جمعرات، 5 فروری، 2015

ثواب کا بخار

پاکستانی سوشل میڈیا کویومِ یکجہتی کشمیر مناتے دیکھ کر آنکھ بھر آئی اورجانے کیوں ایک عزیزہ پر بیتی زندگی کی کٹھن حقیقت یاد آگئی۔
خاتون کی خوش وخرم زندگی میں اچانک اس وقت قیامتِ صغریٰ ٹوٹ پڑی جب شادی کے دوسال بعد ہی شوہرعلی الصبح جہانِ فانی سے کوچ کرگئے۔وہ توآزمائش کی گھڑی آئی مگرجو صاحب کے دوستوں اور دفتر والوں نے بیوہ کا خیال رکھا ایک الگ داستان ہے۔پہلےتوان کی ذھنی حالت کا فائدہ اٹھاتے جنازےسےقبل ہی زیور اور جائیداد کے کاغذات نکال لیے گئے،جس کی خبرانہیں کچھ ماہ بعد ھوئی۔پھرجو پینشن کے اجراء  کیلیے صعوبتیں جھیلیں اسے بیان کرنے کو الفاظ نہیں ملتے۔ڈیڑہ سال کسی نے پلٹ کر نہیں پوچھا کہ کیا کھا رھی ھو،کہاں سے زندگی گھسیٹنےکولارھی ھو۔اولاد تھی نہیں،اور مرحوم نےبیوی کوجاں نشین مقررکرکےکاغذات جن دوست کو دے رکھےتھےوہ بھی یزیدیت پر اتر آئےتھے۔
بہرحال پینشن کا اجزاء ہو ھی گیا اب معاملہ فنڈز کا تھا جو کہ خاصی بڑی رقم تھی۔ایسے میں ایک دن ایک فون کال آئی۔تعارف کروایا کہ مرحوم کا فلاں دوست ہوں اور فاتحہ کیلیے آنا چاھتاہوں۔خاتون نے کہا کہ اب تو ڈیڑہ سال ھوگیا بھائی۔جواب آیا "تب معاملات ہی ایسے تھےکہ میرا نہ آنا بہتر تھا۔" سختی سے منع کرنے پر فرمانے لگے کہ ایک آرگنائزیشن چلا رھا ہوں،لوگوں کا سمندرہے۔آپ منسلک ہوجائیں تو بہت اچھا لگےگا۔انکار پر اگلا پانسہ پھینکا گیا کہ فون اس لیے کیا ہے آپ جوان ھیں،بچےبھی نہیں اور میں تبلیغی جماعت کا رکن ہوں،جانتا ہوں بیوہ کو سہارا دینا کتنا بڑا ثواب ھے۔یہ ثواب کمانے کا موقع ہاتھ سے نہیں جانے دوں گا۔
خاتون نے ڈانٹ ڈپٹ کر فون منقطع کردیا اور ان کے آفس فون کرکے اطلاع دی کہ یہ جہادی صفت صاحب ثواب کی نیت میں دبلے ھورھے ہیں،سنبھالا جائے۔خبرھوئی کہ مرحوم شوہرکے فنڈز کاپہلاچیک ایشو کیا جاچکا ھے۔باقی معاملہ سمجھنا مشکل نہ تھا۔
یہاں اہم بات یہ بھی کہ یہ صاحب ایک اہم ادارے میں نہایت اہم پوسٹ پر کام کررہے ہیں،دو زوجین اوردرجن بھر بچے ھیں،گھرمیں فرنیچرکے نام پر دو موڑھےھیں اور محمدی بستر دوکمروں میں بچھے ھیں۔گھریلو جھگڑے معمول ہیں اور صاحب بڑھتی آبادی سے خاصے پریشان ھیں۔تنخواہ کا بڑاحصہ تبلیغ میں فی سبیل اللہ جارھاھے،خرچےپورےنہیں ھوتے۔مگر بات وھی کہ بیوہ کا سہارہ بننے کا شوق چرایا ہے۔

تو کہنا فقط اتنا ھےکہ اپنے گھر کی حالت دیکھیے۔ثواب کا کام وہیں سے شروع کیاجاتا تو مناسب بھی معلوم ہوتا۔اب اُچک کر کشمیر کیلیے اُتاولے ھونے کا تو پھر وہی محاورے والا حساب ھے کہ "پلےنہیں دانے اماں چلیں بُھنانے"۔ اورکشمیرتو جیسے انجان بیوہ ھے کہ آپ کے حالات سے بےخبر ثواب کما لینے دے گا۔
یاد رکھیےزندگی کو جھیلتے اور موت سے لڑتے لوگ صرف دِلوں سے فیصلے نہیں کرتے۔کشمیری بھائیوں کے پاس دماغ ھے۔اس کا استعمال وہ کم از کم آپ کیلیے تو نہیں کریں گے۔باقی یہ کہ چھٹی کا دن اس ٹرینڈوارمیں اچھا گزرے گا، ٹی-ٹوئنٹی کے دو میچز بھی ہیں ، بریانی ، کڑاھی کےساتھ ایک آدھ بالی وُڈ فلم بھی پھڑکایے۔ کل کی چھٹی ملا کر لانگ ویک اینڈ کسی صحت افزاءمقام پر گزارتے کشمیر کے ساتھ اپنے وطن کے رِستے زخموں کیلیے بھی آہ و بکا کرلیجیے گا۔کشمیرکا کیا ھے وہ تو ملک بھرمیں جمعہ کے خطبات کےدوران آزاد کروا لیاجائےگا۔

11 تبصرے:

  1. میں نے یہ سوچا کہ گویا یہ بھی میرے دل میں تھا

    تمام دن سوچتا رہا کہ اگر میں مقبوضہ کشمیر میں ہوتا تو یہ تو ظاہر ہے کہ بھارت سے آزادی چاہتا لیکن پاکستان کے حالات دیکھتے ہوے کن وجوہات کی بنا پر پاکستان سے الحاق چاہتا؟ ایک بھی وجہ ذہن میں نہیں آئی

    لیکن تبلیغی بھائی کے جذبہ ایمانی کی داد نہ دینا نا انصافی ہو گی :)

    بہت اچھی تحریر - روانی اور سلاست ایک اچھے نثر پارے کی زندگی ہوتے ہیں اور دونوں اس تحریر میں موجود ہیں -

    اور وہی زیادہ استعمال سے گھسی ہوئی دعا کہ الله کرے زور قلم وغیرہ وغیرہ

    جواب دیںحذف کریں
  2. جزاک اللہ الخیر!
    جذبہ ایمانی تو جناب کوٹ کوٹ بھرا ھوا ھے ھمارے ھیں۔:-)
    آپ کی رائے نہایت قیمتی ھے۔۔۔۔ بہت شکریہ۔دعا گھسنےسے پراثر ھوجاتی ھے۔ :-)

    جواب دیںحذف کریں
  3. جوابات
    1. اور استاد کی یہ تھپکی میرے لیے انمول ھے جناب۔۔۔ :-)

      حذف کریں
  4. آپ اس تحریر میں ایک بات بتانا بھول گئیں کہ سوشل میڈیا پر کشمیری آزادی اور بھارتی جارحیت کے لتے لینے والوں نے آج ایک آدھی بالی و ڈفلم تو ضرور دیکھی ہوگی اور یہی نہیں اکثریت نے سوشل میڈیا پر کشمیر کے حق میں اور بھارت کی مخالفت میں جو اپنے مبارک ارشاد پوسٹ کئے ہوں گے اس وقت انکے گانوں میں لگی ہینڈ فری سے وہ ضرور انڈین گانوں کی دھنوں سر محسور ہورہے ہوں گے

    جواب دیںحذف کریں
    جوابات
    1. شکریہ محترم۔۔۔۔ اورکچھ باتوں پر پردہ زیادہ مناسب ھوتا ھے۔ :-)

      حذف کریں
  5. نیت کچھ اور ، قول کچھ اور ، عمل کچھ اور >>> اب سامنے بے چاری بیوہ ہو یا بے چارہ کشمیر>>> کبھی بھی اچھے نتایج برآمد نہیں ہونگے

    جواب دیںحذف کریں
    جوابات
    1. جی۔۔۔ کچھ ایسا ھی۔۔۔۔ نیت ھی کھوٹی ھے تو عمل کیا ھوگا۔۔ عمل ھو بھی جائے نتیجہ کھوٹہ سکہ ھی برآمد ھوگا۔

      حذف کریں
  6. یعنی اب ھم کسی بیوہ اور متعلقہ کا سہارہ بن کر ثواب کمانے کا بھی نہ سوچیں? اس تحریر کو پڑھنے کے بعد اب تو لگتا ھے اس ثواب سے محروم رہ کر پرانی تنخواہ پر گزارہ کریں میرا مطلب اکلوتی بیگم کے حقوق ادا کرنے کی مہم ھی پوری کرکے ثواب حاصل کریں۔ تحریر میں کشمیر کا ذکر اور بلاوجہ کثرت ازدواج کا ذکر دونوں ھی اثرانگیز ھیں۔

    جواب دیںحذف کریں
  7. مسئلہ کشمیر کا جب بھی ذکر آتا ہے پاکستان بھارت اور متنازعہ علاقہ کے الفاظ ساتھ ہی سننے کو ملتے ہیں. کیا یہ محض ایک علاقائی مسئلہ ہے یہ اس کو انسانی مسئلہ کے طور پر دیکھنا چاہیے. کیپٹن حسین شہید کی قیادت میں جب تحریک آزادی کشمیر شروع ہوئی تو ہر روز آزاد کشمیر نامی خطے کی سرحدیں پھیل رہی تھیں قبائلی علاقوں سے بھرپور امداد نے ڈوگرہ فوج کو حیرت میں ڈال رکھا تھا کہ یہ کیا ہو رہا ہے بھارتی فوج کی مدد بھی ناکافی ہو چکی تھی کہ پنڈت جواہر لال نہرو اور شہید ملت جناب لیاقت علی خان نے جنگ بندی کا اعلان کر دیا اور اس مسئلے کو اقوام متحدہ میں لے گئے یہیں سے بد قسمتی کا دور شروع ہوا کہ کشمیریوں سے فیصلہ سازی کی قوت چھین لی گئی اور رہی سہی کسر شملہ معائدہ اور آگرہ سمٹ نے نکال دی. ہماری بات تو الگ ہے آج بھی بھارت کے زیر انتظام کشمیر کے لوگ پاکستان سے محبت کرتے ہیں. اس میں جماعت اسلامی اور اسی نوع کی دیگر جماعتوں کی مبالغہ آرائی پر مشتمل تبلیغ کا اثر ہے یا ہندوستانی مسلمانوں کے حالات ان کو یہ سوچنے پر مجبور ہیں. کشمیریوں کی تین نسلیں بے شناخت زمین برد ہوگئی ہیں اصل المیہ یہی ہے

    جواب دیںحذف کریں