مولوی عبدالشکور کی عظیم ھجرت کےبعدان کےپڑوسی اور چھوٹےبھائی کےدھرنے میں موجود لوگوں کی انفرادی و اجتماعی رائےپچھلےبلاگ میں بیان کرنے کی کوشش کی تھی۔اسی سلسلےمیں مزیدکچھ احتجاجیوں سےملاقات کرواتی ھوں۔
یہاں میں قرض اتارناچاھتی ھوں اس چھوٹے بھائی کاجوB.Sc کاطالب علم ھےاورپارٹ ٹائم جاب بھی کررھاھے۔شناخت ظاہر نہ کرنےکی شرط پربتایاکہ کسی استعفیٰ کی خواہش میں نہیں آیا۔صرف تین مطالبات ھیں جن کاحل چاھتاھے 1:بجلی 2:مہنگائی 3:بےروزگاری
اور یہ کہ 4-3 روز سے آیاھے۔نرمی سے سمجھایاکہ اپنا مستقبل دہرنوں میں تلاش نہ کرے اورواپس جاکرتعلیم میں دل لگائے۔یہ واحدبچہ دیکھاجس کےمنہ میں پان یاگٹکہ نہ تھا۔آنکھیں پیلی ھورھی تھیں۔پوچھنےپرشک درست نکلا کہ ہیپاٹائیٹس ھے۔
کل ایک سکھ بھائی کاذکرکیا تھا۔سوات سےآئے بلدیوکمارہمارے سینیٹرامرجیت ملہوتراکےکزن ھیں۔پہلےتو انہوں نےسیدھی بات کی کہ بخوبی اندازہ ھے استعفیٰ کا معاملہ کسی طور حل نہ ھوگا، مگران کی رائے ھےکہ حکومت پر پریشربنائےرکھناھے۔انہیں ڈاکٹرسورن سنگھ سےبھی کوئی شکایت نہیں۔اورچاھتے ھیں کہ ملک بہتری کی جانب گامزن ھو،چاھےکوئی بھی قیادت آئے۔اور یہ مانتے ھیں کہ تمام توانائیاں اس دھرنےکی نظرکردینےسے ان کا صوبہ کہیں "بیک گراؤنڈ"میں چلاگیاھے۔جوکہ اب صرف جلسےکی رونق بنائےرکھنےکیلیےافراد کی تعداد پوری کرنےکی مشین بن چکاھے۔شیخ رشیدکےبارے ان کی رائے بھی باقی شرکاءسےمختلف نہیں۔ہاں مگرایم-کیو-ایم کیلیےفرماتےھیں کہ خان اب مجبورھوگیاھے،یہ کہتے ایک مثال یہ دی "دیکھوباجی۔۔۔ام کوایک چوہاچاھیےجواس بند دروازےکوکترےاوراپنےساتھ ساتھ ہمارے واسطےبھی راستہ نکال لے۔" دریافت کیاکہ کیااب "ٹائیگرز" کو چوھوں کی مددلینی ھوگی توکھلکھلاکرھنس دیےاوراپنی بہن کہتےیکدم سر پرہاتھ رکھ دیا۔رابطہ نمبرجھٹ لکھ کردیا۔کبھی رابطہ ضرورکروں گی کہ پوچھوں اپنی جس لاڈلی بیٹی کوتھیلیسیمیا سےلڑنےکوچھوڑ آئے ھیں وہ ان کو یاد کرتی ھے کیا۔
میں نے جب کچھ باتیں سکھ مذہب بارے کیں تواتنا خوش ھوئےکہ حیران رہ گئی۔مگراس دوران وہی رضاکار تنویراحمد پھر گفتگومیں کودےاورمجھےتبلیغ کرنےلگےکہ "آپ کوشرم آنی چاھیےسکھوں کےبارےمیں اتناجانتی ھیں،کبھی قرآن بھی کھول لیاکریں۔ترجمہ پڑھاھےکبھی؟"
بلدیوکمارتھوڑا پریشان ھوگئے۔میں نے نرمی سے جواب دیا "بھائی الحمدللہ سمجھ کرپڑھتی بھی ھوں"
کہنےلگے"کبھی عمل بھی کرنےکی کوشش کیجیے۔" اللہ کی رسی مظبوطی سےتھامنےکی تلقین شروع کردی۔ میں اب ان محترم کا مسئلہ سمجھ چکی تھی۔ اس لیے بلدیوکمارسےاجازت چاھی اوران کو کہاکہ ایک تصویرھوجائےتوفٹ پوزبنائےکھڑےھوگئے۔ڈھنگ کی بات کرنےکوایک نہیں تھی۔آئیں بائیں شائیں۔ نہ تو کچھ سیاست بارے علم اور نہ ھی ماضی وحال سےواقفیت۔ تعلق لاہور سے ھےاورکام کاج کچھ نہیں کرتےالٹا فخرسے گردن تانے فرماتےھیں کہ 3 بھائی ھیں وہ گھرچلاتےھیں میں نے اپناآپ پارٹی کی خدمت کیلیے وقف کردیاھے۔معلومات میں اضافہ کیا کہ لاہورسے12-10 بسیں بھرکرلائی گئی تھیں مگر جب میں نے دیگر باتوں کے دوران جائزہ لیا تو خود ھی سچ اگل دیاکہ 5-4 لڑکےھی رھ گئےھیں باقی لوٹ چکے۔کج بحثی میں ثانی نہیں رکھتے۔ماماقدیرکی بات پرپتنگےھی لگ گئےکہ ان کے پنجابی لیڈرکوگالی نہ دوں۔دریافت صرف یہ کیاتھا کہ"میراکوئی بلوچ بھائی آپ کی طرح اپنا حق مانگ سکتاھے؟" جواب تھا "آپ جیسے بلوچ ھیں جوناقدری کررھےھیں۔ورنہ خان صاحب جیسالیڈر توصدیوں میں پیداھوتاھے۔"
انہوں نے مجھےوہ تاریخی جملہ بھی سنایا "عمران خان تو جناح کی بہتراور ماڈرن صورت ھیں۔" اس کےبعدمزید کچھ سننےکہ ہمت نہ رھی۔صرف اتنا کہہ کر اجازت چاھی کہ "بلوچ"اور "جناح" کواستعمال کرنےسےپرہیزکیجیے۔
اگرچہ ٹانسلزکےمسائل کی وجہ سے "تلسی"نامی سونف سپاری نہیں کھاسکتی مگراسی کےبہانےایک "دکان"کی جانب بڑھی۔یہاں اوکاڑہ سے آئے ایک لڑکےنےبتایاکہ پہلے چھوٹابھائی آیاتھامگریہاں کی چکاچوندرونق نےاتنا متاثرکیاکہ بڑےبھائی کوبھی بلوالیاتاکہ مل کر پان،سگریٹ اورنسواروغیرہ کا "کھوکھا" لگاکربچت ھی کریں گے۔اس لڑکے نے سیدھی بات بتائی کہ زیادہ ترشرکاءاسی "فلسفہءحیات" پردھرنابسر کررھےھیں کہ کھانا،رہائش مفت ھے۔شام کو رونق میلہ ھوجاتاھےاور گھروالےبھی راضی ھیں ان نکھٹوؤں سےجان چھوٹی ھوئی ھے۔
تنویر صاحب پھرپہنچ گئےاورمسلسل یہی پوچھتےرھےکہ "آپ "جیو" سے ھیں؟" میں نےسختی سے انکار کیا تواسی محسن کمال خان کوآنکھ سے اشارہ کرکےغائب ھوگیا۔وھی صاحب جو "گوقادری گو"کے نعرے لگارھےتھے۔
ایک صاحب آگے بڑھےاورمدعابیان کیاکہ کس طرح قادری نے ان کی امیدوں کو توڑا۔فیصل آباد سےتعلق رکھنے والے علی نے بتایاکہ 2000ءسے "عوامی تحریک" سے وابستہ تھےاور "قبلہ" سے اتنی الفت تھی کہ ان کیلیے ہاتھوں سےراستہ صاف کرتےتھے۔اور 2007ء-2005ء کےدوران فیصل آباد میں صدقات وخیرات کی رقوم کے معاملات بھی دیکھتےرھے۔مگر21اکتوبرکی رات جس لمحےواپسی کا حکم صادر ھواتودل ٹوٹ گیا۔اور ان کو ایسا محسوس ھوا کہ "جیسے "قبلہ" نے ماڈل ٹاؤن کی 14 لاشوں کواپنےسیاسی کیرئرپر قربان کردیا۔"انہوں نے مزید بتایاکہ "آپ کا میڈیا "فلاں" ھےجوکسی ایک نے بھی وہ منظرنہ دکھائےجب ہماری خواتین چپل اٹھاکرقادری کودکھارھی تھیں اور کچھ ان چپلوں سے زمین پیٹ رھی تھیں۔" میں نے کہا ہمیں تو بس "نم آنکھیں" ھی دکھائی دیں تو موصوف کے الفاظ تھے "بہنا،ان کے معاملات کچھ اور تھے۔"بہرحال جناب ان صاحب کو اب خان صاحب کی شکل میں مسیحامل گیاھےجوآزادی کےساتھ ساتھ انقلاب کے اڑن کھٹولےپر بھی سواری کروائے گا۔
گجرات سے تعلق رکھنےوالےمحمد معظم کوآئےابھی 5 روز ھی ھوئے۔علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی سے "ماس کمیونیکیشنز"میں ایم-اے کرنےکی کوشش کررھےھیں۔ان صاحب کا کہناتھا کہ قادری صاحب نےان کے آنےکی بھی لاج نہ رکھی اوربنااپنی عوام سے مشورہ کیے چلتےبنے۔مزید یہ کہ "محرم الحرام کابہانہ کیوں بنایا جبکہ یہ تو حق و باطل کی جنگ کا مہینہ ھے۔اور ہم بھی حق پرھیں۔"قبلہ" نے فرمایاتھا حکومت باطل ھے،تو جنگ مؤخرکیوں کردی۔"بس اسی شش و پنج میں علی کے ہمراہ اپنے "روحانی چچا" سے رجوع کیاھےکہ وہی کوئی تدبیرکریں گے۔
حلقہ این-اے 49 سے سابقہ آزاد امیدوار "راجہ اورنگ زیب خان" صاحب بھی اسی دھرنےمیں موجود ھوتےھیں۔اسلام آباد کےرہائشی پریس کلب کےسامنےان کے احتجاج کے منفرد انداز سے پہچانتےھیں۔کافی معقول باتیں کررھے تھے۔ان کی جھونپڑی پر قبضہ کرلیاگیاتھا۔مگر میرے اردگرد اچانک شوروغُل بڑھ چکاتھا۔خطرےکی بو محسوس ھوئی توچیزیں سمیٹنےلگی،اس دوران صرف اتنی بات کان پڑی کہ راجہ اورنگ زیب کی زندگی میں کمائی صرف 3 چیزیں ھیں 1:میگافون 2:چادر 3:سفیدجھنڈا
ان سےابھی بات چیت جاری تھی کہ دوصاحبان "سفاری سوٹ" میں ملبوس مجمع کوچیرتے آگےبڑھے۔ان کے ہمراہ وہی نکھٹورضاکار اور محسن کمال تھے۔آتے ھی دو لڑکوں کو تھپڑ رسید کیےاورمجھےکہا پریس کارڈ دکھائیں۔میں نے کہاکہ میں نے تواپنا تعارف قطعاً صحافی کے طور پرنہیں کروایا۔صاحب نے میراموبائل چھینااور آئی ڈی کارڈمانگا۔مگر جب میں سکون سے کرسی پر بیٹھی رھی توکہنےلگےکس ایجنسی سے ھیں۔اُف۔۔۔۔۔۔ لیول چیک کیجیے۔اوراسی اثناءمیں بہت سے لوگ کہنےلگے"آزادئ رائےپرخان صاحب بھی تو بولتے ھیں،آپ مت تنگ کیجیے" اس بات کا غصہ یہ نکالا کہ اورنگ زیب صاحب کودھکادےکر کرسی سے اٹھایااور ایک لڑکے کوگریبان سے پکڑکردھکیلاکہ کوئی شخص ایک لفظ نہیں بولےگااس خاتون کےسامنے۔
خان صاحب برامت مانیےگامگر آپ کا پرسنل سکواڈ بھی لگڑبگڑ ھی ھے۔افسوس دماغ ان کےپاس بھی موجود نہیں۔یہ تصویرکچھ روزپہلےہی کھینچی تھی تب علم نہیں تھاکہ اس "بہادرنوجوان" کےہاتھوں سےموبائل چھینناپڑےگا۔اب آپ مجھےبھی اپنے "دوپٹے"سے پھانسی دیجیےکہ ان صاحب کی تصویرلگادی۔
میں نےاپنا شناختی کارڈ نکال کردکھاناچاھاتو جھپٹ کراپنی مٹھی میں بند کرلیا۔اور فون ملا کر کسی نیازی کو آنےکاکہا۔دوسرافون کنٹرول روم کیا۔اس دوران کہتی رھی کہ میرا کارڈ لوٹایے۔جواب دوسرا "کاکاشپاہی"دیتارھاکہ "سب ڈیلیٹ ھوگا۔جراءت کیسے ھوئی بنااجازت اندر گھسنےکی۔"غصہ شدت اختیارکرگیااور میں اپناشناختی کارڈ انکےھاتھ سے چھین کرتیز قدموں کنٹینرکےساتھ کھڑی گاڑی کی جانب بڑھ گئی۔یہ صاحب نہ جانےکہاں کہاں فون ملارھےتھے۔اورہمارا ریٹنگ کابھوکامیڈیا تماش بین بنےاپنےاپنےکیمرےسیٹ کرنےمیں مصروف ھوگیا۔منتظرتھےکہ بریکنگ نیوز مل گئی بس۔
میں نے جونہی گاڑی سٹارٹ کرکے ریورس کی،عمرانی "گوریلافورس" کانمائندہ گالیاں نکالتاآگےبڑھااور فرنٹ ڈورکھول کر چابیاں نکال لیں۔اورکہنےلگا "خان ھی فیصلہ کرےگااب تمہاراکیاکرنا ھے۔نہیں توجوفوٹو اور وڈیوبنائی ھیں سب ڈیلیٹ کروہمارے سامنے۔" میری برداشت اب ختم ھوچکی تھی تھپڑ رسید کیااورچابیوں کاگچھہ ھاتھ سےنکال کرکہا کہ "اب یہ حرکت مت کرنا،آپ دھرنےوالےاپناتماشہ خود بنوالوگے۔" ان صاحب کی پچھلےہفتےکی تصویربھی میرےفولڈرمیں محفوظ ھے
اور قربان جاؤں میں اپنےآزاد میڈیاپرکہ وہ مجمع کوچیرتےکیمرے لہراتےآگےبڑھ رھےتھے۔ابھی گاڑی دوبارہ سٹارٹ کی تودوسرا "کاکاسپاہی" اپنےسےپہلےکی پیروی میں دروازہ کھول چکاتھا۔میں نے غصہ سے گھوراتوان کے سرغنہ کی آوازآئی۔"جانےدو،سبق کافی ھے۔"اور میں نے جب گاڑی موڑی تووہ صاحب واکی ٹاکی ٹائپ کسی بلاپرمیری گاڑی کا نمبرنوٹ کروا رھےتھے۔نتیجہ یہ نکلا کہ ایک ٹیوٹا آبپارہ تک دم ہلاتی پیچھا کرتی رھی۔مگروہاں رش کافی تھا سو۔۔۔۔۔۔اپنا راستہ ناپتےناکامی ھی ھوئی۔
یہاں آپ کو ہماری غیور،بہادر اور سمجھدار عوام بھی دکھاتی چلوں۔یہ سب لوگ میری گاڑی کو یوں حصار میں لیے کھڑے تھےجیسے امام بری سرکار کےباہر لنگرکیلیےکھڑےھوں۔اور مجھے یہ بھی یقین ھوا کہ ہم ایک تماش بین قوم ھیں۔مگرتب تک ہی کہ جب تک معاملہ اپنی بیٹی یابہن کا نہ ھو۔
خیر۔۔۔۔۔۔ میں تواللہ پاک کےفضل سےبخیریت گھرپہنچی۔اورآج اس سلسلےکادوسرابلاگ بھی مکمل کرلیا۔آپ کیلیے دعاھی ھےکہ دوا کا اثراس بیماری میں نہیں ھوتاجس میں آپ مبتلاھیں۔اللہ آپ کو "ایاک نعبدو وایاک نستعین" سے آگےبھی سکھائے۔یقین مانیے آپ کا اصلی ووٹراور سپورٹرآج بھی یہی کہتاھےکہ آپ اپنی توانائیاں خیبرپختونخواہ پرلگایےتاکہ مجھ جیسےبھی آپ کی تعریف لکھنےپرمجبور ھوجائیں۔اور یہ میراوعدہ ھےجس دن میراخیبرپختونخواہ ایک رول ماڈل نظرآیا،بناکسی بخل کےسب لکھوں گی۔مگرآپ موقع تو دیجیے۔اوراپنےچاھنےوالوں کونفرت کی فصل کی بجائے کچھ تعمیری سوچ دیجیے۔
ان کے بعد جن زخمیءانقلاب سے بات چیت ھوئی وہ بھی گجرات سے "قبلہ" کی پکارپرلبیک کہتےآئے۔وہاں کسی پرائیویٹ ہسپتال میں رسیپشنسٹ کی نوکری کرتے ھیں۔پہلے15 دن کی چھٹی لےکرآئےتھےمگر اب 70روزھوگئے۔ خالی ہاتھ واپس جانےپرگھروالوں کا سامناکرنےکی ہمت نہیں ہے۔دل تو چاھتا ھےکہ ان کی گفتگو کی وڈیوھی پوسٹ کردوں۔مگر۔۔۔۔۔خیرسوباتوں کی ایک بات یہ کہی "جب شروع میں ہم سے مطالبات ماننےپرمذاکرات ھورھےتھےتو "قادری صاحب" کوضدنہیں دکھانی چاھیےتھی۔کم ازکم کچھ توحاصل ھوتاجوہم دوسروں کوبتانےکےقابل ھوتے۔ہمیں 100 پیازبھی کھاناپڑا اور ڈنڈےبھی برسے۔" یہ بھائی صاحب جب بول رھےتھےتو وھی محسن کمال خان بلندآوازمیں "گوگوپان مصالحہ" بیچتےجیونیوزکی شان میں قصیدےپڑھ رھاتھا۔میں نے دوبار دھیمےلہجےمیں بولنےکوکہاتو جواب دیاگیا "ام کوتوپہلےای شک تھا۔تم ان کی ھی چمچی ھو۔"سوچ کالیول اور جیوکابخار۔خان صاحب کی تربیت کا معیار بس یہی ھے۔خیر محمد معظم نے مزید بتایاکہ اس گندگی کے ڈھیرمیں رہنابہت مشکل تھا۔"چِلّہ بھی 40 روز کاھوتاھےمگرقادری صاحب نے تودُگنےدن لگوادیےاور شہبازشریف تک کااستعفیٰ نہ لےسکے۔"
قصہ مختصروہاں موجود ایک اور سابق انقلابی اور حالیہ آزادنے کہاکہ "قبلہ" نے "جانوں کو تکلیف میں مبتلا رکھا اور کٹھ پتلی کی طرح نچاکرہمیں ڈرامہ کرنےپرمجبور کردیا۔"
ایک اور صاحب نے شناخت ظاہر نہ کرنےپرکہاکیاکہ آپریشن ضربِ عضب سےحکومت ومیڈیاکادھیان ھٹانےکیلیےیہ ایک بہترین ڈرامہ تھا جو قادری نے پیش کیا۔ان صاحب کویہ تو احساس ھےکہ معیشت تباہ ھورھی ھےمگر یہ بھی کہتے نظر آئےکہ ان دھرنوں سے حکومت کےہاتھ پارلیمنٹ نے مظبوط کردیےھیں۔میں نے کہا کہ "جب آپ کویہ سب احساس ھےتو کیوں موجود ھیں؟" فرمانے لگے "باجی باہرخرچہ بہت ھےاورسیدھی بات ھے یہاں رہائش اور کھانےکابندوبست ھے۔میں کچھ مزدوری کرکےبچت کررھاھوں"
حیرت ھے کہ ہمارا میڈیا ان مجبوریوں میں پسے لوگوں کوانقلاب کےسپاہی گردانتاھے۔اورنیاپاکستان کے متلاشی اسے آزادی کانام دیے ساراوقت سوشل میڈیا پرمغلطات سے نوازتے رھتے ھیں۔ان کی ذہنی سطح کومدّنظررکھتے اب توہمدردی ھونےلگی ھے ۔جس قوم کا لیڈرسوائے نفرت اور تعصب کےکچھ سکھانےسے قاصرھواس کا "تابناک" مستقبل کون چھین سکتاھے۔حلقہ این-اے 49 سے سابقہ آزاد امیدوار "راجہ اورنگ زیب خان" صاحب بھی اسی دھرنےمیں موجود ھوتےھیں۔اسلام آباد کےرہائشی پریس کلب کےسامنےان کے احتجاج کے منفرد انداز سے پہچانتےھیں۔کافی معقول باتیں کررھے تھے۔ان کی جھونپڑی پر قبضہ کرلیاگیاتھا۔مگر میرے اردگرد اچانک شوروغُل بڑھ چکاتھا۔خطرےکی بو محسوس ھوئی توچیزیں سمیٹنےلگی،اس دوران صرف اتنی بات کان پڑی کہ راجہ اورنگ زیب کی زندگی میں کمائی صرف 3 چیزیں ھیں 1:میگافون 2:چادر 3:سفیدجھنڈا
ان سےابھی بات چیت جاری تھی کہ دوصاحبان "سفاری سوٹ" میں ملبوس مجمع کوچیرتے آگےبڑھے۔ان کے ہمراہ وہی نکھٹورضاکار اور محسن کمال تھے۔آتے ھی دو لڑکوں کو تھپڑ رسید کیےاورمجھےکہا پریس کارڈ دکھائیں۔میں نے کہاکہ میں نے تواپنا تعارف قطعاً صحافی کے طور پرنہیں کروایا۔صاحب نے میراموبائل چھینااور آئی ڈی کارڈمانگا۔مگر جب میں سکون سے کرسی پر بیٹھی رھی توکہنےلگےکس ایجنسی سے ھیں۔اُف۔۔۔۔۔۔ لیول چیک کیجیے۔اوراسی اثناءمیں بہت سے لوگ کہنےلگے"آزادئ رائےپرخان صاحب بھی تو بولتے ھیں،آپ مت تنگ کیجیے" اس بات کا غصہ یہ نکالا کہ اورنگ زیب صاحب کودھکادےکر کرسی سے اٹھایااور ایک لڑکے کوگریبان سے پکڑکردھکیلاکہ کوئی شخص ایک لفظ نہیں بولےگااس خاتون کےسامنے۔
خان صاحب برامت مانیےگامگر آپ کا پرسنل سکواڈ بھی لگڑبگڑ ھی ھے۔افسوس دماغ ان کےپاس بھی موجود نہیں۔یہ تصویرکچھ روزپہلےہی کھینچی تھی تب علم نہیں تھاکہ اس "بہادرنوجوان" کےہاتھوں سےموبائل چھینناپڑےگا۔اب آپ مجھےبھی اپنے "دوپٹے"سے پھانسی دیجیےکہ ان صاحب کی تصویرلگادی۔
میں نےاپنا شناختی کارڈ نکال کردکھاناچاھاتو جھپٹ کراپنی مٹھی میں بند کرلیا۔اور فون ملا کر کسی نیازی کو آنےکاکہا۔دوسرافون کنٹرول روم کیا۔اس دوران کہتی رھی کہ میرا کارڈ لوٹایے۔جواب دوسرا "کاکاشپاہی"دیتارھاکہ "سب ڈیلیٹ ھوگا۔جراءت کیسے ھوئی بنااجازت اندر گھسنےکی۔"غصہ شدت اختیارکرگیااور میں اپناشناختی کارڈ انکےھاتھ سے چھین کرتیز قدموں کنٹینرکےساتھ کھڑی گاڑی کی جانب بڑھ گئی۔یہ صاحب نہ جانےکہاں کہاں فون ملارھےتھے۔اورہمارا ریٹنگ کابھوکامیڈیا تماش بین بنےاپنےاپنےکیمرےسیٹ کرنےمیں مصروف ھوگیا۔منتظرتھےکہ بریکنگ نیوز مل گئی بس۔
میں نے جونہی گاڑی سٹارٹ کرکے ریورس کی،عمرانی "گوریلافورس" کانمائندہ گالیاں نکالتاآگےبڑھااور فرنٹ ڈورکھول کر چابیاں نکال لیں۔اورکہنےلگا "خان ھی فیصلہ کرےگااب تمہاراکیاکرنا ھے۔نہیں توجوفوٹو اور وڈیوبنائی ھیں سب ڈیلیٹ کروہمارے سامنے۔" میری برداشت اب ختم ھوچکی تھی تھپڑ رسید کیااورچابیوں کاگچھہ ھاتھ سےنکال کرکہا کہ "اب یہ حرکت مت کرنا،آپ دھرنےوالےاپناتماشہ خود بنوالوگے۔" ان صاحب کی پچھلےہفتےکی تصویربھی میرےفولڈرمیں محفوظ ھے
اور قربان جاؤں میں اپنےآزاد میڈیاپرکہ وہ مجمع کوچیرتےکیمرے لہراتےآگےبڑھ رھےتھے۔ابھی گاڑی دوبارہ سٹارٹ کی تودوسرا "کاکاسپاہی" اپنےسےپہلےکی پیروی میں دروازہ کھول چکاتھا۔میں نے غصہ سے گھوراتوان کے سرغنہ کی آوازآئی۔"جانےدو،سبق کافی ھے۔"اور میں نے جب گاڑی موڑی تووہ صاحب واکی ٹاکی ٹائپ کسی بلاپرمیری گاڑی کا نمبرنوٹ کروا رھےتھے۔نتیجہ یہ نکلا کہ ایک ٹیوٹا آبپارہ تک دم ہلاتی پیچھا کرتی رھی۔مگروہاں رش کافی تھا سو۔۔۔۔۔۔اپنا راستہ ناپتےناکامی ھی ھوئی۔
یہاں آپ کو ہماری غیور،بہادر اور سمجھدار عوام بھی دکھاتی چلوں۔یہ سب لوگ میری گاڑی کو یوں حصار میں لیے کھڑے تھےجیسے امام بری سرکار کےباہر لنگرکیلیےکھڑےھوں۔اور مجھے یہ بھی یقین ھوا کہ ہم ایک تماش بین قوم ھیں۔مگرتب تک ہی کہ جب تک معاملہ اپنی بیٹی یابہن کا نہ ھو۔
خیر۔۔۔۔۔۔ میں تواللہ پاک کےفضل سےبخیریت گھرپہنچی۔اورآج اس سلسلےکادوسرابلاگ بھی مکمل کرلیا۔آپ کیلیے دعاھی ھےکہ دوا کا اثراس بیماری میں نہیں ھوتاجس میں آپ مبتلاھیں۔اللہ آپ کو "ایاک نعبدو وایاک نستعین" سے آگےبھی سکھائے۔یقین مانیے آپ کا اصلی ووٹراور سپورٹرآج بھی یہی کہتاھےکہ آپ اپنی توانائیاں خیبرپختونخواہ پرلگایےتاکہ مجھ جیسےبھی آپ کی تعریف لکھنےپرمجبور ھوجائیں۔اور یہ میراوعدہ ھےجس دن میراخیبرپختونخواہ ایک رول ماڈل نظرآیا،بناکسی بخل کےسب لکھوں گی۔مگرآپ موقع تو دیجیے۔اوراپنےچاھنےوالوں کونفرت کی فصل کی بجائے کچھ تعمیری سوچ دیجیے۔