جمعرات، 29 ستمبر، 2016

خدا کہیں تمہیں اپنی تاریخ نہ بھلا دے

رچنا دو آب ، دو دریاؤں راوی اور چناب کے بیچ آباد یہ علاقہ دُلا بھٹی اور بھگت سنگھ جیسے سپوتوں کا وارث ہے۔ایک لوک راج  کا بانی اور دوسرا وہ جو کسی مخصوص مذہب، رنگ اور نسل کے لیے نہیں بلکہ مٹی سے جُڑے رشتوں اور اپنے ہم وطنوں کو غلامی سے اوپر اُٹھنے کا سبق دیتا "انقلاب زندہ باد" کا نعرہ لگاتا سولی چڑھ گیا۔۔۔بہرحال ہم نے اِن دونوں ہی کو فراموش کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔کسی کو لُٹیرا کہہ دیا اور کسی کے نام کے ساتھ لگا  سنگھ  تحریکِ آزادی میں اس کی حصہ داری مشکوک بنا گیا۔ایک روایت بن گئی ہے کہ تحریکِ آزادی سے منسلک ہر کارکن کو اپنی وابستگیوں کے پلڑے میں تول کر تضحیک کرنے یا دیوتا بنا دینے کا فیصلہ ہو۔
 دو ہزار بارہ میں حکومتِ پنجاب پاکستان نےماضی میں  لاہور جیل کا حصہ (پھانسی گھاٹ) رہنے والے شادمان چوک کا نام بھگت سِنگھ کے نام سے منسوب کرنے کا حکم جاری کیا۔کیونکہ یہی وہ مقام ہے جہاں بھگت سِنگھ کو اس کے ساتھیوں راج گرو اور سُکھ دیو کے ساتھ پھانسی دی گئی۔کیا ہی کمال نظامِ بدمعاشی ہے اس ریاست میں کہ جہاں نام نہاد پُرامن احتجاج کرکے جماعت الدعوہ نے صوبائی حکومت کو چند ہی گھنٹوں میں یہ فیصلہ واپس لینے پر مجبور کردیا۔معاملہ یہ بھی اب عدالت کے سپرد ہے ۔ کیونکہ اُن کے نزدیک صوبائی حکومت کا یہ فیصلہ "نظریہ پاکستان" کی اساس کے مخالف ہے۔۔۔نظریہ پاکستان ہے کیا اس بارے آپ کو مکمل رہنمائی صرف جماعت الدعوہ ہی سے مِل سکتی ہے۔خود کو پریشانی اور اپنی زندگی کو گرانی میں ڈالنے سے پرہیز کیجیے۔
خدا جانے اپنی زمین کی روایات، ثقافت اور قربانی کی داستانوں کی قدردانی کا خیال تھا یا شادمان چوک کے فیصلے کی خفت مٹانے کی کوشش ،بہرحال دو ہزار چودہ میں پنجاب حکومت نے ایک سو پانچ گ۔ب ونگھے،لائل پور (فیصل آباد) میں موجود حویلی کو بھگت سنگھ کی یادگار اور قومی ورثہ کا درجہ دے کر آٹھ کروڑ روپے مختص  کردیے۔ یہاں دو کمروں پر مشتمل اس یادگار کی دیکھ بھال ، میوزیم اور بحالی کا کام حکومت نے اپنے ذمے لے لیا ہے جبکہ اس حویلی کا مالک علاقے کا نام بنگہ سے بھگت پورہ کروانے کی درخواست عدالت میں لے جا چکا ہے۔

پاکستان میں حالیہ کچھ برسوں کے دوران سردار بھگت سنگھ پر دو دستاویزی فلمیں بن چکی ہیں۔اجوکا تھیٹر کی جانب سے پیش کیا جانے والا کھیل "رنگ دے بسنتی"  جبکہ "کیمرہ فار کاز" اور "تحیر وژؤل آرٹس" کے زیرِ اہتمام حفیظ چاچڑ اور زینب ڈار کی ہدایات و پروڈکشن میں بننے والی Indelible – Bhagat Singh اسی سلسے کی کڑیاں ہیں ۔اگست کے مہینے میں پاکستان نیشنل کونسل آف آرٹس اسلام آباد نے مؤخرالذکر بتیس منٹ کی ستاویزی فلم اور پینتالیس منٹ پر مشتمل ایک کھیل کی بکنگ پیش کیے جانے سے دو روز قبل منسوخ کردی۔مصدقہ اطلاعات کے مطابق حفیظ چاچڑ صاحب کو موصول ہونے والی ای۔میل میں مؤقف یہ اپنایا گیا تھا کہ چونکہ جشنِ آزادی کی تقریبات کا سلسلہ جاری ہے لہذا ان کی ڈاکیومنٹری اور کھیل کا موضوع ادارے کے قواعد وضوابط سے میل نہیں کھاتا۔ایک آہ نکلی کہ  کاش بھگت سنگھ کے ساتھ سولی چڑھنے والوں میں کوئی مسلمان بھی ہوتا تو ان تقریبات میں اس کی قربانی بڑھا چڑھا کر بیان کرنے اور اپنانے میں بہت سے ہاتھ گے آجاتے۔ بہرحال ڈیڑھ دو دن کی بھاگ دوڑ میں بِنا کسی سپانسرشپ کے زینب ڈار اور حفیظ چاچڑ  لوک ورثہ کے تعاون سے اوپن ایئر تھیٹر میں تیرہ اگست کی شام پنجاب کے اس عظیم سپوت کے نام سجانے میں کامیاب ہوگئے۔

مذکورہ دستاویزی فلم نے اِس پہلو کو چھونے کی کوشش کی ہے کہ ہماری آج کی نسل اور شادمان چوک کے گِرد آباد آزادی میں جیتے پاکستانی بھگت سنگھ کے نام ، جدوجہد اور اس کے کیس بارے کتنی آگہی رکھتے ہیں۔ایک ٹیس اٹھی دیکھ سُن کر۔۔۔"چوھدری رحمت علی چوک" کا بورڈ لگانے پر شاداں ایک دکاندرا کا فرمانا ہے کہ "ایک سِکھ کے نام پر ہم کیوں رکھیں چوک کا نام؟ چوھدری رحمت علی ہمارے قومی شاعر ہیں۔ہم نے بورڈ لگادیا ہے۔یہ کسی اور جگہ جا کر شوق پورا کریں۔" اسی دستاویزی فلم میں ایک مولوی صاحب نرخرے پر اضافی بوجھ ڈالے اپنے علم کے بےپایاں سمندر میں غوطہ زن ہیں اور ریفرینڈم کے ذریعے چوک کے نام کا حل سُجھاتے یہ بھی بتاتے ہیں کہ "جب کیس ہی غلط تھا۔ بھگت سنگھ نے جِس انگریز کو مارنا تھا اس کی غلط فہمی میں کسی اور کو ماردیا تو پھر کیسی قربانی اور شہادت؟" صاحب سِول سوسائٹی سے بھی نالاں ہیں کہ موم بتیاں کیوں جلاتے ہیں؟ ہنگامے کا الزام لگا کر مزید انکشاف کیا کہ اہلِ علاقہ کو پریشان کیا جاتا ہے۔۔۔ اب کوئی ان اصحابِ عقل و دانش سے یہ دریافت نہیں کرسکتا کہ گلاب دیوی اور سر گنگا رام کے ناموں سے منسوب ہسپتالوں کو کب مشرف بہ اسلام کرنے کا ارادہ ہے؟ لائل پور کو تو الحمدللہ زمانہ ہوگیا اب مسلمان ہوئے۔
دستاویزی فلم میں سانول ڈھلوں کی آواز میں ایک کلام ہے ۔جِس کے بول کچھ یوں ہیں
بھگت سنگھ جیہے ویر دیاں سب دیس نوں لوڑاں نیں ۔۔۔
سادہ مگر پُراثر آواز و الفاظ ہیں۔
کھیل میں بھگت سِنگھ کی روح کو اپنی جنم بھومی اور شادمان چوک میں گھومتے دکھایا گیا ہے۔کاٹ دار جملوں میں ایسی روانی ہے کہ جیسے مکھن میں چھری چلتی جائے۔مایوس بھگت کو آخر میں ایک بچہ ،جو امید کی کرن کا استعارہ ہے، پہچان لیتا ہے اور حاضرین کو تاریخ کا درست رُخ پڑھنے کا اشارہ کرتا ہے۔
زینب ڈار کھیل کے اختتام پر کچھ ساتھیوں کے ہمراہ "ہم جو تاریک راہوں میں مارے گئے" پر بھرت ناٹیئم کرتی دکھائی دیں۔ تمام کھیل کو اِس پاور فُل انداز میں سمیٹا گیا ہے کہ مہارت کی داد نہ دینا بد دیانتی ہوگی۔
 کھیل کے آغاز میں محترم عثمان قاضی کا جملہ آپ کو اپنی گرفت میں لے لیتا ہے۔وہ کہتے ہیں کہ بلوچ زبان میں کسی کو بددعا دینی ہو تو کہا جاتا ہے "خدا تمہیں تمہاری تاریخ بھلا دے۔" دماغ پر ہتھوڑے کی طرح برستا یہ فقرہ مجھے بہت ہفتوں سے پریشان کیے ہوئے ہے۔متحمل مزاج عثمان قاضی کی پسِ پردہ آواز اور کچھ مصرعے یہ کھیل دیکھنے والے کو جھنجھوڑ ہی تو ڈالتے ہیں۔
ضرورت ہے کہ اپنی مٹی سے جُڑے لوگوں کی جدو جہد ، اس دھرتی کی ثقافت اور ست رنگ داستانوں کو اگلی نسل تک درست طریقے سے پہنچایا جائے۔معاشرے کو لسانیت،علاقوں اور رنگ نسل کی تقسیم در تقسیم اشتعالی کیفیت سے نکالنا ہے تو آگے بڑھنے والوں کا راستہ مت کاٹیے۔
یہاں یہ بات یاد رہے کہ لاہور ہائیکورٹ میں ایک وکیل امتیاز قریشی  نے بھگت سنگھ اور ساتھیوں کی پھانسی کا کیس ری۔اوپن کروا کر ان کی بے گناہی ثابت کرنے کا بیڑا اٹھا رکھا ہے۔ہائیکورٹ کی ویب سائٹ کے مطابق اس معاملے کی آخری سماعت اسی برس مارچ کی تین تاریخ کو ہوئی تھی۔
گزشتہ روز سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر بہت سے سیاسی اور گروہی ٹرینڈز فہرست میں دیکھنے کو ملے۔لیکن بھگت سنگھ کو جب اکثریت جانتی ہی نہیں تو وہ لوگ جو کسی کی بھینس کے ہاں کَٹی پیدا ہونے پر بھی ٹرینڈ چلا دیتے ہیں ، وہ بیچارے کس طرح وقت اور مواد نکالتے جو ھیش ٹیگ میں ھیپی برتھ ڈے بھگت سنگھ لکھ کر گھومایا پھرایا جاتا ۔خیر ، ہر سال تیئس مارچ کو بھگت سنگھ کی حویلی پر ایک  میلے کا انعقاد ہوتا ہے۔یہ ان کی پھانسی کی تاریخ ہے۔ابھی جِس وقت میں اپنی یاداشت ٹٹول کر یہ سطور گھسیٹ رہی ہوں تو کچھ تصاویر دیکھنے کو ملیں جو کہ بھگت کی سالگرہ کے موقع پر ایک میلہ نما تقریب کی ہیں۔اٹھائیس ستمبر ان کا جنم دن ہے اور مٹی کی خوشبو میں بسے کچھ لوگ کوشش کرکے اس دن کو لائلپور میں منا ہی لیتے ہیں۔منقسم محبت اور نفرتوں سے دور یہ لوگ ہمیشہ آباد رہیں۔
خدا ہمیں ہماری تاریخ بھولنے نہ دے۔