بدھ، 17 جون، 2015

خون آشام ہجرت

ہجرت کا لفظ جواس کی یاداشت میں محفوظ تھا شایدپہلی بار دادی مرحومہ اور ابا کی پھپھو حسین بی بی ،جنہیں سب پیار سے "سینی بوا" کہتےتھے،ان ہی کے منہ سے سنا تھا۔۔۔
شیریں کے ددھیال کا تعلق تقسیمِ ہند سے قبل جالندھرشہر سےتھا۔اس کےدادا گھرکےسب سےچھوٹےبچےتھے۔ان کے ابا ریلوےمیں ملازم تھے اور بڑے بھائی مجسٹریت کے ریڈر جبکہ دوسرے بھائی فوڈگرین انسپکٹر تھے۔
شیریں نے داداجی کو اگست کے مہینےمیں ہمیشہ رنجور اور خاموش ہی دیکھا۔اسے یاد ہےکہ ایک باراس کی دادی اپنی نندکےساتھ چپکےچپکےباتیں کررہی تھیں اور ساتھ میں گڑ والی چوری کی تیاری میں مشغول تھیں۔وہیں باورچی خانےکی چھوٹی سی "پیڑھی" پربیٹھےاس کا ننھا سا ذہن ان خواتین کی باتوں سے منظرکشید کررہاتھا۔
دادا کی بڑی بہن تایاکے ہاں لدھیانہ بیاہی گئی تھیں اور ان کےہاں پہلےبچےکی پیدائش تھی لہذا منجھلی بہن کوبڑی کی سہولت کے لیے بھجوایا گیا تھا۔دادا ان دنوں بہت شریرمگر ذہین بچےتھے۔سکول سے واپسی پر اپنی اس بہن حسین بی بی کو چپکے سے اناج والے گودام میں پڑھاتے تھے۔پھر ایک شام یوں ہواکہ راتوں رات انہیں وہ اناج کا گودام اور بڑے سے گھر کا آنگن خاموشی سے چھوڑنا پڑا۔دادا نے سر پر کتب کا ٹرنک اٹھا رکھا تھا۔اطلاع یہی تھی کہ لدھیانہ والے بھی نکلنےکی تیاری میں تھےاور انہیں لاہورہی ملیں گے۔مگرننھی شیریں نے سینی بوا کی لال آنکھیں اور بھیگی پلکوں کولرزتے ہاتھوں سے پونچھتے دیکھا ۔جانے کیا کہہ رہی تھیں کہ "بلوائیوں" کا حملہ ہوا اور قافلہ دولخت ہوگیا۔بچوں کو کچھ بڑوں کےساتھ ٹرین میں سوار کروادیاگیاتھا۔ سینی بوا پیڑھا گھسیٹ کر اس کی پھپھوجان کوسرگوشی کررہی تھیں۔۔۔"لاہور ریلوے اسٹیشن پہنچےتو ننھا اور میں اپنوں کی لاشوں میں دبےسانس لےرہےتھے۔"جہاں سے انہیں کیمپ پہنچایا گیا ۔ پھرخاندان کےکچھ دیگر افراد بھی ملتےگئے۔نہیں آئیں تو لدھیانہ سے وہ جوان دو بہنیں۔۔۔٦ سالہ شیریں کو سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ سینی بوا نے یہ کیوں کہا "بڑی کے پیٹ پر برچھیوں کے وار سے بچہ اور ماں مرگئے اور چھوٹی نے کنوئیں میں چھلانگ لگا دی۔۔۔"اس ساری گفتگو میں ننھی کےذہن میں فلم کی طرح مناظر چل رہےتھےاور دادی کےہاتھ سے گڑ والی چوری اس کا حلق کڑوا کررہی تھی۔
بڑے ہونے پربہت عرصہ تک دادی یا سینی بوا سے پوچھنےکی ہمت ہی نہ ہوتی تھی،ان خواتین کی پیلی رنگت یاد کرکےشیریں خوف زدہ ہوجاتی۔دادی کو جب بھی کریدا تو انہیں ایک ہی غم رہتا تھا کہ ہجرت کےوقت آنکھوں کی وبا پھیلی تھی۔۔ان کا بڑا بھائی اسی میں مبتلا ہوکربینائی گنوابیٹھا۔ان کےبھائی کو دکھائی نہیں دےرہاتھا سہارا دے کررفعِ حاجت کیلیے لےجارہی تھیں کہ حملہ ہوگیا اور دادی اپنے ننھے ہاتھ جوڑکرمنتیں کرتیں "میرا بھائی نابینا ہے،اسے کچھ مت کہو۔۔۔" دادی نے اپنی چاندی کی ننھی بالیاں کانوں سے نوچنےپرچیخ دبالی تھی۔ ان کےکان کی لودوحصوں میں بٹی دیکھ کر ہمیشہ جھرجھری آجاتی تھی۔
شیریں نےجانے ایسی کتنی ہی خون آشام ہجرت کی داستانیں کتنے ہی بزرگوں سے سن رکھی ہیں۔یونہی بچپن میں ننھیال جانا ہوتا تو وہ بچوں کےساتھ کھیلنےکی بجائےاماں کےدادا کو کریدتی رہتی۔اور وہ اکثر ہی اخبارکےپیچھےآنسو چھپاتے کچھ نہ کچھ بتاتے تھک جاتے اور پھر ڈپٹ کر کھیلنے بھیج دیتے۔یہ لوگ وہاں ہندوستان میں اپنی حویلی چھوڑ کرنکلےتھے۔۔شیریں کےنانالاڈلےاتنےتھےکہ ہجرت  کےوقت ٥ برس کےہورہےتھےمگرابھی تک صحیح سے پاؤں پاؤں چلنا نہیں سیکھا تھا۔بڑی بہن اور پھوپھی ماں ہمیشہ گودمیں سوار رکھتی تھیں۔اورجب پاکستان آئے زمین جائیداد توچھوڑی ہی جانےکتنےکلو کے حساب سےسونابھی لُٹا کرآئے۔جب یہاں کلیم کیا گیا تو کسی ہندو کا گھرمِلا۔حویلیوں کے مالک ٦ خاندان ایک ایسے گھرمیں رہنےلگےجہاں سونےکی دیگ اس وقت کا کمشنر"بحقِ سرکار" لےگیاتھا۔اور نانا کےابا سے سنا تھا کہ جنہیں وہاں "کَچوں" میں بیٹھے دیکھا یہاں آ کر کلیم میں فقط ٢ گواہان کےبل بوتے حویلیاں سنبھال کر بیٹھ رہے۔واللہ العلم بالصواب۔
اللہ نے ایک خاندان کی نیتوں کو پھل لگایا۔دوسرے کےنوجوانوں کی تعلیم نےبہترنوکریوں کے راستے کھولے۔اوریوں ہجرت کےبعد زندگی کا نیا آغاز ہوا۔شیریں مگراگست شروع ہوتے ہی بزرگوں کےچہروں پر خوشی اور بےچینی ہی دیکھا کرتی۔آج بھی١٤ اگست پرچراغاں میں ان کی جھلملاتی لال آنکھیں اسےہمیشہ پریشان کرتی ہیں۔
حیرت تب ہوتی ہےکہ جب ہجرت کی داستان سنانےکےباوجود "مہاجر" لفظ کہیں سنائی نہیں دیتا۔پوچھا تھا بچپن میں۔۔۔دادا نےجواب دیا "کیاضرورت ہےزبردستی احساسِ کمتری طاری کرنےکی۔اس ملک کےلیے آئے،اس نے آغوش میں لےلیا اور ہمیں ہماری صلاحیتوں سے بڑھ کر نوازا۔ جس وقت "سینی" کےساتھ اپنوں کی لاشوں میں دبا رو رہا تھا تب ہی فیصلہ کیاتھاکہ ہجرت کرلی۔اب پیچھےکی سوچ ختم۔"
ہمارے ہاں ہجرت بھی تو دو بار کی گئی۔۔حیرت ہوتی ہے ١٩٤٧ء والےالگ داستان سناتےہیں اور ١٩٥٢ء والے کچھ اور ہی قصہ بتاتے ہیں۔
سنا ہے تب ٹرینوں میں لاشوں تلے دبے زندہ انسان نہیں آئے تھےاور نہ ہی
خاندان کی بچیوں نےعصمتوں کی قربانی دےکرکنوئیں میں چھلانگ لگائی اورنہ کوئی وہیں "مالِ غنیمت" کی صورت بچھڑ گئی۔
شیریں کو بہت بری عادت ہے،جہاں کسی بزرگ کو دیکھتی ہے۔۔فٹ انہیں اِدھر اُدھرکی باتوں میں لگا کر ١٩٤٧ء کی ہجرت  پر بات کرنے کےلیے اکسانے لگتی ہے۔اماں سے ہمیشہ ڈانٹ پڑتی ہے کہ کیوں زخم ادھیڑتی ہو بڑوں کے۔مگر اسے تو جاننا ہےکہ شاید کبھی تو کوئی خود کو "مہاجر" کہہ دے۔

13 تبصرے:

  1. ہمیشہ کی طرح شاندار، مہاجر تو مانو ایک کیفیت ہو گئی جو کچھ لوگوں نے اپنے پر طاری کر لی ہے، ورنہ تین نسلوں بعد کون سے مہاجر، کہاں کے مہاجر- شکر ہے کسی نے اس بارے میں بھی لکھا

    جواب دیںحذف کریں
    جوابات
    1. چھوٹے بھائی۔۔۔۔۔ پذیرائی کا شکریہ۔۔۔۔
      درست فرمایا
      "مہاجر ایک کیفیت کانام ہوگایا ہے۔"

      حذف کریں
  2. جو ہجرت کرکےکراچی گئے اور ایم کیو ایم میں شامل ہو گئے۔۔۔ صرِف وہ مہاجر رہ گئے۔۔ باقی سب پاکستانی۔۔۔۔ صدر ممنون بھی انڈیا سے تقسیم کے وقت پاکستان آئے تھے، ایسے ہی نواز شریف کے والد بھی ہجرت کرکے لاہور آئے، وہ مہاجر نہیں ہیں ۔۔۔ صرِف الطاف حُسین مہاجر ہیں۔۔۔پاکستان میں پیدا ہو کر پاکستان میں مر گئے۔۔۔ مر جائیں گے۔۔۔۔ مگر مہاجر رہیں گے۔۔۔

    جواب دیںحذف کریں
    جوابات
    1. :-))
      جیتے رہیے۔۔ مگر یہ تحریر کسی پر انگلی اٹھانا نہیں تھا۔۔ بس یہ کہ ہجرت ایک وسیع موضوع ہے اسے ایک گروپ کیساتھ منسلک نہ کیا جائے،خاص کر جو 1952ءمیں آئےوہ ان تکالیف کوکیاجانیں۔

      حذف کریں
  3. یہ کہانی ایسی حقیقت پر مبنی ہے جو آدھے پاکستان کے ماضی سے جڑی ہے میری اپنی خالہ ہجرت میں کھو گئیں تھیں اور خاندان رو پیٹ کے
    بے حال تھا کہ مولا نے کرم کیا پر وہ جو جانیں عزتیں گنواتے آ ئے اپنے آپ کو "مہاجر " کیوں کہیں گے ہاں جو زمینوں ، محلات کے لیےآ ئے وہ ابھی بھی اسی نام کو استعمال کریں گے کیونکہ الاٹمنٹ کے لیے یہی شرط تھی کہ انڈیا سے آ ئے مہاجروں کا حق ہے
    حیرت یہ ہے کہ امریکہ میں بیٹھے "مہاجر " تو پانچ سال کے بعد ایک دن نہیں پڑنے دیتے اور سیٹزینشپ لینے دوڑے جاتے ہیں پر پاکستان میں ووٹ دیتے، نوکریاں کرتے ، تعلیم لیتے ، حکومتیں کرتے ہیں لیکن "مہاجر سے سندھی " نہیں بنتے

    جواب دیںحذف کریں
    جوابات
    1. سلامتی و سکون کی دعا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
      پذیرائی کا شکریہ۔

      حذف کریں
  4. بہت خوبصورت تحریر - اگر تعصب کی عینک اتار کر دیکھا جائے تو ہجرت کے دکھ اور مصائب جو اہل پنجاب نے سرحد کے دونوں طرف جھیلے وہ تاریخ کی آنکھ نے کم ہی دیکھے ہوں گے - اور اس کی شہادت میں ہند و پاکستان کے پنجابی لکھاریوں کی سینکڑوں بلکہ ہزاروں تحاریر موجود ہیں جن میں سے ایک شہکار امرتا پریتم کی لازوال نظم اج آکھاں وارث شاہ نوں بھی شامل ہے

    ہجرت سب کا سانجھا دکھ ہے - میرے اجداد بھی مشرقی پنجاب سے سب کچھ لٹا کر پاکستان آے اور زندگی کی جڑیں ایک جگہ سے اکھاڑ کر دوسری جگہ لگائیں - کچھ پودے چلے اور کچھ نہ چل سکے لیکن لیکن کبھی ایک بھی حرف شکایت نہیں سنا، صرف نم آنکھیں ہی دیکھیں

    خیر یہ تو ایک جملہ معترضہ تھا - اس خوبصورت تحریر کے لئے مبارکباد اور شکریہ

    جواب دیںحذف کریں
    جوابات
    1. جزاک اللہ الخیر!
      آپ کا رہنمائی کرتا کمنٹ ہمیشہ لکھنے کا حوصلہ دیتا ہے۔۔۔
      "ہجرت سب کا سانجھا دکھا ہے"
      ایک جملےمیں ساری تحریر سمیٹ دی۔
      امرتاپریتم کے الفاظ امر ہوچکے۔
      بہت شکریہ محترم۔

      حذف کریں
  5. بہترین تحریر خوش و آباد رہئے

    جواب دیںحذف کریں
  6. بیت خوبصورت تحریر آپی
    لکهتی رہیں اور فیضیاب کرتی رہیں
    ذہنی اور قلبی وسعتوں کی دعا
    سلامت رہیں

    جواب دیںحذف کریں