بدھ، 3 فروری، 2016

عالمی کتب میلہ

کل صبح سماجی رابطے کی ویب سائٹ پر ایک دعوت نامہ موصول ہوا۔ لاہور ایکسپو سینٹر میں  چار سے آٹھ فروری کے دوران  تیسواں عالمی کتب میلہ  سجنے جا رہا ہے ۔ کتاب سے عشق رکھنے والوں کیلیے یہ ایک خوبصورت کوشش ہے ۔
لاہور دہائیوں سے پڑھنے ، جذب کرنے ،لکھنے اور پڑھانے والوں کے اعتبار سے خوش بخت رہا ہے۔ یہاں کثیر تعداد مطالعہ اور کتب کی خرید و فروخت سے وابستہ ہونے کے باوجود اگر دل میں کہیں شائبہ آتا ہے کہ عالمی کتب میلہ کامیاب ہوگا یا نہیں تو یہ عکاسی ہے اس اجتماعی رویے اور خوف کی جس میں آپ اور میں سانس لیے جاتے ہیں اور جیے جا رہےہیں۔معاملہ کچھ عرصے سے ایک اور جانب بھی راہ نکالنے میں کامیاب رہا ہے ۔جہاں لوگ ڈگریاں سمیٹنے ، نو  سے  پانچ کی نوکری اور "فیملی ٹائم" میں ایسے محو ہوئے ہیں کہ مطالعہ کی انگلی چھوڑ کر کہیں میلے میں کھو گئےہیں۔ادبی محافل کا انعقاد بھی انحتاط کا شکار ہے ۔کِس تاریخ کو کونسے سینما میں کونسی فلم کا پریمئر ہونے جا رہا ہے،اس کا دھیان ضرور رکھیے کہ اچھی تفریحی ملک میں واپسی کی راہ ہموار کررہی ہے مگر اُس تعداد میں بھی اضافہ ہونا چاہیے جو کتاب کی منتظر رہے۔گزشتہ کچھ سالوں کے دوران کُتب میلوں میں آنے والوں کی تعداد بڑھتی دکھائی دیتی ہے۔ خوش آئیند بات ہے کہ ہر عمر کے لوگ شرکت کرتے ہیں اور اپنے ذوق اور استطاعت کے مطابق تلاش کر کےمطلوبہ کتب خریدتے ہیں۔
اس برس یہ عالمی کُتب میلہ حکومتِ پنجاب کے تعاون سے منعقد ہو رہا ہے ۔مگر کوئی بھی حکومت ایسے سِلسلوں کو کامیاب نہیں بنا سکتی جب تک عوام کی شرکت یقینی نہ ہو۔قاری کا رشتہ بَنا رہے تو مطالعہ کی روح بھی صحت مند رہتی ہے اور معاشرے کی رگوں میں دوڑتی  بے چینی، منفیت اور قنوطیت میں واضح کمی کا رجحان پروان چڑھتا ہے ۔مباحث میں علمی و تحقیقی گفتگو سے سیکھنے کی راہیں بنتی اور کھلتی ہیں۔
خواہش ہے کہ ایسے میلے ملک کے تمام حصوں میں منعقد کروائے جائیں۔حکومتی سرپرستی ہو اور عوام کو درسی کتب سے آگے کا جہاں کھوجنے  کے مواقع ملیں۔کتاب دوستی تشدد اور عدم برداشت کو شکست دینے اور اپنی ذات و سوچ کی تراش خراش کا اہم راستہ ہے۔ پیڑ پودے  کانٹ چھانٹ کے بعد نئی آب و تاب سے بڑھتے ہیں اسی طرح انسانی تہذیب اور سوچ کی پرورش میں وقت کے تقاضوں کے مطابق قطع برید لازم ہے۔
کل اردو ادب کا ایک عہد،ہمارا داستان گُو اپنی زندگی کی داستان مکمل کرگیا۔انتظار حسین چلے گئے۔کچھ سال قبل احمد فواد سے ملاقات میں ان کا کہنا تھا کہ ، "عجیب بات ہے، ہمارے نوجوان مطالعہ نہیں کرتے،مشاھدہ نہیں کرتے ، پاکستان کا اور دوسرے ممالک کا ادب نہیں پڑھتے اور کہتے ہیں کہ اپنے سٹائل میں لکھیں گے۔۔۔یہ کیسے ممکن ہے کہ آپ بغیر مطالعہ و مشاھدہ اچھا کام کرسکیں۔ چاہے وہ ادب ہو یا کاروبار؟ ۔۔۔ پڑھنا چاہیے اور بہت پڑھنا چاہیے تاکہ وژن پیدا ہو اور آپ کا اپنا اسلوب نکھر کر سامنے آ سکے۔"
اس نصیحت اور خواہش کے بعد میری کیا بساط کہ مزید کچھ تحریر کرنے کی جسارت کروں۔ملتے ہیں ایکسپو سینٹر لاہور چار سے آٹھ فروی کے دوران۔

2 تبصرے:

  1. جن کے ہاتھوں میں مرتے دم تک قلم ہوں ، جو سارتر اور کارل مارکس کا ترجمہ پڑھنے کے جرم میں لاپتہ کیۓ جاتے ہیں انکے بارے میں آپ کی کیا راۓ ہے ؟ انکا جرم یہ ہے کہ وہ آج بھی کتابوں کے دلدادہ ہیں مگر لاہور میں نہیں رہتے اس لیے مطا لعہ کی سخت سزا پارہے ہیں

    جواب دیںحذف کریں