جمعرات، 4 جون، 2015

ذکر لاہور میٹروبس سفر کا



اب کی بار لاہور 2 برس بعد جانا ہوا توگھرسےہی فیصلہ کیاتھاکہ میٹرو بس پراجیکٹ بارے جتنا سن رکھا ہےدیکھنا تو چاہیےکہ واقعی ایسی ہی آرام دہ اور وقت کی بچت والی عوامی سہولت ہے یاکچھ لچھےداروضاحتیں زیادہ ہیں۔
گھرسےگاڑی میں سوار میٹرو کا سفر کرنےکا ارادہ لیے نکلےاور اچھرہ کارپارکنگ میں ڈرتےڈرتےگاڑی پارک کی۔آپس کی بات ہےدل میں آیت الکرسی پڑھ کربھی پھونک دی۔ادھرسےسڑک پارکریں تودوسری جانب بیسمنٹ میں ٹکٹ گھرہے۔
       
صفائی کا انتظام دیکھ کر کچھ اطمینان ہوا وہ الگ بات کہ
 ہم بحثیت قوم اپنا فرض سمجھتےہیں قومی املاک پراشتہاربازی،ذاتی رابطہ نمبر نتھی کرنا۔اور یہی سوچ تشدد سکھاتی ہے کیونکہ سکھایا تو گیا ہی نہیں کہ ریاستی عمارات و املاک آپ کےمعاشرےکی آئینہ دار ہیں۔ابھی یہ نمونہ دیکھیے۔


بہرحال ہم ٹکٹ گھر کی جانب بڑھےجہاں سے آپ کو بیس روپے میں ٹوکن ملتا ہے اور شاہدرہ سے گجومتہ آپ 27 اسٹیشنز میں سے کہیں بھی اپنی منزلِ مقصود تک سفر کرسکتےہیں۔ہمیں فی الحال پہلے بھاٹی چوک جانا تھا۔ٹکٹ خریدے اور اوپر بس اسٹیشن کی جانب بڑھ گئے۔یہاں اوپر جانے کیلیے برقی سیڑھیوں کی سہولت فراہم کی گئی ہے۔
                                                
پہلےتو ٹوکن ایک ریڈ ایبل مشین سےچیک ہوتاہے اورپھرایک ایک کرکےمسافرآگےبڑھتےہیں ۔۔۔یہاں آپ کو بینچ بھی ملیں گے،پینے کا ٹھنڈا پانی اور گرمیوں میں پنکھےبھی ہر بینچ کے عقب میں موجود ہیں۔



ابھی تک مجھے سب کچھ بہترین معلوم ہورہاتھا۔۔خاص کر خواتین کیلیے یہ نظام نہ صرف سہولت والا ہےبلکہ محفوظ بھی سمجھا جاسکتا ہے۔میری اس بات کی تائید آگے چل کر وہ لوگ ضرور کریں گےجنہوں نے پبلک ٹرانسپورٹ میں کمر دہری کرکےگرمی میں جوتیاں چٹخائی ہیں اور جن خواتین نے ان بسوں میں مردوں کی بدسلوکی سہہ رکھی ہے۔
ایک اندازے کے مطابق ہر تین منٹ بعد ایک میٹرو بس آتی ہے اور خود کار نظام کےتحت یہ شیشے کےدروازےآپ کیلیے کھل جاتےہیں۔بس آئی اور ہماری والدہ محترمہ ہم سے پہلے سوار ہوکر یہ جا وہ جا۔جبکہ ہم لوگ منہ تکتے رہ گئے۔یہ بھی لطیفہ ہی تھا۔بہرحال اگلی بس کچھ وقفے سے آئی اور ہم بھی بھاٹی چوک روانہ ہوگئے۔مطلوبہ اسٹیشن پر اترے۔اوریہاں جب اوپر سے ٹریفک کے حالات دیکھے تو صحیح معنوں میں اندازہ ہواکہ میٹروبس لاہور جیسے گنجان آباد شہر کیلیے کتنی ضروری تھی۔




یہیں ایک جانب حضرت علی ہجویریؒ المعروف داتا صاحب کا دربار ہے،اور اس کے ارد گرد آپ کو لاہور کے رنگ بکھرے ملتے ہیں ۔انواع و اقسام کےدیسی لوازمات اور لنگر بھی۔
  


یہاں سے فارغ ہوکراب بزرگوں کوگھر واپسی کا ٹکٹ لے کر دیا اور ہم نے گجومتہ کے ٹکٹ خریدے۔۔۔مجھے لوگوں کی رائے جاننی تھی اور آخری اسٹیشن تک سہولت کا جائزہ بھی لینا تھا۔
کچھ مسافروں کے تاثرات انہی کی زبانی بیان کررہی ہوں۔۔۔
عارف صاحب کا کہنا تھا "سگنل فری ،ہر تین منٹ بعد بس آتی ہے۔وقت کی بچت اور حادثات سےبھی حفاظت ہے۔" ایک خاتون جنرل ہسپتال سے بلال گنج کا سفر گزشتہ 5 روز سے کررہی تھیں ۔ان کا بیٹا وہاں داخل تھا۔سہولت سے خوش تھیں اورواحد گلہ جو کیا "بیٹا سیٹس کم ہیں۔" قینچی سے گجومتہ جاتی ایک آنٹی کا کہناتھا کہ "روزانہ سفر کرتی ہوں۔لوگوں کےگھروں میں کام کرتی ہوں۔پہلےبہت کھپ جاتی تھی،کرایہ،وقت،دھکے۔مگراب بہت سہولت ہے۔"میں نے مسکراتے ہوئے ان سے پوچھا کہ "جنگلہ بس سروس" پسند ہے؟ تو غصے سے بولیں"باجی جو اسے جنگلہ بس کہتےہیں ان کی اولادوں نے سفر نہیں کرنا اس میں یہ ہماری سواری ہے اور عوام اسے میٹروبس سروس ہی کہتے ہیں۔" ملتان سے ایک خاندان لاہور سیر کیلیے آیا ہواتھا۔ان کے سربراہ کا کہنا تھاکہ "ہم ملتان والوں کا بھی حق بنتا ہے ایسی سہولت پر،وہاں بھی یہ منصوبہ ہوناچاہیے۔خواتین کیلیے نہایت محفوظ اور آرام دہ سفر ہے۔" بچے کافی خوش دکھائی دے رہے تھے
                     

سنیتا روزانہ یوحنا آباد سے شمع تک کا سفرکرتی ہیں اورنہایت مطمئن دکھائی دیں۔میں مذاق میں پوچھا "گالاں شالاں تے نئیں کڈدے؟" تو قہقہہ مار کر کہنے لگیں" اک تے سہولت اُتوں گالاں؟ اے رواج ساڈے 'چ نئیں ہیغا،جتھوں آیا سی اوہناں واسطےکون نکلیا فیر؟" ایک صاحب میانوالی سے تعلق رکھتے تھے مگر روزگار کےسلسلےمیں لاہورمیں مقیم تھے۔وقار صاحب کا کہنا تھا کہ انہوں نے کارڈ بنوا رکھا ہے جس کے باعث ٹوکن کیلیے قطارمیں کھڑے ہونے کا بھی وقت بچ جتا ہے اور کبھی دفتر پہنچنےمیں تاخیر کا سامنا نہیں ہوا۔شکوہ ان کا محض یہ تھا کہ رش بہت ہوتا ہے۔
ایک اماں جی سے گفتگو ہوئی تو اس خوبصورتی سے لاہوری سٹائل میں تسلی کہ مجھے ہنسی آگئی۔۔"پتر اوئے! لاہور پہلےوی شریفاں دا سی،ایس سہولت نے ساڈے دل جِت لے نیں۔لہورنئیں اوں بند ہونا کدےکسی آستے۔"
فارماسوٹیکل کمپنی میں کام کرتی ماریہ کا کہنا تھا کہ "ٹیکسی کا کرایہ اور پبلک ٹرانسپورٹ کی خواری،میں دونوں بھول چکی ہوں۔میرے خیال میں پاکستان کے تمام بڑے شہروں میں میٹروبس کی سہولت ہونی چاہیے۔" میں مسکراتی آگے بڑھ گئی۔
ایک بچی ٹیوشن سینٹر جارہی تھی اور اس کا کہنا تھا "انڈر پاس میں کبھی کبھار روشنی کم ہوتی ہے،مگر میں اسے سب سے محفوظ سفر سمجھتی ہوں،مردوں کا سیکشن الگ ہے نیز بھکاریوں وغیرہ کا بھی کوئی سلسلہ نہیں ہے۔وقت کی بچت الگ ہے۔"
فیصل بینک سے ایک خاتون اقراء بھی اسی بس میں سوار تھیں ۔ ان کا کہنا تھا"اسلام آباد سے شفٹ ہوئی ہوں،4ماہ سے اپنی گاڑی ہونے کےباوجود میٹرو بس کی سہولت سے فائدہ اٹھا رہی ہوں۔" پوچھا کہ سیٹس کی کمی بارے کیا رائے ہے تو جواب تھا "نشست یا معزوراوربیماروں کیلیے ہوتی ہےیا بزرگوں کیلیے ضروری ہے۔اُس تعداد میں موجودہیں۔باقی لوگوں کا شکوہ کرنا بنتا نہیں ہے۔"
 

  


آخری اسٹیشن گجومتہ آیا تو ہم اتر کر کچھ تصاویرتارنے لگے اور واپسی کا ٹکٹ خریدا۔اب ہماری منزل یادگار چوک تھی۔بھوک لگ رہی تھی لہذا فوڈ سٹریٹ جانے کا ارادہ تھا۔

 
واپسی پھر کچھ لوگوں کے تاثرات جاننے کی کوشش کی۔یہاں ایک صاحب واسا ملازم تھےجوکہ 6 ماہ سے میٹرو بس استعمال کررہے تھےان کے ساتھ ایک بھائی صاحب لاہورڈویلمپنٹ اتھارٹی میں ملازم تھے جو کہ 4 ماہ سے اس میٹروبس سہولت سے فائدہ اٹھا رہےتھے۔دونوں کا کہنا تھا کہ وقت اور کرائےکی بچت کےعلاوہ دھکم پیل سے بھی چھٹکارہ ہوچکاہے۔ان کا مطالبہ تھاکہ بسوں کی تعداد بڑھائی جائے۔

 

کراچی سے 14 افراد کا کنبہ لاہور دیکھنے آیا تھا اور ان لوگوں کے چہروں کی خوشی دیدنی تھی۔رفیق صاحب کاکہناتھا" ہمارے ہاں کہتے ہیں جس نے لاہور نہیں دیکھا وہ "جمیا" ہی نہیں۔تو ہم اسے سچ کرنے آئےہیں۔" ان کی بیٹی جرمنی سے 6 سال بعد آئی تھی اور اسی کیساتھ لاہور سیر کوخاندان سمیت نکلے تھے۔سب کا کہنا تھا "کراچی کو اس سہولت کی سب سے زیادہ ضرورت ہے۔وہاں بھی میٹروبس منصوبہ آنا چاہیے۔" سر ہلاتے تائید کرنا مناسب جانا۔
دو بہنیں کسی جنازے پر جا رہی تھیں ان کے بقول "پہلے کسی خوشی غمی میں آنے جانے کو تمام دن خرچ ہوجاتاتھااور جیب پر بھی بہت گراں گزرتا تھا۔مگر اب 20 روپےمیں آدھےگھنٹےمیں پہنچ جاتےہیں ۔"سب مسافروں کا ایک ہی بات پر اتفاق تھا کہ پبلک ٹرانسپورٹ کی طرح یہاں عملےکی بدتمیزی نہیں ہے۔

بتاتی چلوں کہ شاہدرہ سے گجومتہ،ستائیس اسٹیشنز کا فاصلہ ایک گھنٹہ تین منٹ میں طے ہوتا ہے۔
آزادی چوک آیا اور گزر گیا۔مجھے دھیان نہیں رہا اوربچہ پارٹی وہاں اتر کر مجھے فون کررہی تھی "باجی کدھر رہ گئیں ؟" اور میں نیازی چوک اترکر نیا ٹکٹ لیے دوسری بس میں سوار ہوکر آزادی چوک اسٹیشن پہنچی۔یہاں فوڈ اسٹریٹ سے لنچ کیا اور کچھ دیر سستائے۔




ہمیں اب اچھرہ اسٹیشن کیلیے ٹکٹس خریدنےتھے،لہذا ٹوکن لیتے وقت اس کونے پر نظر پڑی جہاں کارڈکی سہولت والوں کیلے انتظام موجود تھا۔ادھر ایک نوجوان نے کافی مسئلہ بنا رکھا تھا۔جس کی تسلی پھر سیکیورٹی گارڈ نے خوب کی۔



تمام دن میں صرف ایک ایسی مسافر خاتون سے بات کرنے کا موقع ملا جو میٹرو سہولت سے سخت نالاں تھیں۔پوچھا تو منہ بسور کربولیں "میں جھنگ سےپہلی بار لاہور آئی ہوں،میاں کو کہا تھا ٹیکسی میں شہردکھاؤ،وہ میٹروبس میں لےکر نکل  پڑے۔" مسکراہٹ چھپانا پڑی۔
واپسی پر بس ڈرائیور سے کچھ گفتگو کی۔ یہ بھائی صاحب پہلےنیازی بس سروس میں ملازم تھے مگر میٹرو بس سروس لاہور میں درخواست دی،ٹیسٹ پاس کیا اور اب سکون سے نوکری کررہے تھے۔پہلےدس ماہ تنخواہ سے سیکیورٹی کےنام پردوہزارمنہاکیے جاتےہیں۔پھر پوری تنخواہ ملتی ہے۔شکوہ ان کا فقط یہ تھا کہ عوام کبھی کبھار رش کے باعث تعاون نہیں کرتے۔نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر انہوں نے بتایاکہ "حکومت بہت کوشش کرتی ہے مگر نچلی سطح پر توجہ کی ضرورت ہے۔کچھ لوگوں کو تنخواہ کے ایشوز ہیں ۔جن کی رپورٹ اوپر نہیں جاتی۔" سن کر تاسف بھری نگاہ سامنے سکرین پرمرکوز کردی۔

 



درخواست ہی کرسکتی ہوں کہ میاں شہبازشریف صاحب آپ خادمِ اعلیٰ ہیں تو اس جانب بھی توجہ دیجیے کہ نچلی سطح کی شکایات دور ہوسکیں۔نیزکچھ اسٹیشنز کا تعمیراتی کام ابھی تک ادھورا پڑا ہے۔عوامی سہولت کے پیشِ نظر اس میٹروبس منصوبےکوجلد مکمل کیاجائے۔
شام ڈھل رہی تھی اورجب ہم اچھرہ اسٹیشن پہنچ کر کار پارکنگ کی جانب بڑھے تودرتے ڈرتے گاڑی کی تلاش میں نگاہ دوڑائی۔ سکون ہواکہ بحفاظت موجود تھی۔واپسی پر "بھیاکےکباب" نے تمام دن کی تھکان بھلا دی۔
آج میرے شہرمیں راولپنڈی اسلام آباد میٹروبس کا شاندارافتتاح ہونے جا رہا ہے۔جس کا 95٪ کام مکمل ہوچکا ہےاور امید ہے کہ ان شہروں کے عوام بھی اس سہولت سے مستفید ہوں نیز اس کی حفاظت اسی طرح کریں گے جیسے اپنے گھر آنگن کی کیا کرتے ہیں۔
یہاں کچھ تصاویر میٹروبس لاہور کی بیسمنٹ میں دیواروں پر موجود ان شخصیات کی جو ہماری تاریخ کے سنہری باب ہیں۔۔۔۔۔

  


 


 

 



 
 
     

29 تبصرے:

  1. ایک دفعہ تو خود کو میٹرو میں بیٹھا ہوا محسوس کیا میں نے
    بہت اعلیٰ

    جواب دیںحذف کریں
  2. حقیقت کے عین مطابق لکھاآپ نے پڑھ کر دلی تسلی ھوئی کہ عوام کا پیسہ ضائع نہیں ھوا

    جواب دیںحذف کریں
    جوابات
    1. بالکل نہیں۔۔ عوامی سہولت کا خوبصورت نمونہ ہے :-)

      حذف کریں
  3. زبردست ميم، كيا لكهارى است!!! براوووووو

    جواب دیںحذف کریں
  4. میڑو گردی کا جل پورے پاکستان میں ہو گا
    دھرنا گردی دم توڑے گی
    شیدا گردی چھوارے بیچے گی..العارض..قصئہ گو

    جواب دیںحذف کریں
    جوابات
    1. کھی کھی۔۔۔۔۔۔۔ رب مہر کرے ملک و قوم پر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

      حذف کریں
  5. بہت خوب افشاں ہماری بھی میٹرو کی سیر ہوگئی جزاک اللہ

    جواب دیںحذف کریں
  6. آپ میں سفر نامہ لکھنے کی پوری صلاحیت موجود ہے
    آپ کی تحریر پڑھ کر خود پر غصہ آتا ہے کہ اس سال کے ابتدا میں جب پاکستان گیا تھا تو میٹرو پر سفر کیوں نہ کرسکا. لوگوں کی سیٹوں والی شکایت غیر ضروری ہے کہیں بھی میٹرو سیٹوں کی تعداد اتنی ہی ہو گی میں یہاں دبئی میں مقیم ہوں اور میٹرو بکثرت استعمال کرتا ہوں لاہور اور کراچی میں میٹرو کی اشد ضرورت ہے. خادم اعلی سے گزارش ہے کہ ملازمین کو سہولیات فراہم کریں ان کی لگن کے بغیر کوئی منصوبہ کامیاب نہیں ہو سکتا.

    جواب دیںحذف کریں
    جوابات
    1. پذیرائی کا شکریہ محترم۔۔۔۔
      اس بار پاکستان آیے تو پنڈی،لاہور،ملتان اور ان شاءاللہ کراچی بھی میٹرو زدہ ہوں گے :-)

      حذف کریں
  7. My sister ap na boht khoob blog liha ha or haqeeqat ka mutabiq likha ha. Ya such ma awam ka liye boht faidamand sahoolat ha. Ma daily boht sa logo ko iss service sa safar kerty dekhta hu or sochta hu ka kash ya hamry canal road per b hoti. But logo sa appeal ha ka safai ka khayal rakhy ya hamary liye ha yaha cheezo ko kharab na kary sticker or advertisement laga kr iss ki khoobsurti ko kharab na kary. Or sister wo baat bilkul theak ha ka contractor apny bando ko kam sahoolat dety ha jbka govt sa pori hisa lety ha. Metro bus authority ager iss pr b kaam kary to boht c cheezy or b achi ho jaye gi.

    جواب دیںحذف کریں
    جوابات
    1. بہت شکریہ جناب۔۔۔۔ سلامت رہیے۔۔۔
      عوام سیکھ جائی گے۔۔کچھ وقت لگے گا ابھی۔

      حذف کریں
  8. دو سال پہلے میں نے لاہور مے آپ ہی کی طرح میٹرو کا تجربہ کیا تھا اور حضور ڈیٹا گنج بخش کے مزار کے سامنے سے اپنی چائنیز دوستوں کے ہمراہ اندرسے، قتلمہ اور لسی پی کر قذافی سٹیڈیم تک کا سفر کیا.
    میرے بھی خیالات بلکل آپ جیسے ہی ہیں.

    انتہائی شاندار اور کفایت شعارپروجیکٹ جو پاکستان کے عوام کی بنیادی ضروریات میں سے ایک ہے

    جواب دیںحذف کریں
  9. تمام بچپن چھلانگیں لگا کر "لال پری " پر سوار ہوتے گزرا - پبلک ٹرانسپورٹ اسی کی دہائی سے لاہور میں ناکافی تھی - پھر پیلی ڈائوو بسیں آئیں تو لگا یورپ میں آ گئے لیکن پھر ان کا بھی خانہ خراب ہو گیا - خوشی ہوئی یہ دیکھ کر اور پڑھ کے کہ میرے شہر میں اتنی بڑی سہولت موجود ہے اور وہ بھی صرف بیس روپے میں - لاہور کی سیر کروانے کا شکریہ
    اور یہ کہ سیاسی چوٹ یھاں بھی کر دی کہ ڈرائیور پہلے نیازی بس سروس میں کام کرتا تھا :)
    خوش رہیے

    جواب دیںحذف کریں
    جوابات
    1. آپ اتنے پرانے ہیں؟؟؟ :-) لال پری کا تذکرہ بہت سنا ہے "
      سہولت واقعی عمدہ ہے۔۔۔۔
      سیاسی چوٹ نہیں تھی۔۔۔ جہاں تھی وہ آپ ہضم کرگئے ۔۔۔۔
      سلامت رہیے۔۔۔۔
      آپ کا کمنٹ نہایت قیمتی ہے۔۔۔جزاک اللہ الخیر

      حذف کریں
  10. ماشااللہ۔
    بہت اچھا لکھا ہے

    جواب دیںحذف کریں
  11. very nice pindi mero ka safar nama kb a raha he

    جواب دیںحذف کریں
    جوابات
    1. شکریہ محترم۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ پنڈی میٹرو کا جب بخار دھیما ہوجائے گا تو ضرور بلاگ آئے گا۔

      حذف کریں