پیر، 25 اپریل، 2016

نا محرم زندگی


"فاطمہ جی دُنیا بہت گندی ہے۔آپ نہیں جانتیں۔"
"مجھے جاننا بھی نہیں ہے۔کبھی نہیں جاننا چاہتی۔آپ ہیں نا  میرے لائف گارڈ۔"
اور پھر وہ لائف گارڈ  ایک روز  فاطمہ  کو  چھوڑ کر چپکے سے  نئے سفر پر روانہ ہوگیا۔شاید اسے یقین ہوگیا تھا کہ اب وہ اتنی مضبوط ہوگئی ہے جو تنہا اپنی زندگی کا خراج ادا کرلے گی۔
زندگی اور دنیا اُس کے لیے نامحرم ٹہر چکی تھیں۔دفتری ریکارڈ سے جانشینی
 (Next of kin) کا سرٹیفکیٹ غائب تھا۔اور پہلی بار احساس کروایا گیا تھا کہ سر کے سائیں اور اولاد کے بِنا اِس معاشرے میں اس کا مقام بلکہ اوقات  کیا ہے۔ ڈیڑھ سال بعد جب اس نے پینشن کا پہلا کراس چیک وصول کیا تھا تو جانے کتنی نشانیاں آنکھوں کے سامنے لہرا گئی تھیں جو اِس عرصے میں  زندگی کا بھرم قائم رکھنے کی کوشش میں بیچ دی تھیں۔ہاتھ پھیلانے کی عادت والدین نے کبھی جیب خرچ کے نام پر بھی پنپنے نہ دی تھی تو اب کیسے اور کیونکر کسی کو پکارتی کہ "ابا یہ دوا نہیں کھاؤں گی تو نیند نہیں آئے گی۔بھیا بجلی کا بِل ادا نہ کیا تو میٹر کٹ جائے گا۔" کچن کیبنٹس سے لے کر گھر کے ہر کونے میں پڑے خشک میوہ جات کے فینسی مرتبانوں تک ، ڈیپ فریزر میں دھرے امپورٹڈ جوس کے ڈبوں سے لے کر منوں پھل سبزیوں تک سب کچھ یکسر فراموش ہوچکا تھا۔دلچسپی اور ضروریات محدود سے محدود تر ہوتی چلی گئی تھیں۔اُس نے دنیا کا وہ چہرہ دیکھ لیا تھا جو کبھی نہ دیکھنے پر اِترایا کرتی تھی۔ایک رشتہ جہان سے چلے جانے پر اس سے جُڑے رشتوں کو بدلتے دیکھ بیٹھی تھی اور رویوں کے بے نقاب مکروہ چہروں سے گِھن کے سوا کوئی جذبہ باقی نہ تھا۔ایک بے حسی تھی جِس کو چادر کی طرح اپنے وجود پر تان کر وہ لاپرواہ بنی صرف گُتھی سلجھایا کرتی کہ زندگی اُس پر بیت گئی ہے یا وہ اِس پر بیت رہی تھی۔

اگلے ماہ تیسری برسی تھی اور ڈیڑھ سال میں پینشن تیسری بار روک لی گئی تھی۔پہلی بار دفتر حاضری کروائی گئی تھی صرف یہ ثابت کرنے کو کہ وہ حیات ہے اور اِن گِدھوں کا سامنا کرنے کی ہمت ہے۔بیانِ حلفی جمع کروا کر دوسری بار دفتر سے نکلی تو شیشم کے پیڑ کے نیچے سانس بحال کرنے کو کھڑی ہوگئی۔کانوں میں کہیں سے ایک سرگوشی ہوئی "دنیا بہت گندی ہے۔۔۔" آنسوؤں کو بے حسی سے پلکیں جھپکاتے پی کر طنزیہ مسکرائی " ہونہہ ! آپ کو بھی خبر نہیں تھی کہ کتنی گندی۔۔۔ورنہ یوں نہیں جاتے۔" کسی نے بغیر ثبوت شک کا اظہار کیا تھا کہ وہ شادی رچا چکی ہے اور بدلے میں اُسے عدالت میں پیش ہوکر بیان ریکارڈ کروانا پڑا تھا۔تیسری بار ایک نئی گیم ڈالی گئی تھی۔بیانِ حلفی نہیں بلکہ دفتر کی ویب سائٹس سے سرٹیفکیٹس کا پرنٹ آؤٹ لے کر کم از کم سترہ گریڈ کے سرکاری ملازم سے اپنے حیات ہونے اور ابھی تک وفا نباہتے دوسری شادی نہ کرنے کی تصدیق کروائے۔اب کی بار  فون کالز اور دفتری مراسلے کے جھوٹے ثبوت بھی ریکارڈ کا حصہ تھے جِن کے مطابق وہ پانچ ماہ سے جان بوجھ کر دفتر کے رابطہ کرنے کے باوجود کوئی بیانِ حلفی جمع نہیں کروا رہی تھی۔
قریبی انٹرنیٹ کیفے میں کانپتے دل کے ساتھ بظاہر کرخت اور جھگڑالو صورت بنائے مطلوبہ سرٹیفکیٹس کا پرنٹ نکلوانے میں اسے دس منٹ لگے تھے ۔گلی کی نکڑ پر ہی تو تھا وہ گریڈ سترہ کا سرکاری ملازم جو اُس کے بچھڑے محرم سے کبھی اپنے کاغذات پر تصدیقی مہر اور دستخط کروانے آیا کرتا تھا۔برقی گھنٹی بجانے پر وہی باہر نکلا تھا اور لمحہ بھر کو اسے آنکھوں میں جانچ کر مسکراہٹ غائب ہوگئی تھی جب آمد کا مقصد بیان ہوا تھا۔"دیکھیں جی،ایک تو آپ نے محلے میں کسی کے ہاں اتنا آنا جانا ہی نہیں رکھا کہ حالات سے آگاہی ہو۔عید تہوار پر ہی بندہ دکھائی دے جائے۔لیکن آپ تو پردہ ہی فرما گئیں صاحب کے جانے کے بعد۔دوسرا آپ بھی سمجھدار ہیں۔بڑی مشکل سے مجھے ترقی ملی ہے اور ایسے میں کوئی رِسک نہیں لینا چاہتا۔لائف سرٹیفکیٹ دیجیے تصدیق کیے دیتا ہوں۔اب مجھے کیا علم کہ پسِ پردہ کیا معاملاتِ زندگی ہیں آپ کے۔یوں بھی اب آپ کو احساس ہورہا ہوگا کہ ہم جیسے اہلِ محلہ سے بنا کر رکھنی پڑتی ہے جناب۔" بحث فضول تھی۔وہ خاموشی سے خود کو وہاں سے گھسیٹ کر پچھلی گلی کی جانب بڑھ گئی۔دو سرکاری افسروں کی مِنتیں کرتے وہ انا کچلتے،عزتِ نفس کو تھپکیاں دیتے یقین دِلوانے میں ناکام رہی کہ ابھی تک رنگ اس کے لیے نامحرم ہی تھے۔
رات زیادہ بڑھ رہی تھی۔وہ گھر لوٹ آئی ۔صبح ایک نئی امید کے ساتھ ایونِ صدر میں ملازم اُن بھائی صاحب کے گیراج میں کھڑی تھی جو کبھی اُس کے شوہر کے ساتھ باجماعت نماز ادا کرنے کے بعد دنیا جہان کی گُتھیاں سلجھایا کرتے تھے۔"دیکھو بی۔بی ایک تو مجھے تمہارے مسلک کا علم نہیں۔کون جانےتین سال سے کیا کررہی ہو ۔پھر کل کلاں کو تمہاری خفیہ سرگرمیاں سامنے آجائیں تو میری نوکری تو گئی نا۔نہ بابا نہ۔باز آئے ہم ایسی بھلائی سے۔تصدیق کرنا کوئی خالہ جی کا گھر نہیں ہوتا۔اولاد تمہاری ہے نہیں۔کیا معلوم آزادی کیسے گزارتی ہو۔یا پھر گلی سے اپنے کردار کی کوئی گواہی لے آؤ  تو میں سوچتا ہوں۔" فاطمہ نے ہاتھ پر بندھی گھڑی کو دیکھا۔وقت تو کب سے رُک چکا تھا۔۔۔شاید ہمیشہ کیلیے۔کچھ منٹوں بعد وہ پڑوس کی خاتون کونسلر کو اپنے موبائل فون سے نمبر مِلا کر دے رہی تھی کہ بھائی صاحب کو بتائیں "میں باکردار بیوہ ہوں۔"۔
"جی شاکر صاحب! یہ فاطمہ کا کام کردیں نا۔میں کہہ رہی ہوں۔" اور موبائل سے گونجتی دوسری جانب کی آواز اس کی سماعتوں پر گولہ باری کررہی تھی "میں نے تو ٹرخا دیا تھا۔کیا ہوگیا ہے تمہیں؟ ایسی عورتوں کی گواہی کا مطلب جانتی ہو؟ کل کو تمہاری جوان بیٹیوں کی شادی ہونی ہے۔جان چھڑواؤ بھئی۔"  کم بخت آنسو تو اچھے وقتوں میں خشک سالی کا شکار ہوچکے تھے۔بھرم قائم رہا۔
دفتر فون کرنے پر ناگ سی پھنکارتی پچکارتی آواز میں نیا راستہ دِکھایا جارہا تھا کہ بی۔بی کوئی افسر تصدیق نہیں کرے گا ۔ہمارے دفتر نہیں آنا چاہتی تو یونین کونسل کے دفتر سے تصدیق کروا لو۔اور دو روز میں مصدقہ نقول نہ پہنچیں تو پھر عدالت کا راستہ ہی دیکھنا ہوگا۔
وائے ری قسمت۔یونین کونسل سیکریٹری کو تمام داستان سننے کے بعد خیال آیا کہ علاقے کے نکاح خواں رجسٹرار سے تصدیق کروائے بِنا وہ بھی مہر نہیں لگائے گا۔
جمعہ کا دِن تھا۔وہ مسجد کے دروازے پر کھڑی تھی اور مدرسہ کے لڑکے مٹی سے اٹی دریاں اور غالیچے جھاڑو سے صاف کرنے کی ناکام کوشش میں مصروف تھے۔نگاہ اُس پر پڑی تو خشمگیں نگاہوں سے گھورتے ایک لڑکا آگے بڑھا "او بی۔بی! یہ مسجد ہے۔پاکی ناپاکی کے معاملوں سے بےخبر تم لوگ منہ اٹھائے چلی آتی ہو۔کیا کام ہے ؟"
فاطمہ نے چادر کو ماتھے سے کھینچ کر آنکھوں سے بھی آگے سرکایا اور گویا ہوئی ، " قاری فراست صاحب سے ملنا ہے۔یونین کونسل دفتر نے بھجوایا ہے۔" لڑکے نے ہنکارا بھرا "یہیں کھڑی رہو۔اندر قدم مت رکھنا۔" اور  بھاگ گیا۔ کچھ توقف سے لوٹا "قاری صاحب  پوچھ رہے ہیں نکاح کے سلسلے میں مِلنا ہے ؟" فاطمہ نے ہتھیلوں پر آیا پسینہ چادر میں جذب کیا اور خشک گلے سے آواز نکلی "ہاں۔۔۔"  لڑکا مُسکرایا "وضو کرو اور میرے پیچھے آؤ۔یہ جوتی یہیں مسجد سے باہر اُتارو۔" فاطمہ نے یقین دِلوایا "بیٹا آج جمعہ ہے۔میں وضو گھر سے کرکے ہی نکلی تھی۔" لڑکے نے استہزائیہ سر ہلایا اور انگلی سے پیچھے آنے کا اشارہ کیا۔فاطمہ مٹی سے اٹے سنگِ مرمر کے فرش پر آدھے پیروں سے چلتے، راہداریوں سے گزرتے سیڑھیاں چڑھ گئی۔
قاری فراست قالین،گاؤ تکیوں اور نرم گدوں سے مزین اِس کشادہ کمرے میں بادشاہ کی مانند دربار سجائے بیٹھا تھا۔"آؤ بی۔بی۔۔۔" اور آنکھ سے طلباء کو جانے کا اشارہ کردیا۔فاطمہ نے سارا ماجرہ مختصر الفاط میں بیان کر کے کاغذات سامنے رکھے تو مانو "منکر نکیر" قبر سے پہلے ہی برپا ہوگیا۔
"کیا مسلک ہے بی۔بی آپ کا ؟ شوہر کو کیا ہوا تھا ؟ اولاد ہے ؟ کِس کے ساتھ رہ رہی ہو ؟ گھر کِس کے نام ہے ؟ کوئی نوکری کیوں نہیں کرتی ؟ ایک تو بیوہ ہو اور اوپر سے بے اولاد ،اپنا حلیہ درست کرو۔حجاب کرو اور یہ بن سنور کر مسجد میں آنے کا مقصد کیا ہے؟"
سوالات کا لامتناہی سلسلہ تھا ۔ جِبکہ فاطمہ چادر سے منہ ڈھانپے کپکپاتی آواز کے ساتھ جواب دینے کی کوشش میں ہلکان ہو رہی تھی۔بالآخر مضبوط لہجے میں گویا ہوئی "قاری صاحب آپ ہر دوسرے ماہ میرے شوہر سے مدرسہ کی کتب خریدنے کے واسطے ہدیہ وصول کرنے گھر آتے تھے۔آپ کو تو وہ یاد ہوں گے ۔"
قاری صاحب جو ڈائری میں اس کا شناختی کارڈ نمبر درج کررہے تھے۔ایک جھٹکے سے سر اٹھا کر بولے، "بی۔بی آپ کا تو شناختی کارڈ ہی شوہر کے نام پر نہیں ہے۔نام کیوں نہ تبدیل کیا؟ دِل میں بال ہو تو عورتیں ایسے ہی حربے استعمال کرتی ہیں۔اور یہ انگریزی میں کیوں بنوایا ہے؟"
فاطمہ کے لہجے کی ہچکچاہٹ اچانک کہیں اڑن چھو ہوچکی تھی "قاری صاحب میرے شوہر کو پسند نہ تھا کہ میرے والدِ گرامی کا نام ہٹا کر اپنا لگاتے اور پھر تعلیمی اسناد اور ڈگریوں کے ڈھیر میں بھی تبدیلی کی درخواستیں دیتے۔یوں بھی لازمی تو نہیں کہ عورت شادی کے بعد نام تبدیل کرے۔نیچے زوجیت میں شوہر کا نام درج ہے ۔یہ اُن کا شناختی کارڈ ہے دیکھ لیجیے ہمارے پتے بھی ایک ہی ہیں۔"
قاری صاحب نے سنی ان سنی کرتے رابطہ نمبر پوچھا اور ڈائری میں درج کرکے کاغذات اٹھا کر دراز میں رکھ لیے۔"ٹھیک ہے بی۔بی چار روز بعد آنا۔تب تک تمہارے کریکٹر بارے اہلِ محلہ سے چھان بین کروں گا۔پھر ہی تصدیق ہوگی۔ابھی جمعہ پڑھوانے کا وقت ہورہا ہے۔"
فاطمہ کا صبر جواب دے چکا تھا ، "قاری صاحب میں آپ سے کردار کی تصدیق کروانے نہیں آئی۔۔۔ابھی ساڑھے دس ہوئے ہیں۔"
"دیکھو بی۔بی ایک تو تمہارے پیر میں اولاد کی زنجیر نہیں۔دوسرا بے پردہ عورتوں کا اعتبار کرنے سے منع فرمایا گیا ہے۔ہمیں کیا پتہ کھلا چہرہ لیےکہاں کہاں منہ مارتی پھرتی ہیں۔تم تو آزاد پنچھی ہو۔جہاں مرضی جو چاہو کرتی پھرو۔ہمیں حکومتِ پاکستان نے اختیارات کچھ سوچ کر ہی دیے ہیں۔اور تم تو پہلے اپنا حلیہ درست کرو۔موزے پہنا کرو،یہ ننگے پیر نامحرموں کو دکھاتے دوزخ کما رہی ہو۔۔۔یہ بتاؤ کہ ملک صاحب تمہارے پڑوسی ہیں ؟"
فاطمہ کو کانوں سے دھواں نکلتا محسوس ہو رہا تھا۔صرف ہاں میں سر ہلا پائی۔۔
"ہاں تو خاص نشانی کیا ہے اُس گھر کی ؟"
فاطمہ جلدی سے بولی "ان کا جوان بیٹا کچھ سال قبل کار حادثے میں چل بسا تھا۔"
قاری فراست نے گہری نظروں سے اس کی آنکھوں میں دیکھا "نام کیا تھا لڑکے کا ؟"
فاطمہ بولی "مجھے صرف اپنے شوہر کا نام پتہ ہے،دوسروں کے بیٹوں کے ناموں سے آگہی نہیں۔آپ ملک انکل سے فون کرکے تصدیق کرلیجیے اور پلیز اِن کاغذات پر مہر لگا دیں ۔پینشن دو ماہ سے رُکی ہوئی ہے۔"
قاری صاحب فاتحانہ انداز  میں پھنکارے ، "تمہارے کہنے پر میں کسی سے تصدیق کیوں کروں ؟ میرا اپنا طریقہ ہے "پُچھ پڑچھیت" کا۔۔۔عالمِ دین ہونے کے ناطے مشورہ ہے کہ جوان بیوہ کو حق کرلینا چاہیے۔اِس طرح ماری ماری پھرنے سے بہتر ہے کہ اپنا دین ایمان سنوارو اور آخرت کی فکر کرو ۔پڑھی لکھی ہو تو کسی مدرسے سے منسلک ہو کر اپنی دینی جہالت دور کرو اور وہاں کی بچیوں کو دنیاوی تعلیم دو ۔ہم حاضر ہیں بھلائی کے اِس کام کے واسطے۔"
فاطمہ ایک جھٹکے سے کھڑی ہوچکی تھی "دیکھ بھائی ایک منٹ سے پہلے دراز سے کاغذات نکال اور واپس کر۔ورنہ تیری علمی جہالت کا جنازہ اس مدرسے کی دیواروں سے نکال کر باہر چوراہے میں تدفین کرواؤں گی۔"
قاری فراست اپنی توند سنبھالے دیوار کا سہارا لیے کھڑا ہوچکا تھا اور  شلوار درست کرتا دبی آواز میں دھمکا رہا تھا ، "اپنا لہجہ درست کر حرافہ۔آدھ گھنٹے میں اِس محلے سے ذلیل کروا کر نکلوا سکتا ہوں۔ایک تو تجھے راہِ مستقیم دِکھا رہا ہوں اور تو مجھے دھمکیاں لگائے گی۔لے جا کاغذات اور یاد رکھ اس کالونی میں کوئی عزت دار شخص ان پر تھوکے گا بھی نہیں۔ناقص العقل عورت دین داروں کی پناہ سے افضل کچھ نہیں ہوتا۔" یہ کہتے ہوئے کاغذات زمین پر پٹخ دیے۔
فاطمہ نے کاغذات سمیٹے اور نفرت  بھرے کرخت لہجے میں بولی ، "میرے کردار کی تصدیق کروا لینا لیکن پہلے پڑھ لینا کہ نامحرم عورت پر کتنی گہری نظروں کی اجازت تمہارا دین دیتا ہے۔"
فاطمہ بھاگتے ہوئے سیڑھیاں اترتے مسجد سے باہر آچکی تھی۔آج اس کے لیے ریاست ،  اعلی تعلیم یافتہ ریاستی ملازمین اور انسانوں کے چندے پر بنے اللہ کے اِس گھر میں کہیں کوئی "ریاست کی ماں جیسی آغوش" نہ تھی۔ سب ہی اپنے اپنے دائروں میں خدائی دعویدار تھے۔عورت کے کردار کو جانچنے کا پیمانہ کم وبیش سب کا ایک ہی تھا۔ رال ٹپکاتے اِس معاشرے میں اپنی بے توقیری کا نوحہ اس نے پانی کے ایک گھونٹ سے نگل لیا تھا۔
اگلے چند گھنٹوں میں ذاتی جان پہچان کے ایک نامحرم سرکاری افسر نے انتہائی عزت و احترام کے ساتھ اس کے تمام کاغذات پر تصدیقی مہر ثبت کردی تھی۔لیکن شکست و ریخت کا جو سلسلہ اُس کے دل و دماغ میں شروع ہوچکا تھا اب اس کو ایک بار پھر  "گندی دُنیا۔۔" کے رویوں پر دواؤں کے سہارے لاپرواہی اور بے حسی کا لبادہ اوڑھنے میں کچھ ہفتے درکار تھے۔

21 تبصرے:

  1. الفاظ بھی سسکتے بلکتے ہیں گر کوئی سنے تو ۔۔۔۔۔

    جواب دیںحذف کریں
    جوابات
    1. کُرلاتی زندگیوں کو ریاست ماں لوری دینے کی فرصت میں نہیں۔

      حذف کریں
  2. مجھے کچھ نہی کہنا
    کہ تمہارے لفظوں نے
    مجھے اندر سے
    مار ڈالا ہے

    جواب دیںحذف کریں
    جوابات
    1. معافی چاہتی ہوں۔۔۔ مگر حقیقت یہی ہے اِس معاشرتی چہرے کی

      حذف کریں
    2. کہیں اپنا چہرہ نظر آیا کہیں اپنے آس پاس پھیلے ہو کردار دکھائی دئے. مجھے یہی سوچنا ہے اکیلی عورت کیسے جئیے اس معاشرے میں.

      حذف کریں
  3. کیا کہیں کہ ہم نے ہر اصول دوسرے کے لیے مختص کر رکھا ہے. آپ کے ساتھ روا رکھے اس سلوک کی تو معذرت بھی نہیں کر سکتا. کیونکہ عمومی طور پر ہمارا رویہ ایسا ہی ہے کہ لوگ جو کہیں اسے سچ مان لیں

    جواب دیںحذف کریں
  4. یہ ہے وہ رویہ جو ایک عام آدمی کو دن رات جھیلنا پڑتاہے شناختی کارڈ ہو ڈومیسائل تصدیقیں، نقلیں، چالان فارم، بیان حلفی، صاحب کے دستخط وغیرہ ایک عام آدمی کی عزتِ نفس کے لئیے اذیت بن چکے ہیں۔ اور اگر ان مراحل سے گزرنے والی ایک خاتون ہو تو اس اذیت کی شدت چار گنا کر لیجئیے۔
    بہت اعلٰی تحریر ہے۔ تبدیلی اور ترقی کے علمبرداروں کے چہروں پر اس سے زور دار تمانچہ نہیں لگ سکتا تھا۔ جیتی رہئیے

    جواب دیںحذف کریں
  5. معاشرے کا نہیں، ہمارا، ہم سب کا کریہہ ترین چہرہ
    وہی رویہ جو پولیس کی روٹین بن چکا اور گاڑی ٹھیک کرتے شوہر سے گاڑی میں بیٹھی بیوی کا "سرٹیفیکیٹ" طلب کرتا ہے
    وہی خباثت جو اپنی بیٹی کو مکمل پردے کے ساتھ بائیک پر پیچھے بٹھائے کالج کی لڑکیوں کو نگاہوں سے برہنہ کرتی ہے
    وہی کمینہ پن جو اختیارِ منصب کو رعونت کا لائسنس بنا دیتا ہے۔
    باقی میرے پاس الفاظ نہیں کہ اس تحریر پر تبصرہ کر سکوں، اوپر جو کچھ لکھا ہے وہ کوئی لاشعوری غبار تھا جو نکلنے کا راستہ ڈھونڈ رہا تھا

    جواب دیںحذف کریں
  6. افسوس کہ اس معاشرے میں آج بھی انسانیت نہ پنپ سکی, ہم اسی پتھر کے زمانے میں ہیں اس تحریر کا ایک ایک حرف میری آنکھوں کے آگے رونما ہوتا محسوس ہو رہا, آپ جانتی ہیں کیوں,
    😥😥😥

    جواب دیںحذف کریں
  7. بوجھل ہوں میں کُچھ بیان کرنے سے،
    کاٹ کر رکھ دیا آپکے الفاظ کی دھار نے،
    معاشرہ کی بے حسی اور گراوٹ نے ایک بار پھر سے اپنا پرچار اور دماغ میں اٹھتی سوچوں کو سلب کر لیا،
    ہمت چاہیئےاس کو پڑھنے کیلئے۔۔۔
    اعلی افشاں آپا،
    آپ کا حوصلہ کمال ہے جو ایسی تحریر لکھ ڈالی

    جواب دیںحذف کریں
    جوابات
    1. جزاک اللہ الخیر بھائی۔۔۔۔ پڑھنے کی ہمت بھی آ ہی جاتی ہے۔۔۔ لکھنے کی جرات بھی مل جاتی ہے۔۔ مسئلہ ہمارے رویوں کی درستگی کا ہے۔۔۔۔ یہی کٹھن ہے

      حذف کریں
  8. ہمارے اِرد گِرد ایسے ہزاروں کِردار پھیلے ہُوئے ہیں فاطمہ جیسے اور دوُسروں کو کیریکٹر سرٹیفیکیٹ جاری کرنے والے مولوی اور نام نہاد شُرفا بھی۔۔

    جواب دیںحذف کریں
  9. اختلاف کی معزرت...کیوں که بغیر تحقیق اور غرور میں آکر بلاک کرنا آپ کی عادت هے....مولویوں کو اتنا برا دکھانے کیلیے زیاده هی کر گئیں آپ....اتنا برا رویه بهت کم جگه هوتا هوگا

    جواب دیںحذف کریں
  10. نہ ہم اتنے بےحس ہوتے نہ ہمارے گرد بےبسی کی ایسی مثالیں پنپتیں۔ مذید تبصرہ کیا کروں الفاظ ہی نہیں

    جواب دیںحذف کریں
  11. تحریر ایسی کہ کہانی آنکھوں کے سامنے بہہ گئی۔ اور تبصرہ یہ کہ ریاست۔۔۔۔ریاست اور ریاست۔ ایک ہی جرم وار ہے وہ ہے ریاست۔
    آباد رہیئے۔

    جواب دیںحذف کریں
  12. معذرت۔ مگر آپ بہت تلخ لکھتی ہیں۔ صفحے ہوتے تو جل بھن جاتے

    جواب دیںحذف کریں
  13. کیا کہوں لفظ ہی نہیں زخموں کے ٹانکے کھول دئیے !!😐

    جواب دیںحذف کریں
  14. کتنا کڑوا سچ ہے ۔۔۔ آپ کے لکھے میں بے انتہا سچائ ہے۔

    جواب دیںحذف کریں