بدھ، 16 دسمبر، 2015

ماں کا نوحہ

یہ پھولوں،جھرنوں اور جھولوں سے بھرا کوئی باغ ہے۔۔۔یہاں نہر بھی ہے۔۔شفاف پانی میں تیرتی مچھلیاں اور کھلکھلاتے معصوم بچے۔۔یہ سب میرے بچے تھے۔ابھی نیلی آنکھوں والے ایک گل گوتھنے بچے کو میوے والی چُوری کھلا کر اٹھی ہوں۔تعداد مجھے معلوم نہیں۔۔دادی سے سنا تھا کہ بچوں کی تعداد بتانے سے نظرِ بد کا خدشہ ہوتا ہے۔بس یہ سب میرے بچے ہیں۔۔ان کا رنگ،شکل، آنکھیں مختلف ہیں مگر سب کی بولی ایک ہی ہے۔کانوں میں رس گھولتی شہد سے میٹھی بولی۔۔۔
مگر کچھ سسکتی سرگوشیاں ۔۔۔۔
 "اماں سے کہنا مجھے اب ٹھنڈ نہیں لگتی ۔۔۔سویٹر کب تک بنتی اور اُدھیڑتی رہے گی۔۔"
"بابا کو کہو ان کا بہادر بیٹا یہاں خوش ہے،ہاں میں خوش ہوں کہ بابا کا بوجھ ہلکا ہوا،اب ایک بہن یا بھائی کی تعلیم مفت ہوگی۔وہ روتے ہیں تو نمکین آنسو ان کے بہادر بیٹے کو اداس کرتے ہیں۔
۔۔"
"بہنا اب چلغوزے چھیل کر کس سے چھپاؤ گی ۔۔۔۔"
"بھیا ! کرکٹ کیوں نہیں کھیلتے ؟ گلی میں اتنے بچے ہیں کسی کو پارٹنر بنا لو نا۔۔میں یہاں خوش ہوں ۔۔۔"
"یہ ٹی۔وی والے انکل اور آنٹی بہت بُرے ہیں۔۔۔کیوں بار بار میری ماں اور بابا کو رُلاتے ہیں ؟ میں کُٹی ہوں ان سب سے۔۔۔اور کل تو میرے سکول کے دوستوں کو بھی تنگ کیا۔۔۔وہ ہمیں نہیں بھولے مگر ۔۔۔۔"
"میرے دادا مجھے بڑا آدمی بنانا چاہتے تھے۔۔۔سنا ہے اب ہر سال میرے نام کا میڈل اور اسناد وصول کیا کریں گے۔۔۔سر فخر سے بلند ہوگا نا ان کا۔۔۔۔۔"
"ابو ! آپ کیوں جھگڑتے ہیں اِن سے۔۔۔کیا ہوا جو ناکے سے وہ ظالم بچ نکلے۔۔۔کیا ہوا جو اُنہیں کسی نے سکول کی دیوار سے سیڑھی لگاتے نہ دیکھا۔۔۔ میں یہاں خوش ہوں ابو۔۔آپ میری قبر پر آکر کیوں روتے ہیں۔۔پریشان ہوجاتا ہوں۔۔۔۔"
یہ آوازیں میرے کان میں کہاں سے آ رہی ہیں۔۔۔ یہ میں کیوں سسک رہی ہوں۔۔ چہرہ کیوں بھیگا ہوا ہے۔۔۔۔۔اوہ۔۔تو یہ خواب تھا۔۔شکر ہے کہ یہ بس " خواب " ہی تھا۔
میں ایک عام پاکستانی شہری ہوں۔ایک معمولی سی گھریلو بندی،واجبی تعلیم اور ثانوی سمجھ بوجھ والی خاتون۔مجھے ہر انسان کی طرح بچے ، پھول اور کھلا آنگن اچھا لگتا ہے۔ ماں کہتی ہے سال چھوٹے بھائی پر بھی مامتا لٹاتی تھی اور آج بھی راہ چلتے بچوں کو اسی مامتا کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
کل پندرہ دسمبرکی رات بہت کڑی تھی۔میں نے کسی بچے کو جنم نہیں دیا مگر نیند کی دو گولیاں کھانے کے بعد آنکھیں بند کرتے ہی خون میں لتھڑے بچوں کے چہرے مجھے جاگنے پر مجبور کرتے رہے۔۔۔ کوئی سیال تھا جو آنکھوں سے بہتا رہا۔یوں محسوس ہورہا تھا کہ کہیں ننھی سسکیاں اور کسی ماں کی دبی آہیں کانوں میں لاوا انڈیل رہی ہیں۔
میں نے تین افسانے لکھے اور ہر بار ایک ہی کلک سے تلف کرڈالے۔کھوکھلے الفاظ،جھوٹے استعارے اور سُلگتے اشاروں میں مجھے اپنا آپ چھوٹا محسوس ہوتا رہا۔دنیا میں ہر روز کتنی ہی ماؤں کی گود اجڑتی ہے،کتنے ہی باپ اپنے لختِ جگر کو آخری سفر پر روانہ کردیتےہیں تو آخر ایسا کیا ہے سولہ دسمبر میں جو مجھے چین نہیں پڑتا۔۔۔بہت سوچا اور اپنی کم مائیگی کا احساس بڑھتا ہی رہا۔
ابھی اخبار،ٹی۔وی اور سوشل میڈیا کا راگ پڑھ سُن کر احساس ہوا کہ ہم تو زندہ قوم ہیں ۔۔۔ اور مت سمجھو ہم نے بھلا دیا۔۔بس مٹی میں مِلا دیا۔۔۔۔کوئی میرے ان فرشتوں کو ننھے سپاہی کہہ رہا ہے۔۔میں ، ان بچوں کی ماں ، تمہیں بتانا چاہتی ہے کہ میرے بچے مرنا نہیں چاہتے تھے۔۔وہ زندگی کا استعارہ تھے۔۔وہ والدین کا سہارا تھے۔۔۔بہنوں کا مان تھے۔۔وہ اس ملک کے ڈاکٹرز،انجینئرز،اساتذہ اور مستقبل کے معمار تھے۔۔۔تم دشمنوں کو پڑھاؤ یا مارو میرے بچوں کو واپس لا سکتے ہو تو بتاؤ۔۔ ذمہ داروں کو قوم کے سامنے لا سکتے ہو تو احسان جتلاؤ۔۔۔اب تم ہر سال ایک تقریب منعقد کرو گے۔۔۔ نغمے ریلیز کرو گے۔۔۔نوافل پڑھنے والے موم بتیوں کو رگیدیں گے اور موم بتی روشن کرنے والے اپنا راگ الاپیں گے۔۔میں ، ان پھولوں کی ماں ، جب تک سانس چلتی رہے گی یہ خواب آور گولیاں کھا کر ہر رات کانٹوں پر کاٹتی رہوں گی۔۔ہر دِن سولہ دسمبر مناتی رہوں گی۔۔۔میرے پھولوں کا یہ شہر خون کی خوشبو سے مہکتا رہے گا۔۔۔زخم صرف ماؤں کا ہرا رہے گا اور ان فرشتوں کے بابا اپنے لاشے ناتواں کندھوں پر اٹھائے زندگی ڈھوتے رہیں گے۔