پیر، 27 مارچ، 2017

ذات کی تکمیل کےمعاشرتی پیمانے

معاشی و معاشرتی سطح پر مساوی مواقع اور حقوق کے حوالے سے ہمارے ہاں لسانی ، علاقائی اور معاشرتی تقسیم سے کہیں زیادہ جد وجہد عورت کے حصے میں آتی ہے۔ اپنی پیدائش سے لے کر اپنی اولاد کی پیدائش تک عورت کو "ذات کی تکمیل" کے نام پر ایک مسلسل سفر کرنا ہوتا ہے۔
عزت دینے کی بات آئے تو "ہم مائیں ، بہنیں بیٹیاں" ٹائپ نعروں میں جوڑ کر عورت کی پہچان اور مقام صرف رشتوں کے پیمانوں میں حنوط کردیا گیا ہے۔ کسی سماجی رابطے کی ویب سائٹ ہو یا کوئی عوامی جگہ "بھائی" کا دُم چھلا لگائے بِنا مرد سے بات کرنا معیوب ہے جناب۔ سرگوشیاں ہوں گی ، آنکھوں سے اشارے ہوں گے اور کردار پر کیچڑ اچھال کر اپنی کم مائیگی کے احساس کو تسکین پہنچائی جائے گی۔
ایسا نہیں ہے کہ گھر پر رہنے والی اور کنبے کا بوجھ اٹھا کر گھر سے باہر کام کرنے والی یا اپنا کیریئر بناتی خواتین میں سے کوئی ایک مسائل کا نسبتاً کم شکار ہوتی ہے۔ لیکن گزشتہ چند روز ہمارے ہاں انٹرٹینمنٹ کے نام پر چلتے کچھ ٹی۔وی ڈراموں کا جائزہ لینے کی کوشش نے اس حوالے سے مایوس کیا ہے۔ لکھاری کسی معاشرے کا نباض ہوتا ہے جو مختلف بکھری کہانیوں کو جوڑ کر ایک جیتی جاگتی تصویر پیش کرتا ہے۔ سمجھ سے باہر ہے کہ موضوعات کے چناؤ میں حقیقت سے دور ڈرامہ سکرپٹس کو پروڈکشن ہاؤسز کیسے سکرین پر چلاتے چلے جارہے ہیں۔ دو بہنوں میں سے ایک کو بطور ڈائن اور دوسری کا کردار روتی دھوتی قربانی کی دیوی ، اکلوتی ہو یا کثیرالتعداد بیٹیاں صرف شادی بیاہ چل رہے ہیں ، بیویوں کے کردار میں ہمارے لکھاری ابھی تک انیس سو سینتیس کے ماڈل میں پھنسے ہوئے ہیں اور سب سے بڑی فکری بددیانتی ورکنگ لیڈیز کے کرداروں سے برتی جارہی ہے۔ آج بھی تعلیم سے لے کر کیریئر بنانے تک گھر سے باہر نکلنے والی عورت کے کردار کو اس کے لباس اور بول چال سے ناپا جاتا ہے،اگرچہ اس کا چار دیواری سے باہر ہونا ہی بدکرداری کی واضح علامت بنا کر پیش کیا جاتا ہے۔جبکہ ہر دوسرا ڈرامہ ان خواتین کی مشکلات میں اضافہ کرتے صرف یہ دکھا رہا ہے کہ آفس میں کام کرتی بچی اپنے باس سے فلرٹ کررہی بلکہ انجام کار شادی پر ہی ہے۔کسی جوان بیوہ کا کردار ہے تو مجال ہے کہیں یہ دکھایا جائے کہ سرکاری ملازم کی بیوہ پینشن کے حصول سے لے کر دیگر دفتری معاملات میں کیسے نفسیاتی طور پرکچلی جاتی ہے یا اگر کوئی ذاتی کام کاج کرنے والا شخص دنیا سے چلا گیا تو اس کی بیوہ بچوں کے مسائل کس نوعیت کے ہوسکتےہیں اور ان سے لڑتی باہمت عورت کیا کچھ کرسکتی ہے۔لکھاری دِکھاتا ہے تو صرف کسی اوباش کردار کو یا لالچی جیٹھ کو۔تخلیق کے نام پر مسلسل ایک ہی پلاٹ کا ری مکس ورژن بیچا جا رہا ہے۔ گھریلو تشدد تو چھوڑیے یہاں ریپ کو بھی گلیمرائز کردیا گیا ہے۔ریپسٹ کو بطور ھیرو اور آخر متاثرہ عورت کی جانب سے معافی یا قبولیت کی سند دِلواتے سکرین کی زینت بنانے والے کیا کبھی اس کرب کا ادراک کرپائیں گے جو حقیقی زندگی میں ایسی متاثرہ بچی سہتی ہے؟ تیزاب گردی ،غیرت کے نام پر قتل ، وٹہ سٹہ ، ونی اور ایسے دیگر حساس موضوعات کو ھینڈل کرنے کا ڈھنگ نہیں سیکھ پا رہے۔خواجہ سراء پر کوئی پراجیکٹ شروع کرکے اس کے پلاٹ کو بھی پھیلا کر صرف  اپر کلاس کے معاملات دکھانے پر اکتفا کرلیا جاتا ہے۔ گھریلو ملازماؤں کو صاحب لوگوں پر ڈورے ڈالتے دکھا دیں ، ڈرامہ بِک جائے گا۔ اس طبقے کی کام کرتی عورت کے مسائل جائیں بھاڑ میں۔
عورت کے استحصال کا آغاز دہلیز کے باہر نکلنے سے قبل گھر سے ہی ہوا کرتا ہے۔ اور غور کیا جائے تو پہلا پتھر گھر کی بڑی بوڑھیوں کی ہاتھ میں ہوتا ہے۔ خوراک، صحت اور تعلیمی درسگاہ کے چناؤ تک میں صنفی تقسیم اور بددیانتی برتی جاتی ہے۔بچی بڑی ہورہی ہے تو دودھ،انڈے،خشک میوہ جات اورگوشت وغیرہ سے بچانا چاہیے لیکن پوتے کو یہ سب زیادہ مقدار میں ٹھونسنے کو دیا جائے۔ رشتہ دیکھنا ہے تو لڑکی دبلی پتلی، گوری چٹی، سرو قد،تیکھے نقوش،سگھڑاپے کی مورت ، کم عمر ہو لیکن ڈگریاں ڈٹ کر حاصل کر رکھی ہوں۔ بہو سے زیادہ بیٹے کی صحت و خوراک  پر توجہ مرکوز کی جائے ،پھر چاہے وہ بہو گھر سنبھالنے اور بچے پیدا کرنے کے ساتھ جاب کرکے شوہر کا ہاتھ ہی کیوں نہ بٹاتی ہو۔چکی کے دو پاٹ اور اس میں پِستی عورت جبکہ اکثر پیسنے والی دوسری عورت۔
میری دادی آٹھ بہوئیں بیاہ کرلائیں اور اس حوالے سے میں نے انہیں شاندار رویے کی امین پایا کہ ہر عورت حسین ہوتی ہے ۔ نین نقش اور رنگ روپ کی بنیاد پر ایک عورت کے ہاتھوں دوسری خواتین کا استحصال سب سے مکروہ روایت ہے۔
گزشتہ دنوں ایک کیمپین سوشل میڈیا پر دیکھی جس کو 
  کے ھیش ٹیگ کے ساتھ چلایا جارہا تھا۔ https://twitter.com/search?q=%23ProudToBeMyMum&src=tyah

وہاں لوگ بتا رہے تھے کہ انہوں نے اپنی والدہ سے کیا سیکھا،ان کی عادات سے کیا اپنایا اور کیوں انہیں اپنی والدہ پر فخر ہے۔ صحت مند کھانے سے لے کر شخصیت و کردار سازی تک اور آٹھ گلاس پانی روزانہ پینے کی عادت تک بہت کچھ ہے جو ماں اپنے بچوں کو منتقل کرتی ہے۔ میں اگر اپنی والدہ کی بات کروں تو کھانا ان جیسا لذیذ نہیں پکا سکتی لیکن دنیا میں بستے انسانوں کے لیے رنگ،شکل،عقیدہ اور زبان کی بنیاد پر فرق نہ کرنا انہی سے سیکھا ہے۔خود اعتمادی اور دوسروں کو کچلے بغیر آگے بڑھتے رہنا اماں ہی کو دیکھ کر سمجھا۔
میں نے اپنی والدہ سے جو بات سیکھی وہ یہ  کہ رویے، سوچ اورالفاظ بدصورت ہوا کرتے ہیں مگر انسان (بلاتخصیص جنس) کائنات کی سب سےحسین تخلیق ہوتی ہے۔ زندگی سے خوبصورت کچھ نہیں اور بیٹی ہو یا بیٹا اسے اپنی صلاحیتوں پر بھروسہ کرنے کا گُر سکھانا چاہیے۔بچوں کو اعتماد دیا جائے تو صنفِ مخالف کے وجود کو کچل کر اپنی ذات منوانے کی بدصورت روایت ختم ہوسکتی ہے۔تعلیم،شعوراورصحت مندسوچ ہر بچے کاحق ہے ۔
پاکستان میں قانون سازی کے ساتھ اجتماعی شعور میں بدلاؤ کی ضرورت ہے ۔ زندگی کے مختلف میدانوں میں اپنی جگہ بناتی ہوئی عورت ہو یا دوسری خواتین کے تحفظ و حقوق بارے آواز اٹھاتی، قانون سازی میں حصہ ڈالتی خواتین ہوں۔۔۔ سب جانتے ہیں کہ ہر دو جگہ بدصورت رویوں کا اظہار کرنے والے موجود ہوتے ہیں۔ سوچ بدلے گی تو عورت کو بطور انسان تسلیم کرنے کی راہ میں آسانیاں بھی آتی جائیں گے کہ فی الحال تو خود سے زیادہ کامیاب اور زیادہ کماتی عورت ہر رشتے اور حوالے سے اکثریت کو عدم تحفظ کا شکار کردیتی ہے۔

باقی یوں ہے کہ کچھ روز قبل خواتین کے عالمی دن کے موقع پر ان لوگوں کو بھی چیختے دیکھا جو سارا سال اپنے گھر کے علاوہ دنیا کی ہر عورت کو حرافہ سمجھتے ہیں لیکن اس روز انہیں اچانک یاد آجاتا ہے کہ "اسلام میں عورت کا مقام بلند ہے۔اسی لیے کوئی ایک دن مخصوص کرکے منانا ناجائز ہے۔"

ہفتہ، 11 مارچ، 2017

شلوار ، زندہ لاشیں ، مولانا ڈیزل اور پھٹیچر

"اس قوم کی یاداشت بہت کمزور ہے۔"  کسی معاملے پر بے بسی سے لبریز یہ جواب سن کر میں ہمیشہ مسکرا دینے والوں میں سے رہی ہوں۔بالکل اسی طرح جیسے  "اگر ہم نے حماقت کی تو انہوں نے بھی فلاں فلاں وقت ایسی غلطی کی۔" جیسے دلائل اور دفاعی وضاحت سُن کر بے اختیار ہنسی آجاتی ہے۔ میں لیکن ماضی قریب اور بعید کا کچھ سفر کرنا چاہوں گی۔
ایک وقت تھا کہ عمران خان صاحب کو اس ملک میں کرکٹ سے محبت کرنے والوں نے دیوتا کی طرح پوجا۔ہر نیا باؤلر ان کو آج تک آیڈلائز کرتا ہے اور اس حوالے سے خان صاحب کی اہمیت کسی صورت چیلنج یا کم نہیں کی جاسکتی۔ایک ٹیم کے کپتان کو بروقت اور جرات مندانہ فیصلوں کی اہمیت کا ادراک ہوتا ہے۔آپ ایسے ہی کپتان رہے ہیں۔کینسر ہسپتال ہو یا نمل جیسا تعلیمی ادارہ عمران خان صاحب کے ارادوں کی پختگی کو اس ملک کے عوام نے اپنے ڈونیشنز سے تکمیل تک ہمیشہ عزت بخشی ہے۔بطور سیاستدان آپ کتنا ہی ان کے رویے اور پل پل بدلتے بیانات سے اختلاف رکھیں لیکن دنیائے کرکٹ میں ان کا مقام یاد کیا جاتا رہے گا۔
پاکستان سُپر لیگ کا دوسرا سیزن شروع ہوا اور قومی کرکٹ ٹیم کے سابق کپتان عمران خان صاحب کی جانب سے بیانات کا لامتناہی سلسلہ (پانامہ کیس کی ڈھولک کے درمیان) بھی زور پکڑتا گیا۔پہلے کہا کہ پوری لیگ پاکستان میں ہونی چاہیے۔پھر بیان آیا کہ انٹرنیشنل کھلاڑی آجائیں تو فائنل زبردست ہو۔ لیکن جونہی لاہور میں فائنل میچ کی خبر آئی خان صاحب اس کو پاگل پن اور حماقت قرار دے دیا اور پھر  فائنل میں پہنچنے والی ٹیم کو مبارکباد بھی جَڑ دی۔پاکستان میں ہر شخص تقریباً ایک دہائی کے بعد کرکٹ اپنے گھر آنے کا جشن منا رہا تھا کہ خان صاحب اور ان کی جماعت کے نمائندوں نے ٹکٹوں کے حوالےسے میڈیا میں شور مچا دیا۔کسی کو تمام میچ میں فری انٹری کا بخار ہوا تو کسی نے دعویٰ کیا کہ حکومتی جماعت نے سیاسی جلسہ رکھا ہے لہذا اپنے ووٹرز کو ٹکٹیں مفت بانٹ دی ہیں۔خان صاحب کی منطق نرالی جنہوں نے اپنے نام کے وی۔آئی۔پی انکلوژر کا ٹکٹ فری کرنے کا مطالبہ کیا اور ساتھ میں یہ راگ بدل بدل کر چلتے رہے کہ کلب لیول کھلاڑی آئیں گے، سیاسی جلسہ ہے ، پانامہ کیس سے عوامی توجہ ہٹائی جارہی ہے۔ ہمارے ہاں مانا جاتا ہے کہ جِس پلیٹ فورم سے آپ کو عزت ، شہرت اور محبت مِلی ہو اور جہاں سے رزق کمایا ہو وہاں کا احترام انسان آخری دم تک بھولتا نہیں اور اس شعبے سے وابستہ افراد سے ایک جذباتی لگاؤ بھی ہوجاتا ہے۔ شاید اسی لیے پی۔ایس۔ایل فائنل میچ میں شرک بین الاقوامی مہمان کرکٹرز کے لیے "پھٹیچر اور ریلو کٹا" جیسے الفاظ ایک سابق کرکٹر کی جانب سے آنا زیادہ نامناسب معلوم ہوتا ہے۔ہماری مہمان نوازی کی روایات کے تمام حوالے رہے ایک جانب لیکن میرا مسئلہ اس سے کچھ مختلف ہے۔"افریقہ سے پکڑ کر لےآئے" جیسے حقارت بھرے الفاظ میں چھپا نسلی تعصب ۔جس کو پس منظر میں جانا تک نصیب نہ ہوا۔سیدھا قالین کے نیچے دبا دیا گیا۔
لوگ ریلو کٹا کا مفہوم سمجھتے رہے جبکہ خان صاحب کی جماعت اس اصطلاح کے وہ معنی تلاش کرتے ہلکان ہوتی رہی جو عوامی و میڈیائی غصے کو کچھ ٹھنڈا کرسکیں۔کہا جاتا ہے مسلسل صفائی اور تاویلیں دراصل غلطی کا اعتراف بن جاتی ہیں۔لیکن اعتراف کے تو کیا کہنے جب عمران خان صاحب اپنے اس "غیر رسمی یا آف دا ریکارڈ" بیان پر باجماعت ڈٹ گئے۔ اور اس گفتگو کی وڈیو بنا کر سوشل میڈیا پر چلانے والی خاتون رپورٹر کو ایک جانب صحافتی آداب سکھاتے رہے جبکہ دوسری جانب اس جماعت کی سوشل میڈیا ٹیم ان خاتون کی کردار کشی کے علاوہ "توہینِ رسالت" کرنے والوں کے ساتھ تعلق جوڑتی رہی۔
مانا کہ خان صاحب ایک عظیم کرکٹر رہے۔اچھے کپتان تھے۔ورلڈ کپ جیتنے والی ٹیم کی کپتانی کی۔انسانیت کی خدمت میں کینسر ہسپتال اور تعلیمی ادارہ بنایا۔تو کیا یہ تمام باتیں انہیں آزادی فراہم کرتی ہیں کہ کسی بھی کرکٹر کے کیریئر اور صلاحیتوں کو ارزاں سمجھں؟ کیا دنیائے کرکٹ میں اب کوئی بڑا کرکٹر پیدا نہیں ہوسکتا۔چاہے اس نے دو ورلڈ کپ جیتے ہوں؟ تو کیا انسانیت کی خدمت کسی بھی انسان کو حق دیتی ہے کہ دنیا کے مختلف خطوں میں آباد انسانوں کو تحقیر سے دیکھا جائے؟ کیا سر ویوین رچرڈز اور دیگر سابق کرکٹرز کا پاکستان میں آنا آپ سے ہضم نہیں ہوا؟ جس کرکٹ میچ کو آپ سیاسی جلسہ قرار دے رہے تھے وہاں ان دو اشخاص کے خلاف نعرے لگوائے گئے جنہوں نے پاکستان میں اس ایک میچ سے اس دھشت کو ختم کرنے کی کوشش کی جس میں ہم برسوں سے سانس لے رہے تھے۔بجائے اس کے کہ ان دھشتگردوں کو یک زبان ہو کر جواب دیا جاتا جو ہمارے کھیل کے میدان ویران کرتے رہے اور ہم سے ہماری خوشیوں اور ثقافت کا ہر رنگ چھین لینا چاہتے ہیں۔ آپ نے خود اس موقع کو سیاسی اور تقسیمی لمحہ بنا ڈالا۔
بات یہاں ختم نہیں ہوتی۔جیسا آغاز میں کہا کہ "یاداشت بڑی کمزور ہے" ۔ خان صاحب نے یہ تمام تضادات پہلی دفعہ نہیں دکھائے۔اور نا ہی یہ پہلا موقع تھا کہ نا مناسب الفاظ کا چناؤ سامنے آیا۔۔۔ اوئے ، گیلی شلوار ، اپنے ہاتھوں سے پھانسی ، ڈر کے مارے ان کا پیشاب نکل جاتا ہے ، زندہ لاشیں ، مولوی ڈیزل ، سول نافرمانی میں ھُنڈی حوالہ کی انڈورسمنٹ ، محمود اچکزئی کی پشتون چادر کا ٹھٹھا ، قائدِ حزبِ اختلاف کو وزیرِاعظم پاکستان کا پی۔اے کہنا ، امپائر کی انگلی ، اسفند یار ولی ہوں یا متحدہ قومی موومنٹ کے رہنما یا بلاول  اور یا پھر مختلف قومی ادارے اور ان کے سربراہان سب کے لیے نازیبا الفاظ کنٹینر سے جاری ہوتے رہے۔پنجاب،کشمیر اور سندھ کے علاقوں میں سیلاب آگیا لیکن آپ کنٹینر سے نہ اترے۔ اس تمام مختصر ری کیپ میں اہم بات یہ ہے کہ سب اپنے ہی ملک اور اس سے وابستہ معاملات رہے۔ اب آ جایے پاکستان آنے والے مہمانوں کی جانب ۔ ہم آج یہ کہہ رہے ہیں کہ فلاں فلاں کھلاڑی کو ریلو کٹا یا پھٹیچر کیوں کہا لیکن بھول رہے ہیں کہ دو سال قبل چینی صدر تک کو "اوئے" کیا جاچکا ہے۔پہلے عوام کو کنٹینر سے باور کرواتے رہے کہ انویسٹمنٹ نہیں سی۔پیک چینی قرضہ ہے اور چینی صدر تو آ ہی نہیں رہا۔اسی روش کی بدولت سری لنکا ، مالدیپ اور قطر جیسے ممالک کے سربراہان نے اپنے دورے ملتوی کیے۔اور جب چینی صدر پاکستان آئے تو پارلیمنٹ کا بائیکاٹ کرنے سے جس طرح ان کی جماعت کے کچھ افراد نے روکا وہ الگ داستان ہے۔ مسئلہ کشمیر پر مشترکہ اجلاس ہو یا ترک صدر کا پاکستانی پارلیمنٹ سے خطاب خان صاحب اپنے عظیم مؤقف پر ڈٹ کر بائیکاٹ کرکے بیٹھے رہے۔لہذا یہ کہنا کہ ایسا پہلی دفعہ ہوا درست نہیں۔ اور یہ سب آخری دفعہ بھی نہیں ہوا۔ عمران خان صاحب فیصلوں میں اٹل ہونا الگ بات ہے اور زندگی و سیاست کے گرے ایریاز کو سمجھ کر وقت کی نبض سمجھنا الگ معاملہ ہے۔ صرف خود کو صراطِ مستقیم پر چلنے والا واحد مسیحا سمجھنا اور ساری دنیا پیتل کی گردانتے جانا سیاسی مستقبل میں کوئی بڑا میچ جیتنے کی کنجی نہیں ہوسکتا۔ یا پھر ہم مان لیتے ہیں کہ آپ ڈونلد ٹرمپ کی الیکشن کیمپین سے متاثر ہوگئے اور وہی حربے آزمانے چلے ہیں۔
یہ تو رہی دو روز قبل تک کی کہانی۔۔ آج یوں ہے کہ ہمارے دو رکن قومی اسمبلی نے جو کچھ کیا ہے اس کے لیے مجھے بھڑاس کا اب دوسری تحریر میں راستہ سجھائی دے رہا ہے۔

سرطان اور معاشرتی رویے

 میں انہیں پھپھو پیاری کہتی تھی، اور سچ تو یہ ہے کہ آج تک ایسی حسین اور سلیقہ شعار صابر خاتون میں نے نہیں دیکھی۔آخری بار جب انہیں دیکھا تو بہت دیر تک گُھٹی آواز میں ماں کی گود میں سسکتی رہی کہ یہ میری پھپھو پیاری نہیں ہیں۔ ہونٹوں پر جمی پپڑی، ہڈیوں کا ڈھانچہ، پھولا ہوا پیٹ اور چھاتی سے بہتا ناسور۔۔۔چند روز بعد ان کے دُکھوں کو راحت مِل گئی۔
شعور کی دہلیز پر قدم رکھا تو سمجھ آئی کہ جِسے ننکانہ اور جھنگ شہر کے لوگ 'غم دا گولہ' کہہ کر جھاڑ پھونک کرواتے رہے، وہ تو بچہ دانی سے لے کر چھاتی تک کا سرطان تھا۔ ڈاکٹر کے پاس نہیں لے جایا گیا کیوں کہ پُھپھا کو پسند نہ تھا کہ ان کی حسین و جمیل بیوی نا محرم ڈاکٹروں کے سامنے بے پردہ ہو۔
پھپھو پیاری نافرمان بیوی اور بہو بننے سے بچ گئیں مگر سرطان سے نہ بچ سکیں۔ آخری وقت میں سسرال نے "موذی" مرض سے نفرت میں برتن تک الگ کر دیے اور جانے کس حکیم کی دوا کیپسول میں بھر بھر کر کھلاتے رہے۔وقت کچھ سرکا اور اماں کو گلٹی کی تکلیف پر شک گزرا تو میڈیکل ٹیسٹ کروائے گئے۔ چھاتی کا سرطان تیسرے درجے کی آخری منزل پر جا پہنچا تھا۔ ایک کینسر ہسپتال نے کیس لینے سے انکار کر دیا تو لاہور میں پاکستان اٹامک انرجی کمیشن کے زیرِ انتظام ہسپتال نے زندگی بچا لی۔ یہ وہ لمحہ تھا جب ابا نے ساتھ بڑھ کر قریبی رشتہ داروں کو بتایا اور بروقت سرجری کروالی گئی۔
ہسپتال میں اماں کے ساتھ والے بستر پر ایک جوان سال لڑکی تھی جِس کا سرطان بگڑ گیا تھا۔ وجہ تھی گھر والوں کی لاپرواہی اور وقتی لالچ۔ جب تشخیص ہوئی تو اس کی منگنی کا دن مقرر کیا جا رہا تھا۔ مہینہ ڈیڑھ گزار کر واپس آئی تھی اور ڈاکٹرز کے پاس سرجری کے سوا کوئی چارہ نہ تھا۔ اس سے بھی تکلیف دہ رویہ یہ تھا کہ رشتہ داروں اور لڑکی کے سسرال سے فون آتے تو گھر والے ان سے یہ معاملہ چھپاتے رہے جیسے یہ کوئی چھپ جانے والی حقیقت تھی۔ لڑکی والدین کی نافرمان نہیں تھی، اس لیے ایک وقت میں تین محاذوں پر کھڑی تھی، جسمانی کرب، نفسیاتی طور پر بکھری، اور ظاہری طور پر مکمل ویران اجڑی حالت۔
اماں کی سرجری کے بعد ایک طویل اور کرب ناک مرحلہ تھا کیمو اور ریڈیو تھراپی کا۔ مجھے آج بھی یاد ہے کہ عیادت کے لیے آنے والی بیشتر خواتین کو سب سے زیادہ دلچسپی دوسری عورت کے جسم کا کٹا ہوا حصہ دیکھنے میں ہوتی تھی۔سوالات کی نوعیت کچھ ایسی ہوتی کہ جِس میں "نسوانیت" سے جُڑے مستقبل کے مسائل پر روشنی ڈالنے کی لو محسوس ہو۔ وہ وقت اماں کے ساتھ ان کی فیملی ڈھال بن کر کھڑی رہی اور نفسیاتی طور پر ہماری ماں نے پہلے سے بھی مضبوط عورت بن کر بیماری کو شکست دے دی۔
یہاں مجھے اپنے پڑوس کی ایک خاتون کا حوالہ بھی دینا ہے جن کی شادی بھائیوں نے نہیں کی تھی۔ انہیں جب چھاتی کے کینسر کی تشخیص کی گئی تو بھائی بھابھیوں نے شرم و غیرت میں کسی سے ملنا جلنا ہی چھوڑ دیا اور گاؤں سے جھاڑ پھونک کے چکروں میں پڑ گئے۔
بہرحال اماں ابا نے ان لوگوں کو سمجھا بجھا کر سرجری اور دیگر علاج کی راہ سجھائی اور بیت المال کے توسط سے دواؤں وغیرہ کے خرچ کا بندو بست بھی کروایا۔ کیموتھراپی کے بعد جون جولائی میں اس بندی کو گاؤں بھیج دیا گیا۔وہاں سے جب لوٹی تو بازو کے پٹھے حرکت کرنا چھوڑ چکے تھے۔ اچھوت بنی گھر کے کونے میں پڑی رہتی اور پھر اللہ نے اس کی آہ و بکا جلد سن لی۔ اچھا ہوا چلی گئی۔ بھائیوں کو گاؤں کی زمین سے حصے کرنے میں مشکل نہ ہوئی۔
کچھ روز قبل سُنا کہ اماں کی پھپھو کی بہو اگلے ہفتے بریسٹ کینسر کے آپریشن کے لیے جا رہی تھی لیکن اس کے میکے والے آ کر روحانی علاج کے لیے لے گئے ہیں۔ اچھی لڑکی ہے اور والدین کی نافرمان بھی نہیں۔ خاموشی سے چلی گئی۔ انشاءاللہ صحت یاب ہو کر لوٹے گی، ورنہ تابع اور فرمانبردار ہونے کے باعث جنت تو پکی اور سسرال بھی بری الذمہ ہے۔

یہ چند واقعات بیان کرنے کا مقصد چھاتی کے سرطان سے آگہی نہیں بلکہ ہمارے معاشرتی رویے ہیں جو دہائیوں پر مشتمل ہیں۔ علاج کی سہولیات تک دسترس تو آسان ہو گئی لیکن کسی جسمانی عضو میں پھیلے ناسور سے جُڑی ہماری منافقتیں وہیں دھری ہیں۔آج بھی شرم اور حیاء کے بنائے جھوٹے پیمانوں میں تول کر عورت کا مرض ناقابلِ علاج کر دیا جاتا ہے، اور بالفرض محال علاج شروع ہو جائے تو ایک بڑی تعداد وہ ذہنی کرب سمجھنے سے قاصر ہے جو ایک عورت جسم کا حصہ کٹ جانے پر سہتی ہے۔ الٹا معاشرتی دباؤ اور گھریلو کشمکش میں نفسیاتی طور پر تنہا کر دیا جاتا ہے، اسے ادھورے پن کا طعنہ مِلتا ہے، سر کے بال اور بھنویں جھڑ جانے جیسی ذہنی و نفسیاتی اذیت الگ ہوتی ہے۔
گزشتہ دنوں 45 سالہ بیوہ پروین بی بی سے ملاقات ہوئی۔ تین بچوں کی پرورش کے لیے لوگوں کے کپڑے سلائی کر کے گزر بسر کر رہی تھیں کہ بریسٹ کینسر نے آ لیا۔ مظفر آباد کے سی ایم ایچ سے سرجری کے بعد اسلام آباد کے شفاء انٹرنیشنل ہسپتال میں کیمو تھراپی کے بعد آج کل ریڈیو تھراپی کے تکلیف دہ عمل سے گزر رہی ہیں۔انہیں دیکھ کر احساس ہوتا ہے کہ ماں کی قوتِ ارادی اور ہمت کیا شے ہوتی ہے۔ ریاست کی جانب سے اچھی بات جو اس سارے عمل میں میرے علم میں آئی وہ یہ ہے کہ پروین بی بی کا تمام تر علاج وزیرِ اعظم کے ہیلتھ کارڈ پروگرام کے تحت بالکل مفت ہو رہا ہے اور یہ کارڈ ان کی دہلیز پر پہنچایا گیا۔ایسے بہت سے مریض ہیں جو اس کارڈ کی بدولت کینسر کے مہنگے علاج کی معاشی پریشانی سہنے سے بچائے جا رہے ہیں۔ ہاں اب بھی بہت سے مریضوں تک یہ سہولت نہیں پہنچی ہے، مگر بہتری بہرحال ایک مسلسل عمل کا ہی نتیجہ ہوتا ہے۔
ہم نے تو سوشل میڈیا پر ایسے پڑھے لکھے ذہنی مریض بھی دیکھے ہیں (جن میں خواتین بھی شامل ہیں) جو چھاتی کے سرطان میں سے sexism یعنی جنسیت تلاش کرنے میں ماہر ہیں۔اس کا تجربہ مجھے ہر بار ان ٹوئٹس کے بعد ہوتا ہے جِن میں پنک ربن کے بارے میں بات کرتی ہوں، جبکہ نومبر کا مہینہ جو مردوں میں سرطان سے آگہی کے حوالے سے منایا جاتا ہے، اس بارے میں تو معاشرتی سمجھ اکتوبر کے پنک ربن سے بھی کہیں کم ہے۔
سیمینار اور تشہیری مہم کے علاوہ سرکاری ہسپتالوں اور خاص کر کینسر یونٹس میں اکتوبر کا پورا مہینہ خواتین کو مفت معائنے اور مشورے کی سہولت فراہم کی جاتی ہے لیکن عام شہریوں کو آج بھی مکمل علم نہیں ہو پاتا۔
ج
ب مرض کو حیاء اور غیرت سے جوڑ دیا جائے تو صحت کی صورتحال وہی بن جاتی ہے جو پاکستان میں ہے۔ سرطان سے حفاظت آپ سے اپنے بدن کی آگہی مانگتی ہے۔ سمجھ نہیں آتی کہ چھاتی یا کسی بھی قسم کے سرطان پر بات کرنا معیوب کیوں سمجھا جاتا ہے؟
بیماری کو تمسخر اور ذہنی عیاشی کا ذریعہ سمجھنا بھی ایک بیماری ہے، مگر ناقابلِ علاج۔ مرد و خواتین میں ہر قسم کے سرطان پر کھل کر بات ہونی چاہیے۔ احتیاط اور اپنا ماہانہ معائنہ جیسا شعور پیدا کرنے کی اشد ضرورت ہے۔
دشمن کو پہچاننا اور جاننا جیت کی جانب پہلا قدم ہے۔
اگر تعلیم یہ سکھانے میں ناکام رہے کہ چھاتی کے سرطان سے لے کر کسی بھی طرح کے صحت کے مسائل پر انفرادی و اجتماعی ردِعمل کیسا ہونا چاہیے، تو یقیناً آپ کو مدد کی ضرورت ہے۔