"آپریشن آخری چوہے کے مرنے تک جاری رہے گا ۔"
"وزیرِ اعظم دھشت گردوں کو مار رہے ہیں جبکہ خان صاحب چوہا مار مہم چلا رہے ہیں۔"
"خیبر پختونخواہ میں چوہوں کے سر کی قیمت مقرر ۔۔۔۔"یہ اور ایسے کئی بیانات کچھ روز سے الیکٹرانک و پرنٹ میڈیا اور سماجی رابطوں کی ویب سائٹس پر سننے پڑھنے کو مِل رہے ہیں۔ہر دو جانب ایک ہیجان ہے جو کہ پہلے پنجاب کے مختلف اضلاع میں ڈینگی مُکاؤ مہم کے سلسلے میں دکھائی دیتا تھا اور آج کل خیبر پختونخواہ حکومت کی طرف سے پشاور کی ضلعی انتظامیہ کی چوہا مار مہم کے جواب میں دکھائی دےرہا ہے۔اِن معاملات میں کسی ایک گروہ کا بِنا مطلب کی لعن طعن اور جملہ بازی جبکہ دوسرے گروہ کی جانب سے آئیں بائیں شائیں دراصل مسئلے کی سنگینی سے نابلد ہونے کا مظہر ہے۔
کچھ ہی روز میں بچوں سمیت پانچ افراد چوہوں کے کاٹنے سے لقمۂ اجل بن چکے ہیں جبکہ بچوں کو چوہوں کے کاٹنے کے واقعات بھی رپورٹ ہورہے ہیں۔ ایسی صورت میں متاثرین کو ریبیز سے بچاؤ کے ٹیکے لگائے جا رہے ہیں۔اِن چوہوں کے جسم پر پلتے پِسو نہ صرف انسانوں بلکہ گھر آنگن میں پلتے پرندوں اور جانوروں کی جان کے لیے بھی خطرہ ہوتے ہیں۔مرغیوں اور پالتو جانوروں کی ہلاکتوں اور بیماری بارے کوئی رپورٹ نہیں کررہا کہ اُن کی تعداد کتنی ہے۔
"وزیرِ اعظم دھشت گردوں کو مار رہے ہیں جبکہ خان صاحب چوہا مار مہم چلا رہے ہیں۔"
"خیبر پختونخواہ میں چوہوں کے سر کی قیمت مقرر ۔۔۔۔"یہ اور ایسے کئی بیانات کچھ روز سے الیکٹرانک و پرنٹ میڈیا اور سماجی رابطوں کی ویب سائٹس پر سننے پڑھنے کو مِل رہے ہیں۔ہر دو جانب ایک ہیجان ہے جو کہ پہلے پنجاب کے مختلف اضلاع میں ڈینگی مُکاؤ مہم کے سلسلے میں دکھائی دیتا تھا اور آج کل خیبر پختونخواہ حکومت کی طرف سے پشاور کی ضلعی انتظامیہ کی چوہا مار مہم کے جواب میں دکھائی دےرہا ہے۔اِن معاملات میں کسی ایک گروہ کا بِنا مطلب کی لعن طعن اور جملہ بازی جبکہ دوسرے گروہ کی جانب سے آئیں بائیں شائیں دراصل مسئلے کی سنگینی سے نابلد ہونے کا مظہر ہے۔
کچھ ہی روز میں بچوں سمیت پانچ افراد چوہوں کے کاٹنے سے لقمۂ اجل بن چکے ہیں جبکہ بچوں کو چوہوں کے کاٹنے کے واقعات بھی رپورٹ ہورہے ہیں۔ ایسی صورت میں متاثرین کو ریبیز سے بچاؤ کے ٹیکے لگائے جا رہے ہیں۔اِن چوہوں کے جسم پر پلتے پِسو نہ صرف انسانوں بلکہ گھر آنگن میں پلتے پرندوں اور جانوروں کی جان کے لیے بھی خطرہ ہوتے ہیں۔مرغیوں اور پالتو جانوروں کی ہلاکتوں اور بیماری بارے کوئی رپورٹ نہیں کررہا کہ اُن کی تعداد کتنی ہے۔
جب پورے شہر میں ۲۲ سے ۳۰ سینٹی میٹر جسامت کے چوہے دندنا رہے ہوں تو چھٹکارے یا نجات کے لیے چلائی مہم کو پھبتیوں اور طعنوں کی نظر کرنے کے بجائے مسئلے کو سمجھیے۔ قابلِ شرم بات اِس مہم کا آغاز نہیں ہے۔ دو پہلو ہیں ایک تو یہ کہ عوام کو صفائی ستھرائی اور حفظانِ صحت کے اصولوں سے درست سمت میں آگاہی نہیں دی جا رہی۔دوسرا کچھ خود بھی ایسی لاپرواہی کی روایت پائی جاتی ہے کہ صفائی کیلیے حکومت انعامی رقم کا لالچ دینے پر مجبور ہوئی ہے۔کبھی ۲۵ تو کبھی ۳۰ روپے فی چوہا۔پھر کسی مخصوص علاقے کے واسطے ۳۰۰ روپے فی چوہا اور پھر اگلے روز اپنا ہی جاری کردہ نوٹس تردید یا واپسی لیے منہ چڑھاتا ہوا۔ نا اہلی اور حماقتوں کا ناختم ہونے والا سلسلہ۔قابلِ گرفت ہے انتظامیہ جو آج اِس مہم کو کیش کروانے کی کوشش میں ہے جبکہ پشاور کے علاقہ زریاب کا رہائشی نصیر احمد ۵ جنوری ۲۰۱۵ء کو مختلف اخبارات کی زینت بنا ۔وجہ تھی اُس کی رضاکارانہ چوہا مار مہم ۔اس کا ایک ساتھی اپنے بھتیجے کو چوہے کے کاٹنے سے کھو چکا تھا اور ایک دوست اسی مسئلے کے باعث اپنی بیوی کے علاج پر ہزاروں روپے خرچ کر چکا تھا۔وہ عام شہری جسے آپ عقل و شعور سے عاری گردانتے ہیں اگر اسے اپنے علاقے میں مُرغیاں اور پالتو جانوروں کی ہلاکت یا بیماری نے سوچنے پر مجبور کیا اور خود ہی خاص طرح کا زہر تیار کرکے سینکڑوں چوہوں کو مارتا رہا تو حکومت کِن معاملات میں الجھی اِس جانب سے آنکھ بند کیے بیٹھی تھی۔
میں نے پہلی بار ۲۰۱۱ء میں پشاور کے صدر بازار میں بڑی جسامت کے چوہے دیکھے تھے ۔اُس وقت بہت سے پرانے دکانداروں کا بیان ملتا جلتا ہی تھا کہ "ڈیڑھ دو سال سے تعداد میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔سیلابوں کے بعد انتظامیہ نے اِس جانب توجہ نہیں دی۔" اور آج چند لوگ اُٹھ کر بیرون ملک سے آئے مخصوص کنٹینرز کے ساتھ اِن چوہوں کی آمد نتھی کرکے بری ذمہ ہونے کی ناکام کوشش کررہے ہیں۔ سیلاب چوہوں کی ہجرت کا سبب ہوتےہیں۔ سوال بلدیہ عظمیٰ سےکریں کہ گرانٹ کہاں جاتی رہی ۔کیوں بروقت سدِباب نہ کیا گیا۔
ابتدائی طور پر یہ چوہا مار مہم چار ماہ جاری رہے گی اور کہا جا رہا ہے کہ ہر پندرہ ماہ بعد حالات کا جائزہ لیا جائے گا۔مخصوص زہر تیار کرکے نالیوں ، گٹروں اور بازاروں میں پھینکا جارہا ہے۔عوام کو بھی سمجھایا جا رہا ہے کہ کھانا ضائع نہ کریں،رات کو گندے برتن سنک میں نہ چھوڑیں اور کچرہ ڈھانپ کر رکھیں۔جسے روزانہ کی بنیاد پر انتظامی عملہ اٹھا کر ڈھنگ کے طریقے سے ٹھکانے لگائے گا۔
درخواست صرف اتنی سی ہے کہ خدانخواستہ طاعون پھیل جائےتویہ صوبائی سرحدیں نہیں دیکھے گا۔لہذا ڈینگی مُکاؤ مہم کے ردِ عمل کی یاد میں اِس معاملے کو سیاست اور اختلافات کی بھینٹ مت چڑھایے۔
میں نے پہلی بار ۲۰۱۱ء میں پشاور کے صدر بازار میں بڑی جسامت کے چوہے دیکھے تھے ۔اُس وقت بہت سے پرانے دکانداروں کا بیان ملتا جلتا ہی تھا کہ "ڈیڑھ دو سال سے تعداد میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔سیلابوں کے بعد انتظامیہ نے اِس جانب توجہ نہیں دی۔" اور آج چند لوگ اُٹھ کر بیرون ملک سے آئے مخصوص کنٹینرز کے ساتھ اِن چوہوں کی آمد نتھی کرکے بری ذمہ ہونے کی ناکام کوشش کررہے ہیں۔ سیلاب چوہوں کی ہجرت کا سبب ہوتےہیں۔ سوال بلدیہ عظمیٰ سےکریں کہ گرانٹ کہاں جاتی رہی ۔کیوں بروقت سدِباب نہ کیا گیا۔
ابتدائی طور پر یہ چوہا مار مہم چار ماہ جاری رہے گی اور کہا جا رہا ہے کہ ہر پندرہ ماہ بعد حالات کا جائزہ لیا جائے گا۔مخصوص زہر تیار کرکے نالیوں ، گٹروں اور بازاروں میں پھینکا جارہا ہے۔عوام کو بھی سمجھایا جا رہا ہے کہ کھانا ضائع نہ کریں،رات کو گندے برتن سنک میں نہ چھوڑیں اور کچرہ ڈھانپ کر رکھیں۔جسے روزانہ کی بنیاد پر انتظامی عملہ اٹھا کر ڈھنگ کے طریقے سے ٹھکانے لگائے گا۔
درخواست صرف اتنی سی ہے کہ خدانخواستہ طاعون پھیل جائےتویہ صوبائی سرحدیں نہیں دیکھے گا۔لہذا ڈینگی مُکاؤ مہم کے ردِ عمل کی یاد میں اِس معاملے کو سیاست اور اختلافات کی بھینٹ مت چڑھایے۔
فوجی آمریتوں نے جتنی بربریت سے عوام میں سے سیاست کو نکالنے اور سیاستدانوں کو ذلیل ؤ خوار کر نے کی کوششیں کیں اتنی سیاست عوام ، میڈیا ،مولوی ،کھلاڑیوں حتی کہ فنکاروں تک کے خون میں سرایت کر چکی ہے آج حالات یہ ہیں کہ ہر کام میں کیڑے نکالنے ہوں یا حوصلہ افزائی کرنی ہو ہم سیاسی وابستگی سے بالا تر ہو کر سوچ ھی نہیں سکتے 70 سال سے تھر بھی یہیں موجود تھا اور جنوبی پنجاب بھی ،جنگل ختم کرنے والا مافیا بھی ایک مدت سے یہاں اپنی من مانی کرتا رہا ہے اور پاگل کتے اور چوہوں کی بہتات بھی کوئی نئی بات نہیں مگر ہر کام کو ایک عام آدمی سے لے کر سیاسی سپورٹر اور سیاسی سپورٹر سے لے کر نیوز میڈیا میں دکانیں سجاۓ دولے شاہ کے چوہوں تک ہر ایک سنجیدگی سے مسلے کا حل ڈھونڈنے کی بجاۓ جگت بازی اور پواینٹ اسکورینگ سے اپنی بے رحمی کا مظاھرہ کرتا ہے آپکی تحیر کردہ آخری سطریں بہت کچھ سمجھا رہی ہیں .... طا عو ن صوبائی سرحدیں نہیں دیکھے گا ....
جواب دیںحذف کریںاچھا لگا یہ بلاگ پڑھ کے بلکہ بہت خوشی ہوئی
جواب دیںحذف کریںخوش رہیں آباد رہیں