بدھ، 11 فروری، 2015

Chapel Hill Shooting

سنا ھے"چیپل ھِل" میں تین مسلمانوں کومنگل کےروزناحق قتل کردیا گیا۔مغربی میڈیانے اسے کوریج نہیں دی کیونکہ یہ قتل ایک غیرمسلم نےکیے۔اگر معاملہ برعکس ھوتاتوایک واویلا ھوتاجوہفتوں بین الاقوامی پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا میں مچایاجاتا۔

ابھی کہیں پڑھا کہ مرنے والوں میں میاں،بیوی اوراس کی چھوٹی بہن شامل تھے۔23 سالہ لڑکا ڈینٹسٹری پڑھ رھا تھا جبکہ اس کی 21 سالہ بیوی اگلی خزاں میں یہی مضامین پڑھنے کا ارادہ رکھتی تھی۔19 سالہ چھوٹی بہن بھی پڑھ رھی تھی۔ لڑکیوں کے والد اردن سے آکر امریکہ میں بسے تھے جبکہ لڑکا "شامی" تھا۔ تینوں کو سرمیں گولیاں مار کر قتل کیا گیا۔
قاتل اور اس کی بیوی محض کار پارکنگ کیلیے جھگڑے کووجہ بتاتےھیں۔ مگر مقتولین کےعزیزواقارب نے پولیس کو بیان دیاھےکہ معاملہ مذھبی انتہا پسندی ھے۔دونوں لڑکیاں سکارف اوڑھتی تھیں،اور اکثر اس قاتل کی بدتمیزی کاسامنا رھا۔جبکہ پولیس نے قاتل کےفیس بک اکاؤنٹ تک رسائی حاصل کرکے وہاں سے اس کے مذھبی جنونی ھونےکے کچھ ثبوت اٹھا لیے ھیں۔
یہ "چیپل ہِل" کہاں ھے، نہیں خبر۔مجھےتویہ اطلاع سماجی رابطے کی ایک ویب سائٹ سےملی کہ تین "طلباء" ایک غیرمسلم کےھاتھوں مارے گئے۔اب مجھ پر فرض ھے کہ ایک ٹرینڈ بناکراس پر بےتکے ھی سہی ٹویٹ کروں تاکہ اپنےحصےکافرض اداھوجائے۔اورجوبھی اس ٹرینڈ میں حصہ نہیں لیتا وہ یقیناً اس مردود قاتل کا حامی ھے ۔"لبرل فاشسٹ" ھی ایسا کرتے ہیں۔اگرچہ مجھے اس کا مطلب تو نہیں پتامگریہی اصطلاح استعمال ھوتی ھےایسے پتھردل لوگوں کیلیے۔

یہ "مغربی میڈیا ہمیشہ ھی ایساکرتاھے۔" اگر نقصان کسی مسلم کے ھاتھوں ھو تواسے اچھالتاھےاور پورے مذھب تک بات کو لیجاتاھے مگر وھی زیاں کسی غیرمسلم نے کردیا تو اسےانفرادی فعل بناکرپیش کیاجاتاھے۔ مان لیا،ایساھی ھوتاھے۔ ہم مسلمانوں نےکبھی اپنے رویوں پر غورکیاھے؟
دور کیوں جاتےھیں،اپنے پاکستانی پرنٹ،الیکٹرانک اور سوشل میڈیا کی مثال لیجیے۔کتنےھیں جنہیں 
اس جے۔آئی۔ٹی رپورٹ سے قبل سانحہ بلدیہ ٹاؤن یاد تھا ۔ماسوائے ان 289 خاندانوں کےجواس رنج کی دوزخ میں ھرلمحہ جل رھےھیں۔یونہی پشاور آرمی پبلک سکول،واہگہ بارڈر،ماڈل ٹاؤن، ہزارہ کمیونٹی، بلوچ مسخ شدہ لاشیں، جوزف کالونی،گوجرانوالہ سانحہ،اینٹوں کا بھٹہ،شکارپور۔۔۔۔ایک طویل فہرست۔۔۔۔۔۔۔۔
سینکڑوں جان سے گئے۔ کتنے قاتل پکڑے گئے؟ کتنوں کا ٹرائل ھورھا ھے؟ کتنے گھرانے ھیں جن کے آنسو پونچھے گئے ھیں؟ ہمارا میڈیا اور ہم عوام خود کتنی تفصیل جانتےھیں مرنے والوں اور ان کے لواحقین کی؟ ہم ایک غیر مسلم کے ھاتھوں تین جانوں کے ناحق زیاں پر ماتم کررھےھیں۔یہاں تو ہزاروں سے جینے کاحق چھیننے والےکیا ایک خدا،رسولﷺ کو مان کر کلمہ طیبہ پڑھنے والے نہیں؟ 

جناب "چیپل ہِل " میں تو قاتل نے خود کو پولیس کے حوالے کردیا۔اور یقیناً اسے کڑی سزا بھی مل جائے گی۔بات انصاف کی فوری اور مکمل فراہمی ھے،جس پر کوئی دو رائے نہیں۔کیا ہمارا نظام اتنا مربوط ھے کہ قاتل کو اس کے جرم کی سزا بروقت دیکر بہتے آنسوؤں کا مداوا کردیاجائے؟ یہاں تو قاتل کوبچانے کیلیےجج کی کرسی سےسبکدوش ھوکر مقدمہ لڑنے نکل پڑتے ھیں اورقاتل کا ماتھا چوم کر مقتول کی انتہائی نجی زندگی بھری عدالت میں اچھالی جاتی ھے۔
مغربی میڈیا کو لتاڑنے سے قبل اپنے گریبان میں تو جھانک لیجیے۔ کہیں حادثہ ھوانہیں اورپہنچ گئے کیمرہ مائیک اٹھائےاور تفصیل پوچھیں گےکہ "جب امام بارگاہ /مسجد میں دھماکہ ھوا تو آپ کیاکررہے تھے؟" نیز بلکتی ماں کومجبور کریں گے کہ ایک سسکی میں بددعا دےکر انصاف کی دہائی ان کے چینل سے نشر ھوجائے۔
باقی یہ کہ اللہ پاک مرنے والوں کے درجات بلند فرمائےاور لواحقین کو صبرِ جمیل عطاءکرے۔آمین

10 تبصرے:

  1. "کیا ہمارا نظام اتنا مربوط ھے کہ قاتل کو اس کے جرم کی سزا بروقت دیکر بہتے آنسوؤں کا مداوا کردیاجائے؟"
    یہی سوال سب سے قیمتی ہے ورنہ دنیا کا کوئی گوشہ نہیں جہاں جنونی مجرم اور بے بس مقتول نہ ہوں ! میڈیا کس واقعے سے ریٹنگ کماتا ہے اور ہم کس کس کو یاد رکھیں اور کس کو بھول جائیں یہ باتیں بھی ہماری " سوشل میڈیا " پر ریٹینگ بڑھانے والی باتیں ہیں اور کچھ نہیں ! ٹرینڈ سیٹ کرنے اور اسکی دھائی دینے سے مسلے حل ہوتے تو کیا ہی بات تھی ! بر وقت سچ لکھنے کا شکریہ افشاں صاحبہ

    جواب دیںحذف کریں
    جوابات
    1. جزاک اللہ الخیر۔۔۔۔۔۔ میری ٹوٹی پھوٹی تحاریر کو ہمیشہ پڑھنے اور قیمتی رائے سے نوازنے کا بہت شکریہ۔۔۔۔ :-)

      حذف کریں
  2. اچھی کاوش ہے.لیکن یہ قوم آپ کی ایسی باتوں کی متحمل نہیں ہو سکتی..یہ شور شرابہ کرنے والی قوم ہے بس.

    جواب دیںحذف کریں
  3. بلھیا عاشق ہویوں رب دا،ملامت ہوئی لاکھ تینوں کافر کافر آکھدے توں آہو آہو آکھ
    پیاری بہن پچھلے دنوں میں بھی اسی اذیت میں رھا۔ مجھے شاتم رسول گستاخ رسول اور کافر کے القابات سے نوازا گیا۔ ھزاروں ٹویٹس اور میلز ملیں۔ گستاخ رسول کی سزا ۔۔۔۔۔ سر تن سے جدا۔ الله سے مدد لیتے ھوے ھر ٹویٹ کرنے والے تک اپروچ کی۔۔۔ اسے احساس دلایا کہ سو کالڈ پڑھے لکھے ھو کر بغیر تحقیق اتنا بڑا الزام لگا کر وہ خود توھین کے مرتکب ھو رھے ھیں۔ اس صاحب کو بھی تلاش کر لیا جس نے یہ کام کیا تھا۔ اس کا ظاھری تعلق پی ٹی آئی سے ھے اور وہ محترمہ ۔ محترم فوجی وردی پہن کر گو نواز گو کے نام سے اکاونٹ چلا رھا ھے ۔ کسی حد تک احساس ھونے پہ اس نے ان الفاظ سے سوری کی کہ آپ غلطی سے رگڑے گیے ھو۔
    ھم سب گناہ گار ھیں۔ الله کے حبیب کی شفاعت سے مرحوم ھوں گے ایسے لوگ۔
    اکرام شفیع

    جواب دیںحذف کریں
  4. ماشاءاللہ بہت اعلٰی تحریر ہے
    ہم شور مچائیں یا خوشی سے نعرے لگائیں
    ماتم کریں یا مٹھائیاں تقسیم کریں
    کسی پہ جان نچھاور کرنے کے نعرے لگائیں یا کسی کو پھانسی دلوانے کے لیے کوشاں ہو جائیں
    ان سب فیصلوں کا دار و مدار اس پر ہے کے میڈیا کیا کروانا چاہتا ہے ہم سے
    ہمارے ذہنوں پر حکومت صرف میڈیا کرتا ہے
    اگر کل میڈیا پہ بارہ مئی دو ہزار سات کے پچپن مقتولین کی خبر چل جائے تو دیکھیں کیسے سب کو وہ بھی یاد آتے ہیں جنہیں اکثریت بھلا چکی ہے
    خبر چلے گی لوگ ایک دوسرے سے پوچھیں گے کے ہیں یہ کب ہوا تھا؟ اچھا چلو جب بھی ہوا تھا برا ہی ہوا تھا ایک ٹرینڈ اسکے خلاف بھی بنا دیتے ہیں
    اللہ رحم کرے ہم سب پر اور ہدایت دے
    @wacas

    جواب دیںحذف کریں
    جوابات
    1. وقاص بھائی ۔۔ بہت شکریہ اتنے تفصیلی کمنٹ کا۔۔ :-))

      حذف کریں
  5. شاندار طریقے سے ہماری ڈھٹائی ، دو غلے پن،آندھی بہری جذباتیت کو جرآت مندی سے پیش کیا ہے۔ کاش ایسی سوچ رکھنے والوں کی معقول تعداد ہم میں ہوتی۔

    جواب دیںحذف کریں