پیر، 27 مارچ، 2017

ذات کی تکمیل کےمعاشرتی پیمانے

معاشی و معاشرتی سطح پر مساوی مواقع اور حقوق کے حوالے سے ہمارے ہاں لسانی ، علاقائی اور معاشرتی تقسیم سے کہیں زیادہ جد وجہد عورت کے حصے میں آتی ہے۔ اپنی پیدائش سے لے کر اپنی اولاد کی پیدائش تک عورت کو "ذات کی تکمیل" کے نام پر ایک مسلسل سفر کرنا ہوتا ہے۔
عزت دینے کی بات آئے تو "ہم مائیں ، بہنیں بیٹیاں" ٹائپ نعروں میں جوڑ کر عورت کی پہچان اور مقام صرف رشتوں کے پیمانوں میں حنوط کردیا گیا ہے۔ کسی سماجی رابطے کی ویب سائٹ ہو یا کوئی عوامی جگہ "بھائی" کا دُم چھلا لگائے بِنا مرد سے بات کرنا معیوب ہے جناب۔ سرگوشیاں ہوں گی ، آنکھوں سے اشارے ہوں گے اور کردار پر کیچڑ اچھال کر اپنی کم مائیگی کے احساس کو تسکین پہنچائی جائے گی۔
ایسا نہیں ہے کہ گھر پر رہنے والی اور کنبے کا بوجھ اٹھا کر گھر سے باہر کام کرنے والی یا اپنا کیریئر بناتی خواتین میں سے کوئی ایک مسائل کا نسبتاً کم شکار ہوتی ہے۔ لیکن گزشتہ چند روز ہمارے ہاں انٹرٹینمنٹ کے نام پر چلتے کچھ ٹی۔وی ڈراموں کا جائزہ لینے کی کوشش نے اس حوالے سے مایوس کیا ہے۔ لکھاری کسی معاشرے کا نباض ہوتا ہے جو مختلف بکھری کہانیوں کو جوڑ کر ایک جیتی جاگتی تصویر پیش کرتا ہے۔ سمجھ سے باہر ہے کہ موضوعات کے چناؤ میں حقیقت سے دور ڈرامہ سکرپٹس کو پروڈکشن ہاؤسز کیسے سکرین پر چلاتے چلے جارہے ہیں۔ دو بہنوں میں سے ایک کو بطور ڈائن اور دوسری کا کردار روتی دھوتی قربانی کی دیوی ، اکلوتی ہو یا کثیرالتعداد بیٹیاں صرف شادی بیاہ چل رہے ہیں ، بیویوں کے کردار میں ہمارے لکھاری ابھی تک انیس سو سینتیس کے ماڈل میں پھنسے ہوئے ہیں اور سب سے بڑی فکری بددیانتی ورکنگ لیڈیز کے کرداروں سے برتی جارہی ہے۔ آج بھی تعلیم سے لے کر کیریئر بنانے تک گھر سے باہر نکلنے والی عورت کے کردار کو اس کے لباس اور بول چال سے ناپا جاتا ہے،اگرچہ اس کا چار دیواری سے باہر ہونا ہی بدکرداری کی واضح علامت بنا کر پیش کیا جاتا ہے۔جبکہ ہر دوسرا ڈرامہ ان خواتین کی مشکلات میں اضافہ کرتے صرف یہ دکھا رہا ہے کہ آفس میں کام کرتی بچی اپنے باس سے فلرٹ کررہی بلکہ انجام کار شادی پر ہی ہے۔کسی جوان بیوہ کا کردار ہے تو مجال ہے کہیں یہ دکھایا جائے کہ سرکاری ملازم کی بیوہ پینشن کے حصول سے لے کر دیگر دفتری معاملات میں کیسے نفسیاتی طور پرکچلی جاتی ہے یا اگر کوئی ذاتی کام کاج کرنے والا شخص دنیا سے چلا گیا تو اس کی بیوہ بچوں کے مسائل کس نوعیت کے ہوسکتےہیں اور ان سے لڑتی باہمت عورت کیا کچھ کرسکتی ہے۔لکھاری دِکھاتا ہے تو صرف کسی اوباش کردار کو یا لالچی جیٹھ کو۔تخلیق کے نام پر مسلسل ایک ہی پلاٹ کا ری مکس ورژن بیچا جا رہا ہے۔ گھریلو تشدد تو چھوڑیے یہاں ریپ کو بھی گلیمرائز کردیا گیا ہے۔ریپسٹ کو بطور ھیرو اور آخر متاثرہ عورت کی جانب سے معافی یا قبولیت کی سند دِلواتے سکرین کی زینت بنانے والے کیا کبھی اس کرب کا ادراک کرپائیں گے جو حقیقی زندگی میں ایسی متاثرہ بچی سہتی ہے؟ تیزاب گردی ،غیرت کے نام پر قتل ، وٹہ سٹہ ، ونی اور ایسے دیگر حساس موضوعات کو ھینڈل کرنے کا ڈھنگ نہیں سیکھ پا رہے۔خواجہ سراء پر کوئی پراجیکٹ شروع کرکے اس کے پلاٹ کو بھی پھیلا کر صرف  اپر کلاس کے معاملات دکھانے پر اکتفا کرلیا جاتا ہے۔ گھریلو ملازماؤں کو صاحب لوگوں پر ڈورے ڈالتے دکھا دیں ، ڈرامہ بِک جائے گا۔ اس طبقے کی کام کرتی عورت کے مسائل جائیں بھاڑ میں۔
عورت کے استحصال کا آغاز دہلیز کے باہر نکلنے سے قبل گھر سے ہی ہوا کرتا ہے۔ اور غور کیا جائے تو پہلا پتھر گھر کی بڑی بوڑھیوں کی ہاتھ میں ہوتا ہے۔ خوراک، صحت اور تعلیمی درسگاہ کے چناؤ تک میں صنفی تقسیم اور بددیانتی برتی جاتی ہے۔بچی بڑی ہورہی ہے تو دودھ،انڈے،خشک میوہ جات اورگوشت وغیرہ سے بچانا چاہیے لیکن پوتے کو یہ سب زیادہ مقدار میں ٹھونسنے کو دیا جائے۔ رشتہ دیکھنا ہے تو لڑکی دبلی پتلی، گوری چٹی، سرو قد،تیکھے نقوش،سگھڑاپے کی مورت ، کم عمر ہو لیکن ڈگریاں ڈٹ کر حاصل کر رکھی ہوں۔ بہو سے زیادہ بیٹے کی صحت و خوراک  پر توجہ مرکوز کی جائے ،پھر چاہے وہ بہو گھر سنبھالنے اور بچے پیدا کرنے کے ساتھ جاب کرکے شوہر کا ہاتھ ہی کیوں نہ بٹاتی ہو۔چکی کے دو پاٹ اور اس میں پِستی عورت جبکہ اکثر پیسنے والی دوسری عورت۔
میری دادی آٹھ بہوئیں بیاہ کرلائیں اور اس حوالے سے میں نے انہیں شاندار رویے کی امین پایا کہ ہر عورت حسین ہوتی ہے ۔ نین نقش اور رنگ روپ کی بنیاد پر ایک عورت کے ہاتھوں دوسری خواتین کا استحصال سب سے مکروہ روایت ہے۔
گزشتہ دنوں ایک کیمپین سوشل میڈیا پر دیکھی جس کو 
  کے ھیش ٹیگ کے ساتھ چلایا جارہا تھا۔ https://twitter.com/search?q=%23ProudToBeMyMum&src=tyah

وہاں لوگ بتا رہے تھے کہ انہوں نے اپنی والدہ سے کیا سیکھا،ان کی عادات سے کیا اپنایا اور کیوں انہیں اپنی والدہ پر فخر ہے۔ صحت مند کھانے سے لے کر شخصیت و کردار سازی تک اور آٹھ گلاس پانی روزانہ پینے کی عادت تک بہت کچھ ہے جو ماں اپنے بچوں کو منتقل کرتی ہے۔ میں اگر اپنی والدہ کی بات کروں تو کھانا ان جیسا لذیذ نہیں پکا سکتی لیکن دنیا میں بستے انسانوں کے لیے رنگ،شکل،عقیدہ اور زبان کی بنیاد پر فرق نہ کرنا انہی سے سیکھا ہے۔خود اعتمادی اور دوسروں کو کچلے بغیر آگے بڑھتے رہنا اماں ہی کو دیکھ کر سمجھا۔
میں نے اپنی والدہ سے جو بات سیکھی وہ یہ  کہ رویے، سوچ اورالفاظ بدصورت ہوا کرتے ہیں مگر انسان (بلاتخصیص جنس) کائنات کی سب سےحسین تخلیق ہوتی ہے۔ زندگی سے خوبصورت کچھ نہیں اور بیٹی ہو یا بیٹا اسے اپنی صلاحیتوں پر بھروسہ کرنے کا گُر سکھانا چاہیے۔بچوں کو اعتماد دیا جائے تو صنفِ مخالف کے وجود کو کچل کر اپنی ذات منوانے کی بدصورت روایت ختم ہوسکتی ہے۔تعلیم،شعوراورصحت مندسوچ ہر بچے کاحق ہے ۔
پاکستان میں قانون سازی کے ساتھ اجتماعی شعور میں بدلاؤ کی ضرورت ہے ۔ زندگی کے مختلف میدانوں میں اپنی جگہ بناتی ہوئی عورت ہو یا دوسری خواتین کے تحفظ و حقوق بارے آواز اٹھاتی، قانون سازی میں حصہ ڈالتی خواتین ہوں۔۔۔ سب جانتے ہیں کہ ہر دو جگہ بدصورت رویوں کا اظہار کرنے والے موجود ہوتے ہیں۔ سوچ بدلے گی تو عورت کو بطور انسان تسلیم کرنے کی راہ میں آسانیاں بھی آتی جائیں گے کہ فی الحال تو خود سے زیادہ کامیاب اور زیادہ کماتی عورت ہر رشتے اور حوالے سے اکثریت کو عدم تحفظ کا شکار کردیتی ہے۔

باقی یوں ہے کہ کچھ روز قبل خواتین کے عالمی دن کے موقع پر ان لوگوں کو بھی چیختے دیکھا جو سارا سال اپنے گھر کے علاوہ دنیا کی ہر عورت کو حرافہ سمجھتے ہیں لیکن اس روز انہیں اچانک یاد آجاتا ہے کہ "اسلام میں عورت کا مقام بلند ہے۔اسی لیے کوئی ایک دن مخصوص کرکے منانا ناجائز ہے۔"

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں