔پہلےدس ماہ تنخواہ سے سیکیورٹی کےنام پردوہزارمنہاکیے جاتےہیں۔پھر پوری تنخواہ ملتی ہے۔شکوہ ان کا فقط یہ تھا کہ عوام کبھی کبھار رش کے باعث تعاون نہیں کرتے۔نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر انہوں نے بتایاکہ "حکومت بہت کوشش کرتی ہے مگر نچلی سطح پر توجہ کی ضرورت ہے۔کچھ لوگوں کو تنخواہ کے ایشوز ہیں ۔جن کی رپورٹ اوپر نہیں جاتی۔" سن کر تاسف بھری نگاہ سامنے سکرین پرمرکوز کردی۔

 



درخواست ہی کرسکتی ہوں کہ میاں شہبازشریف صاحب آپ خادمِ اعلیٰ ہیں تو اس جانب بھی توجہ دیجیے کہ نچلی سطح کی شکایات دور ہوسکیں۔نیزکچھ اسٹیشنز کا تعمیراتی کام ابھی تک ادھورا پڑا ہے۔عوامی سہولت کے پیشِ نظر اس میٹروبس منصوبےکوجلد مکمل کیاجائے۔
شام ڈھل رہی تھی اورجب ہم اچھرہ اسٹیشن پہنچ کر کار پارکنگ کی جانب بڑھے تودرتے ڈرتے گاڑی کی تلاش میں نگاہ دوڑائی۔ سکون ہواکہ بحفاظت موجود تھی۔واپسی پر "بھیاکےکباب" نے تمام دن کی تھکان بھلا دی۔
آج میرے شہرمیں راولپنڈی اسلام آباد میٹروبس کا شاندارافتتاح ہونے جا رہا ہے۔جس کا 95٪ کام مکمل ہوچکا ہےاور امید ہے کہ ان شہروں کے عوام بھی اس سہولت سے مستفید ہوں نیز اس کی حفاظت اسی طرح کریں گے جیسے اپنے گھر آنگن کی کیا کرتے ہیں۔
یہاں کچھ تصاویر میٹروبس لاہور کی بیسمنٹ میں دیواروں پر موجود ان شخصیات کی جو ہماری تاریخ کے سنہری باب ہیں۔۔۔۔۔