اپریل 2016ء میں پاکستان انسانی حقوق کمیشن کی جانب سے چھپنے
والی ایک رپورٹ کے مطابق گزشتہ برس پاکستان بھر میں غیرت کے نام پر 1100 خواتین
اور 88 مردوں کا قتل ہوا۔جنسی تشدد کے درج شدہ واقعات کی کُل تعداد 3768 میں سے
متاثرین بچیوں کی تعداد 1974 جبکہ 1794 لڑکے شامل ہیں۔ اس سے بھی خطرناک رجحان یہ
دیکھا گیا ہے کہ متاثرین کی عمریں گیارہ سے پندرہ سال کے درمیان ہی ہیں۔یہاں یہ
بات مزید پریشانی کا باعث ہے کہ روزانہ کی بنیاد پر دس بچے (صنف سے قطع نظر) جنسی تشدد کا نشانہ بنتے ہیں۔ جبکہ یہ تمام
اعداد و شمار صرف رپورٹ ہونے والے معاملات کی بنیاد پر مرتب کیے گئے ہیں۔ہم اور آپ
اچھی طرح جانتے ہیں کہ نام نہاد غیرت ، خاندانی وقار اور معاشرتی مجبوریوں کے نام پر کتنے لوگ خاموش
رہ کر ظالم کو مزید شکار تلاش کرنے کی کھلی چھوٹ دیتے جرم میں حصہ دار بن جاتے ہیں۔
آج تیسرا دِن ہے یا چوتھا ۔۔۔نہیں شاید دوسرا کہ ڈیرہ غازی
خان میں غیرت کے نام پر وحشی درندوں کا روپ چند سیکنڈز کے لیے الیکٹرانک اور کچھ
منٹوں کے لیے سوشل میڈیا کی زینت بنا لیکن چونکہ یہ قتل ایک مرد کا تھا لہذا اس
میں سے مال مصالحہ نکالنا اور انسانی حقوق کی علمبرداری کے ڈونگرے بجانا مشکل تھا
تو سب بھول بھی آسانی سے گئے۔بالکل ویسے ہی جیسے ہم یہ بھول جاتے ہیں کہ ہر کارو
کاری ، پنچایت و جرگہ گردی میں دوسرا مرنے والا انسان مرد ہوا کرتا ہے۔ ڈیرہ غازی
خان کے گاﺅں پیگا میں اللہ
دتہ نامی ایک شخص کے بازو، ناک اور ہونٹ کاٹ دیے گئے اور پانچوں "غیرت
مند" افراد کا ٹولہ جاتے ہوئے کئی اعضاءاپنے ساتھ لے گیا۔ متاثرہ شخص ہسپتال میں
زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے دم توڑ گیا۔ ابتدائی رپورٹ کے مطابق کچھ عرصہ قبل گاؤں
کی ایک شادی شدہ خاتون مقتول کے ساتھ گھر سے بھاگ گئی تھی۔لیکن خاندان کے بزرگوں
کی مداخلت اور دباؤ پر اسے شوہر کے پاس واپس بھیج دیا گیا۔اللہ دتہ اسی خاتون سے
ملاقات کرنے آیا اور اس کے رشتہ داروں کے
ہاتھ جان گنوا بیٹھا۔
اس قتل کے محرکات سمجھنے کے لیے یہ جاننا بھی ضروری ہے کہ آیا خاتون کی شادی اس کی مرضی سے ہوئی تھی یا زبردستی کا طوق گلے میں ڈال دیا گیا۔جب تک معاشرے میں شادی کو دو لوگوں کے ایک کِلے سے باندھنے کا مفہوم درست نہیں کیا جائے گا معاملات کسی نہ کسی صورت شدت سمیٹے سامنے آتے رہیں گے۔
ہم میں سے کسی کو شاید یاد بھی نا ہو کہ چند ماہ قبل پسند کی شادی کرنے کے جرم میں بہت مہینوں بعد موقع ملنے پر بوریوالا میں بہنوئی کا گلا کاٹ کر امیر زمینداروں نے معاشرے کو اپنی غیرتمندی کا ثبوت دیا تھا۔ یاداشت کے نہاں خانوں میں ایسے واقعات کھنگالے جانے کا فائدہ بھی نہیں کیونکہ بقول ہمارے بھائی ان مردوں کے لیے نہ تو کوئی فیشن میں اور نا ہی مروت میں آواز اٹھانے والا ہے۔میڈیا کو مطلوبہ برینڈ کا چسکورا نشہ نہ ملے تو کسی لکھاری کو کیا ضرورت ہے اپنے قیمتی الفاظ گھسیٹنے اور ضائع کرنے کی؟ یہ محنت و توانائیاں ہم کسی کاری ، مقتولہ یا متاثرہ بندی کے لیے کیوں نہ بچا رکھیں۔اور مردوں کا کیا ہے وہ تو مسلک و عقائد کے نام پر خواتین سے زیادہ تعداد میں جان گنواتے ہیں۔الگ بات کہ وہاں بھی ٹی۔آر،پی کا رچایا کھیل اپنا رنگ جما کر ہر کسی کو "اوقات" میں رکھنے کا عادی ہے۔ویسے بھی غیرت کے نام پر مرد کا قتل یا کہیں کسی مرد کی عصمت لُٹ جانا ۔۔۔ کیسی فضول اور بےتُکی شہہ سرخی بنے۔ مانو جیسے مرد کی عصمت ہوتی کہاں ہے جو لوٹ لی جائے۔ ہے نا؟
آخر کیوں انسانیت کی دُہائی اور زندگی کا واویلا کروانے کو مقتول کا صنفِ نازک ہونا یا کسی خاص سیاسی و مسلکی وابستگی میں ہونا ہی ضروری ہے ؟ یہاں پہلی صورت میں شاید وہی معاشرتی ذہنی زنجیر ہے کہ جِس کے مطابق مرد کبھی روتا نہیں ہے۔اور جو رو پڑے تو طعنہ کہ کیا عورتوں کی طرح ٹسوے بہاتے ہو۔ مرد نہ ہوا کوئی ہوائی مخلوق ہوگئی کہ جِس کی حسیات انسانوں سے مختلف ہوں گی۔جبکہ دوسری صورتحال میں دیکھا یہ گیا ہے کہ مقتول بہت سوں کی پوائنٹ اسکورنگ اور مظلومیت کے پرچار کے لیے استعمال میں آجانے والی شے بن جاتا ہے۔کچھ عرصہ بعد قصہ پارینہ۔
انسان مانیے بلا تخصیص صنف ۔خواجہ سراؤں اور خواتین کے علاوہ مان لیجیے کہ حضرات بھی اسی معاشرے میں ظلم سہتے زندگی پر بیتتے چلے جارہے ہیں۔ایک آواز ،ایک پکار ان کے لیے کوئی تو اٹھانے والا ہو۔مردوں کو صرف ظالم کے پلڑے اور روپ میں دیکھنے دِکھانے کی بجائے مناسب ہوگا کہ صنفی تقسیم کی اس بحث کو مناسب انداز میں سلجھایا جائے نا کہ نا آسودگیوں میں گھس کر ذاتی تجربات کو آفاقی سچ بنا کر پرچار کرتے معاشرے کو بیمار کرتے چلے جائیں۔اور قبل اس کے کہ خواتین کی طرح مردوں کے سوشل میڈیا اکاؤنٹس پر اسٹیٹس آنے لگیں کہ ، "کاش میں بھی عورت ہوتی " ۔۔۔ کم از کم ایک سرخی اور ٹرینڈ تو بنتا ہے۔
اس قتل کے محرکات سمجھنے کے لیے یہ جاننا بھی ضروری ہے کہ آیا خاتون کی شادی اس کی مرضی سے ہوئی تھی یا زبردستی کا طوق گلے میں ڈال دیا گیا۔جب تک معاشرے میں شادی کو دو لوگوں کے ایک کِلے سے باندھنے کا مفہوم درست نہیں کیا جائے گا معاملات کسی نہ کسی صورت شدت سمیٹے سامنے آتے رہیں گے۔
ہم میں سے کسی کو شاید یاد بھی نا ہو کہ چند ماہ قبل پسند کی شادی کرنے کے جرم میں بہت مہینوں بعد موقع ملنے پر بوریوالا میں بہنوئی کا گلا کاٹ کر امیر زمینداروں نے معاشرے کو اپنی غیرتمندی کا ثبوت دیا تھا۔ یاداشت کے نہاں خانوں میں ایسے واقعات کھنگالے جانے کا فائدہ بھی نہیں کیونکہ بقول ہمارے بھائی ان مردوں کے لیے نہ تو کوئی فیشن میں اور نا ہی مروت میں آواز اٹھانے والا ہے۔میڈیا کو مطلوبہ برینڈ کا چسکورا نشہ نہ ملے تو کسی لکھاری کو کیا ضرورت ہے اپنے قیمتی الفاظ گھسیٹنے اور ضائع کرنے کی؟ یہ محنت و توانائیاں ہم کسی کاری ، مقتولہ یا متاثرہ بندی کے لیے کیوں نہ بچا رکھیں۔اور مردوں کا کیا ہے وہ تو مسلک و عقائد کے نام پر خواتین سے زیادہ تعداد میں جان گنواتے ہیں۔الگ بات کہ وہاں بھی ٹی۔آر،پی کا رچایا کھیل اپنا رنگ جما کر ہر کسی کو "اوقات" میں رکھنے کا عادی ہے۔ویسے بھی غیرت کے نام پر مرد کا قتل یا کہیں کسی مرد کی عصمت لُٹ جانا ۔۔۔ کیسی فضول اور بےتُکی شہہ سرخی بنے۔ مانو جیسے مرد کی عصمت ہوتی کہاں ہے جو لوٹ لی جائے۔ ہے نا؟
آخر کیوں انسانیت کی دُہائی اور زندگی کا واویلا کروانے کو مقتول کا صنفِ نازک ہونا یا کسی خاص سیاسی و مسلکی وابستگی میں ہونا ہی ضروری ہے ؟ یہاں پہلی صورت میں شاید وہی معاشرتی ذہنی زنجیر ہے کہ جِس کے مطابق مرد کبھی روتا نہیں ہے۔اور جو رو پڑے تو طعنہ کہ کیا عورتوں کی طرح ٹسوے بہاتے ہو۔ مرد نہ ہوا کوئی ہوائی مخلوق ہوگئی کہ جِس کی حسیات انسانوں سے مختلف ہوں گی۔جبکہ دوسری صورتحال میں دیکھا یہ گیا ہے کہ مقتول بہت سوں کی پوائنٹ اسکورنگ اور مظلومیت کے پرچار کے لیے استعمال میں آجانے والی شے بن جاتا ہے۔کچھ عرصہ بعد قصہ پارینہ۔
انسان مانیے بلا تخصیص صنف ۔خواجہ سراؤں اور خواتین کے علاوہ مان لیجیے کہ حضرات بھی اسی معاشرے میں ظلم سہتے زندگی پر بیتتے چلے جارہے ہیں۔ایک آواز ،ایک پکار ان کے لیے کوئی تو اٹھانے والا ہو۔مردوں کو صرف ظالم کے پلڑے اور روپ میں دیکھنے دِکھانے کی بجائے مناسب ہوگا کہ صنفی تقسیم کی اس بحث کو مناسب انداز میں سلجھایا جائے نا کہ نا آسودگیوں میں گھس کر ذاتی تجربات کو آفاقی سچ بنا کر پرچار کرتے معاشرے کو بیمار کرتے چلے جائیں۔اور قبل اس کے کہ خواتین کی طرح مردوں کے سوشل میڈیا اکاؤنٹس پر اسٹیٹس آنے لگیں کہ ، "کاش میں بھی عورت ہوتی " ۔۔۔ کم از کم ایک سرخی اور ٹرینڈ تو بنتا ہے۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں