پاکستان
فلم انڈسٹری جب اپنا عروج دیکھ رہی تھی سنا ہے ان دنوں کچھ شہروں میں فلم بین
سینما گھر سے باہر نکلتے عموماً ایک جملہ کہتے ہیں " کہانی خاص نہیں تھی لیکن
سٹوری اچھی تھی۔" ۔۔۔ اس کا مطلب صرف کہنے اور سننے والے ہی سمجھتے تھے ۔
مجھے اس کی سمجھ "میں پنجاب نہیں
جاؤں گی" دیکھتے ہوئے آگئی۔
گزشتہ دنوں ایک دوست کے اصرار پر فلم دیکھنے کا اتفاق ہوا۔ اور چند ہی منٹ بعد یہ سوچنے پر مجبور ہوچکی تھی کہ پاکستانی فلم کو اپنا کھویا ہوا مقام دِلوانے میں اس قسم کی فلمیں کہاں مارک کی جاسکیں گی جس کی سٹوری میں بارہ مصالحے تو چوکھے ہیں لیکن پیشکش اور عکاسی ؟ آگے بڑھنے سے قبل یہ بتانا ضروری ہے کہ مجھے اچھی طرح ادراک ہے اس وقت سلور سکرین اپنے وجود کی جنگ لڑ رہی ہے اور ہر بڑا پروڈکشن ہاؤس اپنا حصہ ڈال رہا ہے۔ ان سب کاوشوں کی دل سے قدر بھی ہے اور سراہا جانا سب کا حق بھی۔
مختصر کہانی یہ ہے کہ فواد کھگا (ھیرو) سیاسیات میں ماسٹرز کرکے گھر لوٹ کر آتا ہے جہاں بھرپور جشن منایا جارہا ہے (جو کہ صرف فلموں میں ہی بطور پنجاب کی ثقافت دکھایا جاسکتا ہے،حقیقت میں ایسا ہوتے دیکھا نہیں)۔ فواد کی کزن دردانہ اس سے محبت میں تقریباً شوہدی دکھائی گئی ہیں جبکہ امل (ھیروئن) لندن سے تعلیم مکمل کر کے کراچی واپس آئی ہیں۔ فواد اور امل کے گھرانوں میں سو سالہ پرانی دوستی ہے اور اس میں ان گھرانوں کی زبان حائل نہیں ہوئی (ایسا فلم بین کو بارہا باور کروانے کی کوشش کی گئی ہے)۔فواد کو کسی ھیر کی تلاش ہے۔ جو کہ امل کی تصویر دیکھنے پر مکمل ہوجاتی ہے۔ فلم میں ایک مقام پر ھیرو صاحب اپنے رقیب (اظفر رحمان) کو چیلنج کرتے ہیں کہ وہ ستر مربعے،بارہ سو بھینسیں اور اپنی حویلی امل کے نام کرکے پیار کے سچے ہونے کا ثبوت دے سکتےہیں جس پر ھیروئن کو احساس ہوتا ہے کہ وہ جس کلاس فیلو سے شادی کرنا چاہتی تھی وہ تو اپنا ایک فلیٹ اس کے نام نہیں کرسکتا۔ (کمال منطق ہے بھئی۔۔ شاید اسی کو سوشل سیکیورٹی کہتے ہیں شادی میں؟)
فلم آگے بڑھتی ہے اور کھگا گھرانے کی بہو ان کے تبیلے کو ڈیری فارم میں تبدیل کرنے کے مشن پر لگ جاتی ہے۔یہاں بہرحال ایک پدر شاہی نظام کو چیلنج کرتی لڑکی دکھانے کی کوشش کی گئی ہے۔ جس پر دادا سسر (سہیل احمد) اعتماد اور بھروپور مالی تعاون کرتا ہے جبکہ بدلے میں اس کے شوہر کا کردار ویسی ہی حرکات کرتے دکھایا گیا ہے جیسا کہ عموماً معاشرے میں ایسے چیلنجز کا سامنا کرتی خواتین کے شوہر کرتے ہیں۔ یہاں ایک ڈائیلاگ "پلیز ھیلپ می دردانہ۔۔" کو جس طرح باربار فِٹ کرکے بےوفائی کرتے فواد کو شرمندہ کرنے کی کوشش کی جاتی ہے وہ دیکھنے والوں کو مسکرانے پر مجبور کردیتا ہے۔ احمد بٹ نے ہمیشہ کی طرح ھیرو کے دوست نما اسسٹنٹ کا کردار اپنے مخصوص کامیڈی انداز میں نبھایا ہے۔ جو بعض جگہوں پر ماحول کا تناؤ کم کرنے میں اہم رہا۔ دردانہ( عروا حسین) کو ایک لائلپوری لڑکی دکھانے کی ناکام کوشش کی گئی ہے لیکن یہ کردار بھی خلاء کے ساتھ پیش کیا گیا جس پر بہت کام ہوسکتا تھا۔
فلم کی موسیقی اچھی ہے ۔ایک گانے "مجھے رانجھا بنا دو ھیر جی" میں تو ہمایوں سعید نے فلم مجاجن کی یاد میں کلائی میں گھنگھرو بھی باندھ لیے۔ ۔ لیکن کیا صرف گانوں پر فلمیں چلائی جا سکتی ہیں؟ جبکہ صورتحال یہ بنے کہ گانے نکال لیں تو ایک ٹیلی فلم یا عید پلے سے زیادہ کچھ معلوم نہ ہو (ظاہر ہے جب ڈرامہ آرٹسٹس ہی ، خاص کر "ھیرو" وہ جس کو دیکھتے ہم بوڑھے ہو چلے، فلموں میں گُھسے ہوں گے تو عید پلے والی فیلنگ ہی آئے گی بھیا)۔ فلم میں مار کٹائی والے سین کافی "مزاحیہ" ہیں ۔ انسٹرکٹر نے شاید ہمایوں سعید سے ہی ہدایات لے رکھی تھیں۔
اصل افسوس تو یہ ہے کہ ہمیں ڈرامہ سیریلز "لنڈا بازار" اور "بوٹا فرام ٹوبہ ٹیک سنگھ" جیسے شاہکار دینے والے لکھاری خلیل الرحمٰن قمر صاحب نے اپنے مداحوں کے لیے سِکس سگما اور ندیم بیگ کے ہاتھوں سکرپٹ کا کچومر نکلوا لیا۔ جنہوں نے پنجاب اور خاص کر میرے لائلپور (فیصل آباد) کے نام پر وہی حشر نشر کرڈالا جو ندیم بیگ فلاں کی آئے گی بارات اور ڈھمکاں کی آئے گی ڈولی جیسے ڈراموں میں کرچکے تھے۔ اوور ایکٹنگ کی اوور ڈوز ۔
ہم اس معاشرے میں اپنی ثقافت اور پہچان کے رنگوں کی عزت کروانے میں کوشاں ہیں جہاں رنگ، زبان، علاقے اور نسل کی بنیاد پر تقسیم گہری ہوتی چلی جارہی ہے۔ایسے میں آپ ٹوٹی پھوٹی انگریزی اور بناوٹی پنجابی لہجے کی اردو سے کسی کو پنجابی دکھا کر سینما میں "پینڈو ای اوئے" کی آوازیں لگواتے ٹھٹھا اُڑوا رہے ہیں اور ساتھ میں اس علاقے کی ثقافت کے نام پر وہی گھٹیا سوچ کی ترویج کررہے ہیں کہ "پنجاب میں گھر گھر مجرے ہوتے ہیں" ۔۔ جناب آپ کو تحقیق کرنے کی اشد ضرورت ہے کہ یہاں خوشیاں کیسے منائی اور غم کس طرح سہے جاتے ہیں۔ زندگی کا بڑا وقت لائلپور گزارنے والی بندی اب "پنجاب نہیں جاؤں گی" میں اپنے شہر سے منسوب ایسی لڑکیاں دیکھے جنہوں نے مینی کیور تو کیا نیل ایکسٹینشنز اور ھیر ڈو کے ساتھ بھرپور میک اپ تھوپ رکھا ہو تو ہنسی ہی آئے گی۔ ھیر کا مزار کہاں ہے اور اس علاقے کا پہناوا کیسا ہے اگر علم نہ ہو تو ایک خوبصورت فلمی گیت کی پکچرائزیشن کا کچرا ہونا لازمی ہے۔ فیصل آباد کے کون سے گاؤں میں خواتین گھاگھرے پہن کر گھونگھٹ نکالے کنویں سے پانی بھرنے جاتی ہیں یہ معلوم کرنا بھی اب میری ہی ذمہ داری ہے۔ میک اپ سے لے کر لباس کے انتخاب تک میں آپ کو صرف دو سے تین کردار ہی درست رنگ میں دکھائی دیں گے۔ نوید شہزاد (بی۔بو جی) اور سہیل احمد (دادا مہتاب کھگا) کی اداکاری ہمیشہ کی طرح اپنا رنگ جماتی دکھائی دیتی ہے۔
دوسری جانب "کراچی کی لڑکیاں ۔۔۔ محدود دماغ، تعلیم زیادہ" یا "دو نمبر عورتوں سے فون پر چیٹ" جیسے ڈائلاگز، خواجہ سراء کمیونٹی پر سستے جملے اور ان پر قہقہے لگاتے میرے ارد گرد بیٹھے فلم بین۔ رہی سہی کسر سارے سسرال کا خاموش بیٹھے رہنا جبکہ ھیرو رنگے ہاتھوں پکڑے جانے کے بعد بیوی کو تھپڑ رسید کرکے اپنی مونچھ کی شان میں گستاخانہ فقرے کا بدلہ لے۔۔۔ آپ ثابت کیا کرنا چاہ رہے ہیں؟ مردانگی کے جھوٹے پیمانے، بےحسی اور گھٹیا پن کو ہنسی میں اُڑا دینے کی روایت مزید پختہ کرنے میں حصہ دار بن رہے ہیں۔
"پنجاب نہیں جاؤں گی" ٹائٹل کو لے کر بھی اچھی خاصی بحث پڑھنے کو ملتی رہی جو کہ صرف اس لیے نظرانداز کرتی رہی کہ فلم دیکھے بغیر فیصلہ دینا مناسب معلوم نہیں ہوتا۔ اگرچہ تقسیم در تقسیم کے ماحول میں اس قسم کے عنوان تجویز کرنے والوں کو دو بار سوچنا چاہیے۔ آپ بزنس کررہے ہیں اور کسی حوالے سے متنازعہ عنصر جو صارف کی دل آزاری یا خفگی کا باعث ہو کاروباری افراد کے مستقبل کے لیے اچھا نہیں ہوتا۔
فلم کے کچھ پہلو ، معاون اداکاروں کے چند ڈائلاگز اور جھومتی موسیقی مجھے اس فلم کو پانچ میں سے ساڑھے تین سٹارز دینے پر مجبور کرتے ہیں ۔ جبکہ ڈی۔ایچ۔اے کا Cinepax سینما اپنے بہترین ماحول کے باعث ساڑھے چار سٹارز کا مستحق ہے ۔
دیگر شہروں میں کامیاب لانچنگ کے بعد Cinepax cinemas نے اپنی بارھویں برانچ کا آغاز شہرِ اقتدار کے نئے اور سب سے بڑے گیگا شاپنگ مال میں کردیا ہے۔ 6 سکرینز ملٹی پلیکس اور ڈالبی 7.1 سراؤنڈ ساؤنڈ کے ساتھ پلاٹینم، گولڈ اور سلور سیٹنگ کا انتظام ایک خوبصورت ماحول میں فلم بینوں کے لیے ایک بہترین سہولت ثابت ہوگی۔ پروفیشنل سینما سٹاف، صاف ستھرے ریسٹ رومز اور شہر کی بہترین لوکیشن میں قائم ہونے کے باعث فیملیز کے ساتھ فلم دیکھنے کا معیار بہتر کرنے کی اچھی کاوش ہے۔
گزشتہ دنوں ایک دوست کے اصرار پر فلم دیکھنے کا اتفاق ہوا۔ اور چند ہی منٹ بعد یہ سوچنے پر مجبور ہوچکی تھی کہ پاکستانی فلم کو اپنا کھویا ہوا مقام دِلوانے میں اس قسم کی فلمیں کہاں مارک کی جاسکیں گی جس کی سٹوری میں بارہ مصالحے تو چوکھے ہیں لیکن پیشکش اور عکاسی ؟ آگے بڑھنے سے قبل یہ بتانا ضروری ہے کہ مجھے اچھی طرح ادراک ہے اس وقت سلور سکرین اپنے وجود کی جنگ لڑ رہی ہے اور ہر بڑا پروڈکشن ہاؤس اپنا حصہ ڈال رہا ہے۔ ان سب کاوشوں کی دل سے قدر بھی ہے اور سراہا جانا سب کا حق بھی۔
مختصر کہانی یہ ہے کہ فواد کھگا (ھیرو) سیاسیات میں ماسٹرز کرکے گھر لوٹ کر آتا ہے جہاں بھرپور جشن منایا جارہا ہے (جو کہ صرف فلموں میں ہی بطور پنجاب کی ثقافت دکھایا جاسکتا ہے،حقیقت میں ایسا ہوتے دیکھا نہیں)۔ فواد کی کزن دردانہ اس سے محبت میں تقریباً شوہدی دکھائی گئی ہیں جبکہ امل (ھیروئن) لندن سے تعلیم مکمل کر کے کراچی واپس آئی ہیں۔ فواد اور امل کے گھرانوں میں سو سالہ پرانی دوستی ہے اور اس میں ان گھرانوں کی زبان حائل نہیں ہوئی (ایسا فلم بین کو بارہا باور کروانے کی کوشش کی گئی ہے)۔فواد کو کسی ھیر کی تلاش ہے۔ جو کہ امل کی تصویر دیکھنے پر مکمل ہوجاتی ہے۔ فلم میں ایک مقام پر ھیرو صاحب اپنے رقیب (اظفر رحمان) کو چیلنج کرتے ہیں کہ وہ ستر مربعے،بارہ سو بھینسیں اور اپنی حویلی امل کے نام کرکے پیار کے سچے ہونے کا ثبوت دے سکتےہیں جس پر ھیروئن کو احساس ہوتا ہے کہ وہ جس کلاس فیلو سے شادی کرنا چاہتی تھی وہ تو اپنا ایک فلیٹ اس کے نام نہیں کرسکتا۔ (کمال منطق ہے بھئی۔۔ شاید اسی کو سوشل سیکیورٹی کہتے ہیں شادی میں؟)
فلم آگے بڑھتی ہے اور کھگا گھرانے کی بہو ان کے تبیلے کو ڈیری فارم میں تبدیل کرنے کے مشن پر لگ جاتی ہے۔یہاں بہرحال ایک پدر شاہی نظام کو چیلنج کرتی لڑکی دکھانے کی کوشش کی گئی ہے۔ جس پر دادا سسر (سہیل احمد) اعتماد اور بھروپور مالی تعاون کرتا ہے جبکہ بدلے میں اس کے شوہر کا کردار ویسی ہی حرکات کرتے دکھایا گیا ہے جیسا کہ عموماً معاشرے میں ایسے چیلنجز کا سامنا کرتی خواتین کے شوہر کرتے ہیں۔ یہاں ایک ڈائیلاگ "پلیز ھیلپ می دردانہ۔۔" کو جس طرح باربار فِٹ کرکے بےوفائی کرتے فواد کو شرمندہ کرنے کی کوشش کی جاتی ہے وہ دیکھنے والوں کو مسکرانے پر مجبور کردیتا ہے۔ احمد بٹ نے ہمیشہ کی طرح ھیرو کے دوست نما اسسٹنٹ کا کردار اپنے مخصوص کامیڈی انداز میں نبھایا ہے۔ جو بعض جگہوں پر ماحول کا تناؤ کم کرنے میں اہم رہا۔ دردانہ( عروا حسین) کو ایک لائلپوری لڑکی دکھانے کی ناکام کوشش کی گئی ہے لیکن یہ کردار بھی خلاء کے ساتھ پیش کیا گیا جس پر بہت کام ہوسکتا تھا۔
فلم کی موسیقی اچھی ہے ۔ایک گانے "مجھے رانجھا بنا دو ھیر جی" میں تو ہمایوں سعید نے فلم مجاجن کی یاد میں کلائی میں گھنگھرو بھی باندھ لیے۔ ۔ لیکن کیا صرف گانوں پر فلمیں چلائی جا سکتی ہیں؟ جبکہ صورتحال یہ بنے کہ گانے نکال لیں تو ایک ٹیلی فلم یا عید پلے سے زیادہ کچھ معلوم نہ ہو (ظاہر ہے جب ڈرامہ آرٹسٹس ہی ، خاص کر "ھیرو" وہ جس کو دیکھتے ہم بوڑھے ہو چلے، فلموں میں گُھسے ہوں گے تو عید پلے والی فیلنگ ہی آئے گی بھیا)۔ فلم میں مار کٹائی والے سین کافی "مزاحیہ" ہیں ۔ انسٹرکٹر نے شاید ہمایوں سعید سے ہی ہدایات لے رکھی تھیں۔
اصل افسوس تو یہ ہے کہ ہمیں ڈرامہ سیریلز "لنڈا بازار" اور "بوٹا فرام ٹوبہ ٹیک سنگھ" جیسے شاہکار دینے والے لکھاری خلیل الرحمٰن قمر صاحب نے اپنے مداحوں کے لیے سِکس سگما اور ندیم بیگ کے ہاتھوں سکرپٹ کا کچومر نکلوا لیا۔ جنہوں نے پنجاب اور خاص کر میرے لائلپور (فیصل آباد) کے نام پر وہی حشر نشر کرڈالا جو ندیم بیگ فلاں کی آئے گی بارات اور ڈھمکاں کی آئے گی ڈولی جیسے ڈراموں میں کرچکے تھے۔ اوور ایکٹنگ کی اوور ڈوز ۔
ہم اس معاشرے میں اپنی ثقافت اور پہچان کے رنگوں کی عزت کروانے میں کوشاں ہیں جہاں رنگ، زبان، علاقے اور نسل کی بنیاد پر تقسیم گہری ہوتی چلی جارہی ہے۔ایسے میں آپ ٹوٹی پھوٹی انگریزی اور بناوٹی پنجابی لہجے کی اردو سے کسی کو پنجابی دکھا کر سینما میں "پینڈو ای اوئے" کی آوازیں لگواتے ٹھٹھا اُڑوا رہے ہیں اور ساتھ میں اس علاقے کی ثقافت کے نام پر وہی گھٹیا سوچ کی ترویج کررہے ہیں کہ "پنجاب میں گھر گھر مجرے ہوتے ہیں" ۔۔ جناب آپ کو تحقیق کرنے کی اشد ضرورت ہے کہ یہاں خوشیاں کیسے منائی اور غم کس طرح سہے جاتے ہیں۔ زندگی کا بڑا وقت لائلپور گزارنے والی بندی اب "پنجاب نہیں جاؤں گی" میں اپنے شہر سے منسوب ایسی لڑکیاں دیکھے جنہوں نے مینی کیور تو کیا نیل ایکسٹینشنز اور ھیر ڈو کے ساتھ بھرپور میک اپ تھوپ رکھا ہو تو ہنسی ہی آئے گی۔ ھیر کا مزار کہاں ہے اور اس علاقے کا پہناوا کیسا ہے اگر علم نہ ہو تو ایک خوبصورت فلمی گیت کی پکچرائزیشن کا کچرا ہونا لازمی ہے۔ فیصل آباد کے کون سے گاؤں میں خواتین گھاگھرے پہن کر گھونگھٹ نکالے کنویں سے پانی بھرنے جاتی ہیں یہ معلوم کرنا بھی اب میری ہی ذمہ داری ہے۔ میک اپ سے لے کر لباس کے انتخاب تک میں آپ کو صرف دو سے تین کردار ہی درست رنگ میں دکھائی دیں گے۔ نوید شہزاد (بی۔بو جی) اور سہیل احمد (دادا مہتاب کھگا) کی اداکاری ہمیشہ کی طرح اپنا رنگ جماتی دکھائی دیتی ہے۔
دوسری جانب "کراچی کی لڑکیاں ۔۔۔ محدود دماغ، تعلیم زیادہ" یا "دو نمبر عورتوں سے فون پر چیٹ" جیسے ڈائلاگز، خواجہ سراء کمیونٹی پر سستے جملے اور ان پر قہقہے لگاتے میرے ارد گرد بیٹھے فلم بین۔ رہی سہی کسر سارے سسرال کا خاموش بیٹھے رہنا جبکہ ھیرو رنگے ہاتھوں پکڑے جانے کے بعد بیوی کو تھپڑ رسید کرکے اپنی مونچھ کی شان میں گستاخانہ فقرے کا بدلہ لے۔۔۔ آپ ثابت کیا کرنا چاہ رہے ہیں؟ مردانگی کے جھوٹے پیمانے، بےحسی اور گھٹیا پن کو ہنسی میں اُڑا دینے کی روایت مزید پختہ کرنے میں حصہ دار بن رہے ہیں۔
"پنجاب نہیں جاؤں گی" ٹائٹل کو لے کر بھی اچھی خاصی بحث پڑھنے کو ملتی رہی جو کہ صرف اس لیے نظرانداز کرتی رہی کہ فلم دیکھے بغیر فیصلہ دینا مناسب معلوم نہیں ہوتا۔ اگرچہ تقسیم در تقسیم کے ماحول میں اس قسم کے عنوان تجویز کرنے والوں کو دو بار سوچنا چاہیے۔ آپ بزنس کررہے ہیں اور کسی حوالے سے متنازعہ عنصر جو صارف کی دل آزاری یا خفگی کا باعث ہو کاروباری افراد کے مستقبل کے لیے اچھا نہیں ہوتا۔
فلم کے کچھ پہلو ، معاون اداکاروں کے چند ڈائلاگز اور جھومتی موسیقی مجھے اس فلم کو پانچ میں سے ساڑھے تین سٹارز دینے پر مجبور کرتے ہیں ۔ جبکہ ڈی۔ایچ۔اے کا Cinepax سینما اپنے بہترین ماحول کے باعث ساڑھے چار سٹارز کا مستحق ہے ۔
دیگر شہروں میں کامیاب لانچنگ کے بعد Cinepax cinemas نے اپنی بارھویں برانچ کا آغاز شہرِ اقتدار کے نئے اور سب سے بڑے گیگا شاپنگ مال میں کردیا ہے۔ 6 سکرینز ملٹی پلیکس اور ڈالبی 7.1 سراؤنڈ ساؤنڈ کے ساتھ پلاٹینم، گولڈ اور سلور سیٹنگ کا انتظام ایک خوبصورت ماحول میں فلم بینوں کے لیے ایک بہترین سہولت ثابت ہوگی۔ پروفیشنل سینما سٹاف، صاف ستھرے ریسٹ رومز اور شہر کی بہترین لوکیشن میں قائم ہونے کے باعث فیملیز کے ساتھ فلم دیکھنے کا معیار بہتر کرنے کی اچھی کاوش ہے۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں