اتوار، 25 جنوری، 2015

میاں، بیوی اور وہ

کچھ عرصہ میں ایک خیال اپنی جڑیں اتنی مضبوط کرچکاھےکہ اب جھٹلاناممکن نہیں۔اردگردکیانظردوڑائیں اپنےگھروں سے ہی آغاز کرلیں تویقین ھوجاتاھےکہ ہم ذہنی طورپربیمارلوگ ہیں۔دوہرےمعیارنےحق بات سوچنےاوراس پرڈٹ جانےکاحوصلہ ھی چھین لیاھے۔دوغلےپن کی انتہایہ ھےکہ جواخلاقی برائی ایک عورت کیلیےسنگ باری کاباعث بنتی ھےوہی کام ایک مردتمغےکی طرح سینےپرسجائےاکڑکرچلتاھے،اورنجی محافل میں سینہ تان کرفخریہ پیشکش کےطورپر دہراتاھے۔

خاتون کیلیےبچپن کی دہلیز عبورکرتےھی سوال ناموں کی بارش مسلسل ہوتی ھے۔غیرشادی شدہ ھےتوشادی کےغم میں گھلتامعاشرہ،ھوجائےتوخوشخبریوں کےتقاضے،بیٹی پیداھوجائےتوبیٹے کی تلاش میں سرگرداں،بیٹاآجائےتو "جوڑیاں رلانے" کی آرزو۔اور"خوش قسمتی" سے دوبیٹے عطاءھوگئےتوپھراچانک بیٹی کی تمنا دل میں پال لی جاتی ھے۔

اس شادی کومعاشرےکاواحد مسلہءاورتمام مسائل کا واحدحل بھی سمجھ لیاگیاھے۔نکاح کےوقت عمرکافرق،شکل وصورت کاموازنہ کرکےاپنی پست ذھنیت کومکمل طورپر ایک دوسرےکےاذھان میں انڈیلاجاتاھے۔جبکہ لڑکی کواحساس دلوایاجاتاھےکہ احسانِ عظیم ھوگیاھے۔ایسےمیں اگرخدانخواستہ بیوہ ھوگئی ھےتواولادکوکم سنی میں یتیم ھونےکابھرپوراحساس کروانابھی فرضِ عین ھے۔اوراولادنہ ھوتوبیوہ کیلیےدوہراعذاب کہ کوئی "نشانی" ھی چھوڑجاتا۔
مطلقہ ھےتوبھی اسے تمام برائیوں اور غلطیوں کی گھٹڑی اکیلےھی اٹھانی ھے۔ایسےمیں اگرتووالدین حیات ھیں توکچھ بچت کی صورت قائم ھےبصورتِ دیگرکیسےبھائی،کہاں بھائی کی غیرت۔سب خواب وخیال۔پہلےبھی بوجھ اتارپھینکاتھااب بھی بھاری سِل آن پڑی ھےتو
جیسےبھی نئی ھو ھٹاؤ بھیا۔نئی جہنم تلاش کرکےروانہ کردیاجاتاھے۔
غضب توتب ھےاگرخاتون تنہااورخودمختارھے۔غیرشادی شدہ ھےتوبھی اس کی ذات کےمتعلق ایسے طعنےاوربہتان گھڑکرپھیلائےجاتےھیں کہ خداکی پناہ۔شوہرفوت ھوگیا،یاکسی وجہ سےشادی ٹوٹ گئی توایسی صورت میں گدہ بناہرتیسرا شخص خاتون پرکم اس کی تنخواہ اورجائیدادپرزیادہ نظریں گاڑےبیٹھاھے۔ہرمحفل میں ایک ھی جملہ گونجتاھے۔۔۔۔۔۔"مردکاآسرا،نام اور چھت بہت ضروری ھے۔" اب یہ ایک الگ معاملہ ھےکہ تمام عمر اس نام نہاد "مرد" کو خاتون ھی کما کرکھلائے۔
بالفرض محال کوئی مطلقہ بہترمستقبل کاسوچتےنکاح کا حق استعمال کرنےکافیصلہ کرھی لیتی ھےتومجال ھےہم عزت سےیہ نیک کام ھولینےدیں۔اس کا ماضی ٹٹولنافرض ٹہرتاھےاورنشرواشاعت واجب۔اگرصاحب بھی عقدِثانی کررہےھیں تویہ ان کاحق ھےاوران کا "شانداروجاندار" ماضی تابناکی سےچمکتارھے۔اس پرانگلی اٹھاناگناہِ کبیرہ ھے۔خاتون اگرتین جوان بچوں کی والدہ ہیں تویہ طعنہ ھےمگرصاحب کی جوان اولاد ان کی شان ھیں۔ایسےمواقع پربڑےبڑے لبرلزاپنا ھی تھوکا چاٹتےدکھائی دیتےھیں۔
پہلےطلاق کیوں ھوئی؟ یہ سوال صرف عورت کیلیےضروری ھے۔مردکو نہ صرف استثنیٰ ھےبلکہ دوسری کو پہلی بیوی سےمکمل موازنےو تقابل کیلیےہمہ وقت تیاررھناھوگا۔تنقیدکرتےیہ نہیں سوچیں گےکہ اگرایساھی مکمل وخوبصورت رشتہ تھاتوایک جنریشن چھوٹی دوسری بیوی کی نوبت ھی کیوں آئی محترم کی زندگی کی آخری اننگ میں۔پنجابی کی ایک کہاوت مشہور ھے،جس کے مطابق "محلےوالے" ہی بسنےنہیں دیتے۔
جب دونوں عاقل بالغ ھیں،بال بچوں والےھیں تو کچھ سوچ کرھی زندگی میں آگےبڑھےھیں نا۔اب یہاں بھی آپ جیسے سماجی رابطےپراپنی بھڑاس نکالتے،زبان دراز اورڈارون کی تھیوری کوسچ ثابت کرنےوالوں کی سنیں؟ آپ کون ھوتےھیں سمجھانےوالےکہ کون اس فریم میں فِٹ بیٹھےگی اور کون اس قابل نہیں۔خود کا تویہ حال ھےکہ میٹرک کےبعدپڑوس کےانکل سے مشورہ ھوتاھےآگےکونسےمضامین پڑھےجائیں۔اپنی زندگی کاسب سے اہم فیصلہ کرنےکی صلاحیت نہیں مگرخاتون میں سارےجہاں کی برائیاں بھی دکھائی دیتی ھیں اور پہلی والی بھابھی دنیاکی بہترین خاتون قرار پاتی ھیں۔سمجھ نہیں آتی اس معاشرے کو کس نے اختیاردیا کہ مرد کو خدا بنائے اورجو  عورت اس سے دوسری شادی کرےاس کو مغلظات سے نوازے۔اس کے پہننے اوڑھنےپر پابندیاں لگانے والے آپ کون ھوتے ھیں۔رھی سہی کسریہ کہہ کرپوری فرمادی جاتی ھےکہ شادی حریف کی گہری سازش ھے۔ واللہ اس طرح تو آپ خود اقرارکرتےہیں کہ صاحب میں قوتِ فیصلہ نہیں اور ارادے و ایمان کی پختگی سے عاری ھیں کہ کوئی بھی خاتون شیشےمیں اتار لے۔
جب کسی شخصیت سے اندھی عقیدت ھوجائےتواس کےسب عیوب بھی کارنامےدکھائی دیتےھیں۔چلیےیونہی سہی،مگرصاحب پھران کے شادی کے فیصلےکوبھی خندہ پیشانی سے قبولیت کا درجہ دےکر اپنی زبان کی خندق کو سکون سے بھرلیجیے۔آمرانہ وجارحانہ رویہ ان خاتون کا مقام تو شوہرکی نظرمیں گرا نہیں سکے گا مگرآپ کےگھڑےھوئےمسیحاکےفیصلےکامنہ ضرور چڑھائےگا۔

16 تبصرے:

  1. "دوہرےمعیارنےحق بات سوچنےاوراس پرڈٹ جانےکاحوصلہ ھی چھین لیاھے"
    !دریا کو کوزے میں بند کر دیا ہے آپ نے
    معاشرہ پہلے بھی بدصورت ہوگا مگر کبھی کبھار آئینہ دیکھ کر شرما جاتا ہوگا مگر آج کل تو لگتا ہے لوگوں نے اپنی منافقت چھپانے کے لیے اس آئینے پر کیچڑ کی دھری تہہ چڑھا دی ہے

    جواب دیںحذف کریں
    جوابات
    1. جزاک اللہ الخیر۔۔۔۔ ایک چھوٹی سی کوشش ھے۔۔جو دیکھا لکھ ڈالا۔۔۔

      حذف کریں
  2. بہت اچھا لکھا.لیکن مرد پہ عورت کی اس برتری کو ہمارہ مذہب بھی شہہ دیتا ہے.جیسا کہ جائیداد اور گواہی والا معاملہ ہے.

    جواب دیںحذف کریں
    جوابات
    1. مذہب بارے اپنی معلومات کو وسیع کیجیے محترم۔

      حذف کریں
  3. میرےبارے ہی لکھا گیا ہے یہ بلاگ.....سو فیصد

    جواب دیںحذف کریں
  4. ایک تلخ حقیقت جسے کوئی مانے یا نا مانے مگر ہمارا نام نہاد اسلامی معاشرہ ان سب کہانیوں کو نا آرف جنم دیتا ہے بلکہ شہ بھی دیتا ہے
    سلانت رہیے, ہوشرُبا تحریر

    جواب دیںحذف کریں

  5. آج ایک نمانی کی تحریر نے جھنجوڑ کے رکھ دیا۔ اسکی خلوص بھری تحریر نے مجھے آپنے رب کے حضور معافی مانگنے اور کچھ لکھنے پر مجبور کر دیا۔
    لاکھ اختلاف سہی لیکن ھے وہ سچائی جس سے منھ نہیں موڑا جا سکتا ۔ آج ھم نے ان نمانیوں کو آپنے پہ بوجھ سمجھ لیا ھے جبکہ الله ان کو رحمت قرار دیتا ھے۔ ھم نے آپنے رویوں سے ان کے مقدروں میں دکھ ھی لکھ دیا ھے۔
    اب شش و پنجم میں ھوں جواب لبرل بن کے لکھوں یا ایک مسلمان کی حثیت سے ۔ کیونکہ ڈر ھے کہ کہیں میم یہ نہ سمجھ بیٹھں کہ میں ان کو تبلیغ کر رھا ھوں جو کہ ان کے مزاج کے خلاف ھے۔ پر افسوس مسلمان ھوتے ھوئے مجھے اس کا سہارا لینا پڑئے گا۔
    جن برائیوں کا آپ نے ذکر کیا ھے میرے نزدیک اس کی اصل وجہ معاشرے کی علم اور دین کے اصل فہم سے دوری ھے۔
    اسلام نے شادی کے رشتے میں عورت اور مرد کو ایک جیسی حثیت دی ھے
    الله کے نبی کی جتنی شادیاں ھوئی سواے ایک کے سب شادی کے پیغام عورتوں کی طرف سے آے جبکہ ھمارے معاشرے میں معیوب سمجھا جاتا ھے
    بیوی اگر آپنے بچے کو دودھ پلانے سے انکاری ھو جاتی ھے ۔۔۔۔۔ خاوند اسے مجبور نہیں کر سکتا
    بیوی اگر خاوند کیلیے گھریلو کام کرنے سے انکاری ھو جاتی ھے۔۔۔۔۔ خاوند اسے مجبور نہیں کر سکتا
    بیوی اگر خاوند کے والدین کی خدمت نہیں کرتی ۔۔۔۔۔خاوند اسے مجبور نہیں کر سکتا ۔۔۔ اگر وہ یہ کرتی ھے تو آپنے خاوند پر احسان کرتی ھے۔ اس پر خاوند کو اس کا شکرگزار ھونا چاھیے۔
    عورت اگر کچھ کماتی ھے تو اس رقم پر خاوند کا کوئی حق نہیں۔ کیونکہ گھر کے تمام اخراجات کو چلانا مرد کی ذمہ داری ھے
    بیوی کی صرف اسلام نے ایک ھی ڈیوٹی سونپی ھے وہ ھے اولاد کی تعلیم و تربیت
    ھمارا موجودہ معاشرہ اسلامی تعلیمات سے کوسوں دور ھے۔۔۔۔۔ افسوس نہ آج ھم اسلامی ھیں اور نہ ھی ایک ترقی یافتہ ۔۔۔۔۔ ھماری منزل کیا ھے ۔۔۔ اس سے بے خبر جہالت کی تاریکیوں میں بھٹک رھے ھیں
    الله تو ھماری مدد کر ورنہ ھم اسی جہالت میں پستے ھوے مر جایں گے۔ ھم صرف آپنی جھوٹی انا کی خاطر۔۔۔آپنی بیٹیوں بہنوں اور بیویوں پر ظلم کر رھے ھیں ان کے حقوق نہیں دے رھے ۔ وہ لاچار رشتوں کے تقدس کی خاطر بولتی نہیں۔۔۔۔ وہ مظلوم ھیں ھم ظالم ھیں ۔۔۔۔ الله تو ظالموں کی مدد نہیں کرتا ۔۔۔۔ الله تو ھمیں ھمت دے کہ ھم ان کے حقوق اداء کر سکیں ۔۔۔ تا کہ تیرے غضب سے بچ سکیں ۔۔۔ آمین

    جواب دیںحذف کریں
  6. بڑی ہی تلخ تحریر لکھی آپ نے مگر سچ بات یہ ہے کہ حقائق پر مبنی ہے اور ان حقائق کے آئینے سے ہر کوئی منہ موڑ کر خود کو تسلی دے لیتا ہے۔

    جواب دیںحذف کریں
    جوابات
    1. عاصم بھائی۔۔۔۔آپ کی قیمتی رائے کا شکریہ۔۔۔۔کیا کریں زندگی کچھ کڑوی تھی ہم انسانوں اسے شدید کڑوی بنادیا۔۔۔۔

      حذف کریں
  7. بہت خوب۔ معاشرے کی کڑوی سچائیاں رقم کرکے آپ نے ٹہرے پانیوں میں کنکر مار کر ارتعاش پیدا کرنے کی ھمت کی۔ لائق تحسین۔ درج بالا کوتاہیوں اور برائیوں کی اصل وجہ میرے نزدیک اپنے اپنے حقوق سے ناواقفیت ھے شوہر کو نہیں پتہ اسکے کیا حقوق ھیں اور اس پر بیوی کے کیا اور یہی حال بیوی بہن بھائی ساس سسر اولادحتٰی کے اکثر والدین کو نہیں پتہ کہ انکے اور ان پر اولاد کے کیا حقوق ھی۔ دعا ھے لکھتی رھیئے اور ھم جیسے خود غرض لوگوں کےنقاب نوچتی رہیئے۔

    جواب دیںحذف کریں