میں انہیں پھپھو پیاری کہتی تھی، اور سچ تو یہ
ہے کہ آج تک ایسی حسین اور سلیقہ شعار صابر خاتون میں نے نہیں دیکھی۔آخری بار جب انہیں دیکھا
تو بہت دیر تک گُھٹی آواز میں ماں کی گود میں سسکتی رہی کہ یہ میری پھپھو پیاری
نہیں ہیں۔ ہونٹوں پر جمی پپڑی، ہڈیوں کا ڈھانچہ، پھولا ہوا پیٹ اور چھاتی سے بہتا
ناسور۔۔۔چند روز بعد ان کے دُکھوں
کو راحت مِل گئی۔
شعور کی دہلیز پر قدم
رکھا تو سمجھ آئی کہ جِسے ننکانہ اور جھنگ شہر کے لوگ 'غم دا گولہ' کہہ کر جھاڑ
پھونک کرواتے رہے، وہ تو بچہ دانی سے لے کر چھاتی تک کا سرطان تھا۔ ڈاکٹر کے پاس
نہیں لے جایا گیا کیوں کہ پُھپھا کو پسند نہ تھا کہ ان کی حسین و جمیل بیوی نا
محرم ڈاکٹروں کے سامنے بے پردہ ہو۔
پھپھو پیاری نافرمان بیوی اور بہو بننے سے بچ گئیں مگر سرطان سے نہ بچ سکیں۔ آخری وقت میں سسرال نے "موذی" مرض سے نفرت میں برتن تک الگ کر دیے اور جانے کس حکیم کی دوا کیپسول میں بھر بھر کر کھلاتے رہے۔وقت کچھ سرکا اور اماں کو گلٹی کی تکلیف پر شک گزرا تو میڈیکل ٹیسٹ کروائے گئے۔ چھاتی کا سرطان تیسرے درجے کی آخری منزل پر جا پہنچا تھا۔ ایک کینسر ہسپتال نے کیس لینے سے انکار کر دیا تو لاہور میں پاکستان اٹامک انرجی کمیشن کے زیرِ انتظام ہسپتال نے زندگی بچا لی۔ یہ وہ لمحہ تھا جب ابا نے ساتھ بڑھ کر قریبی رشتہ داروں کو بتایا اور بروقت سرجری کروالی گئی۔
ہسپتال میں اماں کے ساتھ والے بستر پر ایک جوان سال لڑکی تھی جِس کا سرطان بگڑ گیا تھا۔ وجہ تھی گھر والوں کی لاپرواہی اور وقتی لالچ۔ جب تشخیص ہوئی تو اس کی منگنی کا دن مقرر کیا جا رہا تھا۔ مہینہ ڈیڑھ گزار کر واپس آئی تھی اور ڈاکٹرز کے پاس سرجری کے سوا کوئی چارہ نہ تھا۔ اس سے بھی تکلیف دہ رویہ یہ تھا کہ رشتہ داروں اور لڑکی کے سسرال سے فون آتے تو گھر والے ان سے یہ معاملہ چھپاتے رہے جیسے یہ کوئی چھپ جانے والی حقیقت تھی۔ لڑکی والدین کی نافرمان نہیں تھی، اس لیے ایک وقت میں تین محاذوں پر کھڑی تھی، جسمانی کرب، نفسیاتی طور پر بکھری، اور ظاہری طور پر مکمل ویران اجڑی حالت۔
اماں کی سرجری کے بعد ایک طویل اور کرب ناک مرحلہ تھا کیمو اور ریڈیو تھراپی کا۔ مجھے آج بھی یاد ہے کہ عیادت کے لیے آنے والی بیشتر خواتین کو سب سے زیادہ دلچسپی دوسری عورت کے جسم کا کٹا ہوا حصہ دیکھنے میں ہوتی تھی۔سوالات کی نوعیت کچھ ایسی ہوتی کہ جِس میں "نسوانیت" سے جُڑے مستقبل کے مسائل پر روشنی ڈالنے کی لو محسوس ہو۔ وہ وقت اماں کے ساتھ ان کی فیملی ڈھال بن کر کھڑی رہی اور نفسیاتی طور پر ہماری ماں نے پہلے سے بھی مضبوط عورت بن کر بیماری کو شکست دے دی۔
یہاں مجھے اپنے پڑوس کی ایک خاتون کا حوالہ بھی دینا ہے جن کی شادی بھائیوں نے نہیں کی تھی۔ انہیں جب چھاتی کے کینسر کی تشخیص کی گئی تو بھائی بھابھیوں نے شرم و غیرت میں کسی سے ملنا جلنا ہی چھوڑ دیا اور گاؤں سے جھاڑ پھونک کے چکروں میں پڑ گئے۔
بہرحال اماں ابا نے ان لوگوں کو سمجھا بجھا کر سرجری اور دیگر علاج کی راہ سجھائی اور بیت المال کے توسط سے دواؤں وغیرہ کے خرچ کا بندو بست بھی کروایا۔ کیموتھراپی کے بعد جون جولائی میں اس بندی کو گاؤں بھیج دیا گیا۔وہاں سے جب لوٹی تو بازو کے پٹھے حرکت کرنا چھوڑ چکے تھے۔ اچھوت بنی گھر کے کونے میں پڑی رہتی اور پھر اللہ نے اس کی آہ و بکا جلد سن لی۔ اچھا ہوا چلی گئی۔ بھائیوں کو گاؤں کی زمین سے حصے کرنے میں مشکل نہ ہوئی۔
کچھ روز قبل سُنا کہ اماں کی پھپھو کی بہو اگلے ہفتے بریسٹ کینسر کے آپریشن کے لیے جا رہی تھی لیکن اس کے میکے والے آ کر روحانی علاج کے لیے لے گئے ہیں۔ اچھی لڑکی ہے اور والدین کی نافرمان بھی نہیں۔ خاموشی سے چلی گئی۔ انشاءاللہ صحت یاب ہو کر لوٹے گی، ورنہ تابع اور فرمانبردار ہونے کے باعث جنت تو پکی اور سسرال بھی بری الذمہ ہے۔
یہ چند واقعات بیان کرنے کا مقصد چھاتی کے سرطان سے آگہی نہیں بلکہ ہمارے معاشرتی رویے ہیں جو دہائیوں پر مشتمل ہیں۔ علاج کی سہولیات تک دسترس تو آسان ہو گئی لیکن کسی جسمانی عضو میں پھیلے ناسور سے جُڑی ہماری منافقتیں وہیں دھری ہیں۔آج بھی شرم اور حیاء کے بنائے جھوٹے پیمانوں میں تول کر عورت کا مرض ناقابلِ علاج کر دیا جاتا ہے، اور بالفرض محال علاج شروع ہو جائے تو ایک بڑی تعداد وہ ذہنی کرب سمجھنے سے قاصر ہے جو ایک عورت جسم کا حصہ کٹ جانے پر سہتی ہے۔ الٹا معاشرتی دباؤ اور گھریلو کشمکش میں نفسیاتی طور پر تنہا کر دیا جاتا ہے، اسے ادھورے پن کا طعنہ مِلتا ہے، سر کے بال اور بھنویں جھڑ جانے جیسی ذہنی و نفسیاتی اذیت الگ ہوتی ہے۔
گزشتہ دنوں 45 سالہ بیوہ پروین بی بی سے ملاقات ہوئی۔ تین بچوں کی پرورش کے لیے لوگوں کے کپڑے سلائی کر کے گزر بسر کر رہی تھیں کہ بریسٹ کینسر نے آ لیا۔ مظفر آباد کے سی ایم ایچ سے سرجری کے بعد اسلام آباد کے شفاء انٹرنیشنل ہسپتال میں کیمو تھراپی کے بعد آج کل ریڈیو تھراپی کے تکلیف دہ عمل سے گزر رہی ہیں۔انہیں دیکھ کر احساس ہوتا ہے کہ ماں کی قوتِ ارادی اور ہمت کیا شے ہوتی ہے۔ ریاست کی جانب سے اچھی بات جو اس سارے عمل میں میرے علم میں آئی وہ یہ ہے کہ پروین بی بی کا تمام تر علاج وزیرِ اعظم کے ہیلتھ کارڈ پروگرام کے تحت بالکل مفت ہو رہا ہے اور یہ کارڈ ان کی دہلیز پر پہنچایا گیا۔ایسے بہت سے مریض ہیں جو اس کارڈ کی بدولت کینسر کے مہنگے علاج کی معاشی پریشانی سہنے سے بچائے جا رہے ہیں۔ ہاں اب بھی بہت سے مریضوں تک یہ سہولت نہیں پہنچی ہے، مگر بہتری بہرحال ایک مسلسل عمل کا ہی نتیجہ ہوتا ہے۔
ہم نے تو سوشل میڈیا پر ایسے پڑھے لکھے ذہنی مریض بھی دیکھے ہیں (جن میں خواتین بھی شامل ہیں) جو چھاتی کے سرطان میں سے sexism یعنی جنسیت تلاش کرنے میں ماہر ہیں۔اس کا تجربہ مجھے ہر بار ان ٹوئٹس کے بعد ہوتا ہے جِن میں پنک ربن کے بارے میں بات کرتی ہوں، جبکہ نومبر کا مہینہ جو مردوں میں سرطان سے آگہی کے حوالے سے منایا جاتا ہے، اس بارے میں تو معاشرتی سمجھ اکتوبر کے پنک ربن سے بھی کہیں کم ہے۔
سیمینار اور تشہیری مہم کے علاوہ سرکاری ہسپتالوں اور خاص کر کینسر یونٹس میں اکتوبر کا پورا مہینہ خواتین کو مفت معائنے اور مشورے کی سہولت فراہم کی جاتی ہے لیکن عام شہریوں کو آج بھی مکمل علم نہیں ہو پاتا۔
جب مرض کو حیاء اور غیرت سے جوڑ دیا جائے تو صحت کی صورتحال وہی بن جاتی ہے جو پاکستان میں ہے۔ سرطان سے حفاظت آپ سے اپنے بدن کی آگہی مانگتی ہے۔ سمجھ نہیں آتی کہ چھاتی یا کسی بھی قسم کے سرطان پر بات کرنا معیوب کیوں سمجھا جاتا ہے؟
بیماری کو تمسخر اور ذہنی عیاشی کا ذریعہ سمجھنا بھی ایک بیماری ہے، مگر ناقابلِ علاج۔ مرد و خواتین میں ہر قسم کے سرطان پر کھل کر بات ہونی چاہیے۔ احتیاط اور اپنا ماہانہ معائنہ جیسا شعور پیدا کرنے کی اشد ضرورت ہے۔
پھپھو پیاری نافرمان بیوی اور بہو بننے سے بچ گئیں مگر سرطان سے نہ بچ سکیں۔ آخری وقت میں سسرال نے "موذی" مرض سے نفرت میں برتن تک الگ کر دیے اور جانے کس حکیم کی دوا کیپسول میں بھر بھر کر کھلاتے رہے۔وقت کچھ سرکا اور اماں کو گلٹی کی تکلیف پر شک گزرا تو میڈیکل ٹیسٹ کروائے گئے۔ چھاتی کا سرطان تیسرے درجے کی آخری منزل پر جا پہنچا تھا۔ ایک کینسر ہسپتال نے کیس لینے سے انکار کر دیا تو لاہور میں پاکستان اٹامک انرجی کمیشن کے زیرِ انتظام ہسپتال نے زندگی بچا لی۔ یہ وہ لمحہ تھا جب ابا نے ساتھ بڑھ کر قریبی رشتہ داروں کو بتایا اور بروقت سرجری کروالی گئی۔
ہسپتال میں اماں کے ساتھ والے بستر پر ایک جوان سال لڑکی تھی جِس کا سرطان بگڑ گیا تھا۔ وجہ تھی گھر والوں کی لاپرواہی اور وقتی لالچ۔ جب تشخیص ہوئی تو اس کی منگنی کا دن مقرر کیا جا رہا تھا۔ مہینہ ڈیڑھ گزار کر واپس آئی تھی اور ڈاکٹرز کے پاس سرجری کے سوا کوئی چارہ نہ تھا۔ اس سے بھی تکلیف دہ رویہ یہ تھا کہ رشتہ داروں اور لڑکی کے سسرال سے فون آتے تو گھر والے ان سے یہ معاملہ چھپاتے رہے جیسے یہ کوئی چھپ جانے والی حقیقت تھی۔ لڑکی والدین کی نافرمان نہیں تھی، اس لیے ایک وقت میں تین محاذوں پر کھڑی تھی، جسمانی کرب، نفسیاتی طور پر بکھری، اور ظاہری طور پر مکمل ویران اجڑی حالت۔
اماں کی سرجری کے بعد ایک طویل اور کرب ناک مرحلہ تھا کیمو اور ریڈیو تھراپی کا۔ مجھے آج بھی یاد ہے کہ عیادت کے لیے آنے والی بیشتر خواتین کو سب سے زیادہ دلچسپی دوسری عورت کے جسم کا کٹا ہوا حصہ دیکھنے میں ہوتی تھی۔سوالات کی نوعیت کچھ ایسی ہوتی کہ جِس میں "نسوانیت" سے جُڑے مستقبل کے مسائل پر روشنی ڈالنے کی لو محسوس ہو۔ وہ وقت اماں کے ساتھ ان کی فیملی ڈھال بن کر کھڑی رہی اور نفسیاتی طور پر ہماری ماں نے پہلے سے بھی مضبوط عورت بن کر بیماری کو شکست دے دی۔
یہاں مجھے اپنے پڑوس کی ایک خاتون کا حوالہ بھی دینا ہے جن کی شادی بھائیوں نے نہیں کی تھی۔ انہیں جب چھاتی کے کینسر کی تشخیص کی گئی تو بھائی بھابھیوں نے شرم و غیرت میں کسی سے ملنا جلنا ہی چھوڑ دیا اور گاؤں سے جھاڑ پھونک کے چکروں میں پڑ گئے۔
بہرحال اماں ابا نے ان لوگوں کو سمجھا بجھا کر سرجری اور دیگر علاج کی راہ سجھائی اور بیت المال کے توسط سے دواؤں وغیرہ کے خرچ کا بندو بست بھی کروایا۔ کیموتھراپی کے بعد جون جولائی میں اس بندی کو گاؤں بھیج دیا گیا۔وہاں سے جب لوٹی تو بازو کے پٹھے حرکت کرنا چھوڑ چکے تھے۔ اچھوت بنی گھر کے کونے میں پڑی رہتی اور پھر اللہ نے اس کی آہ و بکا جلد سن لی۔ اچھا ہوا چلی گئی۔ بھائیوں کو گاؤں کی زمین سے حصے کرنے میں مشکل نہ ہوئی۔
کچھ روز قبل سُنا کہ اماں کی پھپھو کی بہو اگلے ہفتے بریسٹ کینسر کے آپریشن کے لیے جا رہی تھی لیکن اس کے میکے والے آ کر روحانی علاج کے لیے لے گئے ہیں۔ اچھی لڑکی ہے اور والدین کی نافرمان بھی نہیں۔ خاموشی سے چلی گئی۔ انشاءاللہ صحت یاب ہو کر لوٹے گی، ورنہ تابع اور فرمانبردار ہونے کے باعث جنت تو پکی اور سسرال بھی بری الذمہ ہے۔
یہ چند واقعات بیان کرنے کا مقصد چھاتی کے سرطان سے آگہی نہیں بلکہ ہمارے معاشرتی رویے ہیں جو دہائیوں پر مشتمل ہیں۔ علاج کی سہولیات تک دسترس تو آسان ہو گئی لیکن کسی جسمانی عضو میں پھیلے ناسور سے جُڑی ہماری منافقتیں وہیں دھری ہیں۔آج بھی شرم اور حیاء کے بنائے جھوٹے پیمانوں میں تول کر عورت کا مرض ناقابلِ علاج کر دیا جاتا ہے، اور بالفرض محال علاج شروع ہو جائے تو ایک بڑی تعداد وہ ذہنی کرب سمجھنے سے قاصر ہے جو ایک عورت جسم کا حصہ کٹ جانے پر سہتی ہے۔ الٹا معاشرتی دباؤ اور گھریلو کشمکش میں نفسیاتی طور پر تنہا کر دیا جاتا ہے، اسے ادھورے پن کا طعنہ مِلتا ہے، سر کے بال اور بھنویں جھڑ جانے جیسی ذہنی و نفسیاتی اذیت الگ ہوتی ہے۔
گزشتہ دنوں 45 سالہ بیوہ پروین بی بی سے ملاقات ہوئی۔ تین بچوں کی پرورش کے لیے لوگوں کے کپڑے سلائی کر کے گزر بسر کر رہی تھیں کہ بریسٹ کینسر نے آ لیا۔ مظفر آباد کے سی ایم ایچ سے سرجری کے بعد اسلام آباد کے شفاء انٹرنیشنل ہسپتال میں کیمو تھراپی کے بعد آج کل ریڈیو تھراپی کے تکلیف دہ عمل سے گزر رہی ہیں۔انہیں دیکھ کر احساس ہوتا ہے کہ ماں کی قوتِ ارادی اور ہمت کیا شے ہوتی ہے۔ ریاست کی جانب سے اچھی بات جو اس سارے عمل میں میرے علم میں آئی وہ یہ ہے کہ پروین بی بی کا تمام تر علاج وزیرِ اعظم کے ہیلتھ کارڈ پروگرام کے تحت بالکل مفت ہو رہا ہے اور یہ کارڈ ان کی دہلیز پر پہنچایا گیا۔ایسے بہت سے مریض ہیں جو اس کارڈ کی بدولت کینسر کے مہنگے علاج کی معاشی پریشانی سہنے سے بچائے جا رہے ہیں۔ ہاں اب بھی بہت سے مریضوں تک یہ سہولت نہیں پہنچی ہے، مگر بہتری بہرحال ایک مسلسل عمل کا ہی نتیجہ ہوتا ہے۔
ہم نے تو سوشل میڈیا پر ایسے پڑھے لکھے ذہنی مریض بھی دیکھے ہیں (جن میں خواتین بھی شامل ہیں) جو چھاتی کے سرطان میں سے sexism یعنی جنسیت تلاش کرنے میں ماہر ہیں۔اس کا تجربہ مجھے ہر بار ان ٹوئٹس کے بعد ہوتا ہے جِن میں پنک ربن کے بارے میں بات کرتی ہوں، جبکہ نومبر کا مہینہ جو مردوں میں سرطان سے آگہی کے حوالے سے منایا جاتا ہے، اس بارے میں تو معاشرتی سمجھ اکتوبر کے پنک ربن سے بھی کہیں کم ہے۔
سیمینار اور تشہیری مہم کے علاوہ سرکاری ہسپتالوں اور خاص کر کینسر یونٹس میں اکتوبر کا پورا مہینہ خواتین کو مفت معائنے اور مشورے کی سہولت فراہم کی جاتی ہے لیکن عام شہریوں کو آج بھی مکمل علم نہیں ہو پاتا۔
جب مرض کو حیاء اور غیرت سے جوڑ دیا جائے تو صحت کی صورتحال وہی بن جاتی ہے جو پاکستان میں ہے۔ سرطان سے حفاظت آپ سے اپنے بدن کی آگہی مانگتی ہے۔ سمجھ نہیں آتی کہ چھاتی یا کسی بھی قسم کے سرطان پر بات کرنا معیوب کیوں سمجھا جاتا ہے؟
بیماری کو تمسخر اور ذہنی عیاشی کا ذریعہ سمجھنا بھی ایک بیماری ہے، مگر ناقابلِ علاج۔ مرد و خواتین میں ہر قسم کے سرطان پر کھل کر بات ہونی چاہیے۔ احتیاط اور اپنا ماہانہ معائنہ جیسا شعور پیدا کرنے کی اشد ضرورت ہے۔
دشمن کو پہچاننا اور جاننا جیت کی جانب پہلا قدم
ہے۔
اگر تعلیم یہ سکھانے میں ناکام رہے کہ چھاتی کے
سرطان سے لے کر کسی بھی طرح کے صحت کے مسائل پر انفرادی و اجتماعی ردِعمل کیسا
ہونا چاہیے، تو یقیناً آپ کو مدد کی ضرورت ہے۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں