ہفتہ، 15 اگست، 2015

عصمت

"عصمت کہاں مرگئی ہو؟ پانی لاؤ جلدی سے۔۔۔۔۔"
"پانی بعد میں دینا اس چڑیل کو،پہلے میرے جاگرز صاف کرو۔۔۔گارے سے لتھڑے پڑے ہیں۔خود بھی کبھی دیکھ کر کام کرلیا کرو۔"
یحییٰ اور سمیرا میں اب بہن بھائی والے جھگڑے کی بجائے پاک بھارت گھمسان کا رن پڑنے والاتھا۔عصمت نے جلدی سے پانی کا گلاس میز پر رکھا اور جاگرز اٹھائےگیراج میں چلی آئی۔

عصمت جب پہلی بار چنیوٹ کے نواحی گاؤں سے اس "زندہ دلانِ لاہور" کے گھر لائی گئی تو فقط سات آٹھ برس کی ہی تھی۔اسے یہاں آئے 4 سال ہوچلے تھےاوربیگم صاحبہ کا آدھا بوجھ اس کے ننھےکندھوں پر آن پڑا تھا۔پہلے پہل تو سٹول رکھ کر برتن دھوتی مگر اب تو ایک دم قد نکلا تھا اور بقول ذیشان "مٹن تو ہم کھاتے نہیں ،سب کچھ اسی کے حلق میں اترتا ہے۔۔۔ تو صحت کیسے نہ بنے۔۔۔"
سال دو سے تو ہر تیسرے روز "بیگم صاحبہ" کی نگرانی میں واشنگ مشین لگا کر کپڑے دھوتی اور پھر استری بھی کرتی۔چائےبنانا،سبزی کاٹنا،کوئی چھوٹا موٹا سودا قریبی سٹور سے لانا،جھاڑوپونچھا ، "بھائی جان" کے کپڑے دھوبی کودینا اور "کلف زدہ "کڑکڑاتے سوٹ لاکر الماریوں میں ترتیب سےلگانا۔۔۔۔۔مانو کوئی ننھا سا روبوٹ ہاتھ لگ گیا تھا۔
آج کل کے دور میں "کُل وقتی ملازمہ" ملنا کتنا دشوار ہے یہ کوئی مِسزطاہر سے پوچھے۔پہلی ملازمہ گاؤں والدین کو ملنے گئی تھی اور پھر لوٹ کر نہ آئی ۔ اس دوران 6 ماہ جس "اذیت" میں انہوں نے گزارے تھے بس وہی جانتی تھیں۔لہذا عصمت کو لاتے وقت یہی شرط رکھی تھی کہ سال میں ایک بار،وہ بھی "میٹھی عید" پر ملنے جائے گی کہ عید الاضحیٰ پر جانوروں کا کام بہت ہوتا ہے۔غریب والدین تھے اور ماہانہ ٦000 روپے کے حساب سے سال کا پورے بہتر ہزار ہتھیلی پر دھر دیا گیا۔۔ساتھ یہ اضافہ بھی کہ صدقہ ۔خیرات وغیرہ جو بھی نکلے گا انہی کو ملے گا کہ عصمت کے والد ایک حادثےمیں ٹانگیں گنوا بیٹھے تھے۔غریب کو اور کیا چاہیے تھا۔۔۔۔ سال کی گندم ، چاول ، گڑ وغیرہ خرید کر بھی بہت رقم بچ جانی تھی۔پھر کپڑا لتا،اور صاحب لوگوں کی "اُترن" کی بھی آس بندھ گئی تھی۔مگر اس سارے منظر میں "کسی" کی آنکھیں دھندلائے جارہی تھیں۔
عصمت کو ماں نے برآمدے میں لےجاکر پچکارتے ہوئے سمجھایا "دھی رانی۔۔۔۔اپنے ابے کو دیکھ،دو بہنیں جوان ہیں۔۔بھائی سکول جاتےہیں۔کون پورا کرے گا؟ میری سمجھدار دھی ہے نا؟ پھر وہاں شہر میں مشینیں ہیں ۔۔۔۔ زیادہ کام نہیں ہوتا۔صاحب لوگوں کےساتھ گاڑیوں میں گھومنا،باجی کہتی ہے تجھے خود پڑھائے لکھائے گی۔چل شاباش۔۔۔۔اب رونا نہیں۔"
طاہرشیخ صاحب کاروباری حلقے میں اپنی پہچان بنانے میں مصروف تھے اور ان کی بیگم صاحبہ "گھر بنانے" میں جُتی رہتیں۔یحییٰ ، سمیرا اور ذیشان تین ہی بچے تھے۔مگر ان تینوں نے گھن چکر بنا رکھا تھا۔عصمت کے آنے سے کچھ سہولت اور آرام میسر آیا تھا۔شام میں ذیشان کو قاری صاحب پڑھانے آتے تھے ۔ سال بعد عصمت نے ڈرتے ہوئے قرآن پڑھنے کی استدعا کی تو بیگم صاحبہ کو جانے کیسے ترس آگیا اور ذیشان کےساتھ اب شام کا آدھا گھنٹہ وہ بھی قاری صاحب سے پڑھنے لگی۔ذہین تھی ۔۔۔شاید اسی لیے ذیشان ابھی آدھا سپارہ ہی مکمل کرپاتا جبکہ عصمت اس سے ڈیڑھ پارہ آگے ہوتی۔
سمیرا "باجی" کا کبھی موڈ ہوتا تو اسے گنتی اور جمع تفریق سکھا دیتی۔یحییٰ کا فرسٹ ائیر میں داخلہ ہوگیا تھا اورکالج میں نئے دوست بن گئے تھے تو اب گھر بھی آنا جانا لگا رہتا تھا ۔ایسے میں ڈرائینگ روم تک کھانے پینے کی ترسیل کا سب ذمہ عصمت ہی کا تھا۔ بیگم صاحبہ نے اس بار سمیرا باجی کے دوپٹوں والے تین جوڑے دیے تھے اور ساتھ نصیحت کی تھی کہ "اب بڑی ہورھی ہو ،لڑکے ہوتے ہیں گھر پر۔اچھے سے کندھوں پر دوپٹہ ڈالا کر۔۔۔۔یہ گاؤں نہیں کہ کلانچیں بھرتی پھرے۔۔۔۔۔۔"

ذیشان آج پھر قاری صاحب کے آنے سے قبل سائیکل لے کر "فرار" ہوچکا تھا اور چاروناچار عصمت کو اکیلے ہی سبق لینا تھا ۔ کچھ دنوں سے وہ گھبرائی رہتی اور "بڑی باجی " کو بہانے سے کہا بھی کہ قاری صاحب کے سامنے ذیشان بھائی جان ساتھ ہی بیٹھا کریں۔۔۔باجی نے پہلے تو چُٹیا مروڑی پھر دو تھپڑ رسید کیے "بے غیرت کہیں کی۔۔۔یہ شہر ہے۔اور وہ قاری صاحب ہیں کوئی تیرے گاؤں کا لفنگا نہیں۔۔بہت نخرے ہوگئے ہیں تیرے۔۔۔" عصمت نے آنسو صاف کیے اور وضو کرکے "سبق" لینےڈرائینگ روم میں چلی آئی۔
رمضان کا آخری عشرہ شروع ہوگیا تھا اور شیخ صاحب کو فیکٹری سے لوٹتے دیر ہوجاتی۔۔۔لہذا آج بیگم صاحبہ نے سمیرا کے ساتھ ہی شاپنگ کا پلان بنا لیا تھا۔عصمت معمول کے مطابق "سرف" کا پونچھا لگا کر اب گرم پانی کے پونچھے سے ٹائلز چمکا رہی تھی۔"کیا خیال ہے عصمت کو لے جائیں ساتھ۔۔ "شاپنگ بیگز" اٹھانے میں 
سہولت رہتی ہے ۔۔۔" مِسز طاہر نے پرفیوم کا چھڑکاؤ کرتے بیٹی سے سوال کیا۔۔۔نخوت سے جواب آیا، "رہنے دیں ممی ۔۔۔۔حلیہ دیکھا ہے اس کا۔۔۔مجھے کوئی ضرورت نہیں اپنی پوزیشن خراب کروانے کی۔۔ڈرائیور ہے نا ساتھ۔۔۔"
ماں بیٹی گیراج کی جانب نکلیں تو بیگم صاحبہ کی گرجدار آواز سے پانی کی بھری بالٹی عصمت کے ہاتھ سے چھلک گئی "عصمت کتنی بار سمجھایا ہے کہ "سرف" کا پونچھا سوکھنے سے پہلے گرم والا مارا کرو۔۔۔ساری ٹائلز پر جابجا نشان پڑے دکھائی دے رہے ہیں۔بہت ھڈ حرام ہوگئی ہو۔۔۔۔ اور یحییٰ کا واش روم میں نےکل دیکھا ، باتھ ٹب کی حالت دیکھی ہے؟ وہ سو کر اٹھتا ہے تو آج "ہارپک" لگاؤ۔۔تمہارا چہرہ دکھائی دے مجھے ان ٹائلز میں۔۔۔تمہارے روزے ہیں تو بی۔بی ہم بھی روزے ہی سے کھپتے ہیں۔۔"

شام ہورہی تھی مگر اسے اکیلے گھر میں اب "خوف" نہیں آتا تھا۔پہلے سال تو بہت ڈری رہتی،پھر عادت ہوگئی اور ٹی۔وی لگانا،چینل بدلنا بھی سیکھ گئی تھی۔۔۔۔آج بھی سب کام نبٹا کر کارٹونز دیکھ کر خوش ہوتی رہی۔ بچی ہی تو تھی۔۔۔۔۔ افطار کا وقت ہورہا تھا۔باجی لوگ ابھی تک بازار سے لوٹی نہیں تھیں۔یوں بھی روزہ تو عصمت اور بیگم صاحبہ کا ہی ہوتا تھا۔لڑکے سنتے کہاں تھے۔سمیرا باجی بہت "کمزور" تھیں اور شیخ صاحب کو آج کل فیکٹری میں کام بہت تھا تو 3000 روپے فی کَس کے حساب سے "فدیہ" دینے کا ہی فیصلہ ہوا تھا۔۔۔

عصمت نے اپنے لیے سکنجبین کا گلاس بنا کر فریج میں رکھا اور ابھی وضو کا سوچ ہی رہی تھی کہ چوکیدار کے گیٹ کھولنے کی آواز آئی اور گیراج میں موٹر سائیکلوں کی گڑگڑاہٹ سے عصمت سمجھ گئی کہ یحییٰ دوستوں کے ساتھ آیا ہے۔۔۔ جلدی سے دوپٹہ درست کرتی کچن سے نکلی تو آواز آئی۔۔ "عصمت ابھی تک ممی واپس نہیں آئیں؟" اس نے نفی میں سر ہلایا تو فریزر کا جائزہ لے کر بولا۔۔۔۔" یہ فریزر میں سموسے اور کچھ اور چیزیں پڑی ہیں۔۔جلدی سے فرائی کرلو۔۔۔کوک بھی رکھنا ساتھ۔۔ تین دوست ہیں اور چوتھا میں۔۔۔" یحییٰ "آرڈر" دے کر خود فریش ہونے چل دیا۔۔۔
عصمت لوازمات سے سجی ٹرالی ڈرائینگ روم میں لائی اور ابھی باہر جانے کو پلٹ ہی رہی تھی کہ "یحییٰ بھائی" کے دوست نے دوپٹے کا پلو کھینچ لیا۔۔۔۔"بھائی جان کیا کررہے ہیں؟ چھوڑیں مجھے۔۔۔۔۔۔"
"ابے یحییٰ ! یہ تیری "میڈ" تو ایک دم تیر کمان نکلی ہے۔۔۔"
"چھوڑ یار۔۔۔الو کی پٹھی ہے پوری۔۔۔گھامڑ کہیں کی۔۔کوئی اشارہ نہیں سمجھتی۔۔۔۔"
"ہم سمجھا دیتے ہیں یار۔۔۔ آخر دوست کس روز کام آئیں گے؟"یہ کہتے ہوئے عصمت کے منہ پر ہاتھ رکھ دیا۔۔۔اس کی گھٹی گھٹی چیخیں وہیں کہیں دفن ہو گئی تھیں۔۔۔۔۔۔۔۔

باورچی خانے کے ٹھنڈے فرش پر خاموش سسکیاں ۔۔خشک آنکھیں۔۔بکھرے بال اور زخمی چہرہ عصمت کی روح کا حال سمجھانے کو کافی تھا۔۔بیگم صاحبہ شاپنگ سے لدی پھندی عشاء سےپہلے گھر میں داخل ہوئیں ۔۔۔۔۔ عصمت کو وہاں بیٹھے دیکھ کر ٹھٹھک گئیں۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔
"کمینی۔۔۔ بدذات ۔۔۔ تم کمی کمینوں کے گھروں میں یہی تربیت دی جاتی ہے کہ بڑے گھرانوں کے بچوں پر الزامات لگا کر پیسے اینٹھ سکو۔۔۔۔ دو ٹکے کی اوقات نہیں اور چلی ہے شہتیروں کو جَپھے ڈالنے۔۔۔۔ بےغیرت نا ہو تو۔۔۔اسی لیے کہتے ہیں کہ گاؤں کے بچے ذہنی طور پر شہروں کے بیاہتا لوگوں جتنے ہوشیار ہوتے ہیں۔۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔" بیگم صاحبہ تھپڑوں اور ٹھڈوں سے زخمی روح کا جسم داغدار کررہی تھیں اور عصمت "چمکتی ٹائلز" پرلڑھکتی ہاتھ جوڑ رہی تھی۔۔۔۔۔۔
"یحییٰ ملاؤ ذرا نمبر اس کے چاچے کی "ہَٹی" کا۔۔ بات کروائے اس کی ماں سے۔۔لےجائے اپنے گند کا ٹوکرا ۔۔۔ ہم بھر پائے ایسی چَتُر چالاکیوں سے۔۔۔"
یحییٰ نے نمبر ملا کر بات کی اور پانچ منٹ میں عصمت کی ماں کو بلوانے کا کہہ کر فون رکھ دیا۔۔۔ مسز طاہر نے خشمگیں نگاہوں سے یحییٰ کو گھورا مگر پھر حقارت سے عصمت کو دیکھنے لگیں۔۔۔۔۔۔
"ہیلو۔۔۔ ہاں بھئی۔۔یہ تمہاری بیٹی نے تو شہر میں خوب پَر نکال لیے ہیں۔۔۔ یحییٰ کے معصوم دوستوں پر ڈورے ڈال رہی ہے۔۔جانے کیا من گھڑت بکواس پَلّے ڈال رہی ہے بچوں کے۔۔۔۔ آؤ اور حساب چُکتا کرکے اسے لے جاؤ۔۔میں حفاظت نہیں کرسکتی۔۔یوں بھی "میٹھی عید" آرہی ہے۔۔سال کا حساب کرو اور جان بخشو ہماری۔۔۔۔"
عصمت کی ماں کا ہاتھ ایک لمحے کو لرزا تھا ۔۔۔۔ بھیگی آواز میں صرف اتنا ہی کہہ سکی ۔۔۔۔۔۔ "بیگم صاحبہ ! ہم نے آپ کو دی ہے نا۔۔۔ہماری طرف سے زندہ گاڑ دو۔۔۔باپ اس کا "مرن کنارے" پہنچا ہے۔بڑی بیٹی کے "دِن مِتھ " دیے ہیں۔۔۔ عید پر گھر لاکرہم نے اس کا کوئی اچار نہیں ڈالنا  ۔۔۔ آپ بھی بہن بیٹیوں والے ہیں۔۔عزتیں تو سانجھی ہی ہوتی ہیں۔۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ "

"یہ ہوئی نا سمجھدارلوگوں والی بات۔۔۔۔ اپنی بیٹی کو بھی کچھ عقل دیا کرو۔۔۔ قصور میرا بھی ہے،ساتھ بِٹھا لیتی ہوں ڈرامہ دیکھنے کو۔۔۔تو بس وہی دیکھ دیکھ کر اِس کے ذہن میں کہانیاں بننے لگی ہیں۔۔یقین مانو شیخ صاحب اور میں اپنے بچوں سے بڑھ کر اس کا خیال رکھتے ہیں۔۔اور ہاں اس بار فدیہ کی رقم بھی تم لوگوں کو ہی دینی ہے۔۔۔شناختی کارڈ نمبر ہے یحییٰ کے پاس۔۔کل ہی "ایزی پیسہ" کروادیتا ہے۔۔۔باقی تمہاری بیٹی کی شادی پر شیخ صاحب الگ سے بھجوا دیں گے۔۔۔۔۔"

عصمت کی ماں نے کپکپاتی آواز میں جواب دیا " اللہ سلامت رکھے شیخ صاحب کو۔۔برکت دے رزق میں۔۔۔ عزت اور بچوں کی خوشیاں دیکھیں آپ لوگ۔۔۔۔ رب سوہنا آپ کی بیٹی کا نصیب اچھی جگہ کھولے۔۔۔۔ ہماری عصمت آپ ہی کی ہے بیگم صاحبہ۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔۔ "

10 تبصرے:

  1. ۔۔۔۔۔۔
    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔کبھی کبھی بےجان الفاظ بھی سسکیاں لیتے ہیں

    جواب دیںحذف کریں
  2. معاشرے میں پلتے ہوئے ناسور کو اجاگر کیا آپ نے حقیقت کے قریب ترین تحریر واقعی دل پر ایک نقش چھوڑنے والی بہترین تحیریر

    جواب دیںحذف کریں
  3. دل دہلا دینے تحریر
    ہمارے معاشرے میں ایسی روتی سسکتی کراہتی ہوئی کہانیاں بهری پڑی ہیں
    یہاں آپ کے مشاہدے اور حساس طبیعت کی داد دینی ضروری ہے
    سلامت رہیں
    یونہی لکهتی رہیں اور فیضیاب کرتی رہیں

    جواب دیںحذف کریں
  4. !! بہت خوب
    بے تحاشہ غربت اور امارت دونوں ھی عزت اور غیرت کو معمولی شے سمجھتے ہیں
    ہماری سوسایٹی کا المیہ یہ ہے کہ یہ دونوں طبقے بڑھتے بھی جارہے ہیں اور معاشرے کے لیے ناسور بھی بنتے جارہے ہیں

    جواب دیںحذف کریں
  5. ہماری کاہے کی عصمت
    عصمت تو بس آپ کی ہی ہے
    دل چھو لینے والی تحریر۔ اللّٰہ اپنی امان میں رکھے سب عصمتوں کو

    جواب دیںحذف کریں
  6. کالو کمہار کو چوہدری نا چھوڑے اور کمہار دی دھی نوں چوہدری دے چھور

    جواب دیںحذف کریں
  7. کالو کمہار کو چوہدری نا چھوڑے اور کمہار دی دھی نوں چوہدری دے چھور

    جواب دیںحذف کریں
  8. کالو کمہار کو چوہدری نا چھوڑے اور کمہار دی دھی نوں چوہدری دے چھور

    جواب دیںحذف کریں
  9. اچهی اور حقیقی زندگی کی عکاس تحریر

    جواب دیںحذف کریں
  10. فیض صاحب کے الفاظ لئے ہیں تبصرہ کے لئے۔۔۔۔
    دہقاں کے نام
    جس کی بیٹی کو ڈاکو اٹھالے گئے
    جس کی پگ زور والوں کے پاؤں تلے
    دھجیاں ہو گئ ہے
    ۔
    شرمندہ ''شیخ صاحب آور بیگم صاحبہ '' کو ہونا چاہیئے ۔۔۔پر ہو ہم رہے ہیں

    جواب دیںحذف کریں