جمعرات، 12 جنوری، 2017

میں لاپتہ کیوں نہیں ہوسکتی

گزشتہ شام سیل فون پر بجتے ستار کی دھن نے اینٹی الرجی دوا کے اثر پر نہایت بے سُرے اثرات مرتب کرتے جاگنے پر مجبور کیا۔ اور عینک تلاش کرنے کا تردد کیے بغیر جونہی ھیلو کہا تو دوسری جانب سے ہانپتی ہوئی آواز آئی "افشاں آپ خیریت سے ہیں ؟ اطلاعات کچھ اچھی نہیں مِل رہی تھیں۔" تین روز سے رٹا رٹایا جواب دہرا کر اس مہربان فکرمند دوست کو تسلی دیتے اللہ حافظ کیا ۔ یہ تفکر بھری دوستانہ تفتیش کا دسواں راؤنڈ تھا جو چند گھنٹوں میں نمٹایا تھا ۔
کچھ نجی مصروفیات ، گزشتہ برس سے التوا میں پڑی زیرِ مطالعہ کتب ختم کرنے کی دھن اور موسمی الرجی سے نمٹنے کی دوائیں کھاتے سماجی رابطوں کے مختلف پلیٹ فورمز سے ان دنوں کچھ دوری اختیار کرنے پر مجبور ہوں۔لیکن اس دوران "سجے کھبے"  سے زیادہ
 Friend or Foe والے فارمولے کے تحت بلاگرز اور انسانی حقوق کے لیے آواز بلند کرنے والے سنا ہے تاریخ کے نازک ترین موڑ سے گزر رہے ہیں۔الیکٹرانک میڈیا کو نکیل ڈالنے  کی جد وجہد کے ساتھ ڈیجیٹل میڈیا پر ضربِ قلم شروع ہوچکا ہے۔اب شاید کچھ احباب کو "ای۔مارشل لاء" کی اصطلاح سمجھ آجائے جو سائبر جرائم بل کے آنے پر استعمال کی تھی ۔ لامحدود اختیارات کے ساتھ جب جوابدہی کا خوف نہ ہو تو جنم لینے والی صورتحال شاید مطلق العنانی کہلواتی ہے۔
ٹی۔وی چلایا تو دیکھتی ہوں کہ میک اپ میں لتھڑے کچھ اینکرز لاپتہ افراد کے نام ، پتے اور شکلوں کی شناخت کے ساتھ ان کے نظریات و عقائد کو تفصیلاً واضح کرتے معاشرے میں چھپے ممتاز قادریوں کی مشکل آسان کررہے ہیں تو دوسری جانب "فارغ دفاعی تجزیہ کار" اب سلمان حیدر جیسے استاد اور ترقی پسند شاعر کے علاوہ کچھ پیج ایڈمنز و دیگر آوازوں  کے پنجابی والے چُکے جانے کا بودے دلائل سے دفاع کررہے ہیں۔ سوشل میڈیا پر کچھ لوگ تو رقصِ بسمل میں مصروف فتح کا جشن مناتے ہوئے مجھے امتنان قاضی کی بات یاد کروا رہے ہیں کہ "محض اپنے نظریات میں بہتری کی سعی نہ کرنا تنگ نظری نہیں، کسی دوسرے کے نظریات کے مٹ جانےکی خواہش بھی تنگ نظری ہے۔" اعتدال و توازن  کے نام پر بھی ہم بہت عجیب روایت کے امین بن چکے ہیں ،یہاں اپنے واسطے جو آزادی حق سمجھ کر چھیننے کو بے تاب ہوتے ہیں دوسروں کے اسی حق کے استعمال پر باقاعدہ سینہ کوبی فرماتے ہیں۔
ریکارڈ کی درستگی کے لیے جاننا چاہوں گی کہ عدلیہ کے خلاف جھوٹے پراپگینڈا یا  کسی دوسرے ریاستی ادارے کے سربراہ کے عقیدے بارے من گھڑت باتیں پھیلانے کے جرم میں جو لوگ دَھرے گئے ہیں کیا ان میں ساجد میر نامی کوئی شخص اور صحافت میں گھسی کالی بھیڑیں بھی شامل ہیں ؟
مجھے بہرحال سلیم شہزاد اس لیے یاد نہیں آ رہے کہ ان کا جرم زیادہ سنگین نوعیت کا تھا۔ ورنہ تو یاد کرنے کو تاحال گمشدہ زینت شہزادی بھی ہے اور حال ہی میں کئی ماہ کے بعد اچانک لوٹ آنے والے کامریڈ واحد بلوچ بھی ہیں کہ جن کی واپسی پر کسی نے اسیری کی وجوہات اور آزادی کی قیمت دریافت کرنے کی جرات نہیں کی۔ متضاد اخباری اطلاعات کے مطابق چار سے بارہ افراد نئے برس کے پہلے ہفتے میں یوں ہی غائب ہوگئے ہیں جیسے بلوچستان میں ماؤں کے جوان بچے یا پشاور سے لاپتہ ہونے والے نیفا  کے پروفیسر فضل طارق۔
سلمان حیدر کے معاملے میں مؤرخ تو یہ بھی لکھنے سے قاصر ہے کہ دارالحکومت کو سیف سٹی کا درجہ دینے والے اُن کیمروں کا کیا کرنا ہے جو ہر چند میل پر نصب ہیں۔ وہ شاید  یہ یاد کرتے ہوئے شرما جائے کہ کچھ عرصہ قبل ڈی۔چوک میں ایک خاص مسلک کے لوگوں نے کیسے ڈیرے جما کر ریاستی عہدوں اور شخصیات پر نہ صرف کیچڑ اچھالا بلکہ کھلے عام دھمکایا گیا اور ان کے قتل پر باقاعدہ اکساتے ، منبر پر بیٹھے مغلظات بکتے ان باریش غنڈوں کے خلاف آج تک ریاست نے کیا کاروائی کی اس بارے میں عوام کو آج تک آگاہ نہ کیا گیا۔ بس اُنہی کی جانب سے اکثر و بیشتر مختلف روح پرور بیانات کی وڈیوز منظرِ عام پر آ کر مغلظات کی لغت میں بے پایاں اضافہ کردیا کرتی ہیں۔ نفرت انگیز مواد نشر کرنے ، قتال پر اکسانے اور گمراہ کُن پراپگینڈا کرنے والے بڑے ناموں یا بینرز تلے چلنے والوں کے خلاف نیشنل ایکشن پلان ہابرنیشن میں ہے لیکن الحمدللہ ریاست اور اس کے اداروں کی پالیسیز کو جوابدہ سمجھنے والوں کے خوب دانت کھٹے کیے جائیں گے۔
پہلے عقیدے کی بنیاد پر کسی مسلک کے پڑھے لکھے بچوں کو چُن چُن کر موت کی نیند سلانے والے عناصر خدا جانے کِس کی سرپرستی میں دندناتے تھے ۔ اب تنقید کرنے اور سوال اٹھانے والوں کو جانے کون سے اُڑن کھٹولے اُٹھا کر لے جا رہے ہیں۔
ایک رپورٹ کے مطابق انکوائری کمیشن برائے جبری گمشدگی میں گزشتہ چھ برسوں کے دوران سب سے زیادہ کیسز پچھلے سال درج کیے گئے ہیں۔جن کی مجموعی تعداد 1219 رہی۔

آواز دبانے اور چہرے منظر سے غائب ہوجانے پر سوالات کی تدفین نہیں ہوپاتی بلکہ سوالات کا کیڑا نئے اذہان میں کلبلانے کا راستہ تلاش کر لیتا ہے۔ سُچل جمہوری اور مہذب معاشروں میں سوال اور اختلافِ رائے کو مذہبی و سیاسی عقائد سے جوڑ کر ایمان اور حب الوطنی کے معین کردہ معیار سے ہٹنے کی سزا مسخ شدہ موت تو ہرگز نہیں ہوتی یا پھر ترکی سے یارانہ نبھاتے وہاں کا ماڈل اپنانے کی روش چل نکلی ہے ؟ بنگلہ دیش میں بلاگرز کے ساتھ کیا ہورہا ہے وہ بھی ڈھکی چھپی بات نہیں۔ہماری ریاست اور اس کے ادارے کیا جرم کی نوعیت بتانے کے مجاز نہیں اور اگر، دہراتی ہوں ، اگر ان کی تحویل میں ایک شہری ہے تو اس کے لواحقین کو بتانے میں کیا قباحت ہے جو ہر پل سسکتے ہیں؟ اگر کسی ادارے نے کاروائی نہیں کی تو بازیابی کی ذمہ داری وزارتِ داخلہ و دفاع میں سے کِس کے پلے ڈال کر اناؤں کی جنگ میں تیل ڈالنا ہے یہ کوئی بتانے کو راضی نہیں۔
ابھی ایک قریبی عزیز کو تسلی دی ہے کہ میری گمشدگی کے امکانات اتنے ہی معدوم ہیں جتنے ان کے سدھرنے کے اور جواز اس یقین کا یہ ہے کہ نہ تو مجھے زیادہ لوگ جانتےہیں ،کوئی پیج میں نہیں چلاتی جہاں سے غداری یا کفر بھرے کلمات کے ویب لنکس ادھر اُدھر وائرل ہوں اور  بڑے نام مجھے قوٹ کریں۔ نہایت بے ضرر سے بلاگز کی جگالی کر لیا کرتی ہوں جن میں چٹنی، اچار اور مربے وغیرہ کی بساند آتی ہے۔ باقی یہ کہ ایک دو دفعہ کے سائبر فتووں کو اس لیے شمار نہیں کرتی کہ وہ ہر دو مکتبہ فکر نے اس شبے میں جاری کیے کہ شاید میرا تعلق مخالف نظریے والوں سے  ہے
شکر ہے بھئی کہ ہم نے کبھی جبری گمشدگی یا لاپتہ افراد بارے محاورتاً ماں سے زیادہ چاہ کر پھاپھے کٹنی کہلوانے کا شوق نہیں پالا۔ اور شکر ہے اس مالک کا جس نے عقل دی کہ بی۔بی تجھے پرائی آگ میں کود کر کیا ملے گا، یونہی کسی روز کھٹارا گاڑی کسی سڑک کنارے لاوارث پڑی ہوگی اور ایک عدد نام نہاد وزیرِ دفاع جو پینتیس میں سے چودہ لاپتہ افراد کو لا کر چھ کی شناخت کروا پائے ، عدالتی سُبکی اٹھانے میں عار محسوس نہ کریں گے یا پھر طویل ذمہ وار پریس کانفرنس کرتے ہمارے وزیرِ داخلہ صحافیوں کو بتائیں گے کہ میرے الفاظ کے تابکاری اثرات سے معاشرے میں کیسی مہلک وباء پھوٹنے کا اندیشہ تھا لیکن پھر بھی چوبیس گھنٹوں میں اصل مجرموں تک پہنچنے کی نوید سنا دیں گے۔
ڈرانے والے تو یونہی ڈراتے ہیں کہ خاموش رہو ورنہ لاپتہ افراد کے لیے آواز بلند کرنے والے اگر کل غائب ہوئے ہیں تو آنے والے کل میں ہم تم بھی غائب ہوسکتے ہیں۔ میں لیکن اپنے تئیں مطمئن ہوں کہ ایسا ممکن نہیں ۔ان سب طفل تسلیوں کے بعد اچانک خیال آگیا ہے کہ اگر میں ان میں سے کسی بھی جرم کی مرتکب نہیں ہوں تب بھی محتاط رہوں کیونکہ تازہ ترین تحقیق کے حساب سے ایک بےحیاء چلغوزہ تو ضرور ہوں جس کی بناء پر کڑی سزا کی مستحق کہلوائی جا سکتی ہوں۔

1 تبصرہ:

  1. باقی سب ٹھیک چلا آرہا تھا، آخر میں چلغوزے والی بات پڑھ کر ہنسی آگئی. کیونکہ اسی چلغوزے پر بہت سٹیس لگائے تھے میں نے فیس بک پر

    جواب دیںحذف کریں