ہفتہ، 30 ستمبر، 2017

ووٹر کا اجتماعی شعور


قومی اسمبلی کے حلقہ 120 کے لیے اس ماہ کی سترہ تاریخ کو ہوئے ضمنی انتخاب میں بہت سے پہلوؤں پر بات ہوتی چلی جا رہی ہے اور یہ بازگشت بہت دِنوں تک سنائی دیتی رہے گی۔ لاہور میرا ننھیالی شہر ہے لیکن ایک عام شہری کی حیثیت سے این۔اے120 سے میرے خام مشاہدے میں جو کچھ یاداشت نے محفوظ کیا اس میں سے ایک پہلو ووٹر کی نفسیات اور اجتماعی فیصلے کا شعور ہے۔ جی ہاں، وہی شعور جس پر ٹی۔وی سٹوڈیوز میں بیٹھے میک اپ کی دبیز تہوں سے اٹے "تجزیہ کار" نہ صرف سوال اٹھایا کرتے ہیں بلکہ پایہ تکمیل کو نہ پہنچنے والی "احتسابی خواہشات" کے رُلنے کا بدلہ باقاعدہ لعن طعن کرکے اور اپنے ہی اصطبل کے تخیلاتی کھوتے کھلا کر کیا کرتے ہیں۔ مسئلہ ان بقراطوں کا صرف یہ نہیں ہے کہ زمینی حقائق سے کوسوں دور عام شہری سے رشتہ ریٹنگز کی حد تک محدود ہے بلکہ وہ خناس بھی ہے جو ان کی سوچ کو مفلوج کرکے یہ باور کرواتا ہے کہ صرف وہ ہی اشرف المخلوقات کے درجے پر فائز ہیں کیونکہ انہیں کسی نے غلط فہمی کا شکار کردیا ہے کہ وہ بادشاہ گر اور رائے عامہ بنانے والے تھنک ٹینکس ہیں۔


                        

پنجاب میں سٹیج فنکاروں کے معاشی حالات خراب ہوئے تو انہیں لے کر مختلف "طنز و مزاح سے بھرپور"  ٹی۔وی شوز بنائے جانے لگے جن کے دو ہی مقاصد سمجھ آتے ہیں: ایک تو اس ملک کے سیاستدانوں، فلمی اداکاراؤں اور خواجہ سرا کمیونٹی کی مسلسل تذلیل اور دوسرا کسی احساس برتری کا شکار شخص (سرقہ بازی سمیت) کو علامہ دانشور و اینکر  بنا کر بالآخر سیاسی تجزیہ کار کی منزل تک پہنچانا ۔یہ فنکار جو پہلے سٹیج پر قہقہوں کے دریچے وا کرکے اپنا اور درجنوں کے گھروں کا چولہا جلانے کا وسیلہ تھے اب میڈیا ہاؤسز اور شدید بڑے اینکرز کی ریٹنگز اور بینک اکاؤنٹس کے گراف بڑھانے کا ذریعہ بن چکے ہیں۔ واقعی فنکار بھوکا نہیں مرتا اور خود سے وابستہ لوگوں کی اشتہا بھی مٹاتا ہے۔
بات ہورہی تھی این۔اے 120 کے ضمنی انتخاب کی۔ جن دنوں میں ٹی۔وی سے بہت دور چھابڑی والوں، گھریلو خواتین، طلباء اور بزرگوں کی زبانی اس حلقے کا مزاج سمجھنے کی کوشش کررہی تھی سنا ہے اس دوران سکرینوں پر اس حلقے میں عوام کو بےوقوف، جاہل، کرپٹ کہا گیا، جب میں بڑے چوک سے تنگ گلیوں تک مسلک کارڈ اور ایک قاتل کے نام پر نفرت انگیزی کو لانچ کرکے متوقع کامیاب امیدوار کو آرگینک سپورٹ کا مارجن اور شہریوں پر ان نئی کٹھ پتلیوں کا اثر جانچ رہی تھی تب ہی صحافت کے کچھ پیراٹروپرز چیلنج کررہے تھے کہ ثابت کرو "کھوتے مرضی سے نہیں کھاتے۔۔" اور ایک صاحب وہ ہیں جنہیں دیکھ کر ہمیں ہر خاندان میں وہ بڑا کزن یاد آجاتا ہے جو بیرون ملک سے واپسی پر سب کو "پینڈو" سمجھتے اپنے گرد اکٹھا کرتا ہے اور ان کی جہالت دور کرنے کو مشہورِ زمانہ کردار "جانو جرمن" بنا ہوا ہوتا ہے۔ ان صاحب کو جمہوریت تو کیا بنیادی شہری حقوق سے مکمل نابلد ہی پایا ہے۔ ان کے مطابق اَن پڑھ کو ووٹ کا حق نہیں ملنا چاہیے جبکہ مختلف تعلیمی درجات و ڈگریوں کی بنیاد پر ایک سے زائد ووٹوں کا حق ہونا چاہیے۔ اب ان سے کوئی یہ نہیں پوچھتا کہ بھیا انپڑھ کو فیصلہ سازی میں شامل نہیں کرنا تو اس پر کسی قسم کا ٹیکس بھی کیوں لاگو ہو؟ بلکہ وہ "کمی کمین جاہل" آپ جیسے ارسطو کے ساتھ اس فضاء میں سانس لینے کا جرم ہی کیوں کرے۔ ان عظیم مفکرانِ وقت نے سٹوڈیوز اور ڈرائینگ رومز سے نکل کر،کافی شاپس میں حکومتیں گرانے کے فارمولے سمجھنے کی بجائے کبھی کسی پھول بیچنے والے یا سڑک کنارے پَھل بیچتی عورت سے اپنے بارے میں رائے مانگی ہو تو علم ہوجائے کہ معاشرے میں ان کی کُل حیثیت ہے کیا۔

                   

عوام کے منتخب نمائندوں کی تذلیل کرنے کی غرض سے سماجی رابطوں کی ویب سائٹس پر بیٹھے کچھ صحافتی دھبے جب "چوڑا، چمار، لوہار، منشی، کلرک، میٹر ریڈر، الماس بوبی(خواجہ سرا)" جیسے استعارے استعمال کرکے اپنی منطقی جہالت کی تسکین کررہے ہوتے ہیں تو انہیں ادراک ہی نہیں ہو پاتا کہ معاشرے کے کمزور یا پِسے ہوئے طبقے ، مزدور اور حق حلال کی روزی کماتا ان پیشوں سے وابستہ شخص اِن مہا دانشوروں کے تذکرے پر کیسے تھوکتا ہے۔


                  
تین ہفتے اس حلقے میں گھومنے اور یہاں کے رہائشیوں، تاجروں، دیہاڑی داروں، پان کا کھوکھا چلانے والوں اور ہر عمر کے شہریوں سے گپ شپ لگانے کے ساتھ رکشہ  اور ٹیکسی ڈرائیورز سے بھی گفتگو ہوتی رہی جو کسی بھی شہر کے مزاج کے نباض سمجھے جاتے ہیں ۔ اس شہر کی تنگ گلیوں میں وسعتِ قلبی اور خوش مزاجی کے ایسے چشمے نکلتے ہیں جن کا ہر رنگ نرالا ہے۔
نسبت روڈ کے ایک گھر میں بی۔ایس آنرز کرتی بچی ملی جو اپنے گرد پندرہ سے سترہ کزنز کو بٹھائے "مفت ٹیوشن" دے رہی تھی۔ اس سے پوچھا کہ ووٹ کِس بنیاد پر دو گی تو اس کا جواب تھا " گلیاں پکی اور گٹر سسٹم ایم۔این۔ایز کا فرض نہیں ہے۔مجھے وہ نمائندہ چاہیے جو میرے بھائی بہنوں (کزنز) کا مستقبل سنوارنے کی قانون سازی میں حصہ لے۔ اور ٹی۔وی پر بیٹھ کر میری نانی یا والدین کے سیاسی شعور کو گالیاں نہ دے۔"
مزنگ میں ایک گھرانے کے گیارہ ووٹ تھے اور علم ہوا کہ والد صاحب جیالے ہیں، والدہ لیگی ووٹر، بچوں میں سے کچھ تحریکِ انصاف، کچھ لیگی جبکہ ایک بہو تھوڑی کنفیوزڈ ہیں۔ ان سے پوچھا کہ جھگڑا نہیں ہوتا تو خوبصورت لہجے میں جواب ملا کہ " رانی! اے کیہڑا کوئی ٹاک شو اے جتھے چُنجاں لڑا کے پیسے کمانے۔۔ سارے ای آزاد نیں فیصلیاں اچ ۔۔ ایتھے کیہڑا سینیئر تجزیہ کار لگ جاناں ۔۔۔ "
ایک سبزی والے سے بات کرنے کا اتفاق ہوا جس نے پہلے دو دفعہ تصدیق کی "آپ کسی چینل سے وابستہ تو نہیں ؟ کیونکہ یہ لوگ قابلِ اعتبار نہیں ۔" یہ بھائی صاحب اردو اور پنجابی پر خوبصورت عبور رکھتے ہیں۔
قریشی محلہ میں ایک صاحب ہنستے ہوئے بولے "جہاں میری بیٹیاں کہیں گی وہیں ٹھپہ لگا دوں گا۔ ان کو اعتماد دیا ہے اور وہ مجھے درست فیصلہ کرنے میں ہمیشہ مددگار ہوتی ہیں۔"
جین مندر چوک میں قطار اندر کھڑی پھلوں کی ریڑھیاں ہیں۔ ان پھل فروشوں سے گفتگو ہوئی تو مجھ میں حوصلہ نہیں تھا کہ انہیں ٹی۔وی کے ان افلاطونوں بارے بتا سکوں جن کے نزدیک ان "جہلا" کو ووٹ کا حق نہیں ہونا چاہیے۔
تحریکِ انصاف کے ووٹ بینک میں لا اُبالی نوجوان ووٹر بھی ہے، پڑھا لکھا برسرِ روزگار، پھل فروش، پکوڑوں کی ریڑھی یا سِٹے بیچ کر رزق کماتا اور میٹرک کے بعد گھر کی نچلی منزل میں کریانہ سٹور چلانے والا شخص بھی اور پیپلز پارٹی کی کارکردگی سے مایوس سابق جیالا بھی۔ 

                 

کیپٹل پارک میں سالگرہ اور شادی بیاہ و دیگر تقریبات کا آرائشی سامان بیچتا ایک دوکاندار کہتا ہے " ہمیں صرف سکون اور تحفظ چاہیے۔ تیس چالیس میں سیکھا ہوں کہ پرسکون محفوظ کاروباری ماحول صرف جمہوریت میں ممکن ہے۔"
کریم پارک میں ایک صاحب بولے" ہمیشہ سے پیپلزپارٹی کا ووٹر تھا۔۔ لیکن اب ہمارا لیڈر ہی دنیا سے ختم کردیا۔ ان کے بعد سے نواز شریف کو ووٹ دیتا ہوں۔وہ میری لیڈر کی موت کی خبر سن کر ہسپتال پہنچنے والوں میں سے تھا۔ ہمارے لیے بہتر کوئی اور نظر ہی نہیں آتا۔" اسی طرح ابدالی چوک میں ایک پان شاپ کے مالک ہیں۔ انہیں تعلیم، سیاست اور صحافت پر ایسی روانی سے تبصرہ کرتے سنا کہ مسکرانے پر مجبور ہوگئی کیونکہ ان شعبوں پر ان کی گرفت ہمارے ہاں کے کئی دفاعی تجزیہ کاروں سے زیادہ بہتر تھی۔ کرشن نگر میں ایک ٹھیلے والا جیالا ملا۔ اور یہ پہلا شخص تھا (حلقے میں گھومتے میرا دوسرا دن) جس نے انگلیوں پر الیکشن کا رزلٹ گِنوا دیا تھا۔ نتائج دیکھنے پر مجھے وہ بوڑھا مزدور یاد آیا جس کو ادراک تھا کہ جیت کا مارجن کسی صورت پندرہ ہزار سے زیادہ نہیں ہوگا اس شخص کا ماننا تھا کہ اس پر خفگی کرنے والوں کو بہت وقت لگے گا سمجھنے میں کہ مسلم لیگ (نواز) اس بوجھ سے آزاد ہوتی چلی جارہی ہے جو اس کے لیے ایک زمانے سے طعنے اور کٹر دائیں بازو کی جماعت کہلوانے کا جواز بنا رہا ہے۔ سنت نگر اور کرشن نگر میں گھومتے ہوئے احساس ہوا کہ ان گلیوں میں خواتین کو سیاست میں فعال کردار ادا کرتا دیکھنے والوں کی کتنی بڑی تعداد موجود ہے۔ مجھے حیرت ہے کہ صحافت کے گُھس بیٹھیے کِس طرح ایسے شعور و فکر کو کمتر سمجھ کر ٹھٹھابازی کا سامان کرسکتے ہیں۔

                   

آپ جاننا چاہتے ہیں کہ عام پاکستانی کیا سوچتا ہے؟ تو پرانی انار کلی میں بیٹھے بزرگوں کے اس گروپ سے پوچھیے جنہوں نے اس ملک کو کٹتے بھی دیکھا ہے اور گِر کر سنبھلتے بھی۔ وہیں کسی نے کہا تھا کہ "چالاں نال وی کدے سیاست مُکی اے کِسے دی؟ خیر ای برآمد ہوئے گی۔ نا یقین آوے تے 17 نوں ویخ لینڑاں ۔"
اردو بازار کی ایک گلی میں چائے کا چھوٹا سا ہوٹل ہے۔ یہاں ایبٹ آباد سے آئے ایک صاحب (نام ظاہر نہ کرنے کا وعدہ تھا) حساب کتاب کے کھاتے دیکھتے ہیں۔ ایف۔اے پاس نفیس انسان ہیں اور ضلع کونسل کا انتخاب بھی لڑ چکے ہیں۔ ان کی کہانی جاننے کی کوشش کریں تو ہمارے ہاں کے کئی تبدیلی فروش اینکرز کی طبیعت باغ باغ ہوجائے۔ لیکن اتنی محنت کون کرے ۔
مجھے یاد ہے کہ میاں نواز شریف کی جی۔ٹی روڈ ریلی کے اختتامی مراحل میں شرکاء کی تعداد کا اندازہ کرنے کے لیے کسی بلند عمارت کی تلاش میں ڈھائی مرلے کے گھر کی چھت پر بیٹھے گھرانے نے اشارہ کیا کہ آپ اوپر آجائیں۔  دوسری منزل سے چھت پر پہنچنے کے لیے سیڑھی نہیں دیوار میں چُنی اینٹوں کا سہارا درکار تھا۔ اس گھر کی حالت مکینوں کے معاشی حالات کی عکاس تھی لیکن بات چیت میں علم ہوا کہ ایم۔بی۔اے گولڈ میڈلسٹ بھائی پر فخر کرتا وہ محنت کش گھرانہ کسی سے اپنے سیاسی شعور کا سرٹفکیٹ لینے میں دلچسپی نہیں رکھتا۔
این۔اے 120 میں یونیورسٹیز کی شان بڑھانے والی ایک نئی نسل آج بھی مشترکہ خاندانی نظام میں زندگی کا فلسفہ سمجھ رہی ہے۔ بیڈن روڈ ہو یا ٹیمپل روڈ یہاں ہر چھوٹی بڑی دکان میں گلے پر بڑا بھائی یا بزرگ بیٹھا ہے، آپ ان دو سے تین نسلوں کے سفر کو "کھوتا خور" یا جاہل کہہ کر ان کے کاروبار، زندگی کی جدوجہد، تعلیم اور باہمی محبت کے رشتوں پر تو اثر انداز نہیں ہوسکتے لیکن غصہ پھر وہ ووٹ کی اس پرچی کے جواب سے نکالتا ہے جس تک پہنچنے والے امیدوار بھی آج تک اپنے ووٹرز کا وقار، مان اور عزت بنانے میں سنجیدہ نہیں ہوئے۔

                  
                     
ووٹر کا اجتماعی شعور مسلسل گھٹیا پن دکھاتے مختلف پلیٹ فارمز سے رگیدتے رہنا شاید وہ عمل ہے جو انہیں خاموش تھپڑ کی طاقت سمجھا چکا ہے ۔ دیکھیے کب ان کے منتخب نمائندے بارہا مِلے اس یقین کا بدلہ بہتر قانون سازی اور مضبوط جمہوری نظام کی عزت کروا کر اتارتے ہیں ۔

                  

منگل، 26 ستمبر، 2017

پنجاب نہیں جاؤں گی






پاکستان فلم انڈسٹری جب اپنا عروج دیکھ رہی تھی سنا ہے ان دنوں کچھ شہروں میں فلم بین سینما گھر سے باہر نکلتے عموماً ایک جملہ کہتے ہیں " کہانی خاص نہیں تھی لیکن سٹوری اچھی تھی۔" ۔۔۔ اس کا مطلب صرف کہنے اور سننے والے ہی سمجھتے تھے ۔ مجھے اس کی سمجھ  "میں پنجاب نہیں جاؤں گی" دیکھتے ہوئے آگئی۔
گزشتہ دنوں ایک دوست کے اصرار پر فلم دیکھنے کا اتفاق ہوا۔ اور چند ہی منٹ بعد یہ سوچنے پر مجبور ہوچکی تھی کہ پاکستانی فلم کو اپنا کھویا ہوا مقام دِلوانے میں اس قسم کی فلمیں کہاں مارک کی جاسکیں گی جس کی سٹوری میں بارہ مصالحے تو چوکھے ہیں لیکن پیشکش اور عکاسی ؟ آگے بڑھنے سے قبل یہ بتانا ضروری ہے کہ مجھے اچھی طرح ادراک ہے اس وقت سلور سکرین اپنے وجود کی جنگ لڑ رہی ہے اور ہر بڑا پروڈکشن ہاؤس اپنا حصہ ڈال رہا ہے۔ ان سب کاوشوں کی دل سے قدر بھی ہے اور سراہا جانا سب کا حق بھی۔
مختصر کہانی یہ ہے کہ فواد کھگا (ھیرو) سیاسیات میں ماسٹرز کرکے گھر لوٹ کر آتا ہے جہاں بھرپور جشن منایا جارہا ہے (جو کہ صرف فلموں میں ہی بطور پنجاب کی ثقافت دکھایا جاسکتا ہے،حقیقت میں ایسا ہوتے دیکھا نہیں)۔ فواد کی کزن دردانہ اس سے محبت میں تقریباً شوہدی دکھائی گئی ہیں جبکہ امل (ھیروئن) لندن سے تعلیم مکمل کر کے کراچی واپس آئی ہیں۔ فواد اور امل کے گھرانوں میں سو سالہ پرانی دوستی ہے اور اس میں ان گھرانوں کی زبان حائل نہیں ہوئی (ایسا فلم بین کو بارہا باور کروانے کی کوشش کی گئی ہے)۔فواد کو کسی ھیر کی تلاش ہے۔ جو کہ امل کی تصویر دیکھنے پر مکمل ہوجاتی ہے۔ فلم میں ایک مقام پر ھیرو صاحب اپنے رقیب (اظفر رحمان) کو چیلنج کرتے ہیں کہ وہ ستر مربعے،بارہ سو بھینسیں اور اپنی حویلی امل کے نام کرکے پیار کے سچے ہونے کا ثبوت دے سکتےہیں جس پر ھیروئن کو احساس ہوتا ہے کہ وہ جس کلاس فیلو سے شادی کرنا چاہتی تھی وہ تو اپنا ایک فلیٹ اس کے نام نہیں کرسکتا۔ (کمال منطق ہے بھئی۔۔ شاید اسی کو سوشل سیکیورٹی کہتے ہیں شادی میں؟)

               

فلم آگے بڑھتی ہے اور کھگا گھرانے کی بہو ان کے تبیلے کو ڈیری فارم میں تبدیل کرنے کے مشن پر لگ جاتی ہے۔یہاں بہرحال ایک پدر شاہی نظام کو چیلنج کرتی لڑکی دکھانے کی کوشش کی گئی ہے۔ جس پر دادا سسر (سہیل احمد) اعتماد اور بھروپور مالی تعاون کرتا ہے جبکہ بدلے میں اس کے شوہر کا کردار ویسی ہی حرکات کرتے دکھایا گیا ہے جیسا کہ عموماً معاشرے میں ایسے چیلنجز کا سامنا کرتی خواتین کے شوہر کرتے ہیں۔ یہاں ایک ڈائیلاگ "پلیز ھیلپ می دردانہ۔۔" کو جس طرح باربار فِٹ کرکے بےوفائی کرتے فواد کو شرمندہ کرنے کی کوشش کی جاتی ہے وہ دیکھنے والوں کو مسکرانے پر مجبور کردیتا ہے۔ احمد بٹ نے ہمیشہ کی طرح ھیرو کے دوست نما اسسٹنٹ کا کردار اپنے مخصوص کامیڈی انداز میں نبھایا ہے۔ جو بعض جگہوں پر ماحول کا تناؤ کم کرنے میں اہم رہا۔ دردانہ( عروا حسین) کو ایک لائلپوری لڑکی دکھانے کی ناکام کوشش کی گئی ہے لیکن یہ کردار بھی خلاء کے ساتھ پیش کیا گیا جس پر بہت کام ہوسکتا تھا۔
فلم کی موسیقی اچھی ہے ۔ایک گانے "مجھے رانجھا بنا دو ھیر جی" میں تو ہمایوں سعید نے فلم مجاجن  کی یاد میں کلائی میں گھنگھرو بھی باندھ لیے۔ ۔ لیکن کیا صرف گانوں پر فلمیں چلائی جا سکتی ہیں؟ جبکہ صورتحال یہ بنے کہ گانے نکال لیں تو ایک ٹیلی فلم یا عید پلے سے زیادہ کچھ معلوم نہ ہو (ظاہر ہے جب ڈرامہ آرٹسٹس ہی ، خاص کر "ھیرو" وہ جس کو دیکھتے ہم بوڑھے ہو چلے، فلموں میں گُھسے ہوں گے تو عید پلے والی فیلنگ ہی آئے گی بھیا)۔ فلم میں مار کٹائی والے سین کافی "مزاحیہ" ہیں ۔ انسٹرکٹر نے شاید ہمایوں سعید سے ہی ہدایات لے رکھی تھیں۔
اصل افسوس تو یہ ہے کہ ہمیں ڈرامہ سیریلز  "لنڈا بازار"  اور  "بوٹا فرام ٹوبہ ٹیک سنگھ"  جیسے شاہکار دینے والے لکھاری خلیل الرحمٰن قمر صاحب نے اپنے مداحوں کے لیے سِکس سگما اور ندیم بیگ کے ہاتھوں سکرپٹ کا کچومر نکلوا لیا۔ جنہوں نے پنجاب اور خاص کر میرے لائلپور (فیصل آباد) کے نام پر وہی حشر نشر کرڈالا جو ندیم بیگ  فلاں کی آئے گی بارات اور ڈھمکاں کی آئے گی ڈولی  جیسے ڈراموں میں کرچکے تھے۔ اوور ایکٹنگ کی اوور ڈوز ۔
ہم اس معاشرے میں اپنی ثقافت اور پہچان کے رنگوں کی عزت کروانے میں کوشاں ہیں جہاں رنگ، زبان، علاقے اور نسل کی بنیاد پر تقسیم گہری ہوتی چلی جارہی ہے۔ایسے میں آپ ٹوٹی پھوٹی انگریزی اور بناوٹی پنجابی لہجے کی اردو سے کسی کو پنجابی دکھا کر سینما میں "پینڈو ای اوئے" کی آوازیں لگواتے ٹھٹھا اُڑوا رہے ہیں اور ساتھ میں اس علاقے کی ثقافت کے نام پر وہی گھٹیا سوچ کی ترویج کررہے ہیں کہ "پنجاب میں گھر گھر مجرے ہوتے ہیں" ۔۔ جناب آپ کو تحقیق کرنے کی اشد ضرورت ہے  کہ یہاں خوشیاں کیسے منائی اور غم کس طرح سہے جاتے ہیں۔ زندگی کا بڑا وقت لائلپور گزارنے والی بندی اب "پنجاب نہیں جاؤں گی" میں اپنے شہر سے منسوب ایسی لڑکیاں دیکھے جنہوں نے مینی کیور تو کیا نیل ایکسٹینشنز اور ھیر ڈو  کے ساتھ بھرپور میک اپ تھوپ رکھا ہو تو ہنسی ہی آئے گی۔ ھیر کا مزار کہاں ہے اور اس علاقے کا پہناوا کیسا ہے اگر علم نہ ہو تو ایک خوبصورت فلمی گیت کی پکچرائزیشن کا کچرا ہونا لازمی ہے۔ فیصل آباد کے کون سے گاؤں میں خواتین گھاگھرے پہن کر گھونگھٹ نکالے کنویں سے پانی بھرنے جاتی ہیں یہ معلوم کرنا بھی اب میری ہی ذمہ داری ہے۔ میک اپ سے لے کر لباس کے انتخاب تک میں آپ کو صرف  دو سے تین کردار ہی درست رنگ میں دکھائی دیں گے۔ نوید شہزاد (بی۔بو جی)  اور سہیل احمد (دادا مہتاب کھگا)  کی اداکاری ہمیشہ کی طرح اپنا رنگ جماتی دکھائی دیتی ہے۔

                  

دوسری جانب  "کراچی کی لڑکیاں ۔۔۔ محدود دماغ، تعلیم زیادہ"   یا  "دو نمبر عورتوں سے فون پر چیٹ"  جیسے ڈائلاگز، خواجہ سراء کمیونٹی پر سستے جملے اور ان پر قہقہے لگاتے میرے ارد گرد بیٹھے فلم بین۔ رہی سہی کسر سارے سسرال کا خاموش بیٹھے رہنا جبکہ ھیرو رنگے ہاتھوں پکڑے جانے کے بعد بیوی کو تھپڑ رسید کرکے اپنی مونچھ کی شان میں گستاخانہ فقرے کا بدلہ لے۔۔۔ آپ ثابت کیا کرنا چاہ رہے ہیں؟ مردانگی کے جھوٹے پیمانے، بےحسی اور گھٹیا پن کو ہنسی میں اُڑا دینے کی روایت مزید پختہ کرنے میں حصہ دار بن رہے ہیں۔
"پنجاب نہیں جاؤں گی" ٹائٹل کو لے کر بھی اچھی خاصی بحث پڑھنے کو ملتی رہی جو کہ صرف اس لیے نظرانداز کرتی رہی کہ فلم دیکھے بغیر فیصلہ دینا مناسب معلوم نہیں ہوتا۔ اگرچہ تقسیم در تقسیم کے ماحول میں اس قسم کے عنوان تجویز کرنے والوں کو دو بار سوچنا چاہیے۔ آپ بزنس کررہے ہیں اور کسی حوالے سے متنازعہ عنصر جو صارف کی دل آزاری یا خفگی کا باعث ہو کاروباری افراد کے مستقبل کے لیے اچھا نہیں ہوتا۔
فلم کے کچھ پہلو ، معاون اداکاروں کے چند ڈائلاگز اور جھومتی موسیقی مجھے اس فلم کو پانچ میں سے ساڑھے تین سٹارز دینے پر مجبور کرتے ہیں ۔ جبکہ ڈی۔ایچ۔اے کا  
Cinepax  سینما اپنے  بہترین ماحول  کے باعث ساڑھے چار سٹارز کا مستحق ہے ۔

               

دیگر شہروں میں کامیاب لانچنگ کے بعد 
Cinepax cinemas  نے اپنی بارھویں برانچ کا آغاز شہرِ اقتدار کے نئے اور سب سے بڑے گیگا شاپنگ مال میں کردیا ہے۔ 6 سکرینز ملٹی پلیکس اور ڈالبی 7.1 سراؤنڈ ساؤنڈ کے ساتھ پلاٹینم، گولڈ اور سلور سیٹنگ کا انتظام ایک خوبصورت ماحول میں فلم بینوں کے لیے ایک بہترین سہولت ثابت ہوگی۔ پروفیشنل سینما سٹاف، صاف ستھرے ریسٹ رومز اور شہر کی بہترین لوکیشن میں قائم ہونے کے باعث فیملیز کے ساتھ فلم دیکھنے کا معیار بہتر کرنے کی اچھی کاوش ہے۔