ہفتہ، 10 دسمبر، 2016

پی۔کے 661 اور معاشرتی تقطیب

گزشتہ چوبیس گھنٹوں میں ایک ہوائی حادثے نے ہمارے ہاں کی معاشرتی قطبیت کے سب پول کھول کر رکھ دیے ہیں۔انسانی زندگی ہمارے لیے کیا معنی رکھتی ہے وہ اہمیت کہیں رکھ کر بھول چکے ہیں ،ہاں کسی کی موت پر ذاتی ایجنڈے کو کیسے تقویت دینی ہے اور تابوتوں کے کیل ٹھونکنے والوں سے پہلے اپنی پسند ناپسند کی ترویج کرکے وقتی سستی شہرت کے کیل کیسے پیوست کرنے ہیں اس معاملے میں اکثریت ماہر ہوچکی ہے۔
چترال سے اسلام آباد آنے والی پرواز پی۔کے
661 حویلیاں کے قریب پہاڑں کے درمیان گر کر تباہ ہوگئی۔ دو آسٹریلین اور ایک چینی باشندے سمیت اکتیس مرد ، نو خواتین اور دو شیرخوار بچوں کے علاوہ عملے کے پانچ اراکین۔۔۔ طیارے کو لگی آگ نے سینتالیس ہنستی بستی انسانی زندگیاں راکھ کا ڈھیر بنا ڈالیں۔اور اس غم کی گھڑی میں ہمارے ہاں سوشل اور الیکٹرانک میڈیا نے جِس قسم کی تقطیب کا مظاہرہ کیا ہے وہ میرے لیے نہ تو نیا ہے اور نا ہی حیران کُن۔۔۔یہ سب کچھ سلمان تاثیر سے لے کر قندیل بلوچ اور پھر امجد صابری کے جنازے تک دیکھنے کو ملتا رہا ہے۔بد قسمتی سے جنید جمشید کا نام بھی اب اسی فہرست میں چلا گیا ہے۔لیکن باقی مسافروں کا کیا ؟ ہر مسافر کے ساتھ نہ جانے کتنے رشتے ، کیسے خواب اور ان گنت داستانیں جُڑی ہوں گی۔اور جانے کتنی آنکھیں خشک ہوکر بھی نہ ختم ہونے والے انتظار میں برستی رہیں گی۔
کئی گھنٹوں تک ٹی۔وی اور سوشل میڈیا نے میرے دماغ پر جو نقوش بنائے ہیں اس سے یوں محسوس ہوتا ہے کہ ہم  دوسروں کے ایمان ، جنت ، دوزخ اور ہلاکت و شہادت کے "فٹنس سرٹیفکیٹ" پر قادر ہوچکے ہیں۔ہم سول ایویشن کے ماہر بھی ہیں اور  کی بورڈز کے ذریعے ہوائی جہاز اڑانے کے علاوہ کسی کی بیویوں کی تعداد سے کردار کا جائزہ لینے کی صلاحیت بھی رکھتے ہیں۔میڈیا ایئرہوسٹس عاصمہ عادل کی ڈیڑھ سالہ بچی کے منہ میں مائیک ٹھونسے اس سے "مما مما" کہلوانے میں کامیاب رہا ہے جبکہ چار پانچ سال کے بیٹے سے "مما کھلونے لاتی ہیں" اگلوانے پر شاباش کا مستحق بھی ہے۔ہوائی میزبان کے شوہر سے ، جو کہ ذہنی طور پر ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے، سوال پوچھ رہے ہیں "آپ کی بیوی کِس سے زیادہ اٹیچڈ تھی؟" ۔۔۔اینیمیٹڈ طیارہ  کے کریش ہونےاور جلنے کے مناظر مسلسل دکھاتے داد کا مستحق ہے وہ نیوز چینل جس نے اس حقیقت کو جانے بغیر کہ بلیک باکس ہائی ڈیفینیشن رنگ کا ہوتا ہے،ایک کالے رنگ کا باکس لہراتے بھی دکھا دیا ہے اور جہاز کے کپتان کی کنٹرول روم سے آخری گفتگو تک سنوا دی ہے۔اب ہماری بلا سے ملنے والا بلیک باکس فرانس جا کر ڈی۔کوڈ ہو نہ ہو۔صحافتی ذمہ داری تو ادا ہوئی۔الحمدللہ۔۔۔باقی اب یوں ہے کہ چترال میں بنے رَن وے کے لیے یہی طیارہ سب سے بہتر ہے ، اس کا فٹنس سرٹیفکیٹ اکتوبر دو ہزار سترہ تک اے ون تھا اور تین ماہ قبل وزیرِاعظم پاکستان نے اسی طیارے سے سفر کیا، اس قسم کے حقائق سے قطع نظر ہر نیوز اینکر اور ہر تیسرا "کی بورڈ گریبر" اپنی ماہرانہ تنقید و جائزہ ریکارڈ کروانے پر قادر ہے۔
اس جہاز میں اے۔ایس۔ایف کے دو نوجوان کمانڈو بھی سوار تھے۔ڈپٹی کمشنر چترال اسامہ وڑائچ اپنی اہلیہ اور ننھی بیٹی کے ساتھ سفر کررہے تھے۔طیارے کے کپتان محمد صالح یار جنجوعہ ایک یو ٹیوب چینل بھی چلاتے تھے جبکہ اپنی بیمار والدہ کی عیادت کو جانے والا ایک نوجوان مسافر بھی تھا۔لیکن ان سب اور دیگر مسافروں کی زندگی سے بھرپور کہانیوں کا تذکرہ کہیں پس پردہ ہی رہ گیا ہے۔ابھی فکر ہے تو یہ کہ جنید جمشید کو بطور پاپ سٹار یاد کرنا ہے یا ان کا قصیدہ بردہ شریف چلانا ہے۔ایسا شخص جو گلوکار تھا تو لاکھوں دلوں پر راج کرتا رہا ،موسیقی اور انجینیئرنگ چھوڑ کر جب نعت خوانی اور تبلیغ کی جانب گیا تب بھی لاکھوں چاہنے والے اس کی جانب کھنچتے چلے گئے۔وہ ایک کامیاب بزنس مین تھا جس نے پاکستانیوں کو بہتر برانڈڈ کرتے شلوار کے ٹرینڈ سے متعارف کروایا۔پانچ برسوں سے رمضان نشریات  میں جما رہا۔کراچی میں پانچ ہزار موٹر بائیک  ہیلمٹس بانٹے اور صفائی مہم کا حصہ بنا۔۔۔ہاں وہ ایک ٹرینڈ سیٹر تھا جس سے آپ نظریاتی و فکری اختلاف کرسکتے ہیں لیکن اس نے زندگی میں جو کچھ حاصل کیا اس کا ہر دو نظریاتی طبقات سے تعلق رکھنے والوں کی اکثریت صرف خواب ہی دیکھ سکتی ہے۔
اگر جنید جمشید اپنے ماضی سے نفرت نہیں کرتے تھے تو یہ کون لوگ ہیں جو ان کے لیے جنت کے حصول میں آسانی کے لیے شرائط رکھ رہے ہیں؟ انہوں نے تو دوہزار تیرہ میں "نیاپاکستان ۔۔انشاءاللہ" جیسا مِلی نغمی بھی گایا۔تو کیا وہ بھی تلف کردیا جائے؟





https://twitter.com/JunaidJamshedPK/status/498324713157197824


"دو پل کا جیون ہے" سے بہت بعد میں آنے والا وائٹل سائنز کا "دل دل پاکستان" بی۔بی۔سی سروے میں دنیا کے دس بہترین گیتوں میں تیسری جگہ نہ بھی بناتا تب بھی یہ ہمیشہ کے لیے پاکستان کا دوسرا قومی نغمہ بن کر گوبجتا رہے گا ۔ "قسم اس وقت کی " ماہِ ستمبر میں چلتا رہے گا۔نہ تو "گورے رنگ کا زمانہ" کبھی پرانا ہوگا اور نا ہی "سانولی سلونی" ۔ اپنی یاداشت سے میں شعیب منصور کی ہدایتکاری میں بنا منی ڈرامہ سیریل "دھندلے راستے" دہراتے ایک ایسے جنید جمشید کو یاد کررہی ہوں جوپیانو بجاتے گا رہا ہے "مر بھی جاؤں تو مت رونا۔۔۔میں اپنی آواز اور اپنے سارے گیت تمہیں دے جاؤں گا۔۔۔یاد کرنا"
https://www.youtube.com/watch?v=oBWAEClUTho

مجھے ذاتی طور پر جے جے کے نئے اوتار اور گاہے بگاہے عورت مخالف 
(misogynist) بیانات سے الجھن رہی ہے اور اس کا برملا اظہار ہمیشہ کرتی رہی ہوں۔دوستوں کے ساتھ مِل کر طنز اور ٹھٹھا بھی اڑایا لیکن جنید کی آواز چاہے "نہ تو آئے گی، نا ہی چین آئے گا" میں آن رپیٹ چلے یا پھر قصیدہ بردہ شریف اور چند پرسنل فیورٹ نعت میں۔۔۔آواز کا تعلق اس شخص سے میٹھا ہی رہا۔ ہاں شاید گھوڑے  پر سوار ایک نوجوان جس کے خوبصورت بال ہوا میں اڑتے جا رہے تھے اور "تمہارا اور میرا نام جنگل میں" گا رہا تھا اس کا نیا روپ اور بدلے خیالات ذہنی طور پر قبول کرنا ممکن نہ ہوپایا۔ اس کھٹے میٹھے تعلق کا ایسا ناآگہانی انجام سب ہی یادوں کو جھلسا گیا ہے۔
میرا تعلق اس نسل سے ہے جس نے لکھنے اور بولنے سے پہلے دل دل پاکستان کے لیے جھومنا سیکھا تھا۔ہم جنید جمشید کی ٹرانسفارمیشن کے ساتھ عمر کی مختلف منازل جیے ہیں۔اس نے "آنکھوں کو آنکھوں نے جو سپنا دکھایا ہے" سے لے کر "مولا" اور "او صنماں" تک سولو گائیکی میں شہرت کی وہ بلندیاں دیکھی ہیں کہ واقعی "یہ شام پھر نہیں آئے گی۔۔۔"
تمام دیگر چھیالیس جلی لاشوں کو بھلا کر سوشل میڈیا تین حصوں میں تقسیم ہوچکا ہے۔۔۔ایک کے نزدیک وہ شہید ہے ، دوسرا گروپ ایک "گستاخ" کی موت پر وحشی بنا رقصِ بسمل میں مصروف ہے اگرچہ ان میں کہیں وہ نام نہاد لبرلز بھی حصہ ڈال رہے ہیں جو آمرانہ رویہ اپنائے جتلا رہے ہیں کہ اس کو صرف بطور گلوکار یاد رکھنا چاہتےہیں اور دوسرے بھی یہی کریں۔تیسرا گروہ اپنے ہی سیاسی اور مسلکی ایجنڈے کی تشہیر کے لیے ایک سانحے کو استعمال کرتے  بے حسی کی آخری منزل سے بھی پانچ سو گز آگے کا سفر طے کرچکا ہے۔ ان تینوں میں سے کوئی بھی یہ تسلیم کرنے کو تیار ہی نہیں کہ جنید جمشید کسی کا باپ ،بھائی اور شوہر بھی تھا۔اس کے کاروبار سے کتنے لوگوں کا رزق وابستہ تھا،یہی سوچ لیجیے۔ایسے سانحات کا ٹھٹھا اڑانا یا ذاتی/سیاسی مقاصد کے حصول کے لیے استعمال کرنا سخت دِلی نہیں تو اور کیا ہے؟ مرنے والوں کے پسماندگان میں یتیم ، بیوہ ،والدین اور دوستوں پر ٹوٹی قیامت کا خیال نہیں کرسکتے کیونکہ ہم سیاہ و سفید کے درمیان جینے کے عادی ہوچکے ہیں۔ہر کسی نے اپنا ترازو اٹھا رکھا ہے اور اپنی مرضی کا پلڑا استعمال کرنا خود پر فرض کرلیا ہے۔غم اور غصے میں فرق روا نہیں رکھتے لہذا اس کے اظہار کے ضابطوں پر لاحاصل بحث ہے اور مسلسل ہے جو ہر ناگہانی موت پر ہمارا وطیرہ بن چکا ہے۔

ہفتہ، 26 نومبر، 2016

ہوم اکنامکس ، خاتونِ خانہ کا مثالی خاکہ اور عہدِ حاضر

گزشتہ چند دنوں سے سماجی رابطے کی ویب سائٹس اور بلاگرز نے جس معاملے کو بے حد سنجیدگی سے توجہ کا مرکز بنا رکھا ہے وہ پنجاب کریکولم اینڈ ٹیکسٹ بُک بورڈ ، لاہور سے مارچ 2016ء میں شائع ہونےوالی آٹھویں جماعت کی ہوم اکنامکس میں دیا گیا "خاتونِ خانہ کے لیے وقت کے گوشوارے کا مثالی خاکہ " ہے۔ تصویر نظر سے گزری تو جو پہلا خیال آیا وہ صرف یہ تھا کہ خاتونِ خانہ ہے یا باندی کہ جس کو رات گیارہ بجے سے صبح پانچ بجے تک آرام کرنے کی سہوت دی گئی ہے۔دوسرا سوال یہ ابھرا  کہ خاتونِ خانہ اگر کُل یا جز وقتی ملازم رکھتی ہو (جو کہ متوسط گھرانوں میں بھی دستیاب ہیں) تو تین وقت کھانا ، دھلائی اور گھر صفائی کا کیا کرنا ہے۔شوہر اگر بیرون ملک نوکری مزدوری کرتا ہو تو پاکستان میں رہتی عورت گھر کیسے چلائے گی یا پھر یوں ہے کہ وہ مثالی گھریلو عورت نہیں۔ نمازوں کے اوقات بارے پوچھنا چاہیے کہ مخصوص ایام میں کیا کرنا ہے ۔ غیرمسلم خواتین کیا کریں۔ اور جو چھ گھنٹے نیند کے عطا ہوئے ہیں اس میں بیوی کے حقوق و فرائض کی ٹائمنگ بھی بتادیتے۔مذکورہ گوشوارے کے حساب سے ٹی۔وی ساڑھے سات سے ساڑھے نو بجے تک دیکھیں۔جبکہ بچوں کو اڑھائی گھنٹے پڑھانا ہے۔اب سوال یہ ہے کہ جو خواتین کم پڑھی لکھی ہوں وہ ان اوقات میں کیا کریں۔  آپ نے کسی روبوٹ کے لیے ٹائم ٹیبل فیڈ کرنا ہے یا انسان کے لیے۔ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ طالبات کو پوچھا جاتا کہ وہ چوبیس گھنٹوں کو کس طرح ترتیب دیں گی۔خاتونِ خانہ ہی سہی تو بے اولاد یا بیوہ کیا کریں ، کیا وہ مثالی نہیں بن سکتیں ۔ زمینی ،معاشرتی اور معاشی حقائق سے کوسوں دور بیٹھ کر یہ خاکہ مرتب کرنے والی مصنفہ و مدیر سمیت پنجاب حکومت نے کتنے پلیٹ فورمز پر گھریلو صنعتوں کے فروغ پر زور دیا ہوگا۔کیا آج کے دور میں متوسط گھرانہ چلانے کے لیے بھی فردِ واحد کی کمائی کے ساتھ گزارا ہوسکتا ہے۔ایک جانب آپ کو طب سے لے کر فیکٹریوں ،پولیس ، فوج ، بینک ،کھیت،سکولوں اور اینٹوں کے بھٹوں تک تو کیا سڑکیں بنانے میں بھی ہاتھ بٹاتی خواتین چاہییں اور دوسری جانب آئیڈئلزم کا شکار وہی ڈائجسٹس کی دنیا میں بیٹھی بی۔بی کا خاکہ پیش کیا جارہا ہے۔اور جو خواتین گھر ہی میں چھوٹے یونٹس پر کام کاج کررہی ہیں  یا آنلائن جابز کرتی ہیں وہ فراہم کردہ "مثالی خاکہ" کیسے فالو کریں۔یہ بتانا بھول گئے۔معاشی دباؤ کے اعشاریہ کو سمجھتے ہیں یا پھر مراۃ العروس کی اصغری/اکبری کی تقسیم سے باہر نکلنے پر طبیعت مائل نہیں ہورہی؟
سوالات بڑھے تو کتاب خرید کر خود مطالعہ کرنے کا خیال آیا۔معلوم ہوا کہ "راولپنڈی میں ڈسٹریبیوٹرز  کو انگلش میڈیم ہوم اکنامکس ابھی تک گزشتہ برس والی ہی مہیا کی جارہی ہے اور  کل ہی دو سو کاپیاں فروخت ہوئی ہیں۔پنجاب حکومت اس برس بھی بروقت چھپائی اور ترسیل کا کام وقت پر نبٹا نہیں سکی۔" لیکن مزید تحقیق کرنے پر معاملہ برعکس دکھائی دیا کہ ان لوگوں کے پاس گزشتہ برسوں کی انگریزی ہوم اکنامکس کی کتب بڑی  تعداد میں پڑی تھیں لہذا  اس سال نئی خریدنے کا تردد ہی نہیں کیا ۔لاہور میں نیا نصاب ہی فروخت ہورہا ہے جبکہ دیگر اضلاع کی صورتحال واضح نہیں ہوسکی۔
اس برس نہ صرف نصاب میں واضح تبدیلی کی گئی ہے بلکہ مصنفین تک کو تبدیل کیا گیا جو کئی دہائیوں سے اچار ڈالنے،حلوے پکانے اور سبزیاں سُکھانے پر قادر تھیں۔ وقت کے تقاضوں سے ہم آہنگ ہونے کے لیے دسویں جماعت میں پڑھائے جانے والے موضوعات آٹھویں میں لائے گئے ہیں۔کُل گیارہ یونٹس میں منقسم درسی کتاب میں پہلی دفعہ ہوم اکنامکس کا تعارف اور اغراض و مقاصد بیان کرتے ہوئے غذا غذائیت ، تصورِ ذات ، شخصیت کی نشونما ، رنگوں کی افادیت اور ذرائع و وسائل کا انتظام جیسے موضوعات کو شامل کیا گیا ہے۔ورنہ تو آغاز ہی قورمہ کی افادیت اور اجزائے ترکیبی سے ہوا کرتا تھا۔اس برس آٹھویں جماعت کی طالبہ کو سوجی بھوننے اور مچھلی ٹانکے کاڑھنے سے نجات  مل گئی ہے۔ ورنہ تو خانہ داری کے نام پر سرکاری سکولوں کی استانیاں امتحانات اور ہفتہ وار ٹیسٹوں کے علاوہ بھی ہر مہینے سٹاف روم میں  اچھی خاصی ضیافت  کا بند وبست کروا لیا کرتی تھیں۔ مجموعی طور پر یہ اچھا تاثر دیتی تبدیلی ہے سوائے اس نام نہاد مثالی خاکے  کے جو کہ متوسط گھرانے میں کس شرح سےمستعمل ہے وہ شاید مصنفہ خود بھی نہیں جانتی ہوں گی۔
اچھنبے کی بات یہ ہے کہ انگریزی میڈیم  آٹھویں جماعت میں پڑھتی طالبہ کی کتاب تین حصوں میں تقسیم ہے : پکوان ، صحت و صفائی اور سلائی کڑھائی جبکہ تیسرے حصے میں خاندان میں رہتے دھلائی ، کپڑوں سے داغ دھبے اتارنا اور گھریلو بجٹ بنانا شامل ہے نیز کاغذ کے پھول بنانے بھی سِکھائے گئے ہیں۔یہاں معاملہ گھمبیر یوں ہے کہ پورے راولپنڈی ڈویژن میں یہی متروک نصاب انگریزی میڈیم میں پڑھا پڑھایا جارہا ہے ۔یاد رہے کہ گزشتہ برس پہلی دفعہ میٹرک کی طالبات ہوم اکنامکس میں اس بڑی تعداد میں فیل ہوئیں جس کی وجہ یہ رہی کہ پرچہ اس نصاب کا تھا جو بروقت طالبات کی رسائی میں نہ آسکا۔ہم یہاں ایک مثالی خاکے کو لے کر جذباتی ہوئے بیٹھے تھے اور کتاب خریدنے گئے تو مسئلہ شیطان کی آنت کی طرح بڑھتا ہی چلا گیا۔ذہن میں خاکہ تو یہ بنایا تھا کہ خوب لتاڑا جائے اس شیڈول  کا تصور و ترویج کرنے والوں کو لیکن یہاں تو ایک بڑی تعداد آج بھی چٹنی مربے بناتے براؤن پیپر کے شلوار کُرتے کاٹ رہی ہے۔اب فکر یہ کیجیے کہ بورڈ کےامتحانات میں بیٹھنے والی طالبات کو پرچہ کون سے نصاب کا آئے گا یا پھر کچھ ڈویژنز کے لیے دونوں میڈیمز کے لیے الگ الگ پرچہ مرتب ہوگا۔

منگل، 1 نومبر، 2016

رسی سوٹی کا کھیل

(باقاعدہ آغاز سےقبل یہ وضاحت ضروری ہے کہ یہ فِکشن سے بھرپور تحریر ہے جس میں کہیں بھی کسی چوپائے ، مالک ،خدمت گار یا منظر کو بطور استعارہ استعمال نہیں کیا گیا۔اور کسی قسم کی مماثلت محض اتفاقی ہوگی۔)

یہ قصہ ہے ریاست سفاکستان  کا۔یہاں ہفتہ وار بنیادوں پر مختلف میلےٹھیلے کا اہتمام ہوتا ہے ۔اگر کوئی کرتب اپنے دیکھنے والوں میں مقبولیت کے پنجے گاڑ لے تو پھر معاملہ ہفتوں سے مہینوں بلکہ برسوں میں بھی بدل جاتا ہے۔حتیٰ کہ تماش بینوں کا دِل اوب جائے تو انتظامیہ کوئی نیا میلہ ، نئے تنبو قنات اور بظاہر نئے مداریوں کے ساتھ میدان میں لانے پر مجبور ہوجاتی ہے۔ یہاں ہم انہی میں سے کچھ "کھیل تماشے" کا حال بیان کریں گے۔
کچھ ماہ بہترین اور مقوی خوراک کھلا کر مرغے تگڑے کیے جاتےہیں ۔تیل مالش ہوتی ہے اور پھر مقررہ دن فریقین اپنے پٹھے میدان میں لے آتےہیں۔چونچ اور پنجوں کے وار تب تک جاری رہتے ہیں جب تک کہ کوئی ایک دوسرے کو زخمی کرکے نڈھال نہ کردے۔بعض اوقات تو جان سے جاتے ہیں۔ اناؤں کی جنگ زیادہ ہو تو مالکان میں گولیوں کا تبادلہ بھی ہوجاتا ہے۔کوئی مارا جائے تو کچھ روز شور شرابے کے بعد کھیل کا حصہ سمجھ کر اگلے مقابلے کی تیاری شروع کردی جاتی ہے۔
دوسرے ہفتے اس ریاست میں سجنے والے میلے میں دو کتے لڑوائے جاتے ہیں۔ان کی بھی خوب خدمت اور خوراک پر محنت کرکے لاکھوں کے جوئے کے لیے تیار کیا جاتا ہے۔کتوں کے خدمت گزاروں اور مالکوں کے علاوہ شوقین افراد اور تماش بین کھلے میدان میں اکٹھے ہوتے ہیں اور دو تنومند جانوروں کو ایک دوسرے پر چھپٹتا دیکھتے ہیں۔فیصلہ کسی ایک وفادار کو قریب المرگ  کرکے ہی ہوتا ہے یا پھر زخموں کی تاب نہ لاتے کچھ کتے بھاگ بھی جاتے ہیں۔ہارنے والا فریق عموماً موقع پر ہی اپنے وفادار پالتو کو گولی مار کر ہار کی ٹیس مٹانے کی کوشش کرتا ہے۔
پھر سجتا ہے بیل جوڑی کا مقابلہ۔۔۔کچی زمین میں گڑھا کھودا جاتا ہے جس میں بیلوں کی آنکھوں میں لال مرچیں جھونک کر کھونٹے سے باندھ دیا جاتا ہے۔مقررہ وقت میں جس جوڑی نے زیادہ چکر کاٹے وہی فاتح۔مزید تیزی لانے کے لیے شادی بیاہ میں استعمال ہونے والے پٹاخے بھی دُم کے ساتھ باندھے جاتے ہیں۔پٹاخے چلتےہیں تو بیل ڈر کر مزید تیز بھاگتے ہیں۔
یونہی خرگوش کتے کی ریس بھی باذوق حضرات میں مقبول مشغلہ بن چکا ہے۔چٹیل میدان میں خرگوش کو بھگا کر اس کے پیچھے خونخوار شکاری کتے چھوڑ دیے جاتے ہیں۔چونکہ چُھپنے یا زمین کھود کر بچنے کی کوئی صورت نہیں ہوتی لہذا جو کتا پہلے اپنے جبڑے میں خرگوش کو جکڑتا ہے وہی فاتح قرار دیا جاتا ہے۔
اس دوران کتا ریس، بیل دوڑ ، گھوڑ دوڑ وغیرہ کا انعقاد بھی ہوتا رہتا ہے۔لیکن کچھ عرصہ ہوا گھوڑ دوڑ میں جوکی کو خچر اور گھوڑے کے مابین پہچان میں خاصی دقت کا سامنا ہورہا ہے۔بہرحال ہم تذکرہ کررہے تھے مارو یا مرجاؤ قسم کے مقابلوں کا۔وقت کے ساتھ اس ریاست میں خون خرابوں سے مزین کرتب زیادہ توجہ لینے کے باعث مقبولیت کے تمام گزشتہ ریکارڈز توڑنے لگے تھے۔لہذا مالکان اور خدمت گزاروں کی زیادہ توجہ انہی کی ترویج پر مبذول کرنا مجبوری ٹہری۔
کچھ باکمال مداری ایک ہی وقت میں بندر ، کتا، بکرا اور ریچھ پالتے ہیں۔ان کو سَدھاتے ہیں۔نفسیاتی حربوں کے طور پر چھریوں سے ڈرا کر اور بعض اوقات بندر کے سامنے بکرے کی درگت بنا کر بلکہ ذبح کرکے بندر کو ایسا سہما دیتے ہیں کہ وہ تمام عمر مداری کے اشاروں کو سمجھ کر گھومتی رسی اور سوٹی کے سامنے تماش بینوں کو رجھانے پر لگ جاتا ہے۔بین پر تھوتھنی پر خول چڑھائے ریچھ ناچتا ہے تو مُڑے ہوئے لانبے سینگوں والا بکرا ایک کے اوپر ایک تین پائے پر چڑھ کر دکھاتا ہے۔ایسے میں کوئی این۔جی۔او، ریاستی قانون یا "جانوروں کے حقوق" سے متعلق بین الاقوامی ادارے نہیں پوچھتے کیونکہ یہ سب کھیل تو ریاست سفاکستان کی "ثقافت و روایات" کا حصہ بن چکے ہیں۔کھیل ختم ہوتا ہے تو تماش بین گھر سے آٹا لاتے ہیں اور تالیاں بجاتے جیب سے کچھ رقم بھی نکال کر تھما دیتے ہیں۔بعض اوقات بعد میں معلوم ہوتا ہے کہ کسی جیب کترے نے پوری جیب پر ہی بلیڈ مارلیا۔
سفاکستان میں ہمالین بھورے ریچھوں کی نسل سنا ہے ناپید ہوتی جارہی ہے۔انہیں بین پر نچانے کے علاوہ ریچھ کتا لڑائی میں استعمال کیا جاتا رہا ہے۔ مالکان کو موٹی رقوم تھمانے کی بجائے متبادل روزگار فراہم کرکے دوسرے ذرائع سے کمانے کی جانب راغب کیا جارہا ہے۔چونکہ اس نایاب نسل کو بچانے کے مقصد میں بیرون ممالک کی تنظیمیں حصہ ڈال رہی ہیں لہذا بازیاب زخمی ریچھوں کی سرجری وغیرہ کے لیے بھی انہی سے مدد لی جاتی ہے۔مالکان بالغ ریچھوں کی آنکھیں، دانت نکال کر اور پنجوں کے ناخن کتر کر ان سے فطری دفاعی صلاحیت چھین لیتے ہیں۔ دو کتے کھلے میدان میں خود سے کئی گنا بڑی جسامت والے کھونٹے سے بندھے ریچھ پر جھپٹ کر اس کی تھوتھنی بھنبھوڑ ڈالتے ہیں۔دوسرے راؤنڈ میں تازہ دم کتوں کی جوڑی پھر چھوڑی جاتی ہے۔۔اب یہ اندھے ریچھ کی مہارت یا قسمت  ہے کہ وہ کسی کتے کے اوپر بیٹھ جائے یا اپنے بازؤں میں جکڑ کر بے بس کردے۔ایسے میں مالکان آگے بڑھتے ہیں اور اپنا کتا گھسیٹ کر باہر لے جاتے ہیں۔سنا ہے کہ پہلے ایسی لڑائیوں کے واقعات بہت رپورٹ ہوتے تھے لیکن بتدریج کمی آرہی ہے۔
آخر میں ذکر کرتے ہیں اونٹ ریس کا۔مالک کی طاقت اور امارت کا تخمینہ عموماً اس کی ملکیت میں اونٹوں کی تعداد سے لگایا جاتا ہے۔اونٹوں کو شہد،دودھ،گھی مکھن اور جوس دودھ پر پالا جاتا ہے۔موسم کی مناسبت سے دیکھ بھال ہوتی ہے۔صحرا میں نکالنے سے قبل ان کے منہ پر حفاظتی جالی لگائی جاتی ہے تاکہ غیر معیاری خوراک پر منہ نہ ماریں۔اعلیٰ رہائش،بہترین ماحول ، خوشبویات سے غسل اور ڈاکٹر و ادویات کی سہولیات فراہم کی جاتی ہے۔ان اونٹوں کے خدمت گاروں کو اچھا معاوضہ ملتا ہے۔ ریس کے انعقاد سے قبل سفاکستان میں اونٹ ریس کے لیے جون سے اکتوبر تک تربیتی سیشن ہوتا ہے۔ غربت و مجبوریوں میں پِسے علاقوں سے بچوں کو بطور جوکی لایا جاتا ہے۔ کچھ علاقوں کے ستر تو کہیں نوے فیصد کم عمر بچے جوکی بننے جاچکے ہیں۔جِن کے والدین سمجھتے ہیں کہ بچہ بڑی جگہ پر ملازم ہوجائے گا تو حالات سدھریں گے۔ ریاست توجہ دے گی اور نظام کا حصہ بنا لیے جائیں گے۔ان بچوں کو اونٹ کے ساتھ باندھ دیا جاتا ہے۔اب بچہ جتنا چیخے چلائے گا مالک کا اونٹ اتنا ہی تیز بھاگے گا۔دو جانور ٹکرا جانے پر بچہ زخمی ہو ،عمر بھر کے لیے معذور یا پھر جان سے جائے یہ اس کی اور لواحقین کی قسمت۔مالکان کی بڑے نقصان سے بچت ہی رہتی ہے۔کیونکہ جب یہ نر اونٹ دوڑ کے قابل نہیں رہتے تو اصطبل میں افزائشِ نسل کے کام آنے لگتے ہیں۔
مالک اور پالتو جانور کا سارا کھیل جِن تماش بینوں کے لیے ہوتا ہے انہی میں سے اکثریت آہیں بھرتی کوشاں رہتی ہے کہ کسی طرح خدمت گاری کا موقع اور پکی نوکری مِل جائے۔پنجابی مقولے کے مطابق ساری عمر دیاں روٹیاں تے مالکاں دی چھتر چھایا۔
اس تمام کھیل تماشے کے دوران سفاکستان میں ایک صدا گونجتی رہتی ہے۔۔۔

"اللہ والیو سَکھایا اے ، بندہ نئیں مَندا ، جانور من جاندا اے۔ رسی نہ ہووے ، سوٹی نہ ہوے تے جانور کدے نئیں مَن دا۔۔۔"

جمعرات، 13 اکتوبر، 2016

شور سئرل کی خبرکا نہیں

معاملے کا سرا کہاں سے شروع ہوتا ہے یہ الجھن سلجھانے میں مکمل ناکامی کے بعد گڈ مڈ یاداشت کو کھنگالنے بیٹھوں تو دسمبر 1981ء میں آمریت کے دور میں لایا گیا آرڈیننس بتاتا ہے کہ کون سی وجوہات کی بنا پر آپ ایگزٹ فرام پاکستان (کنٹرول) لسٹ میں نام درج کروا سکتے ہیں
1: کرپشن ، طاقت کا غلط استعمال ،حکومتی فنڈز یا پراپرٹی کو نقصان پہنچانے والا
2: حکومتی ملازم جو معاشی بدعنوانی میں ملوث ہو
3: دھشتگردی یا سازش میں ملوث مجرم
4: دس ملین یا اس سے زیادہ کے ٹیکس نادھندگان
5:وہ لوگ جن کے بارے رجسٹرار، ہائی کورٹ /سپریم کورٹ اور بینکنگ کورٹس حکم دیں
6: منشیات فروش

اب ڈان نیوز سے وابستہ سئرل المیڈا ان میں سے کون سے جرم کے مرتکب ہوئے ہیں وہ سمجھنے کے لیے اس ہفتے میں پیش آنے والے واقعات وحالات کے علاوہ ان کی نیوز اسٹوریز کو جانچنا پڑے گا۔لیکن اس سے پہلے رواں برس ستمبر کے درمیانی ہفتے میں وزیرِ داخلہ کی جانب سے جاری کردہ ای۔سی۔ایل کی نئی پالیسی کا بیان بھی یاد کرلیجیےگا۔ جِس میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ آئیندہ صرف عسکری و انٹیلیجنس اداروں اور عدلیہ کے احکامات پر کسی شخص کو ای۔سی۔ایل میں ڈالا جائے گا اور مذکورہ شخص کو باقاعدہ نوٹس کے ذریعے اطلاع دی جائے گی۔لیکن اس سے  پہلے 18 اگست 2016ء  کو جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی میں عدالتِ عظمیٰ کے تین رکنی بینچ کا فیصلہ ہم سب کیوں بھول رہے ہیں ؟ گابا پروپرائٹرز و دیگر بنام حکومتِ پاکستان ۔۔۔ فیصلے میں وفاق، وفاقی حکومت اور اس کی ایگزیکٹو اتھارٹی کی توضیح کی گئی۔ وفاقی حکومت کو کیبنٹ کے اجتماعی وجود کے طور پر بیان کیا گیا ہے۔جو کہ وزیرِاعظم اور وفاقی وزراء کے ساتھ قیام میں آتی ہے۔ کیبنٹ کی مشاورت کے بنا جاری کیا گیا کوئی بھی آرڈینینس غیرقانونی ہوگا۔اس سلسلے میں کوئی ایک وزیر یا صرف وزیرِ اعظم انفرادی حیثیت میں کسی قسم کا ایکشن لیں گے تو وہ اختیارات سے تجاوز قرار دیا جائے گا۔ سئرل کے کیس میں وزیرِ داخلہ نے (مبینہ طور پر)  اکیلے ہی فیصلہ کیا جو کہ ایگزٹ فرام پاکستان (کنٹرول) آرڈینینس 1981ء کے سیکشن  2  کے مطابق وفاقی حکومت کا اختیار ہے۔۔۔ جی ہاں وفاقی حکومت جِس کی تشریح سپریم کورٹ نے رواں برس اگست کے مہینے میں کی ہے۔ گستاخی معاف جنابِ والا آپ نے یہ حکم انفرادی حیثیت میں صادر فرما کر نہ صرف غیر قانونی کام کیا ہے بلکہ سپریم کورٹ کے فیصلے کی بھی خلاف ورزی کی ہے۔یا پھر بتایے کہ کِس انٹیلیجنس ادارے نے سفارش کی ہے ای۔سی۔ایل کی اور کونسی بنیادوں پر؟

6
اکتوبر  کی صبح ڈان اخبار میں محترم سئرل ا لمیڈا کی ایک نیوز سٹوری نے ایسا پریشان کیا ہے کہ اب تک چار دفعہ تردید اور "سخت نوٹس" کے منظرِ عام پر آ چکے ہیں۔سوال یہ ہے کہ آخر اس خبر میں ایسا کیا نیا تھا جو اتنا شور ہے؟ دو ملاقاتیں ؟ بین الاقوامی سطح پر بڑھتی تنہائی نئی خبر تھی ؟ صوبائی ایپکس کمیٹیوں اور آئی۔ایس۔آئی سیکٹر کمانڈرز کے لیے پیغام لے کر جانا ؟  اگر انکار ہے تو کیا ڈی۔جی رضوان اختر صاحب نے بین الصوبائی دوروں کے پہلے مرحلے پر رپورٹ کے مطابق لاہور کا دورہ نہیں کیا؟ ہم کیا واقعی اتنے معصوم ہیں کہ ایک زمانے تک اثاثوں کے نام پر پالے جانے والوں کے نام اور ریاستی پالیسی کے نام پر کفالت کرنے والوں کو نہیں جانتے؟
فارن سیکرٹری کی پریزنٹیشن کے دونوں نکات سے انکار ہے جو امریکہ سے تعلقات میں بگاڑ کی وجہ حقانی نیٹ ورک اور بھارت سے معاملات کے متعلق پٹھانکوٹ حملہ کی تحقیقات میں جیشِ محمد کے خلاف کاروائی کا مطالبہ کیا گیا ؟ کون نہیں جانتا کہ بین الاقوامی سطح سے پاکستان پر مسعود اظہر ، حافظ سعید، جیش محمد، لشکرِ طیبہ اور حقانی نیٹ کے خلاف بلا امتیاز کاروائی کا کِس قدر دباؤ ہے۔اچھا تو پھر ایسا کیا انوکھا بیان کر بیٹھا سئرل جو کہ بقول محبانِ وطن سول-ملٹری قیادت کو لڑوانے کی سازش ہے ؟
جب ڈی۔جی آئی۔ایس۔آئی نے کہا کہ جِس کے خلاف مرضی کاروائی کیجیے۔تو شاید طبعِ نازک پر گراں گزرنے والی سطور وہ ہیں جن میں وزیرِاعلیٰ پنجاب کی تلخ لہجہ بیان کیا گیا ہے۔یا پھر وہ الفاظ کہ سول ادارے جب کاروائی کرتے ہیں تو سیکیورٹی اسٹیبلشمنٹ ان کی رہائی میں کردار ادا کردیتی ہے۔ویسے شہباز شریف صاحب کا ٹریک ریکارڈ دیکھا جائے تو ان کی شعلہ بیانی عوامی اجتماعات ہی کی رونق ہوا کرتی ہے۔بوائز سے تعلقات کی خرابی وہ اور ہمارے چوہدری نثار صاحب ایک حد سے زیادہ بڑھنے نہیں دیتے۔تو پھر اعتراض یا تردید کِس بات کی ہے ؟ اس کاروائی کے مطالبے اور عمل کی ٹائمنگ کا مسئلہ درپیش ہے کیا ؟ جی ہاں یہ امپریشن اچھا نہیں جاتا۔اس کی تو ٹھیک ٹھاک تردید بلکہ درگت بننی چاہیے۔ سوال تو اب یہ بھی ہے کہ چین کو مسعود اظہر میں کیا جانثاری بھا رہی ہے ؟ اس بارے سوال کی اجازت ہوگی اور نہ ہی مستقبل میں ریاستی پالیسی بتائے جانے کا امکان ہے۔
جبکہ سوچنا تو یہ بھی چاہتی ہوں کہ کچھ روز حکومتی ایم۔این۔اے رانا محمد افضل نے جو الفاظ حافظ سعید کے لیے استعمال کیے ان پر کوئی اظہارِ لاتعلقی یا تردید کیوں نہیں آئی۔ کیا وہ بیان انفرادی حیثیت میں دے دیا گیا؟ نا کریں جناب۔یہ 2016ء ہے اور آپ کا دعویٰ ہے کہ وطنِ عزیز میں اب جمہوریت ہوا کرتی ہے۔
ایک رپورٹر یا صحافی کا کام خبر نکلوانا اور مؤثر اسلوب سے عوام تک پہنچانا ہوتا ہے۔ذرائع اس کی اولاد کی مانند ہوتے ہیں۔وہ اس کی حفاظت آخری دم تک کرے گا۔آپ لاکھ پوچھتے رہیے پتہ نہیں بتائے گا۔یا تو کہہ دیجیے کہ گُڈ طالبان بیڈ طالبان کی طرح اب حلال سورسز ، حرام سورسز کا رواج
ہے عسکری ادارے اور حکومت کیا چاہتے ہں کہ جو وہ بتائیں بس وہی خبر بنا کر لگادی جائے ؟ صحافی اور صحافت ان کے تعینات کردہ ڈاکیے ہیں کہ عوام تک ان کا من بھاتا پیغام پہنچاتے رہیں ؟ کبھی لادن کے انٹرویوز کے لیے صحافیوں کا انتخاب کیا گیا تو کبھی ایبٹ آباد ہوجائے تو پرائم ٹائم میں ہونے والے کچھ شوز حلال سورسز کی ٹِپ پر اجتماعی ذہن سازی کرتے رہے۔بھارتی رپورٹر کو ریاستی مقصد کے تحت ڈاکٹر قدیر کا انٹرویو بھی جائز۔دھرنا 2014ء کے دوران ٹی۔وی سکرینوں پر وٹس ایپ ذرائع صحافت کی ہیجان خیزی آزادئ اظہار۔آیان علی پر حاملہ ہونے کی تہمت اور اس سلسلے میں سابق صدر پر کیچڑ اچھالنے پر بھی کوئی کاروائی نہیں۔اقتصادی راہداری کو متنازعہ بنا کر اجتماعی ذہن سازی کرنے والے بھی آزاد۔
حیرت تو یہ بھی ہے کہ
9 اکتوبر کو ڈان اخبار میں سئرل المیڈا کی دوسری تحریر پر قطعاً خاموشی اختیار کی گئی ہے۔جب کہ وہ گستاخیوں سے بھری سٹوری تھی۔ جس میں خارجہ پالیسی کو چھیننے سے لے کر افغانستان،ایران اور بھارت کے ساتھ محاذ کھول کر "شاندار" کامیابیاں سمیٹنے کا تذکرہ بھی تھا۔
سئرل المیڈا ہماری مانیں تو چھوڑیں اس بحث کو بھی اور بس پرویز مشرف سے فوری رابطہ کرکے ای۔سی۔ایل سے جُڑے رموز و اوقاف سمجھ لیں کیونکہ کہنے والے کہتے ہیں کہ نطر بندی بھی پیش خیمہ ہوسکتی ہے۔ واللہ العلم بالصواب

جمعرات، 29 ستمبر، 2016

خدا کہیں تمہیں اپنی تاریخ نہ بھلا دے

رچنا دو آب ، دو دریاؤں راوی اور چناب کے بیچ آباد یہ علاقہ دُلا بھٹی اور بھگت سنگھ جیسے سپوتوں کا وارث ہے۔ایک لوک راج  کا بانی اور دوسرا وہ جو کسی مخصوص مذہب، رنگ اور نسل کے لیے نہیں بلکہ مٹی سے جُڑے رشتوں اور اپنے ہم وطنوں کو غلامی سے اوپر اُٹھنے کا سبق دیتا "انقلاب زندہ باد" کا نعرہ لگاتا سولی چڑھ گیا۔۔۔بہرحال ہم نے اِن دونوں ہی کو فراموش کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔کسی کو لُٹیرا کہہ دیا اور کسی کے نام کے ساتھ لگا  سنگھ  تحریکِ آزادی میں اس کی حصہ داری مشکوک بنا گیا۔ایک روایت بن گئی ہے کہ تحریکِ آزادی سے منسلک ہر کارکن کو اپنی وابستگیوں کے پلڑے میں تول کر تضحیک کرنے یا دیوتا بنا دینے کا فیصلہ ہو۔
 دو ہزار بارہ میں حکومتِ پنجاب پاکستان نےماضی میں  لاہور جیل کا حصہ (پھانسی گھاٹ) رہنے والے شادمان چوک کا نام بھگت سِنگھ کے نام سے منسوب کرنے کا حکم جاری کیا۔کیونکہ یہی وہ مقام ہے جہاں بھگت سِنگھ کو اس کے ساتھیوں راج گرو اور سُکھ دیو کے ساتھ پھانسی دی گئی۔کیا ہی کمال نظامِ بدمعاشی ہے اس ریاست میں کہ جہاں نام نہاد پُرامن احتجاج کرکے جماعت الدعوہ نے صوبائی حکومت کو چند ہی گھنٹوں میں یہ فیصلہ واپس لینے پر مجبور کردیا۔معاملہ یہ بھی اب عدالت کے سپرد ہے ۔ کیونکہ اُن کے نزدیک صوبائی حکومت کا یہ فیصلہ "نظریہ پاکستان" کی اساس کے مخالف ہے۔۔۔نظریہ پاکستان ہے کیا اس بارے آپ کو مکمل رہنمائی صرف جماعت الدعوہ ہی سے مِل سکتی ہے۔خود کو پریشانی اور اپنی زندگی کو گرانی میں ڈالنے سے پرہیز کیجیے۔
خدا جانے اپنی زمین کی روایات، ثقافت اور قربانی کی داستانوں کی قدردانی کا خیال تھا یا شادمان چوک کے فیصلے کی خفت مٹانے کی کوشش ،بہرحال دو ہزار چودہ میں پنجاب حکومت نے ایک سو پانچ گ۔ب ونگھے،لائل پور (فیصل آباد) میں موجود حویلی کو بھگت سنگھ کی یادگار اور قومی ورثہ کا درجہ دے کر آٹھ کروڑ روپے مختص  کردیے۔ یہاں دو کمروں پر مشتمل اس یادگار کی دیکھ بھال ، میوزیم اور بحالی کا کام حکومت نے اپنے ذمے لے لیا ہے جبکہ اس حویلی کا مالک علاقے کا نام بنگہ سے بھگت پورہ کروانے کی درخواست عدالت میں لے جا چکا ہے۔

پاکستان میں حالیہ کچھ برسوں کے دوران سردار بھگت سنگھ پر دو دستاویزی فلمیں بن چکی ہیں۔اجوکا تھیٹر کی جانب سے پیش کیا جانے والا کھیل "رنگ دے بسنتی"  جبکہ "کیمرہ فار کاز" اور "تحیر وژؤل آرٹس" کے زیرِ اہتمام حفیظ چاچڑ اور زینب ڈار کی ہدایات و پروڈکشن میں بننے والی Indelible – Bhagat Singh اسی سلسے کی کڑیاں ہیں ۔اگست کے مہینے میں پاکستان نیشنل کونسل آف آرٹس اسلام آباد نے مؤخرالذکر بتیس منٹ کی ستاویزی فلم اور پینتالیس منٹ پر مشتمل ایک کھیل کی بکنگ پیش کیے جانے سے دو روز قبل منسوخ کردی۔مصدقہ اطلاعات کے مطابق حفیظ چاچڑ صاحب کو موصول ہونے والی ای۔میل میں مؤقف یہ اپنایا گیا تھا کہ چونکہ جشنِ آزادی کی تقریبات کا سلسلہ جاری ہے لہذا ان کی ڈاکیومنٹری اور کھیل کا موضوع ادارے کے قواعد وضوابط سے میل نہیں کھاتا۔ایک آہ نکلی کہ  کاش بھگت سنگھ کے ساتھ سولی چڑھنے والوں میں کوئی مسلمان بھی ہوتا تو ان تقریبات میں اس کی قربانی بڑھا چڑھا کر بیان کرنے اور اپنانے میں بہت سے ہاتھ گے آجاتے۔ بہرحال ڈیڑھ دو دن کی بھاگ دوڑ میں بِنا کسی سپانسرشپ کے زینب ڈار اور حفیظ چاچڑ  لوک ورثہ کے تعاون سے اوپن ایئر تھیٹر میں تیرہ اگست کی شام پنجاب کے اس عظیم سپوت کے نام سجانے میں کامیاب ہوگئے۔

مذکورہ دستاویزی فلم نے اِس پہلو کو چھونے کی کوشش کی ہے کہ ہماری آج کی نسل اور شادمان چوک کے گِرد آباد آزادی میں جیتے پاکستانی بھگت سنگھ کے نام ، جدوجہد اور اس کے کیس بارے کتنی آگہی رکھتے ہیں۔ایک ٹیس اٹھی دیکھ سُن کر۔۔۔"چوھدری رحمت علی چوک" کا بورڈ لگانے پر شاداں ایک دکاندرا کا فرمانا ہے کہ "ایک سِکھ کے نام پر ہم کیوں رکھیں چوک کا نام؟ چوھدری رحمت علی ہمارے قومی شاعر ہیں۔ہم نے بورڈ لگادیا ہے۔یہ کسی اور جگہ جا کر شوق پورا کریں۔" اسی دستاویزی فلم میں ایک مولوی صاحب نرخرے پر اضافی بوجھ ڈالے اپنے علم کے بےپایاں سمندر میں غوطہ زن ہیں اور ریفرینڈم کے ذریعے چوک کے نام کا حل سُجھاتے یہ بھی بتاتے ہیں کہ "جب کیس ہی غلط تھا۔ بھگت سنگھ نے جِس انگریز کو مارنا تھا اس کی غلط فہمی میں کسی اور کو ماردیا تو پھر کیسی قربانی اور شہادت؟" صاحب سِول سوسائٹی سے بھی نالاں ہیں کہ موم بتیاں کیوں جلاتے ہیں؟ ہنگامے کا الزام لگا کر مزید انکشاف کیا کہ اہلِ علاقہ کو پریشان کیا جاتا ہے۔۔۔ اب کوئی ان اصحابِ عقل و دانش سے یہ دریافت نہیں کرسکتا کہ گلاب دیوی اور سر گنگا رام کے ناموں سے منسوب ہسپتالوں کو کب مشرف بہ اسلام کرنے کا ارادہ ہے؟ لائل پور کو تو الحمدللہ زمانہ ہوگیا اب مسلمان ہوئے۔
دستاویزی فلم میں سانول ڈھلوں کی آواز میں ایک کلام ہے ۔جِس کے بول کچھ یوں ہیں
بھگت سنگھ جیہے ویر دیاں سب دیس نوں لوڑاں نیں ۔۔۔
سادہ مگر پُراثر آواز و الفاظ ہیں۔
کھیل میں بھگت سِنگھ کی روح کو اپنی جنم بھومی اور شادمان چوک میں گھومتے دکھایا گیا ہے۔کاٹ دار جملوں میں ایسی روانی ہے کہ جیسے مکھن میں چھری چلتی جائے۔مایوس بھگت کو آخر میں ایک بچہ ،جو امید کی کرن کا استعارہ ہے، پہچان لیتا ہے اور حاضرین کو تاریخ کا درست رُخ پڑھنے کا اشارہ کرتا ہے۔
زینب ڈار کھیل کے اختتام پر کچھ ساتھیوں کے ہمراہ "ہم جو تاریک راہوں میں مارے گئے" پر بھرت ناٹیئم کرتی دکھائی دیں۔ تمام کھیل کو اِس پاور فُل انداز میں سمیٹا گیا ہے کہ مہارت کی داد نہ دینا بد دیانتی ہوگی۔
 کھیل کے آغاز میں محترم عثمان قاضی کا جملہ آپ کو اپنی گرفت میں لے لیتا ہے۔وہ کہتے ہیں کہ بلوچ زبان میں کسی کو بددعا دینی ہو تو کہا جاتا ہے "خدا تمہیں تمہاری تاریخ بھلا دے۔" دماغ پر ہتھوڑے کی طرح برستا یہ فقرہ مجھے بہت ہفتوں سے پریشان کیے ہوئے ہے۔متحمل مزاج عثمان قاضی کی پسِ پردہ آواز اور کچھ مصرعے یہ کھیل دیکھنے والے کو جھنجھوڑ ہی تو ڈالتے ہیں۔
ضرورت ہے کہ اپنی مٹی سے جُڑے لوگوں کی جدو جہد ، اس دھرتی کی ثقافت اور ست رنگ داستانوں کو اگلی نسل تک درست طریقے سے پہنچایا جائے۔معاشرے کو لسانیت،علاقوں اور رنگ نسل کی تقسیم در تقسیم اشتعالی کیفیت سے نکالنا ہے تو آگے بڑھنے والوں کا راستہ مت کاٹیے۔
یہاں یہ بات یاد رہے کہ لاہور ہائیکورٹ میں ایک وکیل امتیاز قریشی  نے بھگت سنگھ اور ساتھیوں کی پھانسی کا کیس ری۔اوپن کروا کر ان کی بے گناہی ثابت کرنے کا بیڑا اٹھا رکھا ہے۔ہائیکورٹ کی ویب سائٹ کے مطابق اس معاملے کی آخری سماعت اسی برس مارچ کی تین تاریخ کو ہوئی تھی۔
گزشتہ روز سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر بہت سے سیاسی اور گروہی ٹرینڈز فہرست میں دیکھنے کو ملے۔لیکن بھگت سنگھ کو جب اکثریت جانتی ہی نہیں تو وہ لوگ جو کسی کی بھینس کے ہاں کَٹی پیدا ہونے پر بھی ٹرینڈ چلا دیتے ہیں ، وہ بیچارے کس طرح وقت اور مواد نکالتے جو ھیش ٹیگ میں ھیپی برتھ ڈے بھگت سنگھ لکھ کر گھومایا پھرایا جاتا ۔خیر ، ہر سال تیئس مارچ کو بھگت سنگھ کی حویلی پر ایک  میلے کا انعقاد ہوتا ہے۔یہ ان کی پھانسی کی تاریخ ہے۔ابھی جِس وقت میں اپنی یاداشت ٹٹول کر یہ سطور گھسیٹ رہی ہوں تو کچھ تصاویر دیکھنے کو ملیں جو کہ بھگت کی سالگرہ کے موقع پر ایک میلہ نما تقریب کی ہیں۔اٹھائیس ستمبر ان کا جنم دن ہے اور مٹی کی خوشبو میں بسے کچھ لوگ کوشش کرکے اس دن کو لائلپور میں منا ہی لیتے ہیں۔منقسم محبت اور نفرتوں سے دور یہ لوگ ہمیشہ آباد رہیں۔
خدا ہمیں ہماری تاریخ بھولنے نہ دے۔

جمعہ، 26 اگست، 2016

سیاسی حرکیات اور کراچی



عمر گزر گئی ایک ہی رٹا رٹایا جواب سنتے "اماں چھوڑو۔ تم کیا جانو ۔کراچی کی سیاسی ڈائنامِکس مختلف ہیں۔"اور یہ کہنے والے اسی ملک کے باسی کہلواتے ہیں جہاں ہر سو کلومیٹر میں دو بار لوگوں کی بولی ، پکوانوں کے نام و لذت ، خوشی و سوگ کی رسومات اور خاندانی روایات بدلتی ہیں۔ "پتہ کدو کا نہیں اور باتیں کراچی کی سیاست کی۔" ایسا کہنے والے آپ کو کشمیر سے لے کر پسرور تک کی گلی محلہ تھڑا سیاست پر تجزیہ دیتے پائے جائیں گے۔دفاعی معاملات میں تو ایسے تاک کہ بس پوچھیے مت۔کور کمانڈرز میٹنگ کا احوال یوں بیان کریں گے کہ مانو وہیں میز تلے گھسے کسی بوٹ میں تسمے پرو رہے تھے۔تو ایسے میں کراچی کی حالیہ صورتحال پر تصویر کے اِس کونے کا ویو دیکھتے ہمارا حصہ ڈالنا بنتا ہے۔
چھ روز سے اربن سندھ میں اپنی مضبوط جڑیں اور الگ پہچان رکھنے والی سیاسی جماعت متحدہ قومی موومنٹ بھوک ہڑتالی کیمپ لگائے بیٹھی تھی۔ان کے تحفظات میں کارکنان کی گرفتاریاں ، لاپتہ افراد اور ماورائے عدالت قتل کے علاوہ دیگر معاملات شامل تھے۔جمہوریت پسندوں کے لیے یہ بات خوش آئیند تھی کہ ایک جماعت جِس پر عرصہ دراز سے اسٹیبلشمنٹ کی ٹیم کا لیبل چسپاں تھا اب دھیرے دھیرے قومی دھارے میں ڈھنگ سے شامل ہوتے سیاسی جماعت کا روپ دھار رہی ہے اور شاید یہ جمہوریت ہی کا سفر ہے جو قائدِ حزبِ اختلاف خورشید شاہ صاحب نے اس ہڑتالی کیمپ کا دورہ کیا۔گزارشات و تحفظات سنے۔ وفاق میں برسرِ اقتدار جماعت کا وفد اس کیمپ میں پہنچا۔بائیس اگست کی صبح تک خبریں تھیں کہ وفاقی وزیرِ اطلاعات پرویز رشید صاحب وزیرِاعظم پاکستان کی خاص ہدایت پر ڈاکٹر فاروق ستار کی سربراہی میں آنے والے ایک وفد سے مِلے۔ دوسرا وفد وزیرِاعلیٰ سندھ سے ملاقات میں تحفظات بیان کرتا پایا گیا۔ اس ملاقات میں کنور نوید ، خواجہ اظہار الحسن ،سید سردار احمد ، نثار کھوڑو ، مولا بخش چانڈیو اور مرتضیٰ وہاب موجود تھے۔یعنی صوبائی و وفاقی حکومتیں مذاکرات کرنے اور تحفظات دور کرنے کی جانب سنجیدگی سے راغب تھیں۔ان تمام تر کاوشوں میں ایک سیاسی جماعت کی تکلیف سمجھنے کی راہ سجھائی دے رہی تھی کہ خبر آتی ہے کہ اس جماعت کے سربراہ نے ستاسی ہزارویں مرتبہ مستعفیٰ ہو کر کارکنان کی پُرزور اپیل پر خود  کو حسبِ روایت بحال کرلیا ہے۔بات یہاں تک رہتی تو عوام اہمیت نہ دیتے لیکن اُنہیں یہ کیا سوجھی۔۔۔
"پاکستان پوری دنیا کے لیے ایک ناسور ہے۔پاکستان دنیا کے لیے ایک عذاب ہے۔۔پاکستان دنیا کے لیے دھشتگردی کا ایک سینٹر ہے۔۔۔ پاکستان مردہ باد۔۔۔  بلال اکبر کو الٹا لٹکاؤں گا۔۔۔ اے۔آر۔وائے ، سماء اور جیو کو جا کر توڑا کیوں نہیں؟ "
اگرچہ ہم روزانہ
شام سات بجے سے رات بارہ بجے تک عوامی ووٹوں سے منتخب ہوکر آئے سیاستدانوں پر کیچڑ اچھالنے کا سرکس دیکھنے کے عادی ہوچکے ہیں۔ اس پرائم ٹائم منڈوے میں کوئی غدار ہے تو کوئی مودی کا یار ، فلاں ایجنٹ ہے تو ڈھمکاں کافر اور کچھ نہیں تو صدرِ مملکت کو حقارت سے "دہی بھلے بیچنے والا" یا پھر  کسی کو میٹر ریڈر ، منشی کا ٹیگ لگانا اب دانشوری اور تجزیہ نگاری کہلواتا ہے۔وہی گِنے چُنے چہرے اور وہی گھسے پِٹے موضوعات۔لیکن الطاف حسین صاحب نے تو ملکی "وقار"  کو لٹکانے کی بات کردی۔
پاکستان مردہ باد کا نعرہ آزادئ اظہار کے زمرے میں رکھیے لیکن یہ یاد رہے کہ سقوطِ ڈھاکہ ہو، ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی یا پھر  بینظیر بھٹو کی شہادت ۔ہر طرح کی تکلیف دہ صورتحال میں ریاست واسطے ایسے نفرت بھرے ٹیکے کسی نے نہیں لگائے تھے۔اور ایک نام نہاد معذرت نامہ جانے کِس نے جاری کروایا جِس کے چوبیس گھنٹوں کے اندر "صاحبَ کیفیت" بھارت سے معافی تلافی اور اسرائیل سے مدد کے طلبگار دکھائی دیے۔ مسئلہ واقعی جذب کی کیفیت کا معلوم ہوتا ہے۔بات بہرحال اپنے پیروکاروں کو تشدد پر اکسانے کی کرلیتے ہیں۔اگرچہ یہ کوشش نہ تو پہلی بار ہوئی اور نا ہی صرف اسی ایک سیاسی جماعت کا پلیٹ فارم اس مقصد کے لیے استعمال ہوا۔دو سال قبل اسلام آباد کے ریڈ زون کا سرکس یاد کیجیے۔جنگ اور جیو نیوز کے دفاتر پر پتھراؤ ، فیلڈ رپورٹرز کی ٹھکائی ، پانی کی بوتلیں پھینک کر خواتین رپورٹرز/اینکرز کو ہراساں کرنا۔ دو ہزار چودہ میں پارلیمنٹ ہاؤس کی دیوار اور گیٹ توڑا گیا ، عدالتِ عظمیٰ کے جنگلوں پر شلواریں ٹانگی گئیں ۔ یکم ستمبر دو ہزار چودہ کی صبح پی۔ٹی۔وی کی نشریات بند کروا کر دو  پریشر گروپس "فتح" کا اعلان کرنے کے منتظر تھے۔اور وہ  لیکڈ آڈیو تو یاد ہوگی "اچھا ہے اچھا ہے۔۔۔ہمیں دکھانا ہے کہ صورتحال ان کے قابو سے باہر ہے۔" اس سے بھی کہیں پہلے انیس سو نناوے کی ایک تصویر ہے جِس میں کچھ وردی والے اسی عمارت کا داخلی گیٹ پھلانگ کر شب خون مار رہے ہیں۔۔۔راستہ کِس نے دکھایا؟ روایت کِس نے ڈالی اور سزا کب کِس نے بھگتی؟ یہ سوالات پھر سہی۔ کیا ایم کیو ایم کی جانب سے بھی کسی نے  اعلان کیا یا دادِ شجاعت دی کہ ہمارے لوگ فلاں ٹی وی سٹیشن پر قابض ہوگئے ہیں؟ ایسا کیسے ممکن ہوا کہ اِدھر تقریر ہوئی اور اُدھر دس منٹ کے اندر مختلف سمتوں سے نقاب پوش ٹولیوں کی صورت اُمڈ آئے ؟ یہ تو فوٹیج میں  ایک نجی ٹی۔وی چینل پر خواتین ڈنڈے لہراتی توڑ پھور میں مصروف دکھائی دیں لیکن سڑکوں پر نقاب پوش کون تھے جو قومی پرچم جلاتے دیکھے گئے ؟ ایسی تنظیم وہ بھی آناً فاناً ، کمال ہے بھئی۔
معافی یا معذرت اگرچہ آدھا اقرارِ جرم ہوتا ہے۔ مصطفیٰ عزیز آبادی کا فوری ردِ عمل یہ تھا کہ "چند شیشے ٹوٹ گئے تو کیا قیامت آگئی۔ہمارے کارکنان شہید ہوئے وہ واپس نہیں آئیں گے۔" کیا کہنے اِس منطق کے اورآفرین ہے اس دفاعی صلاحیت پر۔
یہاں تک کی تمام قسط میں محسوس ہو رہا تھا کہ گھر کو آگ لگی گھر کے چراغ سے کے مصداق ایک کمیونٹی کو اون کرنے والی جماعت کے سربراہ نے "کیفیت"  کے عالم میں سب کچھ ختم کرڈالا ہے۔ لیکن بھلا ہو بھائی ٹھاکر کا کہ جِس طرح معزز اراکینِ قومی اسمبلی  کو دھکیل کر پریس کانفرنس سے قبل حراست میں لے کر گئے۔تو وہ آوازیں جو کچھ لمحے قبل تک قبیح نعروں اور تخریبی رویے پر لعن طعن میں مصروف تھیں انہیں موقع فراہم کردیا کہ اپنی جماعت اور کمیونٹی کے ساتھ غیرامتیازی سلوک پر واویلا مچائیں۔نائن زیرو کو سیل کرنا اور حیدرآباد تک کے دفاتر سیل/مسمار کردینے کا مقصد کیا ہے بھیا؟ کالعد قرار دیا ہے کیا؟ اور جو ایسا کربھی دیں تو کیا ایک سیاسی حقیقت کو یوں مٹایا جاسکتا ہے ؟ ق لیگ لا کر کیا مسلم لیگ ن کو مِٹایا جا سکا؟ کوئی یہ بھی بتلائے  کہ کالعدم مذہبی تنظیموں کے کتنے دفاتر اب تک آپریشنل ہیں اور کِتنوں پر قفل ڈالے گئے ؟ ہم تو یہ بھی نہیں پوچھ سکتے کہ کِس قانون کے تحت پکڑ دکڑ اور تالہ بندی جاری ہے۔کیونکہ پھر بات نصرت بھٹو کی تکالیف سے بھی پہلے کی کرنا پڑے گی۔بےنظیر کے ساتھ ناروا سلوک بھی ہم نہیں بھولے۔بیگم کلثوم نواز کی گاڑی والا واقعہ ہو یا پھر پوچھا جائے کہ لاہور ائیرپورٹ پر نواز شریف کے ساتھ کیا کچھ کیا گیا۔ منتخب وزرائے اعظم کو جیلوں میں پھینکنا اور سیاسی کارکنان کی مونچھیں مونڈھ کر نیم برہنہ حالت میں تشدد سے ادھ مویا کرکے سڑک کنارے پھینک جانا، خواتین کارکنوں پر تشدد ، چیف جسٹس کو بالوں سے گھسیٹنا۔۔۔ اس بارے ایک گہرا سناٹا ہے۔لہذا آپ اتنا یاد رکھیے کہ کسی نہ کسی موقع پر کوئی نہ کوئی پہچان والوں کی کمبختی آتی رہنی چاہیے۔رونق میلہ لگا رہے تو کارگل ، سانحہ بارہ مئی ، آرمی پبلک سکول یا پھر سانحہ کوئٹہ۔۔۔ کسی بھی انسانی سانحے کو یاد رکھنے کا وقت اور ٹی۔آر۔پی دوڑ  کہاں میسر آتی ہے جناب۔
اعلانِ لا تعلقی کی بھی خوب رہی۔ سال تھا شاید انیس سو بانوے اور یہی کوئی تین ماہ تک فیصلہ سازی سے علیحدگی اختیار کرنے کے بعد بھائی جی کی واپسی شان سے ہوگئی تھی۔لیکن آج کی صورتحال میں مارجن تو دینا ہی پڑے گا۔تین دہائیوں میں پہلی بار کائنات کی مشکل ترین جاب پر بیٹھا شخص یہ جملہ نہیں ادا کر پایا، "بھائی کے بیان کو سیاق و سباق سے ہٹ کر دیکھا جارہا ہے۔۔" کچھ مہلت تو دینی ہی پڑے گی۔جب ایک جماعت اپنی ہی اصلاح کی غرض سے مستقبل میں سنبھل کر اٹھنے کی کوشش کررہی ہے تو خوامخواہ کی ٹھاکرگیری کے ذریعے آپ ان کی خاموش سپورٹ میں اضطراب پیدا کرکے مزید پکا کرنے کا کارِ خیر سرانجام دیتے بھلے معلوم ہورہے ہیں۔ لگے رہیے۔
باقی یہ کہ سارے قصے میں سمجھ یہ بھی آتی ہے کہ جِس طرح افغان سِموں کے آوارہ سگنلز گندے ہوتے ہیں یونہی ایک صوبے کی گورنری کے ڈالے دانے کو سگنلز سمجھ کر پکڑنا بھی خواری کا سبب بن سکتا ہے۔پھر بندہ میدانِ یوٹرن میں اترنے پر مجبور ہو کر کانوں کو ہاتھ لگاتے سیاست سے بھی توبہ کرلیتا ہے۔
تاریک کمرے میں روشن لالٹین کے سامنے ہاتھوں کی مدد سے سامنے والی دیوار پر دیو ہیکل سائے والی اشکال تو سب ہی بناتے ہیں۔یونہی غور کرلینے میں کیا حرج ہے۔ کون جانے کہ پرائم ٹائم چکاچوند کے سامنے کِس کا ہاتھ عوام کے ذہن پر نقش و نگار بنا رہا ہے۔اور بطور ایندھن کون استعمال ہو رہا ہے۔
تو بھیا عرض صرف اتنی ہے کہ سیاست، ریاست ، آمریت ، جمہوریت ، انسانیت ، اور دیگر " ست و یت " کے علاوہ ہم جِس خطے میں رہتے ہیں یہاں کی سیاسی جماعتوں کی جبلت کے بنیادی اصول وہی ہوا کرتے ہیں لہذا خوامخواہی کی خفت مٹانے کو ایسے جملے تراش کر کوتاہیوں کی پردہ پوشی سے اجتناب مناسب ہے۔ بات کیجیے اور کرنے دیجیے کہ بہت سے معتدل مزاج اور آزاد سوچ رکھنے والوں کو آپ کی حقارت و نخوت سوچنے پر مجبور کردیتی ہے کہ انہیں کیا افتاد آن پڑی ہے جو آپ کے ساتھ ہونے والی نا انصافی پر آواز اٹھائیں
 کیونکہ جب آپ کی غلطی کی نشاندہی پر تذلیل ہی سہنی ہے اور وہی گھسا پِٹا جواب آنا ہے "اماں چھوڑو! تم کیا جانو کراچی کی سیاست۔"

بدھ، 10 اگست، 2016

غدار سوالات


بلوچستان کی عجب قسمت ہے کہ پرنٹ ، الیکٹرانک اور سوشل میڈیا پر توجہ کا مرکز بننے کے لیے اپنے جوان لاشے دفنایا کرتا ہے۔۸  اگست کو ایک سفاک منصوبے نے بلوچستان بار ایسوسی ایشن کے صدر سمیت وکلاء برادری کی پوری ایک نسل ختم کرڈالی اور دو ٹی۔وی چینلز کے کیمرہ مین بھی شہید ہوگئے۔
سماجی رابطے کی ویب سئٹ پر ایک وکیل برخوردار خان اچکزئی کے مطابق انہیں 6 سال ہوئے لاء لائیسنس لیے ۔گزشتہ ستمبر بلوچستان بار ایسوسی ایشن جوائن کیا۔ نو ماہ کوئٹہ گزارے اور اب ان کے بیچ کے سب لوگ بلوچستان میں ٹاپ پریکٹسنگ وکیل بن گئے ہیں کیونکہ فی الحال وہ زندہ ہیں۔ پچیس تیس سال قانون کی تعلیم، کچھ برس نچلی عدالتوں کے دھکے اور آٹھ دس سال اعلیٰ عدالتوں کا تجربہ۔۔۔حاصل وصول کیا ہوا؟ قربانی کا بیانیہ اور ہم نہیں بھولیں گے وغیرہ؟ تو ان جوانوں کی مائیں سرحد پر ہی بھیج دیتیں ملک کی حفاظت کے لیے۔ کیا ضرورت آن پڑی تھی دیگر عصری میدانوں میں بچے کھپانے کی۔ تمام سینیئر وکلاء اور بیرسٹرز شہید کردیے گئے۔یہ شہداء جو لاپتہ افراد کے مقدمات لڑ رہے تھے۔بلوچوں کے لیے برابری کے انسانی حقوق مانگنے میں پیش پیش تھے۔مسخ شدہ لاشوں کے بارے میں سوال اٹھانے کی جسارت کیا کرتے تھے۔ان سب کے یکدم چلے جانے سے اب سوچیے کہ سینکڑوں جونیئر وکلاء بےروزگار ہوگئے۔ان کے گھروں میں بھوک کیسے ناچے گی۔
دو روز سے خود کو یہ سمجھانے کی کوشش میں مصروف ہوں کہ ریاست کے بیانیے سے متضاد سوالات کرکے غدار اور ایجنٹ کہلوانے سے بہتر ہے خاموش رہوں۔لیکن سوال اور جستجو کی لَت لگ جائے تو کہاں چھوٹتی ہے۔کہتے ہیں ردِعمل میں مت بہیں،طنز نہ کریں،ریاست کا ساتھ دیں اور یہاں ساتھ سے مراد سیکیورٹی اداروں کو جوابدہ نہ سمجھنا ہے۔مجھ پر لیکن ایک عام پاکستانی کی حیثیت سے نشاندہی کرنا فرض ہے کہ آپ کے بیانات میں کتنا اور کہاں کہاں جھول ہے۔
فرمایا "آپریشن ضربِ عضب سے گھبرا کر شدت پسند عناصر بلوچستان میں آگئے ہیں۔" مناسب ہوگیا۔تو کیا اس سے قبل بلوچ مائیں اپنے بیٹوں کے ماتھے بِنا فکر کے چوما کرتی تھیں ؟ چلو مان لیا ایک منٹ کو لیکن پھر مجبور ہوں آپ کو ۸ اگست ۲۰۱۳ء یاد کروانے پر۔پولیس لائنز کوئٹہ میں ایک روز قبل فائرنگ سے شہید ہوجانے والے ایس۔ایچ۔او محب اللہ جان  کے نمازِ جنازہ میں شریک لوگوں کو خود کش حملے میں شہید کردیا گیا۔جن میں ڈی۔آئی۔جی آپریشن فیاض احمد سنبل، ایس پی انور خلجی اور ڈی ایس پی شمس سمیت انتالیس افراد شامل تھے۔اس سے پہلے ۱۶ جون کو سردار بہادر خان وومین یونیورسٹی کی بس میں دھماکہ ہوا چودہ طالبات شہید ہوئیں جبکہ زخمیوں کو جونہی بولان میڈیکل کمپلیکس منتقل کیا گیا تو دوسرا دھماکہ ہوا اور ڈپٹی کمشنر کوئٹہ ، اور ایف۔سی کے جوانوں سمیت مزید شہادتیں ہوئیں۔یہ محض تین واقعات کی تفصیل اس لیے یاد کروائی ہے کہ کوئٹہ شہر نے ۸ اگست ۲۰۱۶ء پہلے بھی بھگتایا ہے جناب۔ وہی انداز،وہی طریقہ واردات اور تاریخ بھی۔
اگلا بیان تھا "راء نے کروایا ہے" ۔ حالیہ کوئٹہ سانحے میں ایران ، افغانستان یا بھارت کسی کا بھی ہاتھ ملوث ہوسکتا ہے۔بالکل بیرونی فنڈنگ ہوسکتی ہے۔لیکن کیا ہم یہ بات نظر انداز کردیں کہ گھر کے اندر سے مدد مِلے بغیر ایسی کاروائیاں ممکن ہی نہیں ؟ حیرت ہے کہ بِنا تفتیش پندرہ منٹ میں نتیجہ کیسے اخذ کرلیا گیا۔اور پھر ہم عامیوں کو سوال کی اجازت بھی نہیں۔ مانتی ہوں کہ ہم ایک ایسے خطے میں رہتے ہیں جہاں شرپسندوں کو دہائیوں تک اثاثے قرار دے کر دودھ پِلایا گیا اور قوم حالتِ جنگ میں ہے لیکن ایسا شہر جہاں ایف۔سی اہلکاروں اور چیک پوسٹس کی تعداد گِنواتے سانس پھول جائے وہاں ایک منظم منصوبے کی تشکیل ہفتوں نہیں مہینوں میں مکمل ہوئی ہوگی اور تعمیل جب ہوئی تو ریپڈ رسپانس فورس کہاں تھی؟آپ یہ کہہ کر بری الذمہ نہیں ہوسکتے کہ ہسپتال میں افراتفری کےدوران کوئی داخل ہوگیا۔منظم منصوبہ بندی سے تیسری بار اسی طرز کا تکنیکی طور پر فول پروف منصوبہ تھا ۔پہلے صدر بار ایسوسی ایشن کو بطور چارہ نشانہ بنایا جانا اور اگلی قسط پہلے سے تراش کر شعبہ حادثات میں فِٹ کر رکھی تھی۔ یاد رہے اس وقت ہسپتال میں معمول کی آمد و رفت ہوگی۔کوئی ایمرجنسی یا افرتفری نہیں تھی۔چھبیس ایجنساں ، نیکٹا ، نمبر وَن انٹیلیجنس کے دعوے اور ایسا طمانچہ؟ یہ کولیشن سپورٹ فنڈ کیا بلا ہوتی ہے ؟ ہم نے نیشنل ایکشن پلان کا سُنا تھا کہ کوئی کمال ہی اقدام ہے۔ تو یہ جو کالعدم جہادی تنظیمیں ملک بھر میں دندناتی پھر رہی ہیں۔نام بدل کر چندے خیرات کی بھیک مانگ رہی ہیں ۔عام شہریوں میں نفرتوں کے بیج بوتے  اہم عسکری شخصیات کی تصاویر والے پوسٹرز اٹھائے ریلیاں نکال رہی ہیں ۔اِن اثاثوں بارے کب ایکشن لیا جائے گا ؟
پھربیان آیا کہ اقتصادی راہداری دشمن کی آنکھ میں کھٹکتی ہے۔ سی۔پیک نہ ہوا بڑھاپے کی اولاد ہوگئی یا پھر گاؤں میں بانگ دینے والا واحد کُکڑ۔ تو صاحب ۳ ستمبر ۲۰۱۰ء کو میزان چوک کوئٹہ میں یوم القدس منانے والے ۶۷ شہید ، ۱۰ جنوری ۲۰۱۳ء کو علمدار روڈ پر ۱۰۶ شہداء  کے لواحقین کِس سے پوچھیں اور ان جیسے درجنوں واقعات  کو سانحات بنانے والے کِس راہداری سے حسد کررہے تھے؟
پھر کہا کہ آسان ہدف کو نشانہ بناتے ہیں۔ تو یعنی آپ کی نیول بیسز ، زیارت ریزیڈینسی ، واہگہ بارڈر سافٹ ٹارگٹ تھے؟ کوئٹہ ہی میں کمشنر آفس کے قریب ڈی۔آئی۔جی فرنٹیئر کور برگیڈیئر فرخ شہزاد کی رہائش گاہ پر بارود سے بھری گاڑی ٹکرا دی جاتی ہے۔جِس میں ان کی اہلیہ ، ایف۔سی کا کرنل اور دیگر اہلکاروں سمیت تیس افراد جان سے گئے۔شاید آسان ہدف ہونے کے باعث۔ ویسے جی۔ایچ۔قیو پر حملے میں کتنے گھنٹوں تک آپریشن جاری رہا ؟ چلو مان لیا کہ گلشن پارک لاہور اور چارسدہ یونیورسٹی آسان ہدف ہوں گے تو کیا آرمی پبلک سکول بھی اتنا ہی سافٹ ٹارگٹ تھا ؟ وہاں تو زخمی بچوں کو بیرون ملک تفریحی دوروں پر بھیج دیا گیا تو یہ جو وکلاء کی ایک نسل قبروں میں جا پڑی ہے ان کے لواحقین کیا اب صرف نوحہ وغیرہ لانچ کرکے بہلائے جائیں گے؟ کیمرہ مین شہزاد اور محمود خان کے یتیم بچے دشمنوں کو پڑھانے سے قبل خود پڑھ پائیں گے؟
ان سوالات کو دبانے کا آسان حل یہ نکالا گیا ہے کہ جو کرے اس کو غدار کہلوایا دیا جائے۔راء ایجنٹ قرار دے کر تذلیل کی جائے۔پھر چاہے وہ آئینِ پاکستان کے تحفظ کا عہد کرکے رکن قومی اسمبلی ہی کیوں نہ بنا ہوا ہو۔کیا ہم اپنے محافظوں سے وجہ پوچھنے کا حق اختیار بھی نہیں رکھتے؟ حب الوطنی کا تمغہ جیتنے کو ہر غلطی ، سیکیورٹی لیپس اور بےڈھنگے بیانیے کا دفاع خود پر فرض کرلیں ؟
الیکٹرانک اور سوشل میڈیا پر جشنِ آزادی کی خوشیاں منانے کا عندیہ دے کر سوگواران کی ہمت بندھانے کا نیا راستہ تلاش کیا ہے۔جِس گھر میں ستر سے زائد لاشیں پڑی ہوں،معاشرے کا باشعور ستون ہِل گیا ہو وہاں قبر کی مٹی سوکھنے والی مثال کا وقت بھی نہیں آیا۔تدفین سے قبل تالیاں پیٹ پیٹ کر "مِلی جوش و جذبے" کے سٹیرائڈز لگائے اور پھانکے جا رہے ہیں۔آرمی پبلک سکول سانحے کےبعد یومِ قائد کی تقریبات اور کرسمس سادگی کےآخری دائرے میں چلی گئی تھیں۔تو کیا میرے پشتون اور بلوچ بھائیوں کی اتنی بھی وقعت نہیں؟
اگلےروز قومی اسمبلی میں کوئٹہ سانحہ پر مذمتی قرارداد متفقہ طور پر منظور کرلی گئی ۔جی ہاں وہی مذمتی قرارداد جو سانحے کی شام کورم پورا نہ ہونے کے باعث کھٹائی میں پڑ گئی تھی لیکن معمول کی کاروائی روک کر ہمارے عوامی نمائندوں نے تقاریر کیں اور خوب آنسو بہاتے بلوچستان میں خونِ ناحق پر افسوس کا اظہار کیا۔اور آج سنا ہے قومی اسمبلی کے اہم ترین اجلاس میں پھر کورم پورا نہیں تھا۔یہاں کون ہے جو فرائض کی ادائیگی میں ڈنڈیاں نہیں مار رہا ؟
قیامتِ صغریٰ کی اصطلاح کب تک ہمارے ہاں بار بار دہرائی جاتی رہے گی؟ یہ کہہ دینا کہ ہزاروں کی تعداد میں سالانہ دھماکے اب سینکڑوں میں آگئے ہیں شاید ریاست کو تو مطمئن کرسکتا ہے لیکن کسی یتیم ، بیوہ اور بےسہارا لاغر ماں  کو ان اعداد و شمار سے بہلانا ممکن نہیں ہے۔یہ طویل جنگ ہے،لڑ رہے ہیں اور جانے کب تلک لڑتے رہیں لیکن خدارا فوری ردِعمل دیتے اپنے الفاظ، عہدہ اور بیان کے دور رس نتائج کو سامنے رکھ لیا کیجیے۔

منگل، 9 اگست، 2016

یہ ہماری ثقات نہیں

"رہے گا تو میراثی کی اولاد ہی ۔کنجر ہی کہلوائیں گے۔"
یہ جواب تھا ایک گروپ ایڈمن کی جانب سے جب میں نے فقط اتنا کہا کہ لوک گلوکار شوکت علی کا بیٹا ایچی سن کا ہونہار طالبعلم رہا ہے اور اپنے والد کے فن کو آگے بڑھا رہا ہے۔خوشی مجھے یہ تھی کہ ہمارا لوک ورثہ اگلی نسل کو منتقل ہورہا ہے جو تعلیم کے میدان میں بھی کامیاب ہے لہذا فن کو نئی جلا بخشیں گے۔ردِعمل مایوس کُن تھا ، حیران کُن نہیں۔وجہ آگے چل کر بیان کرتی ہوں پہلے یہ بتاتی چلوں کہ یہ ایڈمن صاحب موسیقی کی ہر محفل اور کانسرٹس کے پاسز حاصل کرنے کو دنیا جہان کی سفارشیں لگوا لیتے ہیں۔پلٹ کر سوال کرنے کی ہمت نہ تھی کہ بھیا میراثیوں کو سننے والے کیا کہلوائیں گے؟ کیونکہ جواب آتا "فن کے قدردان۔۔۔"
یہ صرف فنِ موسیقی سے منسلک افراد کا دُکھ نہیں ،حیرانی مجھے اس لیے نہیں ہوتی کہ ایسا سلسلہ کافی عرصے سے چل نکلا ہے،بلکہ متوسط طبقے کو منظم طریقے سے احساس دِلوایا جاتا ہے کہ وہ کِس قدر غلیظ بلکہ نالی کے کیڑے ہیں۔کلرک ، لوہار ، موچی ، کمہار ، جولاہا ، چپڑاسی ، لائن مین ، ترکھان اور ایسے کتنے ہی پیشے ہیں جو اب بطور طعنہ اور گالی استعمال ہونے لگے ہیں۔ہنرمندی کو شرمندگی کا باعث بنا دیا گیا ہے۔فیشن چل نکلا ہے کہ اجداد کی مہارت اور فن سے منسلک رہنے والے کتنی ہی ترقی کر جائیں انہیں "اوقات" یاد کرواتے رہنا چاہیے۔نیوز چینلز کے پرائم ٹائم میں عوام کی نباضی کے دعویدار کِس حقارت آمیز لہجے میں کسی کو "کباب لگانے والا ، دہی بھلے بیچنے والا ، منشی" اور ایسے ہی القابات سے یوں نوازتے ہیں کہ مانو ان پیشوں سے رزق روزی کمانے والے بردہ فروشی میں ملوث ہیں۔جمعدار اور لفظ چُوڑا کو جِس طرح سے نتھی کرنے کا رواج ڈال دیا گیا ہے وہ  ایک محنتی طبقے کے ذہنی و سماجی استحصال کا موجب بن رہا ہے اس کا نتیجہ مثبت تو نکلنے والا ہے نہیں۔لیکن فکر مندی کی بات نہیں کیونکہ نام نہاد شرفاء کو اسی طبقے کے پرمٹ سے "فیضیاب" ہونے کی راہ ہمیشہ کھلی ملتی ہے۔
ایک شے ہوا کرتی ہے پیشے کا ایمان۔کبھی بچپن میں سنی تھی یہ اصطلاح لیکن اب ان باتوں کو سکھلانے والے بھی نہیں ہیں اور ماننے والوں کا بھی قحط پڑا ہے۔حد تو یہ ہے کہ اپنی خوشیوں کو چار چاند لگانے اور مسکراہٹیں بانٹنے واسطے جِن فنکاروں کو بلوایا جاتا ہے، آپسی رنجش میں اسی پیشے کو بطور گالی "فلاں تو شکل عقل سے ہے ہی بھانڈ" استعمال کرلیا جاتا ہے۔زیادہ بحث کی صورت میں تاویل جو آتی ہے وہ خاصی مضحکہ خیز ہے ۔۔۔یہ ہماری ثقافت نہیں۔
ثقافت کی بھی خوب کہی ۔ جس برصغیر پر گورے کی حکمرانی کے مظالم گنواتے منہ نہیں سوکھتا وہاں کی ثقافت کیسے صدیوں میں بنی اور پروان چڑھی اس بارے یہ تمام ناصح بالکل خاموش ہیں۔اسلام اور کسی علاقے میں بستے انسانوں (مسلمانوں) کی معاشرتی و ماحولیاتی ضروریات کے مطابق بود و باش کو مترادف یا متضاد کرکے کوئی خدمت تو سرانجام نہیں دی ہاں آپ کارنامہ گردانتے رہیں تو اور بات ہے۔کسی بھی مذہب کی تاریخ اور ایک خطے میں زمانوں تک مل جُل کر رہنے والوں کی تاریخ ۔۔۔فرق ہے،جِس کو سمجھنا ہی نہیں چاہتے۔لہذا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ 
Identity Crisis   یعنی شناختی بحران دماغوں اور انفرادی و اجتماعی شخصیت پر حاوی ہوگیا ہے۔اپنی معاشرتی برائیوں کو پلکوں سے چُن کر سینے سے لگا رکھا ہے جبکہ اچھی باتوں کو اسلام سے جوڑ کر پتلی گلی سے نکل لیے۔تہواروں، رسومات اور میلے ٹھیلوں کو فرزندانِ دین مشرف بہ اسلام کرنے میں سُستی دکھاگئے لہذا ایک ایک کرکے معاشرے میں مسکراہٹوں کے تبادلوں والے تمام مواقع خلیج گہری کرنے کے لیے بدستور سسک کر مرنے پر مجبور کر دیے گئے ہیں ۔
عام فہم میں زبان،لباس،ادب، موسیقی ، غذا اور تہوار سے مِل کر معاشرتی و سماجی معاملات کا جو رنگ نکلتا ہے اسے ثقافت کہتے ہیں۔زندہ اقوام  اپنی تہذیب و تمدن کو سینے سے لگائے فخر کیا کرتی ہیں لیکن ہمارے حصے وہ مولوی ضیائی نسل آئی ہے جِس کے مطابق عربوں کی روایات اور معاشرتی بود وباش شُدھ اسلامی ہے جبکہ برصغیر کی اپنی ثقافت گئی بھاڑ میں۔  علاقائی اور اسلامی معاملات کو کوٹ پیس کر جانے کون سا چورن بنا چھوڑا ہے۔یہ محنت مزدوری قابلِ کراہت  ، وہ کاروبار باعزت ، فلاں ذات اعلیٰ و ارفع اور باقی سب ارزاں مخلوق۔ ذہنی ارتقاء کے نام پر نادیدہ لوہے کے کڑے چڑھا دیے گئے ہیں افراد کی سوچ پر جہاں بہن  کو قتل کردینا غیرت کا معیار بن گیا ہے اور بیٹی یا بیوی کا معاشی مضبوطی کے لیے کام کاج کرنا بے غیرت ہونے کی علامت بن گیا ہے۔
متوسط طبقے کو ہر لحاظ سے تنہا کردینے کا رجحان اگلی نسلوں میں احساسِ کمتری کے علاوہ متذلل خود اعتمادی کی وجہ بن رہا ہے لیکن جناب یاد رہے "یہ ہماری ثقافت ہے۔"

جمعہ، 5 اگست، 2016

بھکاری حال و مستقبل

اس برس لاہور سے گرمیوں کی چھٹیاں گزارنے آئی بھتیجیوں کو جڑواں شہروں کی سیر کروانا ہمارے فرائضِ منصبی میں شامل رہا۔آٹھ روز میں ٹورسٹ گائیڈ اور ڈرائیور بننے کے دوران ہر عوامی و تفریحی مقام گھومتے مسلسل دل و دماغ میں چھوٹے چھوٹے دھماکے ہوتے رہے۔اور ابھی کچھ فرصت ملی ہے تو معذرت کہ راولپنڈی اسلام آباد کے کسی مقام کی خوبصورت یادیں تحریر کرنے کی بجائے بحثیت مجموعی معاشرے کے نظام میں دعووں کے پول کھولتی مکروہ تصویر دکھانا چاہوں گی ۔
آغاز کیے لیتے ہیں نیچرل ہسٹری میوزیم سے جس کے اندر اور باہر سکوت کے باعث کوئی چھابڑی تو کیا بھکاری تک دکھائی نہیں دیتا۔جب رواج ہی نہیں ایسی جگہوں پر جانے کا تو کسی کو کیا پڑی ہے دھندے میں مندا سہے۔جبکہ چند ہی گز کے فاصلے پر لوک ورثہ ہے اور آگے پاکستان مونومنٹ۔پارکنگ سے لے کر اندر سنگی بینچوں اور گھاس کے پلاٹس تک بھکارنوں کا عجب رش ہے۔سب نے گود میں ازلی نیند کا مارا بچہ اٹھا رکھا ہے۔جو گزشتہ کئی برسوں میں اتنے کا اتنا ہی ہے۔ہر عورت کے ماتحت دو چار برہنہ پاء بچے ہیں۔ان مقامات پر انٹری فیس ہے لیکن پھر بھی گزشتہ کئی برس سے یہ لوگ انہی جگہوں پر ڈیرے ڈالے پڑے ہیں۔دامن کوہ سے مونال یا پیر سوہاوہ تک ہو آیے حالات اس سے بھی بدتر ہیں۔۔۔سینٹورس جیسے شاپنگ مال میں چلے جایے تو وہاں ایک نیا سلسلہ چل رہا ہے "میڈم ہم نے کھانا آرڈر کیا تھا لیکن سو روپیہ کم پڑ رہا ہے۔پلیز ھیلپ۔" زمانہ ترقی کرگیا ہے تو بھیک مانگنے کا طریقہ بھی ماڈرن ہونا چاہیے۔کسی سگنل پر رکیں تو نقاب پوش مجبوریاں اور معذور یا ننگے پاؤں گھومتا نام نہاد مستقبل ۔ اس ضمن میں مرغزار چڑیا گھر ، لیک ویو پارک اور ایوب نیشنل پارک بازی لے جا چکے ہیں۔یہاں سیاحوں کی تعداد اب جوان بھکارنوں اور بچوں کی تعداد کے راست متناسب ہوتی ہے۔جبکہ داخلہ ٹکٹ لازم ہے۔انتظامیہ یا کہیے عملہ منہ میں وہسل دبائے وہیں گھومتا رہتا ہے اور محسوس ہوتا ہے کہ نگرانی جاری ہے۔
یہ تو صرف چند تفریحی مقامات ہیں آپ کسی بازار میں چلے جائیں تو ہر طرح کی مجبوری بِکنے کو تیار کھڑی ہے یا معصومیت کاسہ اٹھائے سوال کرتی ہے "کھانا نہیں کھایا ۔۔۔ اسکول شوز اور یونیفارم خریدنا ہے۔کتابیں لینی ہیں۔یہ ڈرائینگ بُکس خرید لیں۔۔۔۔" اور جب ان سے سکول کا اتہ پتہ پوچھو یا وقت تو چند سیکنڈز میں چیل کی مانند کوئی بڑا بھکاری آگے بڑھ کر آپ کا دھیان بٹا لے گا۔ایسا ہر بار ہوتا ہے۔
سلسلہ یہیں تھم نہیں جاتا۔کسی شہر میں کوئی مزار بتا دیجیے جہاں حکومتی دعووں کے برعکس تصویر دکھائی نہ دے۔لائلپور میں نور شاہ ولی کا مزار ہو یا لسوڑی شاہ ، لاہور میں بی۔بی پاکدامن،میاں میر ، شاہ جمال ، داتا علی ہجویری ، پاکپتن میں بابا فرید ، جھنگ میں سلطان باہو ، گولڑہ شریف، ملتان میں حافظ جمال ، بہاؤالدین زکریا اور شاہ رکن عالم ، سیہون شریف میں شہباز قلندر ، اسلام آباد میں بری امام ۔۔۔ غرض ایک طویل ترین فہرست ہے ان بزرگانِ دین کی کہ جِن کی آخری آرام گاہوں کے احاطوں میں ایک طبقہ ریاست کا منہ چڑا رہا ہے۔سالانہ عرس کے نام پر بھری بوریاں اور روزانہ کی بنیاد پر نذرانوں سے اٹی تجوریاں۔۔۔یاد رہے کہ لنگر اور فیض ملنے کا سوال یہاں زیرِ بحث نہیں ہے۔۔۔ میں نے تو کوئی ایسی جگہ نہیں دیکھی جہاں چائلڈ پروٹیکشن بیورو یا پیشہ ور بھکاریوں کے خلاف کریک ڈاؤن کا اثر دکھائی دیتا ہو۔یہ بچے کِس کے ہیں؟ کہاں سے لائے جا رہے ہیں؟ منہ ڈھاپے کون سے "باغیرت" خاندانوں کی یہ مائیں ،بہنیں اور بیٹیاں ہیں ؟ جو گود میں پڑا سردی گرمی اور بھوک پیاس سے بے نیاز اونگھتا معصوم ہے وہ کِس کا لختِ جگر ہے ؟ صرف بھیک ہی نہیں یہ معاشرہ اور کون سے گھناؤنے جرائم اور دیگر سرگرمیوں کی آجگاہیں بن چکا ہے کوئی فکر ہے کِسی کو؟
چائلڈ لیبر کے خاتمے کے لیے چھاپے مارے جاتے ہیں۔اینٹوں کے بھٹوں ،ورکشاپ، فلنگ اسٹیشن سے تو بچوں کو اٹھا کر ماہانہ وظیفہ دیتے اسکول بھیج دیں گے لیکن  کم سن بھکاری اور سال بھر کا معاوضہ ادا کرکے لائے گئے گھروں میں کام کرتے چھوٹے۔۔۔ان کی فکر کون کرے گا؟ سیکس ورکرز بنا اسی ملک کا مَسلا ہوا بیمار حال اور مستقبل کون اپنائے گا ؟ اے فار ایپل یا جیومیٹری و مسئلہ فیثاغورث سکھانے کی بجائے ذہنی و جسمانی صلاحیتوں کے مطابق مثبت و تکنیکی مہارت سکھا کر کارآمد سماجی و معاشرتی رکن بننے کو کِس نے آگے بڑھنا ہے؟ سوالات کا لامتناہی سلسلہ ہے اور جواب شاید جانتے ہوئے بھی انجان بننے کی عادت اپنائی جا چکی ہے۔

جمعرات، 21 جولائی، 2016

شہہ سرخیاں اور مقتول مرد

اپریل 2016ء میں پاکستان انسانی حقوق کمیشن کی جانب سے چھپنے والی ایک رپورٹ کے مطابق گزشتہ برس پاکستان بھر میں غیرت کے نام پر 1100 خواتین اور 88 مردوں کا قتل ہوا۔جنسی تشدد کے درج شدہ واقعات کی کُل تعداد 3768 میں سے متاثرین بچیوں کی تعداد 1974 جبکہ 1794 لڑکے شامل ہیں۔ اس سے بھی خطرناک رجحان یہ دیکھا گیا ہے کہ متاثرین کی عمریں گیارہ سے پندرہ سال کے درمیان ہی ہیں۔یہاں یہ بات مزید پریشانی کا باعث ہے کہ روزانہ کی بنیاد پر دس بچے (صنف سے قطع نظر)  جنسی تشدد کا نشانہ بنتے ہیں۔ جبکہ یہ تمام اعداد و شمار صرف رپورٹ ہونے والے معاملات کی بنیاد پر مرتب کیے گئے ہیں۔ہم اور آپ اچھی طرح جانتے ہیں کہ نام نہاد غیرت ، خاندانی وقار  اور معاشرتی مجبوریوں کے نام پر کتنے لوگ خاموش رہ کر ظالم کو مزید شکار تلاش کرنے کی کھلی چھوٹ دیتے جرم میں حصہ دار بن جاتے ہیں۔

آج تیسرا دِن ہے یا چوتھا ۔۔۔نہیں شاید دوسرا کہ ڈیرہ غازی خان میں غیرت کے نام پر وحشی درندوں کا روپ چند سیکنڈز کے لیے الیکٹرانک اور کچھ منٹوں کے لیے سوشل میڈیا کی زینت بنا لیکن چونکہ یہ قتل ایک مرد کا تھا لہذا اس میں سے مال مصالحہ نکالنا اور انسانی حقوق کی علمبرداری کے ڈونگرے بجانا مشکل تھا تو سب بھول بھی آسانی سے گئے۔بالکل ویسے ہی جیسے ہم یہ بھول جاتے ہیں کہ ہر کارو کاری ، پنچایت و جرگہ گردی میں دوسرا مرنے والا انسان مرد ہوا کرتا ہے۔ ڈیرہ غازی خان کے گاں پیگا میں اللہ دتہ نامی ایک شخص کے بازو، ناک اور ہونٹ کاٹ دیے گئے اور پانچوں "غیرت مند" افراد کا ٹولہ جاتے ہوئے کئی اعضاءاپنے ساتھ لے گیا۔ متاثرہ شخص ہسپتال میں زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے دم توڑ گیا۔ ابتدائی رپورٹ کے مطابق کچھ عرصہ قبل گاؤں کی ایک شادی شدہ خاتون مقتول کے ساتھ گھر سے بھاگ گئی تھی۔لیکن خاندان کے بزرگوں کی مداخلت اور دباؤ پر اسے شوہر کے پاس واپس بھیج دیا گیا۔اللہ دتہ اسی خاتون سے ملاقات کرنے آیا اور اس  کے رشتہ داروں کے ہاتھ جان گنوا بیٹھا۔
اس قتل کے محرکات سمجھنے کے لیے یہ جاننا بھی ضروری ہے کہ آیا خاتون کی شادی اس کی مرضی سے ہوئی تھی یا زبردستی کا طوق گلے میں ڈال دیا گیا۔جب تک معاشرے میں شادی کو دو لوگوں کے ایک کِلے سے باندھنے کا مفہوم درست نہیں کیا جائے گا معاملات کسی نہ کسی صورت شدت سمیٹے سامنے آتے رہیں گے۔
ہم میں سے کسی کو شاید یاد بھی نا ہو کہ چند ماہ قبل پسند کی شادی کرنے کے جرم میں بہت مہینوں بعد موقع ملنے پر بوریوالا میں بہنوئی کا گلا کاٹ کر امیر زمینداروں نے معاشرے کو اپنی غیرتمندی کا ثبوت دیا تھا۔ یاداشت کے نہاں خانوں میں  ایسے واقعات کھنگالے جانے کا فائدہ بھی نہیں کیونکہ بقول ہمارے بھائی ان مردوں کے لیے نہ تو کوئی فیشن میں اور نا ہی مروت میں آواز اٹھانے والا ہے۔میڈیا کو مطلوبہ برینڈ کا چسکورا نشہ نہ ملے تو کسی لکھاری کو کیا ضرورت ہے اپنے قیمتی الفاظ گھسیٹنے اور ضائع کرنے کی؟ یہ محنت و توانائیاں ہم کسی کاری ، مقتولہ یا متاثرہ بندی کے لیے کیوں نہ بچا رکھیں۔اور مردوں کا کیا ہے وہ تو مسلک و عقائد کے نام پر خواتین سے زیادہ تعداد میں جان گنواتے ہیں۔الگ بات کہ وہاں بھی ٹی۔آر،پی کا رچایا کھیل اپنا رنگ جما کر ہر کسی کو "اوقات" میں رکھنے کا عادی ہے۔ویسے بھی غیرت کے نام پر مرد کا قتل یا کہیں کسی مرد کی عصمت لُٹ جانا ۔۔۔ کیسی فضول اور بےتُکی شہہ سرخی بنے۔ مانو جیسے مرد کی عصمت ہوتی کہاں ہے جو لوٹ لی جائے۔ ہے نا؟
آخر کیوں انسانیت کی دُہائی اور زندگی کا واویلا کروانے کو مقتول کا صنفِ نازک ہونا یا کسی خاص سیاسی و مسلکی وابستگی میں ہونا ہی ضروری ہے ؟ یہاں پہلی صورت میں شاید وہی معاشرتی ذہنی زنجیر ہے کہ جِس کے مطابق مرد کبھی روتا نہیں ہے۔اور جو رو پڑے تو طعنہ کہ کیا عورتوں کی طرح ٹسوے بہاتے ہو۔ مرد نہ ہوا کوئی ہوائی مخلوق ہوگئی کہ جِس کی حسیات انسانوں سے مختلف ہوں گی۔جبکہ دوسری صورتحال میں دیکھا یہ گیا ہے کہ مقتول بہت سوں کی پوائنٹ اسکورنگ اور مظلومیت کے پرچار کے لیے استعمال میں آجانے والی شے بن جاتا ہے۔کچھ عرصہ بعد قصہ پارینہ۔
انسان مانیے بلا تخصیص صنف ۔خواجہ سراؤں اور خواتین کے علاوہ مان لیجیے کہ حضرات بھی اسی معاشرے میں ظلم سہتے زندگی پر بیتتے چلے جارہے ہیں۔ایک آواز ،ایک پکار ان کے لیے  کوئی تو اٹھانے والا ہو۔مردوں کو صرف ظالم کے پلڑے اور روپ میں دیکھنے دِکھانے کی بجائے مناسب ہوگا کہ صنفی تقسیم کی اس بحث کو مناسب انداز میں سلجھایا جائے نا کہ نا آسودگیوں میں گھس کر ذاتی تجربات کو آفاقی سچ بنا  کر پرچار کرتے معاشرے کو بیمار کرتے چلے جائیں۔اور قبل اس کے کہ خواتین کی طرح مردوں کے سوشل میڈیا اکاؤنٹس پر اسٹیٹس آنے لگیں کہ ، "کاش میں بھی عورت ہوتی " ۔۔۔ کم از کم ایک سرخی اور ٹرینڈ تو بنتا ہے۔

منگل، 19 جولائی، 2016

اک قتل اور سہی


بہت وقت سے ہمارے ہاں "اِک قتل اور سہی" نامی فلم کھڑکی توڑ رش لے رہی ہے۔کبھی غیرت نامی پاپ کارن  تو کبھی ذاتی رنجش نامی مرونڈا اور کچھ نہ ہو تو "کافر کافر فلاں کافر" سی بارہ مصالحہ چاٹ۔۔۔فُل ٹائم مستی اور خوب ٹی۔آر۔پی دھمال ۔ اب کی بار اس میں جو کردار سامنے آیا ہے وہ قندیل بلوچ تھیں۔
مجھے اس مضمون میں اگر ،مگر،لیکن، چونکہ چناچہ نہیں کرنی ۔ایک عزیز نے پرسوں ہی گلہ کیا کہ میں ردِعمل میں لکھنے لگی ہوں، کچھ تازہ اور منفرد نہیں۔خود سے عہد کیا کہ اب شکایت نہ ہوگی۔قندیل کے معاملے پر تین روز سے ایسا تماشہ دیکھ رہی ہوں کہ خاموش رہنا محال ہو چلا ہے ۔وجہ اس وقت پینتیس سیکنڈز کی ایک وڈیو ہے ۔اس میں دو نیوز چینلز کے کیمرہ مین اور کچھ فوٹوگرافرز نے مقتولہ کی دانتوں تلے دبی جامنی رنگ کی زبان ، سُرخ چہرے اور پھولی ہوئی لاش پر بےتابی کا اظہار یوں کیا  "ارے یار ہاتھ پیچھے کرو۔۔کلوز اپ لو۔۔۔ابے کیا کررہا ہے،ہاتھ پیچھے کر چہرے سے۔۔۔یار ہاتھ تو سائیڈ پر کرلو۔۔۔کیا طریقہ ہےیار یہ۔۔۔نکلو یہاں سے۔" جبکہ ایک آواز مقامی لہجے میں آئی  "گھٹیا زنانی۔۔۔۔"
یہ لفظ دماغ پر ہتھوڑے برسا رہا ہے۔سوال اٹھا رہا ہے کہ آخر  کسی مرد کو کیسے خبر ہوئی کہ فوزیہ عظیم اب قندیل بن چکی تھی ؟ اس کے کاغذات میں قندیل کے گھٹیا پن کا پیمانہ کیسے لبریز ہوگیا ۔ایسے متقی و پرہیزگار لوگ اگر حقارت کا اظہار کررہے ہیں تو میں سوال اٹھانے سے قاصر ہوں ،دِل نہیں مانتا کہ انہوں نے قندیل کی کوئی فوٹو،وڈیو یا حال ہی میں جاری ایک گانا دیکھا ہوگا۔ممکن ہی نہیں جناب۔یہ باطل خیال مجھے آنا بھی نہیں چاہیے تھا۔
انسٹاگرام پر ابھی قندیل کا اکاؤنٹ کھولنے کی کوشش کی ہے  کہ دیکھوں کتنے فالؤرز تھے اور اس کی آخری تصویر اور گانے کو کتنے ہزار لائکس مِلے۔لیکن افسوس کہ وہ اکاؤنٹ مکمل خالی ہے۔نہ کوئی تصویر،نا ہی وڈیو،فالؤرز اور دیگر لوازمات تک صفر ہیں۔اور عجیب بات ہے کہ کسی نے ابھی تک یہ بات کیوں غور نہیں کی کہ مقتولہ کے سیل فون سے اس کا انسٹاگرام اکاؤنٹ تلف یا خالی کرنے کا ثواب کِس نے کما لیا ہے۔جبکہ اس کے فیک اکاؤنٹ پر لاکھوں لوگوں کا ہجوم ہے جو پیج ایڈمن کو اللہ کا خوف دِلوا کر مرحومہ کے عذاب میں کمی ہونے کی واحد راہ سب کچھ تلف کردینے میں بتلا رہے ہیں۔مجھے یقین ہے کہ ان میں سے کسی نے وہ تصاویر اور وڈیو کلپس اپنے ہاں کوئی خفیہ فولڈر میں پاس ورڈ لگا کر محفوظ نہیں کی ہوں گی۔
ہم نے کبھی سوچا ہے کہ 2013ء میں ماڈلنگ کی دنیا میں آنے والی لڑکی نے فوزیہ عظیم سے قندیل بلوچ تک کا سفر کیسے طے کیا ہوگا ؟ ڈھائی سال میں وہ ہر ٹی۔وی چینل کے حواس پر کیوں سوار ہو چکی تھی؟ کوئی اسے فاحشہ کہہ کر اپنی پرہیزگاری کا اُجلا دامن دِکھا رہا ہے تو کوئی طوائف پکارتے خود کا باطن چھپانے کی کوشش میں مصروف ہے۔ سمجھ مجھے دونوں صورتوں میں نہیں آتی کہ جِس عورت کو "دھندہ کرنے والی" کہا جاتا ہے آخر اُس کے گاہک کون ہوتے ہوں گے۔ یہی مرد یا کوئی ہوائی مخلوق؟ مقتولہ کےطرزِ حیات سےاپنی پاکبازی و متقی پن کے پہلو نکالنے والے یہ سب کیسے جانتے ہیں کہ فلاں لباس، فلاں رنگ، یہ وڈیو اوروہ گانا۔۔۔ وغیرہ؟ کیا انہیں الہام ہوگیا ؟
گِدھ بنے قندیل  کی زندگی کا ہر پہلو بھنبھوڑ ڈالنے والا لیکٹرانک میڈیا اور سوشل میڈیا پر اس کے حوالے سے ذومعنی غلاظتیں بکتے لوگ آج بہت غم میں ہیں کہ قندیل مرگئی۔لیکن ظاہر ہے اب کوئی نئی قندیل ابھر کر سوشل میڈیا پر آئے گی تو ہی ان کی شہوت کی تسکین ہو پائے گی نا۔چلو مردوں کی تو سمجھ آتی ہے لیکن یہ خواتین کو کیا ہوا ہے؟ وہ کیوں  فیس بُک اور وٹس ایپ گروپس میں قندیل کے مرنے کا جشن منا رہی ہیں؟ کیا قندیل ان کی ازدواجی زندگیوں پر ایسی ہی حاوی تھی یا پھر ان عورتوں کو بھی اپنے ماضی و حال کے پہلو چھپانے کے لیے کسی "فاحشہ" کو زیرِ بحث لانے میں ہی عافیت دکھائی دیتی ہے ؟
مقتول کے ماضی  پر سیر حاصل تجزیے دراصل قاتل اور "بےغیرتی"
 کے نام پر قتل جیسی درندگی کو شیلڈ فراہم کرنے کے مترادف ہے ۔ کچھ صاحبانِ ملت یہاں تک فرما گئے کہ "وہ اپنے قتل کی خود ذمہ دار ہے۔اس نے اپنے گھرانے کے پاس کوئی اور راستہ نہیں چھوڑا تھا۔" یہ تو کمال کی منطق ہوئی۔ آئیندہ ہر مقتولہ ، تیزاب گردی کا شکار اور جھلسا کر مار دی جانے والی کے لیے یہی جملے استعمال ہونے چاہییں۔
اصل لعنتی کردار تو وہ ہیں جو غیرت کا پہلو تلاشتے بالکل ہلکان ہو رہے ہیں۔نشہ آور گولیاں کھلا کر تکیہ رکھ کر سوئی ہوئی ماں جائی کی زندگی چھین لی ۔قتل کے متضاد محرکات لکھ کر ایف۔آئی۔آر کو متنازعہ بنادیا گیا ہے۔جسے کہتے ہیں ماٹھا کم پا دِتا۔ ایک جانب غیرت کا ذکر ہے تو دوسری طرف پیسوں کے لین دین کا جھگڑا لکھا گیا ہے۔سونے پر سہاگہ اِس پنجاب پولیس کی کرشمہ سازی ہے کہ  مفرور"غیرت کے پتلے" کو سیلیبریٹی بنوانے کی بھرپور کوشش کی۔دنیا میں کہاں ہوتا ہے کہ ایک مفرور قاتل کو گرفتار کرکے یوں پریس کانفرنس کروائی جائے۔قاتل بھی وہ شخص جو دھڑلے سے سینہ پھلائے کہتا ہے کہ اس کو بالکل کوئی شرمندگی یا افسوس نہیں۔پھر دعویٰ ہے کہ بہن کی وڈیو دیکھ کر غیرت آگئی اور مفتی صاحب کے ساتھ اسکینڈل پر خون جوش مار گیا۔(ظاہر ہے جی ۔مسلمان بچہ ہے۔مفتی صاحب کا باطن اس بری طرح سے عیاں کرنے والی بہن کو جینے کا حق ہی نہیں)۔اگلے ہی سانس میں اس بےغیرت ماں جائے کو خیال آگیا کہ بہن دراصل بلوچ قوم کو بدنام کررہی تھی لہذا غصہ آیا۔آپ صرف اس معاملے میں بدلتے بیانات مت دیکھیے۔عیاری کی انتہا جانچیے۔۔۔ بےحیائی ،غیرت ، مفتی ، بلوچ ۔۔۔تمام عناصر ملا کر بن گیا غیرتمند بھائی۔وہ بھائی جِس کو اسی بہن نے اپنی کمائی سے موبائل مرمت کی ایک دکان سے "باعزت " روزگار  کا بندوبست کر کے دے رکھا تھا۔وہ بھائی جو اپنے والدین کا خرچ نہیں اٹھا سکتا تھا اور اُسی "گھٹیا زنانی" نے کرائے پر مکان لے کر دیا تھا۔بہن کا جہیز تک اسی بندی کے ذمے سے نکالا گیا تھا۔یہ بھائی پانی کو مم مم اور روٹی کو چوچی کہتا تھا جب ایک کم تعلیم یافتہ بہن پسماندہ علاقے سے بڑے شہر میں کمانے نکل کھڑی ہوئی؟ یہ تو اتنا معصوم تھا اسے اتنے سال خبر ہی نہ ہوئی کہ سب خرچے کہاں سے پورے ہو رہے ہیں ؟
تفتیش تو ہونی چاہیے۔خاص کر مفتی صاحب کی اس نخوت بھری تنبیہہ کے بعد کہ "جو بھی آئیندہ مفتیان کو بدنام کرنے کی "کوشش" کرے وہ قندیل بلوچ کا انجام یاد رکھے۔" دو روز سے وہ شخص ، کہ جس کی ٹوپی اتر کر قندیل کے سر چلی گئی اور جس کی ویسٹ کوٹ بکھرے بالوں کےساتھ دیگر کلپس میں غائب نظر آئی، ہر ٹی۔وی شو میں نک سک تیار ہوکر فراخ دِلی سے کہہ رہا ہے "میں نے معاف کیا۔قندیل نے میرے پیروکاروں کا دِل دکھایا اور مجھے بدنام کرنے کی کوشش کی لیکن ۔۔۔۔۔" جی ہاں لیکن۔۔۔لیکن انہوں نے معاف کردیا۔

؎ مجھ کو انسان سمجھ خود کو فرشتہ نہ بنا

اور جِس لمحے قندیل کے باپ نے یہ کہا " او میرا پُتر سی۔دھی نئیں۔۔"  سمجھ سکتے ہیں ان الفاظ کا مفہوم ؟ چھ بیٹوں کے باپ کا یہ کُرلاتا لہجہ اور اس کا سسکتا مفہوم ایک تھپڑ ہے اس معاشرے کی دو رُخی اور اخلاقیات کے جعلی پیمانوں پر۔

اج آکھاں وارث شاہ نوں
کتھوں قبراں اچوں بول
کتاب عشق دا کوئی
نواں ورقا پھول
اک روئی سی دھی پنجاب دی
تینوں لکھ لکھ مارے بین
ہُن لکھاں دھیاں روندیاں
ہم پاکستانیوں کی سمجھ نہیں آتی۔ ملالہ کو سالگرہ کے روز دعا دینے پر بھی سیخ پا ہوجاتے ہیں اور قندیل کے لیے دعائے مغفرت پر بھی ان کا ایمان خطرے میں آجاتا ہے۔ ایک طبقہ مسلسل یہ تلقین جاری رکھے ہوئے ہے کہ اس کیلیے RIP  لکھنا بھی مناسب نہیں۔ٹھیک ہوگیا ۔ اب شرمین عبید چنائے قندیل پر فلم بنائے تو بھی یہ پاکستان کو بدنام کرنے کی سازش ہوگی۔کیونکہ بین الاقوامی میڈیا نے چاہے قندیل قتل پر ردِعمل دیا ہے لیکن پھر بھی بقول ہماری پاکباز غیرت مند برگیڈ کے ہزاروں قندیلیں روز بجھتی ہیں۔ان پر تو کبھی فلم نہیں بناتی شرمین۔
تو صاحبان و قدردانِ غیرت و حمیت میری دعا صرف یہ ہے کہ "گھٹیا زنانی" کا انسٹا گرام جِس طرح خالی کیا گیا ہے اسی طرح  آپ کے خالی دماغ کسی نئی قندیل کو جلد پا لیں۔تاکہ زندگی میں رونق شونق لگی رہے۔باقی اللہ کو پردہ پسند ہے تو آپ بھی چھپ کر دیکھیے تاکہ ایک نئی فوزیہ اپنے والد کی دھی رانی نہیں پُتر بن کر ڈشکرے بھائیوں کے خاندان کی کفالت کی ذمہ داری پوری کر سکے۔

اتوار، 17 جولائی، 2016

ایلفا گیری

حیوانی طرزِ عمل کا مطالعہ یعنی Ethology   کے مطابق جانوروں کے کسی بھی گروں گروہ کو عموماً تین درجوں درجات میں تقسیم کیا جاتا ہے : ایلفا ، بِیٹا اور  اومیگا۔
ایلفا کسی ریوڑ یا گروہ میں وہ انفرادی مقام رکھتا ہے جو سربراہ کا ہوتا ہے۔جس کو سردراوں کی سی اہمیت دی جاتی ہے   یا  اختلاف بھی پالا جاتا ہے۔ یہ نَر بھی ہوسکتا ہے اور مادہ بھی یا پھر دونوں ہی گروہ کی سربراہی ایک جوڑے کی صورت کرتے ہیں۔ یا پھر دونوں مل کر ایک جوڑے کی صورت گروہ کی سربراہی کرتے ہیں۔ خیر یہ تو نوع پر منحصر ہوا کرتا ہے کہ کِس پَرجاتی سے تعلق ہے مگر یہ امر مسلم ہے کہ خوراک میں حصے سے لے کر ساتھی چُننے تک ایلفا کو ترجیہی رسائی حاصل ہوتی ہے۔ اور یہ مقام انہیں جسمانی طاقت ،لڑنے بھڑنے کی مہارت یا پھر مضبوط گروہی اتحاد کے باعث ملتا ہے۔ جبکہ بعض گروہوں میں تو افزائشِ نسل بھی صرف یہی کرتے ہیں۔ بعض اوقات ایلفا کی جگہ لینے کیلیے بِیٹا ، جو کہ گروہ میں نائب یا حریف ہوتا ہے ،لڑائی کرکے اس کو زیر کر لیتا ہے اور بیٹا سے ترقی پاکر خود الفا بن جاتا ہے  یا پھر ایلفا کی موت کے بعد اسے یہ مقام مل جاتا ہے ۔مگر یہ بات طے ہے کہ الفا  کے ہوتے ہوئے کوئی دوسرا اس کی جگہ نہیں لے سکتا۔ الفا اور بیٹا کے علاوہ تیسری مخلوق  اومیگا ہوتی ہے جو مطیع النفس ، منکسر المزاج یا آسان الفاظ میں گروہ  کی ناپسندیدہ ترین،  نچلے درجے کی مخلوق ، جو کسی بھی سماجی تنظیمی ڈھانچے  کے سب اراکین کی اطاعت گزاری اور غلامانہ انداز سے زندگی بتا لیتی ہے۔
یہ تمہید جو باندھی ہے تو خیال کی وجہ وہ وڈیو کلپ ہے جو رواں برس مئی کے مہینے میں آن ائیر ہوا لیکن دیکھنے کا اتفاق بیشتر افراد کو آج کل ہی میں ہوا۔مذکورہ وڈیو میں ایک مشہورِ زمانہ دانشور صاحب گھر اور انسانی معاشرے کا تنظیمی ڈھانچہ سمجھانے کے لیے کتے اور کتیا کی مثال دیتے پائے گئے۔ان کے بقول کتا باہر گھومتا پھرتا ہے اور کتی یعنی عورت بچے پالتی ہے ورنہ بھیڑیا ان کتوروں کو کھا جائے۔
بھئی سبحان اللہ ایسی سوچ پر اور ماشاءاللہ ایسی دلیل و منطق پر ۔ اول تو ان صاحبِ عقل و دانش کو اپنے گھر کی خواتین ہی کا خیال آجانا چاہیے تھا۔بالفرض اُنہیں بھی اسی کیٹیگری میں رکھ چھوڑا ہے تو یہی دھیان کرلیتے کہ لفظ "اشرف المخلوقات" کا مفہوم کیا ہے۔چلیے یہ بحث بھی چھوڑیے۔جانوروں کی بات کی ہے تو جانوروں ہی کی معاشرت سے چند امثال پیش کیے دیتی ہوں۔
چرغ یا لگڑ بھگا مادر سری کی سب سے بڑی مثال بن کر ابھرتے ہیں۔جو قبائل کی صورت زندگی گزارتے ہیں جس میں اراکین کی تعداد نوے تک چلی جاتی ہے۔یہاں مادہ لگڑ بگڑ ہر صورت غالب ہی تصور کی جاتی ہے چاہے مد مقابل درجہ بندی میں سب سے بہترین نر ہی کیوں نہ ہو۔شجرہ ان میں ماں سے چلتا ہے۔نر تو دو سے چھ برس کی عمر کے دوران قبیلہ چھوڑ جاتے ہیں۔افزائشِ نسل وغیرہ کے لیے آپس میں ایک قبیلہ کتنا ہی جھگڑ کر فیصلہ کرے لیکن اجتماعی دفاع ، خوراک ،بچوں کی حفاظت اور غاروں وغیرہ کے معاملات سب مِل کر دیکھتے ہیں۔یہی حالات بھیڑیوں کے خاندان میں ہوتے ہیں۔
اگلی مثال بن مانس ، گوریلا ، بندر اور لیمرس کی لگا لیں۔ یہاں لڑائی جھگڑے اور گروہی سیاست میں کامیاب چاہے ایلفا یعنی سردار کا روپ دھارن کرلے لیکن مادہ اپنی نسل بڑھانے کے لیے انتخاب خود کرتی ہے۔اور ایک طویل دلچسپ تحقیق ہے ان کی معاشرت بارے جو کہ شاید ہمارے خود ساختہ مذہبی اسکالر کو پڑھنے کی فرصت نہ ہو۔
افریقی جنگلی کتے بھی اُس کچھار کی حفاظت کرتے ہیں جہاں مادہ نے زچگی کے عمل سے گزرنا ہو۔کہیں بھاگ نہیں جاتے اس وقت میں۔ پھر آجایے وھیلز ی جانب جو مادر شاہی کی عمدہ مثال ہیں۔مکمل طور پر بڑی ہوجانے والی اولاد جس میں نر مادہ دونوں شامل ہوتے ہیں وہ ماں اورکا وھیل  کے ساتھ ہی گروپ میں گھومتے ہیں اور وہی شکار بھی کرتی ہے۔
یاد رہے کہ ہاتھیوں کے غول کی سربراہی سب سے بڑی عمر والی ہتھنی کرتی ہے۔بچے کی پیدائش کے بعد پورا غول اس کی پرورش اور حفاظت کرتا ہے۔ان میں نر ہاتھی پندرہ سے بیس برس کی عمر میں الوداع کہہ جاتے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ ہتھنیاں بھی گھر ہی رہتی ہیں والی مثال دی جائے؟ یہ کیوں نہ سمجھا جائے کہ وہ مادہ جانور اپنے بچوں کو پالتا اور کھانے کا انتظام دیکھتا ہے؟
کتے کی مثال دے دی یہ یاد نہ رکھا کہ شیرنی کیا کرتی ہے۔شکار چُننا،پیچھا کرکے حملہ آور ہونا اور سب کو کھلانا۔۔۔یہ سب ٹاسک شیرنیوں نے جسامت کے حساب سے آپس میں تقسیم کررکھے ہوتے ہیں۔سب ان ہی کے ذمہ ہوتا ہے،شیر کے نہیں۔
آخری مثال شہد کی مکھی کی لکھ رہی ہوں۔ جی ہاں اس ہی مکھی کی جس کی مثال پاک رب نے اپنی کتاب میں بھی دی ہے۔ شہد کی مکھیوں کے ہاں  بھی عورت راج کی مثال موجود ہے۔جن کا معاشرتی ڈھانچہ ہی ایک مادہ مکھی یعنی ملکہ پر انحصار کرتا ہے۔کہا جاتا ہے اپنی تین سالہ زندگی میں پچیس ہزار کے قریب دیے انڈوں میں سے پچانوے فیصد کارکن مکھیاں جبکہ پانچ فیصد نکھٹو پیدا کرتی ہے۔نکھٹو۔۔۔
اور ان سب باتوں کے بعد میں یہ پوچھنا چاہتی ہوں کہ عورت کے کام کرنے پر معترض یہ لوگ کھیتوں میں مرد کا ہاتھ بٹاتی خواتین کو کیوں بھول جاتے ہیں؟ دستکاری ، سلائی ، مال مویشی سنبھالتی ، اینٹوں کے بھٹے اور سڑکوں پر روڑی کوٹنے میں شریک مزدور عورتیں کیا کریں ؟نرسنگ اور طب کے شعبے سے وابستہ خواتین بھی کتیا بن کر گھروں میں بچے پیدا کرکے بس پالتی رہیں؟درسگاہوں میں زیورِ تعلیم سے آراستہ کرتی  استانی کیا کرے؟جسے آپ جمعدارنی کہتے ہیں وہ سڑکیں اور خواتین کے بیت الخلاء صاف نہ کرے تو کیا آپ کیجیے گا؟جو مرد برسوں پردیس کاٹتے ہیں پیچھے ان کے خاندان کا شیرازہ جوڑ کر رکھنے والی سب عورتیں مرد ڈرائیورز اور گاڑیاں رکھ لیں ؟ہے نا؟ کونسا ایسا شعبہ ہے جہاں خواتین کو ایک ناسور کی طرح کاٹ کر پھینک دینے سے آپ کا نظامِ زندگی مکمل طور پر آپریٹو رہے گا؟ہمیں بھی بتایے۔
شاہ مادری کی بات کرتے ہیں اور بھول جاتے ہیں کہ ہم پر بی۔بی خدیجہ کے کیا احسانات ہیں؟وہ کہ جن کی دولت نے پیغمبرِ دو جہاں کو کسبِ مال کی فکر سے آزادی دی۔

"اُس نے مجھے اپنے مال میں شریک کیا اور مجھے کسبِ مال سے روکا۔"
جن کی دولت کارِ نبوت کی پیشرفت پر خرچ ہوئی
"مجھے اللہ تعالی نے کبھی بھی [خدیجہ] سے بہتر کوئی متبادل خاتون عطا نہیں فرمائی۔ انھوں نے میری تصدیق کی جبکہ لوگ مجھے جھٹلا رہے تھے اور انھوں نے اپنی دولت خرچ کرکے میرے حق میں ایثار کیا جبکہ دوسروں نے مجھ پر پابندیاں لگا رکھی تھیں۔"
یہ حوالے سیرت النبی کی کتب میں موجود ہیں۔اور یہاں ان کا تذکرہ محض اس مقصد کے لیے کیا ہے کہ اگر آپ ایسے ہی دین کے ٹھیکے دار بنے ہیں تو اس بات سے انکار کیسے کریں گے کہ اُم المؤمنین کے مال و دولت نے نبوت کے ابتدائی ایام کو کس طرح آسان کیا۔
خیر یہ ایک طویل بحث ہے۔ہر بار چھڑے گی جب جب اخلاقیات کے علمبردار اور مذہب کے ٹھیکےدار اشرف المخلوقات کا مفہوم پسِ پشت ڈال کر موجودہ زمانے کے تقاضوں کو سمجھے بنا اپنے بودے دلائل سے معاشرے کو ترقی و سکون کے معاملے میں گمراہ کرنے کی کوشش کریں گے۔