منگل، 30 جون، 2015

مرد روتا نہیں

اس کی بند ہوتی آنکھوں کےسامنے زندگی کی فلم یوں چل رہی تھی جیسے کسی نے "ریوائنڈ"  کرکے "فاسٹ فارورڈ" کا بٹن دبا دیا ہو۔۔
چولہےکےگرد بھاگتا ٥ سالہ بِلو اماں سے ادھ جلی لکڑی سے "پاسے" سینکوا رہا تھا۔جب ابا ٹوٹی پھوٹی سائیکل لیےگھرمیں داخل ہوئے۔ بِلو نےجان خلاصی ہونےپر ابا کا ٹفن بھاگ کر تھاما اور ایک ہاتھ سے آنسو پونچھنےلگا۔ابا نے سینےسے لگایا اور ہمیشہ کی نصیحت کرنے لگے "نہ پتر! مرد روتا نہیں سَجتا۔۔۔پھر ستایا اپنی ماں کو؟" بِلو کا وہی شکوہ "اماں پراٹھانہیں بنا کردیتی ابا۔۔۔" اس لمحے بِلو کی اماں کا واویلا شروع ہوچکا تھا۔۔اور چند ہی لمحوں میں دوپٹہ سرپر باندھ کربین کا وہی سلسلہ جاری تھا جس سے بِلو کو گھبراہٹ ہوتی تھی۔

اماں کوپڑوس کی دیوار سے لگےگھنٹوں بیت جاتے،زمانےبھرکےقصے،بِلو کےابا کی غربت،بے اعتنائی اورگونگےکاگُڑ کھائے رہنےکا رونا روتے اپنےساس سسر کو کوسنے دینےسےباز نہ آتیں۔ جو بِلو کی ماں کو "جہنم" میں جھونک کر
خود کسی بس حادثےمیں گزرگئےتھے۔۔۔۔گزشتہ دنوں ماں نے چارپائی ہی پکڑ لی تھیآج بھی بہت دن بعد اماں اپنی روٹین پر واپس آئی تھیں، اور اب پڑوسن کیساتھ رازونیاز کاسلسلہ جاری تھا۔ایک بار پھر کسی خالہ نسرین  کی "مدد" سے جانےکونسا "قصہ" ختم کرنےکاذکر ہورہاتھا۔۔۔۔شام کو پھر وہی معاملہ،اماں چیخ چلا کر کم آمدن کا رونا رو رہی تھیں اور ابا تسلیاں دے رہےتھے۔بِلو کو محسوس ہواکہ ان کی آنکھیں شاید بھیگی سی تھیں مگر پھر یاد آیا کہ ابا تو کہتے ہیں "مرد روتےنہیں۔"

آج گلی کےبچوں نےاسےخوب پیٹا تھا۔کرکٹ کھیلتےایک زوردار شاٹ سے گیند شیخ صاحب کے لان میں جاگری تھی،جہاں سے وصولی ناممکن سمجھی جاتی تھی۔شکرہواکہ بڑا بھائی کام سے واپسی پر اُس گلی سے آرہا تھا،بِلو اسی کےسینےمیں چھپ کربلکتارہا۔دل ہلکا ہوا تو بھائی نے کہا "کتنی بار سمجھایا ہے بِلو۔۔۔۔مرد ہوکر روتا ہے یار؟ کیا کہیں گے لوگ؟ چل ہنس دے، کل لا دوں گا تجھےگیند۔"

میٹرک کےامتحان ہونے والےتھےاور بِلو کو ایک ہی دھن سوار تھی کہ پرچے اچھےہوجائیں تاکہ وظیفہ اور کالج پڑھائی کا انتظام ہوسکے۔گھر میں ایک وہی تو تھا جو "ویہلیاں" توڑ رہا تھا۔ورنہ تو ابا سارا دن ریلوے ٹریک پر کانٹے بدلتےاور بڑا بھائی درزی کا کام سیکھ کراب کاریگر کماؤ پوت بن چکا تھا۔۔بِلو سے دوسال بڑی بہن میٹرک کےبعد گھرپرہی اماں سے ہدایات لےکرمحلےبھرکےکپڑےسلائی کرتی تھی۔
۔مناسب گزر بسر چل رہی تھی،ریلوے کی جانب سےکوارٹر بھی ملاہواتھا۔ہاں مگر اماں کا رونا ختم ہونے کا نام نہیں لیتا تھا۔بشریٰ کے جہیز اور ابا کی ریٹائرمنٹ پررہائش ان کے پسندیدہ موضوعات تھے،جونہی ابا گھرمیں داخل ہوتےیوں محسوس ہونےلگا تھا کہ ایک عذاب بھی اٹھا لاتے جو اماں کی بدزبانی اور طعنوں کی صورت میں آدھا محلہ سنتا تھا۔۔

بِلو نے میٹرک امتحانات میں بورڈ بھر میں ٹاپ کیا تھا۔اور جب اسےاطلاع ملی تو آنسوؤں کا ایک سیلاب اُمڈ آیاتھا جسے بڑی مشکل سے اندر ہی گراتا رہا،مگرابا اسے گلےلگاتے رو پڑے تھے۔اس نےپہلی بار انہیں روتے دیکھاتھا۔ گھبرا کر ان کے گال پونچھے اور انہی کی نصیحت دہرانے لگا "ابا مرد ہوکر رو رہے ہیں؟" ابا کھلکھلا کر ہنس دیتٓے اور جیب سے پیسے نکال کر بولے "جا میرا سیانا لائق پتر ! مٹھائی لے آ سب کے لیے۔"

بِلو نے پرائیویٹ ٹیوشنز پڑھا کر،عید تہوار پرمختلف سٹالز لگا کر اپنی تعلیم کا بوجھ ابا اور بھائی پرپڑنے نہ دیا،اور ایک روز اماں کو پورے اٹھائیس ہزار بشریٰ کےجہیزکیلیے پکڑائے توان کی پھٹی آنکھوں میں سوال دیکھ کر بولا "رکھ لے اماں۔۔۔۔دوٹیوشن فیس کی کمیٹی ڈالی ہوئی تھی ۔تجھے بتایانہیں تھا۔۔اب بس ابا سے مت جھگڑنا۔" مگر وہاں تو سوالات کا نیا سلسلہ شروع ہوچکا تھا،کتنے کماتا ہے؟ آج تک کبھی ماں کو حساب نہ دیا،میسنے کے گُن کھل رہے ہیں۔۔۔۔باپ کی ہی اولاد ہیں ،ماں کس کھاتے۔۔۔۔۔۔۔۔۔

وقت سرکتا رہا۔وہ اب بِلو سےابا کا انجینئر پتر فلک شیر بن چکا تھا۔ابا کی ریٹائرمنٹ کےبعد پہلےکرائے پر فلیٹ  اور اب اچھےعلاقےمیں ٥مرلے کا ذاتی گھرتھا۔بڑےبھائی کو پھوپھا نےسعودیہ بلوا لیا تھا۔بشریٰ بھی وہیں تھی اور پھپھو کی بہو بن کر عیش کررہی تھی۔اماں کی بہرحال ناشکریاں ختم نہیں ہوسکی تھیں۔پہلے پڑوس کی دیوار تھی اور اب بہن کیساتھ موبائل فون پر زمانے بھر کی برائیاں۔

خالہ کی ١٢ پاس بیٹی فلک شیر کی بیوی بن کر کیا آئی،گھر کے رنگ ڈھنگ ہی بدل گئے تھے۔بِلو کو محسوس ہوتا کہ وہ اب اپنے ابا کا کردار نبھانے لگا تھا۔کتنا انکار کیا تھا اُس نےاِس رشتےسے،مگر اماں نے بھوک ہڑتال اور ہر طرح کی بلیک میلنگ سے باپ بیٹے کو راضی کرلیا تھا۔اماں کا ماننا تھا کہ باہر سے آئی بھی تو عیش کرےگی ،اپنی بھانجی لائیں گی تو کم از کم عزت تو کرے گی۔وہ الگ بات کہ شادی سے ڈیڑھ ماہ بعد وہی بھانجی تھی اور وہی اماں کے کوسنے۔

  فلک شیرکی بیوی شائستہ (محض نام کی) ہوبہو اپنی خالہ یعنی بِلو کی ماں کا عکس تھی۔۔۔۔شاید یہی وجہ تھی کہ زندگی کچھ ردو بدل لیے پھر وہی کہانی اورپرانے رویوں کاچلن اٹھائے نئےاداکاروں کےساتھ اپنا کھیل دُہرا رہی تھی۔

آج بھی بات تو کچھ ایسی خاص نہ تھی،بس وہی ساس بہو کا معمول کا جھگڑا تھا۔ادھر فلک شیرکو کسی حاسد نے انکوائری میں پھنسا دیا تھا۔دفتر سے پریشانی کی حالت میں نکلا،مگر گھر پر توایک طوفانِ بدتمیزی برپا تھا۔ماں اسے "زن مریدی" کے طعنےدےرہی تھی اور شائستہ بیٹے کےساتھ میکے جانے کیلیے سامان باندھےکھڑی تھی اور چلاتی جارہی تھی کہ "بڈھے بڑھیا کو ہی سینے سے لگا کر رکھو،اب الگ گھر لو گے تو بیٹے کی شکل دیکھنے آ جانا۔" اماں کے طنز کے نشتر بھی جاری تھے۔۔۔اور لاکھ روکنے پر بھی وہ فلک شیر کےسینےسےلگا اکلوتا بیٹا چھین کر لےجا چکی تھی۔۔۔ویران کمرے کی دیواریں گھورتےاسے جبڑے میں کھنچاؤ محسوس ہورہا تھا کہ ابا کمرے میں داخل ہوئے تو دل چاہا کہ 
وہی ٥ سالہ بِلو بن جائےاور ان کے سینے سے لگ کر پھوٹ پھوٹ کر رو دے مگر اس کے کانوں میں ابا کی آواز گونجی "حوصلہ کر پتر! مرد ہمت والا ہوتا ہے۔معاملہ دو چار دن میں ٹھنڈا ہوجائے گا تو جاکر لے آنا۔"
رات جانے کس پہر بِلو گھٹی گھٹی آواز میں "اماں ،ابا" پکارتا ان کے کمرے کے سامنے گر گیا۔۔۔۔۔آنکھیں بند ہوتے دو آنسو لڑھک گئے تھےاور زندگی کی فلم جھکڑ کی مانند چل رہی تھی۔۔۔۔۔۔۔۔

بدھ، 24 جون، 2015

امپورٹڈ مال

ماموں نے پیناڈول کی دو شیشیاں نکال کر نانا کو تھمائیں اور واپس ہینڈ بیگ پر جھک گئے۔شاید وہی خوبصورت medicine organiser تلاش کررہےتھےجو نانا ابو کی معمول کی ادویات یاد رکھنےکیلیےلایا کرتے تھے۔علینہ کے نانا دل کے مریض ہیں اور اپنی اولاد کے بہت لاڈلے دوست بھی۔۔۔ جونہی ماموں نے "مطلوبہ شے" برآمد کی اسی لمحے روبی خالہ کمرےمیں داخل ہوئیں اور نانا کے ہاتھ میں ادویات دیکھ کر ان کی آنکھوں میں ویسی ہی چمک لپکی جو چوزے کو دیکھ کر بلی کی نگاہوں میں آتی ہے۔
علینہ کی خالہ روبی عجیب عادت کی مالکن ہیں۔ جونہی ان کے سامنے کوئی پیناڈول / پیراسِٹامول نگلے بلکہ گلہ صاف کرنے کیلیے اسٹریپسیلز ہی کیوں نہ کھائے،خالہ کو سر درد،گلےمیں خراش اور بخار کی سی کیفیات محسوس ہونے لگتی ہیں۔اور بچوں کی طرح "گولیوں ٹافیوں" میں اپنا حصہ وصول کرکے فوراً جوس کیساتھ نگلنا اپنا فرض گردانتی ہیں۔

ہر سال علینہ کے ماموں لندن سے پاکستان کے "دورے" پر آتے ہیں تو نانا کےلیے پیناڈول کی شیشیاں لاتےہیں اور جب یہ "سازوسامان" روبی خالہ کی نظروں میں آتا ہےتو فوری طور پر ٹانگوں،سر اور کمر میں درد کی شکایت کا واویلا شروع ہوجاتا ہے۔لہذا جلدی سے آدھی شیشی پیناڈول کے "گولے" ان کو پرانی بوتل میں انڈیل کر دےدیے جاتےہیں۔

خالہ کو چھیڑنے کے واسطے جب بھی پوچھا جائے کہ "کیا پاکستان میں یہ ادویہ نہیں ملتیں ؟ تو جواب ہوتا ہے "تمہیں نہیں پتہ،باہر سے آئی دوا خالص ہوتی ہے۔۔فوراً اثر کرتی ہے،پاکستان میں تو سب ملاوٹ اور لوٹ مار ہے۔" یہ معاملہ ادویات تک رہتا تو بھی بات تھی۔مگر ایک طویل فہرست تھی جو کہ پاکستان میں ہر بڑے اسٹور پر دستیاب ہے لیکن کیا کیا جائے کہ "باہر سے آیا مال"  کبھی اس "لوکل" شے کا مقابلہ نہ کرپایا تھا۔۔۔۔"امیریکن روسٹڈ بادام" ہوں یا چمکتے فرش کو مزید چمکانےکیلیے مخصوص طرز کے
 sponge mops ۔ ٹوتھ پیسٹ ہو یا موبائل فونز۔۔۔غرض یہ کہ آسٹریلیا، ڈنمارک، برطانیہ اور امریکہ میں مقیم سب رشتہ داروں پر فرض تھا کہ پاکستان آنے سے قبل روبی خالہ سے ان کی فرمائشی فہرست پوچھی جائے کہ پاکستان میں وہ 'معیار' نہیں ملتا۔خالہ کا تو حال یہ ہے کہ ڈرامہ بھی پاکستانی پسند نہیں آتا۔ایک وقت تھا کہ الارم لگا کر رات کے دو بجے اٹھتی تھیں،وجہ کسی "کُم کُم" نامی بیوہ کی اس کے دیور سے شادی کروانا مقصود تھی۔پھر نگوڑ مارا "میرا سلطان" آگیا اور دنیا نے دیکھا کہ علینہ کے بھائی کے ولیمے پر "حورم" بنی گھوم رہی تھیں۔خالو کا بھی حال یہ ہے کہ ملکی خبروں میں کم اور پڑوس میں جھانک کر دیپیکا نامی اداکارہ کی آنے والی فلم کے قصےسناتے پائے جاتےہیں۔انہیں کوئی خبر بتادیجیے،کوئی ملکی معاملہ ہو جواب ہوتا ہے "اچھا؟" اور لگے ہاتھوں پوچھنا نہیں بھولتے کہ فلاں بین الاقوامی نشریاتی ادارہ کیا کہتا ہے اس بارےمیں؟ ۔ حتیٰ کہ برائیلر کی قیمت بڑھے یا کم ہو،تصدیق انہیں "باہر" سے ہی درکار ہوتی ہے۔

ہمارے ہاں ایک خبر مہینوں گردش میں رہے گی،سامنے کا معاملہ ہوگا مگرکیا مجال ہے کہ عوام و خواص کے کان پر جوں بھی رینگ جائے۔وہی بات،وہی خبر حتیٰ کہ ایک پرلے درجے کی گھٹیا پریس کانفرنس ہی کیوں نہ ہو جونہی کسی بین الاقوامی نشریاتی ادارے کی زینت بنے گی تمام گردنیں ایک ہی سمت میں مڑ جاتی ہیں۔ مخالفین کو فوراً حُب الوطنی کا مروڑ اٹھتا ہے، سر میں حق سچ کا درد ہوتا ہے اور جناب سر پر کفن باندھے "غدار' "دشمن ایجنٹ" اور "کافر" تو کیا "واجب القتل" کے فتوے صادر کرتے سب چاقو چھریاں تیز کرکے میدان میں پیشہ ور قصاب بنے حاضر ہوجاتےہیں۔اگرچہ معاملہ بیشتر کا وہی موسمی قصاب والا ہوتا ہے جو عیدِ قربان پر ایسا گوشت بناکر جاتےہیں کہ مجال ہے آپ کوایک چانپ سلامت مل جائے یا گردن کے حصے کا گوشت سمجھ آجائے۔

بھیا جب تک "امپورٹڈ" کا ٹھپہ نہ لگا ہو ہم تو ٹوائلٹ کلینر پر بھروسہ کرنے سے کتراتےہیں چہ جائیکہ کوئی خبر۔ ردِعمل اور مسلسل تیزابی ردِ عمل انسان میں تعصب اور خود پسندی کے علاوہ دوسروں سے نفرت اور دوری کا پیش خیمہ ہوتا ہے۔صرف خود کو ہی راست گو اور حق پر سمجھنے والا انسان دلدل میں دھنسے رہنا پسند کرتا ہے بلکہ کسی کو مدد کرتے دیکھےتو اس کو بھی اسی کیچڑ زدہ ماحول میں کھینچ لیتا ہے۔اور یوں الزام تراشی اور بہتان کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ چل نکلتا ہے۔

بہرحال "امپورٹڈ مال" دیکھ کر رال ٹپکاتے بلا ضرورت چورن کی "خریداری" سے پرہیز اکثرہی بےوقت کی بدہضمی سے بچالیتا ہے۔ اللہ کرے یہ بات کسی کو سمجھ نہ آئے کیونکہ علینہ کی روبی خالہ تو خاندان کی ہر محفل کا پسندیدہ موضوعِ سخن ہیں۔تقاریب پھیکی ہوجائیں گی جناب۔

بدھ، 17 جون، 2015

خون آشام ہجرت

ہجرت کا لفظ جواس کی یاداشت میں محفوظ تھا شایدپہلی بار دادی مرحومہ اور ابا کی پھپھو حسین بی بی ،جنہیں سب پیار سے "سینی بوا" کہتےتھے،ان ہی کے منہ سے سنا تھا۔۔۔
شیریں کے ددھیال کا تعلق تقسیمِ ہند سے قبل جالندھرشہر سےتھا۔اس کےدادا گھرکےسب سےچھوٹےبچےتھے۔ان کے ابا ریلوےمیں ملازم تھے اور بڑے بھائی مجسٹریت کے ریڈر جبکہ دوسرے بھائی فوڈگرین انسپکٹر تھے۔
شیریں نے داداجی کو اگست کے مہینےمیں ہمیشہ رنجور اور خاموش ہی دیکھا۔اسے یاد ہےکہ ایک باراس کی دادی اپنی نندکےساتھ چپکےچپکےباتیں کررہی تھیں اور ساتھ میں گڑ والی چوری کی تیاری میں مشغول تھیں۔وہیں باورچی خانےکی چھوٹی سی "پیڑھی" پربیٹھےاس کا ننھا سا ذہن ان خواتین کی باتوں سے منظرکشید کررہاتھا۔
دادا کی بڑی بہن تایاکے ہاں لدھیانہ بیاہی گئی تھیں اور ان کےہاں پہلےبچےکی پیدائش تھی لہذا منجھلی بہن کوبڑی کی سہولت کے لیے بھجوایا گیا تھا۔دادا ان دنوں بہت شریرمگر ذہین بچےتھے۔سکول سے واپسی پر اپنی اس بہن حسین بی بی کو چپکے سے اناج والے گودام میں پڑھاتے تھے۔پھر ایک شام یوں ہواکہ راتوں رات انہیں وہ اناج کا گودام اور بڑے سے گھر کا آنگن خاموشی سے چھوڑنا پڑا۔دادا نے سر پر کتب کا ٹرنک اٹھا رکھا تھا۔اطلاع یہی تھی کہ لدھیانہ والے بھی نکلنےکی تیاری میں تھےاور انہیں لاہورہی ملیں گے۔مگرننھی شیریں نے سینی بوا کی لال آنکھیں اور بھیگی پلکوں کولرزتے ہاتھوں سے پونچھتے دیکھا ۔جانے کیا کہہ رہی تھیں کہ "بلوائیوں" کا حملہ ہوا اور قافلہ دولخت ہوگیا۔بچوں کو کچھ بڑوں کےساتھ ٹرین میں سوار کروادیاگیاتھا۔ سینی بوا پیڑھا گھسیٹ کر اس کی پھپھوجان کوسرگوشی کررہی تھیں۔۔۔"لاہور ریلوے اسٹیشن پہنچےتو ننھا اور میں اپنوں کی لاشوں میں دبےسانس لےرہےتھے۔"جہاں سے انہیں کیمپ پہنچایا گیا ۔ پھرخاندان کےکچھ دیگر افراد بھی ملتےگئے۔نہیں آئیں تو لدھیانہ سے وہ جوان دو بہنیں۔۔۔٦ سالہ شیریں کو سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ سینی بوا نے یہ کیوں کہا "بڑی کے پیٹ پر برچھیوں کے وار سے بچہ اور ماں مرگئے اور چھوٹی نے کنوئیں میں چھلانگ لگا دی۔۔۔"اس ساری گفتگو میں ننھی کےذہن میں فلم کی طرح مناظر چل رہےتھےاور دادی کےہاتھ سے گڑ والی چوری اس کا حلق کڑوا کررہی تھی۔
بڑے ہونے پربہت عرصہ تک دادی یا سینی بوا سے پوچھنےکی ہمت ہی نہ ہوتی تھی،ان خواتین کی پیلی رنگت یاد کرکےشیریں خوف زدہ ہوجاتی۔دادی کو جب بھی کریدا تو انہیں ایک ہی غم رہتا تھا کہ ہجرت کےوقت آنکھوں کی وبا پھیلی تھی۔۔ان کا بڑا بھائی اسی میں مبتلا ہوکربینائی گنوابیٹھا۔ان کےبھائی کو دکھائی نہیں دےرہاتھا سہارا دے کررفعِ حاجت کیلیے لےجارہی تھیں کہ حملہ ہوگیا اور دادی اپنے ننھے ہاتھ جوڑکرمنتیں کرتیں "میرا بھائی نابینا ہے،اسے کچھ مت کہو۔۔۔" دادی نے اپنی چاندی کی ننھی بالیاں کانوں سے نوچنےپرچیخ دبالی تھی۔ ان کےکان کی لودوحصوں میں بٹی دیکھ کر ہمیشہ جھرجھری آجاتی تھی۔
شیریں نےجانے ایسی کتنی ہی خون آشام ہجرت کی داستانیں کتنے ہی بزرگوں سے سن رکھی ہیں۔یونہی بچپن میں ننھیال جانا ہوتا تو وہ بچوں کےساتھ کھیلنےکی بجائےاماں کےدادا کو کریدتی رہتی۔اور وہ اکثر ہی اخبارکےپیچھےآنسو چھپاتے کچھ نہ کچھ بتاتے تھک جاتے اور پھر ڈپٹ کر کھیلنے بھیج دیتے۔یہ لوگ وہاں ہندوستان میں اپنی حویلی چھوڑ کرنکلےتھے۔۔شیریں کےنانالاڈلےاتنےتھےکہ ہجرت  کےوقت ٥ برس کےہورہےتھےمگرابھی تک صحیح سے پاؤں پاؤں چلنا نہیں سیکھا تھا۔بڑی بہن اور پھوپھی ماں ہمیشہ گودمیں سوار رکھتی تھیں۔اورجب پاکستان آئے زمین جائیداد توچھوڑی ہی جانےکتنےکلو کے حساب سےسونابھی لُٹا کرآئے۔جب یہاں کلیم کیا گیا تو کسی ہندو کا گھرمِلا۔حویلیوں کے مالک ٦ خاندان ایک ایسے گھرمیں رہنےلگےجہاں سونےکی دیگ اس وقت کا کمشنر"بحقِ سرکار" لےگیاتھا۔اور نانا کےابا سے سنا تھا کہ جنہیں وہاں "کَچوں" میں بیٹھے دیکھا یہاں آ کر کلیم میں فقط ٢ گواہان کےبل بوتے حویلیاں سنبھال کر بیٹھ رہے۔واللہ العلم بالصواب۔
اللہ نے ایک خاندان کی نیتوں کو پھل لگایا۔دوسرے کےنوجوانوں کی تعلیم نےبہترنوکریوں کے راستے کھولے۔اوریوں ہجرت کےبعد زندگی کا نیا آغاز ہوا۔شیریں مگراگست شروع ہوتے ہی بزرگوں کےچہروں پر خوشی اور بےچینی ہی دیکھا کرتی۔آج بھی١٤ اگست پرچراغاں میں ان کی جھلملاتی لال آنکھیں اسےہمیشہ پریشان کرتی ہیں۔
حیرت تب ہوتی ہےکہ جب ہجرت کی داستان سنانےکےباوجود "مہاجر" لفظ کہیں سنائی نہیں دیتا۔پوچھا تھا بچپن میں۔۔۔دادا نےجواب دیا "کیاضرورت ہےزبردستی احساسِ کمتری طاری کرنےکی۔اس ملک کےلیے آئے،اس نے آغوش میں لےلیا اور ہمیں ہماری صلاحیتوں سے بڑھ کر نوازا۔ جس وقت "سینی" کےساتھ اپنوں کی لاشوں میں دبا رو رہا تھا تب ہی فیصلہ کیاتھاکہ ہجرت کرلی۔اب پیچھےکی سوچ ختم۔"
ہمارے ہاں ہجرت بھی تو دو بار کی گئی۔۔حیرت ہوتی ہے ١٩٤٧ء والےالگ داستان سناتےہیں اور ١٩٥٢ء والے کچھ اور ہی قصہ بتاتے ہیں۔
سنا ہے تب ٹرینوں میں لاشوں تلے دبے زندہ انسان نہیں آئے تھےاور نہ ہی
خاندان کی بچیوں نےعصمتوں کی قربانی دےکرکنوئیں میں چھلانگ لگائی اورنہ کوئی وہیں "مالِ غنیمت" کی صورت بچھڑ گئی۔
شیریں کو بہت بری عادت ہے،جہاں کسی بزرگ کو دیکھتی ہے۔۔فٹ انہیں اِدھر اُدھرکی باتوں میں لگا کر ١٩٤٧ء کی ہجرت  پر بات کرنے کےلیے اکسانے لگتی ہے۔اماں سے ہمیشہ ڈانٹ پڑتی ہے کہ کیوں زخم ادھیڑتی ہو بڑوں کے۔مگر اسے تو جاننا ہےکہ شاید کبھی تو کوئی خود کو "مہاجر" کہہ دے۔

جمعرات، 4 جون، 2015

ذکر لاہور میٹروبس سفر کا



اب کی بار لاہور 2 برس بعد جانا ہوا توگھرسےہی فیصلہ کیاتھاکہ میٹرو بس پراجیکٹ بارے جتنا سن رکھا ہےدیکھنا تو چاہیےکہ واقعی ایسی ہی آرام دہ اور وقت کی بچت والی عوامی سہولت ہے یاکچھ لچھےداروضاحتیں زیادہ ہیں۔
گھرسےگاڑی میں سوار میٹرو کا سفر کرنےکا ارادہ لیے نکلےاور اچھرہ کارپارکنگ میں ڈرتےڈرتےگاڑی پارک کی۔آپس کی بات ہےدل میں آیت الکرسی پڑھ کربھی پھونک دی۔ادھرسےسڑک پارکریں تودوسری جانب بیسمنٹ میں ٹکٹ گھرہے۔
       
صفائی کا انتظام دیکھ کر کچھ اطمینان ہوا وہ الگ بات کہ
 ہم بحثیت قوم اپنا فرض سمجھتےہیں قومی املاک پراشتہاربازی،ذاتی رابطہ نمبر نتھی کرنا۔اور یہی سوچ تشدد سکھاتی ہے کیونکہ سکھایا تو گیا ہی نہیں کہ ریاستی عمارات و املاک آپ کےمعاشرےکی آئینہ دار ہیں۔ابھی یہ نمونہ دیکھیے۔


بہرحال ہم ٹکٹ گھر کی جانب بڑھےجہاں سے آپ کو بیس روپے میں ٹوکن ملتا ہے اور شاہدرہ سے گجومتہ آپ 27 اسٹیشنز میں سے کہیں بھی اپنی منزلِ مقصود تک سفر کرسکتےہیں۔ہمیں فی الحال پہلے بھاٹی چوک جانا تھا۔ٹکٹ خریدے اور اوپر بس اسٹیشن کی جانب بڑھ گئے۔یہاں اوپر جانے کیلیے برقی سیڑھیوں کی سہولت فراہم کی گئی ہے۔
                                                
پہلےتو ٹوکن ایک ریڈ ایبل مشین سےچیک ہوتاہے اورپھرایک ایک کرکےمسافرآگےبڑھتےہیں ۔۔۔یہاں آپ کو بینچ بھی ملیں گے،پینے کا ٹھنڈا پانی اور گرمیوں میں پنکھےبھی ہر بینچ کے عقب میں موجود ہیں۔



ابھی تک مجھے سب کچھ بہترین معلوم ہورہاتھا۔۔خاص کر خواتین کیلیے یہ نظام نہ صرف سہولت والا ہےبلکہ محفوظ بھی سمجھا جاسکتا ہے۔میری اس بات کی تائید آگے چل کر وہ لوگ ضرور کریں گےجنہوں نے پبلک ٹرانسپورٹ میں کمر دہری کرکےگرمی میں جوتیاں چٹخائی ہیں اور جن خواتین نے ان بسوں میں مردوں کی بدسلوکی سہہ رکھی ہے۔
ایک اندازے کے مطابق ہر تین منٹ بعد ایک میٹرو بس آتی ہے اور خود کار نظام کےتحت یہ شیشے کےدروازےآپ کیلیے کھل جاتےہیں۔بس آئی اور ہماری والدہ محترمہ ہم سے پہلے سوار ہوکر یہ جا وہ جا۔جبکہ ہم لوگ منہ تکتے رہ گئے۔یہ بھی لطیفہ ہی تھا۔بہرحال اگلی بس کچھ وقفے سے آئی اور ہم بھی بھاٹی چوک روانہ ہوگئے۔مطلوبہ اسٹیشن پر اترے۔اوریہاں جب اوپر سے ٹریفک کے حالات دیکھے تو صحیح معنوں میں اندازہ ہواکہ میٹروبس لاہور جیسے گنجان آباد شہر کیلیے کتنی ضروری تھی۔




یہیں ایک جانب حضرت علی ہجویریؒ المعروف داتا صاحب کا دربار ہے،اور اس کے ارد گرد آپ کو لاہور کے رنگ بکھرے ملتے ہیں ۔انواع و اقسام کےدیسی لوازمات اور لنگر بھی۔
  


یہاں سے فارغ ہوکراب بزرگوں کوگھر واپسی کا ٹکٹ لے کر دیا اور ہم نے گجومتہ کے ٹکٹ خریدے۔۔۔مجھے لوگوں کی رائے جاننی تھی اور آخری اسٹیشن تک سہولت کا جائزہ بھی لینا تھا۔
کچھ مسافروں کے تاثرات انہی کی زبانی بیان کررہی ہوں۔۔۔
عارف صاحب کا کہنا تھا "سگنل فری ،ہر تین منٹ بعد بس آتی ہے۔وقت کی بچت اور حادثات سےبھی حفاظت ہے۔" ایک خاتون جنرل ہسپتال سے بلال گنج کا سفر گزشتہ 5 روز سے کررہی تھیں ۔ان کا بیٹا وہاں داخل تھا۔سہولت سے خوش تھیں اورواحد گلہ جو کیا "بیٹا سیٹس کم ہیں۔" قینچی سے گجومتہ جاتی ایک آنٹی کا کہناتھا کہ "روزانہ سفر کرتی ہوں۔لوگوں کےگھروں میں کام کرتی ہوں۔پہلےبہت کھپ جاتی تھی،کرایہ،وقت،دھکے۔مگراب بہت سہولت ہے۔"میں نے مسکراتے ہوئے ان سے پوچھا کہ "جنگلہ بس سروس" پسند ہے؟ تو غصے سے بولیں"باجی جو اسے جنگلہ بس کہتےہیں ان کی اولادوں نے سفر نہیں کرنا اس میں یہ ہماری سواری ہے اور عوام اسے میٹروبس سروس ہی کہتے ہیں۔" ملتان سے ایک خاندان لاہور سیر کیلیے آیا ہواتھا۔ان کے سربراہ کا کہنا تھاکہ "ہم ملتان والوں کا بھی حق بنتا ہے ایسی سہولت پر،وہاں بھی یہ منصوبہ ہوناچاہیے۔خواتین کیلیے نہایت محفوظ اور آرام دہ سفر ہے۔" بچے کافی خوش دکھائی دے رہے تھے
                     

سنیتا روزانہ یوحنا آباد سے شمع تک کا سفرکرتی ہیں اورنہایت مطمئن دکھائی دیں۔میں مذاق میں پوچھا "گالاں شالاں تے نئیں کڈدے؟" تو قہقہہ مار کر کہنے لگیں" اک تے سہولت اُتوں گالاں؟ اے رواج ساڈے 'چ نئیں ہیغا،جتھوں آیا سی اوہناں واسطےکون نکلیا فیر؟" ایک صاحب میانوالی سے تعلق رکھتے تھے مگر روزگار کےسلسلےمیں لاہورمیں مقیم تھے۔وقار صاحب کا کہنا تھا کہ انہوں نے کارڈ بنوا رکھا ہے جس کے باعث ٹوکن کیلیے قطارمیں کھڑے ہونے کا بھی وقت بچ جتا ہے اور کبھی دفتر پہنچنےمیں تاخیر کا سامنا نہیں ہوا۔شکوہ ان کا محض یہ تھا کہ رش بہت ہوتا ہے۔
ایک اماں جی سے گفتگو ہوئی تو اس خوبصورتی سے لاہوری سٹائل میں تسلی کہ مجھے ہنسی آگئی۔۔"پتر اوئے! لاہور پہلےوی شریفاں دا سی،ایس سہولت نے ساڈے دل جِت لے نیں۔لہورنئیں اوں بند ہونا کدےکسی آستے۔"
فارماسوٹیکل کمپنی میں کام کرتی ماریہ کا کہنا تھا کہ "ٹیکسی کا کرایہ اور پبلک ٹرانسپورٹ کی خواری،میں دونوں بھول چکی ہوں۔میرے خیال میں پاکستان کے تمام بڑے شہروں میں میٹروبس کی سہولت ہونی چاہیے۔" میں مسکراتی آگے بڑھ گئی۔
ایک بچی ٹیوشن سینٹر جارہی تھی اور اس کا کہنا تھا "انڈر پاس میں کبھی کبھار روشنی کم ہوتی ہے،مگر میں اسے سب سے محفوظ سفر سمجھتی ہوں،مردوں کا سیکشن الگ ہے نیز بھکاریوں وغیرہ کا بھی کوئی سلسلہ نہیں ہے۔وقت کی بچت الگ ہے۔"
فیصل بینک سے ایک خاتون اقراء بھی اسی بس میں سوار تھیں ۔ ان کا کہنا تھا"اسلام آباد سے شفٹ ہوئی ہوں،4ماہ سے اپنی گاڑی ہونے کےباوجود میٹرو بس کی سہولت سے فائدہ اٹھا رہی ہوں۔" پوچھا کہ سیٹس کی کمی بارے کیا رائے ہے تو جواب تھا "نشست یا معزوراوربیماروں کیلیے ہوتی ہےیا بزرگوں کیلیے ضروری ہے۔اُس تعداد میں موجودہیں۔باقی لوگوں کا شکوہ کرنا بنتا نہیں ہے۔"
 

  


آخری اسٹیشن گجومتہ آیا تو ہم اتر کر کچھ تصاویرتارنے لگے اور واپسی کا ٹکٹ خریدا۔اب ہماری منزل یادگار چوک تھی۔بھوک لگ رہی تھی لہذا فوڈ سٹریٹ جانے کا ارادہ تھا۔

 
واپسی پھر کچھ لوگوں کے تاثرات جاننے کی کوشش کی۔یہاں ایک صاحب واسا ملازم تھےجوکہ 6 ماہ سے میٹرو بس استعمال کررہے تھےان کے ساتھ ایک بھائی صاحب لاہورڈویلمپنٹ اتھارٹی میں ملازم تھے جو کہ 4 ماہ سے اس میٹروبس سہولت سے فائدہ اٹھا رہےتھے۔دونوں کا کہنا تھا کہ وقت اور کرائےکی بچت کےعلاوہ دھکم پیل سے بھی چھٹکارہ ہوچکاہے۔ان کا مطالبہ تھاکہ بسوں کی تعداد بڑھائی جائے۔

 

کراچی سے 14 افراد کا کنبہ لاہور دیکھنے آیا تھا اور ان لوگوں کے چہروں کی خوشی دیدنی تھی۔رفیق صاحب کاکہناتھا" ہمارے ہاں کہتے ہیں جس نے لاہور نہیں دیکھا وہ "جمیا" ہی نہیں۔تو ہم اسے سچ کرنے آئےہیں۔" ان کی بیٹی جرمنی سے 6 سال بعد آئی تھی اور اسی کیساتھ لاہور سیر کوخاندان سمیت نکلے تھے۔سب کا کہنا تھا "کراچی کو اس سہولت کی سب سے زیادہ ضرورت ہے۔وہاں بھی میٹروبس منصوبہ آنا چاہیے۔" سر ہلاتے تائید کرنا مناسب جانا۔
دو بہنیں کسی جنازے پر جا رہی تھیں ان کے بقول "پہلے کسی خوشی غمی میں آنے جانے کو تمام دن خرچ ہوجاتاتھااور جیب پر بھی بہت گراں گزرتا تھا۔مگر اب 20 روپےمیں آدھےگھنٹےمیں پہنچ جاتےہیں ۔"سب مسافروں کا ایک ہی بات پر اتفاق تھا کہ پبلک ٹرانسپورٹ کی طرح یہاں عملےکی بدتمیزی نہیں ہے۔

بتاتی چلوں کہ شاہدرہ سے گجومتہ،ستائیس اسٹیشنز کا فاصلہ ایک گھنٹہ تین منٹ میں طے ہوتا ہے۔
آزادی چوک آیا اور گزر گیا۔مجھے دھیان نہیں رہا اوربچہ پارٹی وہاں اتر کر مجھے فون کررہی تھی "باجی کدھر رہ گئیں ؟" اور میں نیازی چوک اترکر نیا ٹکٹ لیے دوسری بس میں سوار ہوکر آزادی چوک اسٹیشن پہنچی۔یہاں فوڈ اسٹریٹ سے لنچ کیا اور کچھ دیر سستائے۔




ہمیں اب اچھرہ اسٹیشن کیلیے ٹکٹس خریدنےتھے،لہذا ٹوکن لیتے وقت اس کونے پر نظر پڑی جہاں کارڈکی سہولت والوں کیلے انتظام موجود تھا۔ادھر ایک نوجوان نے کافی مسئلہ بنا رکھا تھا۔جس کی تسلی پھر سیکیورٹی گارڈ نے خوب کی۔



تمام دن میں صرف ایک ایسی مسافر خاتون سے بات کرنے کا موقع ملا جو میٹرو سہولت سے سخت نالاں تھیں۔پوچھا تو منہ بسور کربولیں "میں جھنگ سےپہلی بار لاہور آئی ہوں،میاں کو کہا تھا ٹیکسی میں شہردکھاؤ،وہ میٹروبس میں لےکر نکل  پڑے۔" مسکراہٹ چھپانا پڑی۔
واپسی پر بس ڈرائیور سے کچھ گفتگو کی۔ یہ بھائی صاحب پہلےنیازی بس سروس میں ملازم تھے مگر میٹرو بس سروس لاہور میں درخواست دی،ٹیسٹ پاس کیا اور اب سکون سے نوکری کررہے تھے۔پہلےدس ماہ تنخواہ سے سیکیورٹی کےنام پردوہزارمنہاکیے جاتےہیں۔پھر پوری تنخواہ ملتی ہے۔شکوہ ان کا فقط یہ تھا کہ عوام کبھی کبھار رش کے باعث تعاون نہیں کرتے۔نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر انہوں نے بتایاکہ "حکومت بہت کوشش کرتی ہے مگر نچلی سطح پر توجہ کی ضرورت ہے۔کچھ لوگوں کو تنخواہ کے ایشوز ہیں ۔جن کی رپورٹ اوپر نہیں جاتی۔" سن کر تاسف بھری نگاہ سامنے سکرین پرمرکوز کردی۔

 



درخواست ہی کرسکتی ہوں کہ میاں شہبازشریف صاحب آپ خادمِ اعلیٰ ہیں تو اس جانب بھی توجہ دیجیے کہ نچلی سطح کی شکایات دور ہوسکیں۔نیزکچھ اسٹیشنز کا تعمیراتی کام ابھی تک ادھورا پڑا ہے۔عوامی سہولت کے پیشِ نظر اس میٹروبس منصوبےکوجلد مکمل کیاجائے۔
شام ڈھل رہی تھی اورجب ہم اچھرہ اسٹیشن پہنچ کر کار پارکنگ کی جانب بڑھے تودرتے ڈرتے گاڑی کی تلاش میں نگاہ دوڑائی۔ سکون ہواکہ بحفاظت موجود تھی۔واپسی پر "بھیاکےکباب" نے تمام دن کی تھکان بھلا دی۔
آج میرے شہرمیں راولپنڈی اسلام آباد میٹروبس کا شاندارافتتاح ہونے جا رہا ہے۔جس کا 95٪ کام مکمل ہوچکا ہےاور امید ہے کہ ان شہروں کے عوام بھی اس سہولت سے مستفید ہوں نیز اس کی حفاظت اسی طرح کریں گے جیسے اپنے گھر آنگن کی کیا کرتے ہیں۔
یہاں کچھ تصاویر میٹروبس لاہور کی بیسمنٹ میں دیواروں پر موجود ان شخصیات کی جو ہماری تاریخ کے سنہری باب ہیں۔۔۔۔۔