بدھ، 10 فروری، 2016

آلو کہانی

بات کچھ ایسی بھی نہ تھی کہ اسے گھسیٹتے چلے جائیں۔مگر جب موضوعات کا فقدان ، جستجو کا قحط ہو اور ترجیحات کی فہرست "اپ سائیڈ ڈاؤن" ہوجائے تو ملکی سربراہ کی چھینک سے لے کر ،کھانوں کی تفصیل تک اور پشاوری چپل سے لے کر آلو کی قیمت بارے دیے گئے بیان کو ہی خبروں اور سوشل میڈیا کی زینت بننا پڑتا ہے ۔چند روز قبل پٹرول کی قیمتوں میں کمی کا اعلان کرتے وزیرِ اعظم صاحب نے پانچ روپے فی کلو آلو کی قیمت بتائی جسے ہم اَن سنا کرگئے کہ اُسی روز سترہ روپے فی کلو خریدے تھےجو کہ کچھ عرصہ قبل ساٹھ سے نوے روپے (میٹھا اور پھیکا) میں خریدا کرتے تھے ۔سوشل میڈیا اور نو بجے کے خبرناموں میں حسبِ معمول اس پر پھبتیاں کسی گئیں۔مگر کل سندھ اسمبلی کی ڈپٹی اسپیکر صاحبہ کی ایک ٹوئٹ نظر سے گزری۔حیرت ہوئی کہ اپنی سیاسی جماعت کی اساس  اور موجودہ عہدے کا لحاظ پسِ پشت ڈالے خاتون منتخب وزیرِ اعظم کا ٹھٹھا اڑا رہی تھیں۔اسی لیے سوچا کہ معلوم تو کیا جائے آخر آلو اتنا اہم کیوں اور کیسے ہوگیا۔
ابھی جس وقت یہ بلاگ تحریر کیا جارہا ہے خبرملی ہے کہ ایک کسان کو سٹروک ہوا اور آدھا جسم مفلوج ہوگیا ہے۔وجہ ہے منڈی میں آلو کی ساڑھے چار روپے فی کلو قیمت جو کہ آڑھتی اسے دے رہا ہے۔مسئلہ وزیرِ اعظم کا آلو کی  کاشتکاری قیمت بتانا نہیں ہے۔مسئلہ ہے پیداواری لاگت سے لاعلمی اور آلو مکئی کے چھوٹے کاشتکار کا استحصال۔جس کی جانب حکومت سنجیدہ دکھائی دیتی ہے اور نہ ہی ہمارے چوبیس گھنٹے سجے آزاد میڈیا کو کچھ دلچسپی ہے۔
آلو کی پیداواری کاشت دس سے پندرہ روپے فی کلو ہے۔کسی بھی شے پر اٹھنے والی لاگت منافع سوچ کر ہی بنائی اُگائی جاتی ہے۔فصل یا پراڈکٹ کی درست قیمت کا تعین ہم تب تک نہیں کرسکتے جب تک کہ اسے برآمد نہ کیا جائے۔جہاں تک میری معلومات ہیں پورے پاکستان میں آلو برآمد  کرنے کا لائسنس اس وقت بارہ یا سولہ افراد کے پاس ہے جوکہ کچھ عرصہ قبل تو چھ لوگوں کے تصرف میں تھا۔اجارہ داری تو خیر ہمارے ہاں ہر میدان میں دیکھنے کو ملتی ہے۔سوال یہ ہے کہ لائسنس کے اجراء میں بخل سے کام لے کر کس طبقے کو نوازا جارہا ہے۔اصل کاشتکار تو پِس رہا ہے۔پیسہ جب چند ہاتھوں میں ہی گردش کرے گا تو نام نہاد خوشحالی اور معیشت پانی کا وہی بلبلہ ثابت ہوتے ہیں جو پاکستان نے مشرف دور میں دیکھا۔
ٹی۔وی سکرینوں اور سوشل میڈیا پر بیٹھے بقراط شاید یہ جاننا بھی گوارا نہیں کریں گے کہ آلو کی ایک بوری کا وزن کیا ہوتا ہے،آڑھتی کتنے میں خرید کر آگے کتنا منافع کماتا ہے۔ عام کسان ایک سو بیس کلو آلوؤں کی بوری ساڑھے تین سو سے سات سو روپے تک بیچتا ہے۔جو کہ سراسر گھاٹے کا سودا ہے،شاید اسی لیے پار سال بہت سے کسانوں نے زمین میں ہل چلادیے تھے۔یہی بوری ایکسورٹرز باآسانی چھ سے سات ہزار روپے میں فروخت کررہا ہے۔
عدیل علی خان پاکستان کے واحد فارمر ہیں جن کی سو فیصد فصل مشہور زمانہ کمپنی لیز خریدتی ہے۔وہ انہی کیلیے آلو اگاتے ہیں لہذا ایک طے شدہ معاہدے کے مطابق فصل کا خاطر خواہ معاوضہ مل جاتا ہے۔ان کے مطابق پورے پاکستان میں مجموعی طور پر ساٹھ سے ستر بڑے زمیندار ہیں جو اس کمپنی کےساتھ مختلف حوالوں سے منسلک ہیں۔باقی لاکھوں کسانوں کو اپنی فصل اُسی سفاک آڑھتی کے ہاتھوں فروخت کرنا ہوتی ہے جو کہ چار سے پانچ روپے فی کلو کی ادائیگی کرکے صارف کو بیس سے تیس روپے فی کلو تک بیچ رہا ہے۔جبکہ ایکسپورٹرز کے تو کیا کہنے۔ان کے تو سر کڑاہی میں ہیں جناب۔
فروری کے اواخر اور مارچ کے اوائل میں آلو کی فصل ختم ہوجائے گی۔اس کے بعد ایکسپورٹر ہی اپنے بینک اکاؤنٹس بھریں گے۔کسان تو مکئی اگانے چل پڑے گا کہ اسے بہرحال اپنا اور اپنے بچوں کا پیٹ کسی طور بھرنا ہی ہے۔
حکومت کو چاہیے کہ بروقت آلو،مکئی اور چاول جیسی اجناس کیلیے برآمدی منڈیاں تلاش کرے ، مڈل مین کی اجارہ داری کو توڑے اور یقینی بنائے کہ ایکسپورٹرز چھوٹے کسان کا استحصال نہ کرسکیں۔ جب آپ کا کسان ہی بھوکا مرے گا تو نچلا طبقہ کیسے خوشحال ہوگا ؟ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ جب کسان بہتر معاوضہ پائے گا تو ہی اس سے جڑی لیبر یعنی کھیت سے منڈی تک کا مزدور بہتر اجرت حاصل کرے گا۔کاشتکار کو کی گئی ادائیگی ہی وہ راس ہے جو کسی زرعی ملک کے معاشی پیہے کو دھکا لگاتی ہے۔ لیپا پوتی سے وقتی خوشحالی تو دکھائی جا سکتی ہے مگر عمارت کی کمزور بنیادیں کب تک چھپا سکتے ہیں ؟
حکومت کو چاہیے کہ کھادوں اور بیج پر سبسڈی دے۔تاکہ کسان کو فصل پر اٹھنے والی پیداواری لاگت میں کمی کا احساس ہو اور وہ اپنی محنت کی مناسب قیمت پا سکے۔یہی سبسڈی  کاشتکار کی بہترین مدد ثابت ہوسکتی ہے۔آپ میٹرو،اورنج لائن منصوبوں پر سبسڈی دیجیے کہ وہ بھی عوام کیلیے ہی ہے۔مگر کسان کا بھی سوچیے۔آٹھ سال پہلے یوریا کی جو بوری چھ سو روپے میں دستیاب تھی آج اس کی قیمت دو ہزار روپے تک پہنچ چکی ہے۔وجہ ہے آئی۔ایم۔ایف کی جانب سے سبسڈی ختم کروانا۔یہی یوریا بوری بھارت میں پاکستانی کرنسی کے حساب سے سات سو روپے میں مل رہی ہے۔اس مد میں اینگرو کو "شاباش" دینا مت بھولیے گا جنہوں نے پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار یوریا بلیک کیا۔اس ظلم کی قیمت کسان اور عوام نے کیسے چُکائی۔یہ قصہ پھر سہی۔
وزیرِاعظم نے کسان پیکج کا اعلان کیا۔ڈھول تاشے بجائے گئے اور مخالفین نے اس کو عدالت میں چیلنج بھی کردیا مگر کسان کے لیے نہیں بلکہ اپنی سیاست کو وینٹیلیٹر سے ہٹانے کیلیے۔اگرچہ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ آپ باور کرواتے  کسان پیکج کی مد میں چھوٹے کاشتکاروں کی دس سے پندرہ فیصد شرح ہی بذریعہ قرعہ اندازی مستفید ہوپائے گی۔ایک سے بارہ ایکڑ تک کے مالکان اس قرعہ اندازی میں شریک ہوکر پانچ ہزار روپے فی ایکڑ حاصل کرپائیں گے۔ باقی پچاسی فیصد کسان کیا کریں گے؟ اگر اپوزیشن کرنا ہی تھی تو یوریا  اور بجلی کے بلوں پر سبسڈی کا مطالبہ کرکے کی جاتی ۔جس کا فائدہ ہر کسان کو یکساں پہنچتا ۔بہرحال کسان پیکج کے تحت ڈی۔اے۔پی کھاد کی بوری پر پانچ سو روپے تک کی سبسڈی دی گئی ہے جس کا فائدہ سب کو ہوگا۔مگر ہمارا کسان آج بھی یوریا زیادہ استعمال کرتا ہے۔ایک آگہی مہم تو یہ بھی چلائی جائے کہ کسان کو یوریا کی بجائے ڈی۔اے۔پی اور پوٹاشیم کے استعمال کی جانب راغب کیا جائے جو کہ بہتر پیداوار میں کلیدی کردار ادا کرتے ہیں۔
آلو کا کاشتکار دوسری فصل مکئی کی لگاتا ہے۔جس کی قیمتیں بین الاقوامی منڈیوں  میں تین سالوں کے دوران کریش کرگئی ہیں۔نو ساڑھے نو سو روپے فی من بِکنے والی مکئی اب پانچ سو  سے  چھ سو روپے فی مَن بیچی جارہی ہے۔مگر یہاں بھی حکومتی گرفت دکھائی نہیں دیتی۔فیڈ مِلز  ستر سے اسی فیصد مکئی کا استعمال کرتی ہیں اور انہوں نے بجائے فیڈ سستی کرنے کے قیمتیں مزید بڑھا دیں۔جس کی لاٹھی اس کی بھینس۔دوسری جانب کوئی ایک کارن پراڈکٹ کا نام بتایے جس کی قیمتیں اسی تیزی سے نیچے آئی ہوں؟ کارن آئل کا استعمال آج بھی عیاشی کے زمرے میں ہی آتا ہے۔دیگر کارن مصنوعات کا بھی یہی حال ہے۔سال میں مکئی کی دو فصلیں حاصل کی جاتی ہیں؛ بہاریہ مکئی آلو کے فوراً بعد کاشت کی جاتی ہے ۔جس کی پیداواری لاگت چھ سو روپے فی من تک ہوتی ہے اور اچھا کسان اسےپچاس روپے منافع کیساتھ ساڑھے چھ سو روپے فی من میں بیچتا ہے۔اوسط پیداوار پینسٹھ سے ستر من فی ایکڑ ہوا کرتی ہے۔جبکہ موسمی فصل جون سے اگست تک کاشت ہوتی ہے اور چالیس سے پینتالیس من فی ایکڑ تک حاصل کی جاتی ہے۔جس وقت مکئی نو سو روپے فی من بِک رہی تھی تو فیڈ کی ایک بوری گیارہ سو سے بارہ سو روپے کی مل رہی تھی۔آج مکئی ساڑھے چھ سو روپے فی من بیچی جارہی ہے جبکہ فیڈز بوری کی قیمتِ فروخت بائیس سو سے چوبیس سو روپے تک جا پہنچی ہے۔نہ کوئی چیک اینڈ بیلنس ہے اور نہ ہی اپوزیشن یا میڈیا کو فرصت ہے کہ کسان کے اصل مسائل کو سامنے لا کر حکومت کو جگایا جائے۔ہر جانب ڈنگ ٹپاؤ پالیسی ہی دکھائی دیتی ہے۔

ہفتہ، 6 فروری، 2016

قومی ائیر لائن

قومی ائیر لائن کے ملازمین کی ہڑتال سے تین روز میں قومی خزانے کو ایک ارب  اسی کروڑ کا نقصان۔ یہ وہ سرخی ہے جو آج ہر اخبار کی زینت بنی ہوئی ہے۔قومی خزانے کا تو جو کباڑہ ہورہا ہے تین انمول انسانی جانیں بھی اسی ہڑتال کی نظر ہوچکی ہیں۔
آخر حکومت کیوں نہیں مان جاتی۔کیوں دنوں جانب سے ھڈ دھرمی دکھائی جارہی ہے۔کیا واقعی قومی ائیرلائن کو بچانے کی آخری امید نج کاری ہی ہے۔وفاق نے ڈھائی تین سالوں میں کیا کاوش کی اور ادارے نے کارکردگی کی مد میں کیا نتائج دیے۔۔۔ایک عام پاکستانی کے ذہن میں یہ اور ایسے بےشمار سوالات گردش کررہے ہیں۔ جاننے کی کوشش میں جو حقائق ہاتھ لگے ہیں پہلے ان کا جائزہ لے لیا جائے کہ حکومتی اقدامات کیا رہے اور اس کے نتائج و اہداف کیا برآمد ہوئے
١: جون ٢
۰١٣ء  پی۔آئی۔اے اٹھارہ آپریشنل جہاز رکھتا تھا جن کی آج تعداد اڑتیس ہے اور شائد مزید دو ائیر کرافٹس لائے جا رہے ہیں۔
٢ : ایسے روٹس جنہیں پرافٹ ایبل کہا جاتا ہے وہاں فلائٹس کی تعداد بڑھائی گئی جبکہ جن روٹس پر منافع خاطر خواہ نہیں تھا انہیں بند کردیا گیا۔اسی مد میں ہانگ کانگ،بینکاک،کٹھمنڈو ، فرینکفرٹ،ایمسٹیرڈیم اور گلاسگو کی فلائٹس بند کردی گئیں اور دوہا ، ابوظہبی ، مسقط ، دوبئی ، بیجنگ اور کوالالمپور کی جانب فلائٹس کی تعداد بڑھا دی گئی۔
٣: آج کے ائیر کرافٹس تکنیکی اعتبار سے بہتر ہیں جو کہ ادارے کو ایندھن کی بچت دے کر ملکی فارن ایکسچینج میں سہولت کا باعث بنے۔
٤ : بین الاقوامی سطح پر تیل کی قیمتوں میں کمی کا فائدہ کرایوں میں پینتیس فیصد تک کی کمی کرکے صارف کو براہِ راست پہنچایا گیا۔
٥: سڈنی ، ہانگ کانگ ، فرینکفرٹ وغیرہ جیسے آف لائن دفاتر بند کرکے زائد معاشی بوجھ میں کمی کی گئی۔
٥ :پی۔آئی۔اے نے چائنہ سدرن ائیر لائنز ، تھائی ائیر ویز ، ٹرکش ائیر لائنز اور اتحاد ائیرویز کے ساتھ کوڈ شئیرنگ معاہدوں پر دستخط کیے۔جن کے تحت مسافروں کو پی۔آئی۔اے کے ٹکٹ پر ان ائیرلائنز کے ذریعے ان مقامات پر جانے کی اجازت ہوگی جہاں قومی ائیر لائن کی پروازیں نہیں جاتیں۔
۶: پروازوں میں وقت کی پابندی انہتر فیصد سے بڑھ کر چوراسی فیصد تک پہنچائی گئی۔حج آپریشن کے دوران پچپن ہزار سے زائد حجاج کرام کوڈیڑھ سو پروازوں کے ذریعے واپس لایا گیا اور اعداد وشمار کے حساب سے چھیانوے فیصد پروازیں وقت پر پہنچیں۔
۷: لاہور ، پشاور،سوات ، نوابشاہ ، کوئٹہ اور راولپنڈی میں سات ٹریننگ سینٹرز کھولے گئے جہاں نوجوانوں کو ائیروسپیس/ائیروناٹیکل انجینئرز کو ملکی اور بین الاقوامی مارکیٹ کے لیے تیار کیا جاتا ہے۔ملتان کا ٹریننگ سینٹر افتتاح کیلیے تیار ہے جبکہ فیصل آباد ، سکھر اور مظفرآباد پر کام جاری ہے۔کراچی سینٹر میں موجود سہولیات کو بھی اپ گریڈ کیا گیا۔
۹: ایک ورلڈ کلاس جرمن کنسلٹنٹ کی خدمات EASA سرٹیفیکیشن کیلیے لی گئیں۔
۱۰: گزشتہ کوارٹر ٢۰١٥ء کے دوران قومی ائیرلائن  نے سیل کی مد میں تیرہ فیصد اضافہ ہوا۔اس دوران  مجموعی سیل ساڑھے اکیس بلین روپے تک گئی۔
سوال یہ اٹھتا ہے کہ اگر سب اچھا ہورہا تھا۔رپورٹ میں بہتری آرہی تھی تو نجکاری کا شوشا کیوں چھوڑا گیا۔جبکہ سال ٢
۰١٣ء میں پی۔آئی۔اے ملازمین کی تعداد سولہ ہزار پانچ سو تریسٹھ تھی جس میں دو ہزار چار سو تین لوگوں کو ریٹائرمنٹ ، معطلیاں اور کانٹریکٹ منسوخی کے باعث فارغ کیا گیا۔سترہ فیصد والا پہاڑا سناتے کوئی ملازم یہ بتانا پسند نہیں کرتا کہ جب سیاسی بھرتیوں کے نام پر میرٹ کی دھجیاں اڑتی رہیں تو یہ لوگ کہاں سو رہے تھے۔ تین سودو  جعلی ڈگریاں ، پانچ سو سات  ایسے ٹیکنیشنز کو تین سال بھگتا گیا جو کہ خالی آسامیوں کے قانون کی خلاف ورزی کرکے سر چڑھائے گئے۔دنیا بھر میں قومی ائیرلائن کا عملہ موبائل فونز ، سگریٹ اور دیگر اشیاء کی سمگلنگ میں دھر لیا جاتا تو بھی کوئی آواز نہیں اٹھائی گئی۔حالانکہ یہ قومی وقار کی بین الاقوامی سطح پر نیک نامی کا موجب بننے والے واقعات نہ تھے۔ہر کوتاہی پر ایک ہی پالیسی اپنائی گئی ؛ گو سَلو برو ۔۔۔ فی ائیرکرافٹ چھ سو ستاون ملازم کی اوسط کو کم کرکے تین سو نوے پر لایا گیا۔ قومی ائیر لائن میں موجودہ ملازمین کی کل تعداد اس وقت چودہ ہزار سات سو اکتہر ہے۔
قومی ائیر لائن خسارے کو ڈھائی سال میں چالیس فیصد تک کم کیا گیا۔مگر کیا ہم گردشی قرضوں کا حساب کتاب جاننے کی فرصت نکال پاتے ہیں ؟ تین سو ارب کا گردشی قرضہ جبکہ اثاثہ جات کی مالیت منفی میں جارہی ہو۔آپ حکومت کے ہاتھ میں کونسی جادوئی چھڑی دیکھ رہےہیں ؟ جہاز اڑیں یا نہ اڑیں ماہانہ ساڑھے تین بلین روپے لیز اور سود کی ادائیگی قومی خزانے سے ہی ادا ہو رہی ہے۔
پاکستان قومی ائیر لائن کا موازنہ بین الاقوامی اداروں سے کرنا بھی مضحکہ خیز ہی معلوم ہوتا ہے۔ہوابازی پر نظر رکہنے والے بی بی سی کے صحافی طاہر عمران صاحب کے مطابق ‘خاص کر جب آپ یہ بھی جاننے کی زحمت نہ کریں کہ
Emirates  کے پاس کتنی رقم ہے اور اُس نے سو کے لگ بھگ ایئر بس اے تھری ایٹی طیارے آرڈر کر رکھے ہیں جنہیں خریدنا اور چلانا دنیا کی چند ایک فضائی کمپنیوں کے بس کی بات ہے۔ اس کے علاوە ایئربس کے اے تھری ففٹی اور بوئنگ کے سیون ایٹ سیون طیاروں کے بڑے آرڈر دینے والوں میں ایمرٹس شامل ہے۔ ایمرٹس کے روٹس کا نیٹ ورٹ ملاحضہ کریں اور یہ بھی کہ اس کے تمام کام آؤٹ سورس کیے گئے ہیں۔جبکہ پی۔آئی۔اے  کے اکاؤنٹس میں ائیر کرافٹس خریدنے کی صلاحیت ہی نہیں۔لیز پر لیے جاتے ہیں ۔ لیز تو سمجھتے ہیں نا آپ۔۔۔کیٹرنگ کا شعبہ ہماری قومی ائیر لائن خود دیکھتی ہے جو کہ Emirates نے مسئلہ پالا ہی نہیں۔ کیٹرنگ دوسروں کو بھی فراہم کی جاتی ہے جو اپنی ذات میں ایک کاروبار ہے۔
ہماری کارگو سروسز بارے بھی جانیے۔ریلویز ہوں یا ہوائی سفر یہ کارگو ہی ہے جو منافع کما کر دیتی ہے۔ہمارے پاس کوئی کارگو جہاز نہیں ہے جناب۔ اور پھر وہ بقراط ہیں جو ٹرکش ائیر لائنز کی ایوی ایشن انڈسٹری اور ریگولیشنز کے ساتھ پی۔آئی۔اے کا موازنہ کررہے ہیں۔سبحان اللہ۔ترکی کو جغرافیائی اعتبار سے جو فائدہ حاصل ہے کیا پاکستان ویسے مواقع رکھتا ہے؟
نجکاری کی مخالفت میں اِس وقت جو سیاسی جماعت سب سے اگلی صف میں دکھائی دیتی ہے وہ شاید بھول گئے ہیں کہ ان کے ادوار میں ستائیس کے قریب ادارے نجکاری کی چُھری تلے گئے۔ہاں مگر اُس وقت جو لوگ اس کے مخالف تھے آج انہیں نجکاری ہی واحد راستہ سوجھ رہا ہے۔ لازمی سروس ایکٹ جسے آج پاکستان پیپلز پارٹی کالا قانون قرار دے رہی ہے اس کا دو بار نفاذ خود انہی کے دورِ اقتدار میں کیا گیا۔ابھی کچھ روز قبل پشاور میں ینگ ڈاکٹرز کی ہڑتال توڑنے کو اسی ایکٹ کا ڈراوا دیا گیا۔
ن لیگ نے اپوزیشن میں وہی کام کیا جو آج خورشید شاہ صاحب اور ان کے ساتھی کررہے ہیں۔ بی۔بی شہید کے دور میں سات عدد بوئنگ
۷۴۷ طیارے کیتھی پیسیفک سے خریدے گئے اس سلسلے میں نواز شریف صاحب نے اُس زمانے میں کیسی سیاست کھیلی یہ بھی کسی سے ڈھکی چھپی بات نہیں۔نجکاری روکنے کیلیے جو حربے اُس وقت کی اپوزیشن نے آزمائے وہی ہتھکنڈے آج کی اپوزیشن اور اُس زمانے کی حکومت دکھا رہی ہے۔ اور ویسے یہ سوال کوئی نہیں اٹھا رہا کہ تنبیہہ کے باوجود ہوائی اڈے کی دیواریں پھلانگنے یا احاطے میں زبردستی گھسنے کی ہلہ شیری کس نے دی۔شرپسند عناصر تھے یا کسی سیکیورٹی ادارے کی غفلت شاید کبھی عوام کو حقائق سے آگہی مل ہی جائے۔مگر اس سلسلے میں حکومتی مؤقف بہت سخت اور تکلیف دہ ہے۔ریاست اگر ماں ہے تو گھوریاں ڈالتے،ڈرانے دھمکانے کے بیچ پُچکارنا بھی اسی کا فرض ہے نہ کہ کیمروں اور مائیک کے سامنے للکار پکار مچائی جائے۔
جہاں تک یاد پڑتا ہے میاں نواز شریف نے اداروں کے آپریشنل کرنے کا وعدہ تو کیا تھا جو ان کی حکومت نے پورا بھی کیا۔مگر ہم جیسے تیسری دنیا کے ممالک میں حکومتی سرپرستی میں بہتری ایک حد تک ہی ممکن ہوپاتی ہے جس کے بعد عوام کی جیب ہر روز کاٹ کر خسارے پورے کیے جاتےہیں۔
جب کہا جائے کہ حکومتوں کا کام ائیر لائنز اور سٹیل ملز جیسے ادارے چلانا نہیں ہے تو مثال دی جاتی ہے میٹرو بس اور اورنج لائن ٹرین منصوبوں کی۔وجہ اس موازنے کی صرف یہ ہے کہ ہمارے ہاں سبسڈی اور لاسز کا فرق سمجھنے سمجھانے کا رواج روزِ اول سے ہی نہیں ہے۔دوسری بات یہ کہ میٹرو منصوبہ پبلک-پرائیویٹ سانجھے داری پر چل رہا ہے۔ترکی کی کمپنی اس منصوبے میں پارٹنر ہے۔دنیا بھر میں کوئی بھی پرائیویٹ سرمایہ کار فردِ واحد بن کر ماس ٹرانزٹ پر مال نہیں لگایا کرتا۔حکومتی سرپرستی بہرحال درکار ہوتی ہے اور جب منصوبے چل نکلیں تو پرائیویٹ انویسٹرز کے سپرد کردیے جاتےہیں۔
بحث بہرحال یہاں قومی ائیرلائن کے سفید ہاتھی کو اسی سال نجکاری کے عمل سے گزارنا ہے اور مناسب یہی ہوگا کہ حکومت سب سیاسی جماعتوں کو اعتماد میں لے کر ملازمین سے مذاکرات کرکے ان کے تحفظات دور کرے۔ورنہ حالات کا خمیازہ عام شہری کی جیب بھگت رہی ہے۔

بدھ، 3 فروری، 2016

عالمی کتب میلہ

کل صبح سماجی رابطے کی ویب سائٹ پر ایک دعوت نامہ موصول ہوا۔ لاہور ایکسپو سینٹر میں  چار سے آٹھ فروری کے دوران  تیسواں عالمی کتب میلہ  سجنے جا رہا ہے ۔ کتاب سے عشق رکھنے والوں کیلیے یہ ایک خوبصورت کوشش ہے ۔
لاہور دہائیوں سے پڑھنے ، جذب کرنے ،لکھنے اور پڑھانے والوں کے اعتبار سے خوش بخت رہا ہے۔ یہاں کثیر تعداد مطالعہ اور کتب کی خرید و فروخت سے وابستہ ہونے کے باوجود اگر دل میں کہیں شائبہ آتا ہے کہ عالمی کتب میلہ کامیاب ہوگا یا نہیں تو یہ عکاسی ہے اس اجتماعی رویے اور خوف کی جس میں آپ اور میں سانس لیے جاتے ہیں اور جیے جا رہےہیں۔معاملہ کچھ عرصے سے ایک اور جانب بھی راہ نکالنے میں کامیاب رہا ہے ۔جہاں لوگ ڈگریاں سمیٹنے ، نو  سے  پانچ کی نوکری اور "فیملی ٹائم" میں ایسے محو ہوئے ہیں کہ مطالعہ کی انگلی چھوڑ کر کہیں میلے میں کھو گئےہیں۔ادبی محافل کا انعقاد بھی انحتاط کا شکار ہے ۔کِس تاریخ کو کونسے سینما میں کونسی فلم کا پریمئر ہونے جا رہا ہے،اس کا دھیان ضرور رکھیے کہ اچھی تفریحی ملک میں واپسی کی راہ ہموار کررہی ہے مگر اُس تعداد میں بھی اضافہ ہونا چاہیے جو کتاب کی منتظر رہے۔گزشتہ کچھ سالوں کے دوران کُتب میلوں میں آنے والوں کی تعداد بڑھتی دکھائی دیتی ہے۔ خوش آئیند بات ہے کہ ہر عمر کے لوگ شرکت کرتے ہیں اور اپنے ذوق اور استطاعت کے مطابق تلاش کر کےمطلوبہ کتب خریدتے ہیں۔
اس برس یہ عالمی کُتب میلہ حکومتِ پنجاب کے تعاون سے منعقد ہو رہا ہے ۔مگر کوئی بھی حکومت ایسے سِلسلوں کو کامیاب نہیں بنا سکتی جب تک عوام کی شرکت یقینی نہ ہو۔قاری کا رشتہ بَنا رہے تو مطالعہ کی روح بھی صحت مند رہتی ہے اور معاشرے کی رگوں میں دوڑتی  بے چینی، منفیت اور قنوطیت میں واضح کمی کا رجحان پروان چڑھتا ہے ۔مباحث میں علمی و تحقیقی گفتگو سے سیکھنے کی راہیں بنتی اور کھلتی ہیں۔
خواہش ہے کہ ایسے میلے ملک کے تمام حصوں میں منعقد کروائے جائیں۔حکومتی سرپرستی ہو اور عوام کو درسی کتب سے آگے کا جہاں کھوجنے  کے مواقع ملیں۔کتاب دوستی تشدد اور عدم برداشت کو شکست دینے اور اپنی ذات و سوچ کی تراش خراش کا اہم راستہ ہے۔ پیڑ پودے  کانٹ چھانٹ کے بعد نئی آب و تاب سے بڑھتے ہیں اسی طرح انسانی تہذیب اور سوچ کی پرورش میں وقت کے تقاضوں کے مطابق قطع برید لازم ہے۔
کل اردو ادب کا ایک عہد،ہمارا داستان گُو اپنی زندگی کی داستان مکمل کرگیا۔انتظار حسین چلے گئے۔کچھ سال قبل احمد فواد سے ملاقات میں ان کا کہنا تھا کہ ، "عجیب بات ہے، ہمارے نوجوان مطالعہ نہیں کرتے،مشاھدہ نہیں کرتے ، پاکستان کا اور دوسرے ممالک کا ادب نہیں پڑھتے اور کہتے ہیں کہ اپنے سٹائل میں لکھیں گے۔۔۔یہ کیسے ممکن ہے کہ آپ بغیر مطالعہ و مشاھدہ اچھا کام کرسکیں۔ چاہے وہ ادب ہو یا کاروبار؟ ۔۔۔ پڑھنا چاہیے اور بہت پڑھنا چاہیے تاکہ وژن پیدا ہو اور آپ کا اپنا اسلوب نکھر کر سامنے آ سکے۔"
اس نصیحت اور خواہش کے بعد میری کیا بساط کہ مزید کچھ تحریر کرنے کی جسارت کروں۔ملتے ہیں ایکسپو سینٹر لاہور چار سے آٹھ فروی کے دوران۔