ماموں نے پیناڈول کی دو شیشیاں نکال کر نانا کو تھمائیں اور واپس ہینڈ بیگ پر جھک گئے۔شاید وہی خوبصورت medicine organiser تلاش کررہےتھےجو نانا ابو کی معمول کی ادویات یاد رکھنےکیلیےلایا کرتے تھے۔علینہ کے نانا دل کے مریض ہیں اور اپنی اولاد کے بہت لاڈلے دوست بھی۔۔۔ جونہی ماموں نے "مطلوبہ شے" برآمد کی اسی لمحے روبی خالہ کمرےمیں داخل ہوئیں اور نانا کے ہاتھ میں ادویات دیکھ کر ان کی آنکھوں میں ویسی ہی چمک لپکی جو چوزے کو دیکھ کر بلی کی نگاہوں میں آتی ہے۔
علینہ کی خالہ روبی عجیب عادت کی مالکن ہیں۔ جونہی ان کے سامنے کوئی پیناڈول / پیراسِٹامول نگلے بلکہ گلہ صاف کرنے کیلیے اسٹریپسیلز ہی کیوں نہ کھائے،خالہ کو سر درد،گلےمیں خراش اور بخار کی سی کیفیات محسوس ہونے لگتی ہیں۔اور بچوں کی طرح "گولیوں ٹافیوں" میں اپنا حصہ وصول کرکے فوراً جوس کیساتھ نگلنا اپنا فرض گردانتی ہیں۔
ہر سال علینہ کے ماموں لندن سے پاکستان کے "دورے" پر آتے ہیں تو نانا کےلیے پیناڈول کی شیشیاں لاتےہیں اور جب یہ "سازوسامان" روبی خالہ کی نظروں میں آتا ہےتو فوری طور پر ٹانگوں،سر اور کمر میں درد کی شکایت کا واویلا شروع ہوجاتا ہے۔لہذا جلدی سے آدھی شیشی پیناڈول کے "گولے" ان کو پرانی بوتل میں انڈیل کر دےدیے جاتےہیں۔
علینہ کی خالہ روبی عجیب عادت کی مالکن ہیں۔ جونہی ان کے سامنے کوئی پیناڈول / پیراسِٹامول نگلے بلکہ گلہ صاف کرنے کیلیے اسٹریپسیلز ہی کیوں نہ کھائے،خالہ کو سر درد،گلےمیں خراش اور بخار کی سی کیفیات محسوس ہونے لگتی ہیں۔اور بچوں کی طرح "گولیوں ٹافیوں" میں اپنا حصہ وصول کرکے فوراً جوس کیساتھ نگلنا اپنا فرض گردانتی ہیں۔
ہر سال علینہ کے ماموں لندن سے پاکستان کے "دورے" پر آتے ہیں تو نانا کےلیے پیناڈول کی شیشیاں لاتےہیں اور جب یہ "سازوسامان" روبی خالہ کی نظروں میں آتا ہےتو فوری طور پر ٹانگوں،سر اور کمر میں درد کی شکایت کا واویلا شروع ہوجاتا ہے۔لہذا جلدی سے آدھی شیشی پیناڈول کے "گولے" ان کو پرانی بوتل میں انڈیل کر دےدیے جاتےہیں۔
خالہ کو چھیڑنے کے واسطے جب بھی پوچھا جائے کہ "کیا پاکستان میں یہ ادویہ نہیں ملتیں ؟ تو جواب ہوتا ہے "تمہیں نہیں پتہ،باہر سے آئی دوا خالص ہوتی ہے۔۔فوراً اثر کرتی ہے،پاکستان میں تو سب ملاوٹ اور لوٹ مار ہے۔" یہ معاملہ ادویات تک رہتا تو بھی بات تھی۔مگر ایک طویل فہرست تھی جو کہ پاکستان میں ہر بڑے اسٹور پر دستیاب ہے لیکن کیا کیا جائے کہ "باہر سے آیا مال" کبھی اس "لوکل" شے کا مقابلہ نہ کرپایا تھا۔۔۔۔"امیریکن روسٹڈ بادام" ہوں یا چمکتے فرش کو مزید چمکانےکیلیے مخصوص طرز کے sponge mops ۔ ٹوتھ پیسٹ ہو یا موبائل فونز۔۔۔غرض یہ کہ آسٹریلیا، ڈنمارک، برطانیہ اور امریکہ میں مقیم سب رشتہ داروں پر فرض تھا کہ پاکستان آنے سے قبل روبی خالہ سے ان کی فرمائشی فہرست پوچھی جائے کہ پاکستان میں وہ 'معیار' نہیں ملتا۔خالہ کا تو حال یہ ہے کہ ڈرامہ بھی پاکستانی پسند نہیں آتا۔ایک وقت تھا کہ الارم لگا کر رات کے دو بجے اٹھتی تھیں،وجہ کسی "کُم کُم" نامی بیوہ کی اس کے دیور سے شادی کروانا مقصود تھی۔پھر نگوڑ مارا "میرا سلطان" آگیا اور دنیا نے دیکھا کہ علینہ کے بھائی کے ولیمے پر "حورم" بنی گھوم رہی تھیں۔خالو کا بھی حال یہ ہے کہ ملکی خبروں میں کم اور پڑوس میں جھانک کر دیپیکا نامی اداکارہ کی آنے والی فلم کے قصےسناتے پائے جاتےہیں۔انہیں کوئی خبر بتادیجیے،کوئی ملکی معاملہ ہو جواب ہوتا ہے "اچھا؟" اور لگے ہاتھوں پوچھنا نہیں بھولتے کہ فلاں بین الاقوامی نشریاتی ادارہ کیا کہتا ہے اس بارےمیں؟ ۔ حتیٰ کہ برائیلر کی قیمت بڑھے یا کم ہو،تصدیق انہیں "باہر" سے ہی درکار ہوتی ہے۔
ہمارے ہاں ایک خبر مہینوں گردش میں رہے گی،سامنے کا معاملہ ہوگا مگرکیا مجال ہے کہ عوام و خواص کے کان پر جوں بھی رینگ جائے۔وہی بات،وہی خبر حتیٰ کہ ایک پرلے درجے کی گھٹیا پریس کانفرنس ہی کیوں نہ ہو جونہی کسی بین الاقوامی نشریاتی ادارے کی زینت بنے گی تمام گردنیں ایک ہی سمت میں مڑ جاتی ہیں۔ مخالفین کو فوراً حُب الوطنی کا مروڑ اٹھتا ہے، سر میں حق سچ کا درد ہوتا ہے اور جناب سر پر کفن باندھے "غدار' "دشمن ایجنٹ" اور "کافر" تو کیا "واجب القتل" کے فتوے صادر کرتے سب چاقو چھریاں تیز کرکے میدان میں پیشہ ور قصاب بنے حاضر ہوجاتےہیں۔اگرچہ معاملہ بیشتر کا وہی موسمی قصاب والا ہوتا ہے جو عیدِ قربان پر ایسا گوشت بناکر جاتےہیں کہ مجال ہے آپ کوایک چانپ سلامت مل جائے یا گردن کے حصے کا گوشت سمجھ آجائے۔
بھیا جب تک "امپورٹڈ" کا ٹھپہ نہ لگا ہو ہم تو ٹوائلٹ کلینر پر بھروسہ کرنے سے کتراتےہیں چہ جائیکہ کوئی خبر۔ ردِعمل اور مسلسل تیزابی ردِ عمل انسان میں تعصب اور خود پسندی کے علاوہ دوسروں سے نفرت اور دوری کا پیش خیمہ ہوتا ہے۔صرف خود کو ہی راست گو اور حق پر سمجھنے والا انسان دلدل میں دھنسے رہنا پسند کرتا ہے بلکہ کسی کو مدد کرتے دیکھےتو اس کو بھی اسی کیچڑ زدہ ماحول میں کھینچ لیتا ہے۔اور یوں الزام تراشی اور بہتان کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ چل نکلتا ہے۔
بہرحال "امپورٹڈ مال" دیکھ کر رال ٹپکاتے بلا ضرورت چورن کی "خریداری" سے پرہیز اکثرہی بےوقت کی بدہضمی سے بچالیتا ہے۔ اللہ کرے یہ بات کسی کو سمجھ نہ آئے کیونکہ علینہ کی روبی خالہ تو خاندان کی ہر محفل کا پسندیدہ موضوعِ سخن ہیں۔تقاریب پھیکی ہوجائیں گی جناب۔
بھیا جب تک "امپورٹڈ" کا ٹھپہ نہ لگا ہو ہم تو ٹوائلٹ کلینر پر بھروسہ کرنے سے کتراتےہیں چہ جائیکہ کوئی خبر۔ ردِعمل اور مسلسل تیزابی ردِ عمل انسان میں تعصب اور خود پسندی کے علاوہ دوسروں سے نفرت اور دوری کا پیش خیمہ ہوتا ہے۔صرف خود کو ہی راست گو اور حق پر سمجھنے والا انسان دلدل میں دھنسے رہنا پسند کرتا ہے بلکہ کسی کو مدد کرتے دیکھےتو اس کو بھی اسی کیچڑ زدہ ماحول میں کھینچ لیتا ہے۔اور یوں الزام تراشی اور بہتان کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ چل نکلتا ہے۔
بہرحال "امپورٹڈ مال" دیکھ کر رال ٹپکاتے بلا ضرورت چورن کی "خریداری" سے پرہیز اکثرہی بےوقت کی بدہضمی سے بچالیتا ہے۔ اللہ کرے یہ بات کسی کو سمجھ نہ آئے کیونکہ علینہ کی روبی خالہ تو خاندان کی ہر محفل کا پسندیدہ موضوعِ سخن ہیں۔تقاریب پھیکی ہوجائیں گی جناب۔
ye hmari tb say adat mai shamil hy jb say america k imported dodh pak mai laya gaya tha
جواب دیںحذف کریںہم ہیرو سے لے کر دشمن تک کو پہچاننے کے لیے دشمن ہی کی خبروں کا سہارا لیتے ہیں
جواب دیںحذف کریںکچھ عجب نہیں کہ "بہو" بھی تو دشمنوں کے ہاں سے لانی پسند کرلیتے ہیں :-)))
حذف کریںبہت اعلیٰ آپی
جواب دیںحذف کریںالفاظ کا انتخاب
مرکزی خیال
سب بہترین
لکهتی رہیں
اور
فیضیاب کرتی رہیں
جزاک اللہ الخیر۔۔۔
حذف کریںجب دیسی مال پر سے اعتبار اٹھ جائے تو بندہ کیا کرے ؟
جواب دیںحذف کریں:):)
ککڑی تے دیسی ہی پسند اے لیڈراں نوں :-)) :-)
حذف کریں