قومی ائیر
لائن کے ملازمین کی ہڑتال سے تین روز میں قومی خزانے کو ایک ارب اسی کروڑ کا نقصان۔ یہ وہ سرخی ہے جو آج ہر اخبار
کی زینت بنی ہوئی ہے۔قومی خزانے کا تو جو کباڑہ ہورہا ہے تین انمول انسانی جانیں
بھی اسی ہڑتال کی نظر ہوچکی ہیں۔
آخر حکومت کیوں نہیں مان جاتی۔کیوں دنوں جانب سے ھڈ دھرمی دکھائی جارہی ہے۔کیا واقعی قومی ائیرلائن کو بچانے کی آخری امید نج کاری ہی ہے۔وفاق نے ڈھائی تین سالوں میں کیا کاوش کی اور ادارے نے کارکردگی کی مد میں کیا نتائج دیے۔۔۔ایک عام پاکستانی کے ذہن میں یہ اور ایسے بےشمار سوالات گردش کررہے ہیں۔ جاننے کی کوشش میں جو حقائق ہاتھ لگے ہیں پہلے ان کا جائزہ لے لیا جائے کہ حکومتی اقدامات کیا رہے اور اس کے نتائج و اہداف کیا برآمد ہوئے
١: جون ٢۰١٣ء پی۔آئی۔اے اٹھارہ آپریشنل جہاز رکھتا تھا جن کی آج تعداد اڑتیس ہے اور شائد مزید دو ائیر کرافٹس لائے جا رہے ہیں۔
٢ : ایسے روٹس جنہیں پرافٹ ایبل کہا جاتا ہے وہاں فلائٹس کی تعداد بڑھائی گئی جبکہ جن روٹس پر منافع خاطر خواہ نہیں تھا انہیں بند کردیا گیا۔اسی مد میں ہانگ کانگ،بینکاک،کٹھمنڈو ، فرینکفرٹ،ایمسٹیرڈیم اور گلاسگو کی فلائٹس بند کردی گئیں اور دوہا ، ابوظہبی ، مسقط ، دوبئی ، بیجنگ اور کوالالمپور کی جانب فلائٹس کی تعداد بڑھا دی گئی۔
٣: آج کے ائیر کرافٹس تکنیکی اعتبار سے بہتر ہیں جو کہ ادارے کو ایندھن کی بچت دے کر ملکی فارن ایکسچینج میں سہولت کا باعث بنے۔
٤ : بین الاقوامی سطح پر تیل کی قیمتوں میں کمی کا فائدہ کرایوں میں پینتیس فیصد تک کی کمی کرکے صارف کو براہِ راست پہنچایا گیا۔
٥: سڈنی ، ہانگ کانگ ، فرینکفرٹ وغیرہ جیسے آف لائن دفاتر بند کرکے زائد معاشی بوجھ میں کمی کی گئی۔
٥ :پی۔آئی۔اے نے چائنہ سدرن ائیر لائنز ، تھائی ائیر ویز ، ٹرکش ائیر لائنز اور اتحاد ائیرویز کے ساتھ کوڈ شئیرنگ معاہدوں پر دستخط کیے۔جن کے تحت مسافروں کو پی۔آئی۔اے کے ٹکٹ پر ان ائیرلائنز کے ذریعے ان مقامات پر جانے کی اجازت ہوگی جہاں قومی ائیر لائن کی پروازیں نہیں جاتیں۔
۶: پروازوں میں وقت کی پابندی انہتر فیصد سے بڑھ کر چوراسی فیصد تک پہنچائی گئی۔حج آپریشن کے دوران پچپن ہزار سے زائد حجاج کرام کوڈیڑھ سو پروازوں کے ذریعے واپس لایا گیا اور اعداد وشمار کے حساب سے چھیانوے فیصد پروازیں وقت پر پہنچیں۔
۷: لاہور ، پشاور،سوات ، نوابشاہ ، کوئٹہ اور راولپنڈی میں سات ٹریننگ سینٹرز کھولے گئے جہاں نوجوانوں کو ائیروسپیس/ائیروناٹیکل انجینئرز کو ملکی اور بین الاقوامی مارکیٹ کے لیے تیار کیا جاتا ہے۔ملتان کا ٹریننگ سینٹر افتتاح کیلیے تیار ہے جبکہ فیصل آباد ، سکھر اور مظفرآباد پر کام جاری ہے۔کراچی سینٹر میں موجود سہولیات کو بھی اپ گریڈ کیا گیا۔
۹: ایک ورلڈ کلاس جرمن کنسلٹنٹ کی خدمات EASA سرٹیفیکیشن کیلیے لی گئیں۔
۱۰: گزشتہ کوارٹر ٢۰١٥ء کے دوران قومی ائیرلائن نے سیل کی مد میں تیرہ فیصد اضافہ ہوا۔اس دوران مجموعی سیل ساڑھے اکیس بلین روپے تک گئی۔
سوال یہ اٹھتا ہے کہ اگر سب اچھا ہورہا تھا۔رپورٹ میں بہتری آرہی تھی تو نجکاری کا شوشا کیوں چھوڑا گیا۔جبکہ سال ٢۰١٣ء میں پی۔آئی۔اے ملازمین کی تعداد سولہ ہزار پانچ سو تریسٹھ تھی جس میں دو ہزار چار سو تین لوگوں کو ریٹائرمنٹ ، معطلیاں اور کانٹریکٹ منسوخی کے باعث فارغ کیا گیا۔سترہ فیصد والا پہاڑا سناتے کوئی ملازم یہ بتانا پسند نہیں کرتا کہ جب سیاسی بھرتیوں کے نام پر میرٹ کی دھجیاں اڑتی رہیں تو یہ لوگ کہاں سو رہے تھے۔ تین سودو جعلی ڈگریاں ، پانچ سو سات ایسے ٹیکنیشنز کو تین سال بھگتا گیا جو کہ خالی آسامیوں کے قانون کی خلاف ورزی کرکے سر چڑھائے گئے۔دنیا بھر میں قومی ائیرلائن کا عملہ موبائل فونز ، سگریٹ اور دیگر اشیاء کی سمگلنگ میں دھر لیا جاتا تو بھی کوئی آواز نہیں اٹھائی گئی۔حالانکہ یہ قومی وقار کی بین الاقوامی سطح پر نیک نامی کا موجب بننے والے واقعات نہ تھے۔ہر کوتاہی پر ایک ہی پالیسی اپنائی گئی ؛ گو سَلو برو ۔۔۔ فی ائیرکرافٹ چھ سو ستاون ملازم کی اوسط کو کم کرکے تین سو نوے پر لایا گیا۔ قومی ائیر لائن میں موجودہ ملازمین کی کل تعداد اس وقت چودہ ہزار سات سو اکتہر ہے۔
قومی ائیر لائن خسارے کو ڈھائی سال میں چالیس فیصد تک کم کیا گیا۔مگر کیا ہم گردشی قرضوں کا حساب کتاب جاننے کی فرصت نکال پاتے ہیں ؟ تین سو ارب کا گردشی قرضہ جبکہ اثاثہ جات کی مالیت منفی میں جارہی ہو۔آپ حکومت کے ہاتھ میں کونسی جادوئی چھڑی دیکھ رہےہیں ؟ جہاز اڑیں یا نہ اڑیں ماہانہ ساڑھے تین بلین روپے لیز اور سود کی ادائیگی قومی خزانے سے ہی ادا ہو رہی ہے۔
پاکستان قومی ائیر لائن کا موازنہ بین الاقوامی اداروں سے کرنا بھی مضحکہ خیز ہی معلوم ہوتا ہے۔ہوابازی پر نظر رکہنے والے بی بی سی کے صحافی طاہر عمران صاحب کے مطابق ‘خاص کر جب آپ یہ بھی جاننے کی زحمت نہ کریں کہ Emirates کے پاس کتنی رقم ہے اور اُس نے سو کے لگ بھگ ایئر بس اے تھری ایٹی طیارے آرڈر کر رکھے ہیں جنہیں خریدنا اور چلانا دنیا کی چند ایک فضائی کمپنیوں کے بس کی بات ہے۔ اس کے علاوە ایئربس کے اے تھری ففٹی اور بوئنگ کے سیون ایٹ سیون طیاروں کے بڑے آرڈر دینے والوں میں ایمرٹس شامل ہے۔ ایمرٹس کے روٹس کا نیٹ ورٹ ملاحضہ کریں اور یہ بھی کہ اس کے تمام کام آؤٹ سورس کیے گئے ہیں۔جبکہ پی۔آئی۔اے کے اکاؤنٹس میں ائیر کرافٹس خریدنے کی صلاحیت ہی نہیں۔لیز پر لیے جاتے ہیں ۔ لیز تو سمجھتے ہیں نا آپ۔۔۔کیٹرنگ کا شعبہ ہماری قومی ائیر لائن خود دیکھتی ہے جو کہ Emirates نے مسئلہ پالا ہی نہیں۔ کیٹرنگ دوسروں کو بھی فراہم کی جاتی ہے جو اپنی ذات میں ایک کاروبار ہے۔
آخر حکومت کیوں نہیں مان جاتی۔کیوں دنوں جانب سے ھڈ دھرمی دکھائی جارہی ہے۔کیا واقعی قومی ائیرلائن کو بچانے کی آخری امید نج کاری ہی ہے۔وفاق نے ڈھائی تین سالوں میں کیا کاوش کی اور ادارے نے کارکردگی کی مد میں کیا نتائج دیے۔۔۔ایک عام پاکستانی کے ذہن میں یہ اور ایسے بےشمار سوالات گردش کررہے ہیں۔ جاننے کی کوشش میں جو حقائق ہاتھ لگے ہیں پہلے ان کا جائزہ لے لیا جائے کہ حکومتی اقدامات کیا رہے اور اس کے نتائج و اہداف کیا برآمد ہوئے
١: جون ٢۰١٣ء پی۔آئی۔اے اٹھارہ آپریشنل جہاز رکھتا تھا جن کی آج تعداد اڑتیس ہے اور شائد مزید دو ائیر کرافٹس لائے جا رہے ہیں۔
٢ : ایسے روٹس جنہیں پرافٹ ایبل کہا جاتا ہے وہاں فلائٹس کی تعداد بڑھائی گئی جبکہ جن روٹس پر منافع خاطر خواہ نہیں تھا انہیں بند کردیا گیا۔اسی مد میں ہانگ کانگ،بینکاک،کٹھمنڈو ، فرینکفرٹ،ایمسٹیرڈیم اور گلاسگو کی فلائٹس بند کردی گئیں اور دوہا ، ابوظہبی ، مسقط ، دوبئی ، بیجنگ اور کوالالمپور کی جانب فلائٹس کی تعداد بڑھا دی گئی۔
٣: آج کے ائیر کرافٹس تکنیکی اعتبار سے بہتر ہیں جو کہ ادارے کو ایندھن کی بچت دے کر ملکی فارن ایکسچینج میں سہولت کا باعث بنے۔
٤ : بین الاقوامی سطح پر تیل کی قیمتوں میں کمی کا فائدہ کرایوں میں پینتیس فیصد تک کی کمی کرکے صارف کو براہِ راست پہنچایا گیا۔
٥: سڈنی ، ہانگ کانگ ، فرینکفرٹ وغیرہ جیسے آف لائن دفاتر بند کرکے زائد معاشی بوجھ میں کمی کی گئی۔
٥ :پی۔آئی۔اے نے چائنہ سدرن ائیر لائنز ، تھائی ائیر ویز ، ٹرکش ائیر لائنز اور اتحاد ائیرویز کے ساتھ کوڈ شئیرنگ معاہدوں پر دستخط کیے۔جن کے تحت مسافروں کو پی۔آئی۔اے کے ٹکٹ پر ان ائیرلائنز کے ذریعے ان مقامات پر جانے کی اجازت ہوگی جہاں قومی ائیر لائن کی پروازیں نہیں جاتیں۔
۶: پروازوں میں وقت کی پابندی انہتر فیصد سے بڑھ کر چوراسی فیصد تک پہنچائی گئی۔حج آپریشن کے دوران پچپن ہزار سے زائد حجاج کرام کوڈیڑھ سو پروازوں کے ذریعے واپس لایا گیا اور اعداد وشمار کے حساب سے چھیانوے فیصد پروازیں وقت پر پہنچیں۔
۷: لاہور ، پشاور،سوات ، نوابشاہ ، کوئٹہ اور راولپنڈی میں سات ٹریننگ سینٹرز کھولے گئے جہاں نوجوانوں کو ائیروسپیس/ائیروناٹیکل انجینئرز کو ملکی اور بین الاقوامی مارکیٹ کے لیے تیار کیا جاتا ہے۔ملتان کا ٹریننگ سینٹر افتتاح کیلیے تیار ہے جبکہ فیصل آباد ، سکھر اور مظفرآباد پر کام جاری ہے۔کراچی سینٹر میں موجود سہولیات کو بھی اپ گریڈ کیا گیا۔
۹: ایک ورلڈ کلاس جرمن کنسلٹنٹ کی خدمات EASA سرٹیفیکیشن کیلیے لی گئیں۔
۱۰: گزشتہ کوارٹر ٢۰١٥ء کے دوران قومی ائیرلائن نے سیل کی مد میں تیرہ فیصد اضافہ ہوا۔اس دوران مجموعی سیل ساڑھے اکیس بلین روپے تک گئی۔
سوال یہ اٹھتا ہے کہ اگر سب اچھا ہورہا تھا۔رپورٹ میں بہتری آرہی تھی تو نجکاری کا شوشا کیوں چھوڑا گیا۔جبکہ سال ٢۰١٣ء میں پی۔آئی۔اے ملازمین کی تعداد سولہ ہزار پانچ سو تریسٹھ تھی جس میں دو ہزار چار سو تین لوگوں کو ریٹائرمنٹ ، معطلیاں اور کانٹریکٹ منسوخی کے باعث فارغ کیا گیا۔سترہ فیصد والا پہاڑا سناتے کوئی ملازم یہ بتانا پسند نہیں کرتا کہ جب سیاسی بھرتیوں کے نام پر میرٹ کی دھجیاں اڑتی رہیں تو یہ لوگ کہاں سو رہے تھے۔ تین سودو جعلی ڈگریاں ، پانچ سو سات ایسے ٹیکنیشنز کو تین سال بھگتا گیا جو کہ خالی آسامیوں کے قانون کی خلاف ورزی کرکے سر چڑھائے گئے۔دنیا بھر میں قومی ائیرلائن کا عملہ موبائل فونز ، سگریٹ اور دیگر اشیاء کی سمگلنگ میں دھر لیا جاتا تو بھی کوئی آواز نہیں اٹھائی گئی۔حالانکہ یہ قومی وقار کی بین الاقوامی سطح پر نیک نامی کا موجب بننے والے واقعات نہ تھے۔ہر کوتاہی پر ایک ہی پالیسی اپنائی گئی ؛ گو سَلو برو ۔۔۔ فی ائیرکرافٹ چھ سو ستاون ملازم کی اوسط کو کم کرکے تین سو نوے پر لایا گیا۔ قومی ائیر لائن میں موجودہ ملازمین کی کل تعداد اس وقت چودہ ہزار سات سو اکتہر ہے۔
قومی ائیر لائن خسارے کو ڈھائی سال میں چالیس فیصد تک کم کیا گیا۔مگر کیا ہم گردشی قرضوں کا حساب کتاب جاننے کی فرصت نکال پاتے ہیں ؟ تین سو ارب کا گردشی قرضہ جبکہ اثاثہ جات کی مالیت منفی میں جارہی ہو۔آپ حکومت کے ہاتھ میں کونسی جادوئی چھڑی دیکھ رہےہیں ؟ جہاز اڑیں یا نہ اڑیں ماہانہ ساڑھے تین بلین روپے لیز اور سود کی ادائیگی قومی خزانے سے ہی ادا ہو رہی ہے۔
پاکستان قومی ائیر لائن کا موازنہ بین الاقوامی اداروں سے کرنا بھی مضحکہ خیز ہی معلوم ہوتا ہے۔ہوابازی پر نظر رکہنے والے بی بی سی کے صحافی طاہر عمران صاحب کے مطابق ‘خاص کر جب آپ یہ بھی جاننے کی زحمت نہ کریں کہ Emirates کے پاس کتنی رقم ہے اور اُس نے سو کے لگ بھگ ایئر بس اے تھری ایٹی طیارے آرڈر کر رکھے ہیں جنہیں خریدنا اور چلانا دنیا کی چند ایک فضائی کمپنیوں کے بس کی بات ہے۔ اس کے علاوە ایئربس کے اے تھری ففٹی اور بوئنگ کے سیون ایٹ سیون طیاروں کے بڑے آرڈر دینے والوں میں ایمرٹس شامل ہے۔ ایمرٹس کے روٹس کا نیٹ ورٹ ملاحضہ کریں اور یہ بھی کہ اس کے تمام کام آؤٹ سورس کیے گئے ہیں۔جبکہ پی۔آئی۔اے کے اکاؤنٹس میں ائیر کرافٹس خریدنے کی صلاحیت ہی نہیں۔لیز پر لیے جاتے ہیں ۔ لیز تو سمجھتے ہیں نا آپ۔۔۔کیٹرنگ کا شعبہ ہماری قومی ائیر لائن خود دیکھتی ہے جو کہ Emirates نے مسئلہ پالا ہی نہیں۔ کیٹرنگ دوسروں کو بھی فراہم کی جاتی ہے جو اپنی ذات میں ایک کاروبار ہے۔
ہماری
کارگو سروسز بارے بھی جانیے۔ریلویز ہوں یا ہوائی سفر یہ کارگو ہی ہے جو منافع کما
کر دیتی ہے۔ہمارے پاس کوئی کارگو جہاز نہیں ہے جناب۔ اور پھر وہ بقراط ہیں جو ٹرکش
ائیر لائنز کی ایوی ایشن انڈسٹری اور ریگولیشنز کے ساتھ پی۔آئی۔اے کا موازنہ کررہے
ہیں۔سبحان اللہ۔ترکی کو جغرافیائی اعتبار سے جو فائدہ حاصل ہے کیا پاکستان ویسے
مواقع رکھتا ہے؟
نجکاری کی مخالفت میں اِس وقت جو سیاسی جماعت سب سے اگلی صف میں دکھائی دیتی ہے وہ شاید بھول گئے ہیں کہ ان کے ادوار میں ستائیس کے قریب ادارے نجکاری کی چُھری تلے گئے۔ہاں مگر اُس وقت جو لوگ اس کے مخالف تھے آج انہیں نجکاری ہی واحد راستہ سوجھ رہا ہے۔ لازمی سروس ایکٹ جسے آج پاکستان پیپلز پارٹی کالا قانون قرار دے رہی ہے اس کا دو بار نفاذ خود انہی کے دورِ اقتدار میں کیا گیا۔ابھی کچھ روز قبل پشاور میں ینگ ڈاکٹرز کی ہڑتال توڑنے کو اسی ایکٹ کا ڈراوا دیا گیا۔
ن لیگ نے اپوزیشن میں وہی کام کیا جو آج خورشید شاہ صاحب اور ان کے ساتھی کررہے ہیں۔ بی۔بی شہید کے دور میں سات عدد بوئنگ ۷۴۷ طیارے کیتھی پیسیفک سے خریدے گئے اس سلسلے میں نواز شریف صاحب نے اُس زمانے میں کیسی سیاست کھیلی یہ بھی کسی سے ڈھکی چھپی بات نہیں۔نجکاری روکنے کیلیے جو حربے اُس وقت کی اپوزیشن نے آزمائے وہی ہتھکنڈے آج کی اپوزیشن اور اُس زمانے کی حکومت دکھا رہی ہے۔ اور ویسے یہ سوال کوئی نہیں اٹھا رہا کہ تنبیہہ کے باوجود ہوائی اڈے کی دیواریں پھلانگنے یا احاطے میں زبردستی گھسنے کی ہلہ شیری کس نے دی۔شرپسند عناصر تھے یا کسی سیکیورٹی ادارے کی غفلت شاید کبھی عوام کو حقائق سے آگہی مل ہی جائے۔مگر اس سلسلے میں حکومتی مؤقف بہت سخت اور تکلیف دہ ہے۔ریاست اگر ماں ہے تو گھوریاں ڈالتے،ڈرانے دھمکانے کے بیچ پُچکارنا بھی اسی کا فرض ہے نہ کہ کیمروں اور مائیک کے سامنے للکار پکار مچائی جائے۔
جہاں تک یاد پڑتا ہے میاں نواز شریف نے اداروں کے آپریشنل کرنے کا وعدہ تو کیا تھا جو ان کی حکومت نے پورا بھی کیا۔مگر ہم جیسے تیسری دنیا کے ممالک میں حکومتی سرپرستی میں بہتری ایک حد تک ہی ممکن ہوپاتی ہے جس کے بعد عوام کی جیب ہر روز کاٹ کر خسارے پورے کیے جاتےہیں۔
جب کہا جائے کہ حکومتوں کا کام ائیر لائنز اور سٹیل ملز جیسے ادارے چلانا نہیں ہے تو مثال دی جاتی ہے میٹرو بس اور اورنج لائن ٹرین منصوبوں کی۔وجہ اس موازنے کی صرف یہ ہے کہ ہمارے ہاں سبسڈی اور لاسز کا فرق سمجھنے سمجھانے کا رواج روزِ اول سے ہی نہیں ہے۔دوسری بات یہ کہ میٹرو منصوبہ پبلک-پرائیویٹ سانجھے داری پر چل رہا ہے۔ترکی کی کمپنی اس منصوبے میں پارٹنر ہے۔دنیا بھر میں کوئی بھی پرائیویٹ سرمایہ کار فردِ واحد بن کر ماس ٹرانزٹ پر مال نہیں لگایا کرتا۔حکومتی سرپرستی بہرحال درکار ہوتی ہے اور جب منصوبے چل نکلیں تو پرائیویٹ انویسٹرز کے سپرد کردیے جاتےہیں۔ بحث بہرحال یہاں قومی ائیرلائن کے سفید ہاتھی کو اسی سال نجکاری کے عمل سے گزارنا ہے اور مناسب یہی ہوگا کہ حکومت سب سیاسی جماعتوں کو اعتماد میں لے کر ملازمین سے مذاکرات کرکے ان کے تحفظات دور کرے۔ورنہ حالات کا خمیازہ عام شہری کی جیب بھگت رہی ہے۔
نجکاری کی مخالفت میں اِس وقت جو سیاسی جماعت سب سے اگلی صف میں دکھائی دیتی ہے وہ شاید بھول گئے ہیں کہ ان کے ادوار میں ستائیس کے قریب ادارے نجکاری کی چُھری تلے گئے۔ہاں مگر اُس وقت جو لوگ اس کے مخالف تھے آج انہیں نجکاری ہی واحد راستہ سوجھ رہا ہے۔ لازمی سروس ایکٹ جسے آج پاکستان پیپلز پارٹی کالا قانون قرار دے رہی ہے اس کا دو بار نفاذ خود انہی کے دورِ اقتدار میں کیا گیا۔ابھی کچھ روز قبل پشاور میں ینگ ڈاکٹرز کی ہڑتال توڑنے کو اسی ایکٹ کا ڈراوا دیا گیا۔
ن لیگ نے اپوزیشن میں وہی کام کیا جو آج خورشید شاہ صاحب اور ان کے ساتھی کررہے ہیں۔ بی۔بی شہید کے دور میں سات عدد بوئنگ ۷۴۷ طیارے کیتھی پیسیفک سے خریدے گئے اس سلسلے میں نواز شریف صاحب نے اُس زمانے میں کیسی سیاست کھیلی یہ بھی کسی سے ڈھکی چھپی بات نہیں۔نجکاری روکنے کیلیے جو حربے اُس وقت کی اپوزیشن نے آزمائے وہی ہتھکنڈے آج کی اپوزیشن اور اُس زمانے کی حکومت دکھا رہی ہے۔ اور ویسے یہ سوال کوئی نہیں اٹھا رہا کہ تنبیہہ کے باوجود ہوائی اڈے کی دیواریں پھلانگنے یا احاطے میں زبردستی گھسنے کی ہلہ شیری کس نے دی۔شرپسند عناصر تھے یا کسی سیکیورٹی ادارے کی غفلت شاید کبھی عوام کو حقائق سے آگہی مل ہی جائے۔مگر اس سلسلے میں حکومتی مؤقف بہت سخت اور تکلیف دہ ہے۔ریاست اگر ماں ہے تو گھوریاں ڈالتے،ڈرانے دھمکانے کے بیچ پُچکارنا بھی اسی کا فرض ہے نہ کہ کیمروں اور مائیک کے سامنے للکار پکار مچائی جائے۔
جہاں تک یاد پڑتا ہے میاں نواز شریف نے اداروں کے آپریشنل کرنے کا وعدہ تو کیا تھا جو ان کی حکومت نے پورا بھی کیا۔مگر ہم جیسے تیسری دنیا کے ممالک میں حکومتی سرپرستی میں بہتری ایک حد تک ہی ممکن ہوپاتی ہے جس کے بعد عوام کی جیب ہر روز کاٹ کر خسارے پورے کیے جاتےہیں۔
جب کہا جائے کہ حکومتوں کا کام ائیر لائنز اور سٹیل ملز جیسے ادارے چلانا نہیں ہے تو مثال دی جاتی ہے میٹرو بس اور اورنج لائن ٹرین منصوبوں کی۔وجہ اس موازنے کی صرف یہ ہے کہ ہمارے ہاں سبسڈی اور لاسز کا فرق سمجھنے سمجھانے کا رواج روزِ اول سے ہی نہیں ہے۔دوسری بات یہ کہ میٹرو منصوبہ پبلک-پرائیویٹ سانجھے داری پر چل رہا ہے۔ترکی کی کمپنی اس منصوبے میں پارٹنر ہے۔دنیا بھر میں کوئی بھی پرائیویٹ سرمایہ کار فردِ واحد بن کر ماس ٹرانزٹ پر مال نہیں لگایا کرتا۔حکومتی سرپرستی بہرحال درکار ہوتی ہے اور جب منصوبے چل نکلیں تو پرائیویٹ انویسٹرز کے سپرد کردیے جاتےہیں۔ بحث بہرحال یہاں قومی ائیرلائن کے سفید ہاتھی کو اسی سال نجکاری کے عمل سے گزارنا ہے اور مناسب یہی ہوگا کہ حکومت سب سیاسی جماعتوں کو اعتماد میں لے کر ملازمین سے مذاکرات کرکے ان کے تحفظات دور کرے۔ورنہ حالات کا خمیازہ عام شہری کی جیب بھگت رہی ہے۔
پاکستانی سیاستدانوں اور بیوروکریٹک کی عیاشی لالچ اور دلالی ساری دنیا میں مشہور ھے
جواب دیںحذف کریں