پیر، 25 اپریل، 2016
جمعہ، 15 اپریل، 2016
شرمندگی کیسی اور کیوں ؟
گزشتہ برس دہلی کی جامعہ ملیہ اسلامیہ یونیورسٹی کے کچھ طلباء نے جنسی زیادتی اور جنسی تعصب و تفریق پر شعور اجاگر کرنے کےلیے تمام کیمپس میں سینیٹری پیڈز مختصر پیغامات لکھ کر آویزاں کردیے۔یہ خیال جرمن خاتون آرٹسٹ ایلن سے مستعار لیا گیا تھا۔ایلن نے خواتین کے عالمی دن کے موقع پر اسے متعارف کروایا تھا۔اِس برس ہمارے ہاں کچھ بچوں نے اِس آئیڈیا کو اپنی یونیورسٹی میں پچیس عدد پیڈز آویزاں کرکے استعمال کیا۔جبکہ ابھی تک کی اطلاعات کے مطابق اِن کا مقصد حیض سے جڑے نام نہاد "سٹگما" اور "شرمندگی" پر احتجاج ریکارڈ کروانا تھا ۔یہ اُن کے ایک پراجیکٹ کا حصہ تھا۔تعلیمی پراجیکٹ ۔۔۔ جبکہ ہمارے ہاں سماجی رابطے کی مختلف ویب سائٹس پر بیٹھے دو انتہاؤں کے مسافر اس معاملے کو کسی اور ہی درجے پر لے گئے ہیں۔الفاظ اور ذاتی حملوں کی اس جنگ میں وہ طلباء بھی کود گئے جن کا کہنا تھا کہ وہ اپنے سرکل میں آگہی پیدا کرنا چاہتے ہیں "حیض پر گفتگو کرنا کسی طور شرمندگی کا باعث نہیں،یہ روزمرہ معمولات میں سے ایک معاملہ ہے جِس کو مکروہ راز بنانے یا سمجھنے کی ضرورت نہیں۔"
جب آپ کہتے ہیں کہ یہ معاملہ معاشرے کے ایک مخصوص گروہ نے صرف اِس لیے اٹھایا کیونکہ انہیں اس تکلیف کا سامنا زیادہ ہوتا ہے جبکہ لوئر مڈل کلاس کی عورت کو پرواہ نہیں تو یہیں آپ کا تعصب جھلکنے لگتا ہے۔شعور اجاگر کرنا ریاست کی ذمہ داری ہوا کرتی ہے نا کہ مختلف تدریسی پراجیکٹس کے ذریعے اہداف حاصل کیے جاتے ہیں۔جبکہ طلباء میں سے ایک کا کہنا تھا "یہ کوئی مہم نہیں بلکہ کلاس پراجیکٹ پر مبنی ایک احتجاج ہے۔کیونکہ ہماری رائے میں مخصوص ایام کےلیے خواتین کو شرمندگی اور ٹھٹھے کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔اگرچہ یہ کوئی قصور یا گناہ نہیں۔"
یونہی جب دوسرا گروہ اِس معاملے پر بحث کرتے تیزاب گردی یا غیرت کے نام پر قتل کو زیادہ اہم سمجھتا ہے تو انہیں بھی جاننے کی ضرورت ہے کہ بچیاں مناسب دیکھ بھال اور حفظانِ صحت کے اصولوں پر عمل پیرا نہ ہوکر وقتی لوکل انفیکشنز سے لے کر دائمی اندرونی مسائل تک کا شکار ہوجاتی ہیں۔جِس میں بعض اوقات بانجھ پن تک دیکھا گیا ہے۔
یاد رہے کہ دہلی کی درسگاہ انتظامیہ نے بِنا اجازت یہ کام کرنے پر طلباء کو تنبیہہ کرکے کیمپس سے سب کچھ ہٹا دیا تھا۔پھر یہ بچے گلیوں چوراہوں تک پیغام لے کر گئے۔اس علاقے کے رہائشی ایک دوست کی رائے جاننی چاہیے تو شکیل صاحب کا کہنا تھا کہ " دہلی مصروف،پروفیشنل اور سیاسی طور پر باشعور لوگوں کا شہر ہے۔انہیں کسی تعلیمی پراجیکٹ سے نہ تو مسئلہ ہے اور نہ ہی اس میں حصہ لینے کی فرصت ہے۔یہاں کے عوام کو ملکی اور بین الاقوامی سیاسی افق پر غور کرنے سے فراغت نہیں۔" اب میں انہیں کیا بتاتی کہ ہمارے ہاں تو ہر معاملے میں انتہائی پوزیشنز لیے بغیر لوگوں کا گزر بسر ممکن نہیں ہو پاتا۔
ایک گروہ دوسرے کی نظر میں جاہل ہے تو دوسرا پہلے والے کو ننگی تشہیر کے طعنوں سے تسکین حاصل کررہا ہے۔اگرچہ آپ دونوں ہی کو اپنے رویوں کی کرختگی اور قطعیت پر ہنگامی بنیادوں پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔
آگے بڑھتے ہیں۔طلباء نے درست کیا یا غلط وہ بحث تو اب رہی نہیں ۔مجھے یاد ہے کہ بی۔ایڈ کے فائنل لیکچر میں نظامِ اخراج میرا منتخب کردہ موضوع تھا۔اس کے لیے تین روز کی محنت سے قدِ آدم ماڈل تیار کیا اور سکول پہنچنے پر آدھ درجن ہم جماعتوں کا سوال صرف یہ تھا کہ اس ماڈل کو "ننگا" ہی اٹھا لائی۔انہیں حیرت تھی کہ مجھےگھر سے امتحانی مرکز تک کے راستے میں شرم کیوں نہیں آئی۔اور یہ کہ مرد ایگزامنر کے سامنے لیکچر دیتے عجیب محسوس نہیں ہوا اور ایسے ہی اصل موضوع سے غیر متعلقہ سوالات کی ایک بوچھاڑ تھی۔یہ ایک چھوٹی سی مثال ہے کہ اذہان پر لگی کچھ معاشرتی گرہیں تدریسی نظام یا ڈگریوں سے بھی نہیں کُھلا کرتیں۔
بات اب طلباء کے تدریسی پراجیکٹ کو چھوڑ کر ان کے لیے منطق سے عاری دلائل یا ان کیخلاف زہر اگلنے والوں پر کرلینی چاہیے۔
پاکستانی معاشرہ بہت سے طبقات میں منقسم ہے۔یہ تو جان لیجیے کہ ہر طبقے کی عورت اپنے مخصوص ایام سے کِس طور نبٹتی ہے۔معاشی طور پر غیر مستحکم طبقے کی عورت کسی سپر سٹور پر جا کر خوشبودار اور شب و روز کے حساب سے انواع واقسام کے سینیٹری نیپکنز نہیں خریدتی۔وہ پرانے نرم کپڑے بار بار دھو کر استعمال کرتی ہیں۔بیکٹیریاز اور انفیکشنز کو دعوتِ عام ہے ۔ یہ لوگ آدھ پاؤ کھلا گھی روزانہ خریدتےہیں۔اُن کیلیے اصل ضرورت پیٹ کی آگ بجھانا ہے۔ان کے پاس کوئی سوشل میڈیا نہیں جہاں پر بہتے شعور کے دریا سے سیر ہو سکیں۔اور عقل کی بہتی امبردھارا میں بھیگ سکیں۔یہاں بچیوں ہی نہیں بیٹوں کو بھی ہارمونز میں آتی تبدیلی سے نبٹنے کیلیے تنہا چھوڑ دیا جاتاہے۔جسمانی تبدیلیوں بارے وقت سے پہلے آگہی متعلق والدین تو کیا کوئی بڑا بہن،بھائی تک ذمہ داری نہیں نباہتا۔بچہ یہاں لڑکپن کی نفسیاتی شکست و ریخت اور جسمانی تبدیلوں سے پریشان اکیلا لڑتا رہتا ہے۔مدد کیلیے نہ تو گھر اور نہ ہی معاشرہ اپنا کردار ادا کرتا ہے۔
ہمارے ہاں فیمینیزم کے نام پر جس قسم کا دیسی مال تھوک اور پرچون میں بِک رہا ہے اس کے تو کیا ہی کہنے۔آپ کو براؤن لفافے میں قیمتی سینیٹری نیپکنز نہیں رکھنے تو مت رکھیے جناب۔مگر یقین مانیے اِس کا تعلق "شرمندگی" سے بالکل نہیں ہے۔لحاظ سے ہے جو ذاتی پسند نا پسند سے مشروط ہوا کرتا ہے۔سینیٹری نیپکنز آویزاں کرنے کے حق میں نعرے بلند کرنے والوں میں سے کتنے ہیں جنہیں علم ہو کہ "میکسی، الٹرا، نائٹ، ڈے، ایکسٹرا لانگ ،تِھک ،تِھن۔۔۔۔" جیسی وسیع رینج کا ایک پیکٹ کتنے میں بِکتا ہے۔فی پیڈ کا نرخ کیا ہے۔ملتان اندرون شہر کی تنگ گلیوں میں ایک بین الاقوامی کمپنی کے پیڈز کی نقالی کِس ہوشیاری سے کی جارہی ہے۔ہر گلی محلے کے کریانہ سٹور پر ان کی خرید و فروخت جاری ہے۔عام میڈیکل سٹورز پر دستیاب ہیں۔پہلی تو کیا تیسری نظر میں بھی آپ پیکنگ سے اِس کے جعلی ہونے کا اندازہ نہیں لگاسکتے۔ریاستی اداروں ، سول سوسائٹی یا کسی پڑھے لکھے گروہ کو فرصت نہیں کہ ان دو نمبر سینیٹری نیپکنز کے بنانے میں استعمال ہونے والا مواد ہی جانچ لیں۔کون شعور دے گا کہ جعلی ادویات کی طرح جعلی سینیٹری نیپکنز میں لگی جیل اور چپکانے کا مواد کِس قدر خطرناک ہوسکتا ہے۔
سینیٹری پروٹیکشن کے لیے استعمال کیا جانے والا مواد اور طریقے کا انتخاب ایک انتہائی نجی معاملہ ہوتا ہے جو کہ عموماً بچیوں کے ارد گرد کے ماحول ، ثقافت ، معاشی حالت حتیٰ کہ پانی کی دستیابی اور کچھ روایات سے مشروط ہوتا ہے۔اب اِس نجی معاملے میں اگر کوئی بیرونی دخل اندازی ہوسکتی ہے تو صرف اِس حد تک کہ انہیں مناسب رویے کے ساتھ درست اور صحت مندانہ راہ دکھائی جائے۔ماہواری کوئی بیماری نہیں لیکن اِس قدرتی عمل کو نبٹانے کے غیر مناسب طرائق بہرحال کچھ بیماریوں کو دعوت دے سکتے ہیں۔
بات کرنا گناہ نہیں۔بات کرنے کا ڈھنگ بہرحال مناسب رکھیے اور دیکھیے کہ بنیادی معاملات کو کِس حد تک آپ کی توجہ حاصل ہے۔لگی لپٹی رکھے بِنا سب کچھ کہہ دینا ہی جرأت اور جِدت پسندی نہیں۔نازک معاملات میں الفاظ اور اسلوب کا چناؤ ہی اصل امتحان ہوا کرتا ہے۔آپ لباس پر جعلی خون کے دھبے لگائے کیمپس میں کھڑے رہیں یا پبلک ٹرانسپورٹ اصل داغوں میں گھومتے رہیں،کسی کو کیا مسئلہ ہوسکتا ہے۔لیکن اِن کو سراہنے والے یہ بتانا پسند فرمائیں گے کہ ہیپاٹئٹس اور ایچ۔آئی۔وی وائرس کے پھیلاؤ کی وجوہات میں یہ معاملہ کہاں کھڑا ہوگا۔سینیٹری نیپکنز کو اچھے سے تلف کرنا کہ نہ تو گٹروں کو بند کرے اور نہ ہی نہروں،جوہڑوں کو مزید آلودہ کرے۔کیا آپ جانتے ہیں کہ ایک طبقہ وہ بھی ہے جو استعمال شدہ نیپکنز کو گھر کی چھت پر لے جا کر نذرِ آتش کرتا ہے۔جو ماحول اور فضاء کو نقصان پہنچاتا ہے۔اس بارے کوئی رائے دینا پسند کریں گے۔
عوامی شعور کی مہم چلانی ہو تو حکومت فنڈز جاری کرتی ہے اور اس سے کہیں پہلے منصوبہ سازی کی ضرورت ہوتی ہے کہ کونسی بنیادی معلومات اور حفظانِ صحت کے معاملات پر شعور اجاگر کرکے بچیوں کو ممکنہ بیماریوں اور صحت کے مسائل سے بچانا ہے نیز ماحول کو صاف ستھرا رکھنا ہے۔پاکستان میں کتنے اسکولوں میں سِرے سے ٹوائلٹس ہی نہیں ہیں۔یونیسیف کی رپورٹ کے مطابق ہماری آبادی کا ۱۳ فیصد آج بھی بیت الخلاء جیسی بنیادی سہولت سے محروم ہے۔
معاشرے میں رہنے کا ڈھنگ سیکھیے اور سِکھایے ورنہ تو یوں ہے کہ حضرات کے ہاں بھی "شرمندگی" کے کچھ پوشیدہ معاملات ہوں گے۔کیا ان کے زیرِ جامہ اُلٹے لٹکانے پر تالیاں پیٹیے گا۔یہ جو سرِ عام دیواروں کی جانب رُخ پھیرے رفع حاجت کی جاتی ہے اِس پر تنقید کیوں۔جبکہ عین اوپر عبارت بھی درج ہوتی ہے کہ فلاں کا بچہ پیشاب کررہا ہے۔شعور اور تربیت کے لیے طویل مدتی منصوبہ بندی کرنا ہوتی ہے۔ہمارے ہاں نصاب میں چھوٹی عمر سے لڑکے لڑکیوں کو کہیں سمجھایا نہیں جاتا کہ مختلف جسمانی و نفسیاتی تبدیلوں سے کیونکر نبٹنا ہے۔حفظانِ صحت کے اصولوں کو زندگی کے ہر میدان میں لاگو کرنا کونسی درسی کتب میں سکھایا جارہا ہے۔ابتداء یہاں سے ہی کرلیجیے۔
کسی بھی معاشرے بارے آپ کی رائے کا مستند و حتمی ہونا اِس امر سے مشروط ہے کہ آپ کی جڑیں کہاں اور کِس حد تک پیوست ہیں۔یاد رہے جڑیں پیڑوں کی ہوا کرتی ہیں آکاس بیلوں کی نہیں۔
پیر، 4 اپریل، 2016
چوہا مار مہم
"آپریشن آخری چوہے کے مرنے تک جاری رہے گا ۔"
"وزیرِ اعظم دھشت گردوں کو مار رہے ہیں جبکہ خان صاحب چوہا مار مہم چلا رہے ہیں۔"
"خیبر پختونخواہ میں چوہوں کے سر کی قیمت مقرر ۔۔۔۔"یہ اور ایسے کئی بیانات کچھ روز سے الیکٹرانک و پرنٹ میڈیا اور سماجی رابطوں کی ویب سائٹس پر سننے پڑھنے کو مِل رہے ہیں۔ہر دو جانب ایک ہیجان ہے جو کہ پہلے پنجاب کے مختلف اضلاع میں ڈینگی مُکاؤ مہم کے سلسلے میں دکھائی دیتا تھا اور آج کل خیبر پختونخواہ حکومت کی طرف سے پشاور کی ضلعی انتظامیہ کی چوہا مار مہم کے جواب میں دکھائی دےرہا ہے۔اِن معاملات میں کسی ایک گروہ کا بِنا مطلب کی لعن طعن اور جملہ بازی جبکہ دوسرے گروہ کی جانب سے آئیں بائیں شائیں دراصل مسئلے کی سنگینی سے نابلد ہونے کا مظہر ہے۔
کچھ ہی روز میں بچوں سمیت پانچ افراد چوہوں کے کاٹنے سے لقمۂ اجل بن چکے ہیں جبکہ بچوں کو چوہوں کے کاٹنے کے واقعات بھی رپورٹ ہورہے ہیں۔ ایسی صورت میں متاثرین کو ریبیز سے بچاؤ کے ٹیکے لگائے جا رہے ہیں۔اِن چوہوں کے جسم پر پلتے پِسو نہ صرف انسانوں بلکہ گھر آنگن میں پلتے پرندوں اور جانوروں کی جان کے لیے بھی خطرہ ہوتے ہیں۔مرغیوں اور پالتو جانوروں کی ہلاکتوں اور بیماری بارے کوئی رپورٹ نہیں کررہا کہ اُن کی تعداد کتنی ہے۔
"وزیرِ اعظم دھشت گردوں کو مار رہے ہیں جبکہ خان صاحب چوہا مار مہم چلا رہے ہیں۔"
"خیبر پختونخواہ میں چوہوں کے سر کی قیمت مقرر ۔۔۔۔"یہ اور ایسے کئی بیانات کچھ روز سے الیکٹرانک و پرنٹ میڈیا اور سماجی رابطوں کی ویب سائٹس پر سننے پڑھنے کو مِل رہے ہیں۔ہر دو جانب ایک ہیجان ہے جو کہ پہلے پنجاب کے مختلف اضلاع میں ڈینگی مُکاؤ مہم کے سلسلے میں دکھائی دیتا تھا اور آج کل خیبر پختونخواہ حکومت کی طرف سے پشاور کی ضلعی انتظامیہ کی چوہا مار مہم کے جواب میں دکھائی دےرہا ہے۔اِن معاملات میں کسی ایک گروہ کا بِنا مطلب کی لعن طعن اور جملہ بازی جبکہ دوسرے گروہ کی جانب سے آئیں بائیں شائیں دراصل مسئلے کی سنگینی سے نابلد ہونے کا مظہر ہے۔
کچھ ہی روز میں بچوں سمیت پانچ افراد چوہوں کے کاٹنے سے لقمۂ اجل بن چکے ہیں جبکہ بچوں کو چوہوں کے کاٹنے کے واقعات بھی رپورٹ ہورہے ہیں۔ ایسی صورت میں متاثرین کو ریبیز سے بچاؤ کے ٹیکے لگائے جا رہے ہیں۔اِن چوہوں کے جسم پر پلتے پِسو نہ صرف انسانوں بلکہ گھر آنگن میں پلتے پرندوں اور جانوروں کی جان کے لیے بھی خطرہ ہوتے ہیں۔مرغیوں اور پالتو جانوروں کی ہلاکتوں اور بیماری بارے کوئی رپورٹ نہیں کررہا کہ اُن کی تعداد کتنی ہے۔
جب پورے شہر میں ۲۲ سے ۳۰ سینٹی میٹر جسامت کے چوہے دندنا رہے ہوں تو چھٹکارے یا نجات کے لیے چلائی مہم کو پھبتیوں اور طعنوں کی نظر کرنے کے بجائے مسئلے کو سمجھیے۔ قابلِ شرم بات اِس مہم کا آغاز نہیں ہے۔ دو پہلو ہیں ایک تو یہ کہ عوام کو صفائی ستھرائی اور حفظانِ صحت کے اصولوں سے درست سمت میں آگاہی نہیں دی جا رہی۔دوسرا کچھ خود بھی ایسی لاپرواہی کی روایت پائی جاتی ہے کہ صفائی کیلیے حکومت انعامی رقم کا لالچ دینے پر مجبور ہوئی ہے۔کبھی ۲۵ تو کبھی ۳۰ روپے فی چوہا۔پھر کسی مخصوص علاقے کے واسطے ۳۰۰ روپے فی چوہا اور پھر اگلے روز اپنا ہی جاری کردہ نوٹس تردید یا واپسی لیے منہ چڑھاتا ہوا۔ نا اہلی اور حماقتوں کا ناختم ہونے والا سلسلہ۔قابلِ گرفت ہے انتظامیہ جو آج اِس مہم کو کیش کروانے کی کوشش میں ہے جبکہ پشاور کے علاقہ زریاب کا رہائشی نصیر احمد ۵ جنوری ۲۰۱۵ء کو مختلف اخبارات کی زینت بنا ۔وجہ تھی اُس کی رضاکارانہ چوہا مار مہم ۔اس کا ایک ساتھی اپنے بھتیجے کو چوہے کے کاٹنے سے کھو چکا تھا اور ایک دوست اسی مسئلے کے باعث اپنی بیوی کے علاج پر ہزاروں روپے خرچ کر چکا تھا۔وہ عام شہری جسے آپ عقل و شعور سے عاری گردانتے ہیں اگر اسے اپنے علاقے میں مُرغیاں اور پالتو جانوروں کی ہلاکت یا بیماری نے سوچنے پر مجبور کیا اور خود ہی خاص طرح کا زہر تیار کرکے سینکڑوں چوہوں کو مارتا رہا تو حکومت کِن معاملات میں الجھی اِس جانب سے آنکھ بند کیے بیٹھی تھی۔
میں نے پہلی بار ۲۰۱۱ء میں پشاور کے صدر بازار میں بڑی جسامت کے چوہے دیکھے تھے ۔اُس وقت بہت سے پرانے دکانداروں کا بیان ملتا جلتا ہی تھا کہ "ڈیڑھ دو سال سے تعداد میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔سیلابوں کے بعد انتظامیہ نے اِس جانب توجہ نہیں دی۔" اور آج چند لوگ اُٹھ کر بیرون ملک سے آئے مخصوص کنٹینرز کے ساتھ اِن چوہوں کی آمد نتھی کرکے بری ذمہ ہونے کی ناکام کوشش کررہے ہیں۔ سیلاب چوہوں کی ہجرت کا سبب ہوتےہیں۔ سوال بلدیہ عظمیٰ سےکریں کہ گرانٹ کہاں جاتی رہی ۔کیوں بروقت سدِباب نہ کیا گیا۔
ابتدائی طور پر یہ چوہا مار مہم چار ماہ جاری رہے گی اور کہا جا رہا ہے کہ ہر پندرہ ماہ بعد حالات کا جائزہ لیا جائے گا۔مخصوص زہر تیار کرکے نالیوں ، گٹروں اور بازاروں میں پھینکا جارہا ہے۔عوام کو بھی سمجھایا جا رہا ہے کہ کھانا ضائع نہ کریں،رات کو گندے برتن سنک میں نہ چھوڑیں اور کچرہ ڈھانپ کر رکھیں۔جسے روزانہ کی بنیاد پر انتظامی عملہ اٹھا کر ڈھنگ کے طریقے سے ٹھکانے لگائے گا۔
درخواست صرف اتنی سی ہے کہ خدانخواستہ طاعون پھیل جائےتویہ صوبائی سرحدیں نہیں دیکھے گا۔لہذا ڈینگی مُکاؤ مہم کے ردِ عمل کی یاد میں اِس معاملے کو سیاست اور اختلافات کی بھینٹ مت چڑھایے۔
میں نے پہلی بار ۲۰۱۱ء میں پشاور کے صدر بازار میں بڑی جسامت کے چوہے دیکھے تھے ۔اُس وقت بہت سے پرانے دکانداروں کا بیان ملتا جلتا ہی تھا کہ "ڈیڑھ دو سال سے تعداد میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔سیلابوں کے بعد انتظامیہ نے اِس جانب توجہ نہیں دی۔" اور آج چند لوگ اُٹھ کر بیرون ملک سے آئے مخصوص کنٹینرز کے ساتھ اِن چوہوں کی آمد نتھی کرکے بری ذمہ ہونے کی ناکام کوشش کررہے ہیں۔ سیلاب چوہوں کی ہجرت کا سبب ہوتےہیں۔ سوال بلدیہ عظمیٰ سےکریں کہ گرانٹ کہاں جاتی رہی ۔کیوں بروقت سدِباب نہ کیا گیا۔
ابتدائی طور پر یہ چوہا مار مہم چار ماہ جاری رہے گی اور کہا جا رہا ہے کہ ہر پندرہ ماہ بعد حالات کا جائزہ لیا جائے گا۔مخصوص زہر تیار کرکے نالیوں ، گٹروں اور بازاروں میں پھینکا جارہا ہے۔عوام کو بھی سمجھایا جا رہا ہے کہ کھانا ضائع نہ کریں،رات کو گندے برتن سنک میں نہ چھوڑیں اور کچرہ ڈھانپ کر رکھیں۔جسے روزانہ کی بنیاد پر انتظامی عملہ اٹھا کر ڈھنگ کے طریقے سے ٹھکانے لگائے گا۔
درخواست صرف اتنی سی ہے کہ خدانخواستہ طاعون پھیل جائےتویہ صوبائی سرحدیں نہیں دیکھے گا۔لہذا ڈینگی مُکاؤ مہم کے ردِ عمل کی یاد میں اِس معاملے کو سیاست اور اختلافات کی بھینٹ مت چڑھایے۔
ہفتہ، 2 اپریل، 2016
پنجاب اسمبلی کا تحفظِ نِسواں بِل
ایک ماہ سے جاری لاحاصل بحث کا سلسلہ ہے کہ
تھمنے کا نام نہیں لیتا۔تحفظِ نسواں بِل کو ایک مکتبۂ فکر
نے اپنی انا کا مسئلہ بنا کر اسے اسلامی تعلیمات کے منافی قرار دیتے ٹی۔وی سکرینوں
پر سات سے بارہ بجے تک وہ رونق لگا رکھی ہے کہ رہے نام اللہ کا۔یاد رہے کہ یہ وہی
کیمرے اور مائیکس ہیں جو کبھی حرام اور ان کے تشریحاتی دینِ اسلام کے منافی
رہےہیں۔وقت کے ساتھ اب "بذریعہ اجتہاد" سب حلال ہے۔
آئینِ پاکستان میں اٹھارھویں ترمیم کے بعد صوبائی اسمبلیوں نے صحت ، تعلیم ، روزگار اور بنیادی حقوق جیسے معاملات میں قانون سازی کا جو آغاز کیا ہے اِس ضمن میں اہم سنگِ میل گھریلو تشدد کی روک تھام اور تحفظِ نسواں بِل کی صورت میں عبور کیا گیا ہے۔سندھ ، بلوچستان اور پنجاب میں قانون سازی عمل میں آچکی ہے جبکہ خیبر پختونخواہ نے گھریلو تشدد سے بچاؤ اور روک تھام کا بِل ۲۰۱۴ء آرٹیکل ۲۲۹ کے تحت اسلامی نظریاتی کونسل کو نظرِ ثانی کے لیے طویل عرصہ سے بھجوا رکھا ہے۔جس کا مستقبل فی الحال تو دھندلا ہی دکھائی دیتا ہے۔
سندھ اسمبلی نے گھریلو تشدد سے بچاؤ اور روک تھام کا بِل مارچ ۲۰۱۳ء میں پاس کیا تھا۔ جِس میں متاثرہ شخص کوئی مرد ،خاتون اور بچہ ہوسکتےہیں۔ جبکہ بلوچستان اسمبلی سے ایسا ہی بل فروری ۲۰۱۴ء میں پاس ہو کر صوبائی گورنر کے دستخط کے بعد سے نافذ العمل ہے۔یاد رہے کہ پاکستان پیپلز پارٹی کی رکن پنجاب اسمبلی فائزہ ملک ۲۰۱۲ء میں ایک قرارداد لائی تھیں جسے اُس وقت ن لیگ کے اراکین نے اختلافات کے باعث پاس ہونے نہیں دیا تھا۔لیکن وہ قرارداد تحفظِ نسواں کی تعریف پر پوری یوں نہیں اترتی کہ اُس میں ایک ہی چھت تلے رہنے والے ملازمین، بچے ، خواتین اور بزرگ سب شامل تھے۔یہاں یہ بات قابلِ توجہ ہے کہ پنجاب میں چائلڈ پروٹیکشن ، چائلڈ میرج اور سوشل پروٹیکشن ، فیملی کورٹس اور مسلم فیملی لاء کے حوالوں سے الگ الگ قوانین یا ترامیم پاس ہو چکی ہیں۔
متعلقہ شعبہ جات اور سول سوسائٹی کی مدد سے وزیرِ اعلیٰ پنجاب کے سینئر ممبر سپیشل مانیٹرنگ یونٹ برائے امن و امان سلمان صوفی کا ڈرافٹ کردہ تحفظِ نسواں بِل مئی ۲۰۱۵ء سے التواء کا شکار تھا اور چوبیس مارچ ۲۰۱۶ء کو جِس وقت اسے پنجاب کی صوبائی اسمبلی نے منظور کیا تو ۳۷۱ میں سے کُل ۱۹۳ اراکینِ اسمبلی حاضر تھے۔جبکہ ۷۶ خواتین اراکینِ اسمبلی میں سے ۴۴ موجود تھیں۔جِس وقت آپ ایک مخصوص طبقے کے تحفظات اور اکتیس نکات پر مشتمل اِس بِل کو پڑھے بِنا بحث کرنے پر انگلیاں اٹھاتےہیں تو کیا ہی مناسب ہو کہ صوبائی حکومت اپنی صفوں میں بھی نگاہ دوڑا لے۔
آخر پنجاب اسمبلی کے پاس کردہ تحفظِ نسواں بِل میں ایسا کیا ہے جو مذہبی تنظیموں اور علمائے کرام کو آگ بگولہ کیے جاتا ہے نیز ایسا سخت ردِ عمل سندھ اور بلوچستان میں پاس کردہ قوانین کے وقت دیکھنے میں کیوں نہ آیا۔یہی سوالات نے مجھے اِس بِل کو بارہا پڑھنے اور سمجھنے پر مجبور کیا ہے۔
جس دِن سے مذکورہ بِل منظور ہوا ہے عین اس لمحے سے ایک جملہ جو ہر بحث میں سننے کو مل رہا ہے وہ یہ ہے کہ " خاندانی نظام بکھر جائے گا،طلاق کی شرح بڑھے گی۔" حتیٰ کہ ایک سیاسی جماعت کے رکن اسمبلی نے فلور آف دا ہاؤس کہا کہ "مذہب مرد کو حق دیتا ہے کہ وہ عورت کو پیٹ سکتا ہے جبکہ خاتون پر فرض ہے کہ وہ اس خبر کو گھر کی چار دیواری سے باہر جانے نہ دے۔" قانون سازی کرنے والے عوامی نمائندگان کی یہ انفرادی سوچ اجتماعی معاملات کی قلعی اچھے سے کھول رہی ہے۔ پنجاب اسمبلی کا منظور شدہ تحفظِ نسواں بِل لفظ تشدد کی اس طرح کثیر الجہت واضح تعریف بیان کرنے سے قاصر ہے جیسی فصاحت ہمیں سندھ اسمبلی کے قانون میں دکھائی دی۔ مگر یہاں جس نقطے کو زیادہ اہمیت دی گئی ہے وہ ہے اس تمام قانون کو مؤثر انداز میں عملی جامہ پہنا کر نافذ العمل بنانا ہے۔
ابتدایہ نکات میں متاثرہ خاتون کے ساتھ ناروا سلوک کرنے والوں کی تعریف بتا دی گئی ہے۔جس پر غور کرنا گوارا ہی نہیں کیا جارہا۔لفظ "قرابت داری " استعمال کیا گیا ہے جس میں تمام خونی رشتے ہوتےہیں۔دوسرے نمبر پر آتے ہیں وہ رشتے جو شادی کے بعد بنتے ہیں جن میں شوہر ، ساس اور دیگر تمام سسرالی رشتہ دار شامل ہیں جبکہ آخر میں اُن بچیوں کو بھی تحفظ دیا گیا ہے جو لے پالک ہوں۔کہیں بھی کسی مقام پر لفظ شوہر استعمال نہیں ہوا جس پر سب واویلا ہے کہ طلاق کی شرح بڑھے گی۔اس کے بعد تشدد کے ضمن میں جسمانی ہی نہیں نفسیاتی دباؤ کو بھی مد نظر رکھا گیا ہے۔جنسی تشدد، تعاقب کرنا اور ہراساں کرنا جبکہ سائبر کرائمز کو بھی اِس قانون میں شامل کرکے معاشرے کی بچیوں کو محفوظ زندگی کی ضمانت دی گئی ہے۔
قانون کو عملی جامہ پہننے کے لیے یونیورسل ٹول فری نمبر کی سہولت دی جائے گی۔پروٹیکشن سینٹرز اور شیلٹر ہومز بنائے جائیں گے جہاں متعلقہ عملہ بھرتی کیا جائے گا۔اِن سینٹرز کا پہلا کام فریقین میں ثالثی اور صلح صفائی کی فضاء بحال کرنا ہوگا۔اس کے علاوہ طبی معائنہ،علاج، نفسیاتی اور قانونی مدد کی فراہمی کو یقینی بنانا بھی عملے ہی کی ذمہ داری ہوگی۔اس قانون کی اردو اور علاقائی زبانوں کی عام لوگوں تک رسائی کو آسان بنایا جائے گا۔نیز یہ کمیٹی بروقت عمل درآمد کے لیے ایک ڈیٹا بیس اور سوفٹ وئیر مرتب کرے گی تاکہ مسائل کی چھان بین،تشخیص و تقویم کے طریقۂ کار میں جہاں اور جب ضرورت ہو ریفارمز لانا ممکن ہو۔۔۔یاد رہے کہ کسی قانون میں ترمیم اور قانون کی کسی شِق میں وضاحت کی ضرورت میں فرق ہوتا ہے جو ہمارے ہاں کچھ مذہبی جماعتیں سمجھنے سے انکاری دکھائی دے رہی ہیں۔
ضلعی سطح پر ایک خاتون افسر کو مجاز بنایا جائے گا جو اپنے ضلع میں خواتین کی شکایات کا ازالہ کرے گی۔ڈی۔سی۔او کی سربراہی میں بننے والی اِس ڈسٹرکٹ وومین پروٹیکشن کمیٹی میں درج ذیل افراد شامل ہوں گے
ضلعی ہیلتھ افسر
کمیونٹی افسر
سوشل ویلفئیر کا ضلعی افسر
ضلعی پولیس کے سربراہ کا نمائندہ
ضلعی سطح پر سرکاری وکیل
تحفظِ نسواں قانون کے تحت ضلعی سطح پر مقرر کردہ خاتون افسر
اس کے علاوہ حکومت چار غیر سرکاری اراکین جن میں سول سوسائٹی اور مخیر حضرات کے نمائندگان شامل ہوں،کو کمیٹی کا حصہ بنائے گی جن کی رہائش متعلقہ ضلع میں ہو۔بحالی مراکز،ٹول فری نمبر،عملہ بھرتی اور اُس کی ٹریننگ جیسے معاملات کے علاوہ اِس کمیٹی کا پہلا فرض فریقین کے مابین ثالثی اور مصالحت ہوگا۔عدالت خود سے کسی ایسے معاملےکا نوٹس نہیں لے سکےگی جب تک کہ وومین پروٹیکشن کمیٹی عدالت کو درخواست نہیں دے گی۔یہ اہم نکتہ بہرحال ہمارے ہاں نظر انداز کیا جارہاہے۔بالکل جیسا کہ یہ قانون کی یہ شِق سامنے نہیں لائی جا رہی کہ غلط معلومات/شکایت کے اندراج کی صورت میں تین ماہ کی سزا اور کم از کم پچاس ہزار اور زیادہ سے زیادہ ایک لاکھ روپے تک کے جرمانے کی سزا ہوگی۔
اِس قانون کے آغاز سے ایک سو بیس روز کے اندر حکومت کی ذمہ داری ہوگی کہ پروٹیکشن سسٹم سے شیلٹر ہومز کی ریگولیشن تک کے تمام معاملات پر مؤثر قانون سازی کرے۔جبکہ دو سال کے اندر قانون سے غیرمتصادم دفعات کو متعارف کروایا جاسکے جن کے ذریعے عملدرآمد کے طریقۂ کار میں موجود سقم دور کرنے میں مدد ملے۔
متاثرہ خاتون خود یا اُس کی جانب سے مقرر کردہ شخص ڈسٹرکٹ وومین پروٹیشن آفیسر کو تین طرح کی شکایات کر سکتے ہیں؛ ۱۔ تحفظ ۲۔ سکونت/رہائش کے مسائل ۳۔ مالی و معاشی معاملات ۔۔۔رپورٹ کے اندراج کے علاوہ ضلع بھرمیں کسی بھی تھانے میں ایسی کوئی رپورٹ درج ہو تو اس پر بھی ڈسٹرکٹ وومین پروٹیکشن کمیٹی کی رسائی ممکن ہوگی۔عدالت درخواست داخل کروانے کے سات روز کے اندر کی تاریخ دینے کی پابند ہوگی۔جِس میں مدعا الیہ کو نوٹس جاری کیا جائے گا کہ وہ بے گناہی ثابت کرے کہ کیوں اُس کے خلاف کاروائی نہیں ہونی چاہیے۔ناکامی کی صورت میں عدالت مقدمے کو نوے روز کے اندر نبٹانے کی پابند رہے گی۔اِس میں ہمارے ہاں کےایک طبقے کو کیا قباحت دکھائی دیتی ہے،سمجھ سے بالا ہے۔کیا بہنیں ،بیٹیاں برسوں عدالتوں میں خوار ہوتی،در بدر کی ٹھوکریں کھاتی رہیں یا پنجابی والا "ھاؤ پرے" کرکے دو پاٹوں میں پستی رہیں۔اگر عدالت میں ثابت ہوجاتا ہے کہ مدعا الیہ تشدد کا مرتکب ہوا ہے تو اِس بنا پر عدالت معاملے کی سنگینی اور ساخت کے اعتبار سے ابتدائی حکم جاری کرسکتی ہے۔جس میں متاثرہ خاتون کا اُسی گھر میں رہنا یا بحالی مرکز بھجوانا شامل ہے۔اگر خاتون کو طبی یا نفسیاتی معاملے میں بحالی کی ضرورت ہے تو اِس کے لیے پروٹیکشن سیل اور شیلٹر ہومز کو بھجوایا جائے گا۔مدعا الیہ اپنی ملکیت میں موجود اسلحہ عدالت میں جمع کروانے کا پابند ہوگا۔عدالت حکم دے سکتی ہے کہ فریقین ایک ہی چھت تلے کچھ فاصلے پر رہیں گے یا فیصلہ آنے تک ایک فریق گھر سے دور۔متاثرہ خاتون کے نام پر کسی بھی قسم کی جائیداد اور دستاویزات اس کے حوالے کی جائیں۔گھر کسی کے نام پر منتقل یا فروخت نہیں کیا جاسکے گا مگر متاثرہ خاتون ہی کو۔۔۔
ایک معاملہ جو جراح کا سب سے بڑا موجب بنا ہوا ہے وہ ہے بازو یا ٹخنے میں مقررہ مدت تک پہنایا جانے والا بینڈ (میں اسے کڑا کہنے سے گریز کروں گی،کیونکہ اکثر لوگ اسے مردانیت پر حملہ تصور کررہے ہیں۔)۔ یہ جی۔پی۔آر۔ایس بینڈ صرف انتہائی نتائج کے خطرے کی صورت میں پہنایا جاسکے گا۔جس کا مقصد مدعا الیہ کو متاثرہ خاتون کے کام کے مقام اور شیلٹر ہوم وغیرہ سے دور رکھنا ہے۔تاکہ اُسے احساس رہے کہ اس کی حرکات و سکنات پر نظر رکھی جا رہی ہے اور وہ تیزاب گردی،اقدامِ قتل یا تشدد کے تحت زدو کوب کرکے بڑا نقصان پہنچانے سے گریز کرے۔
خاتون پر معاشی دباؤ کو جرم ماننے پر کچھ علماء فرماتے ہیں کہ جس کی آمدن کم ہو وہ تو جیل میں جائے گا۔حیرت ہے کہ یہ لوگ بل میں موجود وہ شِق کیوں نظر انداز کرتے ہیں جس میں واضح طور پر لکھا گیا ہے کہ عدالت کسی بھی فیصلے سے قبل مدعا الیہ کی معاشی حالت کا احترام کرتے اس کی آمدن کو مدِنظر رکھے گی۔ہمارے ہاں وہ طفیلیے بھی پائے جاتے ہیں جو خواتین کی محنت کی کمائی پر اپنا حق جتلاتے اسے زد وکوب کرتےہیں۔ اِس قانون کے تحت خاتون اپنی تنخواہ کسی کو دینے کی پابند نہیں اور جو کوئی زبردستی کرے تو وہ ڈسٹرکٹ وومین پروٹیکشن آفیسر کو شکایت کرسکتی ہے۔مالی معاملات میں اگر کسی متاثرہ خاتون کی نوکری مدعا الیہ کی وجہ سے چھوٹ گئی یا کوئی طبی امداد کی ضرورت ہو یا خاتون کے مالکانہ حقوق پر مشتمل املاک کو نقصان پہنچایا جائے تو ہرجانہ مدعا الیہ کو ادا کرنا ہوگا۔نیز نان نفقہ کے معاملات فیملی لاء کے تحت حل کیے جائیں گے۔
اہم بات یہ ہے کہ الزامات ثابت ہونے کی صورت میں صوبائی حکومت اپنی ویب سائٹ پر کسی بھی کیس کی تمام معلومات مفت فراہم کرنے کی پابند ہوگی۔کیس کی تمام تفصیلات، تحفظ و بحالی کے لیے اٹھائے اقدامات فریقین کی تفصیل جاری ہوگی۔لیکن حکومت کسی بھی کیس میں تمام یا کچھ تفصیلات جن بنیادوں پر پبلک نہ کرنے کا عندیہ دے سکتی ہے ان میں پرائیویسی،مستقبل کے تحفظ ، معاشرتی وقار، ایسی تفصیل جو معاشرےمیں تعصب کو ہوا دے نیز کسی بھی افسر کی زندگی کو مستقبل میں خطرہ ہو ، شامل ہیں۔ اِس برس جون تک ملتان میں اس قانون کے تحت پہلا پروٹیکشن سیل مکمل ہوجائے گا جِس میں شیلٹر ہوم اور مذکورہ تمام سہولیات میسر ہوں گی۔
اس مختصر جائزے کے بعد بھی لکھاری سمجھنے سے قاصر ہے کہ آخر وہ کون سی شِق یا لفظ ہے جو اسلام اور (اب تو) دو قومی نظریہ سے متصادم ہے۔کچھ علمائے کرام فرماتے ہیں کہ تشدد تو اِس معاشرے میں ہوتا ہی نہیں تو ان کی تسلی کے واسطے۔۔۔ ڈیڑھ سال قبل عورت فاؤنڈیشن کی جانب سے جاری ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق ملک بھر میں سال ۲۰۱۴ء کے دوران ۲۱۷۰ اغواء،۱۶۱۰ قتل ،۱۵۱۵ زناءبالجبر،ن۹۳۱ خود کشی ، ۷۱۳ غیرت کے نام پر قتل ،۴۹۴ گھریلو تشدد،۷۴ جنسی ہراساں ،۶۵ تیزاب گردی اور ۵۵ جلا کر ماردینے کے کیسز رجسٹرڈ ہیں۔جبکہ اس اجتماعی اعداد وشمار میں صوبہ پنجاب میں درج شدہ کیسز کی اوسط سب سے زیادہ ہے۔جس کی ایک وجہ شاید معاملہ آپس میں ختم کرنے کی بجائے درج کروانے کی روایت بھی ہے۔بہرحال کُل اعداد و شمار میں ۸۶ فیصد اغواء کاری ، ۶۰ فیصد قتل ، ۹۲ فیصد ریپ کیسز اور ۸۳ فیصد تیزاب گردی کی رپورٹنگ اسی صوبے میں ہوئی ہے۔ اِس صورتحال میں پھر بھی یہی کہا جائے کہ ایسے قانون کی ضرورت نہیں تو معاشرے میں عورتوں کے اجتماعی مستقبل بارے چہ مگوئیاں تو ہوں گی۔
بہرحال ۲۹ فروی ۲۰۱۶ء کو پنجاب گزٹ میں یہ قانون شائع کیا جاچکا ہے اور اس میں موجود سقم یا خوبیوں پر بات کرنے کے لیے ایک کاپی حاصل کرکے پڑھنا کسی صورت غیر شرعی فعل نہیں۔ٹی۔وی شوز میں کسی محترم خاتون سماجی کارکن کے ساتھ حکومتی نمائندہ،ایک م کا نمائنذہبی جماعت کا نمائندہ اور ایک عدد اپوزیشن رہنما بٹھا کر لاحاصل اور بے نتیجہ گفتگو سے ہیجان برپا کرنے کی بجائے مجال ہے جو حکومت یا میڈیا نے کوشش کی ہو کہ آسان،عام فہم زبان میں اِس قانون کے اہم مندرجات کو مختصر طور پر عوام کو سمجھایا جائے تاکہ وہ سستا چورن خرید کر نفرتوں کی آبیاری سے دور رہیں۔
آئینِ پاکستان میں اٹھارھویں ترمیم کے بعد صوبائی اسمبلیوں نے صحت ، تعلیم ، روزگار اور بنیادی حقوق جیسے معاملات میں قانون سازی کا جو آغاز کیا ہے اِس ضمن میں اہم سنگِ میل گھریلو تشدد کی روک تھام اور تحفظِ نسواں بِل کی صورت میں عبور کیا گیا ہے۔سندھ ، بلوچستان اور پنجاب میں قانون سازی عمل میں آچکی ہے جبکہ خیبر پختونخواہ نے گھریلو تشدد سے بچاؤ اور روک تھام کا بِل ۲۰۱۴ء آرٹیکل ۲۲۹ کے تحت اسلامی نظریاتی کونسل کو نظرِ ثانی کے لیے طویل عرصہ سے بھجوا رکھا ہے۔جس کا مستقبل فی الحال تو دھندلا ہی دکھائی دیتا ہے۔
سندھ اسمبلی نے گھریلو تشدد سے بچاؤ اور روک تھام کا بِل مارچ ۲۰۱۳ء میں پاس کیا تھا۔ جِس میں متاثرہ شخص کوئی مرد ،خاتون اور بچہ ہوسکتےہیں۔ جبکہ بلوچستان اسمبلی سے ایسا ہی بل فروری ۲۰۱۴ء میں پاس ہو کر صوبائی گورنر کے دستخط کے بعد سے نافذ العمل ہے۔یاد رہے کہ پاکستان پیپلز پارٹی کی رکن پنجاب اسمبلی فائزہ ملک ۲۰۱۲ء میں ایک قرارداد لائی تھیں جسے اُس وقت ن لیگ کے اراکین نے اختلافات کے باعث پاس ہونے نہیں دیا تھا۔لیکن وہ قرارداد تحفظِ نسواں کی تعریف پر پوری یوں نہیں اترتی کہ اُس میں ایک ہی چھت تلے رہنے والے ملازمین، بچے ، خواتین اور بزرگ سب شامل تھے۔یہاں یہ بات قابلِ توجہ ہے کہ پنجاب میں چائلڈ پروٹیکشن ، چائلڈ میرج اور سوشل پروٹیکشن ، فیملی کورٹس اور مسلم فیملی لاء کے حوالوں سے الگ الگ قوانین یا ترامیم پاس ہو چکی ہیں۔
متعلقہ شعبہ جات اور سول سوسائٹی کی مدد سے وزیرِ اعلیٰ پنجاب کے سینئر ممبر سپیشل مانیٹرنگ یونٹ برائے امن و امان سلمان صوفی کا ڈرافٹ کردہ تحفظِ نسواں بِل مئی ۲۰۱۵ء سے التواء کا شکار تھا اور چوبیس مارچ ۲۰۱۶ء کو جِس وقت اسے پنجاب کی صوبائی اسمبلی نے منظور کیا تو ۳۷۱ میں سے کُل ۱۹۳ اراکینِ اسمبلی حاضر تھے۔جبکہ ۷۶ خواتین اراکینِ اسمبلی میں سے ۴۴ موجود تھیں۔جِس وقت آپ ایک مخصوص طبقے کے تحفظات اور اکتیس نکات پر مشتمل اِس بِل کو پڑھے بِنا بحث کرنے پر انگلیاں اٹھاتےہیں تو کیا ہی مناسب ہو کہ صوبائی حکومت اپنی صفوں میں بھی نگاہ دوڑا لے۔
آخر پنجاب اسمبلی کے پاس کردہ تحفظِ نسواں بِل میں ایسا کیا ہے جو مذہبی تنظیموں اور علمائے کرام کو آگ بگولہ کیے جاتا ہے نیز ایسا سخت ردِ عمل سندھ اور بلوچستان میں پاس کردہ قوانین کے وقت دیکھنے میں کیوں نہ آیا۔یہی سوالات نے مجھے اِس بِل کو بارہا پڑھنے اور سمجھنے پر مجبور کیا ہے۔
جس دِن سے مذکورہ بِل منظور ہوا ہے عین اس لمحے سے ایک جملہ جو ہر بحث میں سننے کو مل رہا ہے وہ یہ ہے کہ " خاندانی نظام بکھر جائے گا،طلاق کی شرح بڑھے گی۔" حتیٰ کہ ایک سیاسی جماعت کے رکن اسمبلی نے فلور آف دا ہاؤس کہا کہ "مذہب مرد کو حق دیتا ہے کہ وہ عورت کو پیٹ سکتا ہے جبکہ خاتون پر فرض ہے کہ وہ اس خبر کو گھر کی چار دیواری سے باہر جانے نہ دے۔" قانون سازی کرنے والے عوامی نمائندگان کی یہ انفرادی سوچ اجتماعی معاملات کی قلعی اچھے سے کھول رہی ہے۔ پنجاب اسمبلی کا منظور شدہ تحفظِ نسواں بِل لفظ تشدد کی اس طرح کثیر الجہت واضح تعریف بیان کرنے سے قاصر ہے جیسی فصاحت ہمیں سندھ اسمبلی کے قانون میں دکھائی دی۔ مگر یہاں جس نقطے کو زیادہ اہمیت دی گئی ہے وہ ہے اس تمام قانون کو مؤثر انداز میں عملی جامہ پہنا کر نافذ العمل بنانا ہے۔
ابتدایہ نکات میں متاثرہ خاتون کے ساتھ ناروا سلوک کرنے والوں کی تعریف بتا دی گئی ہے۔جس پر غور کرنا گوارا ہی نہیں کیا جارہا۔لفظ "قرابت داری " استعمال کیا گیا ہے جس میں تمام خونی رشتے ہوتےہیں۔دوسرے نمبر پر آتے ہیں وہ رشتے جو شادی کے بعد بنتے ہیں جن میں شوہر ، ساس اور دیگر تمام سسرالی رشتہ دار شامل ہیں جبکہ آخر میں اُن بچیوں کو بھی تحفظ دیا گیا ہے جو لے پالک ہوں۔کہیں بھی کسی مقام پر لفظ شوہر استعمال نہیں ہوا جس پر سب واویلا ہے کہ طلاق کی شرح بڑھے گی۔اس کے بعد تشدد کے ضمن میں جسمانی ہی نہیں نفسیاتی دباؤ کو بھی مد نظر رکھا گیا ہے۔جنسی تشدد، تعاقب کرنا اور ہراساں کرنا جبکہ سائبر کرائمز کو بھی اِس قانون میں شامل کرکے معاشرے کی بچیوں کو محفوظ زندگی کی ضمانت دی گئی ہے۔
قانون کو عملی جامہ پہننے کے لیے یونیورسل ٹول فری نمبر کی سہولت دی جائے گی۔پروٹیکشن سینٹرز اور شیلٹر ہومز بنائے جائیں گے جہاں متعلقہ عملہ بھرتی کیا جائے گا۔اِن سینٹرز کا پہلا کام فریقین میں ثالثی اور صلح صفائی کی فضاء بحال کرنا ہوگا۔اس کے علاوہ طبی معائنہ،علاج، نفسیاتی اور قانونی مدد کی فراہمی کو یقینی بنانا بھی عملے ہی کی ذمہ داری ہوگی۔اس قانون کی اردو اور علاقائی زبانوں کی عام لوگوں تک رسائی کو آسان بنایا جائے گا۔نیز یہ کمیٹی بروقت عمل درآمد کے لیے ایک ڈیٹا بیس اور سوفٹ وئیر مرتب کرے گی تاکہ مسائل کی چھان بین،تشخیص و تقویم کے طریقۂ کار میں جہاں اور جب ضرورت ہو ریفارمز لانا ممکن ہو۔۔۔یاد رہے کہ کسی قانون میں ترمیم اور قانون کی کسی شِق میں وضاحت کی ضرورت میں فرق ہوتا ہے جو ہمارے ہاں کچھ مذہبی جماعتیں سمجھنے سے انکاری دکھائی دے رہی ہیں۔
ضلعی سطح پر ایک خاتون افسر کو مجاز بنایا جائے گا جو اپنے ضلع میں خواتین کی شکایات کا ازالہ کرے گی۔ڈی۔سی۔او کی سربراہی میں بننے والی اِس ڈسٹرکٹ وومین پروٹیکشن کمیٹی میں درج ذیل افراد شامل ہوں گے
ضلعی ہیلتھ افسر
کمیونٹی افسر
سوشل ویلفئیر کا ضلعی افسر
ضلعی پولیس کے سربراہ کا نمائندہ
ضلعی سطح پر سرکاری وکیل
تحفظِ نسواں قانون کے تحت ضلعی سطح پر مقرر کردہ خاتون افسر
اس کے علاوہ حکومت چار غیر سرکاری اراکین جن میں سول سوسائٹی اور مخیر حضرات کے نمائندگان شامل ہوں،کو کمیٹی کا حصہ بنائے گی جن کی رہائش متعلقہ ضلع میں ہو۔بحالی مراکز،ٹول فری نمبر،عملہ بھرتی اور اُس کی ٹریننگ جیسے معاملات کے علاوہ اِس کمیٹی کا پہلا فرض فریقین کے مابین ثالثی اور مصالحت ہوگا۔عدالت خود سے کسی ایسے معاملےکا نوٹس نہیں لے سکےگی جب تک کہ وومین پروٹیکشن کمیٹی عدالت کو درخواست نہیں دے گی۔یہ اہم نکتہ بہرحال ہمارے ہاں نظر انداز کیا جارہاہے۔بالکل جیسا کہ یہ قانون کی یہ شِق سامنے نہیں لائی جا رہی کہ غلط معلومات/شکایت کے اندراج کی صورت میں تین ماہ کی سزا اور کم از کم پچاس ہزار اور زیادہ سے زیادہ ایک لاکھ روپے تک کے جرمانے کی سزا ہوگی۔
اِس قانون کے آغاز سے ایک سو بیس روز کے اندر حکومت کی ذمہ داری ہوگی کہ پروٹیکشن سسٹم سے شیلٹر ہومز کی ریگولیشن تک کے تمام معاملات پر مؤثر قانون سازی کرے۔جبکہ دو سال کے اندر قانون سے غیرمتصادم دفعات کو متعارف کروایا جاسکے جن کے ذریعے عملدرآمد کے طریقۂ کار میں موجود سقم دور کرنے میں مدد ملے۔
متاثرہ خاتون خود یا اُس کی جانب سے مقرر کردہ شخص ڈسٹرکٹ وومین پروٹیشن آفیسر کو تین طرح کی شکایات کر سکتے ہیں؛ ۱۔ تحفظ ۲۔ سکونت/رہائش کے مسائل ۳۔ مالی و معاشی معاملات ۔۔۔رپورٹ کے اندراج کے علاوہ ضلع بھرمیں کسی بھی تھانے میں ایسی کوئی رپورٹ درج ہو تو اس پر بھی ڈسٹرکٹ وومین پروٹیکشن کمیٹی کی رسائی ممکن ہوگی۔عدالت درخواست داخل کروانے کے سات روز کے اندر کی تاریخ دینے کی پابند ہوگی۔جِس میں مدعا الیہ کو نوٹس جاری کیا جائے گا کہ وہ بے گناہی ثابت کرے کہ کیوں اُس کے خلاف کاروائی نہیں ہونی چاہیے۔ناکامی کی صورت میں عدالت مقدمے کو نوے روز کے اندر نبٹانے کی پابند رہے گی۔اِس میں ہمارے ہاں کےایک طبقے کو کیا قباحت دکھائی دیتی ہے،سمجھ سے بالا ہے۔کیا بہنیں ،بیٹیاں برسوں عدالتوں میں خوار ہوتی،در بدر کی ٹھوکریں کھاتی رہیں یا پنجابی والا "ھاؤ پرے" کرکے دو پاٹوں میں پستی رہیں۔اگر عدالت میں ثابت ہوجاتا ہے کہ مدعا الیہ تشدد کا مرتکب ہوا ہے تو اِس بنا پر عدالت معاملے کی سنگینی اور ساخت کے اعتبار سے ابتدائی حکم جاری کرسکتی ہے۔جس میں متاثرہ خاتون کا اُسی گھر میں رہنا یا بحالی مرکز بھجوانا شامل ہے۔اگر خاتون کو طبی یا نفسیاتی معاملے میں بحالی کی ضرورت ہے تو اِس کے لیے پروٹیکشن سیل اور شیلٹر ہومز کو بھجوایا جائے گا۔مدعا الیہ اپنی ملکیت میں موجود اسلحہ عدالت میں جمع کروانے کا پابند ہوگا۔عدالت حکم دے سکتی ہے کہ فریقین ایک ہی چھت تلے کچھ فاصلے پر رہیں گے یا فیصلہ آنے تک ایک فریق گھر سے دور۔متاثرہ خاتون کے نام پر کسی بھی قسم کی جائیداد اور دستاویزات اس کے حوالے کی جائیں۔گھر کسی کے نام پر منتقل یا فروخت نہیں کیا جاسکے گا مگر متاثرہ خاتون ہی کو۔۔۔
ایک معاملہ جو جراح کا سب سے بڑا موجب بنا ہوا ہے وہ ہے بازو یا ٹخنے میں مقررہ مدت تک پہنایا جانے والا بینڈ (میں اسے کڑا کہنے سے گریز کروں گی،کیونکہ اکثر لوگ اسے مردانیت پر حملہ تصور کررہے ہیں۔)۔ یہ جی۔پی۔آر۔ایس بینڈ صرف انتہائی نتائج کے خطرے کی صورت میں پہنایا جاسکے گا۔جس کا مقصد مدعا الیہ کو متاثرہ خاتون کے کام کے مقام اور شیلٹر ہوم وغیرہ سے دور رکھنا ہے۔تاکہ اُسے احساس رہے کہ اس کی حرکات و سکنات پر نظر رکھی جا رہی ہے اور وہ تیزاب گردی،اقدامِ قتل یا تشدد کے تحت زدو کوب کرکے بڑا نقصان پہنچانے سے گریز کرے۔
خاتون پر معاشی دباؤ کو جرم ماننے پر کچھ علماء فرماتے ہیں کہ جس کی آمدن کم ہو وہ تو جیل میں جائے گا۔حیرت ہے کہ یہ لوگ بل میں موجود وہ شِق کیوں نظر انداز کرتے ہیں جس میں واضح طور پر لکھا گیا ہے کہ عدالت کسی بھی فیصلے سے قبل مدعا الیہ کی معاشی حالت کا احترام کرتے اس کی آمدن کو مدِنظر رکھے گی۔ہمارے ہاں وہ طفیلیے بھی پائے جاتے ہیں جو خواتین کی محنت کی کمائی پر اپنا حق جتلاتے اسے زد وکوب کرتےہیں۔ اِس قانون کے تحت خاتون اپنی تنخواہ کسی کو دینے کی پابند نہیں اور جو کوئی زبردستی کرے تو وہ ڈسٹرکٹ وومین پروٹیکشن آفیسر کو شکایت کرسکتی ہے۔مالی معاملات میں اگر کسی متاثرہ خاتون کی نوکری مدعا الیہ کی وجہ سے چھوٹ گئی یا کوئی طبی امداد کی ضرورت ہو یا خاتون کے مالکانہ حقوق پر مشتمل املاک کو نقصان پہنچایا جائے تو ہرجانہ مدعا الیہ کو ادا کرنا ہوگا۔نیز نان نفقہ کے معاملات فیملی لاء کے تحت حل کیے جائیں گے۔
اہم بات یہ ہے کہ الزامات ثابت ہونے کی صورت میں صوبائی حکومت اپنی ویب سائٹ پر کسی بھی کیس کی تمام معلومات مفت فراہم کرنے کی پابند ہوگی۔کیس کی تمام تفصیلات، تحفظ و بحالی کے لیے اٹھائے اقدامات فریقین کی تفصیل جاری ہوگی۔لیکن حکومت کسی بھی کیس میں تمام یا کچھ تفصیلات جن بنیادوں پر پبلک نہ کرنے کا عندیہ دے سکتی ہے ان میں پرائیویسی،مستقبل کے تحفظ ، معاشرتی وقار، ایسی تفصیل جو معاشرےمیں تعصب کو ہوا دے نیز کسی بھی افسر کی زندگی کو مستقبل میں خطرہ ہو ، شامل ہیں۔ اِس برس جون تک ملتان میں اس قانون کے تحت پہلا پروٹیکشن سیل مکمل ہوجائے گا جِس میں شیلٹر ہوم اور مذکورہ تمام سہولیات میسر ہوں گی۔
اس مختصر جائزے کے بعد بھی لکھاری سمجھنے سے قاصر ہے کہ آخر وہ کون سی شِق یا لفظ ہے جو اسلام اور (اب تو) دو قومی نظریہ سے متصادم ہے۔کچھ علمائے کرام فرماتے ہیں کہ تشدد تو اِس معاشرے میں ہوتا ہی نہیں تو ان کی تسلی کے واسطے۔۔۔ ڈیڑھ سال قبل عورت فاؤنڈیشن کی جانب سے جاری ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق ملک بھر میں سال ۲۰۱۴ء کے دوران ۲۱۷۰ اغواء،۱۶۱۰ قتل ،۱۵۱۵ زناءبالجبر،ن۹۳۱ خود کشی ، ۷۱۳ غیرت کے نام پر قتل ،۴۹۴ گھریلو تشدد،۷۴ جنسی ہراساں ،۶۵ تیزاب گردی اور ۵۵ جلا کر ماردینے کے کیسز رجسٹرڈ ہیں۔جبکہ اس اجتماعی اعداد وشمار میں صوبہ پنجاب میں درج شدہ کیسز کی اوسط سب سے زیادہ ہے۔جس کی ایک وجہ شاید معاملہ آپس میں ختم کرنے کی بجائے درج کروانے کی روایت بھی ہے۔بہرحال کُل اعداد و شمار میں ۸۶ فیصد اغواء کاری ، ۶۰ فیصد قتل ، ۹۲ فیصد ریپ کیسز اور ۸۳ فیصد تیزاب گردی کی رپورٹنگ اسی صوبے میں ہوئی ہے۔ اِس صورتحال میں پھر بھی یہی کہا جائے کہ ایسے قانون کی ضرورت نہیں تو معاشرے میں عورتوں کے اجتماعی مستقبل بارے چہ مگوئیاں تو ہوں گی۔
بہرحال ۲۹ فروی ۲۰۱۶ء کو پنجاب گزٹ میں یہ قانون شائع کیا جاچکا ہے اور اس میں موجود سقم یا خوبیوں پر بات کرنے کے لیے ایک کاپی حاصل کرکے پڑھنا کسی صورت غیر شرعی فعل نہیں۔ٹی۔وی شوز میں کسی محترم خاتون سماجی کارکن کے ساتھ حکومتی نمائندہ،ایک م کا نمائنذہبی جماعت کا نمائندہ اور ایک عدد اپوزیشن رہنما بٹھا کر لاحاصل اور بے نتیجہ گفتگو سے ہیجان برپا کرنے کی بجائے مجال ہے جو حکومت یا میڈیا نے کوشش کی ہو کہ آسان،عام فہم زبان میں اِس قانون کے اہم مندرجات کو مختصر طور پر عوام کو سمجھایا جائے تاکہ وہ سستا چورن خرید کر نفرتوں کی آبیاری سے دور رہیں۔
سبسکرائب کریں در:
اشاعتیں (Atom)