ہفتہ، 4 اپریل، 2015

معاشرتی گِدھ


ہمارامعاشرہ ہر دور میں دوواضح حصوں میں منقسم رہاھےاور شاید تادمِ آخر کچھ رد و بدل کیساتھ یہی تقسیم رائج رہےگی۔مجھےاس پر کچھ خاص اعتراض بھی نہیں کہ قدرت کے نیارے کھیل ہیں۔اختلاف مگر وہاں شروع ہوتا ہے جب ان دو حصوں میں سےایک کو بہادر و غیور "مرد" اور دوسرے کوکمزور و لاچار "عورت" کے طور پر لیبل کردیا جاتا ہے۔
کچھ کہانیاں، چند واقعات ، کہی سنی یادیں ٹٹولنے کی کوشش کی تو خیال آیا کہ ایک صنف گِدھ اور بھیڑیے نما موقع پرستوں کی بھی موجود ہے۔اسی ماحول میں سانس لیتے آپ کو سینکڑوں سسکتی کہانیوں کے بکھرے وجود ملتے ہیں جنہیں جوڑنے لگیں تو زمانے بیت جائیں۔
عام زبان میں ٹھرکی  کی اصطلاح استعمال کی جاتی ھے۔۔۔مگر مذاق اڑاتے کبھی سوچا کہ اسی ایک لفظ کی آڑ میں معاشرے نے کتنے گدھ اپنے ارد گرد پناہ میں لے رکھے ہیں؟ انہی میں سے چند ایک بے نقاب چہرے لکھے ہیں ۔
پہلی قسم سادہ اور بظاہر بےضرر ٹھرکیوں کی ہے۔ یہ بےبس عورت کو بس سٹاپ اور عوامی جگہوں پر تاڑنے کو ہی بڑی عیاشی سمجھتے ہیں۔جبکہ ایسی نگاہِ غلط کوئی ان کی ہمشیرہ پر ڈال دے تو واجب القتل ہوجائے۔اسی قبیلے کے کچھ افراد آپ کو سوشل میڈیا پر بھی دکھائی دیتے ہیں۔ ہر وقت تنہایوں کا رونا دھونا، لڑکیوں سے ہیلوہائے۔فالوبیک مل گیا تو یہ صاحب سمجھےکہ ہنسی تو پھنسی۔ہاں مگر جرأت ان میں بس اتنی ہی ہوتی ہے کہ ہنسی ٹھٹھےسے آگے نہیں بڑھتے۔
دوسری قسم ان ڈھیٹوں کی ہے جو پبلک ٹرانسپورٹ میں خاتون کے ہاتھ کو چھولینے یا کہنی ماردینے پر خود کو مکمل ترین مرد سمجھتے ہیں۔ان کی زندگی کی اچیومنٹ ہی یہ ھوتی ھے۔ایسے افراد  کے انتہائی چھوٹے گولز ہوتے ہیں۔زیادہ سے زیادہ لڑکی کارابطہ نمبر حاصل کرلیناہی انہیں دوستوں میں طرم خان بنادیتاھے۔سوشل میڈیاکی بات کی جائے تویہ لوگ ہر پھڑکتی ڈی۔پی والی لڑکی کوفالو کریں گے۔ہلکا پھلکا فلرٹ،ایک سٹیٹس فیورٹ کیجیے،پھردیکھیے تماشہ۔بھاگےآئیں گے ڈی۔ایم میں اور ایک دو رسمی جملوں کے تبادلے پر زندگی کا سب سے  بڑا دکھڑا شئیر کردیں گے "ماں نے بالی عمریا میں زبردستی شادی کروادی ۔۔۔بس اپنی زندگی جبرِ مسلسل ،چڑیل بیوی اور چار بچوں کےباوجود خوش نہیں ہوں "۔ اس کے بعد ہمدردی و توجہ حاصل کرنے کے سو حربے۔یہاں گلہ ھے  ڈائجسٹس میں گھسی خیالی دنیا بسائے کم عقل لڑکیوں سے،جوکہ ان "بےسہاروں" کا سہارا بنتے رابطہ نمبر کا تبادلہ کرتی ہیں اور پھر اس کے بعد ایک نا ختم ھونے والے کرب کا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے۔
ایک قسم اُن متقی و پرہیزگاروں کی ہے جن کی زندگی کا مقصد "بھٹکی" ہوئی خواتین کو راہِ مستقیم پر لاناہے۔اکثریت وہ ھوتی ھے جنہوں نے گھر میں ہر اُس شے پر چائلڈ لاک اور پاسورڈ لگا رکھا ہوتا ہے جہاں سے ان کے شغف بےپردہ ھونےکا خدشہ لاحق ہو۔یہ لوگ اپنےگھر کی خواتین کومکمل حجابی کیفیت میں دیکھنا پسند کرتے ہیں۔بس گیجیٹس میں کچھ پوشیدہ فولڈرز ان کے ایمان کو کامل بنا دیتے ہیں۔خاندان کی ہرلڑکی کوتاڑیں گےاوردوپٹہ ٹھیک سے اوڑھنےکی تاکید بھی ھوگی۔سوشل میڈیاپر محرم-نامحرم کی تبلیغ بھی ان جیسوں نے اپنے ذمے لے رکھی ھے۔کسی نے کہا تھا کہ یہ سستی جنت کےبیوپاری ہیں۔عورت کوسیدھی راہ سُجھائیں گے اورخودکوجنت میں کارنر پلاٹ کے مستحق سمجھتے گردن اکڑائے زمین پر چلیں گے۔مقصدِحیات لڑکیوں کی تصاویر وصول کرناہی ہوتا ہے۔اوقات ان کی فقط چائے کافی کی ایک دعوت تک محدود ہوتی ہے۔بعدمیں نجی محافل میں اس لڑکی کےکردارکے پرخچےاڑنا فرضِ عین ہے۔
سب سے خطرناک گِدھ نما بھیڑیے وہ ہیں جودرج بالا تمام منازل طے کرچکے ہوتے ہیں۔لہذا اِن کا طریقۂ واردات خاصا میکانکی اور تجربے سے بھرپور ہوتا ہے۔یہ لوگ آپ کو یونیورسٹیز، دفاتر، فیملی اور تقاریب تک 
 میں ملیں گے۔چھوٹی عمر کی خواتین عموماً اور خودمختار تنہا عورتیں خصوصاً ان کا مرغوب شکار ہیں۔پہلے تو "لاچار مجبورعورت" کی دُکھتی رگ کی کھوج کریں گے۔کامیابی کی صورت میں اسی پر بار بار چوٹ کی جائے گی تاکہ ضبط کھو کر رو دینے پر اپنا "مضبوط" کندھا فراہم کیاجائے۔یہ لوگ بظاہر نہایت شریف النفس ہوتے ہیں اور لیےدیےاندازمیں رہتےہیں۔یہی امپریشن دیا جاتا ہے کہ جناب کے معیار وگولز بہت بلند و بالا ہیں۔نجی زندگی میں بھی کامیاب و مطمئن ہونے کی شاندار اداکاری کریں گےتاکہ شکار کو یقین ہو جائے کہ محض اس کی بھلائی کیلیے اتنی فکرمندی لاحق ہے۔ایسے لوگ پبلک میں نارمل رہیں گے مگر ان باکس سے وٹس۔ایپ ، انسٹاگرام، وائبر اور پھراسکائپ کی منازل طے کرنا انہیں بخوبی آتا ھے۔ان منازل کی درجہ بندی کیلیے شرط یہ ہے کہ خاتون بے وقوفی کے کس درجے پر فائز ہے۔یہ آپ کے غم میں گُھلتے جائیں گے۔کہیں اسلام کا تڑکہ بھی گاہے بگاہے لگانا سود مند رہتا ہے۔اورساتھ میں یہ باور کروانا لازم ہے کہ اس معاشرے میں اکیلی عورت کی زندگی کٹھن اور پُرخطر ھے۔اکثر دیکھنے میں آیا کہ خفیہ شادیوں میں ڈاکٹریٹ کی اعزازی ڈگری کے حامل افراد ہوتے ہیں۔ اگر خاتون ثابت قدم ہو یا پہلی منزل پر ہی دامن بچا لے تو مردانہ انا پرگہری چوٹ کے باعث معافی کی گنجائش کم ہے۔اردگرد موجود لوگوں میں اچھی شہرت کا فائدہ اٹھاتےاُس واہیات، بےہودہ، بےشرم اور آزاد خیال عورت کی ساکھ خراب کرنے میں دو منٹ نہیں لگائیں گے۔ویسے بعض اوقات انصاف کچھ ایسا بھی ہوتاہے کہ خاتون ٹِکا کر ایسا معاشی و معاشرتی جھٹکا دیتی ہے کہ بندہ کسی کو بتانے لائق بھی نہیں رہتا۔وہی سیر کوسوا سیر والا محاورہ جناب۔۔۔ انہی کے بھائی بندو ہوتے ہیں جن کے طریقہ واردات میں بڑے مصنفین کے حوالہ جات، روشن خیالی کا ماسک، بزلہ سنجی اور مطالعہ کی وسعت کا برملا اظہار وقت بے وقت موجود رہتا ہے۔ قصہ مختصر کہ ہزارہا بار دہرائے جملے،اشعار، نثر اور بودے اظہارِ محبت ان کا کُل سرمایۂ فن ہوتے ہیں جس کی بنیاد پر مالی امداد قرضِ حسنہ کے نام پر وصول کی جاتی ہےلیکن انداز ایسا کہ جیسے احسان کررہے ہیں اور ان کی اولاد کے بہتر مسقبل کی ذمہ داری بھی ان کے شکار ہی کی ہے۔ رقم تو خیر کبھی لوٹانے کی نیت سے اینٹھی نہیں ہوتی، یہ بڑے کھلاڑی کبھی پکڑ میں نہیں آتے کیونکہ ان کے دفاع میں دوسرے بڑے نام قسمیں اٹھانے اور متاثرہ انسان کی کردار کشی کے ساتھ ساتھ سازشی کردار ثابت کرنے میدان میں موجود ہوتے ہیں۔ مجاں مجاں دیاں بہناں ہوندیاں نیں۔
مانتی ہوں کہ تالی دونوں ہاتھوں سے ہی بجتی ہے، ہاں مگر کبھی سوچیےگاکہ تالی میں ایک ہاتھ ہمیشہ عورت کے دُکھ کو ٹٹولتا اس کےبدن یا بینک بیلنس تک کیوں پہنچنا چاہتا ہے۔
ابھی جب یہ سطور تحریر کر رہی ہوں توجانتی ہوں کہ مجھےکیسے القابات سے نوازا جائےگا۔مگرپرواہ کسے ہے بھیا؟ شعور، سوال، کھوج، فہم اور آگہی آپ کو ملائکہ سے اوپر کے درجے پر فائز کرتے ہیں ان کو نظرانداز کرکے نچلے درجے پر آنا انسانیت کی معراج کی توہین ہے۔ آنکھیں کھلی، دماغ روشن و ہوادار ہو تو جذباتی پریشانیوں سےبچنا بےحد آسان رہتا ہے۔

24 تبصرے:

  1. عرصے بعد ایسی تحریر پڑھنے کو ملی ہے جس نے جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے ایک ایک لفظ حقیقت آپ سے سیکھنے کو ملتا ہے ہمیشہ لکھنے کا حوصلہ ملتا ہے آپ کی تحریر الفاظ ختم ہیں اس تحریر کی تعریف میں جزاک اللہ خوش اور آباد رہیں ائم پراؤڈ آف یو مائی سسٹر

    جواب دیںحذف کریں
  2. بہت اعل‍یٰ۔ آپ کا مشاھدہ گہرا اور حقیقت پسندانہ ھے۔ کڑوی تحریر ھے ذرا مشکل سے ھی ھضم ھوئی۔

    جواب دیںحذف کریں
  3. بہت عمدہ تحریر، جو اقسام آپ نے بتائیں وہ تو یقیناً ہیں، مگر کچھ اقسام کو آپ نے شاید کسی مصلحت کے تحت شمار نہیں کیا، بہرحال بہت اچھی تحریر ہے بس تھوڑا سا سوشل میڈیا کا رنگ زیادہ ہے

    وقاص لائلپوری

    جواب دیںحذف کریں
    جوابات
    1. شکریہ وقاص بھائی۔۔۔۔۔۔اپنی اصلاح کرنے کی کوشش کروں گی۔ :-)

      حذف کریں
  4. کسی بزرگ نے سچ کہا کہ عورت میں دلیری کا عنصر
    اس دور کے مرد سے زیادہ پایا جاتا ہے, مرد کی ان تمام اقسام کا مشاہدہ صرف ایک گھنٹہ برقعہ پہن کر سڑک پر چل کر اچھے سے کر چکاہوں, بہت بار لکھنے کی کوشش کی مگر ہمیشہ لکھنے سے قاصر رہا, آپ نے اس تاریک پہلو پر خوبصورت اندازِ بیاں سے روشنی ڈالی, جیتی رہیے سلامت رہیے, اللہ آپ کو ایسی گِدھ نما شخصیات سے بچائے رکھے آمین

    جواب دیںحذف کریں
    جوابات
    1. جزاک اللہ الخیر جواد بھائی۔۔۔۔۔دعاکیلیے شکریہ۔

      حذف کریں
  5. Afshan Jee.. you wrote in start that this article is only for (Zarf or Hosla walon) strange. Anyway Negativity anyone can write and pic easily from our society. Try to overcome this negativity with positive approach in writing. Just Suggestion

    جواب دیںحذف کریں
  6. بڑی حفظ مراتب میں درجہ بندی کی ٹھرکیوں کی...

    جواب دیںحذف کریں
  7. بہت ہی عمدہ اور سچ ۔۔

    اللہ آپ کی قلم کو اور طاقت دے ،،

    جواب دیںحذف کریں
  8. بہت عمدہ تحریر
    حقیقت کے بھت قریب
    ھمیشہ کی طرح شاھکار

    جواب دیںحذف کریں
  9. مشاہدات ، تجربات ، تجزیہ اور تبصرہ ...... سب کچھ موجود
    شکریہ افشاں

    جواب دیںحذف کریں
  10. ‏واہ واہ آپو جی یہ ہوئی نا بات۔۔۔!
    بہت اعلی👍
    معاشرہ میں پلتے ایسے ناسور کو منظر عام پر لاتی رہیں اور ایسے لوگوں کو آئینہ دکھاتی رہیں،
    بہت ہی اعلی بلاگ مدت بعد پڑھنے کو ملا۔
    مزید لکھیں، تاکہ زیادہ سے زیادہ لوگ اس سے استفادہ کریں۔
    اور سچ لکھتی جائیں ایسے ہی چُبھتا ہے۔
    کسی کی پرواہ مت کریں۔۔!

    جواب دیںحذف کریں
    جوابات
    1. بہت شکریہ محترم بھائی۔۔۔۔۔۔ :-)
      پرواہ کسے ہے؟ :-)

      حذف کریں
  11. جرأت مندی اور بےباکی سے بیان کی گئی عمدہ تحریر۔۔ گہرا مشاہدہ اور زبردست تجزیہ۔۔ خوش رہیئے

    جواب دیںحذف کریں