ہفتہ، 10 دسمبر، 2016

پی۔کے 661 اور معاشرتی تقطیب

گزشتہ چوبیس گھنٹوں میں ایک ہوائی حادثے نے ہمارے ہاں کی معاشرتی قطبیت کے سب پول کھول کر رکھ دیے ہیں۔انسانی زندگی ہمارے لیے کیا معنی رکھتی ہے وہ اہمیت کہیں رکھ کر بھول چکے ہیں ،ہاں کسی کی موت پر ذاتی ایجنڈے کو کیسے تقویت دینی ہے اور تابوتوں کے کیل ٹھونکنے والوں سے پہلے اپنی پسند ناپسند کی ترویج کرکے وقتی سستی شہرت کے کیل کیسے پیوست کرنے ہیں اس معاملے میں اکثریت ماہر ہوچکی ہے۔
چترال سے اسلام آباد آنے والی پرواز پی۔کے
661 حویلیاں کے قریب پہاڑں کے درمیان گر کر تباہ ہوگئی۔ دو آسٹریلین اور ایک چینی باشندے سمیت اکتیس مرد ، نو خواتین اور دو شیرخوار بچوں کے علاوہ عملے کے پانچ اراکین۔۔۔ طیارے کو لگی آگ نے سینتالیس ہنستی بستی انسانی زندگیاں راکھ کا ڈھیر بنا ڈالیں۔اور اس غم کی گھڑی میں ہمارے ہاں سوشل اور الیکٹرانک میڈیا نے جِس قسم کی تقطیب کا مظاہرہ کیا ہے وہ میرے لیے نہ تو نیا ہے اور نا ہی حیران کُن۔۔۔یہ سب کچھ سلمان تاثیر سے لے کر قندیل بلوچ اور پھر امجد صابری کے جنازے تک دیکھنے کو ملتا رہا ہے۔بد قسمتی سے جنید جمشید کا نام بھی اب اسی فہرست میں چلا گیا ہے۔لیکن باقی مسافروں کا کیا ؟ ہر مسافر کے ساتھ نہ جانے کتنے رشتے ، کیسے خواب اور ان گنت داستانیں جُڑی ہوں گی۔اور جانے کتنی آنکھیں خشک ہوکر بھی نہ ختم ہونے والے انتظار میں برستی رہیں گی۔
کئی گھنٹوں تک ٹی۔وی اور سوشل میڈیا نے میرے دماغ پر جو نقوش بنائے ہیں اس سے یوں محسوس ہوتا ہے کہ ہم  دوسروں کے ایمان ، جنت ، دوزخ اور ہلاکت و شہادت کے "فٹنس سرٹیفکیٹ" پر قادر ہوچکے ہیں۔ہم سول ایویشن کے ماہر بھی ہیں اور  کی بورڈز کے ذریعے ہوائی جہاز اڑانے کے علاوہ کسی کی بیویوں کی تعداد سے کردار کا جائزہ لینے کی صلاحیت بھی رکھتے ہیں۔میڈیا ایئرہوسٹس عاصمہ عادل کی ڈیڑھ سالہ بچی کے منہ میں مائیک ٹھونسے اس سے "مما مما" کہلوانے میں کامیاب رہا ہے جبکہ چار پانچ سال کے بیٹے سے "مما کھلونے لاتی ہیں" اگلوانے پر شاباش کا مستحق بھی ہے۔ہوائی میزبان کے شوہر سے ، جو کہ ذہنی طور پر ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے، سوال پوچھ رہے ہیں "آپ کی بیوی کِس سے زیادہ اٹیچڈ تھی؟" ۔۔۔اینیمیٹڈ طیارہ  کے کریش ہونےاور جلنے کے مناظر مسلسل دکھاتے داد کا مستحق ہے وہ نیوز چینل جس نے اس حقیقت کو جانے بغیر کہ بلیک باکس ہائی ڈیفینیشن رنگ کا ہوتا ہے،ایک کالے رنگ کا باکس لہراتے بھی دکھا دیا ہے اور جہاز کے کپتان کی کنٹرول روم سے آخری گفتگو تک سنوا دی ہے۔اب ہماری بلا سے ملنے والا بلیک باکس فرانس جا کر ڈی۔کوڈ ہو نہ ہو۔صحافتی ذمہ داری تو ادا ہوئی۔الحمدللہ۔۔۔باقی اب یوں ہے کہ چترال میں بنے رَن وے کے لیے یہی طیارہ سب سے بہتر ہے ، اس کا فٹنس سرٹیفکیٹ اکتوبر دو ہزار سترہ تک اے ون تھا اور تین ماہ قبل وزیرِاعظم پاکستان نے اسی طیارے سے سفر کیا، اس قسم کے حقائق سے قطع نظر ہر نیوز اینکر اور ہر تیسرا "کی بورڈ گریبر" اپنی ماہرانہ تنقید و جائزہ ریکارڈ کروانے پر قادر ہے۔
اس جہاز میں اے۔ایس۔ایف کے دو نوجوان کمانڈو بھی سوار تھے۔ڈپٹی کمشنر چترال اسامہ وڑائچ اپنی اہلیہ اور ننھی بیٹی کے ساتھ سفر کررہے تھے۔طیارے کے کپتان محمد صالح یار جنجوعہ ایک یو ٹیوب چینل بھی چلاتے تھے جبکہ اپنی بیمار والدہ کی عیادت کو جانے والا ایک نوجوان مسافر بھی تھا۔لیکن ان سب اور دیگر مسافروں کی زندگی سے بھرپور کہانیوں کا تذکرہ کہیں پس پردہ ہی رہ گیا ہے۔ابھی فکر ہے تو یہ کہ جنید جمشید کو بطور پاپ سٹار یاد کرنا ہے یا ان کا قصیدہ بردہ شریف چلانا ہے۔ایسا شخص جو گلوکار تھا تو لاکھوں دلوں پر راج کرتا رہا ،موسیقی اور انجینیئرنگ چھوڑ کر جب نعت خوانی اور تبلیغ کی جانب گیا تب بھی لاکھوں چاہنے والے اس کی جانب کھنچتے چلے گئے۔وہ ایک کامیاب بزنس مین تھا جس نے پاکستانیوں کو بہتر برانڈڈ کرتے شلوار کے ٹرینڈ سے متعارف کروایا۔پانچ برسوں سے رمضان نشریات  میں جما رہا۔کراچی میں پانچ ہزار موٹر بائیک  ہیلمٹس بانٹے اور صفائی مہم کا حصہ بنا۔۔۔ہاں وہ ایک ٹرینڈ سیٹر تھا جس سے آپ نظریاتی و فکری اختلاف کرسکتے ہیں لیکن اس نے زندگی میں جو کچھ حاصل کیا اس کا ہر دو نظریاتی طبقات سے تعلق رکھنے والوں کی اکثریت صرف خواب ہی دیکھ سکتی ہے۔
اگر جنید جمشید اپنے ماضی سے نفرت نہیں کرتے تھے تو یہ کون لوگ ہیں جو ان کے لیے جنت کے حصول میں آسانی کے لیے شرائط رکھ رہے ہیں؟ انہوں نے تو دوہزار تیرہ میں "نیاپاکستان ۔۔انشاءاللہ" جیسا مِلی نغمی بھی گایا۔تو کیا وہ بھی تلف کردیا جائے؟





https://twitter.com/JunaidJamshedPK/status/498324713157197824


"دو پل کا جیون ہے" سے بہت بعد میں آنے والا وائٹل سائنز کا "دل دل پاکستان" بی۔بی۔سی سروے میں دنیا کے دس بہترین گیتوں میں تیسری جگہ نہ بھی بناتا تب بھی یہ ہمیشہ کے لیے پاکستان کا دوسرا قومی نغمہ بن کر گوبجتا رہے گا ۔ "قسم اس وقت کی " ماہِ ستمبر میں چلتا رہے گا۔نہ تو "گورے رنگ کا زمانہ" کبھی پرانا ہوگا اور نا ہی "سانولی سلونی" ۔ اپنی یاداشت سے میں شعیب منصور کی ہدایتکاری میں بنا منی ڈرامہ سیریل "دھندلے راستے" دہراتے ایک ایسے جنید جمشید کو یاد کررہی ہوں جوپیانو بجاتے گا رہا ہے "مر بھی جاؤں تو مت رونا۔۔۔میں اپنی آواز اور اپنے سارے گیت تمہیں دے جاؤں گا۔۔۔یاد کرنا"
https://www.youtube.com/watch?v=oBWAEClUTho

مجھے ذاتی طور پر جے جے کے نئے اوتار اور گاہے بگاہے عورت مخالف 
(misogynist) بیانات سے الجھن رہی ہے اور اس کا برملا اظہار ہمیشہ کرتی رہی ہوں۔دوستوں کے ساتھ مِل کر طنز اور ٹھٹھا بھی اڑایا لیکن جنید کی آواز چاہے "نہ تو آئے گی، نا ہی چین آئے گا" میں آن رپیٹ چلے یا پھر قصیدہ بردہ شریف اور چند پرسنل فیورٹ نعت میں۔۔۔آواز کا تعلق اس شخص سے میٹھا ہی رہا۔ ہاں شاید گھوڑے  پر سوار ایک نوجوان جس کے خوبصورت بال ہوا میں اڑتے جا رہے تھے اور "تمہارا اور میرا نام جنگل میں" گا رہا تھا اس کا نیا روپ اور بدلے خیالات ذہنی طور پر قبول کرنا ممکن نہ ہوپایا۔ اس کھٹے میٹھے تعلق کا ایسا ناآگہانی انجام سب ہی یادوں کو جھلسا گیا ہے۔
میرا تعلق اس نسل سے ہے جس نے لکھنے اور بولنے سے پہلے دل دل پاکستان کے لیے جھومنا سیکھا تھا۔ہم جنید جمشید کی ٹرانسفارمیشن کے ساتھ عمر کی مختلف منازل جیے ہیں۔اس نے "آنکھوں کو آنکھوں نے جو سپنا دکھایا ہے" سے لے کر "مولا" اور "او صنماں" تک سولو گائیکی میں شہرت کی وہ بلندیاں دیکھی ہیں کہ واقعی "یہ شام پھر نہیں آئے گی۔۔۔"
تمام دیگر چھیالیس جلی لاشوں کو بھلا کر سوشل میڈیا تین حصوں میں تقسیم ہوچکا ہے۔۔۔ایک کے نزدیک وہ شہید ہے ، دوسرا گروپ ایک "گستاخ" کی موت پر وحشی بنا رقصِ بسمل میں مصروف ہے اگرچہ ان میں کہیں وہ نام نہاد لبرلز بھی حصہ ڈال رہے ہیں جو آمرانہ رویہ اپنائے جتلا رہے ہیں کہ اس کو صرف بطور گلوکار یاد رکھنا چاہتےہیں اور دوسرے بھی یہی کریں۔تیسرا گروہ اپنے ہی سیاسی اور مسلکی ایجنڈے کی تشہیر کے لیے ایک سانحے کو استعمال کرتے  بے حسی کی آخری منزل سے بھی پانچ سو گز آگے کا سفر طے کرچکا ہے۔ ان تینوں میں سے کوئی بھی یہ تسلیم کرنے کو تیار ہی نہیں کہ جنید جمشید کسی کا باپ ،بھائی اور شوہر بھی تھا۔اس کے کاروبار سے کتنے لوگوں کا رزق وابستہ تھا،یہی سوچ لیجیے۔ایسے سانحات کا ٹھٹھا اڑانا یا ذاتی/سیاسی مقاصد کے حصول کے لیے استعمال کرنا سخت دِلی نہیں تو اور کیا ہے؟ مرنے والوں کے پسماندگان میں یتیم ، بیوہ ،والدین اور دوستوں پر ٹوٹی قیامت کا خیال نہیں کرسکتے کیونکہ ہم سیاہ و سفید کے درمیان جینے کے عادی ہوچکے ہیں۔ہر کسی نے اپنا ترازو اٹھا رکھا ہے اور اپنی مرضی کا پلڑا استعمال کرنا خود پر فرض کرلیا ہے۔غم اور غصے میں فرق روا نہیں رکھتے لہذا اس کے اظہار کے ضابطوں پر لاحاصل بحث ہے اور مسلسل ہے جو ہر ناگہانی موت پر ہمارا وطیرہ بن چکا ہے۔