ہفتہ، 8 اگست، 2015

قصوروار کون

جونہی کوئی معاملہ الیکٹرانک یا پرنٹ میڈیا کے ذریعےمنظرِ عام پر آتا ہے پاکستانی سوشل میڈیا کی بھی روزی روٹی نیز"فکری عیاشی" کا بندوبست اگلی "بریکنگ نیوز" تک تو ہو ہی جاتا ہے۔خاندانی مسئلہ ہو،گروہی،انفرادی یا اجتماعی ۔۔۔ آخری تان مسلک،مدرسہ ، ملا ، مذہب اور کسی خاص سیاسی یا مذہبی جماعت سے ہوتی ہوئی صوبائی /وفاقی حکومت پر ہی ٹوٹتی ہے۔

فرد معاشرے کی اکائی ہے۔حکومت، ریاست اور ادارے انسانوں ہی کے بنائے ہوئے ہیں۔ ہم لوگ نہایت آسانی کےساتھ تمام تر مسائل ، غلطیوں،کوتاہیوں یا گناہوں کا سارا بار کسی ایک فرد یا ادارے پر ڈال کر بری الذمہ کیسے ہوسکتے ہیں۔

کوئی واقعہ منظرِ عام پر آجائےاس کے محرکات ، اثرات اور نتائج کو یکسر نظرانداز کرکے جس بات پر سینہ کوبی کی جاتی ہے وہ سسٹم کی خرابی سے شروع ہوکر حکومت کی نا اہلی پر ہی ختم ہوتی ہے۔ مانا کہ سسٹم گلا سڑا ہے،یہ بھی انکارنہیں کہ حکومت بہت سے معاملات میں بیوروکریسی کی "سب اچھا ہے" رپورٹ پر آنکھیں بند کیے "ڈنگ ٹپاؤ" کام کیا کرتی ہے۔مگر کیا اس سب کے علاوہ انفرادی حیثیت میں ہم اپنے فرائض سے غافل نہیں ہیں ؟ کیا ہم اپنے گھروں کے معاملات میں سنجیدگی سے دلچسپی لیتےہیں؟۔۔۔۔ ایک گھر کسی ریاست سے کم نہیں ہوتا۔وہاں ہم کیا کررہےہیں۔۔۔۔
دو اصطلاحات جو کہ ہمارے ہاں کثرت سے استعمال کی جاتی ہیں۔۔۔۔ "جنسی بےراہ روی" اور "عصمت ریزی" جسے "جنسی زیادتی" کا نام بھی دیا جاتا ہے۔کبھی سوچا ہےکہ اس کی وجوہات اور محرکات کیا ہیں؟ بچہ کیونکربلیک میل ہوجاتاہے۔۔بچہ تو خیر کیا والدین بھی بلیک میل ہوتےہیں۔کیوں۔۔۔۔۔۔۔۔

ابتداءگھرسے کیجیےنا۔۔۔جنسی تعلیم و آگہی کےمعاملےپر خود کو "مذہبی" کہنےوالا یہ معاشرہ بچےکو جسمانی تبدیلیوں تک سے آگاہی نہیں دیتا بلکہ اسے "بےشرمی" کےزمرےمیں رکھا جاتا ہے۔حکم تو یہ ہے کہ سنِ بلوغت سے پہلےبچے کو سمجھایاجائے۔آسان،قابلِ فہم اور دوستانہ طریقےسے۔۔۔۔۔ یہ کام بیٹی کیلیے ماں،پھپھو،دادی کرے۔۔۔بیٹوں کیلیے باپ،بڑابھائی آگے کیوں نہیں بڑھتے۔ نہیں،مگر یہاں تو ان معاملات کیلیے بچوں کےوہ "دوست" معلومات فراہم کررہےہوتےہیں جواکثر کسی غلط سرگرمی میں ہی شامل ہوتےہیں۔یا پھر انٹرنیٹ ہے نا۔۔۔ویب سائٹس ہیں نا۔۔آپ کی ذمہ داری ختم ۔۔۔۔۔۔۔
اس کے علاوہ معاشرتی گھٹن کوہی موردِ الزام مت ٹہرایے کہ آزاد معاشروں میں بھی بہت کچھ ہوتا ہےبچوں کےساتھ۔ والدین خود کتنے محتاط ہیں کہ بچےان کی کسی حرکت یا منظر کوذہن میں نقش کرکے "ٹوہ" میں نہ لگیں۔۔۔کبھی اس معاملےپرسوچاہے کہ ایک ہی کمرے میں والدین،بچےسو رہے ہیں تو
معصوم اذہان پرکیا نفسیاتی اثرات ہوسکتےہیں ۔۔۔یونہی الگ کمروں کےمکین کبھی جھانکتےہیں کہ ساتھ والے کمرےمیں بچہ کس سرگرمی میں مصروف ہے۔۔
ذاتی رائے ہےکہ بچوں کو چند نکات چھوٹی عمرسے دھیرے دھیرے مختلف انداز سے ذہن نشین کروا دینے چاہییں۔
١:ابتدائی عمرسےبچوں کوغیرمحسوس طریقےسےسمجھایا جائے کہ ان کے جسم کے کچھ حصے "پرائیویٹ" ہیں۔اور لوگوں کے سامنےنہلانے،دھلانے،لباس تبدیل کرنےسےگریزکیاجائےتاکہ اسے احساس رہےکہ یہ "اچھی بات" نہیں ہے۔

٢: خدارا ! بچوں کو آگہی دیجیےکہ ان کے جسم کے کچھ حصےماں کے علاوہ کسی بھی،کسی بھی رشتہ دار یا باہر والے کو دیکھنےکی اجازت نہیں۔باپ کیوں بیٹی کے پیمپرز بدلےیا نہلائے؟ یہ عجیب رواج چلا ہے۔
بچوں کو سمجھایے کہ ان کے "پرائیویٹ پارٹس" کو چھونےکی اجازت نہیں اور نہ ہی کسی اور شخص کے جسم کے ان حصوں کو چھونا اچھی بات ہے۔والدین جملے کا دوسرا حصہ نہ تو خود ذہن نشین کرتےہیں اور نہ ہی بچے کوسمجھانا "مناسب" جانتےہیں۔جبکہ اکثرغلاظت کا "آغاز" اسی بات سے ہوتا ہے۔

٣: بچوں کوچھوٹی عمرسے ہی شعور دیجیے۔غیرلوگوں کی گود میں بچے سوار کروانےسےپرہیزکریں۔ڈرائیورز،گھریلوملازمین کے سر پر بچوں کو مت پالیے۔اسی طرح چھوٹی عمرکےبچوں کو"صاحب لوگ" کےہاں بھیجنےوالوں کوبھی بچےکوغلط صحیح سِیکھاناہوگا۔مدارس،سکولز اور دیگرجگہوں پربچوں کو ایسی کسی صورتحال سے نبٹنےکیلیےآسان الفاظ میں سمجھائیں کہ اگر ایسی کوئی بات ہو تو بچہ اونچی آواز میں "نہ" کرسکے یا کوئی بہانہ کرکےوہاں سے نکلے۔

٤: بچےکوسمجھانا آپ ہی کا فرض ہےکہ "بےلباسی " کیا ہے اور ایسی حالت میں کسی کو فوٹو یا وڈیو شرارت/فَن کے نام پربنانےکی اجازت نہیں۔بالفرضِ محال ایسا کچھ ہوگیا ہےتو "راز" بنانا نقصان کا باعث ہے۔
ماں،باپ،بڑا بہن بھائی،پھپھو، دادی میں سےکوئی ایک تو ہو جو بچوں کےساتھ دوستی کا ایسا درجہ رکھتا ہو جسے بچہ باآسانی بتاسکےکہ وہ فلاں رشتہ دار،دوست یا شخص کےساتھ  "اَن کمفرٹیبل" رہتا ہے۔
اکثردیکھاہےکہ بچہ کسی خاص مہمان کی آمد پر گھبراہٹ کا شکار ہوتا ہے۔والدین اس معاملےکوسمجھنےکی بجائے ڈانٹ ڈپٹ سےکام لیتےہیں۔نتیجتاً بچہ اس دلدل میں دھنستےہوئے نفسیاتی مریض بن جاتا ہے۔

٥: بچےکو اعتماد ابتدائی عمرسےدیجیے۔اس کو یقین ہونا چاہیےکہ ماں کےعلاوہ کسی کےساتھ کوئی بھی بات "سیکریٹ/راز" نہیں ہوتی۔اسی ایک لفظ کا سہارا لیے بھیڑیے آپ کے بچے کو بھنبھوڑ ڈالیں گے۔
بچوں کو یہ باور کروانا والدین کا ہی فرض ہے کہ باہر کچھ بھی غلط کام ہوا ہےتو والدین کو بتانے پر ڈانٹ نہیں پڑے گی اور نہ ہی اس میں کوئی خطرہ ہے۔ذہنی تحفظ کا احساس ایسے معاملات میں معاون رہتا ہے۔

٦: اکثر ماہرین "بیڈ ٹَچ" "گُڈ ٹَچ" جیسی اصطلاحات استعمال کرتے ہیں۔شاید بہت سے کیسز میں یہ مددگار بھی ہو۔مگر ابتدائی عمرمیں بچوں کو کنفیوز مت کیجیے۔سادہ اصول اور آسان زبان ہی واحد حل ہے کہ بچوں کو جنسی پجاریوں سےبچایا جائے۔

٧: اہم ترین نکتہ یہ ہے کہ بچے کو احساس ہو کہ یہ تمام باتیں نہ صرف اس کی ذات کیلیے بلکہ کسی دوسرے کیلیے بھی یوں ہی اہم ہیں۔
والدین،بڑے بھائی بہن کے بعد اہم فریضہ اساتذہ کا بھی بنتا ہے کہ وہ طلباء کوغیرمحسوس طریقے سے اس سلسلے میں رہنمائی دیں۔۔۔یہاں لفظ "استاد" انہی کےلیے استعمال ہواہے جو اس کی حرمت سے آگاہ ہیں۔
کتنے ہی واقعات ہیں جنہیں والدین خود دبا دیتے ہیں کہ خاندان اور معاشرے میں "بدنامی" ہوگی۔۔۔اسی طرح چند کیسز ہیں کہ آپ انگلیوں پر گِن لیجیے جنہیں ان جرائم کی سزا دے کر عبرت کا نشان بنایا گیا ہو۔۔۔۔
یہ تو معاملہ ہوا گھر کا۔۔۔اب ذرا معاشرے اور ریاست کی جانب آئیں۔ معاشرےکو فرصت ہےکہ اگلی نسلوں کےلیے صحتمند تفریح / کھیل کود فراہم کرے ؟۔۔۔ اور ویسے ہمارا یہ "پاکباز" معاشرہ جنسی تعلیم و تربیت بارے کیا "مواد" فراہم کررہاہے ؟ ۔۔۔۔ ریاستی قوانین کس حد تک کارگر اور سخت ہیں کہ جن کا ڈر/خوف لوگوں کو "بدفعلی" کرنے سے روکنا تو دور کی بات ان محرکات پر قابو پا سکے جو کسی شخص کو ذہنی طور پر اس پستی میں گرا دیتے ہیں کہ وہ جنس/عمر/رشتے تک کا لحاظ بھول جاتا ہے۔۔۔۔
حکومتیں آتی جاتی رہتی ہیں اور افسوس تو یہ ہے کہ ہمارے ہاں "ریاستی پالیسی سازی" نہیں ہوتی بلکہ حکومتی/سیاسی جماعت کی پالیسیاں بنتی ہیں جو ہر حکومت کے ساتھ ہی دفن ہوجاتی ہیں۔

آج
 "میڈیا رپورٹ" کے مطابق قصورشہر میں284 بچے سالوں سے "جنسی زیادتی" کا نشانہ بنتے رہے۔اس قوم کے بچے "انجیکشنز" اور بلیک میلنگ کے سر پر "جنسی کھلونا" بنے وڈیوز کی صورت "عالمی جِنسی منڈی" میں بِکتے رہے۔اور والدین سے لے کر،پولیس۔۔۔۔"عوامی نمائندے" سے لے کر سارا نظام اپنے اپنے گرداب میں پھنسا چُپ کا لبادہ پہنے یا رشوت بٹور کر جرم میں حصہ دار بنا رہا۔سوال میرا سب سے پہلے ان والدین سے ہے جوبرسوں"عزت" کے نام پر  بلیک میل ہوکر رقوم ان "خنزیروں" کو دیتے رہے جبکہ اسی رقم سے معاملہ قانون کےسامنے لایا جاسکتا تھا۔
سوال تو پھر یہ بھی ہے کہ عوام کو قانون پر اعتماد/اعتبار ہی کتنا ہے۔بقول اخباری رپورٹر، آپ کے "عوامی نمائندے"  کا اس سارے اسکینڈل میں براہِ راست ملوث ہونا اس جانب اشارہ کرتا ہے کہ نظام میں "جس کی لاٹھی اس کی بھینس" کس قدر راج کررہی ہے۔
اب یہ معاملہ سامنے آیا ہےتو قانون جانے کب حرکت میں آئے گا ۔۔ لوگ بہرحال اس پر بھی "ایک" نہیں ہوں گے،وہی پشاور سانحہ والا معاملہ ہوگا۔کچھ روز بعد نہ صرف بھول جائیں گے بلکہ نیا جھنجھنا ملنے پر اس کھلونے سے منہ بھی موڑ لیں گے۔فی الحال تو صبح سے لوگوں کو "مسلکی،مذہبی،معاشرتی اور سیاسی" گروہوں میں منقسم ہی دیکھ رہی ہوں۔سب اپنی "دکان" پر "بازار سے بارعایت خریدیں" کا بورڈ آویزاں کیے سودا بیچ رہے ہیں۔خریدنے والے ہر قسم کی "تھیوری" خرید بھی رہے ہیں اور کوسنے بھی جاری ہیں۔
"جنسی زیادتی اور بے راہ روی" کا مسئلہ نہ تو مدارس تک محدود ہے اور نہ ہی نام نہاد "فحاشی" اس کی پوری ذمہ دار ہے۔۔۔ہمارا معاشرہ مکمل طور پر ملوث اور ذمہ دار ہے۔کسی ایک مسلک یا گروہ کو رگیدنے سے مسائل حل ہوتے تو شاید لوگ جنت کی آرزو میں جگہ جگہ پھٹ نہ رہے ہوتے۔کوئی بم لگا کر پھٹ رہا ہے تو کوئی الفاظ کے زیرو بم پر بیٹھا ہے۔

ترجیحات۔۔۔۔ جی ہاں ! گھریلو،معاشرتی اور ریاستی ترجیحات میں اگلی نسلوں کا تحفظ جب صرف پیسے کمانا، مفت انٹرنیٹ پیکجز یا ذرائع آمدو رفت ہی رہےگا تو قصورشہر جیسے معاملات سامنے آتےرہیں گے۔یا پھر ہم "عزت" کے نام پر دباتے رہیں گے۔
اس وقت یہ معاملہ حکومتِ پاکستان کے لیے ویسا ہی ٹیسٹ کیس بن کر ابھرا ہے جس نہج پر "پشاور سانحہ" نے سب کولاکھڑا کیا تھا۔ قصور واقعہ میں ایک پہلو یہ بھی یاد رہے کہ ابھی تک "
غیرجانبدارانہ تحقیقات/ آزادانہ کاروائی " عمل میں نہیں آئیں۔۔۔ابتدائی اور وہ بھی پرنٹ و الیکٹرانک میڈیا کی رپورٹس پر من وعن یقین کرلینا قطعاً مناسب نہیں ہوگا۔ ۔ ۔ کچھ انتظار کیجیے کہ حکومتی ادارے کیا کرتے ہیں۔تحقیقات کیا نتیجہ سامنے لاتی ہیں۔منظر ابھی تک واضح نہیں۔

14 تبصرے:

  1. بہت مضبوط الفاظ کے ساتھ بہترین تحریر ہے۔ خاص بات یہ کہ اس جیسے موضوع پر اتنا اچھا لکھنا بڑوں بڑوں کیلئے آسان نہیں وجہ الفاظ کی کمی ہے۔ معاشرتی شعور کے اعتبار سے ایک بہترین تحریر ہے۔

    جواب دیںحذف کریں
    جوابات
    1. بہت شکریہ چھوٹے بھائی۔۔۔۔۔۔۔کوشش جاری رہے گی۔

      حذف کریں
  2. بہت عمدہ تحریر آپی
    الله پاک ہم سب کو ان باتوں کو سمجهنے اور عمل پیرا ہونے کی توفیق عطا فرمائے آمین
    لکهتی رہیں اور فیضیاب کرتی رہیں

    جواب دیںحذف کریں
    جوابات
    1. بہت شکریہ محترم بھائی
      ثم آمین !
      بچوں کو سمجھانے سے پہلے ہم بڑوں کو بھی شعور کی اشد ضرورت ہے۔۔۔۔

      حذف کریں
  3. عمدہ تحریر، اس بلاگ جیسی آگہی مہمات چلانے کی ضرورت ہے والدین نہ اساتذہ کبھی بھی اس موضوع پر نہ آگہی دیتے نہ تدابیر بتاتے۔

    جواب دیںحذف کریں
    جوابات
    1. شکریہ جواد بھائی۔۔۔۔
      مسئلہ آگہی سے بھی پہلے ہم لوگوں کو ان نادیدہ فرسودہ زنجیروں سے چھٹکارہ چاہیے جو بچوں کو ایسے معاملات سمجھانا شرم کا باعث سمجھتی ہیں۔۔۔

      حذف کریں
  4. لفظ با لفظ جملہ با جملہ حقیقت پر مبنی ہے اور یہ تحریر ایک سبق ہے اور احتیاطی تدابیر سے بھرپور ہے آئیندہ اس پہ عمل کر کے قصور جیسے واقعات سے بچا جا سکتا ہے بہت عمدہ تحریر ہے

    جواب دیںحذف کریں
  5. الفاظ کا استعمال نہایت ہی نپا تلا ہے، اور ایک ایسی معاشرتی ناسور کا ذکر کیا گیا ہے جو ہمارے بچوں سے ان کا بچپن چھین رہا ہے، معاشرے کا ہر فرد اس سانحے کا ذمےدار ہے اگر ہر فرد اپنی ذمےداری ادا کرے تو نوبت کبھی بھی یہاں تک نا پہنچے، مگر ہم سکیپ گوٹ بنا کر سارا مدعا اس پر ڈالتے ہیں اور اللہ اللہ خیر سلا - اللہ سب کو یہ بلاگ پڑھنے اور سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے

    جواب دیںحذف کریں
    جوابات
    1. جزاک اللہ چھوٹے بھائی۔۔۔
      جیتے رہو۔۔۔
      بس ہم میں سے ہر کسی کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔۔۔

      حذف کریں
  6. Good job. One point I would like to add is that its high time we stop supporting the culprits. 'Mard tha beqaboo ho gya' banda pochey insan hai k janwar? Sawal khwateen n bachon per uthana band kren and is moashrey k mard per zimadari dalen. Werna her aurat n her bacha gher mehfooz hai is nazuk mizaj moashrey mein

    جواب دیںحذف کریں