"اس
قوم کی یاداشت بہت کمزور ہے۔" کسی
معاملے پر بے بسی سے لبریز یہ جواب سن کر میں ہمیشہ مسکرا دینے والوں میں سے رہی
ہوں۔بالکل اسی طرح جیسے "اگر ہم نے
حماقت کی تو انہوں نے بھی فلاں فلاں وقت ایسی غلطی کی۔" جیسے دلائل اور دفاعی
وضاحت سُن کر بے اختیار ہنسی آجاتی ہے۔ میں لیکن ماضی قریب اور بعید کا کچھ سفر
کرنا چاہوں گی۔
ایک وقت تھا کہ عمران خان صاحب کو اس ملک میں کرکٹ سے محبت کرنے والوں نے دیوتا کی طرح پوجا۔ہر نیا باؤلر ان کو آج تک آیڈلائز کرتا ہے اور اس حوالے سے خان صاحب کی اہمیت کسی صورت چیلنج یا کم نہیں کی جاسکتی۔ایک ٹیم کے کپتان کو بروقت اور جرات مندانہ فیصلوں کی اہمیت کا ادراک ہوتا ہے۔آپ ایسے ہی کپتان رہے ہیں۔کینسر ہسپتال ہو یا نمل جیسا تعلیمی ادارہ عمران خان صاحب کے ارادوں کی پختگی کو اس ملک کے عوام نے اپنے ڈونیشنز سے تکمیل تک ہمیشہ عزت بخشی ہے۔بطور سیاستدان آپ کتنا ہی ان کے رویے اور پل پل بدلتے بیانات سے اختلاف رکھیں لیکن دنیائے کرکٹ میں ان کا مقام یاد کیا جاتا رہے گا۔
پاکستان سُپر لیگ کا دوسرا سیزن شروع ہوا اور قومی کرکٹ ٹیم کے سابق کپتان عمران خان صاحب کی جانب سے بیانات کا لامتناہی سلسلہ (پانامہ کیس کی ڈھولک کے درمیان) بھی زور پکڑتا گیا۔پہلے کہا کہ پوری لیگ پاکستان میں ہونی چاہیے۔پھر بیان آیا کہ انٹرنیشنل کھلاڑی آجائیں تو فائنل زبردست ہو۔ لیکن جونہی لاہور میں فائنل میچ کی خبر آئی خان صاحب اس کو پاگل پن اور حماقت قرار دے دیا اور پھر فائنل میں پہنچنے والی ٹیم کو مبارکباد بھی جَڑ دی۔پاکستان میں ہر شخص تقریباً ایک دہائی کے بعد کرکٹ اپنے گھر آنے کا جشن منا رہا تھا کہ خان صاحب اور ان کی جماعت کے نمائندوں نے ٹکٹوں کے حوالےسے میڈیا میں شور مچا دیا۔کسی کو تمام میچ میں فری انٹری کا بخار ہوا تو کسی نے دعویٰ کیا کہ حکومتی جماعت نے سیاسی جلسہ رکھا ہے لہذا اپنے ووٹرز کو ٹکٹیں مفت بانٹ دی ہیں۔خان صاحب کی منطق نرالی جنہوں نے اپنے نام کے وی۔آئی۔پی انکلوژر کا ٹکٹ فری کرنے کا مطالبہ کیا اور ساتھ میں یہ راگ بدل بدل کر چلتے رہے کہ کلب لیول کھلاڑی آئیں گے، سیاسی جلسہ ہے ، پانامہ کیس سے عوامی توجہ ہٹائی جارہی ہے۔ ہمارے ہاں مانا جاتا ہے کہ جِس پلیٹ فورم سے آپ کو عزت ، شہرت اور محبت مِلی ہو اور جہاں سے رزق کمایا ہو وہاں کا احترام انسان آخری دم تک بھولتا نہیں اور اس شعبے سے وابستہ افراد سے ایک جذباتی لگاؤ بھی ہوجاتا ہے۔ شاید اسی لیے پی۔ایس۔ایل فائنل میچ میں شرک بین الاقوامی مہمان کرکٹرز کے لیے "پھٹیچر اور ریلو کٹا" جیسے الفاظ ایک سابق کرکٹر کی جانب سے آنا زیادہ نامناسب معلوم ہوتا ہے۔ہماری مہمان نوازی کی روایات کے تمام حوالے رہے ایک جانب لیکن میرا مسئلہ اس سے کچھ مختلف ہے۔"افریقہ سے پکڑ کر لےآئے" جیسے حقارت بھرے الفاظ میں چھپا نسلی تعصب ۔جس کو پس منظر میں جانا تک نصیب نہ ہوا۔سیدھا قالین کے نیچے دبا دیا گیا۔
لوگ ریلو کٹا کا مفہوم سمجھتے رہے جبکہ خان صاحب کی جماعت اس اصطلاح کے وہ معنی تلاش کرتے ہلکان ہوتی رہی جو عوامی و میڈیائی غصے کو کچھ ٹھنڈا کرسکیں۔کہا جاتا ہے مسلسل صفائی اور تاویلیں دراصل غلطی کا اعتراف بن جاتی ہیں۔لیکن اعتراف کے تو کیا کہنے جب عمران خان صاحب اپنے اس "غیر رسمی یا آف دا ریکارڈ" بیان پر باجماعت ڈٹ گئے۔ اور اس گفتگو کی وڈیو بنا کر سوشل میڈیا پر چلانے والی خاتون رپورٹر کو ایک جانب صحافتی آداب سکھاتے رہے جبکہ دوسری جانب اس جماعت کی سوشل میڈیا ٹیم ان خاتون کی کردار کشی کے علاوہ "توہینِ رسالت" کرنے والوں کے ساتھ تعلق جوڑتی رہی۔
مانا کہ خان صاحب ایک عظیم کرکٹر رہے۔اچھے کپتان تھے۔ورلڈ کپ جیتنے والی ٹیم کی کپتانی کی۔انسانیت کی خدمت میں کینسر ہسپتال اور تعلیمی ادارہ بنایا۔تو کیا یہ تمام باتیں انہیں آزادی فراہم کرتی ہیں کہ کسی بھی کرکٹر کے کیریئر اور صلاحیتوں کو ارزاں سمجھں؟ کیا دنیائے کرکٹ میں اب کوئی بڑا کرکٹر پیدا نہیں ہوسکتا۔چاہے اس نے دو ورلڈ کپ جیتے ہوں؟ تو کیا انسانیت کی خدمت کسی بھی انسان کو حق دیتی ہے کہ دنیا کے مختلف خطوں میں آباد انسانوں کو تحقیر سے دیکھا جائے؟ کیا سر ویوین رچرڈز اور دیگر سابق کرکٹرز کا پاکستان میں آنا آپ سے ہضم نہیں ہوا؟ جس کرکٹ میچ کو آپ سیاسی جلسہ قرار دے رہے تھے وہاں ان دو اشخاص کے خلاف نعرے لگوائے گئے جنہوں نے پاکستان میں اس ایک میچ سے اس دھشت کو ختم کرنے کی کوشش کی جس میں ہم برسوں سے سانس لے رہے تھے۔بجائے اس کے کہ ان دھشتگردوں کو یک زبان ہو کر جواب دیا جاتا جو ہمارے کھیل کے میدان ویران کرتے رہے اور ہم سے ہماری خوشیوں اور ثقافت کا ہر رنگ چھین لینا چاہتے ہیں۔ آپ نے خود اس موقع کو سیاسی اور تقسیمی لمحہ بنا ڈالا۔
بات یہاں ختم نہیں ہوتی۔جیسا آغاز میں کہا کہ "یاداشت بڑی کمزور ہے" ۔ خان صاحب نے یہ تمام تضادات پہلی دفعہ نہیں دکھائے۔اور نا ہی یہ پہلا موقع تھا کہ نا مناسب الفاظ کا چناؤ سامنے آیا۔۔۔ اوئے ، گیلی شلوار ، اپنے ہاتھوں سے پھانسی ، ڈر کے مارے ان کا پیشاب نکل جاتا ہے ، زندہ لاشیں ، مولوی ڈیزل ، سول نافرمانی میں ھُنڈی حوالہ کی انڈورسمنٹ ، محمود اچکزئی کی پشتون چادر کا ٹھٹھا ، قائدِ حزبِ اختلاف کو وزیرِاعظم پاکستان کا پی۔اے کہنا ، امپائر کی انگلی ، اسفند یار ولی ہوں یا متحدہ قومی موومنٹ کے رہنما یا بلاول اور یا پھر مختلف قومی ادارے اور ان کے سربراہان سب کے لیے نازیبا الفاظ کنٹینر سے جاری ہوتے رہے۔پنجاب،کشمیر اور سندھ کے علاقوں میں سیلاب آگیا لیکن آپ کنٹینر سے نہ اترے۔ اس تمام مختصر ری کیپ میں اہم بات یہ ہے کہ سب اپنے ہی ملک اور اس سے وابستہ معاملات رہے۔ اب آ جایے پاکستان آنے والے مہمانوں کی جانب ۔ ہم آج یہ کہہ رہے ہیں کہ فلاں فلاں کھلاڑی کو ریلو کٹا یا پھٹیچر کیوں کہا لیکن بھول رہے ہیں کہ دو سال قبل چینی صدر تک کو "اوئے" کیا جاچکا ہے۔پہلے عوام کو کنٹینر سے باور کرواتے رہے کہ انویسٹمنٹ نہیں سی۔پیک چینی قرضہ ہے اور چینی صدر تو آ ہی نہیں رہا۔اسی روش کی بدولت سری لنکا ، مالدیپ اور قطر جیسے ممالک کے سربراہان نے اپنے دورے ملتوی کیے۔اور جب چینی صدر پاکستان آئے تو پارلیمنٹ کا بائیکاٹ کرنے سے جس طرح ان کی جماعت کے کچھ افراد نے روکا وہ الگ داستان ہے۔ مسئلہ کشمیر پر مشترکہ اجلاس ہو یا ترک صدر کا پاکستانی پارلیمنٹ سے خطاب خان صاحب اپنے عظیم مؤقف پر ڈٹ کر بائیکاٹ کرکے بیٹھے رہے۔لہذا یہ کہنا کہ ایسا پہلی دفعہ ہوا درست نہیں۔ اور یہ سب آخری دفعہ بھی نہیں ہوا۔ عمران خان صاحب فیصلوں میں اٹل ہونا الگ بات ہے اور زندگی و سیاست کے گرے ایریاز کو سمجھ کر وقت کی نبض سمجھنا الگ معاملہ ہے۔ صرف خود کو صراطِ مستقیم پر چلنے والا واحد مسیحا سمجھنا اور ساری دنیا پیتل کی گردانتے جانا سیاسی مستقبل میں کوئی بڑا میچ جیتنے کی کنجی نہیں ہوسکتا۔ یا پھر ہم مان لیتے ہیں کہ آپ ڈونلد ٹرمپ کی الیکشن کیمپین سے متاثر ہوگئے اور وہی حربے آزمانے چلے ہیں۔
یہ تو رہی دو روز قبل تک کی کہانی۔۔ آج یوں ہے کہ ہمارے دو رکن قومی اسمبلی نے جو کچھ کیا ہے اس کے لیے مجھے بھڑاس کا اب دوسری تحریر میں راستہ سجھائی دے رہا ہے۔
ایک وقت تھا کہ عمران خان صاحب کو اس ملک میں کرکٹ سے محبت کرنے والوں نے دیوتا کی طرح پوجا۔ہر نیا باؤلر ان کو آج تک آیڈلائز کرتا ہے اور اس حوالے سے خان صاحب کی اہمیت کسی صورت چیلنج یا کم نہیں کی جاسکتی۔ایک ٹیم کے کپتان کو بروقت اور جرات مندانہ فیصلوں کی اہمیت کا ادراک ہوتا ہے۔آپ ایسے ہی کپتان رہے ہیں۔کینسر ہسپتال ہو یا نمل جیسا تعلیمی ادارہ عمران خان صاحب کے ارادوں کی پختگی کو اس ملک کے عوام نے اپنے ڈونیشنز سے تکمیل تک ہمیشہ عزت بخشی ہے۔بطور سیاستدان آپ کتنا ہی ان کے رویے اور پل پل بدلتے بیانات سے اختلاف رکھیں لیکن دنیائے کرکٹ میں ان کا مقام یاد کیا جاتا رہے گا۔
پاکستان سُپر لیگ کا دوسرا سیزن شروع ہوا اور قومی کرکٹ ٹیم کے سابق کپتان عمران خان صاحب کی جانب سے بیانات کا لامتناہی سلسلہ (پانامہ کیس کی ڈھولک کے درمیان) بھی زور پکڑتا گیا۔پہلے کہا کہ پوری لیگ پاکستان میں ہونی چاہیے۔پھر بیان آیا کہ انٹرنیشنل کھلاڑی آجائیں تو فائنل زبردست ہو۔ لیکن جونہی لاہور میں فائنل میچ کی خبر آئی خان صاحب اس کو پاگل پن اور حماقت قرار دے دیا اور پھر فائنل میں پہنچنے والی ٹیم کو مبارکباد بھی جَڑ دی۔پاکستان میں ہر شخص تقریباً ایک دہائی کے بعد کرکٹ اپنے گھر آنے کا جشن منا رہا تھا کہ خان صاحب اور ان کی جماعت کے نمائندوں نے ٹکٹوں کے حوالےسے میڈیا میں شور مچا دیا۔کسی کو تمام میچ میں فری انٹری کا بخار ہوا تو کسی نے دعویٰ کیا کہ حکومتی جماعت نے سیاسی جلسہ رکھا ہے لہذا اپنے ووٹرز کو ٹکٹیں مفت بانٹ دی ہیں۔خان صاحب کی منطق نرالی جنہوں نے اپنے نام کے وی۔آئی۔پی انکلوژر کا ٹکٹ فری کرنے کا مطالبہ کیا اور ساتھ میں یہ راگ بدل بدل کر چلتے رہے کہ کلب لیول کھلاڑی آئیں گے، سیاسی جلسہ ہے ، پانامہ کیس سے عوامی توجہ ہٹائی جارہی ہے۔ ہمارے ہاں مانا جاتا ہے کہ جِس پلیٹ فورم سے آپ کو عزت ، شہرت اور محبت مِلی ہو اور جہاں سے رزق کمایا ہو وہاں کا احترام انسان آخری دم تک بھولتا نہیں اور اس شعبے سے وابستہ افراد سے ایک جذباتی لگاؤ بھی ہوجاتا ہے۔ شاید اسی لیے پی۔ایس۔ایل فائنل میچ میں شرک بین الاقوامی مہمان کرکٹرز کے لیے "پھٹیچر اور ریلو کٹا" جیسے الفاظ ایک سابق کرکٹر کی جانب سے آنا زیادہ نامناسب معلوم ہوتا ہے۔ہماری مہمان نوازی کی روایات کے تمام حوالے رہے ایک جانب لیکن میرا مسئلہ اس سے کچھ مختلف ہے۔"افریقہ سے پکڑ کر لےآئے" جیسے حقارت بھرے الفاظ میں چھپا نسلی تعصب ۔جس کو پس منظر میں جانا تک نصیب نہ ہوا۔سیدھا قالین کے نیچے دبا دیا گیا۔
لوگ ریلو کٹا کا مفہوم سمجھتے رہے جبکہ خان صاحب کی جماعت اس اصطلاح کے وہ معنی تلاش کرتے ہلکان ہوتی رہی جو عوامی و میڈیائی غصے کو کچھ ٹھنڈا کرسکیں۔کہا جاتا ہے مسلسل صفائی اور تاویلیں دراصل غلطی کا اعتراف بن جاتی ہیں۔لیکن اعتراف کے تو کیا کہنے جب عمران خان صاحب اپنے اس "غیر رسمی یا آف دا ریکارڈ" بیان پر باجماعت ڈٹ گئے۔ اور اس گفتگو کی وڈیو بنا کر سوشل میڈیا پر چلانے والی خاتون رپورٹر کو ایک جانب صحافتی آداب سکھاتے رہے جبکہ دوسری جانب اس جماعت کی سوشل میڈیا ٹیم ان خاتون کی کردار کشی کے علاوہ "توہینِ رسالت" کرنے والوں کے ساتھ تعلق جوڑتی رہی۔
مانا کہ خان صاحب ایک عظیم کرکٹر رہے۔اچھے کپتان تھے۔ورلڈ کپ جیتنے والی ٹیم کی کپتانی کی۔انسانیت کی خدمت میں کینسر ہسپتال اور تعلیمی ادارہ بنایا۔تو کیا یہ تمام باتیں انہیں آزادی فراہم کرتی ہیں کہ کسی بھی کرکٹر کے کیریئر اور صلاحیتوں کو ارزاں سمجھں؟ کیا دنیائے کرکٹ میں اب کوئی بڑا کرکٹر پیدا نہیں ہوسکتا۔چاہے اس نے دو ورلڈ کپ جیتے ہوں؟ تو کیا انسانیت کی خدمت کسی بھی انسان کو حق دیتی ہے کہ دنیا کے مختلف خطوں میں آباد انسانوں کو تحقیر سے دیکھا جائے؟ کیا سر ویوین رچرڈز اور دیگر سابق کرکٹرز کا پاکستان میں آنا آپ سے ہضم نہیں ہوا؟ جس کرکٹ میچ کو آپ سیاسی جلسہ قرار دے رہے تھے وہاں ان دو اشخاص کے خلاف نعرے لگوائے گئے جنہوں نے پاکستان میں اس ایک میچ سے اس دھشت کو ختم کرنے کی کوشش کی جس میں ہم برسوں سے سانس لے رہے تھے۔بجائے اس کے کہ ان دھشتگردوں کو یک زبان ہو کر جواب دیا جاتا جو ہمارے کھیل کے میدان ویران کرتے رہے اور ہم سے ہماری خوشیوں اور ثقافت کا ہر رنگ چھین لینا چاہتے ہیں۔ آپ نے خود اس موقع کو سیاسی اور تقسیمی لمحہ بنا ڈالا۔
بات یہاں ختم نہیں ہوتی۔جیسا آغاز میں کہا کہ "یاداشت بڑی کمزور ہے" ۔ خان صاحب نے یہ تمام تضادات پہلی دفعہ نہیں دکھائے۔اور نا ہی یہ پہلا موقع تھا کہ نا مناسب الفاظ کا چناؤ سامنے آیا۔۔۔ اوئے ، گیلی شلوار ، اپنے ہاتھوں سے پھانسی ، ڈر کے مارے ان کا پیشاب نکل جاتا ہے ، زندہ لاشیں ، مولوی ڈیزل ، سول نافرمانی میں ھُنڈی حوالہ کی انڈورسمنٹ ، محمود اچکزئی کی پشتون چادر کا ٹھٹھا ، قائدِ حزبِ اختلاف کو وزیرِاعظم پاکستان کا پی۔اے کہنا ، امپائر کی انگلی ، اسفند یار ولی ہوں یا متحدہ قومی موومنٹ کے رہنما یا بلاول اور یا پھر مختلف قومی ادارے اور ان کے سربراہان سب کے لیے نازیبا الفاظ کنٹینر سے جاری ہوتے رہے۔پنجاب،کشمیر اور سندھ کے علاقوں میں سیلاب آگیا لیکن آپ کنٹینر سے نہ اترے۔ اس تمام مختصر ری کیپ میں اہم بات یہ ہے کہ سب اپنے ہی ملک اور اس سے وابستہ معاملات رہے۔ اب آ جایے پاکستان آنے والے مہمانوں کی جانب ۔ ہم آج یہ کہہ رہے ہیں کہ فلاں فلاں کھلاڑی کو ریلو کٹا یا پھٹیچر کیوں کہا لیکن بھول رہے ہیں کہ دو سال قبل چینی صدر تک کو "اوئے" کیا جاچکا ہے۔پہلے عوام کو کنٹینر سے باور کرواتے رہے کہ انویسٹمنٹ نہیں سی۔پیک چینی قرضہ ہے اور چینی صدر تو آ ہی نہیں رہا۔اسی روش کی بدولت سری لنکا ، مالدیپ اور قطر جیسے ممالک کے سربراہان نے اپنے دورے ملتوی کیے۔اور جب چینی صدر پاکستان آئے تو پارلیمنٹ کا بائیکاٹ کرنے سے جس طرح ان کی جماعت کے کچھ افراد نے روکا وہ الگ داستان ہے۔ مسئلہ کشمیر پر مشترکہ اجلاس ہو یا ترک صدر کا پاکستانی پارلیمنٹ سے خطاب خان صاحب اپنے عظیم مؤقف پر ڈٹ کر بائیکاٹ کرکے بیٹھے رہے۔لہذا یہ کہنا کہ ایسا پہلی دفعہ ہوا درست نہیں۔ اور یہ سب آخری دفعہ بھی نہیں ہوا۔ عمران خان صاحب فیصلوں میں اٹل ہونا الگ بات ہے اور زندگی و سیاست کے گرے ایریاز کو سمجھ کر وقت کی نبض سمجھنا الگ معاملہ ہے۔ صرف خود کو صراطِ مستقیم پر چلنے والا واحد مسیحا سمجھنا اور ساری دنیا پیتل کی گردانتے جانا سیاسی مستقبل میں کوئی بڑا میچ جیتنے کی کنجی نہیں ہوسکتا۔ یا پھر ہم مان لیتے ہیں کہ آپ ڈونلد ٹرمپ کی الیکشن کیمپین سے متاثر ہوگئے اور وہی حربے آزمانے چلے ہیں۔
یہ تو رہی دو روز قبل تک کی کہانی۔۔ آج یوں ہے کہ ہمارے دو رکن قومی اسمبلی نے جو کچھ کیا ہے اس کے لیے مجھے بھڑاس کا اب دوسری تحریر میں راستہ سجھائی دے رہا ہے۔
حالات حاضرہ پر خوب نظر رکھنے اور اسکا تنقیدی جائیزہ لینے کا اچھا راستہ ـلکھناـ ہی معلوم پڑتا ہے اور یہ بھی خوب استعمال کر رہی ہیں آپ۔
جواب دیںحذف کریں