ہفتہ، 26 نومبر، 2016

ہوم اکنامکس ، خاتونِ خانہ کا مثالی خاکہ اور عہدِ حاضر

گزشتہ چند دنوں سے سماجی رابطے کی ویب سائٹس اور بلاگرز نے جس معاملے کو بے حد سنجیدگی سے توجہ کا مرکز بنا رکھا ہے وہ پنجاب کریکولم اینڈ ٹیکسٹ بُک بورڈ ، لاہور سے مارچ 2016ء میں شائع ہونےوالی آٹھویں جماعت کی ہوم اکنامکس میں دیا گیا "خاتونِ خانہ کے لیے وقت کے گوشوارے کا مثالی خاکہ " ہے۔ تصویر نظر سے گزری تو جو پہلا خیال آیا وہ صرف یہ تھا کہ خاتونِ خانہ ہے یا باندی کہ جس کو رات گیارہ بجے سے صبح پانچ بجے تک آرام کرنے کی سہوت دی گئی ہے۔دوسرا سوال یہ ابھرا  کہ خاتونِ خانہ اگر کُل یا جز وقتی ملازم رکھتی ہو (جو کہ متوسط گھرانوں میں بھی دستیاب ہیں) تو تین وقت کھانا ، دھلائی اور گھر صفائی کا کیا کرنا ہے۔شوہر اگر بیرون ملک نوکری مزدوری کرتا ہو تو پاکستان میں رہتی عورت گھر کیسے چلائے گی یا پھر یوں ہے کہ وہ مثالی گھریلو عورت نہیں۔ نمازوں کے اوقات بارے پوچھنا چاہیے کہ مخصوص ایام میں کیا کرنا ہے ۔ غیرمسلم خواتین کیا کریں۔ اور جو چھ گھنٹے نیند کے عطا ہوئے ہیں اس میں بیوی کے حقوق و فرائض کی ٹائمنگ بھی بتادیتے۔مذکورہ گوشوارے کے حساب سے ٹی۔وی ساڑھے سات سے ساڑھے نو بجے تک دیکھیں۔جبکہ بچوں کو اڑھائی گھنٹے پڑھانا ہے۔اب سوال یہ ہے کہ جو خواتین کم پڑھی لکھی ہوں وہ ان اوقات میں کیا کریں۔  آپ نے کسی روبوٹ کے لیے ٹائم ٹیبل فیڈ کرنا ہے یا انسان کے لیے۔ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ طالبات کو پوچھا جاتا کہ وہ چوبیس گھنٹوں کو کس طرح ترتیب دیں گی۔خاتونِ خانہ ہی سہی تو بے اولاد یا بیوہ کیا کریں ، کیا وہ مثالی نہیں بن سکتیں ۔ زمینی ،معاشرتی اور معاشی حقائق سے کوسوں دور بیٹھ کر یہ خاکہ مرتب کرنے والی مصنفہ و مدیر سمیت پنجاب حکومت نے کتنے پلیٹ فورمز پر گھریلو صنعتوں کے فروغ پر زور دیا ہوگا۔کیا آج کے دور میں متوسط گھرانہ چلانے کے لیے بھی فردِ واحد کی کمائی کے ساتھ گزارا ہوسکتا ہے۔ایک جانب آپ کو طب سے لے کر فیکٹریوں ،پولیس ، فوج ، بینک ،کھیت،سکولوں اور اینٹوں کے بھٹوں تک تو کیا سڑکیں بنانے میں بھی ہاتھ بٹاتی خواتین چاہییں اور دوسری جانب آئیڈئلزم کا شکار وہی ڈائجسٹس کی دنیا میں بیٹھی بی۔بی کا خاکہ پیش کیا جارہا ہے۔اور جو خواتین گھر ہی میں چھوٹے یونٹس پر کام کاج کررہی ہیں  یا آنلائن جابز کرتی ہیں وہ فراہم کردہ "مثالی خاکہ" کیسے فالو کریں۔یہ بتانا بھول گئے۔معاشی دباؤ کے اعشاریہ کو سمجھتے ہیں یا پھر مراۃ العروس کی اصغری/اکبری کی تقسیم سے باہر نکلنے پر طبیعت مائل نہیں ہورہی؟
سوالات بڑھے تو کتاب خرید کر خود مطالعہ کرنے کا خیال آیا۔معلوم ہوا کہ "راولپنڈی میں ڈسٹریبیوٹرز  کو انگلش میڈیم ہوم اکنامکس ابھی تک گزشتہ برس والی ہی مہیا کی جارہی ہے اور  کل ہی دو سو کاپیاں فروخت ہوئی ہیں۔پنجاب حکومت اس برس بھی بروقت چھپائی اور ترسیل کا کام وقت پر نبٹا نہیں سکی۔" لیکن مزید تحقیق کرنے پر معاملہ برعکس دکھائی دیا کہ ان لوگوں کے پاس گزشتہ برسوں کی انگریزی ہوم اکنامکس کی کتب بڑی  تعداد میں پڑی تھیں لہذا  اس سال نئی خریدنے کا تردد ہی نہیں کیا ۔لاہور میں نیا نصاب ہی فروخت ہورہا ہے جبکہ دیگر اضلاع کی صورتحال واضح نہیں ہوسکی۔
اس برس نہ صرف نصاب میں واضح تبدیلی کی گئی ہے بلکہ مصنفین تک کو تبدیل کیا گیا جو کئی دہائیوں سے اچار ڈالنے،حلوے پکانے اور سبزیاں سُکھانے پر قادر تھیں۔ وقت کے تقاضوں سے ہم آہنگ ہونے کے لیے دسویں جماعت میں پڑھائے جانے والے موضوعات آٹھویں میں لائے گئے ہیں۔کُل گیارہ یونٹس میں منقسم درسی کتاب میں پہلی دفعہ ہوم اکنامکس کا تعارف اور اغراض و مقاصد بیان کرتے ہوئے غذا غذائیت ، تصورِ ذات ، شخصیت کی نشونما ، رنگوں کی افادیت اور ذرائع و وسائل کا انتظام جیسے موضوعات کو شامل کیا گیا ہے۔ورنہ تو آغاز ہی قورمہ کی افادیت اور اجزائے ترکیبی سے ہوا کرتا تھا۔اس برس آٹھویں جماعت کی طالبہ کو سوجی بھوننے اور مچھلی ٹانکے کاڑھنے سے نجات  مل گئی ہے۔ ورنہ تو خانہ داری کے نام پر سرکاری سکولوں کی استانیاں امتحانات اور ہفتہ وار ٹیسٹوں کے علاوہ بھی ہر مہینے سٹاف روم میں  اچھی خاصی ضیافت  کا بند وبست کروا لیا کرتی تھیں۔ مجموعی طور پر یہ اچھا تاثر دیتی تبدیلی ہے سوائے اس نام نہاد مثالی خاکے  کے جو کہ متوسط گھرانے میں کس شرح سےمستعمل ہے وہ شاید مصنفہ خود بھی نہیں جانتی ہوں گی۔
اچھنبے کی بات یہ ہے کہ انگریزی میڈیم  آٹھویں جماعت میں پڑھتی طالبہ کی کتاب تین حصوں میں تقسیم ہے : پکوان ، صحت و صفائی اور سلائی کڑھائی جبکہ تیسرے حصے میں خاندان میں رہتے دھلائی ، کپڑوں سے داغ دھبے اتارنا اور گھریلو بجٹ بنانا شامل ہے نیز کاغذ کے پھول بنانے بھی سِکھائے گئے ہیں۔یہاں معاملہ گھمبیر یوں ہے کہ پورے راولپنڈی ڈویژن میں یہی متروک نصاب انگریزی میڈیم میں پڑھا پڑھایا جارہا ہے ۔یاد رہے کہ گزشتہ برس پہلی دفعہ میٹرک کی طالبات ہوم اکنامکس میں اس بڑی تعداد میں فیل ہوئیں جس کی وجہ یہ رہی کہ پرچہ اس نصاب کا تھا جو بروقت طالبات کی رسائی میں نہ آسکا۔ہم یہاں ایک مثالی خاکے کو لے کر جذباتی ہوئے بیٹھے تھے اور کتاب خریدنے گئے تو مسئلہ شیطان کی آنت کی طرح بڑھتا ہی چلا گیا۔ذہن میں خاکہ تو یہ بنایا تھا کہ خوب لتاڑا جائے اس شیڈول  کا تصور و ترویج کرنے والوں کو لیکن یہاں تو ایک بڑی تعداد آج بھی چٹنی مربے بناتے براؤن پیپر کے شلوار کُرتے کاٹ رہی ہے۔اب فکر یہ کیجیے کہ بورڈ کےامتحانات میں بیٹھنے والی طالبات کو پرچہ کون سے نصاب کا آئے گا یا پھر کچھ ڈویژنز کے لیے دونوں میڈیمز کے لیے الگ الگ پرچہ مرتب ہوگا۔

منگل، 1 نومبر، 2016

رسی سوٹی کا کھیل

(باقاعدہ آغاز سےقبل یہ وضاحت ضروری ہے کہ یہ فِکشن سے بھرپور تحریر ہے جس میں کہیں بھی کسی چوپائے ، مالک ،خدمت گار یا منظر کو بطور استعارہ استعمال نہیں کیا گیا۔اور کسی قسم کی مماثلت محض اتفاقی ہوگی۔)

یہ قصہ ہے ریاست سفاکستان  کا۔یہاں ہفتہ وار بنیادوں پر مختلف میلےٹھیلے کا اہتمام ہوتا ہے ۔اگر کوئی کرتب اپنے دیکھنے والوں میں مقبولیت کے پنجے گاڑ لے تو پھر معاملہ ہفتوں سے مہینوں بلکہ برسوں میں بھی بدل جاتا ہے۔حتیٰ کہ تماش بینوں کا دِل اوب جائے تو انتظامیہ کوئی نیا میلہ ، نئے تنبو قنات اور بظاہر نئے مداریوں کے ساتھ میدان میں لانے پر مجبور ہوجاتی ہے۔ یہاں ہم انہی میں سے کچھ "کھیل تماشے" کا حال بیان کریں گے۔
کچھ ماہ بہترین اور مقوی خوراک کھلا کر مرغے تگڑے کیے جاتےہیں ۔تیل مالش ہوتی ہے اور پھر مقررہ دن فریقین اپنے پٹھے میدان میں لے آتےہیں۔چونچ اور پنجوں کے وار تب تک جاری رہتے ہیں جب تک کہ کوئی ایک دوسرے کو زخمی کرکے نڈھال نہ کردے۔بعض اوقات تو جان سے جاتے ہیں۔ اناؤں کی جنگ زیادہ ہو تو مالکان میں گولیوں کا تبادلہ بھی ہوجاتا ہے۔کوئی مارا جائے تو کچھ روز شور شرابے کے بعد کھیل کا حصہ سمجھ کر اگلے مقابلے کی تیاری شروع کردی جاتی ہے۔
دوسرے ہفتے اس ریاست میں سجنے والے میلے میں دو کتے لڑوائے جاتے ہیں۔ان کی بھی خوب خدمت اور خوراک پر محنت کرکے لاکھوں کے جوئے کے لیے تیار کیا جاتا ہے۔کتوں کے خدمت گزاروں اور مالکوں کے علاوہ شوقین افراد اور تماش بین کھلے میدان میں اکٹھے ہوتے ہیں اور دو تنومند جانوروں کو ایک دوسرے پر چھپٹتا دیکھتے ہیں۔فیصلہ کسی ایک وفادار کو قریب المرگ  کرکے ہی ہوتا ہے یا پھر زخموں کی تاب نہ لاتے کچھ کتے بھاگ بھی جاتے ہیں۔ہارنے والا فریق عموماً موقع پر ہی اپنے وفادار پالتو کو گولی مار کر ہار کی ٹیس مٹانے کی کوشش کرتا ہے۔
پھر سجتا ہے بیل جوڑی کا مقابلہ۔۔۔کچی زمین میں گڑھا کھودا جاتا ہے جس میں بیلوں کی آنکھوں میں لال مرچیں جھونک کر کھونٹے سے باندھ دیا جاتا ہے۔مقررہ وقت میں جس جوڑی نے زیادہ چکر کاٹے وہی فاتح۔مزید تیزی لانے کے لیے شادی بیاہ میں استعمال ہونے والے پٹاخے بھی دُم کے ساتھ باندھے جاتے ہیں۔پٹاخے چلتےہیں تو بیل ڈر کر مزید تیز بھاگتے ہیں۔
یونہی خرگوش کتے کی ریس بھی باذوق حضرات میں مقبول مشغلہ بن چکا ہے۔چٹیل میدان میں خرگوش کو بھگا کر اس کے پیچھے خونخوار شکاری کتے چھوڑ دیے جاتے ہیں۔چونکہ چُھپنے یا زمین کھود کر بچنے کی کوئی صورت نہیں ہوتی لہذا جو کتا پہلے اپنے جبڑے میں خرگوش کو جکڑتا ہے وہی فاتح قرار دیا جاتا ہے۔
اس دوران کتا ریس، بیل دوڑ ، گھوڑ دوڑ وغیرہ کا انعقاد بھی ہوتا رہتا ہے۔لیکن کچھ عرصہ ہوا گھوڑ دوڑ میں جوکی کو خچر اور گھوڑے کے مابین پہچان میں خاصی دقت کا سامنا ہورہا ہے۔بہرحال ہم تذکرہ کررہے تھے مارو یا مرجاؤ قسم کے مقابلوں کا۔وقت کے ساتھ اس ریاست میں خون خرابوں سے مزین کرتب زیادہ توجہ لینے کے باعث مقبولیت کے تمام گزشتہ ریکارڈز توڑنے لگے تھے۔لہذا مالکان اور خدمت گزاروں کی زیادہ توجہ انہی کی ترویج پر مبذول کرنا مجبوری ٹہری۔
کچھ باکمال مداری ایک ہی وقت میں بندر ، کتا، بکرا اور ریچھ پالتے ہیں۔ان کو سَدھاتے ہیں۔نفسیاتی حربوں کے طور پر چھریوں سے ڈرا کر اور بعض اوقات بندر کے سامنے بکرے کی درگت بنا کر بلکہ ذبح کرکے بندر کو ایسا سہما دیتے ہیں کہ وہ تمام عمر مداری کے اشاروں کو سمجھ کر گھومتی رسی اور سوٹی کے سامنے تماش بینوں کو رجھانے پر لگ جاتا ہے۔بین پر تھوتھنی پر خول چڑھائے ریچھ ناچتا ہے تو مُڑے ہوئے لانبے سینگوں والا بکرا ایک کے اوپر ایک تین پائے پر چڑھ کر دکھاتا ہے۔ایسے میں کوئی این۔جی۔او، ریاستی قانون یا "جانوروں کے حقوق" سے متعلق بین الاقوامی ادارے نہیں پوچھتے کیونکہ یہ سب کھیل تو ریاست سفاکستان کی "ثقافت و روایات" کا حصہ بن چکے ہیں۔کھیل ختم ہوتا ہے تو تماش بین گھر سے آٹا لاتے ہیں اور تالیاں بجاتے جیب سے کچھ رقم بھی نکال کر تھما دیتے ہیں۔بعض اوقات بعد میں معلوم ہوتا ہے کہ کسی جیب کترے نے پوری جیب پر ہی بلیڈ مارلیا۔
سفاکستان میں ہمالین بھورے ریچھوں کی نسل سنا ہے ناپید ہوتی جارہی ہے۔انہیں بین پر نچانے کے علاوہ ریچھ کتا لڑائی میں استعمال کیا جاتا رہا ہے۔ مالکان کو موٹی رقوم تھمانے کی بجائے متبادل روزگار فراہم کرکے دوسرے ذرائع سے کمانے کی جانب راغب کیا جارہا ہے۔چونکہ اس نایاب نسل کو بچانے کے مقصد میں بیرون ممالک کی تنظیمیں حصہ ڈال رہی ہیں لہذا بازیاب زخمی ریچھوں کی سرجری وغیرہ کے لیے بھی انہی سے مدد لی جاتی ہے۔مالکان بالغ ریچھوں کی آنکھیں، دانت نکال کر اور پنجوں کے ناخن کتر کر ان سے فطری دفاعی صلاحیت چھین لیتے ہیں۔ دو کتے کھلے میدان میں خود سے کئی گنا بڑی جسامت والے کھونٹے سے بندھے ریچھ پر جھپٹ کر اس کی تھوتھنی بھنبھوڑ ڈالتے ہیں۔دوسرے راؤنڈ میں تازہ دم کتوں کی جوڑی پھر چھوڑی جاتی ہے۔۔اب یہ اندھے ریچھ کی مہارت یا قسمت  ہے کہ وہ کسی کتے کے اوپر بیٹھ جائے یا اپنے بازؤں میں جکڑ کر بے بس کردے۔ایسے میں مالکان آگے بڑھتے ہیں اور اپنا کتا گھسیٹ کر باہر لے جاتے ہیں۔سنا ہے کہ پہلے ایسی لڑائیوں کے واقعات بہت رپورٹ ہوتے تھے لیکن بتدریج کمی آرہی ہے۔
آخر میں ذکر کرتے ہیں اونٹ ریس کا۔مالک کی طاقت اور امارت کا تخمینہ عموماً اس کی ملکیت میں اونٹوں کی تعداد سے لگایا جاتا ہے۔اونٹوں کو شہد،دودھ،گھی مکھن اور جوس دودھ پر پالا جاتا ہے۔موسم کی مناسبت سے دیکھ بھال ہوتی ہے۔صحرا میں نکالنے سے قبل ان کے منہ پر حفاظتی جالی لگائی جاتی ہے تاکہ غیر معیاری خوراک پر منہ نہ ماریں۔اعلیٰ رہائش،بہترین ماحول ، خوشبویات سے غسل اور ڈاکٹر و ادویات کی سہولیات فراہم کی جاتی ہے۔ان اونٹوں کے خدمت گاروں کو اچھا معاوضہ ملتا ہے۔ ریس کے انعقاد سے قبل سفاکستان میں اونٹ ریس کے لیے جون سے اکتوبر تک تربیتی سیشن ہوتا ہے۔ غربت و مجبوریوں میں پِسے علاقوں سے بچوں کو بطور جوکی لایا جاتا ہے۔ کچھ علاقوں کے ستر تو کہیں نوے فیصد کم عمر بچے جوکی بننے جاچکے ہیں۔جِن کے والدین سمجھتے ہیں کہ بچہ بڑی جگہ پر ملازم ہوجائے گا تو حالات سدھریں گے۔ ریاست توجہ دے گی اور نظام کا حصہ بنا لیے جائیں گے۔ان بچوں کو اونٹ کے ساتھ باندھ دیا جاتا ہے۔اب بچہ جتنا چیخے چلائے گا مالک کا اونٹ اتنا ہی تیز بھاگے گا۔دو جانور ٹکرا جانے پر بچہ زخمی ہو ،عمر بھر کے لیے معذور یا پھر جان سے جائے یہ اس کی اور لواحقین کی قسمت۔مالکان کی بڑے نقصان سے بچت ہی رہتی ہے۔کیونکہ جب یہ نر اونٹ دوڑ کے قابل نہیں رہتے تو اصطبل میں افزائشِ نسل کے کام آنے لگتے ہیں۔
مالک اور پالتو جانور کا سارا کھیل جِن تماش بینوں کے لیے ہوتا ہے انہی میں سے اکثریت آہیں بھرتی کوشاں رہتی ہے کہ کسی طرح خدمت گاری کا موقع اور پکی نوکری مِل جائے۔پنجابی مقولے کے مطابق ساری عمر دیاں روٹیاں تے مالکاں دی چھتر چھایا۔
اس تمام کھیل تماشے کے دوران سفاکستان میں ایک صدا گونجتی رہتی ہے۔۔۔

"اللہ والیو سَکھایا اے ، بندہ نئیں مَندا ، جانور من جاندا اے۔ رسی نہ ہووے ، سوٹی نہ ہوے تے جانور کدے نئیں مَن دا۔۔۔"