اتوار، 26 جون، 2016

سنیاسی دانشور


خبر نہیں تھی کہ ایک موبائل کے اشتہار میں اپنے ٹیلنٹ کی بنیاد پر کیریئر چُنتی اور نام بناتی ٹین ایجر لڑکی کسی عمر رسیدہ صاحب کی انا کا مسئلہ بن جائے گی اور ان کا اسلام بشمول اسلامی جمہوریہ پاکستان کا نظام خطرے میں پڑ جائے گا۔ پہلے تو پورا ایک ٹاک شو کر ڈالا ۔اس پر بھی تسلی نہ ہوئی تو "پراڈکٹ" کے عنوان سے  کالم ہی لکھ مارا۔جِس کو پڑھ کر احساس ہوا کہ بابائے نفسیات سگمنڈ فرائیڈ یہ تو بتا گئے کہ بچپن کے تجربات انسانی کردار کی تشکیل کرتے ہیں اور بچہ کس عمر سے جنسی فینٹیسی میں پڑتا ہے لیکن یہ معلوم کرنا بھول گئے کہ کِس عمر میں جا کر ہارمونز کے مسائل بزرگ حضرات کو خود لذتی کے لیے اخلاقی پستیوں میں گِرا سکتے ہیں۔
مسئلہ سن یاسیت کے شکار ان صاحب کا معاشرتی یا تہذیبی نہیں نفسیاتی ہے۔انہوں نے وہی دیکھا جو دیکھنا چاہتے تھے۔پہلے تو نافرمان اولاد کے کامیاب ہونے پر دو پیرا گراف لکھ مارے۔اور مذہبی حوالہ جات سے من مرضی کا بگھار تحریر کو دو آتشہ کرنے کے لیے ضروری ہوتا ہے۔پھر آئے اصل مدعا کی جانب۔لڑکی کے جسمانی خدوخال۔اس ضمن میں اپنی ڈرامہ نگاری کے زمانے میں کیمرہ مین اور ہدایتکاروں کی بدمعاشیوں سے لے کر کولہوں اور چھاتی کابراہِ راست نام  لیے بنا ایسا مضمون باندھا ہے کہ دنیا عش عش کر اٹھی ہے۔اور پھر جِس طرح سے مذکورہ اشتہار میں اچھلنا کودنا،کندھوں پر گھومنا اور خوشی میں گلے لگنے کو تفصیلاً بیان کیا ہے یوں محسوس ہوا کہ کم از کم سینتیس بار تو سلو موشن میں زوم اِن کرکے یہ مناظر دیکھے ہوں گے۔ کیونکہ بیشتر تو کلوز شارٹس بنائے گئے ہیں۔صاحب نے ایسی باریکیاں بیان کی ہیں کہ فلموں کی وہ نائیکہ یاد آگئی جو مغوی لڑکی کو نظروں سے تول لیا کرتی تھی۔اس قسم کے انکلز سے اپنی بچیوں کو بچانا چاہیے جو نظروں ہی سے لڑکیوں کے جسم کا طواف کرلیں۔ایسے لوگ آپ کو پبلک پارکس اور بسوں ویگنوں میں بھی دکھائی دیتے ہیں۔جن کے نزدیک غلاظت بھری نظروں سے گھورنا جنسی ہراساں کرنے کے زمرے میں نہیں آتا۔ایسے لوگ بازاروں اور رش والی جگہوں پر راہ چلتی خواتین کے جسم کو چھو لینا ہی مردانگی کی اولین نشانی سمجھتے ہیں۔
اب اگر بات مذہبی روایات اور اسلامی شعار پر لائے ہیں تو صاحب کو یاد کروا دوں کہ سرورِ کائنا
تؐ نے اُم المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہؓ کے ساتھ دوڑ کا مقابلہ بھی کیا۔آگے چلیے اور غزوات میں مشکیزوں سے پانی پلاتی،زخمیوں کی مرہم پٹی کرتی خواتین بارے ان صاحب کی رائے جاننے میں مجھے تو کوئی دلچسپی نہیں کیونکہ پھر یہ بھی پوچھا جائے گا کہ جنگوں میں گُھڑ سواری کرتی خواتین کیا سینوں کو سی لیا کرتی تھیں۔تب شاید ان کا جواب یہ ہو کہ بچیاں بس رجزیہ گیت اور جنگی ترانے ہی گانے تک محدود رہیں۔آپ کالم لکھ رہے ہیں اور کسی خاتون کا اپنی بہو کو طلاق دِلوانے کا نجی معاملہ بھی لکھ ڈالا۔مشکل یہ ہے کہ بیرونِ ملک تعلیم حاصل کرتی آپ کی بیٹی ہماری بہن ہے۔آپ کو سوال اٹھاتے دوسروں کے احترام کا بھی خیال رکھنا چاہیے۔
کسی اشتہار یا فلم ڈرامہ میں ایک نقاد تکنیکی خامیاں تلاش کرتا ہے جبکہ یہ صاحب جنسی لذت حاصل کرنے میں مگن پائے گئے۔مطلب کہ نگاہیں بچی کے سینے سے ہٹی ہی نہیں۔یہ تو ان دانشور اور نام نہاد تجزیہ کار کا لیول ہے۔ اپنے علاقائی بندھنوں کے علاوہ یقیناً ایسی ہی گھٹیا سوچ کے مالکان کے ڈر سے ماریہ طور جیسی سکواش پلیئر ابتداء میں لڑکا بن کر کھیلتی رہی۔سلام ہے اس لڑکی کے والدین کو جو اس کو ہر ممکن سپورٹ فراہم کرتے رہے۔
کبھی ہمارے ہاں کے ماہرینِ نسوانی خدوخال نے اس ملک میں غذا کی کمی کا شکار بچیوں بارے بات کرنا گوارا کیا ہے ؟ کبھی جو نفسیاتی مسائل زیرِ بحث لائے گئے ہوں؟ بچے پیدا کرنے کی مشین بن جانے والی ماؤں کی صحت اور دورانِ زچگی اموات کی تشویشناک صورتحال پر کسی نے بات کرنا مناسب جانا ؟ کیریئر وومین پر تبرہ کرتے کبھی کام کرنے کی جگہ پر وہ کس طرح جنسی طور پر ہراساں کی جاتی ہیں یہ موضوع کہیں زیرِ بحث آتا ہو؟ لڑکیاں اپنی خداد صلاحیتوں کو کِس طرح نکھار کر انفرادی اور اجتماعی معاملات میں کامیابی سمیٹ کر معاشرے کی بہتری میں کردار نباہ سکتی ہیں۔کیا اس بارے کبھی ان صاحب کو "اوریانیت" سے نکل کر بات کرنے کی توفیق ہوئی؟ ممکن ہی نہیں جناب کیونکہ یہ تو خودراستگی کے بھنور میں پھنسے نفسیاتی عوارض سے لڑ رہے ہیں۔

چار منٹ اور اٹھاون سیکنڈز کا اشتہار جو کچھ روز چلنے کے بعد قطع برید سے گزرتے اب دو منٹ میں سمٹ چکا ہے۔اس اشتہار میں کہانی اچھی ہے۔اور خدا لگتی کہیں تو بس کہانی ہی اچھی تھی۔اداکاری اور ہدایتکاری کا ستیناس مارا ہوا ہے۔سب سے اہم بات کہ پاکستان میں خواتین کی قومی کرکٹ ٹیم کے ہوتے آپ کو پڑوسی ملک جا کر اداکاروں سے اوور ایکٹنگ کی ڈوز ڈالنی پڑی۔اوپر سے سکائپ چیٹ میں سیم سنگ کا ھینڈ سیٹ استعمال کرتے ہوئے آپ کیسے قیو موبائل خریدنے پر زور دے رہے ہیں۔باؤلنگ ایکشن اور آؤٹ ہونے والی بچی کے بیٹنگ سٹائل پر بھی توجہ درکار ہے۔ تکنیکی اعتبار سے جھول ہی جھول ہیں۔

دن رات اسلام کے ٹھیکے دار بنے امانت و دیانت اور سچائی کے علمبردار بنے یہ سابق بیوروکریٹ مجال ہے کبھی اعترافِ "گناہ" کریں کہ جعلی ڈومیسائل پر قوٹہ سسٹم سے فائدہ اٹھا کر سرکاری نوکری کرتے رہے۔اور ساتھ میں نجی ٹی۔وی چینلز سے بھی مال بناتے رہے۔ ہاں لیکن انہیں یہ خوب علم ہے کہ احمدی ، لبرل ، سیکولر اور ملحد نظریات کے پیروکاروں کے خلاف کونسے زاویوں سے مذہبی جذبات بھڑکا کر لوگوں  کو ایک دوسرے کی جان لینے پر کیسے اکسانا ہے۔ایسے میں پیمرا کِس محلے میں سحری کا ٹین ڈبہ بجا کر سویا پڑا ہے کچھ خبر نہیں ہو پائی۔نیشنل ایکشن پلان والوں کے بھی شاید پر جلتے ہیں اسلام کے اس "کلم کارے راج دُلارے"  ٹھیکے دار کے سامنے۔

2 تبصرے:

  1. اس واقعے پر اب تک کی سب سے بہترین اور جامع تحریر پڑھنے کا موقع ملا. صرف حقائق اور درست بیانیہ افشاں بہن کا ہی امتیاز ہے. اس تحریر کو زیادہ سے زیادہ شیئر کیا جاوے تربیت واسطے !!!

    جواب دیںحذف کریں
  2. جنہوں نے تحریر سے سبق لینا ہوتا ہے وہ اوریا مقبول جیسےنہیں ہوتے اور جو اوریہ مقبول جیسے ہوتے ہیں انپر " کلام نرم و نازک بے اثر "
    جس بندے نے چادر میں لپٹی ،سرپرگولی کھانےوالی، باپ کا سرفخرو عزت سے بلند کرنے والی ملاله یوسفزئی کی حب الوطنی اور کردار کو اپنے تیر نشتر سے چھیدنے کی پوری پوری کوشش کر ڈالی اس سے مجھے تو بہتر سوچ کی کوئی امید نہ تھی نہ ہے نہ کبھی ہوگی
    اچھی تحریر پر شاباش

    جواب دیںحذف کریں