جمعرات، 20 اگست، 2015

کاجل

مشتاق صاحب کے تین بیٹوں میں بڑا پتر ملک کاظم زرعی ترقیاتی بینک میں ریکوری آفیسر تھا۔ یہ اُن دِنوں کی بات ہے جب کسان کو قرض دینے میں حکومت جس عجلت کا مظاہرہ کرتی تھی اس کی واپسی کے لیے بھی اسی تندہی سے مزارع کی عزتِ نفس "پیلیوں" میں جوتے مار کر کچلی جاتی تھی۔اور اس فرض کی ادائیگی کےلیے ریکوری افسروں نے اپنی جیپ میں دو بندے دفتر سے اور تین زمیندار کےعطا کیے بٹھائے ہوتے۔ ہاں مگر گولڈن شیک ھینڈ سے مستفید ہونے سے قبل کسان دوست قرضے  کے نام پر وڈیروں کے ساتھ مل کر ان افسروں نے کتنا مال بنایا وہ ایک الگ ہی داستان ہے۔
گھر سے میلوں دور کاظم کی فیلڈ ڈیوٹی کا ہی شاخسانہ تھا کہ خاندان والوں کو مجبور کرکے جھنگ شہر کی کوثر سے شادی کی تھی۔ صاحب پہلے اس اجنبی جگہ پر شام کے فارغ اوقات دوست کی اس بہن کو ٹیوشن پڑھانےمیں گزارتے تھے۔پھر خیال آیا کہ اچھی طالبہ ہے،تاحیات شاگردی میں لے لیا جائے۔
 
کاظم کو دنیا کے ہر بندے کا نام بگاڑنے کا حق حاصل تھا مگر اس کا نام کوئی بگاڑ کر جائے کہاں۔سب بھائیوں کے الٹے نام رکھ چھوڑے تھے۔۔۔

کاجل کو کوثر کے تیسرے miscarriage
 کےبعد خدمت گزاری کےلیے لایا گیاتھا۔ اُس کا نام کرن تھا۔وہ بھی قرض کے بوجھ تلے دبے کسی "کمی کمین" کی اولاد تھی۔ مگر جب ١٣ سال کی عمرمیں جھنگ کے نواحی گاؤں سے صاحب لوگوں کے اس حویلی نما بنگلےمیں آئی تو اس نے باجی کوثر کی ساس کو جھنگ کے مشہور "تیلی والےکاجل" دیتےسمجھایا تھا کہ کیسےکُنالی مٹی کے چولہے پر اوندھی دھری رہتی ہے جب تمام رات جلتا دیا اس کے نیچے رکھتے ہیں۔اور صبح کو وہ ساری کالک کاجل کی صورت پیلی تیلیوں پر اکٹھی کی جاتی ہے۔۔۔بس نام تو عطاء ہونا ہی تھا۔۔۔تو وہ گھر بھر کی کاجل بن گئی۔
لڑکوں کے بھرے پرے گھر میں اس تیرہ سالہ بچی کو چند ہی ماہ میں اچھے سے سمجھ آگئی تھی کہ "کاظم بھائی" کو خوش رکھےگی تو باقی "ستے خیراں" ہیں۔پھر گُلو صاحب بھی بہت خیال رکھتے تھے۔آتے جاتے آئسکریم دلواتے۔ان کےلیے چائے بنا کر لاتی تو کس محبت سے اس کا ہاتھ سہلاتے ، کتنے ناز نخرے اٹھاتے ، اور کبھی تو۔۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔۔
شروع میں بات بات پر دہل جانے والی کرن اب کبھی گاؤں جانے کاتذکرہ ہی نہیں کرتی تھی۔۔۔ سال ڈیڑھ میں ہی کاجل بڑی ہوگئی تھی اور "سمجھدار" بھی کردی گئی تھی۔ کوثر نے ساس صاحبہ کو اشارتاً کہا بھی کہ پرائی بچی جوان ہورہی ہے واپس بھجوائے دیتےہیں۔مگر اب چوتھی بارخوشخبری تھی اور اماں جان اب کی بار بہو کو ہِل کر پانی تک نہ پینے دیتیں۔ایسے میں کاجل کا بہت سہارا تھا۔سارا گھر سنبھال رکھا تھا۔جبکہ کوثر کو محسوس ہوتا کہ اسے گھر والے سنبھالنے کا فن بھی آگیا ہے۔

رب نے مہر کردی تھی اور اس بار صحتمند بیٹا ملک کاظم کی گود میں ڈالتے کوثر شاداں تھی۔بینک کی جانب سے تبادلہ دور دراز کے علاقےمیں ہواتو ملک کاظم بیٹے،بیوی اور کاجل کےساتھ وہیں منتقل ہوگئے کہ اب بازار کےکھانے سے دل اُوب گیا تھا۔۔۔چھوٹے بھائی مہینےمیں دو تین چکر لگاہی لیتے تھے۔ذیشان کو پیار سے شانی کہاجانےلگا اور کاجل سارا دن گھراور گھروالوں کےساتھ اس بچےکو بھی سنبھالتی کیونکہ باجی کوثر کی طبیعت ایک بار پھر خراب تھی۔۔۔۔
دوسرےبیٹےکی پیدائش پر کوثرکومحسوس ہوا کہ سسرال میں اب اس کا مقام پسند کی شادی کرنے والی سے بڑھ کر نسل بڑھانے والی چودہرائن جیسا ہوگیا تھا۔۔۔ایسے میں مان اور غرور کا آ جانا کچھ اچھنبے کی بات تو نہ تھی۔

"کاجل ۔۔۔تیری ماں نے پھر بیٹی پیدا کرلی ہے۔۔۔ہونہہ۔۔۔ اسے کہہ اب بس کردے،پہلے ہی دَس بچےہیں۔" کوثر نے نخوت سے فون پٹخ کر پونچھا لگاتی بچی کو لتاڑا۔
"باجی ہمارے علاقے میں بچوں کی تعداد کی فکر اس لیے بھی کم ہے کہ آدھے تو "گُڈی پٹولے اور بینٹے" کھیلنے کی عمرمیں صاحب لوگوں کے بچوں کو سنبھالنے،بیگمات کے پیر صاف کرنے اور بڑے صاحب کے جوتےچمکانے شہرآ جاتے ہیں۔۔۔" کاجل نے حلق کی کڑواہٹ محسوس کی مگر اگلے لمحے کمر میں لگنے والے جوتے اور باجی کی گالیوں نے اس عمر میں ایسی "پکی" بات کرنے کا مزہ چکھ لیا تھا ۔۔۔۔۔
شانی اب پری نرسری جانے لگا تھا مگر گھرکےبعد سکول میں بھی یہی بات سامنے آئی کہ بچہ گم سم اور سہما رہتا ہے۔کوثرکو بھی آرام کرنے اور "چھوٹو" کی دیکھ بھال سے فرصت ملتی تو شانی کے رویےمیں تبدیلی محسوس ہوتی۔ٹھیک سے کھاتاپیتا بھی نہ تھا۔ڈاکٹر کودکھایا گیا توکچھ نسخہ جات کے علاوہ ماہرِ نفسیات کی راہ سجھا دی گئی۔جس کا پہلے ہی "وزٹ" میں مشورہ تھا کہ بچے کی دوستی اور سرگرمیوں پر نظر رکھی جائے۔
بات یونہی آئی گئی ہوچلی تھی کہ کاجل کو پانچ روز کے لیےاپنی بہن کی شادی دیکھنے گاؤں جانا پڑ گیا۔پہلےتو بچوں کے کمرےمیں وہ ہوتی تھی تو کاظم اور کوثر کو کچھ دقت نہ تھی مگر دو ہی روزمیں کوثر کی ہمت جواب دے گئی تھی۔آج بھی چھوٹو کو "فنرگن" پلا کر شانی کو کھیلتے دیکھ کرنیند پوری کرنے اپنے کمرے میں چلی آئی۔۔۔مگر کچھ ہی دیر میں برقی گھنٹی کی چنگھاڑ سے جاگ اٹھی۔۔گوالے سے دودھ لےکر فریج میں رکھتے اور دل میں کاجل کو گالیاں نکالتے بچوں کے کمرے میں جھانکا تو چیخ دبا کر رہ گئی۔۔۔۔
"شاااااانی ی ی ۔۔۔۔۔۔ یہ کیا کررہے ہو ؟ "
کوثر نے پھٹی آنکھوں کے ساتھ شانی کو ایک جھٹکے سے چھوٹو سے الگ کیا۔۔۔۔۔
"یہ سب۔۔۔۔۔۔ یہ سب کس نے سکھایا ؟ کہاں دیکھا ؟ بولتے کیوں نہیں ؟" وہ اپنے لختِ جگر کو جھنجھوڑ رہی تھی کہ کاظم گھر میں داخل ہوا۔۔۔۔
"کاظم۔۔۔۔۔ یہ شانی ۔۔۔۔۔ یہ چھوٹو کے ساتھ ۔۔۔۔ یہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔" کوثر نے ہکلاتے ہوئے کچھ کہنا چاہا اور ننگ دھڑنگ بچوں کی جانب اشارہ کیا
"کیا بکواس ہے یار۔۔۔۔ میں فیلڈ سے سیدھا آرہا ہوں۔۔
 کچھ روز کاجل کے بنا دو بچے نہیں سنبھال سکتی ؟ " کاظم نے غصے میں پھنکارا
"آپ سمجھ نہیں رہے۔۔۔۔۔ میں کمرے میں داخل ہوئی تو شانی اس وقت چھوٹو کے ساتھ ۔۔۔۔۔" کوثر گھٹی گھٹی آواز میں بتا رہی تھی کہ اچانک کاظم نے شانی کو کندھے سے پکڑا
"شانی ! پارٹنر۔۔۔۔۔ یہ سب کہاں دیکھا تھا؟ پاپا کو بتاؤ۔۔۔ہمارا Secret ہوگا۔۔ماما کو نہیں بتائیں گے۔۔" کاظم نے بچے کو پھسلایا

"پاپا۔۔۔۔ جیسے آپ ماما کے فرینڈ ہیں۔۔۔
میں اور کاجل بھی Friends ہیں ۔۔۔۔ ۔۔۔۔اور کاجل تو اتنی اچھی ہے۔۔۔ آپ اور گلو چاچو سےبھی فرینڈشِپ ہے مگربیسٹ والی پکی فرینڈشِپ توشانی سے ہے  ۔۔۔ مجھے پتا ہے نا بس ۔۔۔۔ فرینڈز میں "ایسا" کرنا Rule ہے نا ۔۔۔ میں تو چھوٹو سے فرینڈشِپ کررہا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔" شانی آج اپنے والدین کو دوستی کے "اصول" سکھا رہا تھا اور وہ دونوں ایک دوسرے سے نظریں چرائے سامنے دیوار کو گھور رہے تھے ۔۔۔۔۔۔۔

7 تبصرے:

  1. ہم لاکھ اپنی کالک کو کاجل کا نام دے دیں پر کہیں نہ کہیں وہ ہماری آنکھوں میں چبھے گی ضرور

    باقی لکھاری کا اپنا تخیل ہوتا ہے جہاں تک میرے جیسا قاری نہیں پہنچ پاتا
    اللہ نظر بد سے محفوظ رکھے
    آمین

    جواب دیںحذف کریں
  2. معاشرتی بِگاڑ میں جنسی موضوعات پر ہاتھ ڈالنا اور وہ بھی ایک خاتُون کے لئے دو دھاری تلوار پر چلنے جیسا ہے اور آپ نے بہت خوبی سے توازن نبھایا۔۔۔جیتی رہیئے۔۔

    جواب دیںحذف کریں
  3. تلخ حقیقت اور مکروہ چہرہ۔۔ ایک سچی تحریر

    جواب دیںحذف کریں