منگل، 9 دسمبر، 2014

ہزارہ موٹروے




      کسی بھی ملک کی ترقی کیلیے ذرائع آمدورفت ایک مسلمہ اہمیت رکھتےھیں۔پاکستان میں سڑکوں کاجال اورموٹروےکےذریعےپورےملک کوایک لڑی میں جوڑنےکی کوشش کی جارھی ھے۔سیاحت،تجارت،صنعت اور زراعت جیسےمیدان کبھی بھی بھرپورترقی نہیں کرسکتےاگرآپ کا شاہراہوں کانظام درست نہ ھو۔ تنقیدبرائےتنقیدایک لمحہ کوبھول جایئےاورسوچیےکہ آج سے پندرہ بیس برس پہلےفقط  کلرکہارکاپرپیچ سنگل روڈکیساخطرناک معلوم ھوتاتھا۔میں اس موضوع پرایسی شاندار دسترس تونہیں رکھتی کہ بحث میں الجھوں مگرایک عام پاکستانی کی حیثیت سے اپنی سوچ کوبیان کرنا حق جانتی ھوں۔


 میاں محمدنوازشریف صاحب نےاپنےپہلےدورِاقتدار(1990-1993) کےدوران موٹروےمنصوبہ کااعلان کیامگر 26نومبر1997میں ان کےدوسرےدورِاقتدارمیں اس منصوبےکاافتتاح کیاگیا۔جولائی 2014تک آپریشنل موٹروےکی لمبائی 679.5کلومیٹرتک پہنچ چکی تھی۔جبکہ278 کلومیٹرزیرِتعمیرھے۔حکومت 1502کلومیٹرآئیندہ 10 سالوں میں اضافےکامنصوبہ پاس کرچکی ھے۔جس میں ایکسپریس وےاورموٹروے شامل ھیں۔پاکستان میں موٹروے6-4لینزپرمشتمل ھے۔جبکہ 4 لین والوں کوضرورت کےمطابق توسیع دےدی جائےگی۔
سنہء2013کی الیکشن کیمپین کےدوران میاں نوازشریف نے ہزارہ موٹروےکاوعدہ کیاتھا۔اور29نومبر2014کی دوپہراپنےاس وعدہ کی تکمیل کیلیے حویلیاں پہنچ رھےتھے۔میں پچھلے 100روزسےڈی-چوک کےدھرنوں کی خستہ حالت سے اس قدراوب چکی تھی کہ ہزارہ موٹروےکی افتتاحی تقریب میں جانے کافیصلہ کرلیا۔اسلام آباد سے حویلیاں 102 کلومیٹرکےفاصلہ پرھے۔اپنی گاڑی میں ٹیکسلا تک کاسفرتوپھربھی بہتر رھامگرآگےکامشکل سفرمجھےیہ باورکروانےکیلیےکافی ممدومعاون ثابت ھواکہ ہزارہ کی عوام کو اس نئےمنصوبےکی کتنی اشدضرورت تھی۔
  



راستےمیں گاڑیوں کاایک سیلاب تھا۔
اڑھائی گھنٹےمیں جلسہ کےمقام پرپہنچ پائی۔جبکہ ایک مقام پرآٹھ دس بچوں کاٹولہ اپنا"گوگوپان مصالحہ"بیچنےمیں مصروف تھا۔جلسہ کےمقام پرلوگوں کاجوش دیدنی تھا۔خواتین،بوڑھے،بچےاورجوان پہاڑکی چوٹی پرپیدل چل کرپہنچ رھےتھے۔یہ ایک بڑاجلسہ تھا۔میں تعدادکےچکرمیں نہیں پڑتی کہ کوئی سیاسی جلسہ نہ تھامگرایک وعدےکی تکمیل کادن تھا۔جسکی خوشی میں وزیراعظم کاشکریہ اداکرنےکیلیےہزارہ کی عوام اکھٹی ھوئی تھی۔ہاں مگروہاں موجودتعداداتنی ضرور تھی کہ 100 دن کےدھرنوں میں دکھائی نہ دی۔



میاں صاحب نے ہزارہ ایکسپریس وے منصوبے کاسنگِ بنیادرکھا ۔


چئیرمین نیشنل ہائی وےاتھارٹی،شاہداشرف تارڑ نےتفصیلی بریفنگ دی ۔60 کلومیٹرپرمحیط ایکسپریس وےتین سالوں میں مکمل ھوگاجس پرلاگت 33بلین روپےآئےگی۔اس منصوبہ میں 6انٹرچینج،20 پل،2ریلوےپل،15انڈرپاس اور 150 زمین دوزنالیاں بنائی جائیں گی۔ابتداءمیں یہ 4لین منصوبہ ھےجسےبوقتِ ضرورت 6 لینزتک توسیع دیدی جائےگی


میاں صاحب نے خطاب کےدوران یونیورسٹی کاوعدہ کیاھے،جس پروہاں کی عوام پرامیدھے۔


چونکہ یہ کوئی سیاسی جلسہ نہ تھا تو کچھ بدنظمی بھی دیکھنےمیں آئی،مگرحیرانی اس بات کی ھےکہ بدانتظامی بیک سٹیج تھی۔ خیربڑےبڑےجلسوں میں ایسی چھوٹی چھوٹی باتیں ھوتی رھتی ھیں ۔
خطاب کےبعدمیں جلسہ گاہ سے باہرنکلی تو لوگوں کاسیلاب تھاجوخوشی سےپھولےنہیں سمارھےتھے۔کچھ شرکاءسےبات چیت کی جس کاذکرکرنافرض ھے۔خواتین کی ایک بڑی تعدادموجود تھی۔کچھ سےجائزہ بھی لیا،مگرسب اپنی مرضی سےخوشی میں آئے۔ایک خاتون اپنی دوبیٹیوں اور 3 بیٹوں کیساتھ تھیں،شوہرمزدوری کیلیےبیرون ملک ھے۔دریافت کرنےپر بتایاکہ ہمارےعلاقےکو بہت بڑی سہولت مل رھی ھےشکریہ ادا کرنےآئےھیں۔

 


محمدارباب خان کاکہناتھاکہ "میاں صاحب نےہم پراحسان کیا،بہترین کام ھے۔ہسپتال آنےجانےمیں مریضوں کوسہولت ھوجائے گی۔" جب ان سے عمران خان بارے سوال کیا تو جواب تھا "باجی ووٹ تودیاتھا،مگرافسوس ہےکہ یہ اتنا بچہ ذھن قسم کاسیاستدان نکلا۔"اورایک نعرہ فضاءمیں بلندکرتاآگےبڑھ گیا۔
    


علی آستان کا کہناتھا "جوبھی آئے،بس ہمارےعلاقےکوبھی پاکستان کا حصہ سمجھے۔میاں صاحب کوووٹ نہیں دیاتھامگراگلےالیکشنزمیں انہی کاووٹ ھے۔وعدہ پوراکیاھے۔" اپنےہاتھوں سےکاغذپرنام لکھ کربتایاکہ ایسےلکھتےھیں۔


      

کراچی سےراجہ اخترصاحب صرف اس افتتاح کی خاطرتشریف لائےتھے۔"ہمارےعلاقےمیں بہت بڑی ترقی کی شروعات ھیں ۔ہم ہزارہ والوں نےآنکھ بندکرکےاعتمادکیاتھا،میاں صاحب نے حق اداکردیا۔بہت بڑاوعدہ تھاجسےپوراکرنےکاپہلاقدم ھے۔"جب عمران خان بارےدریافتکیا تو جواب تھا"جس بندےکوسیاست کی الف بے نہیں پتاہم اس کیلیےبات کرکےوقت ضائع نہیں کرتے۔"شکریہ کہہ کرآگے بڑھی۔


     


ایک بزنس مین سلیم خان سے بات کرنےکا اتفاق ھوا۔ نہایت شفیق شخصیت،ایبٹ آبادسے تشریف لائے تھے۔ان کاکہناتھا "ہمارادیرینہ مطالبہ تھا،اورالیکشن سےپہلےہم سے وعدی کیاتھا۔زبان کاپکالیڈرھے۔ہم کاروباری افراد کواس منصوبےسے بہت توقعات ھیں۔"

   


صاحب محمدپرویزبھی تھےان کے بقول اسلام آبادسےاپنےعلاقےتک ساڑھےتین گھنٹےمیں پہنچے،اور اس منصوبےسےمریضوں کو بروقت ہسپتال لیجانےمیں آسانی ھوجائےگی۔سیاحت میں اضافہ ھوگاتوان کےعلاقےمیں روزگارکےمستقل مواقع پیدا ھوں گے۔
    

عامرزمان صاحب کاکہناتھاکہ ہزارہ موٹروےوعدوں کی تکمیل کیلیے میاں صاحب کی پہلی کوشش ھے جس کی کامیابی کیلیئےآج ہزارہ کی عوام دعاگوھے۔میرے پوچھنےپرکہنےلگےاگلا وعدہ صوبہ ہزارہ کاھےاورہم اچھی امید رکھتےھیں۔




ہزارہ کا رہائشی ایک شخص کراچی سے صرف اس منصوبےکی خوشی میں چھٹی لےکرآیاتھا۔ان کا کہناتھا"فوتگی ھوجائےیامریض کوہسپتال لیجاناھو،بہت مشکل ھوتی ھے،مگرامیدھےکہ میاں صاحب کےدورِ اقتدارمیں یہ منصوبہ عوامی سہولت کیلیےبہترین کام ھوگا۔مجھےمزدوری کیلیئےکراچی نہیں جاناپڑےگا۔" ان صاحب کی خوشی سنبھالےنہیں سنبھل رھی تھی۔




ایک باباجی ملےجواردونہیں سمجھ سکتےتھے،بھلاھوایک بچےکاجس نےترجمہ کردیا۔ان کا کہناتھا کہ ان کےعلاقےمیں نوجوانوں کیلیے روزگارےانئے مواقع پیدا ھورھےھیں اور سفری سہولت کی قدرکوئی پہاڑوں میں رھنےوالوں سےپوچھ کر دیکھے۔




غرض یہ کہ اس علاقےمیں لوگوں کےچہروں کا مان اور خوشی اللہ سلامت رکھے۔وزیراعظم میاں محمدنوازشریف پراعتمادکرکےجوووٹ انہوں نےدیئےان وعدوں کےپورا کرنےکاوقت آن پہنچاھے۔
ہزارہ کی عوام صوبہ کی صورت اپنی پہچان چاھتی ھےنیز بہترتعلیمی سہولیات کے مطالبےکوبھی دیکھناچاھیئے۔
شام ڈھل رھی تھی اور مجھےاحساس تھاکہ ایک بار پھراسی سنگل ٹریک روڈسےاسلام آباد واپس آناتھاجوکہ خاصامصیبت بھراتھا۔مگرآج کےدن ان لوگوں کے کھلکھلاتے چہروں نےسب کوفت مٹادی تھی۔میں واپس گھرکی جانب گاڑی بڑھاچکی تھی۔سورج پہاڑوں کی چوٹیوں سے جھانکتااورسب کودوبارہ آنےکااشارہ دیتاآسمان کوحسین رنگ عطاءکررہاتھا۔


ہفتہ، 8 نومبر، 2014

بھوک




کڑوی کسیلی اوربکھری سچائیوں کو جوڑ کر بننے والی زندگی میں جو شے  پیدائش سے موت تک ساتھ رہتی ہے وہ بھوک ھے۔ بھوک کاادراک۔۔۔جبلت سے ضرورت تک کا سفراور "ھل من مزید" کی چاہ ۔ کھنکتی مٹی سےتخلیق کیا گیا انسان "بھوک" ماں کی کوکھ سے ساتھ ہی لاتاہے۔اس لمحے دنیا میں خالص ترین رشتہ بچے کو سینے سے لگائے خالص ترین غذا سے سیر کرتا ہے۔وقت سرکتا ہے تو پیٹ کی بھوک ضروت بنتی جاتی ہے کہ جب ماں راتوں کو فکر سے اٹھ کر انتظام کرنے کی بجائے میز پر سجانے لگتی ہے۔ معاشرہ، معاشی حالات، جینز اورتربیت یہ سب عناصرہر انسان کو بھوک کی مختلف انواع سے روشناس کرواتے رہتے ہیں۔بازار بھرا پڑا ہے۔جس کا جو مَن چاھتا ہے، جو طبیعت مانتی ہے اور جیسے وقت کی تربیت کے ہاتھوں مجبور ہوتا ہے وہ ویسی ہی "بھوک" چُن لیتا ہے۔ہاں مگر سب سے بڑی حقیقت پیٹ کی بھوک ہی ہے۔اس کے لیے انسان کیا کچھ نہیں کرگزرتا۔اس بھوک کو بھی وہی جانتا ہے جس نے پہروں نہیں زمانوں  جبر کیا ہو، میلوں پیدل چلا ھو کہ شہر کے فلاں کونے میں آج رات کا کھانا سستا مل جائےگا، اچھےکل کے انتظار میں آج بھوکا سویا ہو،کسی لنگر سےایک وقت کھا لیا ہو، پردیس میں کوئی ٹھیلہ تلاش کیا ہو۔یہ بھوک تو وہ بیوہ بھی جانتی ہے جس نےمرحوم شوہرکی آخری نشانی ایک انگوٹھی بیچ کر راشن لانے کی بجائےوہ رقم سرکاری کلرک کی ہتھیلی پر رکھی ھوگی تاکہ کسی طور پینشن کااجراء ہوجائے ۔
پیٹ کی اس بھوک کی "آہ"  کو تھر اور چولستان کی ماؤں سے بہتر کون جان سکتاہے۔ ماں کا کلیجہ کیسے منہ کوآتا ہوگا جب بھوک سے بِلکتا معصوم ہاتھوں میں جان اس خالق کے سپرد کر دیتا ہے جس نے اس بچے کا رزق ملک کے حکمرانوں کے ذمہ لگایا تھا۔دور کہیں قحط زدہ ملک میں بھوک پیاس سے بلکتا بچہ یہ نہیں جانتا کہ آج کس ملک نے اس کے حکمراں کے ساتھ "خوشحالی" کے کتنے معاھدوں پر دستخط کیے۔وہ جانتا ہے تو بس یہ کہ آخری بار جب کچھ کھایا تھاتو ماں نے اپنے حصےمیں سے بھی نوالہ بنا کر اُس کو کھلادیا تھا۔
یہ جو انواع و اقسام کے پھل، سبزیاں اور فصلیں رب سوہنے نے ایک "کُن" سے اُگا ڈالیں یہ سب پیٹ کی آگ ٹھنڈا کرنے کا ہی تو سامان ہے۔ہاں مگر غیرمنصفانہ تقسیم اوپر والے کی نہیں انسانوں کی بنائی ہوئی ہے۔ھزارہا قسم کےلوازمات، لاکھوں طرح کے کھانے۔۔۔ یہ تو اس بھوک کی پوجا کرنے کو ایجاد کرلیےگئے۔ میٹھا، کھٹا، گرم، ٹھنڈا، پھیکا اور تیکھا کیا کچھ نہ ڈھونڈ لیا انسان نے، مگر یاد رہے یہ پیٹ سے زیادہ زبان کی تسکین کا سامان ہے۔ قوتِ شامہ کے بہلانے کو آدمی کتنے جتن کرتا ہے کہ پیٹ کی بھوک کو بھی ملوث کر ڈالا ہے۔
 کہتے ہیں شہد،ریشم اورنفس۔۔۔بھوک انہی تین مرکبات کا مجموعہ ھے۔غور کیجیے تو انہی سے ذیلی شاخیں نکلتی ہیں۔شہد کےنام پرایک گھرمیں کتنی ہی اقسام کےکھانے پکتے ہیں۔ اور ریشم کی بھوک ہردو صورتوں میں عجب ہے۔ پیٹ کی بھوک کے بعد تَن کی بھوک شروع ہوجاتی ہے۔اس کو سنوارنا، نکھارنا اوراچھا لباس۔۔۔کِس کو چاہ نہیں ہوتی۔بعض اوقات اسی سے تونفس تک کی راہ نکالی جاتی ہے۔ پیٹ کی بھوک مٹاتا انسان اس نفس کے چنگل میں ایسا پھنستا ہے کہ جب گردن تک دھنس چکا ہوتا ہے، احساس ہی تب ہوتا ہے۔اور نفس کی بھوک ہی تو ہے جو اخبارات کی زینت کا ساماں ہوچکی ۔ایک بھوک نگاہ کی بھی ہے۔نفس ہی کی ذیلی شاخ ہے۔آنکھوں سے یہ انسان وہ کرگزرتا ہے کہ خمیازہ بھگتتے برسوں بیت جاتے ہیں۔اور کبھی دوسروں کیلیے تکلیف کے سوا کچھ راہ نکلتی ہی نہیں۔
حکمرانی کی بھوک نے انسان سے کیا کچھ نہ کروا ڈالا۔آج تک جنگیں چل رہی ہیں،نام مختلف رکھ دینے سے حقیقت تو نہیں بدل جاتی۔کتنے ہی "تاریک راہوں میں مارےگئے"۔مگریہ تخت وتاج کی بھوک بھی "تہیا تہیا" ناچنے پر مجبور کر دیتی ہے۔اسی بھوک نے سکندر کوآدھی دنیا کے بعدبھی سیر نہ کیا، اسی بھوک میں لوگ کبھی مخالف کومغلظات اور بہتان سے نوازتے ہیں اور کبھی اپنے چاہنے والوں کا مان پاؤں تلے کچلتے اسی مخالف سے بغل گیر ہوجاتے ہیں۔
دماغی بھوک کا بھی کوئی علاج نہیں۔ انسان کےسامنے دنیا ڈھیر کردیجیے مگر دماغ کی بھوک کیونکر مٹے۔ایسے لوگوں کو دنیا میں ہی عبرت بنا دیاگیا ہوتا ہے۔ انسان ہو یا جانور، توجہ حاصل کرنا کون نہیں چاہتا۔مسئلہ تو تب ہے کہ جب انسان اسے "بھوک" بنا لیتا ہے۔اسی اشتہا میں سنگھار بھی ہوگا، ہنسی اور روٹھنا منانا بھی۔جبلت میں مگر تکرار اور محض تنقید برائے تنقید کے علاوہ جھگڑنے کا عنصر بھی شامل ہو تو یہی توجہ کی بھوک دوآتشہ ہو جاتی ہے۔انسان یہ سوچنے کی صلاحیت ہی کھو بیٹھتا ہے کہ وہ کس منفیت کی جانب تیزی سے گامزن ہے۔اسے چاہیے تو بس زیادہ سے زیادہ لوگوں کی توجہ اور اس کے لیے وہ ہر حد پار کرلے گا۔
علم کیلیے کسی کو پیاس عطاء کردی گئی اور کئی ایسے بھی دیکھے جنہیں علم بھوک کی صورت لاحق ہوجاتاہے۔نصیب اور ظرف کی تقسیم ہے یہ بھوک اور پیاس بھی۔ وقت کا دائرہ تنگ ہوتا جاتا اور بھوک کی حدود بڑھتی جاتی ہیں۔ہر گزرتا پل اس جبلت کوضرورت اورپھر ناسور بناتا ایک نئی جہت سے متعارف کرواتا ہے۔ بھوک تو ایک ہی ہے،جو موت سے قبل اس خوابیدہ وقت کی واحد حقیقت ہے۔باقی تو بس ایک پردہ ہے جو ہوس اور تھکن کےسوا کچھ نہیں۔دیگر جو باتیں بھوک کی اقسام میں شمار کرلی گئیں وہ تو کچھ الگ ھی معاملہ ہے۔
بابافرید نے کیا خوب فرمایا

                     
پنج  رکن اسلام  دے ، تے چھیواں فریدا ٹُک

                     جے نہ لبھے چھیواں ، تے پنجے ای جاندے مُک

جمعرات، 23 اکتوبر، 2014

انقلابی حجرت کےبعدآزادصورتحال 2



مولوی عبدالشکور کی عظیم ھجرت کےبعدان کےپڑوسی اور چھوٹےبھائی کےدھرنے میں موجود لوگوں کی انفرادی و اجتماعی رائےپچھلےبلاگ میں بیان کرنے کی کوشش کی تھی۔اسی سلسلےمیں مزیدکچھ احتجاجیوں سےملاقات کرواتی ھوں۔
 یہاں میں قرض اتارناچاھتی ھوں اس چھوٹے بھائی کاجوB.Sc کاطالب علم ھےاورپارٹ ٹائم جاب بھی کررھاھے۔شناخت ظاہر نہ کرنےکی شرط پربتایاکہ کسی استعفیٰ کی خواہش میں نہیں آیا۔صرف تین مطالبات ھیں جن کاحل چاھتاھے 1:بجلی 2:مہنگائی 3:بےروزگاری
اور یہ کہ 4-3 روز سے آیاھے۔نرمی سے سمجھایاکہ اپنا مستقبل دہرنوں میں تلاش نہ کرے اورواپس جاکرتعلیم میں دل لگائے۔یہ واحدبچہ دیکھاجس کےمنہ میں پان یاگٹکہ نہ تھا۔آنکھیں پیلی ھورھی تھیں۔پوچھنےپرشک درست نکلا کہ ہیپاٹائیٹس ھے۔

کل ایک سکھ بھائی کاذکرکیا تھا۔سوات سےآئے بلدیوکمارہمارے سینیٹرامرجیت ملہوتراکےکزن ھیں۔پہلےتو انہوں نےسیدھی بات کی کہ بخوبی اندازہ ھے استعفیٰ کا معاملہ کسی طور حل نہ ھوگا، مگران کی رائے ھےکہ حکومت پر پریشربنائےرکھناھے۔انہیں ڈاکٹرسورن سنگھ سےبھی کوئی شکایت نہیں۔اورچاھتے ھیں کہ ملک بہتری کی جانب گامزن ھو،چاھےکوئی بھی قیادت آئے۔اور یہ مانتے ھیں کہ تمام توانائیاں اس دھرنےکی نظرکردینےسے ان کا صوبہ کہیں "بیک گراؤنڈ"میں چلاگیاھے۔جوکہ اب صرف جلسےکی رونق بنائےرکھنےکیلیےافراد کی تعداد پوری کرنےکی مشین بن چکاھے۔شیخ رشیدکےبارے ان کی رائے بھی باقی شرکاءسےمختلف نہیں۔ہاں مگرایم-کیو-ایم کیلیےفرماتےھیں کہ خان اب مجبورھوگیاھے،یہ کہتے ایک مثال یہ دی "دیکھوباجی۔۔۔ام کوایک چوہاچاھیےجواس بند دروازےکوکترےاوراپنےساتھ ساتھ ہمارے واسطےبھی راستہ نکال لے۔" دریافت کیاکہ کیااب "ٹائیگرز" کو چوھوں کی مددلینی ھوگی توکھلکھلاکرھنس دیےاوراپنی بہن کہتےیکدم سر پرہاتھ رکھ دیا۔رابطہ نمبرجھٹ لکھ کردیا۔کبھی رابطہ ضرورکروں گی کہ پوچھوں اپنی جس لاڈلی بیٹی کوتھیلیسیمیا سےلڑنےکوچھوڑ آئے ھیں وہ ان کو یاد کرتی ھے کیا۔
                                                              

میں نے جب کچھ باتیں سکھ مذہب بارے کیں تواتنا خوش ھوئےکہ حیران رہ گئی۔مگراس دوران وہی رضاکار تنویراحمد پھر گفتگومیں کودےاورمجھےتبلیغ کرنےلگےکہ "آپ کوشرم آنی چاھیےسکھوں کےبارےمیں اتناجانتی ھیں،کبھی قرآن بھی کھول لیاکریں۔ترجمہ پڑھاھےکبھی؟"
بلدیوکمارتھوڑا پریشان ھوگئے۔میں نے نرمی سے جواب دیا "بھائی الحمدللہ سمجھ کرپڑھتی بھی ھوں"
کہنےلگے"کبھی عمل بھی کرنےکی کوشش کیجیے۔" اللہ کی رسی مظبوطی سےتھامنےکی تلقین شروع کردی۔ میں اب ان محترم کا مسئلہ سمجھ چکی تھی۔ اس لیے بلدیوکمارسےاجازت چاھی اوران کو کہاکہ ایک تصویرھوجائےتوفٹ پوزبنائےکھڑےھوگئے۔ڈھنگ کی بات کرنےکوایک نہیں تھی۔آئیں بائیں شائیں۔ نہ تو کچھ سیاست بارے علم اور نہ ھی ماضی وحال سےواقفیت۔ تعلق لاہور سے ھےاورکام کاج کچھ نہیں کرتےالٹا فخرسے گردن تانے فرماتےھیں کہ 3 بھائی ھیں وہ گھرچلاتےھیں میں نے اپناآپ پارٹی کی خدمت کیلیے وقف کردیاھے۔معلومات میں اضافہ کیا کہ لاہورسے12-10 بسیں بھرکرلائی گئی تھیں مگر جب میں نے دیگر باتوں کے دوران جائزہ لیا تو خود ھی سچ اگل دیاکہ 5-4 لڑکےھی رھ گئےھیں باقی لوٹ چکے۔
کج بحثی میں ثانی نہیں رکھتے۔ماماقدیرکی بات پرپتنگےھی لگ گئےکہ ان کے پنجابی لیڈرکوگالی نہ دوں۔دریافت صرف یہ کیاتھا کہ"میراکوئی بلوچ بھائی آپ کی طرح اپنا حق مانگ سکتاھے؟" جواب تھا "آپ جیسے بلوچ ھیں جوناقدری کررھےھیں۔ورنہ خان صاحب جیسالیڈر توصدیوں میں پیداھوتاھے۔"
انہوں نے مجھےوہ تاریخی جملہ بھی سنایا "عمران خان تو جناح کی بہتراور ماڈرن صورت ھیں۔" اس کےبعدمزید کچھ سننےکہ ہمت نہ رھی۔صرف اتنا کہہ کر اجازت چاھی کہ "بلوچ"اور "جناح" کواستعمال کرنےسےپرہیزکیجیے۔
                                             
                                                                     

اگرچہ ٹانسلزکےمسائل کی وجہ سے "تلسی"نامی سونف سپاری نہیں کھاسکتی مگراسی کےبہانےایک "دکان"کی جانب بڑھی۔یہاں اوکاڑہ سے آئے ایک لڑکےنےبتایاکہ پہلے چھوٹابھائی آیاتھامگریہاں کی چکاچوندرونق نےاتنا متاثرکیاکہ بڑےبھائی کوبھی بلوالیاتاکہ مل کر پان،سگریٹ اورنسواروغیرہ کا "کھوکھا" لگاکربچت ھی کریں گے۔اس لڑکے نے سیدھی بات بتائی کہ زیادہ ترشرکاءاسی "فلسفہءحیات" پردھرنابسر کررھےھیں کہ کھانا،رہائش مفت ھے۔شام کو رونق میلہ ھوجاتاھےاور گھروالےبھی راضی ھیں ان نکھٹوؤں سےجان چھوٹی ھوئی ھے۔
تنویر صاحب پھرپہنچ گئےاورمسلسل یہی پوچھتےرھےکہ "آپ "جیو" سے ھیں؟" میں نےسختی سے انکار کیا تواسی محسن کمال خان کوآنکھ سے اشارہ کرکےغائب ھوگیا۔وھی صاحب جو "گوقادری گو"کے نعرے لگارھےتھے۔

                               
ایک صاحب آگے بڑھےاورمدعابیان کیاکہ کس طرح قادری نے ان کی امیدوں کو توڑا۔فیصل آباد سےتعلق رکھنے والے علی نے بتایاکہ 2000ءسے "عوامی تحریک" سے وابستہ تھےاور "قبلہ" سے اتنی الفت تھی کہ ان کیلیے ہاتھوں سےراستہ صاف کرتےتھے۔اور 2007ء-2005ء کےدوران فیصل آباد میں صدقات وخیرات کی رقوم کے معاملات بھی دیکھتےرھے۔مگر21اکتوبرکی رات جس لمحےواپسی کا حکم صادر ھواتودل ٹوٹ گیا۔اور ان کو ایسا محسوس ھوا کہ "جیسے "قبلہ" نے ماڈل ٹاؤن کی 14 لاشوں کواپنےسیاسی کیرئرپر قربان کردیا۔"انہوں نے مزید بتایاکہ "آپ کا میڈیا "فلاں" ھےجوکسی ایک نے بھی وہ منظرنہ دکھائےجب ہماری خواتین چپل اٹھاکرقادری کودکھارھی تھیں اور کچھ ان چپلوں سے زمین پیٹ رھی تھیں۔" میں نے کہا ہمیں تو بس "نم آنکھیں" ھی دکھائی دیں تو موصوف کے الفاظ تھے "بہنا،ان کے معاملات کچھ اور تھے۔"بہرحال جناب ان صاحب کو اب خان صاحب کی شکل میں مسیحامل گیاھےجوآزادی کےساتھ ساتھ انقلاب کے اڑن کھٹولےپر بھی سواری کروائے گا۔

                   


گجرات سے تعلق رکھنےوالےمحمد معظم کوآئےابھی 5 روز ھی ھوئے۔علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی سے "ماس کمیونیکیشنز"میں ایم-اے کرنےکی کوشش کررھےھیں۔ان صاحب کا کہناتھا کہ قادری صاحب نےان کے آنےکی بھی لاج نہ رکھی اوربنااپنی عوام سے مشورہ کیے چلتےبنے۔مزید یہ کہ "محرم الحرام کابہانہ کیوں بنایا جبکہ یہ تو حق و باطل کی جنگ کا مہینہ ھے۔اور ہم بھی حق پرھیں۔"قبلہ" نے فرمایاتھا حکومت باطل ھے،تو جنگ مؤخرکیوں کردی۔"بس اسی شش و پنج میں علی کے ہمراہ اپنے "روحانی چچا" سے رجوع کیاھےکہ وہی کوئی تدبیرکریں گے۔

             
ان کے بعد جن زخمیءانقلاب سے بات چیت ھوئی وہ بھی گجرات سے "قبلہ" کی پکارپرلبیک کہتےآئے۔وہاں کسی پرائیویٹ ہسپتال میں رسیپشنسٹ کی نوکری کرتے ھیں۔پہلے15 دن کی چھٹی لےکرآئےتھےمگر اب 70روزھوگئے۔ خالی ہاتھ واپس جانےپرگھروالوں کا سامناکرنےکی ہمت نہیں ہے۔دل تو چاھتا ھےکہ ان کی گفتگو کی وڈیوھی پوسٹ کردوں۔مگر۔۔۔۔۔خیرسوباتوں کی ایک بات یہ کہی "جب شروع میں ہم سے مطالبات ماننےپرمذاکرات ھورھےتھےتو "قادری صاحب" کوضدنہیں دکھانی چاھیےتھی۔کم ازکم کچھ توحاصل ھوتاجوہم دوسروں کوبتانےکےقابل ھوتے۔ہمیں 100 پیازبھی کھاناپڑا اور ڈنڈےبھی برسے۔" یہ بھائی صاحب جب بول رھےتھےتو وھی محسن کمال خان بلندآوازمیں "گوگوپان مصالحہ" بیچتےجیونیوزکی شان میں قصیدےپڑھ رھاتھا۔میں نے دوبار دھیمےلہجےمیں بولنےکوکہاتو جواب دیاگیا "ام کوتوپہلےای شک تھا۔تم ان کی ھی چمچی ھو۔"سوچ کالیول اور جیوکابخار۔خان صاحب کی تربیت کا معیار بس یہی ھے۔خیر محمد معظم نے مزید بتایاکہ اس گندگی کے ڈھیرمیں رہنابہت مشکل تھا۔"چِلّہ بھی 40 روز کاھوتاھےمگرقادری صاحب نے تودُگنےدن لگوادیےاور شہبازشریف تک کااستعفیٰ نہ لےسکے۔"

                 

         
قصہ مختصروہاں موجود ایک اور سابق انقلابی اور حالیہ آزادنے کہاکہ "قبلہ" نے "جانوں کو تکلیف میں مبتلا رکھا اور کٹھ پتلی کی طرح نچاکرہمیں ڈرامہ کرنےپرمجبور کردیا۔"
ایک اور صاحب نے شناخت ظاہر نہ کرنےپرکہاکیاکہ آپریشن ضربِ عضب سےحکومت ومیڈیاکادھیان ھٹانےکیلیےیہ ایک بہترین ڈرامہ تھا جو قادری نے پیش کیا۔ان صاحب کویہ تو احساس ھےکہ معیشت تباہ ھورھی ھےمگر یہ بھی کہتے نظر آئےکہ ان دھرنوں سے حکومت کےہاتھ پارلیمنٹ نے مظبوط کردیےھیں۔میں نے کہا کہ "جب آپ کویہ سب احساس ھےتو کیوں موجود ھیں؟" فرمانے لگے "باجی باہرخرچہ بہت ھےاورسیدھی بات ھے یہاں رہائش اور کھانےکابندوبست ھے۔میں کچھ مزدوری کرکےبچت کررھاھوں"
حیرت ھے کہ ہمارا میڈیا ان مجبوریوں میں پسے لوگوں کوانقلاب کےسپاہی گردانتاھے۔اورنیاپاکستان کے متلاشی اسے آزادی کانام دیے ساراوقت سوشل میڈیا پرمغلطات سے نوازتے رھتے ھیں۔ان کی ذہنی سطح کومدّنظررکھتے اب توہمدردی ھونےلگی ھے ۔جس قوم کا لیڈرسوائے نفرت اور تعصب کےکچھ سکھانےسے قاصرھواس کا "تابناک" مستقبل کون چھین سکتاھے۔

                       
               
حلقہ این-اے 49 سے سابقہ آزاد امیدوار "راجہ اورنگ زیب خان" صاحب بھی اسی دھرنےمیں موجود ھوتےھیں۔اسلام آباد کےرہائشی پریس کلب کےسامنےان کے احتجاج کے منفرد انداز سے پہچانتےھیں۔کافی معقول باتیں کررھے تھے۔ان کی جھونپڑی پر قبضہ کرلیاگیاتھا۔مگر میرے اردگرد اچانک شوروغُل بڑھ چکاتھا۔خطرےکی بو محسوس ھوئی توچیزیں سمیٹنےلگی،اس دوران صرف اتنی بات کان پڑی کہ راجہ اورنگ زیب کی زندگی میں کمائی صرف 3 چیزیں ھیں 1:میگافون 2:چادر 3:سفیدجھنڈا

     

ان سےابھی بات چیت جاری تھی کہ دوصاحبان "سفاری سوٹ" میں ملبوس مجمع کوچیرتے آگےبڑھے۔ان کے ہمراہ وہی نکھٹورضاکار اور محسن کمال تھے۔آتے ھی دو لڑکوں کو تھپڑ رسید کیےاورمجھےکہا پریس کارڈ دکھائیں۔میں نے کہاکہ میں نے تواپنا تعارف قطعاً صحافی کے طور پرنہیں کروایا۔صاحب نے میراموبائل چھینااور آئی ڈی کارڈمانگا۔مگر جب میں سکون سے کرسی پر بیٹھی رھی توکہنےلگےکس ایجنسی سے ھیں۔اُف۔۔۔۔۔۔ لیول چیک کیجیے۔اوراسی اثناءمیں بہت سے لوگ کہنےلگے"آزادئ رائےپرخان صاحب بھی تو بولتے ھیں،آپ مت تنگ کیجیے" اس بات کا غصہ یہ نکالا کہ اورنگ زیب صاحب کودھکادےکر کرسی سے اٹھایااور ایک لڑکے کوگریبان سے پکڑکردھکیلاکہ کوئی شخص ایک لفظ نہیں بولےگااس خاتون کےسامنے۔

                                       

خان صاحب برامت مانیےگامگر آپ کا پرسنل سکواڈ بھی لگڑبگڑ ھی ھے۔افسوس دماغ ان کےپاس بھی موجود نہیں۔یہ تصویرکچھ روزپہلےہی کھینچی تھی تب علم نہیں تھاکہ اس "بہادرنوجوان" کےہاتھوں سےموبائل چھینناپڑےگا۔اب آپ مجھےبھی اپنے "دوپٹے"سے پھانسی دیجیےکہ ان صاحب کی تصویرلگادی۔
میں نےاپنا شناختی کارڈ نکال کردکھاناچاھاتو جھپٹ کراپنی مٹھی میں بند کرلیا۔اور فون ملا کر کسی نیازی کو آنےکاکہا۔دوسرافون کنٹرول روم کیا۔اس دوران کہتی رھی کہ میرا کارڈ لوٹایے۔جواب دوسرا "کاکاشپاہی"دیتارھاکہ "سب ڈیلیٹ ھوگا۔جراءت کیسے ھوئی بنااجازت اندر گھسنےکی۔"غصہ شدت اختیارکرگیااور میں اپناشناختی کارڈ انکےھاتھ سے چھین کرتیز قدموں کنٹینرکےساتھ کھڑی گاڑی کی جانب بڑھ گئی۔یہ صاحب نہ جانےکہاں کہاں فون ملارھےتھے۔اورہمارا ریٹنگ کابھوکامیڈیا تماش بین بنےاپنےاپنےکیمرےسیٹ کرنےمیں مصروف ھوگیا۔منتظرتھےکہ بریکنگ نیوز مل گئی بس۔
میں نے جونہی گاڑی سٹارٹ کرکے ریورس کی،عمرانی "گوریلافورس" کانمائندہ گالیاں نکالتاآگےبڑھااور فرنٹ ڈورکھول کر چابیاں نکال لیں۔اورکہنےلگا "خان ھی فیصلہ کرےگااب تمہاراکیاکرنا ھے۔نہیں توجوفوٹو اور وڈیوبنائی ھیں سب ڈیلیٹ کروہمارے سامنے۔" میری برداشت اب ختم ھوچکی تھی تھپڑ رسید کیااورچابیوں کاگچھہ ھاتھ سےنکال کرکہا کہ "اب یہ حرکت مت کرنا،آپ دھرنےوالےاپناتماشہ خود بنوالوگے۔" ان صاحب کی پچھلےہفتےکی تصویربھی میرےفولڈرمیں محفوظ ھے

     


اور قربان جاؤں میں اپنےآزاد میڈیاپرکہ وہ مجمع کوچیرتےکیمرے لہراتےآگےبڑھ رھےتھے۔ابھی گاڑی دوبارہ سٹارٹ کی تودوسرا "کاکاسپاہی" اپنےسےپہلےکی پیروی میں دروازہ کھول چکاتھا۔میں نے غصہ سے گھوراتوان کے سرغنہ کی آوازآئی۔"جانےدو،سبق کافی ھے۔"اور میں نے جب گاڑی موڑی تووہ صاحب واکی ٹاکی ٹائپ کسی بلاپرمیری گاڑی کا نمبرنوٹ کروا رھےتھے۔نتیجہ یہ نکلا کہ ایک ٹیوٹا آبپارہ تک دم ہلاتی پیچھا کرتی رھی۔مگروہاں رش کافی تھا سو۔۔۔۔۔۔اپنا راستہ ناپتےناکامی ھی ھوئی۔

یہاں آپ کو ہماری غیور،بہادر اور سمجھدار عوام بھی دکھاتی چلوں۔یہ سب لوگ میری گاڑی کو یوں حصار میں لیے کھڑے تھےجیسے امام بری سرکار کےباہر لنگرکیلیےکھڑےھوں۔اور مجھے یہ بھی یقین ھوا کہ ہم ایک تماش بین قوم ھیں۔مگرتب تک ہی کہ جب تک معاملہ اپنی بیٹی یابہن کا نہ ھو۔

                 







خیر۔۔۔۔۔۔ میں تواللہ پاک کےفضل سےبخیریت گھرپہنچی۔اورآج اس سلسلےکادوسرابلاگ بھی مکمل کرلیا۔آپ کیلیے 
دعاھی ھےکہ دوا کا اثراس بیماری میں نہیں ھوتاجس میں آپ مبتلاھیں۔اللہ آپ کو "ایاک نعبدو وایاک نستعین" سے آگےبھی سکھائے۔یقین مانیے آپ کا اصلی ووٹراور سپورٹرآج بھی یہی کہتاھےکہ آپ اپنی توانائیاں خیبرپختونخواہ پرلگایےتاکہ مجھ جیسےبھی آپ کی تعریف لکھنےپرمجبور ھوجائیں۔اور یہ میراوعدہ ھےجس دن میراخیبرپختونخواہ ایک رول ماڈل نظرآیا،بناکسی بخل کےسب لکھوں گی۔مگرآپ موقع تو دیجیے۔اوراپنےچاھنےوالوں کونفرت کی فصل کی بجائے کچھ تعمیری سوچ دیجیے۔

انقلابی ہجرت کےبعدآزادصورتحال



٢١ اکتوبر٢٠١٤ء کومولوی عبدالشکورنےاسلام آبادسےکوچ کا اعلان کیاتوبہت سےچہرےکِھل
 اٹھےاورکچھ آنکھیں بھیگ بھی گئیں۔اگرچہ یہ ایک ایسااعلان تھا جس کے بارےاکثریت کافی روزسےمنتظرتھی۔آپ کچھ بھی کہیےمگرقادری نےثابت کردیاکہ موصوف ایک سابق کرکٹرسے بہتربصیرت رکھتےھیں۔کہنےوالےکہتےھیں کہ قادری کےایک یو-ٹرن نےکسی کی ساری محنت پرپانی پھیردیااورریکارڈاپنےنام کیا۔شایدماضی کاتجربہ بھی تھاکہ ٹھنڈشہرِاقتدارمیں بڑھتی جارھی ھے۔

میرامسلہءقادری کا یو-ٹرن نہیں ھےکہ اتنی سمجھ تو ھے"سیاست میں حرفِ آخرکچھ نہیں ھوتا" بس جاننایہ چاھتی تھی کہ اس عظیم ھجرت کےبعدکزن دھرنےکاکیاحال ھے۔22اکتوبرکی سہ پہرجب گاڑی خان صاحب کے کنٹینرکےعقب میں پارک کی توحالت کافی نازک معلوم ھوئی۔وہاں پربکھرےانقلاب کی داستان پھرکسی بلاگ کیلیے اٹھارکھتی ھوں۔بس اتناذکرکیےدیتی ھوں کہ بارہ سےپندرہ خیمےاکھاڑ کرعمرانی دھرنےکی جانب منتقل کیےجارھےتھے۔دریافت کرنےپر علم ھواکہ ان خیمہ زن معصوم لوگوں کو14لاشوں کی سیاست ایک آنکھ نہ بھائی تھی۔اوروہ اپنےقبلہ کےیوں پیٹھ دکھاکرانقلاب حاصل کیےبنااورشہادت کےمرتبےپرفائزھوئےبغیرالوداع کیےجانےپردل گرفتہ تھے۔ جس پرچھوٹےکزن نےدلاسادےکران انقلابیوں کوسایہءشفقت میں لےلیاتھا۔
وہاں سےآزادکنٹینرکےسامنےلگےپہلےخیمےکی جانب بڑھی تووہ اسلام آباد کےانقلابی تھےجوکہ سامان باندھے،کچھ مالِ مسروقہ چھپاتےواپسی کی تیاری میں تھے۔قدم آگےبڑھادیے۔پہلی ملاقات مانسہرہ سے تعلق رکھنےوالے وکیل احمد کاوش سےھوئی۔سعودیہ میں ویلڈنگ کاکام کرتے ھیں اورچھٹیاں گزارنےپاکستان آئےتھےکہ نیاپاکستان کی نوید سنی توڈی-چوک آپہنچے۔مزید یہ کہ 2بارچھٹی میں توسیع کروا چکے۔انہیں اعظم سواتی صاحب لائےتھےاورکل افراد کی تعداداٹھارہ تھی۔مگراب اس گروپ میں یہ اکیلےھی بچےھیں۔ان صاحب کوبخوبی علم ھےکہ استعفیٰ نہیں ملےگا،مگرفرماتےھیں کہ خان کوکیسےاکیلاچھوڑجاؤں۔(جیسےکہ وہ بچےھیں اوراکیلےمیں ڈرجائیں گے)۔۔۔۔۔۔امریکہ جاناچاھتےھیں ہاں مگرمانتےھیں کہ پاکستان میں سب مسائل کی جڑیہودی امریکہ ہی ھے۔

                                    

ان کےپاس بیٹھے جانسن بابرسیالکوٹ سے تشریف لائےھیں۔جےسالک نےانہیں یہاں دوماہ سے ٹہرارکھاھے۔پہلےبتایاکہ 3000 لوگ ان کےساتھ موجودھیں۔اس شاندارجھوٹ پران کاساتھی کاوش بھی قہقہہ لگاکرھنس دیا۔میں نے ملنےکی درخواست کی تو کہنےلگےیہں کہیں ھوں گےاوریہ کہ دھرنےمیں صفائی (جوکبھی نہ دیکھی) کیلیےھی جےسالک سے درخواست کی گئی تھی انہیں لانےکی۔ویسےیہ موصوف استعفیٰ،نیاپاکستان یاخان سےکوئی سروکارنہیں رکھتے،بس کوئی سرمایہ کارمل جائےجوان کو سرجیکل اوزاروں کی "کمپنی"کھول دےکہ محترم کا 25سالہ تجربہ ھے۔اوربقال ان کے اکیلےھی ساری "کمپنی" سنبھالنےکی صلاحیت رکھتےھیں۔

             



ان کے ساتھ ھی اور آزادکنٹینرکےبائیں جانب ڈی-آئی خان سےآئےمحمدجاویدچائےکاسٹال
لگائے ایک مہینہ سےبیٹھےھیں۔اور یقین مانیےسیاست کی سمجھ ہمارےہاں ایک سیاسی پنڈت مانےجانےوالے "قربان" صاحب سےکہیں بڑھ کرھے۔بارہ کہومیں چائےکاسٹال تھامگراب دھرنےمیں روزی روٹی کیلیے آناھوا۔شیخ رشیدکےبارےمیں ان کےتاثرات جان کرایسامحسوس ھواکہ نصرت جاویدصاحب کو غورسےفالوکرتےھیں۔اوران کویہ بات پہلےدن سےپتاھےکہ خان صاحب غلط ضدپکڑبیٹھےھیں۔استعفیٰ نہیں آنےکا۔مگر"خان مجبورھےکہ اگریہاں سے اٹھاتو ووٹراور ورکرخراب ھوجائےگا۔" مزیدیہ کہ چاھتےھیں نیاخیبرپی-کے بنےتاکہ فخرسےاپنےپنجابی بھائیوں کوبتاسکیں۔میں ان کےخیالات اورمہمان نوازی سےبہت متاثرھوئی۔

     

یہاں وقاص خان مروت سےملاقات ھوئی جو لکی مروت سے اکیلےآئےھیں۔اورخان صاحب کی ضد  اورآئےروز یو-ٹرنزسےنالاں ھیں۔کام چونکہ کچھ نہیں کرتےتوکم از کم دھرنےمیں کھانےکی ٹینشن نہیں۔ان کی رائے تھی کہ لیڈرنےتمام تر توانائیاں دھرنےمیں لگاکرخیبرپختونخواہ کومکمل نظرانداز کررکھاھے۔مزید کہناتھاکہ قاسم اور سلمان تو شہزادےھیں،باپ کےخون کااثرھوگااور ایک دن وہ پارٹی کی باگ ڈور سنبھال لیں گے۔

                             

اس دھرنےکی حیران کن بات یہ ھےکہ یہاں وہ لوگ بھی وجودھیں جنہوں نے زندگی میں کبھی ووٹ کاحق استعمال ھی نہیں کیا،ہاں مگرنیاپاکستان چاھیے۔ایسی ایک مثال لاہورباغبان پورہ کےرہائشی محمدشبیرھیں۔40 دن سےدھرنےمیں خاندان سمیت موجود تھے،مگراب بیوی صاحبہ بچےلےکولوٹ گئی ھیں۔تھوڑاکریدنےپربتایا دھرنےمیں کھاناپینااور رہائش فری ھےتواسی لیےآئے۔پوچھاکہ اب تو آپ یہاں ھیں لاہورمیں گھروالوں کا پرسانِ حال کون ھے؟ توجواب آیا "اللہ وارث ھے۔"

                                   

صفیہ بی بی اور فرحت میانوالی سے تشریف لائی ھیں۔اگرچہ فوٹو بخوشی بنوائی تھی اور اجازت بھی دی استعمال کرنےکی مگرمیں خان صاحب کےخاندان کی قابلِ احترام خواتین کی شان میں گستاخی نہیں کرسکتی۔خاندان یوں کہ یہ بھولی خواتین نہایت فخرسےبتاتی ھیں کہ خان صاحب کی امی اور ان کی ساس فرسٹ کزنز تھیں۔اکرام اللہ نیازی ان کے سسر کا سگاخالہ زاد تھا۔یہ بھی بتایاکہ فلاں بہن کاگھرہمارے دروازےکےساتھ لگتاھے۔میرا سوال صرف یہ تھاکہ کیا خان کی سگی بہنیں آپ کےساتھ اس خیمےمیں قیام پذیر ھیں؟ توبہت معصوم جواب تھاکہ "بیٹاان کےگھرھیں نا شہرمیں توکیوں تکلیف دیں۔"ہائے میری قوم کی بھولی مائیں۔

  کراچی سےآیاطلحہ اڑھائی سال سے اسلام آبادیں موجودھے۔پان،گٹکہ کاشوقین یہ بچہ ووٹ کی اہمیت ابھی سمجھ نہیں سکا،تواس کا استعمال بھی ضروری نہیں جانا۔ہاں مگر 13اگست سےنیاپاکستان کی جدوجہدمیں مصروفِ عمل ھے۔حکمرانوں اور کنٹینرکےباسیوں سے درخواست ھےکہ یہ بچےہمارامستقبل ھیں،ان کی صحت اور سوچ کی سمت پر دھیان دیجیے۔

                           
ّ
دس لاکھ کےاس عظیم دھرنےمیں مجھےصرف ایک ایساشخص ملاجوخیبرپختونخواہ حکومت کےکارناموں پرزمین وآسمان کےقلاپےملارھاتھا۔کرک سے نورحیات خان اس لیے دھرنےمیں آئےکہ ایک روزرات کےدوبجےوالدہ کی طبیعت ناساز ھوئی توسرکاری ہسپتال میں ڈاکٹرڈیوٹی پرموجود تھا۔میں واقعی ان کی اس بات سےقائل ھوئی۔ہاں مگراگلی بات پرھنسی آگئی کہ "دیکھوباجی،اگرکوئی وہاں کرپشن کرتاھےتواس میں ہمارے لیڈرکاقصورنہیں۔اس کا دامن معصوم بچوں کےمافق صاف ھے۔"

                           

راشد محمودصاحب اسلام آبادسےتعلق رکھتےھیں اورگاڑیوں کےرنگ روغن کاکام کرتےھیں۔خودنہیں جانتےکہ کیوں زندگی خوار کردی ھےاس عمرانی دھرنےکی محبت میں۔میرےاصرارپر فرمانےلگےکہ "میراپونے300کنال رقبہ CDA کےقبضہ میں ھے،وہ خان صاحب نےوعدہ کیاھےچھڑوادیں گے"۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اللہ اکبر

                   

حیران ھوں کہ ہمارا "vigilant" آزاد میڈیاکس انقلاب کا دعویدارھے۔اورمایہ نازاینکر/صحافی کس تبدیلی کی شان میں قصیدےپڑھتے  پرائم ٹائم گزارتےھیں۔دکھ ھوتاھےاس قوم کی ایسی حالت پرکہ جب زندگی میں ووٹ کااستعمال نہ کرنےوالےخاندان محض اس لیےاس قافلےکاحصہ بنےکہ گھرکےکرائےاوربلوں سےنجات حاصل ھوئی جبکہ کھانابھی مفت مل رھاھے۔من حیث القوم ہم سست الوجوداورمحنت سےجی چرانےوالے بن چکےھیں۔یہ سمجھتےھی نہیں کہ قسمت کوئی لیڈرنہیں بدلےگابلکہ انفرادی واجتماعی سطح پراپنےزورِبازوسےبدلی جائےگی۔

سوات سےرفیع احمد 14اگست سےنیاپاکستان حاصل کرنے کےواسطےشریک ھیں۔موصوف وہاں جوتےکی دکان پرکام کرتےتھے،مگرآزادی کی تڑپ میں اس روزی کوٹھوکرمارکرآگئے۔ارادہ ھے کہ اسلام آبادمیں مستقل سکونت اختیار کی جائے۔خان صاحب سےگلہ یہ ھےکہ آج کل غریب کی آوازبلند نہیں کررھے۔جبکہ دوسروں کےاثاثہ جات کاحساب مانگنےمیں مصروف رھتےھیں۔




کراچی سے سہیل صاحب بھی اس دھرنےکاحصہ ھیں۔اورپارٹی کی "کراچی کوورکمیٹی" کا حصہ ھیں۔فوڈسپلائی جیسی اچھی خاصی باعزت حلال روزی کولات مارے11اگست سےآزادی و تبدیلی کاخواب سجائے گھرسےنکلےھوئےھیں۔میں نےدریافت کیاکہ عنقریب اگراس کنٹینرپرآپ کوMQM قیادت دکھائی دےتوکیاکیجیےگا۔جواب تھا"شیخ رشیدنےجوکہناھےخان صاحب نے آمین کہ ڈالنی ھے۔ہم توورکرزھیں،ہماری کیاحیثیت؟" باقی کے خیالات نہ ھی بیان کیےجائیں توسب کی صحت کیلیے بہترھوگا۔ہاں مگرگھروالوں کی مالی اعانت کےسوال پروھی جواب تھا"اللہ مالک۔"
                                   

مالاکنڈسےآیا فرہاداللہ سعودیہ میں سروئیر ھے۔اورآج آزادی کی جدوجہدمیں اس کاپہلادن تھا۔ادھراُدھرکی باتوں میں جائزہ لیاتونتیجہ یہ تھاکہ چھٹی پرپاکستان آیاھے،اسلام آباد اورمری دیکھنےکاشوق ھےتوچلاآیا۔اور کہنےلگا "انقلاب آئےگاباجی۔"۔۔۔میں نےکہاانقلاب والےتوگئےاب آزادی کیلیے دعاکردوں۔ھنس کرآگےبڑھ گیا۔

                         

اس دوران محسن کمال خان کی آمدھوئی۔بتایاگیاکہ جی یہ اس دھرنےکےہیروھیں۔31اگست سےجیل میں تھےآج ہی رہائی ملی ھے  ۔کراچی UC-6 سےوائس پریزیڈینٹ ھیں۔قادری صاحب کی شان میں وہ قصیدےپڑھےکہ ایک رضاکارکواشاراتاًخاموش کرواناپڑا۔"گوقادری گو" "کہاں گیاجراءت و بہادری۔۔طاہرالقادری" کےنعرےفضاءمیں بلندھوئےتوسب ھی حصہ ڈالنےآگےبڑھے۔ان کےالفاظ تھے "قادری صاب بولاکہ خان صیب کزن اے،لوگ دشمن کیساتھ بھی مشورہ کرتااے۔انہوں نے تواس قابل بھی نہ جانا۔غریب عوام کویہاں ہمارےآسرےچھوڑکرچلاگیا۔5سال استعفیٰ نہ ملا ام بیٹھااے۔" کسی نےکہا "چل یار بس کر۔" توغصہ میں مزیدسچ اگلنےلگا۔ایک بھائی نےدوسرےکو سرگوشی کی "آج کا ٹوٹا نہیں سلگایااس نے،جبہی پاگل ھورھاھے۔" ہم نےسنی ان سنی کرنےمیں عافیت جانی۔

                                          

یہاں تنویراحمد نامی رضاکارہرکسی کی بات میں لقمےدےرھاتھا۔اس اثناءمیں کافی ھجوم اکھٹا ھوچکاتھا۔میں بہانے سےکہتی بھی رھی کہ آپ اپنا کام کیجیے بھّیا،جب کچھ پوچھناھوگاآجاؤں گی۔مگرکچھ لوگ آگے بڑھےاوربتانےلگےکہ ہم بتانا چاھتے ھیں قادری نےہم پرکیا ظلم ڈھادیاھے۔مجھے شک گزرا کہ خان صاحب کے کنٹرول روم کے2 بندےجائزہ لےکرگئےھیں۔میں جلدی جلدی کام ختم کرکےواپسی چاھتی تھی۔مگرجب لوگوں کےشکوے شروع ھوئےتو سمیٹنامشکل ھوگیا۔ تنویرصاحب کےکارنامے،خان صاحب کےپرسنل سکواڈ کی بیہودگی اوروہاں کھڑےکیمرہ مین کی بےحسی بیان کرنےکیلیےمجھےایک بلاگ مزید لکھناھوگاکہ ابھی ضبطِ تحریرلانامشکل ھے۔اوریہ بتانا بھی ضروری ھے کہ یہاں ایک سکھ بھائی سے ملاقات ھوئی جن کا ذکر کل کروں گی۔


میری تلاش جاری رھےگی کہ آخرکونسی تبدیلی کا راگ الاپتےہمارےالیکٹرانک میڈیاکا گلا سوکھتاھے۔اوروہ کونےکھدرےجہاں پاکستان کا مستقبل پھونک کردھوئیں میں اڑایاجارھاھے۔ کیونکرکسی کیمرہ مین کی دسترس میں نہیں آسکتے۔کونسی Youth ھےجونئےنئےناموں سے متعارف کروائی جاتی ھےاورمیری بصارت دن کےاجالےمیں اسےکھوجنےسےقاصرھے۔

                        (جاری ھے)

اتوار، 19 اکتوبر، 2014

ڈی-چوک کی انقلابی درس گاہ


                                          
تحریرسےقبل واضح کردوں کہ استاد کا احترام اورمقام مجھے بہت عزیزھےمگرکچھ معاملات میں جب وہ اپنا فرض نبھانےکی بجائے معصوم ذھنوں میں نفرت کےبیج بوتےھوئےصیح غلط کی پہچان نہیں سکھاتےتوہماراھی فرض ھےکہ ان کو یاد کروایاجائےوہ جس مقدس پیشےسےوابستہ ھیں۔


                                                  

پشاورسےآئےکچھ مہمانانِ گرامی
 "Televised" انقلاب سے اتنا متاثرھوئےکہ رواں ہفتےکی ہرسہ پہرہم انہی دھرنوں میں موجودرھےجووفاقی دارالحکومت میں عین "وفاق کی علامت" کچھ عمارات کےسامنےپڑاؤ ڈالےحکومت کےسینےپرمونگ دَل رھےھیں۔پہلی بار عیدالاضحیٰ کےتیسرےروز جاناھواتھامگروہ معصوم بچے عبرت پکڑےواپس ھولیےتھے۔البتہ اس بار کچھ جفاکش و ارادوں کے پختہ "عاشقانِ آزادی" تشریف لائے تھے۔دن چڑھےبیدارھوکرناشتہ کرتےاورہمارےساتھ اسلام آبادکی سیرکونکل جاتے،ہاں مگر پانچ بجتےھی ڈی-چوک کا رخ لازم و ملزوم تھا۔
 میں چونکہ باقی ماندہ زندگی میں مزیدکسی انقلاب اورآزادی کی خواہاں نہیں سووہاں جا کرخود کومصروف رکھنےکاواحدطریقہ جوتلاش کرپائی وہ "کشمیرانقلاب سکول" کے بچےتھے۔ان سےدوستی بڑھی تو بہت سےحقائق سامنے آئے جوابھی تک نگاہوں سےاوجھل تھے۔
سب سےپہلےکوٹلی آزاد کشمیرسے آئےاس سکول کےپرنسپل صاحب سےملیے۔ان کا نام  "محمدایوب بغدادی" ھے۔نام کے آخری حصےپرمیں بھی چونکی تھی،مگرصاحب کافی بھولےواقع ھوئےھیں۔(یہ ان کی ذاتی رائےھے)بقول ان کے ایم-فل اسلامک سٹڈیز ھیں۔مگرجب بات کرتے ھیں تودل چاھتاھےڈگری چیلنج کردوں۔ان موصوف کا اسرارھےکہ پلےگروپ سےایم-فل تک کی کلاسزجاری ھیں(داخلہ بھی جاری وساری ھے)۔کچھ تفصیل جانناچاھی تو فرمایا کہ ایم-اے، ایم-ایس-سی، آئی-کام، ایم-بی-اے اور "بی-اے کی فزکس" وغیرہ کی کلاسزھوتی ھیں۔اورساتھ میں کچھ اہم "Learning Courses" بھی کروائےجاتےھیں۔ تفصیل پوچھی توجواب آیا "سپوکن انگلش" گرائمر،"IELTS" ، گروپ ڈسکشن، Vocabulary ،کیلی گرافی ،"Geography" اور عریبک کورسزچل رھےھیں۔میں ھکابکا ان کی جانب دیکھ رھی تھی،جب پوچھاکہ یہ سب معرکے سر کرنےوالےطلباءکدھرھیں تو معلوم ھواکہ ابھی ابھی کلاس ختم ھوئی،یہیں کہیں ھوں گے۔اور یہ جواب میں تین روز مسلسل سنتی رھی۔وائےری قسمت وہ مخلوق دکھائی نہ دی۔درخواست کی کہ اساتذہ سے ملوایےتو بھی جواب یہی تھا۔


                                                            

حقیقتِ حال یہ ھے کہ یہاں ان "بغدادی" پرنسپل صاحب کےعلاوہ دواساتذہ پائےجاتےھیں۔پہلےڈیرہ اسماعیل خان سے آئے "محمداحسن اقبال" ہیں۔موصوف بی-بی-اےآنرزمیں گولڈمیڈلسٹ ھیں۔خودنمائی کی بیماری میں مبتلاھیں۔بقول ان کےخیبرپختونخواہ کےبارہویں بڑےاخبارکےسب ایڈیٹرھیں (نام نہیں بتاؤں گی یہاں)،کالم نگارھیں،اوراشاعت شدہ440 آرٹیکلزمیں سے 111صرف اپنےقبلہ کی شان میں لکھےھیں کیونکہ یہ سب انہی کا فیض ھے۔تین ایسی کتابوں کے مصنف بھی ھیں جو 5000 الفاظ کامجموعہ ھیں۔۔۔نام بھی بتائےھیں اور اپنا بلاگ ایڈریس بھی دیاکہ ضرور وزٹ کیجیےاور ڈاکٹرصاحب کےبارےمیں مزید جاننےکیلیےفلاں سائٹ دیکھیے۔نیزاپنےبارےمیں وسیع معلومات کاخزانہ بناپوچھےبیان کرنےکےبعد میرے انٹرویوکا ارادہ تھاجوناکام رہا۔ان صاحب پر بھی 3 کتب لکھی جاسکتیں ھیں،مگراتنی فرصت کسےھے؟
                                                   
 
تیسرےصاحب راناقاسم عمران ھیں،جن کا تعلق شیخوپورہ (گجیانانو)سےھے۔پہلےبتایاکہ ڈیکوریشن کا کام کرتے ھیں،مگرکچھ دن گزرنےپرڈرائینگ ماسٹربن چکے تھے۔انہوں نے بتایاکہ عبدالشکورکی مورتی بھی انہی کی تخلیق ھےجوکہ منہاجی استانیوں کو پسند آگئی ھےاوروہ "پوجاپاٹ" کے واسطےفلاں شہرلےگئی ھیں۔میں نے دریافت کیاکہ عیدکےروزکسی اورنام کی پرچی وہاں دھری تھی توفرمایاکہ کسی بچےکی شرارت ھوگی۔یہ صاحب ہمہ وقت کرکٹ کھیلتےپائےجاتےھیں،مگرجونہی کیمرہ دیکھتےھیں وائٹ بورڈپرچڑیااورگملہ کمال مہارت سےبناڈالتےھیں۔اپنی والدہ کوبہت یاد فرماتےھیں مگر کہناھے کہ قبلہ محترم کی آوازپرلبیک کہتے جہادپرنکلےھیں توواپسی کاسوال پیدانہیں ھوتا۔شریف النفس اورمعصوم انسان ھیں۔
         

استادکےمرتبےپرفائزان صاحبان کا اولین فریضہ یہ ھے کہ کلاس کاآغاز بابرکت "گوگوپان مصالحہ"سےکیاجائےاور
درمیان میں "پنجاب پولیس" کو صلواتیں سنائی جاتی ھیں اور اختتام پر بھی نعرہ مستانہ بلندکیاجاتاھے۔کیا یہ ھےوہ محبت و سکون کا درس جوآپ کےہاں معصوم ذہنوں کوپراگندہ کرنےکیلیےرائج ھے؟

   اب ذکرھےوطنِ عزیزکےاس مستقبل کاجو ان اساتذہ کرام کےرحم و کرم پروہاں پڑےھیں۔اورسب سے اہم بات یہ ھےکہ ان بچوں میں اکثریت قوم کی بیٹیوں کی ھےجو کہ انقلاب کی خاطرنہیں بلکہ سیلاب کی تباہ کاریوں کے نتیجہ میں یہاں موجودھیں۔بات کردیکھیےزیادہ سےزیادہ پندرہ منٹ میں حقیقتِ حال واضح ھوجائےگی۔
 سب سے پہلےملاقات کیجیےفیصل آباد کے عباد سے۔والدین کا انتقال ھوچکاماموں کےگھر سےبھاگ کرآج کل قادریہ سکواڈمیں کنٹینر کی حفاظت پرمامورھے۔عمر14سال ھےاور پڑھتانہیں ھےکیونکہ 
 "چوکیداری" کےدوران وقت نہیں ملتا۔
                                                           

                                                           
اس کےبعد 
ارسلان سےملاقات ھوتی ھے۔جوکہ ہمہ وقت چوکس رہتاھےاور"انقلاب سکول" سے 20 قدم دور ڈیوٹی سنبھالےھوئےھے،مگرپڑھتایہ بھی نہیں ھےکہ اس قسم کی "حرکت" کاشوق ھی پیدا نہیں ھوا کبھی ان کمانڈو صاحب کو۔
                                                      

                                                                                           
پھرایک خیمےکےباہربیٹھےدوبہن بھائی اقراءاور طاہرھیں۔اقراء نویں جماعت کی طالبہ ھےاورطاہر ساتویں میں پڑھتاھے
۔نام قبلہ کی محبت میں رکھاگیاتھا۔یہ خاندان کامرہ سے آیاھے۔بچی سے جونہی کچھ پوچھنا چاھا ہرباروالدِمحترم نے ھی جواب دیا۔ہاں مگرتیسرےروز اقراءنےبھرائی آوازمیں کہاکہ "آپی مجھےاپناگھربہت یاد آتاھے،ہم بھائی بہن واپس جاناچاھتےھیں۔مگرقبلہ کی شان میں گستاخی سے ڈرتےھیں"۔بچی بڑی ھوکر صحافی بنناچاھتی ھے۔
                                                     

چکوال سےآیارفاقت ایک پیارا بچہ ھے۔پانچویں کا طالبِ علم ھےاورابّا6 بچوں کواٹھاکردھرنےمیں لےآئےھیں۔امی ان کی ماموں کے ہاں ھوتیں ھیں۔اب آگےکامعاملہ سمجھنا مشکل نہیں۔
                                                     

یہاں مجھے "دینا" سےآئی دوایسی پیاری بچیاں ملیں جوکہ اپنےماموں ممانی کےساتھ دھرنےمیں شریک ھیں۔ صبغہ اورحافظہ خدیجہ فرسٹ ائیرکی طالبات ھیں۔گھریادآتاھے،
بچیوں کوماحول بھی پسند نہیں مگرمجبورھیں کہ ڈاکٹرصاحب نے "نسخہ" تجویزکیاتھا "۔جو والدین خودنہیں آسکتےاپنی بچیوں کو بھجوائیں۔" ۔۔۔۔۔۔ اور پھرآپ قبلہ محترم غصہ کرتےھیں کہ عورتوں کےجھرمٹ میں چھپنےکاطعنہ دیاجاتاھے۔جبکہ لوگوں کو اندھی عقیدت کےدام میں پھنساکر ان کی معصومیت سے کھیلاجارھاھے۔

ساہیوال سےآئی سیما کودیکھ کردل بہت روتاھے۔یہ لوگ سیلاب متاثرین ہیں۔ماں خیمےمیں ٹانکےلگوائےپڑی ھےکہ بیٹےکےشوق میں پانچویں بیٹی پیدا ھوچکی ھے۔آس مگرابھی بھی ٹوٹی نہیں ھے۔7سالہ بچی اپنی ماں کا سر دباتی ھے،پاؤں سہلاتی ھےاورچھوٹی بہنوں کوسنبھالتی ھےتوظاہرھےسکول کی عیاشی کیلیے وقت نہیں ھے۔

قادریہ قافلےکی حفاظتی ٹیم کا ایک ممبر عظیم بھی ھے۔یہ اپنےبڑےبھائی کےساتھ راولپنڈی سے ھی قبلہ کی حفاظت کیلیے جہادپرنکلاھے۔نیزپانچویں جماعت کا کورس پڑھنےکی سرتوڑ کوشش جاری ھے۔ان کا بھائی کچھ اور "سرگرمیوں" میں مصروف دکھائی دیتاھے۔

                                                         

                                                        

ساہیوال ھی سے ایک اور سیلاب متاثرہ خاندان کی بیٹیاں فاطمہ اور حلیمہ ہیں۔جوکہ نرسری میں پڑھتی ھیں۔فاطمہ تو میری پکی دوست ھے۔کاش کہ وہ میری بیٹی ھوتی تواس کی ذہین آنکھیں کبھی اداس نہ ھوتیں۔اس بچی کوگھرکی یاد نےستارکھاھےمگرکیاھےناکہ والدین کواکلوتابیٹا قبلہ کی دعاسےھی ملاھےتو اب 
 "قسم" کیلاج بھی تو رکھنی ھےنا۔           
                                                       
                                                            


اللہ رکھی اور ریحانہ بھی ساہیوال سےاپنے ابوکےساتھ آئی ھیں۔یہ پانچ بھائی بہن ہیں اور سب کچھ سیلاب میں بہہ گیاتودھرنےمیں آگئے۔ابھی یہ بچےسکول نہیں جاتے۔سارا دن کھیلتےھیں اورشام میں آزادی سےناچتے،گاتےھیں۔

                                                                

اُمِ حبیبہ کےوالد قینچیاں بناتےھیں۔یہ پانچ بہن بھائی ھیں۔بڑابھائی والدکےساتھ نارووال میں ھی ھوتاھےجبکہ باقی تین بہنیں ایک بھائی اپنی والدہ کےساتھ دھرنےکی حفاظت میں مصروف ھیں۔یہ بچی بھی بہت ذھین ھےمگر۔۔۔۔۔۔۔۔۔

                                                                

                                                            
وجیہہ اور مدیحہ پانچویں جماعت میں پڑھتی ھیں۔پہلی جماعت میں پڑھتامحمدوقاص بھائی ھے۔ڈیرہ اسماعیل خان سےآئےیہ پانچ بہن بھائی ھیں۔وجیہہ نےمجھےکھیل کےدوران بتایاکہ ابّونوشہرہ میں مزدوری کرتےھیں۔مگر2روزبعد"راناقاسم عمران" کی موجودگی میں ان کےابو "انجینئر"بن چکےتھے۔جس پر استادِ محترم سینہ پھلائےبتارھےتھےکہ جی "پڑھےلکھے"لوگ ھی اس عظیم الشان دھرنےمیں شریک ھیں۔جبکہ میرا دل کہ رھاتھاکہ پاس پڑا "پروقارگملہ" اپنےسرسےپھوڑ ڈالوں۔اس بچی کےخاندان کی دس خواتین اس دھرنےمیں شریک ھیں۔
  

منڈی بہاؤالدین سےآئی دوبہنیں ربعیہ اورسحرش کےابّا نان بائی ھیں۔ان بچیوں اور ان کی والدہ کو سپردِ دھرناکیےواپس جاچکے۔
                                                         
                                                                    

                                                               

ایک اور اقراء ھیں جو اپنےایک سالہ بھائی کوگود میں لیےڈرائینگ کی کلاس لیاکرتی ھیں۔جماعت چہارم کی طالبہ ھیں۔پانچ بھائی بہن ھیں ماشاءاللہ۔ یہ لوگ مظفرگڑھ کےسیلاب متاثرین ھیں۔

                                 

                                               
سات بہن بھائیوں میں علیشبہ سب سےچھوٹی ھیں۔ان کو ڈرائینگ ٹیچربننےکاشوق ھے۔ کسّووال سے آئےاس خاندان کا سربراہ سموسوں کی ریڑھی لگاتاھےمگران سب کو یہاں بھجواکرخود "بچت" کررھےھیں کاروبارسے۔

                                                     

اقصیٰ لاہور سے آئی ھےاور میڈم" بننےکاشوق ھے۔ان کے ابّابھی دھرنےمیں موجود نہیں ھیں کیونکہ لاہورمیں چائےکاسٹال ان کا منتظرتھا۔یہ بچی واپس جانا چاھتی ھےمگر۔۔۔۔۔۔

                                                    

  یاسمین بھی سیلاب متاثرہ خاندان کا حصہ ھےاورساہیوال سےآئی ھے۔پانچ بہن بھائی ھیں اور افسوس یہ ھےکہ اس دھرنےمیں والدین شریک نہیں ھیں بلکہ بچےایک رشتہ دارکےساتھ آئےھیں۔


                                                                                         

                                             
دوسری جماعت کی ایک بچی ایمان بھی ھے۔۔مجھےاس پر نجانےکیوں اتنا پیار آتاھے۔اتنی معصوم صورت،اتنی ذھین آنکھیں اور پیاری سی مسکان۔چاربھائیوں کی اکلوتی بہن ھے۔پاپا راولپنڈی میں موبائل ریپئرنگ کی دکان کرتےھیں۔ایسےبہادرمرد واقع ھوئےھیں کہ خودگھرکی حفاظت کرتےھیں اوربیوی بچوں کودھرنےکی حفاظت میں چھوڑ گئےھیں۔

آمنہ بڑی ھوکر "فوجی" بننا چاھتی ھیں۔ان کےخاندان کےپچیس افرادشریک تھےمگراب صرف آٹھ ھی ٹہرےھوئےھیں۔لاہور سےآیاایک خاندان ھےجوکہ اتوارکوواپس لوٹ جائےگا۔اور قبلہ کا حکم ھےکہ 15دن قیام کرکےواپس ڈی-چوک ہی آناھے۔(علم نہیں وہ خود لوٹیں گے یانہیں)


                                                           

انہی بچوں میں میٹرک کاطالبِ علم نعیم ھے۔اگرچہ مجھےیقین ھےکہ آٹھویں سےبھاگاھواھے۔گوجرانوالہ سےاپنےدوستوں کےساتھ آیاتھاجوکہ عید پرواپس لوٹ چکےمگران صاحب کےپاس واپسی کاکرایہ نہیں۔تین دن میں اس لڑکےنےمجھے300مختلف کہانیاں سنائی ھیں۔اورانقلاب کےھجے تک نہیں آتے۔

ایک بہت معصوم بچہ اسد بھی ھےجوکہ عمرانی جلسےمیں فیس پینٹنگ کرتاھےاورقافلےمیں اپنی امی اور تین بہنوں کےساتھ شریک ھے۔یہ بھی ایک سیلاب متاثرہ خاندان ھے۔

                                                            

                                                             
ایک بچہ تووہ بھی ھےجوشام کو گرم انڈےبیچتاھے۔گزشتہ رات مگراس کےداخلےپرپابندی تھی۔وجہ پوچھی میں نےتووہ لاعلم تھا۔۔ ہاں مگرمیں جانتی ھوں۔اس ناچیزکی ایک ٹویٹ انتظامیہ تک پہنچی اور انڈےبیچنےپرپابندی لگادی گئی۔توکیامیں اس کےخیمےتک رسائی نہ رکھتی تھی؟ سکول مگراب بھی نہیں جاتاکہ اس جانب کوشش آپ کی ذمہ داری تو نہیں ھے نا۔

                                                                     

ایک بچہ تو وہ ٹوپیاں بیچنےوالابھی ھے،جسےاس رات ڈانٹ کربھگادیاگیااور بعد میں ایک آنٹی وہیں عمرانی پرنٹ والےڈوپٹے بیچ رھی تھیں،مگرچونکہ وہ کھاتے پیتے گھرانےسےتعلق رکھتی تھیں سوانکو کاروبار چمکانےکی اجازت تھی۔

                                                                   
      ایسی کتنی ہی کہانیاں بکھری پڑی ہیں اس علامتی "سیلاب زدگان" کےدھرنےمیں۔میرا سوال صرف یہ ھےکہ "یکساں نظامِ تعلیم" کا دن رات پرچار کرنےوالے کس طور اپنی ذمہ داری نبھارھےھیں؟

                                    

                                         
کیا آپ کےاپنےبچےاس تعفن زدہ ماحول میں ٹوٹی چٹائی پر بیٹھ کرسارادن ڈرائنگ کی کلاس لےسکتےھیں؟

کیا آپ کی بیٹی آپ کےخطاب کےدوران ایک اندھیرے کونےمیں بیٹھی کسی استادسے لیپ ٹاپ کےبارےتعلیم حاصل کرسکتی ھے؟

کیا آپ کےبچےشام 5 بجےکےبعد اس مچھروں بھرےٹینٹ میں بیٹھے "گملہ اورچڑیا" سکیچ کرسکتے ھیں؟

کیاآپ کی حافظہ بیٹی اس غلیظ ماحول میں چند گھنٹے بھی گزار سکتی ھے؟

کیاآپ کےگھر کی خواتین اس بدبوداراور جراثیم سے بھرےاکلوتےبیت الخلاءکواستعمال کرنےکاتصورکرسکتی ھیں؟

کیا آپ کےگھروں کی قابلِ احترام خواتین اس ٹین کےبنے"کھڈے"میں غسل کرسکتی ھیں؟

کیا آپ کےبچےکسی پیرکےسیکیورٹی سکواڈ کاحصہ بن سکتےھیں؟

کیاآپ کی بیٹیاں کسی نام نہاد مرد کیلیےحفاظتی حصاربناسکتی ھیں؟

کیا آپ کی بہو آپ کی نسل بڑھاکرکسی خیمےمیں پڑی رہ سکتی ھے؟

کیاآپ کےبیٹےپارکنگ لاٹ میں بیٹھ کرسگریٹ بھرسکتےھیں؟

اگرمیرے ان سوالات کاجواب آپ دونوں حضرات دےپائیں تو میں بھی آپ کےساتھ انقلاب کےواسطےآزادی سے کوشش کروں۔اور اگر نہیں تو خدارا رحم کیجیے میرے بچوں پرکہ یہ بھی کسی کے "قاسم" "سلمان" "حسن"اور "حسین" ھیں۔۔میں آپ کےگھروں کی قابلِ احترام خواتین کا نام نہیں لوں گی،مگرکچھ تو انسانیت دکھایے۔انّاؤں کی جنگ میں ایک نسل تباہ کردی گئی ھے۔

                                     تخمِ دیگر بکف آریم وبکاریم  زنو
                                    کانچہ کشتیم زخجلت نتواں کرد درو