عبدالستار ایدھی ایک ایسا نام جو کسی بھی طرح کی سیاسی ،
مسلکی یا دیگر وابستگیوں سے بلا تر ہو کر لفظ انسانیت کے اصول سکھلاتا اس دنیا سے
چلا گیا۔اب جو ایک نگاہ اُس خلاء کی جانب ڈالی جائے تو اس سے پہلے بلیک ہول ہے۔
ایدھی ایک سوچ، نظریے اور عقیدے کا نام بن چکا ہے۔ایک ایسا طرزِ زندگی جو انسان کو کسی دنیاوی تخصیص کے بِنا اپنا لے۔ایسی پناہ گاہ جہاں بھارت سے آئی گیتا کی پہچان اور مذہبی عقیدہ مسخ نہ ہونے پایا۔اس کا احترام ویسے ہی کیا گیا جیسے ایدھی ھومز میں دیگر افراد کا خیال رکھا جاتا ہے۔
ایدھی ایک ایسا نام تھا جو کبھی سیاسی و مذہبی منافرت میں پڑے بِنا اپنا کام کرتا رہا لیکن افسوس ہے اس طبقے پر جو گِدھ بنے ان کے جنازے پر منڈلاتا رہا۔فلاں نے شرکت کی ، فلاں بھاگ گیا،ڈھمکاں کہاں ہے کی لاحاصل بحث۔۔۔اور سچ تو یہ ہے کہ عوام کیلیے زمین پر پلاسٹک کی ٹوکریاں رکھے انسانیت کے نام پر آپ سے چند ٹکے مانگنے والا شخص اپنے جنازے میں کھڑے اگلی صفوں پر شاید افسوس ہی کررہا ہوگا کہ اس کے عوام کو اس تک پہنچنے کے درمیان حائل ہوگئے۔افسوس ہے تو اس الیکٹرانک میڈیا پر جو اُس شخص کے ہاتھوں کھودی گئی اپنی آخری آرام گاہ میں لیٹ کر رپورٹنگ کرتا صحافت کا جنازہ پڑھتا رہا۔ "ایدھی بھگت" کہلوانے کیلیے آپ کا چیخنا چلانا کب سے ضروری ہوگیا یہ سمجھ نہیں آئی۔جس شخص کی بے لوث خدمتِ انسانیت کوکسی سیاسی مائلیج اور دینی عقیدے کی ترویج کیلیے استعمال نہ کیا گیا کچھ موقع پرست آج ان کے دنیا سے پردہ کرجانے پر یہ سب کچھ کرتے پائے گئے۔ایسی پستیوں کو دیکھ کر اب دل بھی رونے سے قاصر ہے۔
یقین مانیے یہ بات آپ زندہ رندوں کیلیے تو باعثِ افتخار ہوگی کہ کِس نے جنازے کو کندھا دیا لیکن اس میں میرے ایدھی کیلیے کوئی افتخار نہیں کہ کون کہاں تک ساتھ چلا۔مجھے یہ جاننے میں بہرحال دلچسپی رہے گی کہ ایدھی کی آخری خواہش "میرے وطن کے غریبوں کا خیال رکھنا" کیسے پوری کی جاتی ہے۔یہ پوچھنا چاہتی ہوں کہ ائیر ایمبولینس کا ارادہ کیسے پورا کیا جائے گا۔آپ کے سرکاری اعزازات اور تمغوں کیلیے یہ بات قابلِ فخر ہوگی کہ وہ ایدھی کے نام سے منسوب ہوں۔
جب کچھ لوگ کہتے ہیں کہ ایدھی ایک ہی تھا تو یہ مانیے کہ لیڈر ایک ہی ہوتا ہے جو مشن کو آگے بڑھاتا ہے۔اور اپنے جیسے چند ایک پیچھے چھوڑ جاتا ہے۔فیصل ، سعد اور بلقیس ایدھی ایسے ہی نام ثابت ہوں گے۔ان ہاتھوں کو سراہنا سیکھیے جو خاموشی سے ایدھی صاحب پر اپنے اعتماد کا اظہار کرتے عطیات ان کے حوالے کردیا کرتے تھے۔آپ نہیں کہہ سکتے کہ انسانیت یتیم ہوگئی۔ ایسا ہوتا تو دنیا کی سب سے بڑی نجی ایمبولینسز کی سروس کیونکر دوڑتی پھرتی؟ ایدھی لنگر خانوں کے برتن کیسے بھرے رہتے اور بچیوں کے گھر کیسے بستے۔بےکاروں کو ہنر سکھا کر معاشرے کا کار آمد رکن کیسے بنایا جاتا؟ لاشوں کی تدفین اور غریب مریضوں کی داد رسی کیسے ممکن تھی ؟ کبھی سوچیے گا کہ ادارے اور افراد اپنا نام سامنے لائے بِنا کِس فراخدلی سے ایدھی صاحب کے مشن کو ہر طرح کا ایندھن فراہم کرتے رہے۔
سوالات کا لامتناہی سلسلہ ہے جو ایدھی صاحب کے رخصت ہوجانے کے بعد پھیلتا چلا جارہا ہے۔معاشرے کی دھتکاری خواتین ، اولاد کے ہوتے بےسہارا کہلوانے والے والدین ، ایدھی لنگر کی آس میں بھوک کو بہلاتے میرے وطن کے فاقہ کش ، اپنوں سے ملنے کی آس میں پلتے گمشدہ بچے ، جیلوں میں سڑتےغریب قیدی ، لاوارث لاشیں ، زخمی ، نفسیاتی عوارض کا شکار بے آسرا افراد ، کچرہ کُنڈی میں کتوں کے بھنبھوڑے لاوارث بچے۔۔۔ اب جس پناہ اور جھولوں میں جائیں گے انہیں سنبھالنے والے ہاتھ یقیناً ایدھی کے سکھائے ہوئے ہی ہوں گے۔لیکن اعتماد بنائے رکھنے میں ہم آپ کتنا ساتھ دیتے ہیں یہ اہم رہے گا۔
عمر اور بیماری کے اثرات کے باعث دیگر جسمانی اعضاء تو ان کی وصیت کے مطابق عطیہ نہ ہو سکے لیکن بینائی۔۔۔ اپنی بصارت بھی انسانیت کے نام کرجانے والے محبت و خلوص کے اس مینار کی بصارت و سیرت بھی اپنا لی جائے تو شاید بلیک ھول پر نگاہ ہی نہ پڑتی۔
ایدھی ایک سوچ، نظریے اور عقیدے کا نام بن چکا ہے۔ایک ایسا طرزِ زندگی جو انسان کو کسی دنیاوی تخصیص کے بِنا اپنا لے۔ایسی پناہ گاہ جہاں بھارت سے آئی گیتا کی پہچان اور مذہبی عقیدہ مسخ نہ ہونے پایا۔اس کا احترام ویسے ہی کیا گیا جیسے ایدھی ھومز میں دیگر افراد کا خیال رکھا جاتا ہے۔
ایدھی ایک ایسا نام تھا جو کبھی سیاسی و مذہبی منافرت میں پڑے بِنا اپنا کام کرتا رہا لیکن افسوس ہے اس طبقے پر جو گِدھ بنے ان کے جنازے پر منڈلاتا رہا۔فلاں نے شرکت کی ، فلاں بھاگ گیا،ڈھمکاں کہاں ہے کی لاحاصل بحث۔۔۔اور سچ تو یہ ہے کہ عوام کیلیے زمین پر پلاسٹک کی ٹوکریاں رکھے انسانیت کے نام پر آپ سے چند ٹکے مانگنے والا شخص اپنے جنازے میں کھڑے اگلی صفوں پر شاید افسوس ہی کررہا ہوگا کہ اس کے عوام کو اس تک پہنچنے کے درمیان حائل ہوگئے۔افسوس ہے تو اس الیکٹرانک میڈیا پر جو اُس شخص کے ہاتھوں کھودی گئی اپنی آخری آرام گاہ میں لیٹ کر رپورٹنگ کرتا صحافت کا جنازہ پڑھتا رہا۔ "ایدھی بھگت" کہلوانے کیلیے آپ کا چیخنا چلانا کب سے ضروری ہوگیا یہ سمجھ نہیں آئی۔جس شخص کی بے لوث خدمتِ انسانیت کوکسی سیاسی مائلیج اور دینی عقیدے کی ترویج کیلیے استعمال نہ کیا گیا کچھ موقع پرست آج ان کے دنیا سے پردہ کرجانے پر یہ سب کچھ کرتے پائے گئے۔ایسی پستیوں کو دیکھ کر اب دل بھی رونے سے قاصر ہے۔
یقین مانیے یہ بات آپ زندہ رندوں کیلیے تو باعثِ افتخار ہوگی کہ کِس نے جنازے کو کندھا دیا لیکن اس میں میرے ایدھی کیلیے کوئی افتخار نہیں کہ کون کہاں تک ساتھ چلا۔مجھے یہ جاننے میں بہرحال دلچسپی رہے گی کہ ایدھی کی آخری خواہش "میرے وطن کے غریبوں کا خیال رکھنا" کیسے پوری کی جاتی ہے۔یہ پوچھنا چاہتی ہوں کہ ائیر ایمبولینس کا ارادہ کیسے پورا کیا جائے گا۔آپ کے سرکاری اعزازات اور تمغوں کیلیے یہ بات قابلِ فخر ہوگی کہ وہ ایدھی کے نام سے منسوب ہوں۔
جب کچھ لوگ کہتے ہیں کہ ایدھی ایک ہی تھا تو یہ مانیے کہ لیڈر ایک ہی ہوتا ہے جو مشن کو آگے بڑھاتا ہے۔اور اپنے جیسے چند ایک پیچھے چھوڑ جاتا ہے۔فیصل ، سعد اور بلقیس ایدھی ایسے ہی نام ثابت ہوں گے۔ان ہاتھوں کو سراہنا سیکھیے جو خاموشی سے ایدھی صاحب پر اپنے اعتماد کا اظہار کرتے عطیات ان کے حوالے کردیا کرتے تھے۔آپ نہیں کہہ سکتے کہ انسانیت یتیم ہوگئی۔ ایسا ہوتا تو دنیا کی سب سے بڑی نجی ایمبولینسز کی سروس کیونکر دوڑتی پھرتی؟ ایدھی لنگر خانوں کے برتن کیسے بھرے رہتے اور بچیوں کے گھر کیسے بستے۔بےکاروں کو ہنر سکھا کر معاشرے کا کار آمد رکن کیسے بنایا جاتا؟ لاشوں کی تدفین اور غریب مریضوں کی داد رسی کیسے ممکن تھی ؟ کبھی سوچیے گا کہ ادارے اور افراد اپنا نام سامنے لائے بِنا کِس فراخدلی سے ایدھی صاحب کے مشن کو ہر طرح کا ایندھن فراہم کرتے رہے۔
سوالات کا لامتناہی سلسلہ ہے جو ایدھی صاحب کے رخصت ہوجانے کے بعد پھیلتا چلا جارہا ہے۔معاشرے کی دھتکاری خواتین ، اولاد کے ہوتے بےسہارا کہلوانے والے والدین ، ایدھی لنگر کی آس میں بھوک کو بہلاتے میرے وطن کے فاقہ کش ، اپنوں سے ملنے کی آس میں پلتے گمشدہ بچے ، جیلوں میں سڑتےغریب قیدی ، لاوارث لاشیں ، زخمی ، نفسیاتی عوارض کا شکار بے آسرا افراد ، کچرہ کُنڈی میں کتوں کے بھنبھوڑے لاوارث بچے۔۔۔ اب جس پناہ اور جھولوں میں جائیں گے انہیں سنبھالنے والے ہاتھ یقیناً ایدھی کے سکھائے ہوئے ہی ہوں گے۔لیکن اعتماد بنائے رکھنے میں ہم آپ کتنا ساتھ دیتے ہیں یہ اہم رہے گا۔
عمر اور بیماری کے اثرات کے باعث دیگر جسمانی اعضاء تو ان کی وصیت کے مطابق عطیہ نہ ہو سکے لیکن بینائی۔۔۔ اپنی بصارت بھی انسانیت کے نام کرجانے والے محبت و خلوص کے اس مینار کی بصارت و سیرت بھی اپنا لی جائے تو شاید بلیک ھول پر نگاہ ہی نہ پڑتی۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں