جمعرات، 21 جولائی، 2016

شہہ سرخیاں اور مقتول مرد

اپریل 2016ء میں پاکستان انسانی حقوق کمیشن کی جانب سے چھپنے والی ایک رپورٹ کے مطابق گزشتہ برس پاکستان بھر میں غیرت کے نام پر 1100 خواتین اور 88 مردوں کا قتل ہوا۔جنسی تشدد کے درج شدہ واقعات کی کُل تعداد 3768 میں سے متاثرین بچیوں کی تعداد 1974 جبکہ 1794 لڑکے شامل ہیں۔ اس سے بھی خطرناک رجحان یہ دیکھا گیا ہے کہ متاثرین کی عمریں گیارہ سے پندرہ سال کے درمیان ہی ہیں۔یہاں یہ بات مزید پریشانی کا باعث ہے کہ روزانہ کی بنیاد پر دس بچے (صنف سے قطع نظر)  جنسی تشدد کا نشانہ بنتے ہیں۔ جبکہ یہ تمام اعداد و شمار صرف رپورٹ ہونے والے معاملات کی بنیاد پر مرتب کیے گئے ہیں۔ہم اور آپ اچھی طرح جانتے ہیں کہ نام نہاد غیرت ، خاندانی وقار  اور معاشرتی مجبوریوں کے نام پر کتنے لوگ خاموش رہ کر ظالم کو مزید شکار تلاش کرنے کی کھلی چھوٹ دیتے جرم میں حصہ دار بن جاتے ہیں۔

آج تیسرا دِن ہے یا چوتھا ۔۔۔نہیں شاید دوسرا کہ ڈیرہ غازی خان میں غیرت کے نام پر وحشی درندوں کا روپ چند سیکنڈز کے لیے الیکٹرانک اور کچھ منٹوں کے لیے سوشل میڈیا کی زینت بنا لیکن چونکہ یہ قتل ایک مرد کا تھا لہذا اس میں سے مال مصالحہ نکالنا اور انسانی حقوق کی علمبرداری کے ڈونگرے بجانا مشکل تھا تو سب بھول بھی آسانی سے گئے۔بالکل ویسے ہی جیسے ہم یہ بھول جاتے ہیں کہ ہر کارو کاری ، پنچایت و جرگہ گردی میں دوسرا مرنے والا انسان مرد ہوا کرتا ہے۔ ڈیرہ غازی خان کے گاں پیگا میں اللہ دتہ نامی ایک شخص کے بازو، ناک اور ہونٹ کاٹ دیے گئے اور پانچوں "غیرت مند" افراد کا ٹولہ جاتے ہوئے کئی اعضاءاپنے ساتھ لے گیا۔ متاثرہ شخص ہسپتال میں زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے دم توڑ گیا۔ ابتدائی رپورٹ کے مطابق کچھ عرصہ قبل گاؤں کی ایک شادی شدہ خاتون مقتول کے ساتھ گھر سے بھاگ گئی تھی۔لیکن خاندان کے بزرگوں کی مداخلت اور دباؤ پر اسے شوہر کے پاس واپس بھیج دیا گیا۔اللہ دتہ اسی خاتون سے ملاقات کرنے آیا اور اس  کے رشتہ داروں کے ہاتھ جان گنوا بیٹھا۔
اس قتل کے محرکات سمجھنے کے لیے یہ جاننا بھی ضروری ہے کہ آیا خاتون کی شادی اس کی مرضی سے ہوئی تھی یا زبردستی کا طوق گلے میں ڈال دیا گیا۔جب تک معاشرے میں شادی کو دو لوگوں کے ایک کِلے سے باندھنے کا مفہوم درست نہیں کیا جائے گا معاملات کسی نہ کسی صورت شدت سمیٹے سامنے آتے رہیں گے۔
ہم میں سے کسی کو شاید یاد بھی نا ہو کہ چند ماہ قبل پسند کی شادی کرنے کے جرم میں بہت مہینوں بعد موقع ملنے پر بوریوالا میں بہنوئی کا گلا کاٹ کر امیر زمینداروں نے معاشرے کو اپنی غیرتمندی کا ثبوت دیا تھا۔ یاداشت کے نہاں خانوں میں  ایسے واقعات کھنگالے جانے کا فائدہ بھی نہیں کیونکہ بقول ہمارے بھائی ان مردوں کے لیے نہ تو کوئی فیشن میں اور نا ہی مروت میں آواز اٹھانے والا ہے۔میڈیا کو مطلوبہ برینڈ کا چسکورا نشہ نہ ملے تو کسی لکھاری کو کیا ضرورت ہے اپنے قیمتی الفاظ گھسیٹنے اور ضائع کرنے کی؟ یہ محنت و توانائیاں ہم کسی کاری ، مقتولہ یا متاثرہ بندی کے لیے کیوں نہ بچا رکھیں۔اور مردوں کا کیا ہے وہ تو مسلک و عقائد کے نام پر خواتین سے زیادہ تعداد میں جان گنواتے ہیں۔الگ بات کہ وہاں بھی ٹی۔آر،پی کا رچایا کھیل اپنا رنگ جما کر ہر کسی کو "اوقات" میں رکھنے کا عادی ہے۔ویسے بھی غیرت کے نام پر مرد کا قتل یا کہیں کسی مرد کی عصمت لُٹ جانا ۔۔۔ کیسی فضول اور بےتُکی شہہ سرخی بنے۔ مانو جیسے مرد کی عصمت ہوتی کہاں ہے جو لوٹ لی جائے۔ ہے نا؟
آخر کیوں انسانیت کی دُہائی اور زندگی کا واویلا کروانے کو مقتول کا صنفِ نازک ہونا یا کسی خاص سیاسی و مسلکی وابستگی میں ہونا ہی ضروری ہے ؟ یہاں پہلی صورت میں شاید وہی معاشرتی ذہنی زنجیر ہے کہ جِس کے مطابق مرد کبھی روتا نہیں ہے۔اور جو رو پڑے تو طعنہ کہ کیا عورتوں کی طرح ٹسوے بہاتے ہو۔ مرد نہ ہوا کوئی ہوائی مخلوق ہوگئی کہ جِس کی حسیات انسانوں سے مختلف ہوں گی۔جبکہ دوسری صورتحال میں دیکھا یہ گیا ہے کہ مقتول بہت سوں کی پوائنٹ اسکورنگ اور مظلومیت کے پرچار کے لیے استعمال میں آجانے والی شے بن جاتا ہے۔کچھ عرصہ بعد قصہ پارینہ۔
انسان مانیے بلا تخصیص صنف ۔خواجہ سراؤں اور خواتین کے علاوہ مان لیجیے کہ حضرات بھی اسی معاشرے میں ظلم سہتے زندگی پر بیتتے چلے جارہے ہیں۔ایک آواز ،ایک پکار ان کے لیے  کوئی تو اٹھانے والا ہو۔مردوں کو صرف ظالم کے پلڑے اور روپ میں دیکھنے دِکھانے کی بجائے مناسب ہوگا کہ صنفی تقسیم کی اس بحث کو مناسب انداز میں سلجھایا جائے نا کہ نا آسودگیوں میں گھس کر ذاتی تجربات کو آفاقی سچ بنا  کر پرچار کرتے معاشرے کو بیمار کرتے چلے جائیں۔اور قبل اس کے کہ خواتین کی طرح مردوں کے سوشل میڈیا اکاؤنٹس پر اسٹیٹس آنے لگیں کہ ، "کاش میں بھی عورت ہوتی " ۔۔۔ کم از کم ایک سرخی اور ٹرینڈ تو بنتا ہے۔

منگل، 19 جولائی، 2016

اک قتل اور سہی


بہت وقت سے ہمارے ہاں "اِک قتل اور سہی" نامی فلم کھڑکی توڑ رش لے رہی ہے۔کبھی غیرت نامی پاپ کارن  تو کبھی ذاتی رنجش نامی مرونڈا اور کچھ نہ ہو تو "کافر کافر فلاں کافر" سی بارہ مصالحہ چاٹ۔۔۔فُل ٹائم مستی اور خوب ٹی۔آر۔پی دھمال ۔ اب کی بار اس میں جو کردار سامنے آیا ہے وہ قندیل بلوچ تھیں۔
مجھے اس مضمون میں اگر ،مگر،لیکن، چونکہ چناچہ نہیں کرنی ۔ایک عزیز نے پرسوں ہی گلہ کیا کہ میں ردِعمل میں لکھنے لگی ہوں، کچھ تازہ اور منفرد نہیں۔خود سے عہد کیا کہ اب شکایت نہ ہوگی۔قندیل کے معاملے پر تین روز سے ایسا تماشہ دیکھ رہی ہوں کہ خاموش رہنا محال ہو چلا ہے ۔وجہ اس وقت پینتیس سیکنڈز کی ایک وڈیو ہے ۔اس میں دو نیوز چینلز کے کیمرہ مین اور کچھ فوٹوگرافرز نے مقتولہ کی دانتوں تلے دبی جامنی رنگ کی زبان ، سُرخ چہرے اور پھولی ہوئی لاش پر بےتابی کا اظہار یوں کیا  "ارے یار ہاتھ پیچھے کرو۔۔کلوز اپ لو۔۔۔ابے کیا کررہا ہے،ہاتھ پیچھے کر چہرے سے۔۔۔یار ہاتھ تو سائیڈ پر کرلو۔۔۔کیا طریقہ ہےیار یہ۔۔۔نکلو یہاں سے۔" جبکہ ایک آواز مقامی لہجے میں آئی  "گھٹیا زنانی۔۔۔۔"
یہ لفظ دماغ پر ہتھوڑے برسا رہا ہے۔سوال اٹھا رہا ہے کہ آخر  کسی مرد کو کیسے خبر ہوئی کہ فوزیہ عظیم اب قندیل بن چکی تھی ؟ اس کے کاغذات میں قندیل کے گھٹیا پن کا پیمانہ کیسے لبریز ہوگیا ۔ایسے متقی و پرہیزگار لوگ اگر حقارت کا اظہار کررہے ہیں تو میں سوال اٹھانے سے قاصر ہوں ،دِل نہیں مانتا کہ انہوں نے قندیل کی کوئی فوٹو،وڈیو یا حال ہی میں جاری ایک گانا دیکھا ہوگا۔ممکن ہی نہیں جناب۔یہ باطل خیال مجھے آنا بھی نہیں چاہیے تھا۔
انسٹاگرام پر ابھی قندیل کا اکاؤنٹ کھولنے کی کوشش کی ہے  کہ دیکھوں کتنے فالؤرز تھے اور اس کی آخری تصویر اور گانے کو کتنے ہزار لائکس مِلے۔لیکن افسوس کہ وہ اکاؤنٹ مکمل خالی ہے۔نہ کوئی تصویر،نا ہی وڈیو،فالؤرز اور دیگر لوازمات تک صفر ہیں۔اور عجیب بات ہے کہ کسی نے ابھی تک یہ بات کیوں غور نہیں کی کہ مقتولہ کے سیل فون سے اس کا انسٹاگرام اکاؤنٹ تلف یا خالی کرنے کا ثواب کِس نے کما لیا ہے۔جبکہ اس کے فیک اکاؤنٹ پر لاکھوں لوگوں کا ہجوم ہے جو پیج ایڈمن کو اللہ کا خوف دِلوا کر مرحومہ کے عذاب میں کمی ہونے کی واحد راہ سب کچھ تلف کردینے میں بتلا رہے ہیں۔مجھے یقین ہے کہ ان میں سے کسی نے وہ تصاویر اور وڈیو کلپس اپنے ہاں کوئی خفیہ فولڈر میں پاس ورڈ لگا کر محفوظ نہیں کی ہوں گی۔
ہم نے کبھی سوچا ہے کہ 2013ء میں ماڈلنگ کی دنیا میں آنے والی لڑکی نے فوزیہ عظیم سے قندیل بلوچ تک کا سفر کیسے طے کیا ہوگا ؟ ڈھائی سال میں وہ ہر ٹی۔وی چینل کے حواس پر کیوں سوار ہو چکی تھی؟ کوئی اسے فاحشہ کہہ کر اپنی پرہیزگاری کا اُجلا دامن دِکھا رہا ہے تو کوئی طوائف پکارتے خود کا باطن چھپانے کی کوشش میں مصروف ہے۔ سمجھ مجھے دونوں صورتوں میں نہیں آتی کہ جِس عورت کو "دھندہ کرنے والی" کہا جاتا ہے آخر اُس کے گاہک کون ہوتے ہوں گے۔ یہی مرد یا کوئی ہوائی مخلوق؟ مقتولہ کےطرزِ حیات سےاپنی پاکبازی و متقی پن کے پہلو نکالنے والے یہ سب کیسے جانتے ہیں کہ فلاں لباس، فلاں رنگ، یہ وڈیو اوروہ گانا۔۔۔ وغیرہ؟ کیا انہیں الہام ہوگیا ؟
گِدھ بنے قندیل  کی زندگی کا ہر پہلو بھنبھوڑ ڈالنے والا لیکٹرانک میڈیا اور سوشل میڈیا پر اس کے حوالے سے ذومعنی غلاظتیں بکتے لوگ آج بہت غم میں ہیں کہ قندیل مرگئی۔لیکن ظاہر ہے اب کوئی نئی قندیل ابھر کر سوشل میڈیا پر آئے گی تو ہی ان کی شہوت کی تسکین ہو پائے گی نا۔چلو مردوں کی تو سمجھ آتی ہے لیکن یہ خواتین کو کیا ہوا ہے؟ وہ کیوں  فیس بُک اور وٹس ایپ گروپس میں قندیل کے مرنے کا جشن منا رہی ہیں؟ کیا قندیل ان کی ازدواجی زندگیوں پر ایسی ہی حاوی تھی یا پھر ان عورتوں کو بھی اپنے ماضی و حال کے پہلو چھپانے کے لیے کسی "فاحشہ" کو زیرِ بحث لانے میں ہی عافیت دکھائی دیتی ہے ؟
مقتول کے ماضی  پر سیر حاصل تجزیے دراصل قاتل اور "بےغیرتی"
 کے نام پر قتل جیسی درندگی کو شیلڈ فراہم کرنے کے مترادف ہے ۔ کچھ صاحبانِ ملت یہاں تک فرما گئے کہ "وہ اپنے قتل کی خود ذمہ دار ہے۔اس نے اپنے گھرانے کے پاس کوئی اور راستہ نہیں چھوڑا تھا۔" یہ تو کمال کی منطق ہوئی۔ آئیندہ ہر مقتولہ ، تیزاب گردی کا شکار اور جھلسا کر مار دی جانے والی کے لیے یہی جملے استعمال ہونے چاہییں۔
اصل لعنتی کردار تو وہ ہیں جو غیرت کا پہلو تلاشتے بالکل ہلکان ہو رہے ہیں۔نشہ آور گولیاں کھلا کر تکیہ رکھ کر سوئی ہوئی ماں جائی کی زندگی چھین لی ۔قتل کے متضاد محرکات لکھ کر ایف۔آئی۔آر کو متنازعہ بنادیا گیا ہے۔جسے کہتے ہیں ماٹھا کم پا دِتا۔ ایک جانب غیرت کا ذکر ہے تو دوسری طرف پیسوں کے لین دین کا جھگڑا لکھا گیا ہے۔سونے پر سہاگہ اِس پنجاب پولیس کی کرشمہ سازی ہے کہ  مفرور"غیرت کے پتلے" کو سیلیبریٹی بنوانے کی بھرپور کوشش کی۔دنیا میں کہاں ہوتا ہے کہ ایک مفرور قاتل کو گرفتار کرکے یوں پریس کانفرنس کروائی جائے۔قاتل بھی وہ شخص جو دھڑلے سے سینہ پھلائے کہتا ہے کہ اس کو بالکل کوئی شرمندگی یا افسوس نہیں۔پھر دعویٰ ہے کہ بہن کی وڈیو دیکھ کر غیرت آگئی اور مفتی صاحب کے ساتھ اسکینڈل پر خون جوش مار گیا۔(ظاہر ہے جی ۔مسلمان بچہ ہے۔مفتی صاحب کا باطن اس بری طرح سے عیاں کرنے والی بہن کو جینے کا حق ہی نہیں)۔اگلے ہی سانس میں اس بےغیرت ماں جائے کو خیال آگیا کہ بہن دراصل بلوچ قوم کو بدنام کررہی تھی لہذا غصہ آیا۔آپ صرف اس معاملے میں بدلتے بیانات مت دیکھیے۔عیاری کی انتہا جانچیے۔۔۔ بےحیائی ،غیرت ، مفتی ، بلوچ ۔۔۔تمام عناصر ملا کر بن گیا غیرتمند بھائی۔وہ بھائی جِس کو اسی بہن نے اپنی کمائی سے موبائل مرمت کی ایک دکان سے "باعزت " روزگار  کا بندوبست کر کے دے رکھا تھا۔وہ بھائی جو اپنے والدین کا خرچ نہیں اٹھا سکتا تھا اور اُسی "گھٹیا زنانی" نے کرائے پر مکان لے کر دیا تھا۔بہن کا جہیز تک اسی بندی کے ذمے سے نکالا گیا تھا۔یہ بھائی پانی کو مم مم اور روٹی کو چوچی کہتا تھا جب ایک کم تعلیم یافتہ بہن پسماندہ علاقے سے بڑے شہر میں کمانے نکل کھڑی ہوئی؟ یہ تو اتنا معصوم تھا اسے اتنے سال خبر ہی نہ ہوئی کہ سب خرچے کہاں سے پورے ہو رہے ہیں ؟
تفتیش تو ہونی چاہیے۔خاص کر مفتی صاحب کی اس نخوت بھری تنبیہہ کے بعد کہ "جو بھی آئیندہ مفتیان کو بدنام کرنے کی "کوشش" کرے وہ قندیل بلوچ کا انجام یاد رکھے۔" دو روز سے وہ شخص ، کہ جس کی ٹوپی اتر کر قندیل کے سر چلی گئی اور جس کی ویسٹ کوٹ بکھرے بالوں کےساتھ دیگر کلپس میں غائب نظر آئی، ہر ٹی۔وی شو میں نک سک تیار ہوکر فراخ دِلی سے کہہ رہا ہے "میں نے معاف کیا۔قندیل نے میرے پیروکاروں کا دِل دکھایا اور مجھے بدنام کرنے کی کوشش کی لیکن ۔۔۔۔۔" جی ہاں لیکن۔۔۔لیکن انہوں نے معاف کردیا۔

؎ مجھ کو انسان سمجھ خود کو فرشتہ نہ بنا

اور جِس لمحے قندیل کے باپ نے یہ کہا " او میرا پُتر سی۔دھی نئیں۔۔"  سمجھ سکتے ہیں ان الفاظ کا مفہوم ؟ چھ بیٹوں کے باپ کا یہ کُرلاتا لہجہ اور اس کا سسکتا مفہوم ایک تھپڑ ہے اس معاشرے کی دو رُخی اور اخلاقیات کے جعلی پیمانوں پر۔

اج آکھاں وارث شاہ نوں
کتھوں قبراں اچوں بول
کتاب عشق دا کوئی
نواں ورقا پھول
اک روئی سی دھی پنجاب دی
تینوں لکھ لکھ مارے بین
ہُن لکھاں دھیاں روندیاں
ہم پاکستانیوں کی سمجھ نہیں آتی۔ ملالہ کو سالگرہ کے روز دعا دینے پر بھی سیخ پا ہوجاتے ہیں اور قندیل کے لیے دعائے مغفرت پر بھی ان کا ایمان خطرے میں آجاتا ہے۔ ایک طبقہ مسلسل یہ تلقین جاری رکھے ہوئے ہے کہ اس کیلیے RIP  لکھنا بھی مناسب نہیں۔ٹھیک ہوگیا ۔ اب شرمین عبید چنائے قندیل پر فلم بنائے تو بھی یہ پاکستان کو بدنام کرنے کی سازش ہوگی۔کیونکہ بین الاقوامی میڈیا نے چاہے قندیل قتل پر ردِعمل دیا ہے لیکن پھر بھی بقول ہماری پاکباز غیرت مند برگیڈ کے ہزاروں قندیلیں روز بجھتی ہیں۔ان پر تو کبھی فلم نہیں بناتی شرمین۔
تو صاحبان و قدردانِ غیرت و حمیت میری دعا صرف یہ ہے کہ "گھٹیا زنانی" کا انسٹا گرام جِس طرح خالی کیا گیا ہے اسی طرح  آپ کے خالی دماغ کسی نئی قندیل کو جلد پا لیں۔تاکہ زندگی میں رونق شونق لگی رہے۔باقی اللہ کو پردہ پسند ہے تو آپ بھی چھپ کر دیکھیے تاکہ ایک نئی فوزیہ اپنے والد کی دھی رانی نہیں پُتر بن کر ڈشکرے بھائیوں کے خاندان کی کفالت کی ذمہ داری پوری کر سکے۔

اتوار، 17 جولائی، 2016

ایلفا گیری

حیوانی طرزِ عمل کا مطالعہ یعنی Ethology   کے مطابق جانوروں کے کسی بھی گروں گروہ کو عموماً تین درجوں درجات میں تقسیم کیا جاتا ہے : ایلفا ، بِیٹا اور  اومیگا۔
ایلفا کسی ریوڑ یا گروہ میں وہ انفرادی مقام رکھتا ہے جو سربراہ کا ہوتا ہے۔جس کو سردراوں کی سی اہمیت دی جاتی ہے   یا  اختلاف بھی پالا جاتا ہے۔ یہ نَر بھی ہوسکتا ہے اور مادہ بھی یا پھر دونوں ہی گروہ کی سربراہی ایک جوڑے کی صورت کرتے ہیں۔ یا پھر دونوں مل کر ایک جوڑے کی صورت گروہ کی سربراہی کرتے ہیں۔ خیر یہ تو نوع پر منحصر ہوا کرتا ہے کہ کِس پَرجاتی سے تعلق ہے مگر یہ امر مسلم ہے کہ خوراک میں حصے سے لے کر ساتھی چُننے تک ایلفا کو ترجیہی رسائی حاصل ہوتی ہے۔ اور یہ مقام انہیں جسمانی طاقت ،لڑنے بھڑنے کی مہارت یا پھر مضبوط گروہی اتحاد کے باعث ملتا ہے۔ جبکہ بعض گروہوں میں تو افزائشِ نسل بھی صرف یہی کرتے ہیں۔ بعض اوقات ایلفا کی جگہ لینے کیلیے بِیٹا ، جو کہ گروہ میں نائب یا حریف ہوتا ہے ،لڑائی کرکے اس کو زیر کر لیتا ہے اور بیٹا سے ترقی پاکر خود الفا بن جاتا ہے  یا پھر ایلفا کی موت کے بعد اسے یہ مقام مل جاتا ہے ۔مگر یہ بات طے ہے کہ الفا  کے ہوتے ہوئے کوئی دوسرا اس کی جگہ نہیں لے سکتا۔ الفا اور بیٹا کے علاوہ تیسری مخلوق  اومیگا ہوتی ہے جو مطیع النفس ، منکسر المزاج یا آسان الفاظ میں گروہ  کی ناپسندیدہ ترین،  نچلے درجے کی مخلوق ، جو کسی بھی سماجی تنظیمی ڈھانچے  کے سب اراکین کی اطاعت گزاری اور غلامانہ انداز سے زندگی بتا لیتی ہے۔
یہ تمہید جو باندھی ہے تو خیال کی وجہ وہ وڈیو کلپ ہے جو رواں برس مئی کے مہینے میں آن ائیر ہوا لیکن دیکھنے کا اتفاق بیشتر افراد کو آج کل ہی میں ہوا۔مذکورہ وڈیو میں ایک مشہورِ زمانہ دانشور صاحب گھر اور انسانی معاشرے کا تنظیمی ڈھانچہ سمجھانے کے لیے کتے اور کتیا کی مثال دیتے پائے گئے۔ان کے بقول کتا باہر گھومتا پھرتا ہے اور کتی یعنی عورت بچے پالتی ہے ورنہ بھیڑیا ان کتوروں کو کھا جائے۔
بھئی سبحان اللہ ایسی سوچ پر اور ماشاءاللہ ایسی دلیل و منطق پر ۔ اول تو ان صاحبِ عقل و دانش کو اپنے گھر کی خواتین ہی کا خیال آجانا چاہیے تھا۔بالفرض اُنہیں بھی اسی کیٹیگری میں رکھ چھوڑا ہے تو یہی دھیان کرلیتے کہ لفظ "اشرف المخلوقات" کا مفہوم کیا ہے۔چلیے یہ بحث بھی چھوڑیے۔جانوروں کی بات کی ہے تو جانوروں ہی کی معاشرت سے چند امثال پیش کیے دیتی ہوں۔
چرغ یا لگڑ بھگا مادر سری کی سب سے بڑی مثال بن کر ابھرتے ہیں۔جو قبائل کی صورت زندگی گزارتے ہیں جس میں اراکین کی تعداد نوے تک چلی جاتی ہے۔یہاں مادہ لگڑ بگڑ ہر صورت غالب ہی تصور کی جاتی ہے چاہے مد مقابل درجہ بندی میں سب سے بہترین نر ہی کیوں نہ ہو۔شجرہ ان میں ماں سے چلتا ہے۔نر تو دو سے چھ برس کی عمر کے دوران قبیلہ چھوڑ جاتے ہیں۔افزائشِ نسل وغیرہ کے لیے آپس میں ایک قبیلہ کتنا ہی جھگڑ کر فیصلہ کرے لیکن اجتماعی دفاع ، خوراک ،بچوں کی حفاظت اور غاروں وغیرہ کے معاملات سب مِل کر دیکھتے ہیں۔یہی حالات بھیڑیوں کے خاندان میں ہوتے ہیں۔
اگلی مثال بن مانس ، گوریلا ، بندر اور لیمرس کی لگا لیں۔ یہاں لڑائی جھگڑے اور گروہی سیاست میں کامیاب چاہے ایلفا یعنی سردار کا روپ دھارن کرلے لیکن مادہ اپنی نسل بڑھانے کے لیے انتخاب خود کرتی ہے۔اور ایک طویل دلچسپ تحقیق ہے ان کی معاشرت بارے جو کہ شاید ہمارے خود ساختہ مذہبی اسکالر کو پڑھنے کی فرصت نہ ہو۔
افریقی جنگلی کتے بھی اُس کچھار کی حفاظت کرتے ہیں جہاں مادہ نے زچگی کے عمل سے گزرنا ہو۔کہیں بھاگ نہیں جاتے اس وقت میں۔ پھر آجایے وھیلز ی جانب جو مادر شاہی کی عمدہ مثال ہیں۔مکمل طور پر بڑی ہوجانے والی اولاد جس میں نر مادہ دونوں شامل ہوتے ہیں وہ ماں اورکا وھیل  کے ساتھ ہی گروپ میں گھومتے ہیں اور وہی شکار بھی کرتی ہے۔
یاد رہے کہ ہاتھیوں کے غول کی سربراہی سب سے بڑی عمر والی ہتھنی کرتی ہے۔بچے کی پیدائش کے بعد پورا غول اس کی پرورش اور حفاظت کرتا ہے۔ان میں نر ہاتھی پندرہ سے بیس برس کی عمر میں الوداع کہہ جاتے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ ہتھنیاں بھی گھر ہی رہتی ہیں والی مثال دی جائے؟ یہ کیوں نہ سمجھا جائے کہ وہ مادہ جانور اپنے بچوں کو پالتا اور کھانے کا انتظام دیکھتا ہے؟
کتے کی مثال دے دی یہ یاد نہ رکھا کہ شیرنی کیا کرتی ہے۔شکار چُننا،پیچھا کرکے حملہ آور ہونا اور سب کو کھلانا۔۔۔یہ سب ٹاسک شیرنیوں نے جسامت کے حساب سے آپس میں تقسیم کررکھے ہوتے ہیں۔سب ان ہی کے ذمہ ہوتا ہے،شیر کے نہیں۔
آخری مثال شہد کی مکھی کی لکھ رہی ہوں۔ جی ہاں اس ہی مکھی کی جس کی مثال پاک رب نے اپنی کتاب میں بھی دی ہے۔ شہد کی مکھیوں کے ہاں  بھی عورت راج کی مثال موجود ہے۔جن کا معاشرتی ڈھانچہ ہی ایک مادہ مکھی یعنی ملکہ پر انحصار کرتا ہے۔کہا جاتا ہے اپنی تین سالہ زندگی میں پچیس ہزار کے قریب دیے انڈوں میں سے پچانوے فیصد کارکن مکھیاں جبکہ پانچ فیصد نکھٹو پیدا کرتی ہے۔نکھٹو۔۔۔
اور ان سب باتوں کے بعد میں یہ پوچھنا چاہتی ہوں کہ عورت کے کام کرنے پر معترض یہ لوگ کھیتوں میں مرد کا ہاتھ بٹاتی خواتین کو کیوں بھول جاتے ہیں؟ دستکاری ، سلائی ، مال مویشی سنبھالتی ، اینٹوں کے بھٹے اور سڑکوں پر روڑی کوٹنے میں شریک مزدور عورتیں کیا کریں ؟نرسنگ اور طب کے شعبے سے وابستہ خواتین بھی کتیا بن کر گھروں میں بچے پیدا کرکے بس پالتی رہیں؟درسگاہوں میں زیورِ تعلیم سے آراستہ کرتی  استانی کیا کرے؟جسے آپ جمعدارنی کہتے ہیں وہ سڑکیں اور خواتین کے بیت الخلاء صاف نہ کرے تو کیا آپ کیجیے گا؟جو مرد برسوں پردیس کاٹتے ہیں پیچھے ان کے خاندان کا شیرازہ جوڑ کر رکھنے والی سب عورتیں مرد ڈرائیورز اور گاڑیاں رکھ لیں ؟ہے نا؟ کونسا ایسا شعبہ ہے جہاں خواتین کو ایک ناسور کی طرح کاٹ کر پھینک دینے سے آپ کا نظامِ زندگی مکمل طور پر آپریٹو رہے گا؟ہمیں بھی بتایے۔
شاہ مادری کی بات کرتے ہیں اور بھول جاتے ہیں کہ ہم پر بی۔بی خدیجہ کے کیا احسانات ہیں؟وہ کہ جن کی دولت نے پیغمبرِ دو جہاں کو کسبِ مال کی فکر سے آزادی دی۔

"اُس نے مجھے اپنے مال میں شریک کیا اور مجھے کسبِ مال سے روکا۔"
جن کی دولت کارِ نبوت کی پیشرفت پر خرچ ہوئی
"مجھے اللہ تعالی نے کبھی بھی [خدیجہ] سے بہتر کوئی متبادل خاتون عطا نہیں فرمائی۔ انھوں نے میری تصدیق کی جبکہ لوگ مجھے جھٹلا رہے تھے اور انھوں نے اپنی دولت خرچ کرکے میرے حق میں ایثار کیا جبکہ دوسروں نے مجھ پر پابندیاں لگا رکھی تھیں۔"
یہ حوالے سیرت النبی کی کتب میں موجود ہیں۔اور یہاں ان کا تذکرہ محض اس مقصد کے لیے کیا ہے کہ اگر آپ ایسے ہی دین کے ٹھیکے دار بنے ہیں تو اس بات سے انکار کیسے کریں گے کہ اُم المؤمنین کے مال و دولت نے نبوت کے ابتدائی ایام کو کس طرح آسان کیا۔
خیر یہ ایک طویل بحث ہے۔ہر بار چھڑے گی جب جب اخلاقیات کے علمبردار اور مذہب کے ٹھیکےدار اشرف المخلوقات کا مفہوم پسِ پشت ڈال کر موجودہ زمانے کے تقاضوں کو سمجھے بنا اپنے بودے دلائل سے معاشرے کو ترقی و سکون کے معاملے میں گمراہ کرنے کی کوشش کریں گے۔

ہفتہ، 9 جولائی، 2016

ایدھی بھگت

عبدالستار ایدھی ایک ایسا نام جو کسی بھی طرح کی سیاسی ، مسلکی یا دیگر وابستگیوں سے بلا تر ہو کر لفظ انسانیت کے اصول سکھلاتا اس دنیا سے چلا گیا۔اب جو ایک نگاہ اُس خلاء کی جانب ڈالی جائے تو اس سے پہلے بلیک ہول ہے۔
ایدھی ایک سوچ، نظریے اور عقیدے کا نام بن چکا ہے۔ایک ایسا طرزِ زندگی جو انسان کو کسی دنیاوی تخصیص کے بِنا اپنا لے۔ایسی پناہ گاہ جہاں بھارت سے آئی گیتا کی پہچان اور مذہبی عقیدہ مسخ نہ ہونے پایا۔اس کا احترام ویسے ہی کیا گیا جیسے ایدھی ھومز میں دیگر افراد کا خیال رکھا جاتا ہے۔
ایدھی ایک ایسا نام تھا جو کبھی سیاسی و مذہبی منافرت میں پڑے بِنا اپنا کام کرتا رہا لیکن افسوس ہے اس طبقے پر جو گِدھ بنے ان کے جنازے پر منڈلاتا رہا۔فلاں نے شرکت کی ، فلاں بھاگ گیا،ڈھمکاں کہاں ہے کی لاحاصل بحث۔۔۔اور سچ تو یہ ہے کہ عوام کیلیے زمین پر پلاسٹک کی ٹوکریاں رکھے انسانیت کے نام پر آپ سے چند ٹکے مانگنے والا شخص اپنے جنازے میں کھڑے اگلی صفوں پر شاید افسوس ہی کررہا ہوگا کہ اس کے عوام کو اس تک پہنچنے کے درمیان حائل ہوگئے۔افسوس ہے تو اس الیکٹرانک میڈیا پر جو اُس شخص کے ہاتھوں کھودی گئی اپنی آخری آرام گاہ میں لیٹ کر رپورٹنگ کرتا صحافت کا جنازہ پڑھتا رہا۔ "ایدھی بھگت" کہلوانے کیلیے آپ کا چیخنا چلانا کب سے ضروری ہوگیا یہ سمجھ نہیں آئی۔جس شخص کی بے لوث خدمتِ انسانیت کوکسی سیاسی مائلیج اور دینی عقیدے کی ترویج کیلیے استعمال نہ کیا گیا کچھ موقع پرست آج ان کے دنیا سے پردہ کرجانے پر یہ سب کچھ کرتے پائے گئے۔ایسی پستیوں کو دیکھ کر اب دل بھی رونے سے قاصر ہے۔
یقین مانیے یہ بات آپ زندہ رندوں کیلیے تو باعثِ افتخار ہوگی کہ کِس نے جنازے کو کندھا دیا لیکن اس میں میرے ایدھی کیلیے کوئی افتخار نہیں کہ کون کہاں تک ساتھ چلا۔مجھے یہ جاننے میں بہرحال دلچسپی رہے گی کہ ایدھی کی آخری خواہش "میرے وطن کے غریبوں کا خیال رکھنا" کیسے پوری کی جاتی ہے۔یہ پوچھنا چاہتی ہوں کہ ائیر ایمبولینس کا ارادہ کیسے پورا کیا جائے گا۔آپ کے سرکاری اعزازات اور تمغوں کیلیے یہ بات قابلِ فخر ہوگی کہ وہ ایدھی کے نام سے منسوب ہوں۔
جب کچھ لوگ کہتے ہیں کہ ایدھی ایک ہی تھا تو یہ مانیے کہ لیڈر ایک ہی ہوتا ہے جو مشن کو آگے بڑھاتا ہے۔اور اپنے جیسے چند ایک پیچھے چھوڑ جاتا ہے۔فیصل ، سعد اور بلقیس ایدھی ایسے ہی نام ثابت ہوں گے۔ان ہاتھوں کو سراہنا سیکھیے جو خاموشی سے ایدھی صاحب پر اپنے اعتماد کا اظہار کرتے عطیات ان کے حوالے کردیا کرتے تھے۔آپ نہیں کہہ سکتے کہ انسانیت یتیم ہوگئی۔ ایسا ہوتا تو دنیا کی سب سے بڑی نجی ایمبولینسز کی سروس کیونکر دوڑتی پھرتی؟ ایدھی لنگر خانوں کے برتن کیسے بھرے رہتے اور بچیوں کے گھر کیسے بستے۔بےکاروں کو ہنر سکھا کر معاشرے کا کار آمد رکن کیسے بنایا جاتا؟ لاشوں کی تدفین اور غریب مریضوں کی داد رسی کیسے ممکن تھی ؟ کبھی سوچیے گا کہ ادارے اور افراد اپنا نام سامنے لائے بِنا کِس فراخدلی سے ایدھی صاحب کے مشن کو ہر طرح کا ایندھن فراہم کرتے رہے۔
سوالات کا لامتناہی سلسلہ ہے جو ایدھی صاحب کے رخصت ہوجانے کے بعد پھیلتا چلا جارہا ہے۔معاشرے کی دھتکاری خواتین ، اولاد کے ہوتے بےسہارا کہلوانے والے والدین ، ایدھی لنگر کی آس میں بھوک کو بہلاتے میرے وطن کے فاقہ کش ، اپنوں سے ملنے کی آس میں پلتے گمشدہ بچے ، جیلوں میں سڑتےغریب قیدی ، لاوارث لاشیں ، زخمی ، نفسیاتی عوارض کا شکار بے آسرا افراد ،  کچرہ کُنڈی میں کتوں کے بھنبھوڑے لاوارث بچے۔۔۔  اب جس پناہ اور جھولوں میں جائیں گے انہیں سنبھالنے والے ہاتھ یقیناً ایدھی کے سکھائے ہوئے ہی ہوں گے۔لیکن اعتماد بنائے رکھنے میں ہم آپ کتنا ساتھ دیتے ہیں یہ اہم رہے گا۔
عمر اور بیماری کے اثرات کے باعث دیگر جسمانی اعضاء تو ان کی وصیت کے مطابق عطیہ نہ ہو سکے لیکن بینائی۔۔۔ اپنی بصارت بھی انسانیت کے نام کرجانے والے محبت و خلوص کے اس مینار کی بصارت و سیرت بھی اپنا لی جائے تو شاید بلیک ھول پر نگاہ ہی نہ پڑتی۔