اس کی بند ہوتی آنکھوں کےسامنے زندگی کی فلم یوں چل رہی تھی جیسے کسی نے "ریوائنڈ" کرکے "فاسٹ فارورڈ" کا بٹن دبا دیا ہو۔۔
چولہےکےگرد بھاگتا ٥ سالہ بِلو اماں سے ادھ جلی لکڑی سے "پاسے" سینکوا رہا تھا۔جب ابا ٹوٹی پھوٹی سائیکل لیےگھرمیں داخل ہوئے۔ بِلو نےجان خلاصی ہونےپر ابا کا ٹفن بھاگ کر تھاما اور ایک ہاتھ سے آنسو پونچھنےلگا۔ابا نے سینےسے لگایا اور ہمیشہ کی نصیحت کرنے لگے "نہ پتر! مرد روتا نہیں سَجتا۔۔۔پھر ستایا اپنی ماں کو؟" بِلو کا وہی شکوہ "اماں پراٹھانہیں بنا کردیتی ابا۔۔۔" اس لمحے بِلو کی اماں کا واویلا شروع ہوچکا تھا۔۔اور چند ہی لمحوں میں دوپٹہ سرپر باندھ کربین کا وہی سلسلہ جاری تھا جس سے بِلو کو گھبراہٹ ہوتی تھی۔
اماں کوپڑوس کی دیوار سے لگےگھنٹوں بیت جاتے،زمانےبھرکےقصے،بِلو کےابا کی غربت،بے اعتنائی اورگونگےکاگُڑ کھائے رہنےکا رونا روتے اپنےساس سسر کو کوسنے دینےسےباز نہ آتیں۔ جو بِلو کی ماں کو "جہنم" میں جھونک کرخود کسی بس حادثےمیں گزرگئےتھے۔۔۔۔گزشتہ دنوں ماں نے چارپائی ہی پکڑ لی تھیآج بھی بہت دن بعد اماں اپنی روٹین پر واپس آئی تھیں، اور اب پڑوسن کیساتھ رازونیاز کاسلسلہ جاری تھا۔ایک بار پھر کسی خالہ نسرین کی "مدد" سے جانےکونسا "قصہ" ختم کرنےکاذکر ہورہاتھا۔۔۔۔شام کو پھر وہی معاملہ،اماں چیخ چلا کر کم آمدن کا رونا رو رہی تھیں اور ابا تسلیاں دے رہےتھے۔بِلو کو محسوس ہواکہ ان کی آنکھیں شاید بھیگی سی تھیں مگر پھر یاد آیا کہ ابا تو کہتے ہیں "مرد روتےنہیں۔"
چولہےکےگرد بھاگتا ٥ سالہ بِلو اماں سے ادھ جلی لکڑی سے "پاسے" سینکوا رہا تھا۔جب ابا ٹوٹی پھوٹی سائیکل لیےگھرمیں داخل ہوئے۔ بِلو نےجان خلاصی ہونےپر ابا کا ٹفن بھاگ کر تھاما اور ایک ہاتھ سے آنسو پونچھنےلگا۔ابا نے سینےسے لگایا اور ہمیشہ کی نصیحت کرنے لگے "نہ پتر! مرد روتا نہیں سَجتا۔۔۔پھر ستایا اپنی ماں کو؟" بِلو کا وہی شکوہ "اماں پراٹھانہیں بنا کردیتی ابا۔۔۔" اس لمحے بِلو کی اماں کا واویلا شروع ہوچکا تھا۔۔اور چند ہی لمحوں میں دوپٹہ سرپر باندھ کربین کا وہی سلسلہ جاری تھا جس سے بِلو کو گھبراہٹ ہوتی تھی۔
اماں کوپڑوس کی دیوار سے لگےگھنٹوں بیت جاتے،زمانےبھرکےقصے،بِلو کےابا کی غربت،بے اعتنائی اورگونگےکاگُڑ کھائے رہنےکا رونا روتے اپنےساس سسر کو کوسنے دینےسےباز نہ آتیں۔ جو بِلو کی ماں کو "جہنم" میں جھونک کرخود کسی بس حادثےمیں گزرگئےتھے۔۔۔۔گزشتہ دنوں ماں نے چارپائی ہی پکڑ لی تھیآج بھی بہت دن بعد اماں اپنی روٹین پر واپس آئی تھیں، اور اب پڑوسن کیساتھ رازونیاز کاسلسلہ جاری تھا۔ایک بار پھر کسی خالہ نسرین کی "مدد" سے جانےکونسا "قصہ" ختم کرنےکاذکر ہورہاتھا۔۔۔۔شام کو پھر وہی معاملہ،اماں چیخ چلا کر کم آمدن کا رونا رو رہی تھیں اور ابا تسلیاں دے رہےتھے۔بِلو کو محسوس ہواکہ ان کی آنکھیں شاید بھیگی سی تھیں مگر پھر یاد آیا کہ ابا تو کہتے ہیں "مرد روتےنہیں۔"
آج گلی کےبچوں نےاسےخوب پیٹا تھا۔کرکٹ کھیلتےایک زوردار شاٹ سے گیند شیخ صاحب کے لان میں جاگری تھی،جہاں سے وصولی ناممکن سمجھی جاتی تھی۔شکرہواکہ بڑا بھائی کام سے واپسی پر اُس گلی سے آرہا تھا،بِلو اسی کےسینےمیں چھپ کربلکتارہا۔دل ہلکا ہوا تو بھائی نے کہا "کتنی بار سمجھایا ہے بِلو۔۔۔۔مرد ہوکر روتا ہے یار؟ کیا کہیں گے لوگ؟ چل ہنس دے، کل لا دوں گا تجھےگیند۔"
میٹرک کےامتحان ہونے والےتھےاور بِلو کو ایک ہی دھن سوار تھی کہ پرچے اچھےہوجائیں تاکہ وظیفہ اور کالج پڑھائی کا انتظام ہوسکے۔گھر میں ایک وہی تو تھا جو "ویہلیاں" توڑ رہا تھا۔ورنہ تو ابا سارا دن ریلوے ٹریک پر کانٹے بدلتےاور بڑا بھائی درزی کا کام سیکھ کراب کاریگر کماؤ پوت بن چکا تھا۔۔بِلو سے دوسال بڑی بہن میٹرک کےبعد گھرپرہی اماں سے ہدایات لےکرمحلےبھرکےکپڑےسلائی کرتی تھی۔۔مناسب گزر بسر چل رہی تھی،ریلوے کی جانب سےکوارٹر بھی ملاہواتھا۔ہاں مگر اماں کا رونا ختم ہونے کا نام نہیں لیتا تھا۔بشریٰ کے جہیز اور ابا کی ریٹائرمنٹ پررہائش ان کے پسندیدہ موضوعات تھے،جونہی ابا گھرمیں داخل ہوتےیوں محسوس ہونےلگا تھا کہ ایک عذاب بھی اٹھا لاتے جو اماں کی بدزبانی اور طعنوں کی صورت میں آدھا محلہ سنتا تھا۔۔
بِلو نے میٹرک امتحانات میں بورڈ بھر میں ٹاپ کیا تھا۔اور جب اسےاطلاع ملی تو آنسوؤں کا ایک سیلاب اُمڈ آیاتھا جسے بڑی مشکل سے اندر ہی گراتا رہا،مگرابا اسے گلےلگاتے رو پڑے تھے۔اس نےپہلی بار انہیں روتے دیکھاتھا۔ گھبرا کر ان کے گال پونچھے اور انہی کی نصیحت دہرانے لگا "ابا مرد ہوکر رو رہے ہیں؟" ابا کھلکھلا کر ہنس دیتٓے اور جیب سے پیسے نکال کر بولے "جا میرا سیانا لائق پتر ! مٹھائی لے آ سب کے لیے۔"
بِلو نے پرائیویٹ ٹیوشنز پڑھا کر،عید تہوار پرمختلف سٹالز لگا کر اپنی تعلیم کا بوجھ ابا اور بھائی پرپڑنے نہ دیا،اور ایک روز اماں کو پورے اٹھائیس ہزار بشریٰ کےجہیزکیلیے پکڑائے توان کی پھٹی آنکھوں میں سوال دیکھ کر بولا "رکھ لے اماں۔۔۔۔دوٹیوشن فیس کی کمیٹی ڈالی ہوئی تھی ۔تجھے بتایانہیں تھا۔۔اب بس ابا سے مت جھگڑنا۔" مگر وہاں تو سوالات کا نیا سلسلہ شروع ہوچکا تھا،کتنے کماتا ہے؟ آج تک کبھی ماں کو حساب نہ دیا،میسنے کے گُن کھل رہے ہیں۔۔۔۔باپ کی ہی اولاد ہیں ،ماں کس کھاتے۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وقت سرکتا رہا۔وہ اب بِلو سےابا کا انجینئر پتر فلک شیر بن چکا تھا۔ابا کی ریٹائرمنٹ کےبعد پہلےکرائے پر فلیٹ اور اب اچھےعلاقےمیں ٥مرلے کا ذاتی گھرتھا۔بڑےبھائی کو پھوپھا نےسعودیہ بلوا لیا تھا۔بشریٰ بھی وہیں تھی اور پھپھو کی بہو بن کر عیش کررہی تھی۔اماں کی بہرحال ناشکریاں ختم نہیں ہوسکی تھیں۔پہلے پڑوس کی دیوار تھی اور اب بہن کیساتھ موبائل فون پر زمانے بھر کی برائیاں۔
خالہ کی ١٢ پاس بیٹی فلک شیر کی بیوی بن کر کیا آئی،گھر کے رنگ ڈھنگ ہی بدل گئے تھے۔بِلو کو محسوس ہوتا کہ وہ اب اپنے ابا کا کردار نبھانے لگا تھا۔کتنا انکار کیا تھا اُس نےاِس رشتےسے،مگر اماں نے بھوک ہڑتال اور ہر طرح کی بلیک میلنگ سے باپ بیٹے کو راضی کرلیا تھا۔اماں کا ماننا تھا کہ باہر سے آئی بھی تو عیش کرےگی ،اپنی بھانجی لائیں گی تو کم از کم عزت تو کرے گی۔وہ الگ بات کہ شادی سے ڈیڑھ ماہ بعد وہی بھانجی تھی اور وہی اماں کے کوسنے۔
فلک شیرکی بیوی شائستہ (محض نام کی) ہوبہو اپنی خالہ یعنی بِلو کی ماں کا عکس تھی۔۔۔۔شاید یہی وجہ تھی کہ زندگی کچھ ردو بدل لیے پھر وہی کہانی اورپرانے رویوں کاچلن اٹھائے نئےاداکاروں کےساتھ اپنا کھیل دُہرا رہی تھی۔
آج بھی بات تو کچھ ایسی خاص نہ تھی،بس وہی ساس بہو کا معمول کا جھگڑا تھا۔ادھر فلک شیرکو کسی حاسد نے انکوائری میں پھنسا دیا تھا۔دفتر سے پریشانی کی حالت میں نکلا،مگر گھر پر توایک طوفانِ بدتمیزی برپا تھا۔ماں اسے "زن مریدی" کے طعنےدےرہی تھی اور شائستہ بیٹے کےساتھ میکے جانے کیلیے سامان باندھےکھڑی تھی اور چلاتی جارہی تھی کہ "بڈھے بڑھیا کو ہی سینے سے لگا کر رکھو،اب الگ گھر لو گے تو بیٹے کی شکل دیکھنے آ جانا۔" اماں کے طنز کے نشتر بھی جاری تھے۔۔۔اور لاکھ روکنے پر بھی وہ فلک شیر کےسینےسےلگا اکلوتا بیٹا چھین کر لےجا چکی تھی۔۔۔ویران کمرے کی دیواریں گھورتےاسے جبڑے میں کھنچاؤ محسوس ہورہا تھا کہ ابا کمرے میں داخل ہوئے تو دل چاہا کہ وہی ٥ سالہ بِلو بن جائےاور ان کے سینے سے لگ کر پھوٹ پھوٹ کر رو دے مگر اس کے کانوں میں ابا کی آواز گونجی "حوصلہ کر پتر! مرد ہمت والا ہوتا ہے۔معاملہ دو چار دن میں ٹھنڈا ہوجائے گا تو جاکر لے آنا۔"
رات جانے کس پہر بِلو گھٹی گھٹی آواز میں "اماں ،ابا" پکارتا ان کے کمرے کے سامنے گر گیا۔۔۔۔۔آنکھیں بند ہوتے دو آنسو لڑھک گئے تھےاور زندگی کی فلم جھکڑ کی مانند چل رہی تھی۔۔۔۔۔۔۔۔
اردو میں بہت ہی کم برتا گیا موضوع ہے، اور جب بھی اس پہ لکھا گیا مصنفین نے داد ہی وصول کی۔۔ آپ نے
جواب دیںحذف کریںکافی اچھا نبھایا۔
لکھتی رہئیے اللہ قلم میں برکت ڈالے۔۔۔
جزاک اللہ الخیر !
حذف کریںمزید لکھنا چاہتی ہوں اس موضوع پر۔۔۔ کوشش کروں گی۔۔دعاؤں کےلیے شکریہ۔
Fabulous
جواب دیںحذف کریںMasterpiece of such delicate issue.
Our society is full of such characters and stories..
Thank You so much........
حذف کریںبهت خوب
جواب دیںحذف کریںشکریہ محترم
حذف کریںThora rewaiti but good
جواب دیںحذف کریں:-)) شکریہ
حذف کریںعمدہ کاوش۔۔۔
جواب دیںحذف کریںجزاک اللہ الخیر۔۔۔۔۔۔
حذف کریںA good write up on a common social issue of society. Keep it up. Best wishes for you
جواب دیںحذف کریںجزاک اللہ الخیر جنب۔۔۔۔۔
حذف کریںThe difference you make is nothing short of legendary.it is simply outclass.
جواب دیںحذف کریںاوہ۔۔۔۔۔ پذیرائی کا بہت شکریہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حذف کریںبہت خوب لکها آپ نے .
جواب دیںحذف کریںبہت خوب لکها آپ نے .
جواب دیںحذف کریںبہت خوب لکها آپ نے .
جواب دیںحذف کریںشکریہ محترم
حذف کریںہمیشہ کی طرح زبردست
جواب دیںحذف کریںمتشکرم۔۔۔۔۔۔
حذف کریںآپ نے ایک مرتبہ پھر بہت مؤثر موضوع چُنا مگر بیان میں کچھ تشنگی رہ گئی ہے۔۔۔اور اس کی واحد وجہ شاید یہ ہے کہ آپ کی تحریر کا میعار بہت بُلند ہوتا ہے۔۔۔جیسا کہ آپ نے خُود کہا آپ اس مُوضوع پر مذید طبع آزمائی کریں گی۔۔۔۔تو کم از کم مُجھے تو انتظار رہے گا ۔۔۔ آپ کی اگلی تحریر کا۔۔۔۔۔۔
جواب دیںحذف کریںجزاک اللہ الخیر محترم۔۔۔۔ بہتری کی کوشش جاری ہے۔
حذف کریںیہ تبصرہ مصنف کی طرف سے ہٹا دیا گیا ہے۔
جواب دیںحذف کریںاچھی کاوش ہے - ایک کمنٹ ذہن میں ہے جس کا براہ راست تعلق آپ کی تحریر سے تو نہیں لیکن اکثر اردو افسانچے پڑھنے کے بعد احساس ہوتا ہے کہ کہیں ایک آنچ کی کمی رہ گئی - جیسا کہ عرض کیا ، اس کا تعلق شاید آپ کی تحریر سے زیادہ اردو زبان اور اس میں لکھی گئی فکشن کی تاریخ سے ہے - خیر، میں کہاں کا نقاد یا ادب کا تاریخ داں
جواب دیںحذف کریں- بہرحال ، اچھا لگا پڑھ کر
لکھتی رہیے
اب کیا کیجیے کہ اردو کی دھیمی آنچ میں ہی لکھتی ہوں :-))
حذف کریںجزاک اللہ الخیر۔۔ نقاد کی تو خبر نہیں مگر اساتذہ میں تو ہیں آپ۔۔۔۔۔
رہنمائی کرتے رہیے۔
ہمیشہ کی طرح شاندار - قمرد کی مجبوریوں کے بارے میں زیادہ لکھا نہیں جاتا ، شاید اس لیے کہ مرد خود بھی اپنے آپ کو مضبوط ہی دیکھنا چاہتا ہے اور اپنی کمزوریوں سے صرف نظر کرنا چاہتا ہے - حالانکہ اخیر میں مرد بھی تو انسان ہی ہے ، جذبات احساسات کا مجموعہ - یہ تجربہ اپنی خالہ کی وفات پر ہوا ، یونیورسٹی سٹوڈنٹ تھا - خالہ کی میت کے سامنے دل بھر آیا تو کسی خاتون کا کہا فقرہ آج تک نہیں بھولتا - مرد ہو کر روتے ہو بیٹا ، اپنی ماں کو حوصلہ دو - مرد سے تو اس معاشرے نے اپنے پیاروں کی مرگ پر دو آنسو بہانے کا حق بھی چھین لیا ہے
جواب دیںحذف کریںمعاشرہ بھی تو ہم آپ ہی مل کر بناتے ہیں۔۔۔ نادیدہ زنجیروں میں جکڑ کر پہاڑ کو بھی بھربھرا کرڈالتےہیں۔۔۔۔۔۔
حذف کریںپذیرائی کا شکریہ۔۔۔جیتے رہیے۔
بہت اچھی کوشش تھی، اچھا لگا پڑھ کر کاوشش جاری رکھئے گا لکھنے کی۔ وہسے مرد کی آنکوں میں معاشرے نو کونسی ایلفی ڈالی ہوتی ہے جو وہ رو نہیں سکتا؟
جواب دیںحذف کریںمصنف بھائی شکریہ۔۔۔ پہلی بار آپ کا کمنٹ بھی بلاگ کی زینت بنا :-)
حذف کریںایلفی سے آنکھیں بند ہوجاتی ہیں ویسے،رونے کا کچھ تعلق نہیں :-)