پرانے وقتوں کی بات ہے کہ کسی بندے نے ایک خاص چِلے میں جن قابو کرلیا۔یہ آگ کی ایسی ترکیب سے تخلیق کیا گیا تھا جس کو ایک پل چین نہیں تھا۔۔۔۔۔"مجھےکام بتاؤ،میں کیا کروں" والی صفت تھی۔۔۔
پہلے پہل تو جن کے مالک کو بہت سہولت کا احساس ہوا کہ اِدھر کوئی کام کہا اور اُدھر پلک جھپکتے "ہوگیا" ۔۔۔۔۔۔ مگر آخر کتنے کام ہیں جو ایک عام انسان کی روز مرہ زندگی میں ہوسکتے ہیں؟ جبکہ جِن بھائی صاحب کو تو کام کی لگن تھی۔تنگ آکر مالک نے اسے نلکا گیڑ گیڑ کر پانی فصلوں کو لگانے کا کام سونپ دیا۔۔ ایک روز فصل بھی اسی سے کٹوائی گئی۔جِن کی مصروفیت تلاش کرنا مشکل ہوچلا تھا۔مالک کو ترکیب سوجھی اور حکم دیا کہ ایک بانس گھر کے آنگن کے بیچوں بیچ گاڑے اور اس پر چڑھتا اترتا رہے۔۔۔لیجیے جناب ! اچھا خاصا آگ سے بنا جِن حضرتِ انسان کی عقل سے مات کھا کر اسی کے آباء یعنی بندروں والی خصلت پر معمور کردیا گیا۔ اس دوران جب کوئی کام کروانا ہوتا تو بانس بریک لے لی جاتی۔
دادا جی سے سنا کرتے تھے کہ اکثر کسی جِن کے ساتھ ایک "چھلیڈا" بھی ہوتا ہے۔جو کبھی کتا بن جاتا ہے،کبھی بکری اور بعض اوقات سانپ بن کر پھنکارتا ہے۔بہروپیا ہی سمجھیے۔۔۔۔۔واللہ اعلم بالصواب
سنا ہے جنات میں ھڈی،رگ،پٹھے اور جوڑ وغیرہ نہیں ہوتے۔۔۔بس سراپا آگ۔۔سوال یہ ہے کہ کیا ان کا دماغ ہوتا ہے ؟ اگر نہیں ہوتا تو کیا وہ بھی پاکستانیوں کی طرح بنا سوچ کے ہی اولاد پیدا کیے جاتے ہیں ؟ دماغ ہے تو مخلوقات سے افضل کاہے نہیں ؟ اور اگر دماغ نہیں ہوتا تو پاکستانی شہریت کے حامل "شریر جِن" سبق پڑھنے کیونکر آجاتے ہیں ؟ اور پھر جو دماغ موجود ہے تو سوچ بھی ہے۔۔سوچ ہے تو۔۔۔۔۔۔ خیریہ تو سوالات کا ختم نہ ہونے والا جال ہے ۔۔۔۔
ویسے سنا ہے کہ جنات شدید قسم کے حسن پرست اور عاشق مزاج ہوا کرتے ہیں۔ یونہی تو خواتین کو خوشبو لگا کر مغرب کے وقت درختوں تلے جانے سے نہیں روکا جاتا نا۔۔۔۔روایات کے مطابق گوبر اور ہڈیاں ان کی خوراک ہیں۔۔۔۔مگر ہمارے ہاں کے بزرگوں نے مٹھائیوں کے کاروبار میں ترقی کا سہرا بھی جنات ہی کی رغبت کو پہنا رکھا ہے۔۔۔اس شاپنگ کے لیے کرنسی نوٹ کہاں چھپتےہیں کچھ علم نہیں۔۔۔ سیانے کہتے ہیں کوئی بھی جگہ زیادہ عرصہ خالی رہے تو وہاں جنات آباد کاری کرلیتے ہیں۔اور جو بھی خوبصورت و طاقت ور شے انہیں بھاتی ہے بس قبضہ جما کربغیر رجسٹریشن ہی اسے اپنی ملکیت تصور کرلیتے ہیں۔
ہمارے ہاں تو پاکستان اٹامک انرجی کمیشن نے ایسے ایسے "ھیرے" پیدا کیے ہیں کہ جو میتھین گیس کا مجموعہ قرار دیتے آج دن تک جنات پر قابو پا کر توانائی کے شعبےمیں تھرتھلی مچا دینے کا خواب دیکھا کرتے ہیں۔
بہرحال بات چلی تھی اس بندے کی جس نے خاص عمل کے ذریعے ایک بےچین ھڈی والاجِن قابو کرلیا۔۔۔۔۔آج کے زمانے میں نظر دوڑائی جائے تو ایسے خوش نصیب لوگ تو نہیں لیکن عناصر ضرور دکھائی دیتے ہیں ۔۔۔بدقسمتی مگر ان کی یہ رہی ہے کہ کچھ مدت بعد ان کے جمورے سمجھ و شعور سے کام لیتے بانس سے اتر کر معمول کے میدانِ زندگی و سیاست کی جانب رجوع کرلیتے ہیں ،اب کی بار معاملہ مختلف دکھائی دیتا ہے۔ قابو کیا جانے والا آتشی دماغ نما شے کا مالک اپنی ذات سے عشق میں مبتلا ہر تخریبی صلاحیت سے مالا مال ہے۔۔۔۔ ریاستی املاک تہس نہس کروا کر ملک میں ہیجان پیدا کروایے،نعرے لگوایے،نئے خواب سستے داموں بیچیے، مالک سے زیادہ طاقتور کو "کٹ ٹو سائز" کرنا ہو تو پگڑیاں بیچ بازار اچھال دے ، ہجوم اکٹھا کرنا ہو یا پھرمیڈیا و عوام کی توجہ اندرونی و بین الاقوامی معاملات سے ہٹانی ہو۔۔۔۔۔۔۔ نلکا "گیڑتا" جائے گا۔نفرت کی فصل کو تعصب اور جہالت کے پانی سے سیراب کرتا جائے گا۔۔۔ہاں بانس مگر آنگن کے عین وسط میں مستقل نہیں گاڑا گیا۔مرکز بدلتا رہتا ہے۔۔۔۔۔ کبھی شہرِاقتدار،کبھی ملک کا دھڑکتا دل۔۔۔۔
بیل آنکھوں پر بندھی پٹی میں سارا دن ایک دائرے میں گھومتا ہے فقط یہ سوچتے کہ آگے بڑھ رہا ہے مگر اُس کی اس خوش فہم حرکت سے فائدہ یہ ہے کہ کوہلو سے تیل اور رہٹ کا پانی لوگوں کے کام تو آتا ہے۔۔۔ اس جِن کو جانے کب سمجھ آئے گی کہ نلکے اور بانس کی اس کسرت میں حاصل وصول کچھ بھی نہیں۔بس پنجابی والا لارا لگا کر سب کو آرے لگایا ہوا ہے۔
پہلے پہل تو جن کے مالک کو بہت سہولت کا احساس ہوا کہ اِدھر کوئی کام کہا اور اُدھر پلک جھپکتے "ہوگیا" ۔۔۔۔۔۔ مگر آخر کتنے کام ہیں جو ایک عام انسان کی روز مرہ زندگی میں ہوسکتے ہیں؟ جبکہ جِن بھائی صاحب کو تو کام کی لگن تھی۔تنگ آکر مالک نے اسے نلکا گیڑ گیڑ کر پانی فصلوں کو لگانے کا کام سونپ دیا۔۔ ایک روز فصل بھی اسی سے کٹوائی گئی۔جِن کی مصروفیت تلاش کرنا مشکل ہوچلا تھا۔مالک کو ترکیب سوجھی اور حکم دیا کہ ایک بانس گھر کے آنگن کے بیچوں بیچ گاڑے اور اس پر چڑھتا اترتا رہے۔۔۔لیجیے جناب ! اچھا خاصا آگ سے بنا جِن حضرتِ انسان کی عقل سے مات کھا کر اسی کے آباء یعنی بندروں والی خصلت پر معمور کردیا گیا۔ اس دوران جب کوئی کام کروانا ہوتا تو بانس بریک لے لی جاتی۔
دادا جی سے سنا کرتے تھے کہ اکثر کسی جِن کے ساتھ ایک "چھلیڈا" بھی ہوتا ہے۔جو کبھی کتا بن جاتا ہے،کبھی بکری اور بعض اوقات سانپ بن کر پھنکارتا ہے۔بہروپیا ہی سمجھیے۔۔۔۔۔واللہ اعلم بالصواب
سنا ہے جنات میں ھڈی،رگ،پٹھے اور جوڑ وغیرہ نہیں ہوتے۔۔۔بس سراپا آگ۔۔سوال یہ ہے کہ کیا ان کا دماغ ہوتا ہے ؟ اگر نہیں ہوتا تو کیا وہ بھی پاکستانیوں کی طرح بنا سوچ کے ہی اولاد پیدا کیے جاتے ہیں ؟ دماغ ہے تو مخلوقات سے افضل کاہے نہیں ؟ اور اگر دماغ نہیں ہوتا تو پاکستانی شہریت کے حامل "شریر جِن" سبق پڑھنے کیونکر آجاتے ہیں ؟ اور پھر جو دماغ موجود ہے تو سوچ بھی ہے۔۔سوچ ہے تو۔۔۔۔۔۔ خیریہ تو سوالات کا ختم نہ ہونے والا جال ہے ۔۔۔۔
ویسے سنا ہے کہ جنات شدید قسم کے حسن پرست اور عاشق مزاج ہوا کرتے ہیں۔ یونہی تو خواتین کو خوشبو لگا کر مغرب کے وقت درختوں تلے جانے سے نہیں روکا جاتا نا۔۔۔۔روایات کے مطابق گوبر اور ہڈیاں ان کی خوراک ہیں۔۔۔۔مگر ہمارے ہاں کے بزرگوں نے مٹھائیوں کے کاروبار میں ترقی کا سہرا بھی جنات ہی کی رغبت کو پہنا رکھا ہے۔۔۔اس شاپنگ کے لیے کرنسی نوٹ کہاں چھپتےہیں کچھ علم نہیں۔۔۔ سیانے کہتے ہیں کوئی بھی جگہ زیادہ عرصہ خالی رہے تو وہاں جنات آباد کاری کرلیتے ہیں۔اور جو بھی خوبصورت و طاقت ور شے انہیں بھاتی ہے بس قبضہ جما کربغیر رجسٹریشن ہی اسے اپنی ملکیت تصور کرلیتے ہیں۔
ہمارے ہاں تو پاکستان اٹامک انرجی کمیشن نے ایسے ایسے "ھیرے" پیدا کیے ہیں کہ جو میتھین گیس کا مجموعہ قرار دیتے آج دن تک جنات پر قابو پا کر توانائی کے شعبےمیں تھرتھلی مچا دینے کا خواب دیکھا کرتے ہیں۔
بہرحال بات چلی تھی اس بندے کی جس نے خاص عمل کے ذریعے ایک بےچین ھڈی والاجِن قابو کرلیا۔۔۔۔۔آج کے زمانے میں نظر دوڑائی جائے تو ایسے خوش نصیب لوگ تو نہیں لیکن عناصر ضرور دکھائی دیتے ہیں ۔۔۔بدقسمتی مگر ان کی یہ رہی ہے کہ کچھ مدت بعد ان کے جمورے سمجھ و شعور سے کام لیتے بانس سے اتر کر معمول کے میدانِ زندگی و سیاست کی جانب رجوع کرلیتے ہیں ،اب کی بار معاملہ مختلف دکھائی دیتا ہے۔ قابو کیا جانے والا آتشی دماغ نما شے کا مالک اپنی ذات سے عشق میں مبتلا ہر تخریبی صلاحیت سے مالا مال ہے۔۔۔۔ ریاستی املاک تہس نہس کروا کر ملک میں ہیجان پیدا کروایے،نعرے لگوایے،نئے خواب سستے داموں بیچیے، مالک سے زیادہ طاقتور کو "کٹ ٹو سائز" کرنا ہو تو پگڑیاں بیچ بازار اچھال دے ، ہجوم اکٹھا کرنا ہو یا پھرمیڈیا و عوام کی توجہ اندرونی و بین الاقوامی معاملات سے ہٹانی ہو۔۔۔۔۔۔۔ نلکا "گیڑتا" جائے گا۔نفرت کی فصل کو تعصب اور جہالت کے پانی سے سیراب کرتا جائے گا۔۔۔ہاں بانس مگر آنگن کے عین وسط میں مستقل نہیں گاڑا گیا۔مرکز بدلتا رہتا ہے۔۔۔۔۔ کبھی شہرِاقتدار،کبھی ملک کا دھڑکتا دل۔۔۔۔
بیل آنکھوں پر بندھی پٹی میں سارا دن ایک دائرے میں گھومتا ہے فقط یہ سوچتے کہ آگے بڑھ رہا ہے مگر اُس کی اس خوش فہم حرکت سے فائدہ یہ ہے کہ کوہلو سے تیل اور رہٹ کا پانی لوگوں کے کام تو آتا ہے۔۔۔ اس جِن کو جانے کب سمجھ آئے گی کہ نلکے اور بانس کی اس کسرت میں حاصل وصول کچھ بھی نہیں۔بس پنجابی والا لارا لگا کر سب کو آرے لگایا ہوا ہے۔
بہت خوب، جنات بارے آپ کی معلومات قابلِ رشک ہیں، مگر جہاں سے اُٹھا کر جہاں جوڑا ہے وہ آپ کا ہی خاصہ ہے - شاندار تجزیہ، یہ جِن کُرسی کُرسی کا ورد کرنے والے عامل کے قابو آتا ہے ویسے
جواب دیںحذف کریںشعیب بھائی۔۔۔ یہ تو دادا مرحوم سے سنی ایک کہانی ہے بس ؛-) ۔۔ یقین مانیے سب معلومات بھی دادا دادی کی سمجھائی ہوئی ہیں
حذف کریںشکریہ جناب
جہالت کا جن..
جواب دیںحذف کریںتعصبیت کا جن
فرقہ پرستی کا جن
خود غرضی و حسد کا جن
خود پرستی کا جن
وغیرہ وغیرہ
جی جی۔۔۔ بالکل
حذف کریںبہت اعلیٰ تحریر
جواب دیںحذف کریںسلامتی کی دعا
لکهتی رہیں اور فیضیاب کرتی رہیں
شکریہ جناب۔۔۔
حذف کریںسب کردار ایک ہی تحریر میں سمو دیے کمال
جواب دیںحذف کریںشکریہ عرفان بھائی۔۔۔
حذف کریںوڈی باجی
جواب دیںحذف کریںبہت عمدہ
شکریہ بھائی۔
حذف کریںواقعی سنا تھا کہ کوئی کچھ دن بےآباد رہے تو جن قابض ہو جاتے ہیں
جواب دیںحذف کریںبھلے سرسبز باغ ہو یا کوڑے کا ڈھیر
پر چونکہ ہڈی پٹھے جوڑ وغیرہ کے علاوہ دماغ بھی نہیں ہوتا اس لئے پھر
سب چلتا ہے
ہاہااہاہاہاہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس کمنٹ کا شکریہ
حذف کریںجیتے رہیے
عمدہ تحریر
جواب دیںحذف کریںمتشکرم ۔۔۔۔۔
حذف کریںبہت اعلیٰ تحریر
جواب دیںحذف کریںاس جن کے چھلیڈے بھی بدلتے رہتے ہیں
چھلیڈا تو ایک ہی ہے۔۔۔ پٹھو بدلتے ہیں۔۔۔۔
حذف کریںشکریہ وقاص بھائی
عمدہ ، خوبصورت تحریر
جواب دیںحذف کریںقیمتی رائے کے لیے شکریہ جناب۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حذف کریںGood hai :)
جواب دیںحذف کریں:-)
حذف کریںجزاک اللہ
ضرور جناب۔۔لکھیے۔۔ سو بار بسم اللہ
جواب دیںحذف کریں