ہفتہ، 30 ستمبر، 2017

ووٹر کا اجتماعی شعور


قومی اسمبلی کے حلقہ 120 کے لیے اس ماہ کی سترہ تاریخ کو ہوئے ضمنی انتخاب میں بہت سے پہلوؤں پر بات ہوتی چلی جا رہی ہے اور یہ بازگشت بہت دِنوں تک سنائی دیتی رہے گی۔ لاہور میرا ننھیالی شہر ہے لیکن ایک عام شہری کی حیثیت سے این۔اے120 سے میرے خام مشاہدے میں جو کچھ یاداشت نے محفوظ کیا اس میں سے ایک پہلو ووٹر کی نفسیات اور اجتماعی فیصلے کا شعور ہے۔ جی ہاں، وہی شعور جس پر ٹی۔وی سٹوڈیوز میں بیٹھے میک اپ کی دبیز تہوں سے اٹے "تجزیہ کار" نہ صرف سوال اٹھایا کرتے ہیں بلکہ پایہ تکمیل کو نہ پہنچنے والی "احتسابی خواہشات" کے رُلنے کا بدلہ باقاعدہ لعن طعن کرکے اور اپنے ہی اصطبل کے تخیلاتی کھوتے کھلا کر کیا کرتے ہیں۔ مسئلہ ان بقراطوں کا صرف یہ نہیں ہے کہ زمینی حقائق سے کوسوں دور عام شہری سے رشتہ ریٹنگز کی حد تک محدود ہے بلکہ وہ خناس بھی ہے جو ان کی سوچ کو مفلوج کرکے یہ باور کرواتا ہے کہ صرف وہ ہی اشرف المخلوقات کے درجے پر فائز ہیں کیونکہ انہیں کسی نے غلط فہمی کا شکار کردیا ہے کہ وہ بادشاہ گر اور رائے عامہ بنانے والے تھنک ٹینکس ہیں۔


                        

پنجاب میں سٹیج فنکاروں کے معاشی حالات خراب ہوئے تو انہیں لے کر مختلف "طنز و مزاح سے بھرپور"  ٹی۔وی شوز بنائے جانے لگے جن کے دو ہی مقاصد سمجھ آتے ہیں: ایک تو اس ملک کے سیاستدانوں، فلمی اداکاراؤں اور خواجہ سرا کمیونٹی کی مسلسل تذلیل اور دوسرا کسی احساس برتری کا شکار شخص (سرقہ بازی سمیت) کو علامہ دانشور و اینکر  بنا کر بالآخر سیاسی تجزیہ کار کی منزل تک پہنچانا ۔یہ فنکار جو پہلے سٹیج پر قہقہوں کے دریچے وا کرکے اپنا اور درجنوں کے گھروں کا چولہا جلانے کا وسیلہ تھے اب میڈیا ہاؤسز اور شدید بڑے اینکرز کی ریٹنگز اور بینک اکاؤنٹس کے گراف بڑھانے کا ذریعہ بن چکے ہیں۔ واقعی فنکار بھوکا نہیں مرتا اور خود سے وابستہ لوگوں کی اشتہا بھی مٹاتا ہے۔
بات ہورہی تھی این۔اے 120 کے ضمنی انتخاب کی۔ جن دنوں میں ٹی۔وی سے بہت دور چھابڑی والوں، گھریلو خواتین، طلباء اور بزرگوں کی زبانی اس حلقے کا مزاج سمجھنے کی کوشش کررہی تھی سنا ہے اس دوران سکرینوں پر اس حلقے میں عوام کو بےوقوف، جاہل، کرپٹ کہا گیا، جب میں بڑے چوک سے تنگ گلیوں تک مسلک کارڈ اور ایک قاتل کے نام پر نفرت انگیزی کو لانچ کرکے متوقع کامیاب امیدوار کو آرگینک سپورٹ کا مارجن اور شہریوں پر ان نئی کٹھ پتلیوں کا اثر جانچ رہی تھی تب ہی صحافت کے کچھ پیراٹروپرز چیلنج کررہے تھے کہ ثابت کرو "کھوتے مرضی سے نہیں کھاتے۔۔" اور ایک صاحب وہ ہیں جنہیں دیکھ کر ہمیں ہر خاندان میں وہ بڑا کزن یاد آجاتا ہے جو بیرون ملک سے واپسی پر سب کو "پینڈو" سمجھتے اپنے گرد اکٹھا کرتا ہے اور ان کی جہالت دور کرنے کو مشہورِ زمانہ کردار "جانو جرمن" بنا ہوا ہوتا ہے۔ ان صاحب کو جمہوریت تو کیا بنیادی شہری حقوق سے مکمل نابلد ہی پایا ہے۔ ان کے مطابق اَن پڑھ کو ووٹ کا حق نہیں ملنا چاہیے جبکہ مختلف تعلیمی درجات و ڈگریوں کی بنیاد پر ایک سے زائد ووٹوں کا حق ہونا چاہیے۔ اب ان سے کوئی یہ نہیں پوچھتا کہ بھیا انپڑھ کو فیصلہ سازی میں شامل نہیں کرنا تو اس پر کسی قسم کا ٹیکس بھی کیوں لاگو ہو؟ بلکہ وہ "کمی کمین جاہل" آپ جیسے ارسطو کے ساتھ اس فضاء میں سانس لینے کا جرم ہی کیوں کرے۔ ان عظیم مفکرانِ وقت نے سٹوڈیوز اور ڈرائینگ رومز سے نکل کر،کافی شاپس میں حکومتیں گرانے کے فارمولے سمجھنے کی بجائے کبھی کسی پھول بیچنے والے یا سڑک کنارے پَھل بیچتی عورت سے اپنے بارے میں رائے مانگی ہو تو علم ہوجائے کہ معاشرے میں ان کی کُل حیثیت ہے کیا۔

                   

عوام کے منتخب نمائندوں کی تذلیل کرنے کی غرض سے سماجی رابطوں کی ویب سائٹس پر بیٹھے کچھ صحافتی دھبے جب "چوڑا، چمار، لوہار، منشی، کلرک، میٹر ریڈر، الماس بوبی(خواجہ سرا)" جیسے استعارے استعمال کرکے اپنی منطقی جہالت کی تسکین کررہے ہوتے ہیں تو انہیں ادراک ہی نہیں ہو پاتا کہ معاشرے کے کمزور یا پِسے ہوئے طبقے ، مزدور اور حق حلال کی روزی کماتا ان پیشوں سے وابستہ شخص اِن مہا دانشوروں کے تذکرے پر کیسے تھوکتا ہے۔


                  
تین ہفتے اس حلقے میں گھومنے اور یہاں کے رہائشیوں، تاجروں، دیہاڑی داروں، پان کا کھوکھا چلانے والوں اور ہر عمر کے شہریوں سے گپ شپ لگانے کے ساتھ رکشہ  اور ٹیکسی ڈرائیورز سے بھی گفتگو ہوتی رہی جو کسی بھی شہر کے مزاج کے نباض سمجھے جاتے ہیں ۔ اس شہر کی تنگ گلیوں میں وسعتِ قلبی اور خوش مزاجی کے ایسے چشمے نکلتے ہیں جن کا ہر رنگ نرالا ہے۔
نسبت روڈ کے ایک گھر میں بی۔ایس آنرز کرتی بچی ملی جو اپنے گرد پندرہ سے سترہ کزنز کو بٹھائے "مفت ٹیوشن" دے رہی تھی۔ اس سے پوچھا کہ ووٹ کِس بنیاد پر دو گی تو اس کا جواب تھا " گلیاں پکی اور گٹر سسٹم ایم۔این۔ایز کا فرض نہیں ہے۔مجھے وہ نمائندہ چاہیے جو میرے بھائی بہنوں (کزنز) کا مستقبل سنوارنے کی قانون سازی میں حصہ لے۔ اور ٹی۔وی پر بیٹھ کر میری نانی یا والدین کے سیاسی شعور کو گالیاں نہ دے۔"
مزنگ میں ایک گھرانے کے گیارہ ووٹ تھے اور علم ہوا کہ والد صاحب جیالے ہیں، والدہ لیگی ووٹر، بچوں میں سے کچھ تحریکِ انصاف، کچھ لیگی جبکہ ایک بہو تھوڑی کنفیوزڈ ہیں۔ ان سے پوچھا کہ جھگڑا نہیں ہوتا تو خوبصورت لہجے میں جواب ملا کہ " رانی! اے کیہڑا کوئی ٹاک شو اے جتھے چُنجاں لڑا کے پیسے کمانے۔۔ سارے ای آزاد نیں فیصلیاں اچ ۔۔ ایتھے کیہڑا سینیئر تجزیہ کار لگ جاناں ۔۔۔ "
ایک سبزی والے سے بات کرنے کا اتفاق ہوا جس نے پہلے دو دفعہ تصدیق کی "آپ کسی چینل سے وابستہ تو نہیں ؟ کیونکہ یہ لوگ قابلِ اعتبار نہیں ۔" یہ بھائی صاحب اردو اور پنجابی پر خوبصورت عبور رکھتے ہیں۔
قریشی محلہ میں ایک صاحب ہنستے ہوئے بولے "جہاں میری بیٹیاں کہیں گی وہیں ٹھپہ لگا دوں گا۔ ان کو اعتماد دیا ہے اور وہ مجھے درست فیصلہ کرنے میں ہمیشہ مددگار ہوتی ہیں۔"
جین مندر چوک میں قطار اندر کھڑی پھلوں کی ریڑھیاں ہیں۔ ان پھل فروشوں سے گفتگو ہوئی تو مجھ میں حوصلہ نہیں تھا کہ انہیں ٹی۔وی کے ان افلاطونوں بارے بتا سکوں جن کے نزدیک ان "جہلا" کو ووٹ کا حق نہیں ہونا چاہیے۔
تحریکِ انصاف کے ووٹ بینک میں لا اُبالی نوجوان ووٹر بھی ہے، پڑھا لکھا برسرِ روزگار، پھل فروش، پکوڑوں کی ریڑھی یا سِٹے بیچ کر رزق کماتا اور میٹرک کے بعد گھر کی نچلی منزل میں کریانہ سٹور چلانے والا شخص بھی اور پیپلز پارٹی کی کارکردگی سے مایوس سابق جیالا بھی۔ 

                 

کیپٹل پارک میں سالگرہ اور شادی بیاہ و دیگر تقریبات کا آرائشی سامان بیچتا ایک دوکاندار کہتا ہے " ہمیں صرف سکون اور تحفظ چاہیے۔ تیس چالیس میں سیکھا ہوں کہ پرسکون محفوظ کاروباری ماحول صرف جمہوریت میں ممکن ہے۔"
کریم پارک میں ایک صاحب بولے" ہمیشہ سے پیپلزپارٹی کا ووٹر تھا۔۔ لیکن اب ہمارا لیڈر ہی دنیا سے ختم کردیا۔ ان کے بعد سے نواز شریف کو ووٹ دیتا ہوں۔وہ میری لیڈر کی موت کی خبر سن کر ہسپتال پہنچنے والوں میں سے تھا۔ ہمارے لیے بہتر کوئی اور نظر ہی نہیں آتا۔" اسی طرح ابدالی چوک میں ایک پان شاپ کے مالک ہیں۔ انہیں تعلیم، سیاست اور صحافت پر ایسی روانی سے تبصرہ کرتے سنا کہ مسکرانے پر مجبور ہوگئی کیونکہ ان شعبوں پر ان کی گرفت ہمارے ہاں کے کئی دفاعی تجزیہ کاروں سے زیادہ بہتر تھی۔ کرشن نگر میں ایک ٹھیلے والا جیالا ملا۔ اور یہ پہلا شخص تھا (حلقے میں گھومتے میرا دوسرا دن) جس نے انگلیوں پر الیکشن کا رزلٹ گِنوا دیا تھا۔ نتائج دیکھنے پر مجھے وہ بوڑھا مزدور یاد آیا جس کو ادراک تھا کہ جیت کا مارجن کسی صورت پندرہ ہزار سے زیادہ نہیں ہوگا اس شخص کا ماننا تھا کہ اس پر خفگی کرنے والوں کو بہت وقت لگے گا سمجھنے میں کہ مسلم لیگ (نواز) اس بوجھ سے آزاد ہوتی چلی جارہی ہے جو اس کے لیے ایک زمانے سے طعنے اور کٹر دائیں بازو کی جماعت کہلوانے کا جواز بنا رہا ہے۔ سنت نگر اور کرشن نگر میں گھومتے ہوئے احساس ہوا کہ ان گلیوں میں خواتین کو سیاست میں فعال کردار ادا کرتا دیکھنے والوں کی کتنی بڑی تعداد موجود ہے۔ مجھے حیرت ہے کہ صحافت کے گُھس بیٹھیے کِس طرح ایسے شعور و فکر کو کمتر سمجھ کر ٹھٹھابازی کا سامان کرسکتے ہیں۔

                   

آپ جاننا چاہتے ہیں کہ عام پاکستانی کیا سوچتا ہے؟ تو پرانی انار کلی میں بیٹھے بزرگوں کے اس گروپ سے پوچھیے جنہوں نے اس ملک کو کٹتے بھی دیکھا ہے اور گِر کر سنبھلتے بھی۔ وہیں کسی نے کہا تھا کہ "چالاں نال وی کدے سیاست مُکی اے کِسے دی؟ خیر ای برآمد ہوئے گی۔ نا یقین آوے تے 17 نوں ویخ لینڑاں ۔"
اردو بازار کی ایک گلی میں چائے کا چھوٹا سا ہوٹل ہے۔ یہاں ایبٹ آباد سے آئے ایک صاحب (نام ظاہر نہ کرنے کا وعدہ تھا) حساب کتاب کے کھاتے دیکھتے ہیں۔ ایف۔اے پاس نفیس انسان ہیں اور ضلع کونسل کا انتخاب بھی لڑ چکے ہیں۔ ان کی کہانی جاننے کی کوشش کریں تو ہمارے ہاں کے کئی تبدیلی فروش اینکرز کی طبیعت باغ باغ ہوجائے۔ لیکن اتنی محنت کون کرے ۔
مجھے یاد ہے کہ میاں نواز شریف کی جی۔ٹی روڈ ریلی کے اختتامی مراحل میں شرکاء کی تعداد کا اندازہ کرنے کے لیے کسی بلند عمارت کی تلاش میں ڈھائی مرلے کے گھر کی چھت پر بیٹھے گھرانے نے اشارہ کیا کہ آپ اوپر آجائیں۔  دوسری منزل سے چھت پر پہنچنے کے لیے سیڑھی نہیں دیوار میں چُنی اینٹوں کا سہارا درکار تھا۔ اس گھر کی حالت مکینوں کے معاشی حالات کی عکاس تھی لیکن بات چیت میں علم ہوا کہ ایم۔بی۔اے گولڈ میڈلسٹ بھائی پر فخر کرتا وہ محنت کش گھرانہ کسی سے اپنے سیاسی شعور کا سرٹفکیٹ لینے میں دلچسپی نہیں رکھتا۔
این۔اے 120 میں یونیورسٹیز کی شان بڑھانے والی ایک نئی نسل آج بھی مشترکہ خاندانی نظام میں زندگی کا فلسفہ سمجھ رہی ہے۔ بیڈن روڈ ہو یا ٹیمپل روڈ یہاں ہر چھوٹی بڑی دکان میں گلے پر بڑا بھائی یا بزرگ بیٹھا ہے، آپ ان دو سے تین نسلوں کے سفر کو "کھوتا خور" یا جاہل کہہ کر ان کے کاروبار، زندگی کی جدوجہد، تعلیم اور باہمی محبت کے رشتوں پر تو اثر انداز نہیں ہوسکتے لیکن غصہ پھر وہ ووٹ کی اس پرچی کے جواب سے نکالتا ہے جس تک پہنچنے والے امیدوار بھی آج تک اپنے ووٹرز کا وقار، مان اور عزت بنانے میں سنجیدہ نہیں ہوئے۔

                  
                     
ووٹر کا اجتماعی شعور مسلسل گھٹیا پن دکھاتے مختلف پلیٹ فارمز سے رگیدتے رہنا شاید وہ عمل ہے جو انہیں خاموش تھپڑ کی طاقت سمجھا چکا ہے ۔ دیکھیے کب ان کے منتخب نمائندے بارہا مِلے اس یقین کا بدلہ بہتر قانون سازی اور مضبوط جمہوری نظام کی عزت کروا کر اتارتے ہیں ۔

                  

منگل، 26 ستمبر، 2017

پنجاب نہیں جاؤں گی






پاکستان فلم انڈسٹری جب اپنا عروج دیکھ رہی تھی سنا ہے ان دنوں کچھ شہروں میں فلم بین سینما گھر سے باہر نکلتے عموماً ایک جملہ کہتے ہیں " کہانی خاص نہیں تھی لیکن سٹوری اچھی تھی۔" ۔۔۔ اس کا مطلب صرف کہنے اور سننے والے ہی سمجھتے تھے ۔ مجھے اس کی سمجھ  "میں پنجاب نہیں جاؤں گی" دیکھتے ہوئے آگئی۔
گزشتہ دنوں ایک دوست کے اصرار پر فلم دیکھنے کا اتفاق ہوا۔ اور چند ہی منٹ بعد یہ سوچنے پر مجبور ہوچکی تھی کہ پاکستانی فلم کو اپنا کھویا ہوا مقام دِلوانے میں اس قسم کی فلمیں کہاں مارک کی جاسکیں گی جس کی سٹوری میں بارہ مصالحے تو چوکھے ہیں لیکن پیشکش اور عکاسی ؟ آگے بڑھنے سے قبل یہ بتانا ضروری ہے کہ مجھے اچھی طرح ادراک ہے اس وقت سلور سکرین اپنے وجود کی جنگ لڑ رہی ہے اور ہر بڑا پروڈکشن ہاؤس اپنا حصہ ڈال رہا ہے۔ ان سب کاوشوں کی دل سے قدر بھی ہے اور سراہا جانا سب کا حق بھی۔
مختصر کہانی یہ ہے کہ فواد کھگا (ھیرو) سیاسیات میں ماسٹرز کرکے گھر لوٹ کر آتا ہے جہاں بھرپور جشن منایا جارہا ہے (جو کہ صرف فلموں میں ہی بطور پنجاب کی ثقافت دکھایا جاسکتا ہے،حقیقت میں ایسا ہوتے دیکھا نہیں)۔ فواد کی کزن دردانہ اس سے محبت میں تقریباً شوہدی دکھائی گئی ہیں جبکہ امل (ھیروئن) لندن سے تعلیم مکمل کر کے کراچی واپس آئی ہیں۔ فواد اور امل کے گھرانوں میں سو سالہ پرانی دوستی ہے اور اس میں ان گھرانوں کی زبان حائل نہیں ہوئی (ایسا فلم بین کو بارہا باور کروانے کی کوشش کی گئی ہے)۔فواد کو کسی ھیر کی تلاش ہے۔ جو کہ امل کی تصویر دیکھنے پر مکمل ہوجاتی ہے۔ فلم میں ایک مقام پر ھیرو صاحب اپنے رقیب (اظفر رحمان) کو چیلنج کرتے ہیں کہ وہ ستر مربعے،بارہ سو بھینسیں اور اپنی حویلی امل کے نام کرکے پیار کے سچے ہونے کا ثبوت دے سکتےہیں جس پر ھیروئن کو احساس ہوتا ہے کہ وہ جس کلاس فیلو سے شادی کرنا چاہتی تھی وہ تو اپنا ایک فلیٹ اس کے نام نہیں کرسکتا۔ (کمال منطق ہے بھئی۔۔ شاید اسی کو سوشل سیکیورٹی کہتے ہیں شادی میں؟)

               

فلم آگے بڑھتی ہے اور کھگا گھرانے کی بہو ان کے تبیلے کو ڈیری فارم میں تبدیل کرنے کے مشن پر لگ جاتی ہے۔یہاں بہرحال ایک پدر شاہی نظام کو چیلنج کرتی لڑکی دکھانے کی کوشش کی گئی ہے۔ جس پر دادا سسر (سہیل احمد) اعتماد اور بھروپور مالی تعاون کرتا ہے جبکہ بدلے میں اس کے شوہر کا کردار ویسی ہی حرکات کرتے دکھایا گیا ہے جیسا کہ عموماً معاشرے میں ایسے چیلنجز کا سامنا کرتی خواتین کے شوہر کرتے ہیں۔ یہاں ایک ڈائیلاگ "پلیز ھیلپ می دردانہ۔۔" کو جس طرح باربار فِٹ کرکے بےوفائی کرتے فواد کو شرمندہ کرنے کی کوشش کی جاتی ہے وہ دیکھنے والوں کو مسکرانے پر مجبور کردیتا ہے۔ احمد بٹ نے ہمیشہ کی طرح ھیرو کے دوست نما اسسٹنٹ کا کردار اپنے مخصوص کامیڈی انداز میں نبھایا ہے۔ جو بعض جگہوں پر ماحول کا تناؤ کم کرنے میں اہم رہا۔ دردانہ( عروا حسین) کو ایک لائلپوری لڑکی دکھانے کی ناکام کوشش کی گئی ہے لیکن یہ کردار بھی خلاء کے ساتھ پیش کیا گیا جس پر بہت کام ہوسکتا تھا۔
فلم کی موسیقی اچھی ہے ۔ایک گانے "مجھے رانجھا بنا دو ھیر جی" میں تو ہمایوں سعید نے فلم مجاجن  کی یاد میں کلائی میں گھنگھرو بھی باندھ لیے۔ ۔ لیکن کیا صرف گانوں پر فلمیں چلائی جا سکتی ہیں؟ جبکہ صورتحال یہ بنے کہ گانے نکال لیں تو ایک ٹیلی فلم یا عید پلے سے زیادہ کچھ معلوم نہ ہو (ظاہر ہے جب ڈرامہ آرٹسٹس ہی ، خاص کر "ھیرو" وہ جس کو دیکھتے ہم بوڑھے ہو چلے، فلموں میں گُھسے ہوں گے تو عید پلے والی فیلنگ ہی آئے گی بھیا)۔ فلم میں مار کٹائی والے سین کافی "مزاحیہ" ہیں ۔ انسٹرکٹر نے شاید ہمایوں سعید سے ہی ہدایات لے رکھی تھیں۔
اصل افسوس تو یہ ہے کہ ہمیں ڈرامہ سیریلز  "لنڈا بازار"  اور  "بوٹا فرام ٹوبہ ٹیک سنگھ"  جیسے شاہکار دینے والے لکھاری خلیل الرحمٰن قمر صاحب نے اپنے مداحوں کے لیے سِکس سگما اور ندیم بیگ کے ہاتھوں سکرپٹ کا کچومر نکلوا لیا۔ جنہوں نے پنجاب اور خاص کر میرے لائلپور (فیصل آباد) کے نام پر وہی حشر نشر کرڈالا جو ندیم بیگ  فلاں کی آئے گی بارات اور ڈھمکاں کی آئے گی ڈولی  جیسے ڈراموں میں کرچکے تھے۔ اوور ایکٹنگ کی اوور ڈوز ۔
ہم اس معاشرے میں اپنی ثقافت اور پہچان کے رنگوں کی عزت کروانے میں کوشاں ہیں جہاں رنگ، زبان، علاقے اور نسل کی بنیاد پر تقسیم گہری ہوتی چلی جارہی ہے۔ایسے میں آپ ٹوٹی پھوٹی انگریزی اور بناوٹی پنجابی لہجے کی اردو سے کسی کو پنجابی دکھا کر سینما میں "پینڈو ای اوئے" کی آوازیں لگواتے ٹھٹھا اُڑوا رہے ہیں اور ساتھ میں اس علاقے کی ثقافت کے نام پر وہی گھٹیا سوچ کی ترویج کررہے ہیں کہ "پنجاب میں گھر گھر مجرے ہوتے ہیں" ۔۔ جناب آپ کو تحقیق کرنے کی اشد ضرورت ہے  کہ یہاں خوشیاں کیسے منائی اور غم کس طرح سہے جاتے ہیں۔ زندگی کا بڑا وقت لائلپور گزارنے والی بندی اب "پنجاب نہیں جاؤں گی" میں اپنے شہر سے منسوب ایسی لڑکیاں دیکھے جنہوں نے مینی کیور تو کیا نیل ایکسٹینشنز اور ھیر ڈو  کے ساتھ بھرپور میک اپ تھوپ رکھا ہو تو ہنسی ہی آئے گی۔ ھیر کا مزار کہاں ہے اور اس علاقے کا پہناوا کیسا ہے اگر علم نہ ہو تو ایک خوبصورت فلمی گیت کی پکچرائزیشن کا کچرا ہونا لازمی ہے۔ فیصل آباد کے کون سے گاؤں میں خواتین گھاگھرے پہن کر گھونگھٹ نکالے کنویں سے پانی بھرنے جاتی ہیں یہ معلوم کرنا بھی اب میری ہی ذمہ داری ہے۔ میک اپ سے لے کر لباس کے انتخاب تک میں آپ کو صرف  دو سے تین کردار ہی درست رنگ میں دکھائی دیں گے۔ نوید شہزاد (بی۔بو جی)  اور سہیل احمد (دادا مہتاب کھگا)  کی اداکاری ہمیشہ کی طرح اپنا رنگ جماتی دکھائی دیتی ہے۔

                  

دوسری جانب  "کراچی کی لڑکیاں ۔۔۔ محدود دماغ، تعلیم زیادہ"   یا  "دو نمبر عورتوں سے فون پر چیٹ"  جیسے ڈائلاگز، خواجہ سراء کمیونٹی پر سستے جملے اور ان پر قہقہے لگاتے میرے ارد گرد بیٹھے فلم بین۔ رہی سہی کسر سارے سسرال کا خاموش بیٹھے رہنا جبکہ ھیرو رنگے ہاتھوں پکڑے جانے کے بعد بیوی کو تھپڑ رسید کرکے اپنی مونچھ کی شان میں گستاخانہ فقرے کا بدلہ لے۔۔۔ آپ ثابت کیا کرنا چاہ رہے ہیں؟ مردانگی کے جھوٹے پیمانے، بےحسی اور گھٹیا پن کو ہنسی میں اُڑا دینے کی روایت مزید پختہ کرنے میں حصہ دار بن رہے ہیں۔
"پنجاب نہیں جاؤں گی" ٹائٹل کو لے کر بھی اچھی خاصی بحث پڑھنے کو ملتی رہی جو کہ صرف اس لیے نظرانداز کرتی رہی کہ فلم دیکھے بغیر فیصلہ دینا مناسب معلوم نہیں ہوتا۔ اگرچہ تقسیم در تقسیم کے ماحول میں اس قسم کے عنوان تجویز کرنے والوں کو دو بار سوچنا چاہیے۔ آپ بزنس کررہے ہیں اور کسی حوالے سے متنازعہ عنصر جو صارف کی دل آزاری یا خفگی کا باعث ہو کاروباری افراد کے مستقبل کے لیے اچھا نہیں ہوتا۔
فلم کے کچھ پہلو ، معاون اداکاروں کے چند ڈائلاگز اور جھومتی موسیقی مجھے اس فلم کو پانچ میں سے ساڑھے تین سٹارز دینے پر مجبور کرتے ہیں ۔ جبکہ ڈی۔ایچ۔اے کا  
Cinepax  سینما اپنے  بہترین ماحول  کے باعث ساڑھے چار سٹارز کا مستحق ہے ۔

               

دیگر شہروں میں کامیاب لانچنگ کے بعد 
Cinepax cinemas  نے اپنی بارھویں برانچ کا آغاز شہرِ اقتدار کے نئے اور سب سے بڑے گیگا شاپنگ مال میں کردیا ہے۔ 6 سکرینز ملٹی پلیکس اور ڈالبی 7.1 سراؤنڈ ساؤنڈ کے ساتھ پلاٹینم، گولڈ اور سلور سیٹنگ کا انتظام ایک خوبصورت ماحول میں فلم بینوں کے لیے ایک بہترین سہولت ثابت ہوگی۔ پروفیشنل سینما سٹاف، صاف ستھرے ریسٹ رومز اور شہر کی بہترین لوکیشن میں قائم ہونے کے باعث فیملیز کے ساتھ فلم دیکھنے کا معیار بہتر کرنے کی اچھی کاوش ہے۔

 

               

پیر، 27 مارچ، 2017

ذات کی تکمیل کےمعاشرتی پیمانے

معاشی و معاشرتی سطح پر مساوی مواقع اور حقوق کے حوالے سے ہمارے ہاں لسانی ، علاقائی اور معاشرتی تقسیم سے کہیں زیادہ جد وجہد عورت کے حصے میں آتی ہے۔ اپنی پیدائش سے لے کر اپنی اولاد کی پیدائش تک عورت کو "ذات کی تکمیل" کے نام پر ایک مسلسل سفر کرنا ہوتا ہے۔
عزت دینے کی بات آئے تو "ہم مائیں ، بہنیں بیٹیاں" ٹائپ نعروں میں جوڑ کر عورت کی پہچان اور مقام صرف رشتوں کے پیمانوں میں حنوط کردیا گیا ہے۔ کسی سماجی رابطے کی ویب سائٹ ہو یا کوئی عوامی جگہ "بھائی" کا دُم چھلا لگائے بِنا مرد سے بات کرنا معیوب ہے جناب۔ سرگوشیاں ہوں گی ، آنکھوں سے اشارے ہوں گے اور کردار پر کیچڑ اچھال کر اپنی کم مائیگی کے احساس کو تسکین پہنچائی جائے گی۔
ایسا نہیں ہے کہ گھر پر رہنے والی اور کنبے کا بوجھ اٹھا کر گھر سے باہر کام کرنے والی یا اپنا کیریئر بناتی خواتین میں سے کوئی ایک مسائل کا نسبتاً کم شکار ہوتی ہے۔ لیکن گزشتہ چند روز ہمارے ہاں انٹرٹینمنٹ کے نام پر چلتے کچھ ٹی۔وی ڈراموں کا جائزہ لینے کی کوشش نے اس حوالے سے مایوس کیا ہے۔ لکھاری کسی معاشرے کا نباض ہوتا ہے جو مختلف بکھری کہانیوں کو جوڑ کر ایک جیتی جاگتی تصویر پیش کرتا ہے۔ سمجھ سے باہر ہے کہ موضوعات کے چناؤ میں حقیقت سے دور ڈرامہ سکرپٹس کو پروڈکشن ہاؤسز کیسے سکرین پر چلاتے چلے جارہے ہیں۔ دو بہنوں میں سے ایک کو بطور ڈائن اور دوسری کا کردار روتی دھوتی قربانی کی دیوی ، اکلوتی ہو یا کثیرالتعداد بیٹیاں صرف شادی بیاہ چل رہے ہیں ، بیویوں کے کردار میں ہمارے لکھاری ابھی تک انیس سو سینتیس کے ماڈل میں پھنسے ہوئے ہیں اور سب سے بڑی فکری بددیانتی ورکنگ لیڈیز کے کرداروں سے برتی جارہی ہے۔ آج بھی تعلیم سے لے کر کیریئر بنانے تک گھر سے باہر نکلنے والی عورت کے کردار کو اس کے لباس اور بول چال سے ناپا جاتا ہے،اگرچہ اس کا چار دیواری سے باہر ہونا ہی بدکرداری کی واضح علامت بنا کر پیش کیا جاتا ہے۔جبکہ ہر دوسرا ڈرامہ ان خواتین کی مشکلات میں اضافہ کرتے صرف یہ دکھا رہا ہے کہ آفس میں کام کرتی بچی اپنے باس سے فلرٹ کررہی بلکہ انجام کار شادی پر ہی ہے۔کسی جوان بیوہ کا کردار ہے تو مجال ہے کہیں یہ دکھایا جائے کہ سرکاری ملازم کی بیوہ پینشن کے حصول سے لے کر دیگر دفتری معاملات میں کیسے نفسیاتی طور پرکچلی جاتی ہے یا اگر کوئی ذاتی کام کاج کرنے والا شخص دنیا سے چلا گیا تو اس کی بیوہ بچوں کے مسائل کس نوعیت کے ہوسکتےہیں اور ان سے لڑتی باہمت عورت کیا کچھ کرسکتی ہے۔لکھاری دِکھاتا ہے تو صرف کسی اوباش کردار کو یا لالچی جیٹھ کو۔تخلیق کے نام پر مسلسل ایک ہی پلاٹ کا ری مکس ورژن بیچا جا رہا ہے۔ گھریلو تشدد تو چھوڑیے یہاں ریپ کو بھی گلیمرائز کردیا گیا ہے۔ریپسٹ کو بطور ھیرو اور آخر متاثرہ عورت کی جانب سے معافی یا قبولیت کی سند دِلواتے سکرین کی زینت بنانے والے کیا کبھی اس کرب کا ادراک کرپائیں گے جو حقیقی زندگی میں ایسی متاثرہ بچی سہتی ہے؟ تیزاب گردی ،غیرت کے نام پر قتل ، وٹہ سٹہ ، ونی اور ایسے دیگر حساس موضوعات کو ھینڈل کرنے کا ڈھنگ نہیں سیکھ پا رہے۔خواجہ سراء پر کوئی پراجیکٹ شروع کرکے اس کے پلاٹ کو بھی پھیلا کر صرف  اپر کلاس کے معاملات دکھانے پر اکتفا کرلیا جاتا ہے۔ گھریلو ملازماؤں کو صاحب لوگوں پر ڈورے ڈالتے دکھا دیں ، ڈرامہ بِک جائے گا۔ اس طبقے کی کام کرتی عورت کے مسائل جائیں بھاڑ میں۔
عورت کے استحصال کا آغاز دہلیز کے باہر نکلنے سے قبل گھر سے ہی ہوا کرتا ہے۔ اور غور کیا جائے تو پہلا پتھر گھر کی بڑی بوڑھیوں کی ہاتھ میں ہوتا ہے۔ خوراک، صحت اور تعلیمی درسگاہ کے چناؤ تک میں صنفی تقسیم اور بددیانتی برتی جاتی ہے۔بچی بڑی ہورہی ہے تو دودھ،انڈے،خشک میوہ جات اورگوشت وغیرہ سے بچانا چاہیے لیکن پوتے کو یہ سب زیادہ مقدار میں ٹھونسنے کو دیا جائے۔ رشتہ دیکھنا ہے تو لڑکی دبلی پتلی، گوری چٹی، سرو قد،تیکھے نقوش،سگھڑاپے کی مورت ، کم عمر ہو لیکن ڈگریاں ڈٹ کر حاصل کر رکھی ہوں۔ بہو سے زیادہ بیٹے کی صحت و خوراک  پر توجہ مرکوز کی جائے ،پھر چاہے وہ بہو گھر سنبھالنے اور بچے پیدا کرنے کے ساتھ جاب کرکے شوہر کا ہاتھ ہی کیوں نہ بٹاتی ہو۔چکی کے دو پاٹ اور اس میں پِستی عورت جبکہ اکثر پیسنے والی دوسری عورت۔
میری دادی آٹھ بہوئیں بیاہ کرلائیں اور اس حوالے سے میں نے انہیں شاندار رویے کی امین پایا کہ ہر عورت حسین ہوتی ہے ۔ نین نقش اور رنگ روپ کی بنیاد پر ایک عورت کے ہاتھوں دوسری خواتین کا استحصال سب سے مکروہ روایت ہے۔
گزشتہ دنوں ایک کیمپین سوشل میڈیا پر دیکھی جس کو 
  کے ھیش ٹیگ کے ساتھ چلایا جارہا تھا۔ https://twitter.com/search?q=%23ProudToBeMyMum&src=tyah

وہاں لوگ بتا رہے تھے کہ انہوں نے اپنی والدہ سے کیا سیکھا،ان کی عادات سے کیا اپنایا اور کیوں انہیں اپنی والدہ پر فخر ہے۔ صحت مند کھانے سے لے کر شخصیت و کردار سازی تک اور آٹھ گلاس پانی روزانہ پینے کی عادت تک بہت کچھ ہے جو ماں اپنے بچوں کو منتقل کرتی ہے۔ میں اگر اپنی والدہ کی بات کروں تو کھانا ان جیسا لذیذ نہیں پکا سکتی لیکن دنیا میں بستے انسانوں کے لیے رنگ،شکل،عقیدہ اور زبان کی بنیاد پر فرق نہ کرنا انہی سے سیکھا ہے۔خود اعتمادی اور دوسروں کو کچلے بغیر آگے بڑھتے رہنا اماں ہی کو دیکھ کر سمجھا۔
میں نے اپنی والدہ سے جو بات سیکھی وہ یہ  کہ رویے، سوچ اورالفاظ بدصورت ہوا کرتے ہیں مگر انسان (بلاتخصیص جنس) کائنات کی سب سےحسین تخلیق ہوتی ہے۔ زندگی سے خوبصورت کچھ نہیں اور بیٹی ہو یا بیٹا اسے اپنی صلاحیتوں پر بھروسہ کرنے کا گُر سکھانا چاہیے۔بچوں کو اعتماد دیا جائے تو صنفِ مخالف کے وجود کو کچل کر اپنی ذات منوانے کی بدصورت روایت ختم ہوسکتی ہے۔تعلیم،شعوراورصحت مندسوچ ہر بچے کاحق ہے ۔
پاکستان میں قانون سازی کے ساتھ اجتماعی شعور میں بدلاؤ کی ضرورت ہے ۔ زندگی کے مختلف میدانوں میں اپنی جگہ بناتی ہوئی عورت ہو یا دوسری خواتین کے تحفظ و حقوق بارے آواز اٹھاتی، قانون سازی میں حصہ ڈالتی خواتین ہوں۔۔۔ سب جانتے ہیں کہ ہر دو جگہ بدصورت رویوں کا اظہار کرنے والے موجود ہوتے ہیں۔ سوچ بدلے گی تو عورت کو بطور انسان تسلیم کرنے کی راہ میں آسانیاں بھی آتی جائیں گے کہ فی الحال تو خود سے زیادہ کامیاب اور زیادہ کماتی عورت ہر رشتے اور حوالے سے اکثریت کو عدم تحفظ کا شکار کردیتی ہے۔

باقی یوں ہے کہ کچھ روز قبل خواتین کے عالمی دن کے موقع پر ان لوگوں کو بھی چیختے دیکھا جو سارا سال اپنے گھر کے علاوہ دنیا کی ہر عورت کو حرافہ سمجھتے ہیں لیکن اس روز انہیں اچانک یاد آجاتا ہے کہ "اسلام میں عورت کا مقام بلند ہے۔اسی لیے کوئی ایک دن مخصوص کرکے منانا ناجائز ہے۔"

ہفتہ، 11 مارچ، 2017

شلوار ، زندہ لاشیں ، مولانا ڈیزل اور پھٹیچر

"اس قوم کی یاداشت بہت کمزور ہے۔"  کسی معاملے پر بے بسی سے لبریز یہ جواب سن کر میں ہمیشہ مسکرا دینے والوں میں سے رہی ہوں۔بالکل اسی طرح جیسے  "اگر ہم نے حماقت کی تو انہوں نے بھی فلاں فلاں وقت ایسی غلطی کی۔" جیسے دلائل اور دفاعی وضاحت سُن کر بے اختیار ہنسی آجاتی ہے۔ میں لیکن ماضی قریب اور بعید کا کچھ سفر کرنا چاہوں گی۔
ایک وقت تھا کہ عمران خان صاحب کو اس ملک میں کرکٹ سے محبت کرنے والوں نے دیوتا کی طرح پوجا۔ہر نیا باؤلر ان کو آج تک آیڈلائز کرتا ہے اور اس حوالے سے خان صاحب کی اہمیت کسی صورت چیلنج یا کم نہیں کی جاسکتی۔ایک ٹیم کے کپتان کو بروقت اور جرات مندانہ فیصلوں کی اہمیت کا ادراک ہوتا ہے۔آپ ایسے ہی کپتان رہے ہیں۔کینسر ہسپتال ہو یا نمل جیسا تعلیمی ادارہ عمران خان صاحب کے ارادوں کی پختگی کو اس ملک کے عوام نے اپنے ڈونیشنز سے تکمیل تک ہمیشہ عزت بخشی ہے۔بطور سیاستدان آپ کتنا ہی ان کے رویے اور پل پل بدلتے بیانات سے اختلاف رکھیں لیکن دنیائے کرکٹ میں ان کا مقام یاد کیا جاتا رہے گا۔
پاکستان سُپر لیگ کا دوسرا سیزن شروع ہوا اور قومی کرکٹ ٹیم کے سابق کپتان عمران خان صاحب کی جانب سے بیانات کا لامتناہی سلسلہ (پانامہ کیس کی ڈھولک کے درمیان) بھی زور پکڑتا گیا۔پہلے کہا کہ پوری لیگ پاکستان میں ہونی چاہیے۔پھر بیان آیا کہ انٹرنیشنل کھلاڑی آجائیں تو فائنل زبردست ہو۔ لیکن جونہی لاہور میں فائنل میچ کی خبر آئی خان صاحب اس کو پاگل پن اور حماقت قرار دے دیا اور پھر  فائنل میں پہنچنے والی ٹیم کو مبارکباد بھی جَڑ دی۔پاکستان میں ہر شخص تقریباً ایک دہائی کے بعد کرکٹ اپنے گھر آنے کا جشن منا رہا تھا کہ خان صاحب اور ان کی جماعت کے نمائندوں نے ٹکٹوں کے حوالےسے میڈیا میں شور مچا دیا۔کسی کو تمام میچ میں فری انٹری کا بخار ہوا تو کسی نے دعویٰ کیا کہ حکومتی جماعت نے سیاسی جلسہ رکھا ہے لہذا اپنے ووٹرز کو ٹکٹیں مفت بانٹ دی ہیں۔خان صاحب کی منطق نرالی جنہوں نے اپنے نام کے وی۔آئی۔پی انکلوژر کا ٹکٹ فری کرنے کا مطالبہ کیا اور ساتھ میں یہ راگ بدل بدل کر چلتے رہے کہ کلب لیول کھلاڑی آئیں گے، سیاسی جلسہ ہے ، پانامہ کیس سے عوامی توجہ ہٹائی جارہی ہے۔ ہمارے ہاں مانا جاتا ہے کہ جِس پلیٹ فورم سے آپ کو عزت ، شہرت اور محبت مِلی ہو اور جہاں سے رزق کمایا ہو وہاں کا احترام انسان آخری دم تک بھولتا نہیں اور اس شعبے سے وابستہ افراد سے ایک جذباتی لگاؤ بھی ہوجاتا ہے۔ شاید اسی لیے پی۔ایس۔ایل فائنل میچ میں شرک بین الاقوامی مہمان کرکٹرز کے لیے "پھٹیچر اور ریلو کٹا" جیسے الفاظ ایک سابق کرکٹر کی جانب سے آنا زیادہ نامناسب معلوم ہوتا ہے۔ہماری مہمان نوازی کی روایات کے تمام حوالے رہے ایک جانب لیکن میرا مسئلہ اس سے کچھ مختلف ہے۔"افریقہ سے پکڑ کر لےآئے" جیسے حقارت بھرے الفاظ میں چھپا نسلی تعصب ۔جس کو پس منظر میں جانا تک نصیب نہ ہوا۔سیدھا قالین کے نیچے دبا دیا گیا۔
لوگ ریلو کٹا کا مفہوم سمجھتے رہے جبکہ خان صاحب کی جماعت اس اصطلاح کے وہ معنی تلاش کرتے ہلکان ہوتی رہی جو عوامی و میڈیائی غصے کو کچھ ٹھنڈا کرسکیں۔کہا جاتا ہے مسلسل صفائی اور تاویلیں دراصل غلطی کا اعتراف بن جاتی ہیں۔لیکن اعتراف کے تو کیا کہنے جب عمران خان صاحب اپنے اس "غیر رسمی یا آف دا ریکارڈ" بیان پر باجماعت ڈٹ گئے۔ اور اس گفتگو کی وڈیو بنا کر سوشل میڈیا پر چلانے والی خاتون رپورٹر کو ایک جانب صحافتی آداب سکھاتے رہے جبکہ دوسری جانب اس جماعت کی سوشل میڈیا ٹیم ان خاتون کی کردار کشی کے علاوہ "توہینِ رسالت" کرنے والوں کے ساتھ تعلق جوڑتی رہی۔
مانا کہ خان صاحب ایک عظیم کرکٹر رہے۔اچھے کپتان تھے۔ورلڈ کپ جیتنے والی ٹیم کی کپتانی کی۔انسانیت کی خدمت میں کینسر ہسپتال اور تعلیمی ادارہ بنایا۔تو کیا یہ تمام باتیں انہیں آزادی فراہم کرتی ہیں کہ کسی بھی کرکٹر کے کیریئر اور صلاحیتوں کو ارزاں سمجھں؟ کیا دنیائے کرکٹ میں اب کوئی بڑا کرکٹر پیدا نہیں ہوسکتا۔چاہے اس نے دو ورلڈ کپ جیتے ہوں؟ تو کیا انسانیت کی خدمت کسی بھی انسان کو حق دیتی ہے کہ دنیا کے مختلف خطوں میں آباد انسانوں کو تحقیر سے دیکھا جائے؟ کیا سر ویوین رچرڈز اور دیگر سابق کرکٹرز کا پاکستان میں آنا آپ سے ہضم نہیں ہوا؟ جس کرکٹ میچ کو آپ سیاسی جلسہ قرار دے رہے تھے وہاں ان دو اشخاص کے خلاف نعرے لگوائے گئے جنہوں نے پاکستان میں اس ایک میچ سے اس دھشت کو ختم کرنے کی کوشش کی جس میں ہم برسوں سے سانس لے رہے تھے۔بجائے اس کے کہ ان دھشتگردوں کو یک زبان ہو کر جواب دیا جاتا جو ہمارے کھیل کے میدان ویران کرتے رہے اور ہم سے ہماری خوشیوں اور ثقافت کا ہر رنگ چھین لینا چاہتے ہیں۔ آپ نے خود اس موقع کو سیاسی اور تقسیمی لمحہ بنا ڈالا۔
بات یہاں ختم نہیں ہوتی۔جیسا آغاز میں کہا کہ "یاداشت بڑی کمزور ہے" ۔ خان صاحب نے یہ تمام تضادات پہلی دفعہ نہیں دکھائے۔اور نا ہی یہ پہلا موقع تھا کہ نا مناسب الفاظ کا چناؤ سامنے آیا۔۔۔ اوئے ، گیلی شلوار ، اپنے ہاتھوں سے پھانسی ، ڈر کے مارے ان کا پیشاب نکل جاتا ہے ، زندہ لاشیں ، مولوی ڈیزل ، سول نافرمانی میں ھُنڈی حوالہ کی انڈورسمنٹ ، محمود اچکزئی کی پشتون چادر کا ٹھٹھا ، قائدِ حزبِ اختلاف کو وزیرِاعظم پاکستان کا پی۔اے کہنا ، امپائر کی انگلی ، اسفند یار ولی ہوں یا متحدہ قومی موومنٹ کے رہنما یا بلاول  اور یا پھر مختلف قومی ادارے اور ان کے سربراہان سب کے لیے نازیبا الفاظ کنٹینر سے جاری ہوتے رہے۔پنجاب،کشمیر اور سندھ کے علاقوں میں سیلاب آگیا لیکن آپ کنٹینر سے نہ اترے۔ اس تمام مختصر ری کیپ میں اہم بات یہ ہے کہ سب اپنے ہی ملک اور اس سے وابستہ معاملات رہے۔ اب آ جایے پاکستان آنے والے مہمانوں کی جانب ۔ ہم آج یہ کہہ رہے ہیں کہ فلاں فلاں کھلاڑی کو ریلو کٹا یا پھٹیچر کیوں کہا لیکن بھول رہے ہیں کہ دو سال قبل چینی صدر تک کو "اوئے" کیا جاچکا ہے۔پہلے عوام کو کنٹینر سے باور کرواتے رہے کہ انویسٹمنٹ نہیں سی۔پیک چینی قرضہ ہے اور چینی صدر تو آ ہی نہیں رہا۔اسی روش کی بدولت سری لنکا ، مالدیپ اور قطر جیسے ممالک کے سربراہان نے اپنے دورے ملتوی کیے۔اور جب چینی صدر پاکستان آئے تو پارلیمنٹ کا بائیکاٹ کرنے سے جس طرح ان کی جماعت کے کچھ افراد نے روکا وہ الگ داستان ہے۔ مسئلہ کشمیر پر مشترکہ اجلاس ہو یا ترک صدر کا پاکستانی پارلیمنٹ سے خطاب خان صاحب اپنے عظیم مؤقف پر ڈٹ کر بائیکاٹ کرکے بیٹھے رہے۔لہذا یہ کہنا کہ ایسا پہلی دفعہ ہوا درست نہیں۔ اور یہ سب آخری دفعہ بھی نہیں ہوا۔ عمران خان صاحب فیصلوں میں اٹل ہونا الگ بات ہے اور زندگی و سیاست کے گرے ایریاز کو سمجھ کر وقت کی نبض سمجھنا الگ معاملہ ہے۔ صرف خود کو صراطِ مستقیم پر چلنے والا واحد مسیحا سمجھنا اور ساری دنیا پیتل کی گردانتے جانا سیاسی مستقبل میں کوئی بڑا میچ جیتنے کی کنجی نہیں ہوسکتا۔ یا پھر ہم مان لیتے ہیں کہ آپ ڈونلد ٹرمپ کی الیکشن کیمپین سے متاثر ہوگئے اور وہی حربے آزمانے چلے ہیں۔
یہ تو رہی دو روز قبل تک کی کہانی۔۔ آج یوں ہے کہ ہمارے دو رکن قومی اسمبلی نے جو کچھ کیا ہے اس کے لیے مجھے بھڑاس کا اب دوسری تحریر میں راستہ سجھائی دے رہا ہے۔

سرطان اور معاشرتی رویے

 میں انہیں پھپھو پیاری کہتی تھی، اور سچ تو یہ ہے کہ آج تک ایسی حسین اور سلیقہ شعار صابر خاتون میں نے نہیں دیکھی۔آخری بار جب انہیں دیکھا تو بہت دیر تک گُھٹی آواز میں ماں کی گود میں سسکتی رہی کہ یہ میری پھپھو پیاری نہیں ہیں۔ ہونٹوں پر جمی پپڑی، ہڈیوں کا ڈھانچہ، پھولا ہوا پیٹ اور چھاتی سے بہتا ناسور۔۔۔چند روز بعد ان کے دُکھوں کو راحت مِل گئی۔
شعور کی دہلیز پر قدم رکھا تو سمجھ آئی کہ جِسے ننکانہ اور جھنگ شہر کے لوگ 'غم دا گولہ' کہہ کر جھاڑ پھونک کرواتے رہے، وہ تو بچہ دانی سے لے کر چھاتی تک کا سرطان تھا۔ ڈاکٹر کے پاس نہیں لے جایا گیا کیوں کہ پُھپھا کو پسند نہ تھا کہ ان کی حسین و جمیل بیوی نا محرم ڈاکٹروں کے سامنے بے پردہ ہو۔
پھپھو پیاری نافرمان بیوی اور بہو بننے سے بچ گئیں مگر سرطان سے نہ بچ سکیں۔ آخری وقت میں سسرال نے "موذی" مرض سے نفرت میں برتن تک الگ کر دیے اور جانے کس حکیم کی دوا کیپسول میں بھر بھر کر کھلاتے رہے۔وقت کچھ سرکا اور اماں کو گلٹی کی تکلیف پر شک گزرا تو میڈیکل ٹیسٹ کروائے گئے۔ چھاتی کا سرطان تیسرے درجے کی آخری منزل پر جا پہنچا تھا۔ ایک کینسر ہسپتال نے کیس لینے سے انکار کر دیا تو لاہور میں پاکستان اٹامک انرجی کمیشن کے زیرِ انتظام ہسپتال نے زندگی بچا لی۔ یہ وہ لمحہ تھا جب ابا نے ساتھ بڑھ کر قریبی رشتہ داروں کو بتایا اور بروقت سرجری کروالی گئی۔
ہسپتال میں اماں کے ساتھ والے بستر پر ایک جوان سال لڑکی تھی جِس کا سرطان بگڑ گیا تھا۔ وجہ تھی گھر والوں کی لاپرواہی اور وقتی لالچ۔ جب تشخیص ہوئی تو اس کی منگنی کا دن مقرر کیا جا رہا تھا۔ مہینہ ڈیڑھ گزار کر واپس آئی تھی اور ڈاکٹرز کے پاس سرجری کے سوا کوئی چارہ نہ تھا۔ اس سے بھی تکلیف دہ رویہ یہ تھا کہ رشتہ داروں اور لڑکی کے سسرال سے فون آتے تو گھر والے ان سے یہ معاملہ چھپاتے رہے جیسے یہ کوئی چھپ جانے والی حقیقت تھی۔ لڑکی والدین کی نافرمان نہیں تھی، اس لیے ایک وقت میں تین محاذوں پر کھڑی تھی، جسمانی کرب، نفسیاتی طور پر بکھری، اور ظاہری طور پر مکمل ویران اجڑی حالت۔
اماں کی سرجری کے بعد ایک طویل اور کرب ناک مرحلہ تھا کیمو اور ریڈیو تھراپی کا۔ مجھے آج بھی یاد ہے کہ عیادت کے لیے آنے والی بیشتر خواتین کو سب سے زیادہ دلچسپی دوسری عورت کے جسم کا کٹا ہوا حصہ دیکھنے میں ہوتی تھی۔سوالات کی نوعیت کچھ ایسی ہوتی کہ جِس میں "نسوانیت" سے جُڑے مستقبل کے مسائل پر روشنی ڈالنے کی لو محسوس ہو۔ وہ وقت اماں کے ساتھ ان کی فیملی ڈھال بن کر کھڑی رہی اور نفسیاتی طور پر ہماری ماں نے پہلے سے بھی مضبوط عورت بن کر بیماری کو شکست دے دی۔
یہاں مجھے اپنے پڑوس کی ایک خاتون کا حوالہ بھی دینا ہے جن کی شادی بھائیوں نے نہیں کی تھی۔ انہیں جب چھاتی کے کینسر کی تشخیص کی گئی تو بھائی بھابھیوں نے شرم و غیرت میں کسی سے ملنا جلنا ہی چھوڑ دیا اور گاؤں سے جھاڑ پھونک کے چکروں میں پڑ گئے۔
بہرحال اماں ابا نے ان لوگوں کو سمجھا بجھا کر سرجری اور دیگر علاج کی راہ سجھائی اور بیت المال کے توسط سے دواؤں وغیرہ کے خرچ کا بندو بست بھی کروایا۔ کیموتھراپی کے بعد جون جولائی میں اس بندی کو گاؤں بھیج دیا گیا۔وہاں سے جب لوٹی تو بازو کے پٹھے حرکت کرنا چھوڑ چکے تھے۔ اچھوت بنی گھر کے کونے میں پڑی رہتی اور پھر اللہ نے اس کی آہ و بکا جلد سن لی۔ اچھا ہوا چلی گئی۔ بھائیوں کو گاؤں کی زمین سے حصے کرنے میں مشکل نہ ہوئی۔
کچھ روز قبل سُنا کہ اماں کی پھپھو کی بہو اگلے ہفتے بریسٹ کینسر کے آپریشن کے لیے جا رہی تھی لیکن اس کے میکے والے آ کر روحانی علاج کے لیے لے گئے ہیں۔ اچھی لڑکی ہے اور والدین کی نافرمان بھی نہیں۔ خاموشی سے چلی گئی۔ انشاءاللہ صحت یاب ہو کر لوٹے گی، ورنہ تابع اور فرمانبردار ہونے کے باعث جنت تو پکی اور سسرال بھی بری الذمہ ہے۔

یہ چند واقعات بیان کرنے کا مقصد چھاتی کے سرطان سے آگہی نہیں بلکہ ہمارے معاشرتی رویے ہیں جو دہائیوں پر مشتمل ہیں۔ علاج کی سہولیات تک دسترس تو آسان ہو گئی لیکن کسی جسمانی عضو میں پھیلے ناسور سے جُڑی ہماری منافقتیں وہیں دھری ہیں۔آج بھی شرم اور حیاء کے بنائے جھوٹے پیمانوں میں تول کر عورت کا مرض ناقابلِ علاج کر دیا جاتا ہے، اور بالفرض محال علاج شروع ہو جائے تو ایک بڑی تعداد وہ ذہنی کرب سمجھنے سے قاصر ہے جو ایک عورت جسم کا حصہ کٹ جانے پر سہتی ہے۔ الٹا معاشرتی دباؤ اور گھریلو کشمکش میں نفسیاتی طور پر تنہا کر دیا جاتا ہے، اسے ادھورے پن کا طعنہ مِلتا ہے، سر کے بال اور بھنویں جھڑ جانے جیسی ذہنی و نفسیاتی اذیت الگ ہوتی ہے۔
گزشتہ دنوں 45 سالہ بیوہ پروین بی بی سے ملاقات ہوئی۔ تین بچوں کی پرورش کے لیے لوگوں کے کپڑے سلائی کر کے گزر بسر کر رہی تھیں کہ بریسٹ کینسر نے آ لیا۔ مظفر آباد کے سی ایم ایچ سے سرجری کے بعد اسلام آباد کے شفاء انٹرنیشنل ہسپتال میں کیمو تھراپی کے بعد آج کل ریڈیو تھراپی کے تکلیف دہ عمل سے گزر رہی ہیں۔انہیں دیکھ کر احساس ہوتا ہے کہ ماں کی قوتِ ارادی اور ہمت کیا شے ہوتی ہے۔ ریاست کی جانب سے اچھی بات جو اس سارے عمل میں میرے علم میں آئی وہ یہ ہے کہ پروین بی بی کا تمام تر علاج وزیرِ اعظم کے ہیلتھ کارڈ پروگرام کے تحت بالکل مفت ہو رہا ہے اور یہ کارڈ ان کی دہلیز پر پہنچایا گیا۔ایسے بہت سے مریض ہیں جو اس کارڈ کی بدولت کینسر کے مہنگے علاج کی معاشی پریشانی سہنے سے بچائے جا رہے ہیں۔ ہاں اب بھی بہت سے مریضوں تک یہ سہولت نہیں پہنچی ہے، مگر بہتری بہرحال ایک مسلسل عمل کا ہی نتیجہ ہوتا ہے۔
ہم نے تو سوشل میڈیا پر ایسے پڑھے لکھے ذہنی مریض بھی دیکھے ہیں (جن میں خواتین بھی شامل ہیں) جو چھاتی کے سرطان میں سے sexism یعنی جنسیت تلاش کرنے میں ماہر ہیں۔اس کا تجربہ مجھے ہر بار ان ٹوئٹس کے بعد ہوتا ہے جِن میں پنک ربن کے بارے میں بات کرتی ہوں، جبکہ نومبر کا مہینہ جو مردوں میں سرطان سے آگہی کے حوالے سے منایا جاتا ہے، اس بارے میں تو معاشرتی سمجھ اکتوبر کے پنک ربن سے بھی کہیں کم ہے۔
سیمینار اور تشہیری مہم کے علاوہ سرکاری ہسپتالوں اور خاص کر کینسر یونٹس میں اکتوبر کا پورا مہینہ خواتین کو مفت معائنے اور مشورے کی سہولت فراہم کی جاتی ہے لیکن عام شہریوں کو آج بھی مکمل علم نہیں ہو پاتا۔
ج
ب مرض کو حیاء اور غیرت سے جوڑ دیا جائے تو صحت کی صورتحال وہی بن جاتی ہے جو پاکستان میں ہے۔ سرطان سے حفاظت آپ سے اپنے بدن کی آگہی مانگتی ہے۔ سمجھ نہیں آتی کہ چھاتی یا کسی بھی قسم کے سرطان پر بات کرنا معیوب کیوں سمجھا جاتا ہے؟
بیماری کو تمسخر اور ذہنی عیاشی کا ذریعہ سمجھنا بھی ایک بیماری ہے، مگر ناقابلِ علاج۔ مرد و خواتین میں ہر قسم کے سرطان پر کھل کر بات ہونی چاہیے۔ احتیاط اور اپنا ماہانہ معائنہ جیسا شعور پیدا کرنے کی اشد ضرورت ہے۔
دشمن کو پہچاننا اور جاننا جیت کی جانب پہلا قدم ہے۔
اگر تعلیم یہ سکھانے میں ناکام رہے کہ چھاتی کے سرطان سے لے کر کسی بھی طرح کے صحت کے مسائل پر انفرادی و اجتماعی ردِعمل کیسا ہونا چاہیے، تو یقیناً آپ کو مدد کی ضرورت ہے۔

جمعرات، 12 جنوری، 2017

میں لاپتہ کیوں نہیں ہوسکتی

گزشتہ شام سیل فون پر بجتے ستار کی دھن نے اینٹی الرجی دوا کے اثر پر نہایت بے سُرے اثرات مرتب کرتے جاگنے پر مجبور کیا۔ اور عینک تلاش کرنے کا تردد کیے بغیر جونہی ھیلو کہا تو دوسری جانب سے ہانپتی ہوئی آواز آئی "افشاں آپ خیریت سے ہیں ؟ اطلاعات کچھ اچھی نہیں مِل رہی تھیں۔" تین روز سے رٹا رٹایا جواب دہرا کر اس مہربان فکرمند دوست کو تسلی دیتے اللہ حافظ کیا ۔ یہ تفکر بھری دوستانہ تفتیش کا دسواں راؤنڈ تھا جو چند گھنٹوں میں نمٹایا تھا ۔
کچھ نجی مصروفیات ، گزشتہ برس سے التوا میں پڑی زیرِ مطالعہ کتب ختم کرنے کی دھن اور موسمی الرجی سے نمٹنے کی دوائیں کھاتے سماجی رابطوں کے مختلف پلیٹ فورمز سے ان دنوں کچھ دوری اختیار کرنے پر مجبور ہوں۔لیکن اس دوران "سجے کھبے"  سے زیادہ
 Friend or Foe والے فارمولے کے تحت بلاگرز اور انسانی حقوق کے لیے آواز بلند کرنے والے سنا ہے تاریخ کے نازک ترین موڑ سے گزر رہے ہیں۔الیکٹرانک میڈیا کو نکیل ڈالنے  کی جد وجہد کے ساتھ ڈیجیٹل میڈیا پر ضربِ قلم شروع ہوچکا ہے۔اب شاید کچھ احباب کو "ای۔مارشل لاء" کی اصطلاح سمجھ آجائے جو سائبر جرائم بل کے آنے پر استعمال کی تھی ۔ لامحدود اختیارات کے ساتھ جب جوابدہی کا خوف نہ ہو تو جنم لینے والی صورتحال شاید مطلق العنانی کہلواتی ہے۔
ٹی۔وی چلایا تو دیکھتی ہوں کہ میک اپ میں لتھڑے کچھ اینکرز لاپتہ افراد کے نام ، پتے اور شکلوں کی شناخت کے ساتھ ان کے نظریات و عقائد کو تفصیلاً واضح کرتے معاشرے میں چھپے ممتاز قادریوں کی مشکل آسان کررہے ہیں تو دوسری جانب "فارغ دفاعی تجزیہ کار" اب سلمان حیدر جیسے استاد اور ترقی پسند شاعر کے علاوہ کچھ پیج ایڈمنز و دیگر آوازوں  کے پنجابی والے چُکے جانے کا بودے دلائل سے دفاع کررہے ہیں۔ سوشل میڈیا پر کچھ لوگ تو رقصِ بسمل میں مصروف فتح کا جشن مناتے ہوئے مجھے امتنان قاضی کی بات یاد کروا رہے ہیں کہ "محض اپنے نظریات میں بہتری کی سعی نہ کرنا تنگ نظری نہیں، کسی دوسرے کے نظریات کے مٹ جانےکی خواہش بھی تنگ نظری ہے۔" اعتدال و توازن  کے نام پر بھی ہم بہت عجیب روایت کے امین بن چکے ہیں ،یہاں اپنے واسطے جو آزادی حق سمجھ کر چھیننے کو بے تاب ہوتے ہیں دوسروں کے اسی حق کے استعمال پر باقاعدہ سینہ کوبی فرماتے ہیں۔
ریکارڈ کی درستگی کے لیے جاننا چاہوں گی کہ عدلیہ کے خلاف جھوٹے پراپگینڈا یا  کسی دوسرے ریاستی ادارے کے سربراہ کے عقیدے بارے من گھڑت باتیں پھیلانے کے جرم میں جو لوگ دَھرے گئے ہیں کیا ان میں ساجد میر نامی کوئی شخص اور صحافت میں گھسی کالی بھیڑیں بھی شامل ہیں ؟
مجھے بہرحال سلیم شہزاد اس لیے یاد نہیں آ رہے کہ ان کا جرم زیادہ سنگین نوعیت کا تھا۔ ورنہ تو یاد کرنے کو تاحال گمشدہ زینت شہزادی بھی ہے اور حال ہی میں کئی ماہ کے بعد اچانک لوٹ آنے والے کامریڈ واحد بلوچ بھی ہیں کہ جن کی واپسی پر کسی نے اسیری کی وجوہات اور آزادی کی قیمت دریافت کرنے کی جرات نہیں کی۔ متضاد اخباری اطلاعات کے مطابق چار سے بارہ افراد نئے برس کے پہلے ہفتے میں یوں ہی غائب ہوگئے ہیں جیسے بلوچستان میں ماؤں کے جوان بچے یا پشاور سے لاپتہ ہونے والے نیفا  کے پروفیسر فضل طارق۔
سلمان حیدر کے معاملے میں مؤرخ تو یہ بھی لکھنے سے قاصر ہے کہ دارالحکومت کو سیف سٹی کا درجہ دینے والے اُن کیمروں کا کیا کرنا ہے جو ہر چند میل پر نصب ہیں۔ وہ شاید  یہ یاد کرتے ہوئے شرما جائے کہ کچھ عرصہ قبل ڈی۔چوک میں ایک خاص مسلک کے لوگوں نے کیسے ڈیرے جما کر ریاستی عہدوں اور شخصیات پر نہ صرف کیچڑ اچھالا بلکہ کھلے عام دھمکایا گیا اور ان کے قتل پر باقاعدہ اکساتے ، منبر پر بیٹھے مغلظات بکتے ان باریش غنڈوں کے خلاف آج تک ریاست نے کیا کاروائی کی اس بارے میں عوام کو آج تک آگاہ نہ کیا گیا۔ بس اُنہی کی جانب سے اکثر و بیشتر مختلف روح پرور بیانات کی وڈیوز منظرِ عام پر آ کر مغلظات کی لغت میں بے پایاں اضافہ کردیا کرتی ہیں۔ نفرت انگیز مواد نشر کرنے ، قتال پر اکسانے اور گمراہ کُن پراپگینڈا کرنے والے بڑے ناموں یا بینرز تلے چلنے والوں کے خلاف نیشنل ایکشن پلان ہابرنیشن میں ہے لیکن الحمدللہ ریاست اور اس کے اداروں کی پالیسیز کو جوابدہ سمجھنے والوں کے خوب دانت کھٹے کیے جائیں گے۔
پہلے عقیدے کی بنیاد پر کسی مسلک کے پڑھے لکھے بچوں کو چُن چُن کر موت کی نیند سلانے والے عناصر خدا جانے کِس کی سرپرستی میں دندناتے تھے ۔ اب تنقید کرنے اور سوال اٹھانے والوں کو جانے کون سے اُڑن کھٹولے اُٹھا کر لے جا رہے ہیں۔
ایک رپورٹ کے مطابق انکوائری کمیشن برائے جبری گمشدگی میں گزشتہ چھ برسوں کے دوران سب سے زیادہ کیسز پچھلے سال درج کیے گئے ہیں۔جن کی مجموعی تعداد 1219 رہی۔

آواز دبانے اور چہرے منظر سے غائب ہوجانے پر سوالات کی تدفین نہیں ہوپاتی بلکہ سوالات کا کیڑا نئے اذہان میں کلبلانے کا راستہ تلاش کر لیتا ہے۔ سُچل جمہوری اور مہذب معاشروں میں سوال اور اختلافِ رائے کو مذہبی و سیاسی عقائد سے جوڑ کر ایمان اور حب الوطنی کے معین کردہ معیار سے ہٹنے کی سزا مسخ شدہ موت تو ہرگز نہیں ہوتی یا پھر ترکی سے یارانہ نبھاتے وہاں کا ماڈل اپنانے کی روش چل نکلی ہے ؟ بنگلہ دیش میں بلاگرز کے ساتھ کیا ہورہا ہے وہ بھی ڈھکی چھپی بات نہیں۔ہماری ریاست اور اس کے ادارے کیا جرم کی نوعیت بتانے کے مجاز نہیں اور اگر، دہراتی ہوں ، اگر ان کی تحویل میں ایک شہری ہے تو اس کے لواحقین کو بتانے میں کیا قباحت ہے جو ہر پل سسکتے ہیں؟ اگر کسی ادارے نے کاروائی نہیں کی تو بازیابی کی ذمہ داری وزارتِ داخلہ و دفاع میں سے کِس کے پلے ڈال کر اناؤں کی جنگ میں تیل ڈالنا ہے یہ کوئی بتانے کو راضی نہیں۔
ابھی ایک قریبی عزیز کو تسلی دی ہے کہ میری گمشدگی کے امکانات اتنے ہی معدوم ہیں جتنے ان کے سدھرنے کے اور جواز اس یقین کا یہ ہے کہ نہ تو مجھے زیادہ لوگ جانتےہیں ،کوئی پیج میں نہیں چلاتی جہاں سے غداری یا کفر بھرے کلمات کے ویب لنکس ادھر اُدھر وائرل ہوں اور  بڑے نام مجھے قوٹ کریں۔ نہایت بے ضرر سے بلاگز کی جگالی کر لیا کرتی ہوں جن میں چٹنی، اچار اور مربے وغیرہ کی بساند آتی ہے۔ باقی یہ کہ ایک دو دفعہ کے سائبر فتووں کو اس لیے شمار نہیں کرتی کہ وہ ہر دو مکتبہ فکر نے اس شبے میں جاری کیے کہ شاید میرا تعلق مخالف نظریے والوں سے  ہے
شکر ہے بھئی کہ ہم نے کبھی جبری گمشدگی یا لاپتہ افراد بارے محاورتاً ماں سے زیادہ چاہ کر پھاپھے کٹنی کہلوانے کا شوق نہیں پالا۔ اور شکر ہے اس مالک کا جس نے عقل دی کہ بی۔بی تجھے پرائی آگ میں کود کر کیا ملے گا، یونہی کسی روز کھٹارا گاڑی کسی سڑک کنارے لاوارث پڑی ہوگی اور ایک عدد نام نہاد وزیرِ دفاع جو پینتیس میں سے چودہ لاپتہ افراد کو لا کر چھ کی شناخت کروا پائے ، عدالتی سُبکی اٹھانے میں عار محسوس نہ کریں گے یا پھر طویل ذمہ وار پریس کانفرنس کرتے ہمارے وزیرِ داخلہ صحافیوں کو بتائیں گے کہ میرے الفاظ کے تابکاری اثرات سے معاشرے میں کیسی مہلک وباء پھوٹنے کا اندیشہ تھا لیکن پھر بھی چوبیس گھنٹوں میں اصل مجرموں تک پہنچنے کی نوید سنا دیں گے۔
ڈرانے والے تو یونہی ڈراتے ہیں کہ خاموش رہو ورنہ لاپتہ افراد کے لیے آواز بلند کرنے والے اگر کل غائب ہوئے ہیں تو آنے والے کل میں ہم تم بھی غائب ہوسکتے ہیں۔ میں لیکن اپنے تئیں مطمئن ہوں کہ ایسا ممکن نہیں ۔ان سب طفل تسلیوں کے بعد اچانک خیال آگیا ہے کہ اگر میں ان میں سے کسی بھی جرم کی مرتکب نہیں ہوں تب بھی محتاط رہوں کیونکہ تازہ ترین تحقیق کے حساب سے ایک بےحیاء چلغوزہ تو ضرور ہوں جس کی بناء پر کڑی سزا کی مستحق کہلوائی جا سکتی ہوں۔

ہفتہ، 10 دسمبر، 2016

پی۔کے 661 اور معاشرتی تقطیب

گزشتہ چوبیس گھنٹوں میں ایک ہوائی حادثے نے ہمارے ہاں کی معاشرتی قطبیت کے سب پول کھول کر رکھ دیے ہیں۔انسانی زندگی ہمارے لیے کیا معنی رکھتی ہے وہ اہمیت کہیں رکھ کر بھول چکے ہیں ،ہاں کسی کی موت پر ذاتی ایجنڈے کو کیسے تقویت دینی ہے اور تابوتوں کے کیل ٹھونکنے والوں سے پہلے اپنی پسند ناپسند کی ترویج کرکے وقتی سستی شہرت کے کیل کیسے پیوست کرنے ہیں اس معاملے میں اکثریت ماہر ہوچکی ہے۔
چترال سے اسلام آباد آنے والی پرواز پی۔کے
661 حویلیاں کے قریب پہاڑں کے درمیان گر کر تباہ ہوگئی۔ دو آسٹریلین اور ایک چینی باشندے سمیت اکتیس مرد ، نو خواتین اور دو شیرخوار بچوں کے علاوہ عملے کے پانچ اراکین۔۔۔ طیارے کو لگی آگ نے سینتالیس ہنستی بستی انسانی زندگیاں راکھ کا ڈھیر بنا ڈالیں۔اور اس غم کی گھڑی میں ہمارے ہاں سوشل اور الیکٹرانک میڈیا نے جِس قسم کی تقطیب کا مظاہرہ کیا ہے وہ میرے لیے نہ تو نیا ہے اور نا ہی حیران کُن۔۔۔یہ سب کچھ سلمان تاثیر سے لے کر قندیل بلوچ اور پھر امجد صابری کے جنازے تک دیکھنے کو ملتا رہا ہے۔بد قسمتی سے جنید جمشید کا نام بھی اب اسی فہرست میں چلا گیا ہے۔لیکن باقی مسافروں کا کیا ؟ ہر مسافر کے ساتھ نہ جانے کتنے رشتے ، کیسے خواب اور ان گنت داستانیں جُڑی ہوں گی۔اور جانے کتنی آنکھیں خشک ہوکر بھی نہ ختم ہونے والے انتظار میں برستی رہیں گی۔
کئی گھنٹوں تک ٹی۔وی اور سوشل میڈیا نے میرے دماغ پر جو نقوش بنائے ہیں اس سے یوں محسوس ہوتا ہے کہ ہم  دوسروں کے ایمان ، جنت ، دوزخ اور ہلاکت و شہادت کے "فٹنس سرٹیفکیٹ" پر قادر ہوچکے ہیں۔ہم سول ایویشن کے ماہر بھی ہیں اور  کی بورڈز کے ذریعے ہوائی جہاز اڑانے کے علاوہ کسی کی بیویوں کی تعداد سے کردار کا جائزہ لینے کی صلاحیت بھی رکھتے ہیں۔میڈیا ایئرہوسٹس عاصمہ عادل کی ڈیڑھ سالہ بچی کے منہ میں مائیک ٹھونسے اس سے "مما مما" کہلوانے میں کامیاب رہا ہے جبکہ چار پانچ سال کے بیٹے سے "مما کھلونے لاتی ہیں" اگلوانے پر شاباش کا مستحق بھی ہے۔ہوائی میزبان کے شوہر سے ، جو کہ ذہنی طور پر ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے، سوال پوچھ رہے ہیں "آپ کی بیوی کِس سے زیادہ اٹیچڈ تھی؟" ۔۔۔اینیمیٹڈ طیارہ  کے کریش ہونےاور جلنے کے مناظر مسلسل دکھاتے داد کا مستحق ہے وہ نیوز چینل جس نے اس حقیقت کو جانے بغیر کہ بلیک باکس ہائی ڈیفینیشن رنگ کا ہوتا ہے،ایک کالے رنگ کا باکس لہراتے بھی دکھا دیا ہے اور جہاز کے کپتان کی کنٹرول روم سے آخری گفتگو تک سنوا دی ہے۔اب ہماری بلا سے ملنے والا بلیک باکس فرانس جا کر ڈی۔کوڈ ہو نہ ہو۔صحافتی ذمہ داری تو ادا ہوئی۔الحمدللہ۔۔۔باقی اب یوں ہے کہ چترال میں بنے رَن وے کے لیے یہی طیارہ سب سے بہتر ہے ، اس کا فٹنس سرٹیفکیٹ اکتوبر دو ہزار سترہ تک اے ون تھا اور تین ماہ قبل وزیرِاعظم پاکستان نے اسی طیارے سے سفر کیا، اس قسم کے حقائق سے قطع نظر ہر نیوز اینکر اور ہر تیسرا "کی بورڈ گریبر" اپنی ماہرانہ تنقید و جائزہ ریکارڈ کروانے پر قادر ہے۔
اس جہاز میں اے۔ایس۔ایف کے دو نوجوان کمانڈو بھی سوار تھے۔ڈپٹی کمشنر چترال اسامہ وڑائچ اپنی اہلیہ اور ننھی بیٹی کے ساتھ سفر کررہے تھے۔طیارے کے کپتان محمد صالح یار جنجوعہ ایک یو ٹیوب چینل بھی چلاتے تھے جبکہ اپنی بیمار والدہ کی عیادت کو جانے والا ایک نوجوان مسافر بھی تھا۔لیکن ان سب اور دیگر مسافروں کی زندگی سے بھرپور کہانیوں کا تذکرہ کہیں پس پردہ ہی رہ گیا ہے۔ابھی فکر ہے تو یہ کہ جنید جمشید کو بطور پاپ سٹار یاد کرنا ہے یا ان کا قصیدہ بردہ شریف چلانا ہے۔ایسا شخص جو گلوکار تھا تو لاکھوں دلوں پر راج کرتا رہا ،موسیقی اور انجینیئرنگ چھوڑ کر جب نعت خوانی اور تبلیغ کی جانب گیا تب بھی لاکھوں چاہنے والے اس کی جانب کھنچتے چلے گئے۔وہ ایک کامیاب بزنس مین تھا جس نے پاکستانیوں کو بہتر برانڈڈ کرتے شلوار کے ٹرینڈ سے متعارف کروایا۔پانچ برسوں سے رمضان نشریات  میں جما رہا۔کراچی میں پانچ ہزار موٹر بائیک  ہیلمٹس بانٹے اور صفائی مہم کا حصہ بنا۔۔۔ہاں وہ ایک ٹرینڈ سیٹر تھا جس سے آپ نظریاتی و فکری اختلاف کرسکتے ہیں لیکن اس نے زندگی میں جو کچھ حاصل کیا اس کا ہر دو نظریاتی طبقات سے تعلق رکھنے والوں کی اکثریت صرف خواب ہی دیکھ سکتی ہے۔
اگر جنید جمشید اپنے ماضی سے نفرت نہیں کرتے تھے تو یہ کون لوگ ہیں جو ان کے لیے جنت کے حصول میں آسانی کے لیے شرائط رکھ رہے ہیں؟ انہوں نے تو دوہزار تیرہ میں "نیاپاکستان ۔۔انشاءاللہ" جیسا مِلی نغمی بھی گایا۔تو کیا وہ بھی تلف کردیا جائے؟





https://twitter.com/JunaidJamshedPK/status/498324713157197824


"دو پل کا جیون ہے" سے بہت بعد میں آنے والا وائٹل سائنز کا "دل دل پاکستان" بی۔بی۔سی سروے میں دنیا کے دس بہترین گیتوں میں تیسری جگہ نہ بھی بناتا تب بھی یہ ہمیشہ کے لیے پاکستان کا دوسرا قومی نغمہ بن کر گوبجتا رہے گا ۔ "قسم اس وقت کی " ماہِ ستمبر میں چلتا رہے گا۔نہ تو "گورے رنگ کا زمانہ" کبھی پرانا ہوگا اور نا ہی "سانولی سلونی" ۔ اپنی یاداشت سے میں شعیب منصور کی ہدایتکاری میں بنا منی ڈرامہ سیریل "دھندلے راستے" دہراتے ایک ایسے جنید جمشید کو یاد کررہی ہوں جوپیانو بجاتے گا رہا ہے "مر بھی جاؤں تو مت رونا۔۔۔میں اپنی آواز اور اپنے سارے گیت تمہیں دے جاؤں گا۔۔۔یاد کرنا"
https://www.youtube.com/watch?v=oBWAEClUTho

مجھے ذاتی طور پر جے جے کے نئے اوتار اور گاہے بگاہے عورت مخالف 
(misogynist) بیانات سے الجھن رہی ہے اور اس کا برملا اظہار ہمیشہ کرتی رہی ہوں۔دوستوں کے ساتھ مِل کر طنز اور ٹھٹھا بھی اڑایا لیکن جنید کی آواز چاہے "نہ تو آئے گی، نا ہی چین آئے گا" میں آن رپیٹ چلے یا پھر قصیدہ بردہ شریف اور چند پرسنل فیورٹ نعت میں۔۔۔آواز کا تعلق اس شخص سے میٹھا ہی رہا۔ ہاں شاید گھوڑے  پر سوار ایک نوجوان جس کے خوبصورت بال ہوا میں اڑتے جا رہے تھے اور "تمہارا اور میرا نام جنگل میں" گا رہا تھا اس کا نیا روپ اور بدلے خیالات ذہنی طور پر قبول کرنا ممکن نہ ہوپایا۔ اس کھٹے میٹھے تعلق کا ایسا ناآگہانی انجام سب ہی یادوں کو جھلسا گیا ہے۔
میرا تعلق اس نسل سے ہے جس نے لکھنے اور بولنے سے پہلے دل دل پاکستان کے لیے جھومنا سیکھا تھا۔ہم جنید جمشید کی ٹرانسفارمیشن کے ساتھ عمر کی مختلف منازل جیے ہیں۔اس نے "آنکھوں کو آنکھوں نے جو سپنا دکھایا ہے" سے لے کر "مولا" اور "او صنماں" تک سولو گائیکی میں شہرت کی وہ بلندیاں دیکھی ہیں کہ واقعی "یہ شام پھر نہیں آئے گی۔۔۔"
تمام دیگر چھیالیس جلی لاشوں کو بھلا کر سوشل میڈیا تین حصوں میں تقسیم ہوچکا ہے۔۔۔ایک کے نزدیک وہ شہید ہے ، دوسرا گروپ ایک "گستاخ" کی موت پر وحشی بنا رقصِ بسمل میں مصروف ہے اگرچہ ان میں کہیں وہ نام نہاد لبرلز بھی حصہ ڈال رہے ہیں جو آمرانہ رویہ اپنائے جتلا رہے ہیں کہ اس کو صرف بطور گلوکار یاد رکھنا چاہتےہیں اور دوسرے بھی یہی کریں۔تیسرا گروہ اپنے ہی سیاسی اور مسلکی ایجنڈے کی تشہیر کے لیے ایک سانحے کو استعمال کرتے  بے حسی کی آخری منزل سے بھی پانچ سو گز آگے کا سفر طے کرچکا ہے۔ ان تینوں میں سے کوئی بھی یہ تسلیم کرنے کو تیار ہی نہیں کہ جنید جمشید کسی کا باپ ،بھائی اور شوہر بھی تھا۔اس کے کاروبار سے کتنے لوگوں کا رزق وابستہ تھا،یہی سوچ لیجیے۔ایسے سانحات کا ٹھٹھا اڑانا یا ذاتی/سیاسی مقاصد کے حصول کے لیے استعمال کرنا سخت دِلی نہیں تو اور کیا ہے؟ مرنے والوں کے پسماندگان میں یتیم ، بیوہ ،والدین اور دوستوں پر ٹوٹی قیامت کا خیال نہیں کرسکتے کیونکہ ہم سیاہ و سفید کے درمیان جینے کے عادی ہوچکے ہیں۔ہر کسی نے اپنا ترازو اٹھا رکھا ہے اور اپنی مرضی کا پلڑا استعمال کرنا خود پر فرض کرلیا ہے۔غم اور غصے میں فرق روا نہیں رکھتے لہذا اس کے اظہار کے ضابطوں پر لاحاصل بحث ہے اور مسلسل ہے جو ہر ناگہانی موت پر ہمارا وطیرہ بن چکا ہے۔