بدھ، 2 ستمبر، 2015

عورت

میرا نام "عورت " ہے۔ کہانی میری پیدائش سے بہت پہلے شروع ہوتی ہے ۔۔۔شاید میری اماں یا پھران کی والدہ کی پیدائش سے بھی پہلے سے پنپتی اس داستان کو ہزاروں زاویوں سے لکھا جا چکا ہوگا۔۔کیسا عجب معاملہ ہے کہ نصف صدی سے بھی زیادہ عرصہ گزرنے کے باوجود بنیادی معاملات میں کچھ کمی بیشی کے بعد کہانی یوں ہی ایک رہٹ کی مانند چلتی جاتی ہے۔
میرا جنم اپنے ددھیال اور ننھیال کی اگلی نسل کے پہلے بچے کے طور پر ہوا تھا۔کیسا لمحہ ہوگا کہ جب ہندؤوں کے دور کے بنے اس محل کے ایک تہہ خانےمیں دائی ماں نے ایک گل گوتھنا وجود ساڑھے پندرہ سال کی لڑکی کےپہلومیں یہ کہتے ڈالا ہوگا کہ "بیٹی۔۔۔۔دھی رانی آئی ہے۔۔۔رحمت اتری ہے ۔۔۔" سنا ہے اس لمحے ماں کی دادی نے اپنے پلو سے آنسو پونچھے تھے کہ "ہائے ! میری پھولوں جیسی پوتی ایک "بیٹی" کی ماں بن گئی۔۔۔۔آج سے جہیز کی فکر شروع ہوگئی۔۔" اور ایک سرد آہ کھینچی تھی۔
حیرت ہوتی ہے کسی کو یہ دُکھ نہ تھا کہ سولہ سال سے بھی کم عمر بچی ایک بچے کی ماں بن گئی ہے۔غم تھا تو یہ کہ بیٹی آگئی ہے۔ابا بھی یہی کوئی ساڑھے اکیس بائیس برس کے تھے۔اور یونہی ایک بار دل پر گھونسا سا پڑا تھا جب انہوں نے کہا تھا "سلکھی (جمعدارنی) نے لڈوکھاتےکہا تھا۔۔۔۔ دھی آگئی،ویہڑے جوائی۔۔۔۔" اور پھر اگلے ہی برس لہ سالہ ماں نے ایک حسین بیٹے کو جنم دیا۔۔۔۔

ددھیال نے پوتی کی پیدائش پر لڈو بانٹے تھے۔دادا نےہمیشہ پوتی کوگود اٹھایا اور ایک برس چھوٹے وتے کا ہاتھ پکڑتے۔ لوگ کہتے کہ "بابوؤں کے گھر پوتی کو بہت مان دیتے ہیں۔۔۔" مگر اسے اپنی پھوپھیاں یادہیں جو شام کو تَوی لگا کرپھونکنی سےلکڑیاں سلگاتی، دھوئیں میں آنسو پونچھتے ڈھیروں ڈھیرروٹیاں پکایا کرتی تھیں۔اور رات کو لالٹین کی روشنی میں صبح کے امتحان کی تیاری کرتیں۔بقول ابا کی پھپھو ان لڑکیوں کا پڑھ لکھ جانا ہی اچھے رشتوں کی تلاش میں حائل تھا۔ قطع نظر اس کے کہ برادری ازم دادا کا پیچھا نہیں چھوڑ پایا تھا۔بیٹیاں پڑھتی چلی گئیں۔ہاں مگر بیٹی کی کمائی کھانے کاطعنہ ایسا سخت گیر تھا کہ انہیں کبھی نوکری کی اجازت ہی نہ ملی۔بہرحال شادی تو ہونا ہی تھی۔بہت کچھ کمپرومائز کرکے ہو ہی گئی۔

خاندان کی اگلی نسل کی "عورت" نازوں پلی پوتی۔جسے پڑھنے کی بھرپور آزادی تھی مگر کچھ مضامین، موضوعات اور بہت سی کتب کے علاوہ۔
بےچین روح روزِ اول سے ہر وہ کام کرتی چلی گئی جس سے منع کیاجاتا رہا۔الجبرا اور انگریزی گرائمر دادا سے ایسا سیکھا کہ پھرچپکےسے زندگی کی پہلی کمائی ٹیوشن فیس کی صورت ڈیڑھ سوروپیہ پڑوس کی بچی کوپڑھاتے وصول کی۔طوفان جانتے ہیں کب کھڑا ہوا؟ جب اسی بچی کے بارہ سالہ بھائی کو ٹیوشن پڑھانے بٹھایا۔اور اس روز احساس ہوا کہ پھپھو کی نشست پر چپکے سے ہی سہی مگر زبردستی بٹھا دیا گیا ہے۔

بہت مضبوط دکھائی دینے والی وہ لڑکی کہ جسے گھر کے اندر سے ابا موٹر بائیک پر بٹھاتے اور سکول کالج سے واپسی پر گھر کے صحن میں ہی آکر اتارتے۔ہونق بنی ساتھی لڑکیوں سے پبلک ٹرانسپورٹ کے رونے سنا کرتی۔
وقت چلتا رہا کہ ایک باغی عورت نے مرضی کے مضامین ضد میں ہی سہی پڑھ کر دکھادیے تھے۔اور پوسٹ گریجویٹ کے لیے جس مضمون کا ارادہ تھا اس کے لیےتو بہت رقم کی ضرورت تھی۔جو فی الحال مڈل کلاس گھرانہ افورڈ نہ کرسکتاتھا۔
ماں نے اپنی سونے کی چوڑیاں بیچ دی تھیں۔بھائی کو اچھےنام والے پرائیویٹ کالج میں داخلہ لینا تھا۔۔۔بیٹا پڑھے تو سارے گھر کو کھلاتا ہے تو بس اس کی تعلیم پر لگا سرمایہ واپس ہی تو آنا تھا۔
اس ضدی عورت نے دو سال گھر سنبھالا،کینسر کی مریضہ ماں کو لے کر دھکے کھائے۔ٹیوشنز پڑھائیں۔اسے یاد ہے کہ دوسرے مہینے ابا 
نےٹیوشن فیس سے حاصل ہوئے اٹھارہ ہزار روپے لینےسے انکار کردیا کہ بیٹی کی کمائی نہیں کھانی۔ہاں مگر اسی رقم سے ماں کی کیموتھراپی اور دیگراخراجات پورے کردیے۔شام کی کلاسز سے تعلیم کا سلسلہ پھرسےجوڑ لیا اور پھرایک روز سکول میں نوکری بھی کرڈالی۔ابا اس بار سختی سے انکار بھی نہ کرپائے کہ حالات ہی ایسے تھے۔بس یہ ہوا کہ لانے لیجانے کی ذمہ داری پھر ابا ہی کے کندھوں پر تھی۔

سینئر سیکشن میں لڑکوں کو پڑھاتے اسے اکثر خیال آجاتا کہ اگر گھر والوں کو خبر ہوجائے کہ "جوان" لڑکوں کو پڑھا رہی ہے تو کیسی درگت بنے خاندان بھر میں۔اس خیال کے آتے ہی ہر طالب علم بیٹا/بچہ ہی بنتا چلا گیا۔سٹاف روم کی سیاست اور قصے کہانیوں سے دور اسے فرصت ہی نہ ملتی کہ کبھی کاپیاں چیک کرنےور ٹائم ٹیبل بنانے کے علاوہ ارد گرد بھی جھانک سکے۔ عجب عورت تھی۔سب کی دوست،سب کی سامع مگر پلٹ کر نہ سوال نہ کرید یاٹوہ بس یہ کہ یہاں بھی کچھ نظروں کو سرزنش کرنے کا خمیازہ استعفیٰ کی صورت بھگتنا پڑا۔ وہ اپنی حدود سے گاہ تھی۔
پڑھنے اور پڑھانے کے سوا اس کی زندگی کا تیسرا محور باورچی خانہ تھا۔دراصل اس کی پناہ گاہ بھی یہی کونہ تھا کہ جب خاندان کی عورتوں کا محبوب مشغلہ اس کی ہم عمر لڑکیوں کی شادیاں،ازدواجی و زچگی کے معاملات کو سرگوشیوں میں چسکے لے کر جتلانا ہوتا۔ مقصد ان کا یہ بھی ہوتا کہ "بوڑھی ہوچلی اتنا پڑھا کر برادری میں رشتہ ملنے سے رہا۔"
وہ بھی کیا کرتیں کہ ضرورت سے زیادہ پڑھ لکھ جانے والیاں کبھی اچھی بہو بنتے نہ دیکھی تھیں اور اب تو نوکری اور لڑکوں کو ٹیوشن پڑھانے کا اضافی کلنک بھی موجود تھا۔
شادی بیاہ اور دیگر خاندانی تقریبات پر موضوعِ سخن صرف اسی کی ذات ہونے لگی تھی جہاں پہلے اس کے اماں باوا کے جھگڑوں کے قصے چٹخارے لے کر سنائے جاتے تھے۔کڑواہٹ بھرتی چلی جارہی تھی۔اس کا قصور شاید انگوروں کے اس گچھے سے الگ ہوجانا تھا ۔
ہمارے معاشرے کا اہم ترین اور شاید واحد کام جس کے لیے انسان دنیا میں آتا ہے "شادی" سرانجام پا ہی گیا۔۔۔کمپرومائزز کی بھرمار کے ساتھ۔
اور پھر اگلا مرحلہ۔۔۔شادی کے ڈیڑھ ہفتے بعدہی خوشخبری کے لیے ترسے کانوں کے لیے عورت ایک بار پھر امیدوں کا گہوارہ بن بیٹھی تھی۔ کچھ مہینوں بعد وہی زبانیں اب آہیں بھرنے لگیں۔الگ بات کہ بیٹی ہوجاتی تو بیٹے کامطالبہ ہوتا۔بیٹا جنا جاتا تو جوڑی مِلانے کی آس۔۔۔۔یعنی ایک نا ختم ہونے والا سلسلہ۔۔۔۔مگر اس کا اختتام یوں تو نہ سوچا تھا۔۔۔

زندگی نے پھر پلٹا کھایا تھا اور "عورت" کو اپنے حق کے لیے ایک بار پھر مردوں کے معاشرے کا سامنا تھا۔اپنے جینے کاحق چھننے کا فن بھی سیکھ گئی اور گِدھ بنے جنسی لذت کے شکاریوں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالنے کا ہنربھی وقت سکھاتا چلاگیا ۔۔۔
سنا ہے اکثر محافل میں اب بھی اسی کی ذات پسندیدہ موضوع ہے مگر کہیں نہ کہیں کچھ تو بدل چکا ہے جو وقت کے ساتھ واضح ہوجائے گا۔