جمعہ، 15 اپریل، 2016

شرمندگی کیسی اور کیوں ؟


گزشتہ برس دہلی کی جامعہ ملیہ اسلامیہ یونیورسٹی کے کچھ طلباء نے جنسی زیادتی اور جنسی تعصب و تفریق پر شعور اجاگر کرنے کےلیے تمام کیمپس میں سینیٹری پیڈز مختصر پیغامات لکھ کر آویزاں کردیے۔یہ خیال جرمن خاتون آرٹسٹ ایلن سے مستعار لیا گیا تھا۔ایلن نے خواتین کے عالمی دن کے موقع پر اسے متعارف کروایا تھا۔اِس برس ہمارے ہاں کچھ بچوں نے اِس آئیڈیا کو اپنی یونیورسٹی میں پچیس عدد پیڈز آویزاں کرکے استعمال کیا۔جبکہ ابھی تک کی اطلاعات کے مطابق اِن کا مقصد حیض سے جڑے نام نہاد "سٹگما" اور "شرمندگی" پر احتجاج ریکارڈ کروانا تھا ۔یہ اُن کے ایک پراجیکٹ کا حصہ تھا۔تعلیمی پراجیکٹ ۔۔۔ جبکہ ہمارے ہاں سماجی رابطے کی مختلف ویب سائٹس پر بیٹھے دو انتہاؤں کے مسافر اس معاملے کو کسی اور ہی درجے پر لے گئے ہیں۔الفاظ اور ذاتی حملوں کی اس جنگ میں وہ طلباء بھی کود گئے جن کا کہنا تھا کہ وہ اپنے سرکل میں آگہی پیدا کرنا چاہتے ہیں "حیض پر گفتگو کرنا کسی طور شرمندگی کا باعث نہیں،یہ روزمرہ معمولات میں سے ایک معاملہ ہے جِس کو مکروہ راز بنانے یا سمجھنے کی ضرورت نہیں۔"
جب آپ کہتے ہیں کہ یہ معاملہ معاشرے کے ایک مخصوص گروہ نے صرف اِس لیے اٹھایا کیونکہ انہیں اس تکلیف کا سامنا زیادہ ہوتا ہے جبکہ لوئر مڈل کلاس کی عورت کو پرواہ نہیں تو یہیں آپ کا تعصب جھلکنے لگتا ہے۔شعور اجاگر کرنا ریاست کی ذمہ داری ہوا کرتی ہے نا کہ مختلف تدریسی پراجیکٹس کے ذریعے اہداف حاصل کیے جاتے ہیں۔جبکہ طلباء میں سے ایک کا کہنا تھا "یہ کوئی مہم نہیں بلکہ کلاس پراجیکٹ پر مبنی ایک احتجاج ہے۔کیونکہ ہماری رائے میں مخصوص ایام کےلیے خواتین کو شرمندگی اور ٹھٹھے کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔اگرچہ یہ کوئی قصور یا گناہ نہیں۔"
یونہی جب دوسرا گروہ اِس معاملے پر بحث کرتے تیزاب گردی یا غیرت کے نام پر قتل کو زیادہ اہم سمجھتا ہے تو انہیں بھی جاننے کی ضرورت ہے کہ بچیاں مناسب دیکھ بھال اور حفظانِ صحت کے اصولوں پر عمل پیرا نہ ہوکر وقتی لوکل انفیکشنز سے لے کر دائمی اندرونی مسائل تک کا شکار ہوجاتی ہیں۔جِس میں بعض اوقات بانجھ پن تک دیکھا گیا ہے۔
یاد رہے کہ دہلی کی درسگاہ انتظامیہ نے بِنا اجازت یہ کام کرنے پر طلباء کو تنبیہہ کرکے کیمپس سے سب کچھ ہٹا دیا تھا۔پھر یہ بچے گلیوں  چوراہوں تک پیغام لے کر گئے۔اس علاقے کے رہائشی ایک دوست کی رائے جاننی چاہیے تو شکیل صاحب کا کہنا تھا کہ " دہلی مصروف،پروفیشنل اور سیاسی طور پر باشعور لوگوں کا شہر ہے۔انہیں کسی تعلیمی پراجیکٹ سے نہ تو مسئلہ ہے اور نہ ہی اس میں حصہ لینے کی فرصت ہے۔یہاں کے عوام کو ملکی اور بین الاقوامی سیاسی افق پر غور کرنے سے فراغت نہیں۔" اب میں انہیں کیا بتاتی کہ ہمارے ہاں تو ہر معاملے میں انتہائی پوزیشنز لیے بغیر لوگوں کا گزر بسر ممکن نہیں ہو پاتا۔
ایک گروہ دوسرے کی نظر میں جاہل ہے تو دوسرا پہلے والے کو ننگی تشہیر کے طعنوں سے تسکین حاصل کررہا ہے۔اگرچہ آپ دونوں ہی کو اپنے رویوں کی کرختگی اور قطعیت پر ہنگامی بنیادوں پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔
آگے بڑھتے ہیں۔طلباء نے درست کیا یا غلط وہ بحث تو اب رہی نہیں ۔مجھے یاد ہے کہ بی۔ایڈ کے فائنل لیکچر میں نظامِ اخراج میرا منتخب کردہ موضوع تھا۔اس کے لیے تین روز کی محنت سے قدِ آدم ماڈل تیار کیا اور سکول پہنچنے پر آدھ درجن ہم جماعتوں کا سوال صرف یہ تھا کہ اس ماڈل کو "ننگا" ہی اٹھا لائی۔انہیں حیرت تھی کہ مجھےگھر سے امتحانی مرکز تک کے راستے میں شرم کیوں نہیں آئی۔اور یہ کہ مرد ایگزامنر کے سامنے لیکچر دیتے عجیب محسوس نہیں ہوا اور ایسے ہی اصل موضوع سے غیر متعلقہ سوالات کی ایک بوچھاڑ تھی۔یہ ایک چھوٹی سی مثال ہے کہ اذہان پر لگی کچھ معاشرتی گرہیں تدریسی نظام یا ڈگریوں سے بھی نہیں کُھلا کرتیں۔
بات اب طلباء کے تدریسی پراجیکٹ کو چھوڑ کر ان کے لیے منطق سے عاری دلائل یا ان کیخلاف زہر اگلنے والوں پر کرلینی چاہیے۔
پاکستانی معاشرہ بہت سے طبقات میں منقسم ہے۔یہ تو جان لیجیے کہ ہر طبقے کی عورت اپنے مخصوص ایام سے کِس طور نبٹتی ہے۔معاشی طور پر غیر مستحکم طبقے کی عورت کسی سپر سٹور پر جا کر خوشبودار اور شب و روز کے حساب سے انواع واقسام کے سینیٹری نیپکنز نہیں خریدتی۔وہ پرانے نرم کپڑے بار بار دھو کر استعمال کرتی ہیں۔بیکٹیریاز اور انفیکشنز کو دعوتِ عام ہے ۔ یہ لوگ آدھ پاؤ کھلا گھی روزانہ خریدتےہیں۔اُن کیلیے اصل ضرورت پیٹ کی آگ بجھانا ہے۔ان کے پاس کوئی سوشل میڈیا نہیں جہاں پر بہتے شعور کے دریا سے سیر ہو سکیں۔اور عقل کی بہتی امبردھارا میں بھیگ سکیں۔یہاں بچیوں ہی نہیں بیٹوں کو بھی ہارمونز میں آتی تبدیلی سے نبٹنے کیلیے تنہا چھوڑ دیا جاتاہے۔جسمانی تبدیلیوں بارے وقت سے پہلے آگہی متعلق والدین تو کیا کوئی بڑا بہن،بھائی تک ذمہ داری نہیں نباہتا۔بچہ یہاں لڑکپن کی نفسیاتی شکست و ریخت اور جسمانی تبدیلوں سے پریشان اکیلا لڑتا رہتا ہے۔مدد کیلیے نہ تو گھر اور نہ ہی معاشرہ اپنا کردار ادا کرتا ہے۔
ہمارے ہاں فیمینیزم کے نام پر جس قسم کا دیسی مال تھوک اور پرچون میں بِک رہا ہے اس کے تو کیا ہی کہنے۔آپ کو براؤن لفافے میں قیمتی سینیٹری نیپکنز نہیں رکھنے تو مت رکھیے جناب۔مگر یقین مانیے اِس کا تعلق "شرمندگی" سے بالکل نہیں ہے۔لحاظ سے ہے جو ذاتی پسند نا پسند سے مشروط ہوا کرتا ہے۔سینیٹری نیپکنز آویزاں کرنے کے حق میں نعرے بلند کرنے والوں میں سے کتنے ہیں جنہیں علم ہو کہ "میکسی، الٹرا، نائٹ، ڈے، ایکسٹرا لانگ ،تِھک ،تِھن۔۔۔۔" جیسی وسیع رینج کا ایک پیکٹ کتنے میں بِکتا ہے۔فی پیڈ کا نرخ کیا ہے۔ملتان اندرون شہر کی تنگ گلیوں میں ایک بین الاقوامی کمپنی کے پیڈز کی نقالی کِس ہوشیاری سے کی جارہی ہے۔ہر گلی محلے کے کریانہ سٹور پر ان کی خرید و فروخت جاری ہے۔عام میڈیکل سٹورز پر دستیاب ہیں۔پہلی تو کیا تیسری نظر میں بھی آپ پیکنگ سے اِس کے جعلی ہونے کا اندازہ نہیں لگاسکتے۔ریاستی اداروں ، سول سوسائٹی یا کسی پڑھے لکھے گروہ کو فرصت نہیں کہ ان دو نمبر سینیٹری نیپکنز کے بنانے میں استعمال ہونے والا مواد ہی جانچ لیں۔کون شعور دے گا کہ جعلی ادویات کی طرح جعلی سینیٹری نیپکنز میں لگی جیل اور چپکانے کا مواد کِس قدر خطرناک ہوسکتا ہے۔
سینیٹری پروٹیکشن کے لیے استعمال کیا جانے والا مواد اور طریقے کا انتخاب ایک انتہائی نجی معاملہ ہوتا ہے جو کہ عموماً بچیوں کے ارد گرد کے ماحول ، ثقافت ، معاشی حالت  حتیٰ  کہ پانی کی دستیابی اور کچھ روایات سے مشروط ہوتا ہے۔اب اِس نجی معاملے میں اگر کوئی بیرونی دخل اندازی ہوسکتی ہے تو صرف اِس حد تک کہ  انہیں مناسب رویے کے ساتھ درست اور صحت مندانہ راہ دکھائی جائے۔ماہواری کوئی بیماری نہیں لیکن اِس قدرتی عمل کو نبٹانے کے غیر مناسب طرائق بہرحال کچھ بیماریوں کو دعوت دے سکتے ہیں۔
 بات کرنا گناہ نہیں۔بات کرنے کا ڈھنگ بہرحال مناسب رکھیے اور دیکھیے کہ بنیادی معاملات کو کِس حد تک آپ کی توجہ حاصل ہے۔لگی لپٹی رکھے بِنا سب کچھ کہہ دینا ہی جرأت اور جِدت پسندی نہیں۔نازک معاملات میں الفاظ اور اسلوب کا چناؤ ہی اصل امتحان ہوا کرتا ہے۔آپ لباس پر جعلی خون کے دھبے لگائے کیمپس میں کھڑے رہیں یا پبلک ٹرانسپورٹ اصل داغوں میں گھومتے رہیں،کسی کو کیا مسئلہ ہوسکتا ہے۔لیکن اِن کو سراہنے والے یہ بتانا پسند فرمائیں گے کہ ہیپاٹئٹس اور ایچ۔آئی۔وی وائرس کے پھیلاؤ کی وجوہات میں یہ معاملہ کہاں کھڑا ہوگا۔سینیٹری نیپکنز کو اچھے سے تلف کرنا کہ نہ تو گٹروں کو بند کرے اور نہ ہی نہروں،جوہڑوں کو مزید آلودہ کرے۔کیا آپ جانتے ہیں کہ ایک طبقہ وہ بھی ہے جو استعمال شدہ نیپکنز کو گھر کی چھت پر لے جا کر نذرِ آتش کرتا ہے۔جو ماحول اور فضاء کو نقصان پہنچاتا ہے۔اس بارے کوئی رائے دینا پسند کریں گے۔
عوامی شعور کی مہم چلانی ہو تو حکومت فنڈز جاری کرتی ہے اور اس سے کہیں پہلے منصوبہ سازی کی ضرورت ہوتی ہے کہ کونسی بنیادی معلومات اور حفظانِ صحت کے معاملات پر شعور اجاگر کرکے بچیوں کو ممکنہ بیماریوں اور صحت کے مسائل سے بچانا ہے نیز ماحول کو صاف ستھرا رکھنا ہے۔پاکستان میں کتنے اسکولوں میں سِرے سے ٹوائلٹس ہی نہیں ہیں۔یونیسیف کی رپورٹ کے مطابق ہماری آبادی کا ۱۳ فیصد آج بھی بیت الخلاء جیسی بنیادی سہولت سے محروم ہے۔
معاشرے میں رہنے کا ڈھنگ سیکھیے اور سِکھایے ورنہ تو یوں ہے کہ حضرات کے ہاں بھی "شرمندگی" کے کچھ پوشیدہ معاملات ہوں گے۔کیا ان کے زیرِ جامہ اُلٹے لٹکانے پر تالیاں پیٹیے گا۔یہ جو سرِ عام دیواروں کی جانب رُخ پھیرے رفع حاجت کی جاتی ہے اِس پر تنقید کیوں۔جبکہ عین اوپر عبارت بھی درج ہوتی ہے کہ فلاں کا بچہ پیشاب کررہا ہے۔شعور اور تربیت کے لیے طویل مدتی منصوبہ بندی کرنا ہوتی ہے۔ہمارے ہاں نصاب میں چھوٹی عمر سے لڑکے لڑکیوں کو کہیں سمجھایا نہیں  جاتا کہ مختلف جسمانی و نفسیاتی تبدیلوں سے کیونکر نبٹنا ہے۔حفظانِ صحت کے اصولوں کو زندگی کے ہر میدان میں لاگو کرنا کونسی درسی کتب میں سکھایا جارہا ہے۔ابتداء یہاں سے ہی کرلیجیے۔
کسی بھی معاشرے بارے آپ کی رائے کا مستند و حتمی ہونا اِس امر سے مشروط ہے کہ آپ کی جڑیں کہاں اور کِس حد تک پیوست ہیں۔یاد رہے جڑیں پیڑوں کی ہوا کرتی ہیں آکاس بیلوں کی نہیں۔

3 تبصرے:

  1. ,A good overview on how to change behaviours through changing attitudes, though in reality thete are lots of unanswered questions

    جواب دیںحذف کریں
  2. Afshan, aap please Manto style mein short stories try karein. You have a great gift with words

    جواب دیںحذف کریں
  3. Bold style but I like the way you express certain realities

    جواب دیںحذف کریں