جمعرات، 20 اگست، 2015

کاجل

مشتاق صاحب کے تین بیٹوں میں بڑا پتر ملک کاظم زرعی ترقیاتی بینک میں ریکوری آفیسر تھا۔ یہ اُن دِنوں کی بات ہے جب کسان کو قرض دینے میں حکومت جس عجلت کا مظاہرہ کرتی تھی اس کی واپسی کے لیے بھی اسی تندہی سے مزارع کی عزتِ نفس "پیلیوں" میں جوتے مار کر کچلی جاتی تھی۔اور اس فرض کی ادائیگی کےلیے ریکوری افسروں نے اپنی جیپ میں دو بندے دفتر سے اور تین زمیندار کےعطا کیے بٹھائے ہوتے۔ ہاں مگر گولڈن شیک ھینڈ سے مستفید ہونے سے قبل کسان دوست قرضے  کے نام پر وڈیروں کے ساتھ مل کر ان افسروں نے کتنا مال بنایا وہ ایک الگ ہی داستان ہے۔
گھر سے میلوں دور کاظم کی فیلڈ ڈیوٹی کا ہی شاخسانہ تھا کہ خاندان والوں کو مجبور کرکے جھنگ شہر کی کوثر سے شادی کی تھی۔ صاحب پہلے اس اجنبی جگہ پر شام کے فارغ اوقات دوست کی اس بہن کو ٹیوشن پڑھانےمیں گزارتے تھے۔پھر خیال آیا کہ اچھی طالبہ ہے،تاحیات شاگردی میں لے لیا جائے۔
 
کاظم کو دنیا کے ہر بندے کا نام بگاڑنے کا حق حاصل تھا مگر اس کا نام کوئی بگاڑ کر جائے کہاں۔سب بھائیوں کے الٹے نام رکھ چھوڑے تھے۔۔۔

کاجل کو کوثر کے تیسرے miscarriage
 کےبعد خدمت گزاری کےلیے لایا گیاتھا۔ اُس کا نام کرن تھا۔وہ بھی قرض کے بوجھ تلے دبے کسی "کمی کمین" کی اولاد تھی۔ مگر جب ١٣ سال کی عمرمیں جھنگ کے نواحی گاؤں سے صاحب لوگوں کے اس حویلی نما بنگلےمیں آئی تو اس نے باجی کوثر کی ساس کو جھنگ کے مشہور "تیلی والےکاجل" دیتےسمجھایا تھا کہ کیسےکُنالی مٹی کے چولہے پر اوندھی دھری رہتی ہے جب تمام رات جلتا دیا اس کے نیچے رکھتے ہیں۔اور صبح کو وہ ساری کالک کاجل کی صورت پیلی تیلیوں پر اکٹھی کی جاتی ہے۔۔۔بس نام تو عطاء ہونا ہی تھا۔۔۔تو وہ گھر بھر کی کاجل بن گئی۔
لڑکوں کے بھرے پرے گھر میں اس تیرہ سالہ بچی کو چند ہی ماہ میں اچھے سے سمجھ آگئی تھی کہ "کاظم بھائی" کو خوش رکھےگی تو باقی "ستے خیراں" ہیں۔پھر گُلو صاحب بھی بہت خیال رکھتے تھے۔آتے جاتے آئسکریم دلواتے۔ان کےلیے چائے بنا کر لاتی تو کس محبت سے اس کا ہاتھ سہلاتے ، کتنے ناز نخرے اٹھاتے ، اور کبھی تو۔۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔۔
شروع میں بات بات پر دہل جانے والی کرن اب کبھی گاؤں جانے کاتذکرہ ہی نہیں کرتی تھی۔۔۔ سال ڈیڑھ میں ہی کاجل بڑی ہوگئی تھی اور "سمجھدار" بھی کردی گئی تھی۔ کوثر نے ساس صاحبہ کو اشارتاً کہا بھی کہ پرائی بچی جوان ہورہی ہے واپس بھجوائے دیتےہیں۔مگر اب چوتھی بارخوشخبری تھی اور اماں جان اب کی بار بہو کو ہِل کر پانی تک نہ پینے دیتیں۔ایسے میں کاجل کا بہت سہارا تھا۔سارا گھر سنبھال رکھا تھا۔جبکہ کوثر کو محسوس ہوتا کہ اسے گھر والے سنبھالنے کا فن بھی آگیا ہے۔

رب نے مہر کردی تھی اور اس بار صحتمند بیٹا ملک کاظم کی گود میں ڈالتے کوثر شاداں تھی۔بینک کی جانب سے تبادلہ دور دراز کے علاقےمیں ہواتو ملک کاظم بیٹے،بیوی اور کاجل کےساتھ وہیں منتقل ہوگئے کہ اب بازار کےکھانے سے دل اُوب گیا تھا۔۔۔چھوٹے بھائی مہینےمیں دو تین چکر لگاہی لیتے تھے۔ذیشان کو پیار سے شانی کہاجانےلگا اور کاجل سارا دن گھراور گھروالوں کےساتھ اس بچےکو بھی سنبھالتی کیونکہ باجی کوثر کی طبیعت ایک بار پھر خراب تھی۔۔۔۔
دوسرےبیٹےکی پیدائش پر کوثرکومحسوس ہوا کہ سسرال میں اب اس کا مقام پسند کی شادی کرنے والی سے بڑھ کر نسل بڑھانے والی چودہرائن جیسا ہوگیا تھا۔۔۔ایسے میں مان اور غرور کا آ جانا کچھ اچھنبے کی بات تو نہ تھی۔

"کاجل ۔۔۔تیری ماں نے پھر بیٹی پیدا کرلی ہے۔۔۔ہونہہ۔۔۔ اسے کہہ اب بس کردے،پہلے ہی دَس بچےہیں۔" کوثر نے نخوت سے فون پٹخ کر پونچھا لگاتی بچی کو لتاڑا۔
"باجی ہمارے علاقے میں بچوں کی تعداد کی فکر اس لیے بھی کم ہے کہ آدھے تو "گُڈی پٹولے اور بینٹے" کھیلنے کی عمرمیں صاحب لوگوں کے بچوں کو سنبھالنے،بیگمات کے پیر صاف کرنے اور بڑے صاحب کے جوتےچمکانے شہرآ جاتے ہیں۔۔۔" کاجل نے حلق کی کڑواہٹ محسوس کی مگر اگلے لمحے کمر میں لگنے والے جوتے اور باجی کی گالیوں نے اس عمر میں ایسی "پکی" بات کرنے کا مزہ چکھ لیا تھا ۔۔۔۔۔
شانی اب پری نرسری جانے لگا تھا مگر گھرکےبعد سکول میں بھی یہی بات سامنے آئی کہ بچہ گم سم اور سہما رہتا ہے۔کوثرکو بھی آرام کرنے اور "چھوٹو" کی دیکھ بھال سے فرصت ملتی تو شانی کے رویےمیں تبدیلی محسوس ہوتی۔ٹھیک سے کھاتاپیتا بھی نہ تھا۔ڈاکٹر کودکھایا گیا توکچھ نسخہ جات کے علاوہ ماہرِ نفسیات کی راہ سجھا دی گئی۔جس کا پہلے ہی "وزٹ" میں مشورہ تھا کہ بچے کی دوستی اور سرگرمیوں پر نظر رکھی جائے۔
بات یونہی آئی گئی ہوچلی تھی کہ کاجل کو پانچ روز کے لیےاپنی بہن کی شادی دیکھنے گاؤں جانا پڑ گیا۔پہلےتو بچوں کے کمرےمیں وہ ہوتی تھی تو کاظم اور کوثر کو کچھ دقت نہ تھی مگر دو ہی روزمیں کوثر کی ہمت جواب دے گئی تھی۔آج بھی چھوٹو کو "فنرگن" پلا کر شانی کو کھیلتے دیکھ کرنیند پوری کرنے اپنے کمرے میں چلی آئی۔۔۔مگر کچھ ہی دیر میں برقی گھنٹی کی چنگھاڑ سے جاگ اٹھی۔۔گوالے سے دودھ لےکر فریج میں رکھتے اور دل میں کاجل کو گالیاں نکالتے بچوں کے کمرے میں جھانکا تو چیخ دبا کر رہ گئی۔۔۔۔
"شاااااانی ی ی ۔۔۔۔۔۔ یہ کیا کررہے ہو ؟ "
کوثر نے پھٹی آنکھوں کے ساتھ شانی کو ایک جھٹکے سے چھوٹو سے الگ کیا۔۔۔۔۔
"یہ سب۔۔۔۔۔۔ یہ سب کس نے سکھایا ؟ کہاں دیکھا ؟ بولتے کیوں نہیں ؟" وہ اپنے لختِ جگر کو جھنجھوڑ رہی تھی کہ کاظم گھر میں داخل ہوا۔۔۔۔
"کاظم۔۔۔۔۔ یہ شانی ۔۔۔۔۔ یہ چھوٹو کے ساتھ ۔۔۔۔ یہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔" کوثر نے ہکلاتے ہوئے کچھ کہنا چاہا اور ننگ دھڑنگ بچوں کی جانب اشارہ کیا
"کیا بکواس ہے یار۔۔۔۔ میں فیلڈ سے سیدھا آرہا ہوں۔۔
 کچھ روز کاجل کے بنا دو بچے نہیں سنبھال سکتی ؟ " کاظم نے غصے میں پھنکارا
"آپ سمجھ نہیں رہے۔۔۔۔۔ میں کمرے میں داخل ہوئی تو شانی اس وقت چھوٹو کے ساتھ ۔۔۔۔۔" کوثر گھٹی گھٹی آواز میں بتا رہی تھی کہ اچانک کاظم نے شانی کو کندھے سے پکڑا
"شانی ! پارٹنر۔۔۔۔۔ یہ سب کہاں دیکھا تھا؟ پاپا کو بتاؤ۔۔۔ہمارا Secret ہوگا۔۔ماما کو نہیں بتائیں گے۔۔" کاظم نے بچے کو پھسلایا

"پاپا۔۔۔۔ جیسے آپ ماما کے فرینڈ ہیں۔۔۔
میں اور کاجل بھی Friends ہیں ۔۔۔۔ ۔۔۔۔اور کاجل تو اتنی اچھی ہے۔۔۔ آپ اور گلو چاچو سےبھی فرینڈشِپ ہے مگربیسٹ والی پکی فرینڈشِپ توشانی سے ہے  ۔۔۔ مجھے پتا ہے نا بس ۔۔۔۔ فرینڈز میں "ایسا" کرنا Rule ہے نا ۔۔۔ میں تو چھوٹو سے فرینڈشِپ کررہا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔" شانی آج اپنے والدین کو دوستی کے "اصول" سکھا رہا تھا اور وہ دونوں ایک دوسرے سے نظریں چرائے سامنے دیوار کو گھور رہے تھے ۔۔۔۔۔۔۔

ہفتہ، 15 اگست، 2015

عصمت

"عصمت کہاں مرگئی ہو؟ پانی لاؤ جلدی سے۔۔۔۔۔"
"پانی بعد میں دینا اس چڑیل کو،پہلے میرے جاگرز صاف کرو۔۔۔گارے سے لتھڑے پڑے ہیں۔خود بھی کبھی دیکھ کر کام کرلیا کرو۔"
یحییٰ اور سمیرا میں اب بہن بھائی والے جھگڑے کی بجائے پاک بھارت گھمسان کا رن پڑنے والاتھا۔عصمت نے جلدی سے پانی کا گلاس میز پر رکھا اور جاگرز اٹھائےگیراج میں چلی آئی۔

عصمت جب پہلی بار چنیوٹ کے نواحی گاؤں سے اس "زندہ دلانِ لاہور" کے گھر لائی گئی تو فقط سات آٹھ برس کی ہی تھی۔اسے یہاں آئے 4 سال ہوچلے تھےاوربیگم صاحبہ کا آدھا بوجھ اس کے ننھےکندھوں پر آن پڑا تھا۔پہلے پہل تو سٹول رکھ کر برتن دھوتی مگر اب تو ایک دم قد نکلا تھا اور بقول ذیشان "مٹن تو ہم کھاتے نہیں ،سب کچھ اسی کے حلق میں اترتا ہے۔۔۔ تو صحت کیسے نہ بنے۔۔۔"
سال دو سے تو ہر تیسرے روز "بیگم صاحبہ" کی نگرانی میں واشنگ مشین لگا کر کپڑے دھوتی اور پھر استری بھی کرتی۔چائےبنانا،سبزی کاٹنا،کوئی چھوٹا موٹا سودا قریبی سٹور سے لانا،جھاڑوپونچھا ، "بھائی جان" کے کپڑے دھوبی کودینا اور "کلف زدہ "کڑکڑاتے سوٹ لاکر الماریوں میں ترتیب سےلگانا۔۔۔۔۔مانو کوئی ننھا سا روبوٹ ہاتھ لگ گیا تھا۔
آج کل کے دور میں "کُل وقتی ملازمہ" ملنا کتنا دشوار ہے یہ کوئی مِسزطاہر سے پوچھے۔پہلی ملازمہ گاؤں والدین کو ملنے گئی تھی اور پھر لوٹ کر نہ آئی ۔ اس دوران 6 ماہ جس "اذیت" میں انہوں نے گزارے تھے بس وہی جانتی تھیں۔لہذا عصمت کو لاتے وقت یہی شرط رکھی تھی کہ سال میں ایک بار،وہ بھی "میٹھی عید" پر ملنے جائے گی کہ عید الاضحیٰ پر جانوروں کا کام بہت ہوتا ہے۔غریب والدین تھے اور ماہانہ ٦000 روپے کے حساب سے سال کا پورے بہتر ہزار ہتھیلی پر دھر دیا گیا۔۔ساتھ یہ اضافہ بھی کہ صدقہ ۔خیرات وغیرہ جو بھی نکلے گا انہی کو ملے گا کہ عصمت کے والد ایک حادثےمیں ٹانگیں گنوا بیٹھے تھے۔غریب کو اور کیا چاہیے تھا۔۔۔۔ سال کی گندم ، چاول ، گڑ وغیرہ خرید کر بھی بہت رقم بچ جانی تھی۔پھر کپڑا لتا،اور صاحب لوگوں کی "اُترن" کی بھی آس بندھ گئی تھی۔مگر اس سارے منظر میں "کسی" کی آنکھیں دھندلائے جارہی تھیں۔
عصمت کو ماں نے برآمدے میں لےجاکر پچکارتے ہوئے سمجھایا "دھی رانی۔۔۔۔اپنے ابے کو دیکھ،دو بہنیں جوان ہیں۔۔بھائی سکول جاتےہیں۔کون پورا کرے گا؟ میری سمجھدار دھی ہے نا؟ پھر وہاں شہر میں مشینیں ہیں ۔۔۔۔ زیادہ کام نہیں ہوتا۔صاحب لوگوں کےساتھ گاڑیوں میں گھومنا،باجی کہتی ہے تجھے خود پڑھائے لکھائے گی۔چل شاباش۔۔۔۔اب رونا نہیں۔"
طاہرشیخ صاحب کاروباری حلقے میں اپنی پہچان بنانے میں مصروف تھے اور ان کی بیگم صاحبہ "گھر بنانے" میں جُتی رہتیں۔یحییٰ ، سمیرا اور ذیشان تین ہی بچے تھے۔مگر ان تینوں نے گھن چکر بنا رکھا تھا۔عصمت کے آنے سے کچھ سہولت اور آرام میسر آیا تھا۔شام میں ذیشان کو قاری صاحب پڑھانے آتے تھے ۔ سال بعد عصمت نے ڈرتے ہوئے قرآن پڑھنے کی استدعا کی تو بیگم صاحبہ کو جانے کیسے ترس آگیا اور ذیشان کےساتھ اب شام کا آدھا گھنٹہ وہ بھی قاری صاحب سے پڑھنے لگی۔ذہین تھی ۔۔۔شاید اسی لیے ذیشان ابھی آدھا سپارہ ہی مکمل کرپاتا جبکہ عصمت اس سے ڈیڑھ پارہ آگے ہوتی۔
سمیرا "باجی" کا کبھی موڈ ہوتا تو اسے گنتی اور جمع تفریق سکھا دیتی۔یحییٰ کا فرسٹ ائیر میں داخلہ ہوگیا تھا اورکالج میں نئے دوست بن گئے تھے تو اب گھر بھی آنا جانا لگا رہتا تھا ۔ایسے میں ڈرائینگ روم تک کھانے پینے کی ترسیل کا سب ذمہ عصمت ہی کا تھا۔ بیگم صاحبہ نے اس بار سمیرا باجی کے دوپٹوں والے تین جوڑے دیے تھے اور ساتھ نصیحت کی تھی کہ "اب بڑی ہورھی ہو ،لڑکے ہوتے ہیں گھر پر۔اچھے سے کندھوں پر دوپٹہ ڈالا کر۔۔۔۔یہ گاؤں نہیں کہ کلانچیں بھرتی پھرے۔۔۔۔۔۔"

ذیشان آج پھر قاری صاحب کے آنے سے قبل سائیکل لے کر "فرار" ہوچکا تھا اور چاروناچار عصمت کو اکیلے ہی سبق لینا تھا ۔ کچھ دنوں سے وہ گھبرائی رہتی اور "بڑی باجی " کو بہانے سے کہا بھی کہ قاری صاحب کے سامنے ذیشان بھائی جان ساتھ ہی بیٹھا کریں۔۔۔باجی نے پہلے تو چُٹیا مروڑی پھر دو تھپڑ رسید کیے "بے غیرت کہیں کی۔۔۔یہ شہر ہے۔اور وہ قاری صاحب ہیں کوئی تیرے گاؤں کا لفنگا نہیں۔۔بہت نخرے ہوگئے ہیں تیرے۔۔۔" عصمت نے آنسو صاف کیے اور وضو کرکے "سبق" لینےڈرائینگ روم میں چلی آئی۔
رمضان کا آخری عشرہ شروع ہوگیا تھا اور شیخ صاحب کو فیکٹری سے لوٹتے دیر ہوجاتی۔۔۔لہذا آج بیگم صاحبہ نے سمیرا کے ساتھ ہی شاپنگ کا پلان بنا لیا تھا۔عصمت معمول کے مطابق "سرف" کا پونچھا لگا کر اب گرم پانی کے پونچھے سے ٹائلز چمکا رہی تھی۔"کیا خیال ہے عصمت کو لے جائیں ساتھ۔۔ "شاپنگ بیگز" اٹھانے میں 
سہولت رہتی ہے ۔۔۔" مِسز طاہر نے پرفیوم کا چھڑکاؤ کرتے بیٹی سے سوال کیا۔۔۔نخوت سے جواب آیا، "رہنے دیں ممی ۔۔۔۔حلیہ دیکھا ہے اس کا۔۔۔مجھے کوئی ضرورت نہیں اپنی پوزیشن خراب کروانے کی۔۔ڈرائیور ہے نا ساتھ۔۔۔"
ماں بیٹی گیراج کی جانب نکلیں تو بیگم صاحبہ کی گرجدار آواز سے پانی کی بھری بالٹی عصمت کے ہاتھ سے چھلک گئی "عصمت کتنی بار سمجھایا ہے کہ "سرف" کا پونچھا سوکھنے سے پہلے گرم والا مارا کرو۔۔۔ساری ٹائلز پر جابجا نشان پڑے دکھائی دے رہے ہیں۔بہت ھڈ حرام ہوگئی ہو۔۔۔۔ اور یحییٰ کا واش روم میں نےکل دیکھا ، باتھ ٹب کی حالت دیکھی ہے؟ وہ سو کر اٹھتا ہے تو آج "ہارپک" لگاؤ۔۔تمہارا چہرہ دکھائی دے مجھے ان ٹائلز میں۔۔۔تمہارے روزے ہیں تو بی۔بی ہم بھی روزے ہی سے کھپتے ہیں۔۔"

شام ہورہی تھی مگر اسے اکیلے گھر میں اب "خوف" نہیں آتا تھا۔پہلے سال تو بہت ڈری رہتی،پھر عادت ہوگئی اور ٹی۔وی لگانا،چینل بدلنا بھی سیکھ گئی تھی۔۔۔۔آج بھی سب کام نبٹا کر کارٹونز دیکھ کر خوش ہوتی رہی۔ بچی ہی تو تھی۔۔۔۔۔ افطار کا وقت ہورہا تھا۔باجی لوگ ابھی تک بازار سے لوٹی نہیں تھیں۔یوں بھی روزہ تو عصمت اور بیگم صاحبہ کا ہی ہوتا تھا۔لڑکے سنتے کہاں تھے۔سمیرا باجی بہت "کمزور" تھیں اور شیخ صاحب کو آج کل فیکٹری میں کام بہت تھا تو 3000 روپے فی کَس کے حساب سے "فدیہ" دینے کا ہی فیصلہ ہوا تھا۔۔۔

عصمت نے اپنے لیے سکنجبین کا گلاس بنا کر فریج میں رکھا اور ابھی وضو کا سوچ ہی رہی تھی کہ چوکیدار کے گیٹ کھولنے کی آواز آئی اور گیراج میں موٹر سائیکلوں کی گڑگڑاہٹ سے عصمت سمجھ گئی کہ یحییٰ دوستوں کے ساتھ آیا ہے۔۔۔ جلدی سے دوپٹہ درست کرتی کچن سے نکلی تو آواز آئی۔۔ "عصمت ابھی تک ممی واپس نہیں آئیں؟" اس نے نفی میں سر ہلایا تو فریزر کا جائزہ لے کر بولا۔۔۔۔" یہ فریزر میں سموسے اور کچھ اور چیزیں پڑی ہیں۔۔جلدی سے فرائی کرلو۔۔۔کوک بھی رکھنا ساتھ۔۔ تین دوست ہیں اور چوتھا میں۔۔۔" یحییٰ "آرڈر" دے کر خود فریش ہونے چل دیا۔۔۔
عصمت لوازمات سے سجی ٹرالی ڈرائینگ روم میں لائی اور ابھی باہر جانے کو پلٹ ہی رہی تھی کہ "یحییٰ بھائی" کے دوست نے دوپٹے کا پلو کھینچ لیا۔۔۔۔"بھائی جان کیا کررہے ہیں؟ چھوڑیں مجھے۔۔۔۔۔۔"
"ابے یحییٰ ! یہ تیری "میڈ" تو ایک دم تیر کمان نکلی ہے۔۔۔"
"چھوڑ یار۔۔۔الو کی پٹھی ہے پوری۔۔۔گھامڑ کہیں کی۔۔کوئی اشارہ نہیں سمجھتی۔۔۔۔"
"ہم سمجھا دیتے ہیں یار۔۔۔ آخر دوست کس روز کام آئیں گے؟"یہ کہتے ہوئے عصمت کے منہ پر ہاتھ رکھ دیا۔۔۔اس کی گھٹی گھٹی چیخیں وہیں کہیں دفن ہو گئی تھیں۔۔۔۔۔۔۔۔

باورچی خانے کے ٹھنڈے فرش پر خاموش سسکیاں ۔۔خشک آنکھیں۔۔بکھرے بال اور زخمی چہرہ عصمت کی روح کا حال سمجھانے کو کافی تھا۔۔بیگم صاحبہ شاپنگ سے لدی پھندی عشاء سےپہلے گھر میں داخل ہوئیں ۔۔۔۔۔ عصمت کو وہاں بیٹھے دیکھ کر ٹھٹھک گئیں۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔
"کمینی۔۔۔ بدذات ۔۔۔ تم کمی کمینوں کے گھروں میں یہی تربیت دی جاتی ہے کہ بڑے گھرانوں کے بچوں پر الزامات لگا کر پیسے اینٹھ سکو۔۔۔۔ دو ٹکے کی اوقات نہیں اور چلی ہے شہتیروں کو جَپھے ڈالنے۔۔۔۔ بےغیرت نا ہو تو۔۔۔اسی لیے کہتے ہیں کہ گاؤں کے بچے ذہنی طور پر شہروں کے بیاہتا لوگوں جتنے ہوشیار ہوتے ہیں۔۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔" بیگم صاحبہ تھپڑوں اور ٹھڈوں سے زخمی روح کا جسم داغدار کررہی تھیں اور عصمت "چمکتی ٹائلز" پرلڑھکتی ہاتھ جوڑ رہی تھی۔۔۔۔۔۔
"یحییٰ ملاؤ ذرا نمبر اس کے چاچے کی "ہَٹی" کا۔۔ بات کروائے اس کی ماں سے۔۔لےجائے اپنے گند کا ٹوکرا ۔۔۔ ہم بھر پائے ایسی چَتُر چالاکیوں سے۔۔۔"
یحییٰ نے نمبر ملا کر بات کی اور پانچ منٹ میں عصمت کی ماں کو بلوانے کا کہہ کر فون رکھ دیا۔۔۔ مسز طاہر نے خشمگیں نگاہوں سے یحییٰ کو گھورا مگر پھر حقارت سے عصمت کو دیکھنے لگیں۔۔۔۔۔۔
"ہیلو۔۔۔ ہاں بھئی۔۔یہ تمہاری بیٹی نے تو شہر میں خوب پَر نکال لیے ہیں۔۔۔ یحییٰ کے معصوم دوستوں پر ڈورے ڈال رہی ہے۔۔جانے کیا من گھڑت بکواس پَلّے ڈال رہی ہے بچوں کے۔۔۔۔ آؤ اور حساب چُکتا کرکے اسے لے جاؤ۔۔میں حفاظت نہیں کرسکتی۔۔یوں بھی "میٹھی عید" آرہی ہے۔۔سال کا حساب کرو اور جان بخشو ہماری۔۔۔۔"
عصمت کی ماں کا ہاتھ ایک لمحے کو لرزا تھا ۔۔۔۔ بھیگی آواز میں صرف اتنا ہی کہہ سکی ۔۔۔۔۔۔ "بیگم صاحبہ ! ہم نے آپ کو دی ہے نا۔۔۔ہماری طرف سے زندہ گاڑ دو۔۔۔باپ اس کا "مرن کنارے" پہنچا ہے۔بڑی بیٹی کے "دِن مِتھ " دیے ہیں۔۔۔ عید پر گھر لاکرہم نے اس کا کوئی اچار نہیں ڈالنا  ۔۔۔ آپ بھی بہن بیٹیوں والے ہیں۔۔عزتیں تو سانجھی ہی ہوتی ہیں۔۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ "

"یہ ہوئی نا سمجھدارلوگوں والی بات۔۔۔۔ اپنی بیٹی کو بھی کچھ عقل دیا کرو۔۔۔ قصور میرا بھی ہے،ساتھ بِٹھا لیتی ہوں ڈرامہ دیکھنے کو۔۔۔تو بس وہی دیکھ دیکھ کر اِس کے ذہن میں کہانیاں بننے لگی ہیں۔۔یقین مانو شیخ صاحب اور میں اپنے بچوں سے بڑھ کر اس کا خیال رکھتے ہیں۔۔اور ہاں اس بار فدیہ کی رقم بھی تم لوگوں کو ہی دینی ہے۔۔۔شناختی کارڈ نمبر ہے یحییٰ کے پاس۔۔کل ہی "ایزی پیسہ" کروادیتا ہے۔۔۔باقی تمہاری بیٹی کی شادی پر شیخ صاحب الگ سے بھجوا دیں گے۔۔۔۔۔"

عصمت کی ماں نے کپکپاتی آواز میں جواب دیا " اللہ سلامت رکھے شیخ صاحب کو۔۔برکت دے رزق میں۔۔۔ عزت اور بچوں کی خوشیاں دیکھیں آپ لوگ۔۔۔۔ رب سوہنا آپ کی بیٹی کا نصیب اچھی جگہ کھولے۔۔۔۔ ہماری عصمت آپ ہی کی ہے بیگم صاحبہ۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔۔ "

منگل، 11 اگست، 2015

مکھنی

فاطمہ کُنالی میں آٹا لیے چولہے کے پاس چلی آئی۔سلگتی لکڑیاں آگے پیچھے کرتی اور جلدی میں آٹے کو "مُکی" دیتے بار بار برآمدےکی جانب منہ کرکے آوز بھی لگا رہی تھی۔۔۔" سانول پتر ! چھیتی سے آجا میرا شہزادہ۔۔۔۔ پراٹھا کھائے گا نا چائے کےساتھ ؟"  سانول تیل لگے بالوں کو ٹھیک سے جماتا ہوا ،بستہ کاندھے پر ڈالے باہر نکلا ۔۔۔"اماں پہلے ابا کو دے۔۔آج اس نے ڈیرے جانا ہے نمبردار کے۔۔میں سکول دیر سے بھی پہنچا تو ماسٹر صاحب نے بس دو بید ہی مارنے ہیں۔۔یاد کر پچھلی بار نمبردار نے کتنی بے عزتی کی تھی ۔ مجھے اچھا نہیں لگا تھا۔" یہ کہہ کر پیالےمیں کچھ دودھ لے کر رات کی روٹی توڑنے لگا۔
سانول کا ایک ہی تو دوست تھا۔۔۔"شَکری" اسےسکول سے واپسی پر سڑک کنارے زخمی حالت میں ملاتھا۔ فاطمہ نے اسےگھر نہیں رکھنے دیاتھا کہ رحمت کے فرشتے نہیں آتے۔مگر سانول کا معمول تھا کہ روزانہ
سکول جانے سے پہلےباہر گلی میں شَکری کو دودھ روٹی ڈال کرجاتا۔
سانول اپنے والدین فاطمہ اور اکبر کی مَنتوں مُرادوں والی اکلوتی اولاد تھا۔ شاید اسی لیےاس کی ضد مان لی جاتی تھی۔بیبا بچہ تھا۔۔رنگ روپ ماں کا چُرایا تھا اور سب قصبے والے کہتے کہ باپ کی طرح قد کاٹھ نکالے گا۔ابھی تو پانچویں میں ہی پڑھتا تھا۔فاطمہ خیالوں میں اسے کبھی ڈاکٹر کے روپ میں سوچتی تو کبھی جہاز اڑاتے دیکھتی۔ہر روز میاں بیوی اپنے بیٹے کے لیے ایک نیا خواب آنکھوں میں سجاتے۔

اس قصبےکی اچھی بات یہ تھی کہ آس پڑوس میں آباد سب گھرانے کم وبیش رشتےدار تھے۔ایک دوسرے کا دکھ سُکھ سانجھا تھا۔کھیتی باڑی ،مزدوری اور نمبردار کے ڈیرے پرخدمت گزاری سے دال روٹی سب کی چل ہی رہی تھی۔مشکل مگرتب پیش آتی جب کوئی لیڈی ھیلتھ وزیٹر بچوں کی تعداد کے حوالے سے مرن کنارے پہنچی کسی خاتون کو سمجھانے کی کوشش کرتی۔یہ قصبہ بھی تو اسی معاشرے کا حصہ تھا جہاں بچوں کی تعداد کو  فخر اورخاندان کی طاقت کا سرچشمہ سمجھا جاتا تھا۔
اکبر کو اکثر ہی طعنے ملتے کہ دوسری شادی کرلے۔بیٹے تو باپ کے بازو ہوتے ہیں۔مگر اسے ہر بار فاطمہ کے آنسو دھیان میں آ جاتے۔ ہنس کر ٹال دیتا کہ "شیر دا اک ای بچہ ہندا اے یار ۔"

آج نمبردار کے ڈیرے پر معمول سے زیادہ چہل پہل تھی۔اکبر بھی ایک کونے میں جا بیٹھا۔چوہدی صاحب کے پانچ بیٹھے تھے۔اور اس وقت سب ہی موجود تھے۔کچھ دیرحقہ گُڑگُڑانے کے بعد چوہدری نےمونچھوں کو تاؤ دیا اور ہنکارا بھر کر کڑک دار آواز میں بولا ۔۔۔۔" آپ سب کو اس لیے بلوایا ہے کہ الیکشن سر پر ہے۔ٹھپہ آپ نے "گھنٹی" پر ہی لگانا ہے۔۔۔اپنا بھتیجا ہے اور آپ کے "سیاپے" بھی یہی دیکھ سکتا ہے۔کیا کرنا ہےزیادہ پڑھےلکھے نمونوں کو؟ اپنا مارے بھی تو چھاؤں میں ہی بٹھاتا ہے۔۔۔باقی یاد رکھنا وائی بیجی تھانہ کچہری میں کسی بابو نے نہیں مدد کرنی تم لوگوں کی۔۔۔۔"
ابھی چوہدری نے احسان جتانےکا سلسلہ شروع کرنا ہی تھا کہ چھوٹے چوہدری کی راج دُلاری "مکھنی" کو جانے کیا بات گراں گزری،مسلسل غراتے ہوئے لال پٹے کیساتھ الجھ رہی تھی ۔ نمبر دار نے دو موٹی گالیاں بخشو کی سات نسلوں کی خواتین کو بھیج کر چھوٹے چوہدری کو اشارہ کیا۔اس نے جاکر مکھنی کو بہلایا اور بخشو کو جوتے کی نوک سے "ٹھڈے" مار کر احاطے سے باہر بھیج دیا۔۔۔۔اورسب کو شام میں آنے کا حکم مل گیا۔

" شہد رنگ مکھنی ۔۔۔۔۔3 سال پہلے چھوٹے چوہدری کی سالگرہ پر کسی سیاستدان نے تحفے میں دی تھی۔نمبردارکے گھرمیں تو اسے بچوں کی طرح ہی سمجھا جاتا ہے۔سب لاڈ نخرے اٹھاتے تھکتے نہیں اورشہر سے لائی گئی خاص خوراک جن رنگ برنگ برتنوں میں پیش کی جاتی ہے وہ بھی شاندار ہے۔
سنا ہے کہ اس کے نہانے کو خاص شیمپو شہر کے بڑے سٹورسے آتا ہے۔ دیکھ بھال کا سب انتظام بخشو کے ذمے ۔۔۔ بتا رہا تھا کہ اسے شہر لے کر جاناہے۔ بھلا بتاؤ، کتے کی نسل بڑھانے کو بھی اونچی نسل کا دھیان رکھتے ہیں۔۔۔۔۔"
اکبر نے یہ سب تفصیل فاطمہ کو جانے کتنی بار سنائی تھی اور آخر میں ایک بڑی سی ہونہہ کرکے ایک ہی جملے پر بات ختم ہوتی "امیراں ہائیں۔۔۔۔وڈے لوکاں دیاں وڈیاں گلاں۔"

انتخابات کے دن قریب تھے اور روزانہ شام کونمبردار کے ڈیرے پر حاضری ضروری تھی۔اگرچہ قصبے کے مردوں اور بچوں کی وجہ سے
 ڈیرے پر اچھی خاصی رونق لگ جاتی تھی، اکبر بہرحال سانول کو لے جانے سے ہچکچاتا تھا۔آج بھی سانول نے بہت ضد کی تو ساتھ لے آیا۔مگرآغوش میں یوں دبوچے بیٹھا تھا جیسے مرغی نے چوزے کو سمیٹا ہو۔
چھوٹا چوھدری مکھنی  کی کمر پر ہاتھ پھیرتا مونچھوں کو تاؤ دیتا جا کر باپ کے برابر بیٹھ چکا تھا ۔۔۔ سانول کا دل چاہ رہا تھا کہ جیسے وہ شَکری کے ساتھ کھیلتا ہے اس شہد رنگ مکھنی کو بھی چھو کر دیکھے۔باپ سے نظر بچا کر اس کے قریب پہنچا توبخشو نے دور سے آواز لگائی۔۔۔"اوئے ! ہاتھ نہ لگانا۔۔۔ گندے سندے اٹھ کر چلے آتےہیں۔" سانول سہم کرواپس باپ کے پاس چلا آیا۔

سانول سکول سے واپسی پرنمبردار کی حویلی کے سامنے سے گزرا تو مکھنی کو دیکھتے ہی اس کی جانب بڑھ گیا۔مگر چھوٹے چوہدری کو دیکھ کر واپس ہونے لگا تو آواز آئی "اوئے کاکے ! ادھر کیا کررہاہے؟" سانول نے ڈرتے ڈرتے مکھنی  کی جانب اشارہ کیا تو قہقہہ لگاتے چھوٹے چوہدری نے اسے گود میں اٹھا لیا۔۔"اندر آجاؤ شہزادے۔۔۔جی بھر کر کھیلو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"
شام ہونے آرہی تھی۔۔فاطمہ نے پانچویں بار دیوار پر ٹنگی گھڑی دیکھی اورپریشانی میں چادر اٹھائےگھر سے باہر آگئی۔سانول کا شَکری بھی ہانپتا ہوا دروازے کے باہر شاید اسی کا منتظر تھا۔۔۔اکبر آج شہر گیا ہواتھا۔فاطمہ آس پڑوس میں بچوں سے پوچھ رہی تھی مگر سب نے یہی بتایا کہ سانول چھٹی کے بعد ساتھ ہی نکلا تھا۔وہ تیز تیز قدم اٹھاتی سکول کی جانب چل پڑی۔۔۔حویلی کے سامنے کھیتوں سے گزرتے اسے محسوس ہوا کہ کوئی کراہ رہا ہے۔آگے بڑھ کر دیکھا تو سانول لت پت ، زخمی حالت میں پڑا تھا اور مکھیاں بھنبھنا رہی تھیں۔
اکبر گھر میں داخل ہوا تو غیرمعمولی خاموشی نے پریشان کردیا۔سانول کو آوازیں دیتا برآمدے کی جانب بڑھا تو فاطمہ کی سسکیاں اور بخار میں تپتے زخمی سانول کے ہنکاروں نے استقبال کیا۔
اکبر علاقے کے تھانے میں پہلی بار آیا تھا۔"ہاں بھئی جواناں۔۔۔۔ کوئی ڈنگر چوری ہوگیا؟" حوالدار نے اسے راہداری میں بیٹھے دیکھ کر پوچھا تو اکبر ہاتھ جوڑے کھڑا ہوگیا ، ہکلاتے ہوئے بولا " جناب بڑا ظلم ہوگیا ہے۔۔۔ میرے معصوم بچے پر بہت ظلم ہوگیا ہے۔۔۔۔وہ نمبردار کے پتر نے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"
حوالدار نے اس کی کلائی پکڑی اور ساتھ والے کمرے میں گھسیٹ لیا "دیکھ جواناں۔۔۔۔۔ تیری اس بکواس کو میں نے تو سن لیا مگر کہیں اور یہ بات کی تو کتے چھڑوادے گا نمبردار تیرے خاندان پر۔۔۔۔او یار! تیرے اپنے بیٹے کی بدنامی ہوگی۔شکر کر تیرے گھر والی کی عزت محفوظ ہے ۔۔۔۔۔اور ہاں دوبارہ یہاں آیا تو پہلا چھتر تیری تشریف پرمیں نے رسید کرنا ہے۔۔چل شاباش۔۔۔ جا اپنے گھر اور شکر کر کہ عورت کی عزت بچ گئی۔۔۔۔۔۔۔۔۔"
اکبر خشک آنکھوں اور غائب دماغی سے باہر نکل آیا۔ گھر کے دروازے پر شکری کو دیکھ کر جانے کیا سوجھی ۔۔۔۔ا سے گود میں اٹھائےحویلی کی جانب بڑھ گیا۔۔۔۔
"اوئے بے غیرتو۔۔۔۔۔ اوئے کتے دے پترو۔۔۔۔ نسل خراب کر دی۔۔۔ میں پوچھتا ہوں یہ آوارہ کتا اندر آیا کیسے؟ تم لوگ بھنگ پیے سو مر رہے تھے کیا ؟؟ حرام خورو۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔" چھوٹا چوہدری پاگلوں کی طرح چیخ رہا تھا اور شَکری حویلی کے دروازے سے باہر بھاگ رہا تھا جبکہ مکھنی ایک کونے میں بیٹھی ہانپ رہی تھی۔

ہفتہ، 8 اگست، 2015

قصوروار کون

جونہی کوئی معاملہ الیکٹرانک یا پرنٹ میڈیا کے ذریعےمنظرِ عام پر آتا ہے پاکستانی سوشل میڈیا کی بھی روزی روٹی نیز"فکری عیاشی" کا بندوبست اگلی "بریکنگ نیوز" تک تو ہو ہی جاتا ہے۔خاندانی مسئلہ ہو،گروہی،انفرادی یا اجتماعی ۔۔۔ آخری تان مسلک،مدرسہ ، ملا ، مذہب اور کسی خاص سیاسی یا مذہبی جماعت سے ہوتی ہوئی صوبائی /وفاقی حکومت پر ہی ٹوٹتی ہے۔

فرد معاشرے کی اکائی ہے۔حکومت، ریاست اور ادارے انسانوں ہی کے بنائے ہوئے ہیں۔ ہم لوگ نہایت آسانی کےساتھ تمام تر مسائل ، غلطیوں،کوتاہیوں یا گناہوں کا سارا بار کسی ایک فرد یا ادارے پر ڈال کر بری الذمہ کیسے ہوسکتے ہیں۔

کوئی واقعہ منظرِ عام پر آجائےاس کے محرکات ، اثرات اور نتائج کو یکسر نظرانداز کرکے جس بات پر سینہ کوبی کی جاتی ہے وہ سسٹم کی خرابی سے شروع ہوکر حکومت کی نا اہلی پر ہی ختم ہوتی ہے۔ مانا کہ سسٹم گلا سڑا ہے،یہ بھی انکارنہیں کہ حکومت بہت سے معاملات میں بیوروکریسی کی "سب اچھا ہے" رپورٹ پر آنکھیں بند کیے "ڈنگ ٹپاؤ" کام کیا کرتی ہے۔مگر کیا اس سب کے علاوہ انفرادی حیثیت میں ہم اپنے فرائض سے غافل نہیں ہیں ؟ کیا ہم اپنے گھروں کے معاملات میں سنجیدگی سے دلچسپی لیتےہیں؟۔۔۔۔ ایک گھر کسی ریاست سے کم نہیں ہوتا۔وہاں ہم کیا کررہےہیں۔۔۔۔
دو اصطلاحات جو کہ ہمارے ہاں کثرت سے استعمال کی جاتی ہیں۔۔۔۔ "جنسی بےراہ روی" اور "عصمت ریزی" جسے "جنسی زیادتی" کا نام بھی دیا جاتا ہے۔کبھی سوچا ہےکہ اس کی وجوہات اور محرکات کیا ہیں؟ بچہ کیونکربلیک میل ہوجاتاہے۔۔بچہ تو خیر کیا والدین بھی بلیک میل ہوتےہیں۔کیوں۔۔۔۔۔۔۔۔

ابتداءگھرسے کیجیےنا۔۔۔جنسی تعلیم و آگہی کےمعاملےپر خود کو "مذہبی" کہنےوالا یہ معاشرہ بچےکو جسمانی تبدیلیوں تک سے آگاہی نہیں دیتا بلکہ اسے "بےشرمی" کےزمرےمیں رکھا جاتا ہے۔حکم تو یہ ہے کہ سنِ بلوغت سے پہلےبچے کو سمجھایاجائے۔آسان،قابلِ فہم اور دوستانہ طریقےسے۔۔۔۔۔ یہ کام بیٹی کیلیے ماں،پھپھو،دادی کرے۔۔۔بیٹوں کیلیے باپ،بڑابھائی آگے کیوں نہیں بڑھتے۔ نہیں،مگر یہاں تو ان معاملات کیلیے بچوں کےوہ "دوست" معلومات فراہم کررہےہوتےہیں جواکثر کسی غلط سرگرمی میں ہی شامل ہوتےہیں۔یا پھر انٹرنیٹ ہے نا۔۔۔ویب سائٹس ہیں نا۔۔آپ کی ذمہ داری ختم ۔۔۔۔۔۔۔
اس کے علاوہ معاشرتی گھٹن کوہی موردِ الزام مت ٹہرایے کہ آزاد معاشروں میں بھی بہت کچھ ہوتا ہےبچوں کےساتھ۔ والدین خود کتنے محتاط ہیں کہ بچےان کی کسی حرکت یا منظر کوذہن میں نقش کرکے "ٹوہ" میں نہ لگیں۔۔۔کبھی اس معاملےپرسوچاہے کہ ایک ہی کمرے میں والدین،بچےسو رہے ہیں تو
معصوم اذہان پرکیا نفسیاتی اثرات ہوسکتےہیں ۔۔۔یونہی الگ کمروں کےمکین کبھی جھانکتےہیں کہ ساتھ والے کمرےمیں بچہ کس سرگرمی میں مصروف ہے۔۔
ذاتی رائے ہےکہ بچوں کو چند نکات چھوٹی عمرسے دھیرے دھیرے مختلف انداز سے ذہن نشین کروا دینے چاہییں۔
١:ابتدائی عمرسےبچوں کوغیرمحسوس طریقےسےسمجھایا جائے کہ ان کے جسم کے کچھ حصے "پرائیویٹ" ہیں۔اور لوگوں کے سامنےنہلانے،دھلانے،لباس تبدیل کرنےسےگریزکیاجائےتاکہ اسے احساس رہےکہ یہ "اچھی بات" نہیں ہے۔

٢: خدارا ! بچوں کو آگہی دیجیےکہ ان کے جسم کے کچھ حصےماں کے علاوہ کسی بھی،کسی بھی رشتہ دار یا باہر والے کو دیکھنےکی اجازت نہیں۔باپ کیوں بیٹی کے پیمپرز بدلےیا نہلائے؟ یہ عجیب رواج چلا ہے۔
بچوں کو سمجھایے کہ ان کے "پرائیویٹ پارٹس" کو چھونےکی اجازت نہیں اور نہ ہی کسی اور شخص کے جسم کے ان حصوں کو چھونا اچھی بات ہے۔والدین جملے کا دوسرا حصہ نہ تو خود ذہن نشین کرتےہیں اور نہ ہی بچے کوسمجھانا "مناسب" جانتےہیں۔جبکہ اکثرغلاظت کا "آغاز" اسی بات سے ہوتا ہے۔

٣: بچوں کوچھوٹی عمرسے ہی شعور دیجیے۔غیرلوگوں کی گود میں بچے سوار کروانےسےپرہیزکریں۔ڈرائیورز،گھریلوملازمین کے سر پر بچوں کو مت پالیے۔اسی طرح چھوٹی عمرکےبچوں کو"صاحب لوگ" کےہاں بھیجنےوالوں کوبھی بچےکوغلط صحیح سِیکھاناہوگا۔مدارس،سکولز اور دیگرجگہوں پربچوں کو ایسی کسی صورتحال سے نبٹنےکیلیےآسان الفاظ میں سمجھائیں کہ اگر ایسی کوئی بات ہو تو بچہ اونچی آواز میں "نہ" کرسکے یا کوئی بہانہ کرکےوہاں سے نکلے۔

٤: بچےکوسمجھانا آپ ہی کا فرض ہےکہ "بےلباسی " کیا ہے اور ایسی حالت میں کسی کو فوٹو یا وڈیو شرارت/فَن کے نام پربنانےکی اجازت نہیں۔بالفرضِ محال ایسا کچھ ہوگیا ہےتو "راز" بنانا نقصان کا باعث ہے۔
ماں،باپ،بڑا بہن بھائی،پھپھو، دادی میں سےکوئی ایک تو ہو جو بچوں کےساتھ دوستی کا ایسا درجہ رکھتا ہو جسے بچہ باآسانی بتاسکےکہ وہ فلاں رشتہ دار،دوست یا شخص کےساتھ  "اَن کمفرٹیبل" رہتا ہے۔
اکثردیکھاہےکہ بچہ کسی خاص مہمان کی آمد پر گھبراہٹ کا شکار ہوتا ہے۔والدین اس معاملےکوسمجھنےکی بجائے ڈانٹ ڈپٹ سےکام لیتےہیں۔نتیجتاً بچہ اس دلدل میں دھنستےہوئے نفسیاتی مریض بن جاتا ہے۔

٥: بچےکو اعتماد ابتدائی عمرسےدیجیے۔اس کو یقین ہونا چاہیےکہ ماں کےعلاوہ کسی کےساتھ کوئی بھی بات "سیکریٹ/راز" نہیں ہوتی۔اسی ایک لفظ کا سہارا لیے بھیڑیے آپ کے بچے کو بھنبھوڑ ڈالیں گے۔
بچوں کو یہ باور کروانا والدین کا ہی فرض ہے کہ باہر کچھ بھی غلط کام ہوا ہےتو والدین کو بتانے پر ڈانٹ نہیں پڑے گی اور نہ ہی اس میں کوئی خطرہ ہے۔ذہنی تحفظ کا احساس ایسے معاملات میں معاون رہتا ہے۔

٦: اکثر ماہرین "بیڈ ٹَچ" "گُڈ ٹَچ" جیسی اصطلاحات استعمال کرتے ہیں۔شاید بہت سے کیسز میں یہ مددگار بھی ہو۔مگر ابتدائی عمرمیں بچوں کو کنفیوز مت کیجیے۔سادہ اصول اور آسان زبان ہی واحد حل ہے کہ بچوں کو جنسی پجاریوں سےبچایا جائے۔

٧: اہم ترین نکتہ یہ ہے کہ بچے کو احساس ہو کہ یہ تمام باتیں نہ صرف اس کی ذات کیلیے بلکہ کسی دوسرے کیلیے بھی یوں ہی اہم ہیں۔
والدین،بڑے بھائی بہن کے بعد اہم فریضہ اساتذہ کا بھی بنتا ہے کہ وہ طلباء کوغیرمحسوس طریقے سے اس سلسلے میں رہنمائی دیں۔۔۔یہاں لفظ "استاد" انہی کےلیے استعمال ہواہے جو اس کی حرمت سے آگاہ ہیں۔
کتنے ہی واقعات ہیں جنہیں والدین خود دبا دیتے ہیں کہ خاندان اور معاشرے میں "بدنامی" ہوگی۔۔۔اسی طرح چند کیسز ہیں کہ آپ انگلیوں پر گِن لیجیے جنہیں ان جرائم کی سزا دے کر عبرت کا نشان بنایا گیا ہو۔۔۔۔
یہ تو معاملہ ہوا گھر کا۔۔۔اب ذرا معاشرے اور ریاست کی جانب آئیں۔ معاشرےکو فرصت ہےکہ اگلی نسلوں کےلیے صحتمند تفریح / کھیل کود فراہم کرے ؟۔۔۔ اور ویسے ہمارا یہ "پاکباز" معاشرہ جنسی تعلیم و تربیت بارے کیا "مواد" فراہم کررہاہے ؟ ۔۔۔۔ ریاستی قوانین کس حد تک کارگر اور سخت ہیں کہ جن کا ڈر/خوف لوگوں کو "بدفعلی" کرنے سے روکنا تو دور کی بات ان محرکات پر قابو پا سکے جو کسی شخص کو ذہنی طور پر اس پستی میں گرا دیتے ہیں کہ وہ جنس/عمر/رشتے تک کا لحاظ بھول جاتا ہے۔۔۔۔
حکومتیں آتی جاتی رہتی ہیں اور افسوس تو یہ ہے کہ ہمارے ہاں "ریاستی پالیسی سازی" نہیں ہوتی بلکہ حکومتی/سیاسی جماعت کی پالیسیاں بنتی ہیں جو ہر حکومت کے ساتھ ہی دفن ہوجاتی ہیں۔

آج
 "میڈیا رپورٹ" کے مطابق قصورشہر میں284 بچے سالوں سے "جنسی زیادتی" کا نشانہ بنتے رہے۔اس قوم کے بچے "انجیکشنز" اور بلیک میلنگ کے سر پر "جنسی کھلونا" بنے وڈیوز کی صورت "عالمی جِنسی منڈی" میں بِکتے رہے۔اور والدین سے لے کر،پولیس۔۔۔۔"عوامی نمائندے" سے لے کر سارا نظام اپنے اپنے گرداب میں پھنسا چُپ کا لبادہ پہنے یا رشوت بٹور کر جرم میں حصہ دار بنا رہا۔سوال میرا سب سے پہلے ان والدین سے ہے جوبرسوں"عزت" کے نام پر  بلیک میل ہوکر رقوم ان "خنزیروں" کو دیتے رہے جبکہ اسی رقم سے معاملہ قانون کےسامنے لایا جاسکتا تھا۔
سوال تو پھر یہ بھی ہے کہ عوام کو قانون پر اعتماد/اعتبار ہی کتنا ہے۔بقول اخباری رپورٹر، آپ کے "عوامی نمائندے"  کا اس سارے اسکینڈل میں براہِ راست ملوث ہونا اس جانب اشارہ کرتا ہے کہ نظام میں "جس کی لاٹھی اس کی بھینس" کس قدر راج کررہی ہے۔
اب یہ معاملہ سامنے آیا ہےتو قانون جانے کب حرکت میں آئے گا ۔۔ لوگ بہرحال اس پر بھی "ایک" نہیں ہوں گے،وہی پشاور سانحہ والا معاملہ ہوگا۔کچھ روز بعد نہ صرف بھول جائیں گے بلکہ نیا جھنجھنا ملنے پر اس کھلونے سے منہ بھی موڑ لیں گے۔فی الحال تو صبح سے لوگوں کو "مسلکی،مذہبی،معاشرتی اور سیاسی" گروہوں میں منقسم ہی دیکھ رہی ہوں۔سب اپنی "دکان" پر "بازار سے بارعایت خریدیں" کا بورڈ آویزاں کیے سودا بیچ رہے ہیں۔خریدنے والے ہر قسم کی "تھیوری" خرید بھی رہے ہیں اور کوسنے بھی جاری ہیں۔
"جنسی زیادتی اور بے راہ روی" کا مسئلہ نہ تو مدارس تک محدود ہے اور نہ ہی نام نہاد "فحاشی" اس کی پوری ذمہ دار ہے۔۔۔ہمارا معاشرہ مکمل طور پر ملوث اور ذمہ دار ہے۔کسی ایک مسلک یا گروہ کو رگیدنے سے مسائل حل ہوتے تو شاید لوگ جنت کی آرزو میں جگہ جگہ پھٹ نہ رہے ہوتے۔کوئی بم لگا کر پھٹ رہا ہے تو کوئی الفاظ کے زیرو بم پر بیٹھا ہے۔

ترجیحات۔۔۔۔ جی ہاں ! گھریلو،معاشرتی اور ریاستی ترجیحات میں اگلی نسلوں کا تحفظ جب صرف پیسے کمانا، مفت انٹرنیٹ پیکجز یا ذرائع آمدو رفت ہی رہےگا تو قصورشہر جیسے معاملات سامنے آتےرہیں گے۔یا پھر ہم "عزت" کے نام پر دباتے رہیں گے۔
اس وقت یہ معاملہ حکومتِ پاکستان کے لیے ویسا ہی ٹیسٹ کیس بن کر ابھرا ہے جس نہج پر "پشاور سانحہ" نے سب کولاکھڑا کیا تھا۔ قصور واقعہ میں ایک پہلو یہ بھی یاد رہے کہ ابھی تک "
غیرجانبدارانہ تحقیقات/ آزادانہ کاروائی " عمل میں نہیں آئیں۔۔۔ابتدائی اور وہ بھی پرنٹ و الیکٹرانک میڈیا کی رپورٹس پر من وعن یقین کرلینا قطعاً مناسب نہیں ہوگا۔ ۔ ۔ کچھ انتظار کیجیے کہ حکومتی ادارے کیا کرتے ہیں۔تحقیقات کیا نتیجہ سامنے لاتی ہیں۔منظر ابھی تک واضح نہیں۔