بات کچھ ایسی بھی نہ تھی کہ اسے گھسیٹتے چلے جائیں۔مگر جب
موضوعات کا فقدان ، جستجو کا قحط ہو اور ترجیحات کی فہرست "اپ سائیڈ
ڈاؤن" ہوجائے تو ملکی سربراہ کی چھینک سے لے کر ،کھانوں کی تفصیل تک اور
پشاوری چپل سے لے کر آلو کی قیمت بارے دیے گئے بیان کو ہی خبروں اور سوشل میڈیا کی
زینت بننا پڑتا ہے ۔چند روز قبل پٹرول کی قیمتوں میں کمی کا اعلان کرتے وزیرِ اعظم
صاحب نے پانچ روپے فی کلو آلو کی قیمت بتائی جسے ہم اَن سنا کرگئے کہ اُسی روز
سترہ روپے فی کلو خریدے تھےجو کہ کچھ عرصہ قبل ساٹھ سے نوے روپے (میٹھا اور پھیکا) میں
خریدا کرتے تھے ۔سوشل میڈیا اور نو بجے کے خبرناموں میں حسبِ معمول اس پر پھبتیاں
کسی گئیں۔مگر کل سندھ اسمبلی کی ڈپٹی اسپیکر صاحبہ کی ایک ٹوئٹ نظر سے گزری۔حیرت
ہوئی کہ اپنی سیاسی جماعت کی اساس اور
موجودہ عہدے کا لحاظ پسِ پشت ڈالے خاتون منتخب وزیرِ اعظم کا ٹھٹھا اڑا رہی
تھیں۔اسی لیے سوچا کہ معلوم تو کیا جائے آخر آلو اتنا اہم کیوں اور کیسے ہوگیا۔
ابھی جس وقت یہ بلاگ تحریر کیا جارہا ہے خبرملی ہے کہ ایک کسان کو سٹروک ہوا اور آدھا جسم مفلوج ہوگیا ہے۔وجہ ہے منڈی میں آلو کی ساڑھے چار روپے فی کلو قیمت جو کہ آڑھتی اسے دے رہا ہے۔مسئلہ وزیرِ اعظم کا آلو کی کاشتکاری قیمت بتانا نہیں ہے۔مسئلہ ہے پیداواری لاگت سے لاعلمی اور آلو مکئی کے چھوٹے کاشتکار کا استحصال۔جس کی جانب حکومت سنجیدہ دکھائی دیتی ہے اور نہ ہی ہمارے چوبیس گھنٹے سجے آزاد میڈیا کو کچھ دلچسپی ہے۔
آلو کی پیداواری کاشت دس سے پندرہ روپے فی کلو ہے۔کسی بھی شے پر اٹھنے والی لاگت منافع سوچ کر ہی بنائی اُگائی جاتی ہے۔فصل یا پراڈکٹ کی درست قیمت کا تعین ہم تب تک نہیں کرسکتے جب تک کہ اسے برآمد نہ کیا جائے۔جہاں تک میری معلومات ہیں پورے پاکستان میں آلو برآمد کرنے کا لائسنس اس وقت بارہ یا سولہ افراد کے پاس ہے جوکہ کچھ عرصہ قبل تو چھ لوگوں کے تصرف میں تھا۔اجارہ داری تو خیر ہمارے ہاں ہر میدان میں دیکھنے کو ملتی ہے۔سوال یہ ہے کہ لائسنس کے اجراء میں بخل سے کام لے کر کس طبقے کو نوازا جارہا ہے۔اصل کاشتکار تو پِس رہا ہے۔پیسہ جب چند ہاتھوں میں ہی گردش کرے گا تو نام نہاد خوشحالی اور معیشت پانی کا وہی بلبلہ ثابت ہوتے ہیں جو پاکستان نے مشرف دور میں دیکھا۔
ٹی۔وی سکرینوں اور سوشل میڈیا پر بیٹھے بقراط شاید یہ جاننا بھی گوارا نہیں کریں گے کہ آلو کی ایک بوری کا وزن کیا ہوتا ہے،آڑھتی کتنے میں خرید کر آگے کتنا منافع کماتا ہے۔ عام کسان ایک سو بیس کلو آلوؤں کی بوری ساڑھے تین سو سے سات سو روپے تک بیچتا ہے۔جو کہ سراسر گھاٹے کا سودا ہے،شاید اسی لیے پار سال بہت سے کسانوں نے زمین میں ہل چلادیے تھے۔یہی بوری ایکسورٹرز باآسانی چھ سے سات ہزار روپے میں فروخت کررہا ہے۔
عدیل علی خان پاکستان کے واحد فارمر ہیں جن کی سو فیصد فصل مشہور زمانہ کمپنی لیز خریدتی ہے۔وہ انہی کیلیے آلو اگاتے ہیں لہذا ایک طے شدہ معاہدے کے مطابق فصل کا خاطر خواہ معاوضہ مل جاتا ہے۔ان کے مطابق پورے پاکستان میں مجموعی طور پر ساٹھ سے ستر بڑے زمیندار ہیں جو اس کمپنی کےساتھ مختلف حوالوں سے منسلک ہیں۔باقی لاکھوں کسانوں کو اپنی فصل اُسی سفاک آڑھتی کے ہاتھوں فروخت کرنا ہوتی ہے جو کہ چار سے پانچ روپے فی کلو کی ادائیگی کرکے صارف کو بیس سے تیس روپے فی کلو تک بیچ رہا ہے۔جبکہ ایکسپورٹرز کے تو کیا کہنے۔ان کے تو سر کڑاہی میں ہیں جناب۔
فروری کے اواخر اور مارچ کے اوائل میں آلو کی فصل ختم ہوجائے گی۔اس کے بعد ایکسپورٹر ہی اپنے بینک اکاؤنٹس بھریں گے۔کسان تو مکئی اگانے چل پڑے گا کہ اسے بہرحال اپنا اور اپنے بچوں کا پیٹ کسی طور بھرنا ہی ہے۔
حکومت کو چاہیے کہ بروقت آلو،مکئی اور چاول جیسی اجناس کیلیے برآمدی منڈیاں تلاش کرے ، مڈل مین کی اجارہ داری کو توڑے اور یقینی بنائے کہ ایکسپورٹرز چھوٹے کسان کا استحصال نہ کرسکیں۔ جب آپ کا کسان ہی بھوکا مرے گا تو نچلا طبقہ کیسے خوشحال ہوگا ؟ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ جب کسان بہتر معاوضہ پائے گا تو ہی اس سے جڑی لیبر یعنی کھیت سے منڈی تک کا مزدور بہتر اجرت حاصل کرے گا۔کاشتکار کو کی گئی ادائیگی ہی وہ راس ہے جو کسی زرعی ملک کے معاشی پیہے کو دھکا لگاتی ہے۔ لیپا پوتی سے وقتی خوشحالی تو دکھائی جا سکتی ہے مگر عمارت کی کمزور بنیادیں کب تک چھپا سکتے ہیں ؟
حکومت کو چاہیے کہ کھادوں اور بیج پر سبسڈی دے۔تاکہ کسان کو فصل پر اٹھنے والی پیداواری لاگت میں کمی کا احساس ہو اور وہ اپنی محنت کی مناسب قیمت پا سکے۔یہی سبسڈی کاشتکار کی بہترین مدد ثابت ہوسکتی ہے۔آپ میٹرو،اورنج لائن منصوبوں پر سبسڈی دیجیے کہ وہ بھی عوام کیلیے ہی ہے۔مگر کسان کا بھی سوچیے۔آٹھ سال پہلے یوریا کی جو بوری چھ سو روپے میں دستیاب تھی آج اس کی قیمت دو ہزار روپے تک پہنچ چکی ہے۔وجہ ہے آئی۔ایم۔ایف کی جانب سے سبسڈی ختم کروانا۔یہی یوریا بوری بھارت میں پاکستانی کرنسی کے حساب سے سات سو روپے میں مل رہی ہے۔اس مد میں اینگرو کو "شاباش" دینا مت بھولیے گا جنہوں نے پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار یوریا بلیک کیا۔اس ظلم کی قیمت کسان اور عوام نے کیسے چُکائی۔یہ قصہ پھر سہی۔
وزیرِاعظم نے کسان پیکج کا اعلان کیا۔ڈھول تاشے بجائے گئے اور مخالفین نے اس کو عدالت میں چیلنج بھی کردیا مگر کسان کے لیے نہیں بلکہ اپنی سیاست کو وینٹیلیٹر سے ہٹانے کیلیے۔اگرچہ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ آپ باور کرواتے کسان پیکج کی مد میں چھوٹے کاشتکاروں کی دس سے پندرہ فیصد شرح ہی بذریعہ قرعہ اندازی مستفید ہوپائے گی۔ایک سے بارہ ایکڑ تک کے مالکان اس قرعہ اندازی میں شریک ہوکر پانچ ہزار روپے فی ایکڑ حاصل کرپائیں گے۔ باقی پچاسی فیصد کسان کیا کریں گے؟ اگر اپوزیشن کرنا ہی تھی تو یوریا اور بجلی کے بلوں پر سبسڈی کا مطالبہ کرکے کی جاتی ۔جس کا فائدہ ہر کسان کو یکساں پہنچتا ۔بہرحال کسان پیکج کے تحت ڈی۔اے۔پی کھاد کی بوری پر پانچ سو روپے تک کی سبسڈی دی گئی ہے جس کا فائدہ سب کو ہوگا۔مگر ہمارا کسان آج بھی یوریا زیادہ استعمال کرتا ہے۔ایک آگہی مہم تو یہ بھی چلائی جائے کہ کسان کو یوریا کی بجائے ڈی۔اے۔پی اور پوٹاشیم کے استعمال کی جانب راغب کیا جائے جو کہ بہتر پیداوار میں کلیدی کردار ادا کرتے ہیں۔
آلو کا کاشتکار دوسری فصل مکئی کی لگاتا ہے۔جس کی قیمتیں بین الاقوامی منڈیوں میں تین سالوں کے دوران کریش کرگئی ہیں۔نو ساڑھے نو سو روپے فی من بِکنے والی مکئی اب پانچ سو سے چھ سو روپے فی مَن بیچی جارہی ہے۔مگر یہاں بھی حکومتی گرفت دکھائی نہیں دیتی۔فیڈ مِلز ستر سے اسی فیصد مکئی کا استعمال کرتی ہیں اور انہوں نے بجائے فیڈ سستی کرنے کے قیمتیں مزید بڑھا دیں۔جس کی لاٹھی اس کی بھینس۔دوسری جانب کوئی ایک کارن پراڈکٹ کا نام بتایے جس کی قیمتیں اسی تیزی سے نیچے آئی ہوں؟ کارن آئل کا استعمال آج بھی عیاشی کے زمرے میں ہی آتا ہے۔دیگر کارن مصنوعات کا بھی یہی حال ہے۔سال میں مکئی کی دو فصلیں حاصل کی جاتی ہیں؛ بہاریہ مکئی آلو کے فوراً بعد کاشت کی جاتی ہے ۔جس کی پیداواری لاگت چھ سو روپے فی من تک ہوتی ہے اور اچھا کسان اسےپچاس روپے منافع کیساتھ ساڑھے چھ سو روپے فی من میں بیچتا ہے۔اوسط پیداوار پینسٹھ سے ستر من فی ایکڑ ہوا کرتی ہے۔جبکہ موسمی فصل جون سے اگست تک کاشت ہوتی ہے اور چالیس سے پینتالیس من فی ایکڑ تک حاصل کی جاتی ہے۔جس وقت مکئی نو سو روپے فی من بِک رہی تھی تو فیڈ کی ایک بوری گیارہ سو سے بارہ سو روپے کی مل رہی تھی۔آج مکئی ساڑھے چھ سو روپے فی من بیچی جارہی ہے جبکہ فیڈز بوری کی قیمتِ فروخت بائیس سو سے چوبیس سو روپے تک جا پہنچی ہے۔نہ کوئی چیک اینڈ بیلنس ہے اور نہ ہی اپوزیشن یا میڈیا کو فرصت ہے کہ کسان کے اصل مسائل کو سامنے لا کر حکومت کو جگایا جائے۔ہر جانب ڈنگ ٹپاؤ پالیسی ہی دکھائی دیتی ہے۔
ابھی جس وقت یہ بلاگ تحریر کیا جارہا ہے خبرملی ہے کہ ایک کسان کو سٹروک ہوا اور آدھا جسم مفلوج ہوگیا ہے۔وجہ ہے منڈی میں آلو کی ساڑھے چار روپے فی کلو قیمت جو کہ آڑھتی اسے دے رہا ہے۔مسئلہ وزیرِ اعظم کا آلو کی کاشتکاری قیمت بتانا نہیں ہے۔مسئلہ ہے پیداواری لاگت سے لاعلمی اور آلو مکئی کے چھوٹے کاشتکار کا استحصال۔جس کی جانب حکومت سنجیدہ دکھائی دیتی ہے اور نہ ہی ہمارے چوبیس گھنٹے سجے آزاد میڈیا کو کچھ دلچسپی ہے۔
آلو کی پیداواری کاشت دس سے پندرہ روپے فی کلو ہے۔کسی بھی شے پر اٹھنے والی لاگت منافع سوچ کر ہی بنائی اُگائی جاتی ہے۔فصل یا پراڈکٹ کی درست قیمت کا تعین ہم تب تک نہیں کرسکتے جب تک کہ اسے برآمد نہ کیا جائے۔جہاں تک میری معلومات ہیں پورے پاکستان میں آلو برآمد کرنے کا لائسنس اس وقت بارہ یا سولہ افراد کے پاس ہے جوکہ کچھ عرصہ قبل تو چھ لوگوں کے تصرف میں تھا۔اجارہ داری تو خیر ہمارے ہاں ہر میدان میں دیکھنے کو ملتی ہے۔سوال یہ ہے کہ لائسنس کے اجراء میں بخل سے کام لے کر کس طبقے کو نوازا جارہا ہے۔اصل کاشتکار تو پِس رہا ہے۔پیسہ جب چند ہاتھوں میں ہی گردش کرے گا تو نام نہاد خوشحالی اور معیشت پانی کا وہی بلبلہ ثابت ہوتے ہیں جو پاکستان نے مشرف دور میں دیکھا۔
ٹی۔وی سکرینوں اور سوشل میڈیا پر بیٹھے بقراط شاید یہ جاننا بھی گوارا نہیں کریں گے کہ آلو کی ایک بوری کا وزن کیا ہوتا ہے،آڑھتی کتنے میں خرید کر آگے کتنا منافع کماتا ہے۔ عام کسان ایک سو بیس کلو آلوؤں کی بوری ساڑھے تین سو سے سات سو روپے تک بیچتا ہے۔جو کہ سراسر گھاٹے کا سودا ہے،شاید اسی لیے پار سال بہت سے کسانوں نے زمین میں ہل چلادیے تھے۔یہی بوری ایکسورٹرز باآسانی چھ سے سات ہزار روپے میں فروخت کررہا ہے۔
عدیل علی خان پاکستان کے واحد فارمر ہیں جن کی سو فیصد فصل مشہور زمانہ کمپنی لیز خریدتی ہے۔وہ انہی کیلیے آلو اگاتے ہیں لہذا ایک طے شدہ معاہدے کے مطابق فصل کا خاطر خواہ معاوضہ مل جاتا ہے۔ان کے مطابق پورے پاکستان میں مجموعی طور پر ساٹھ سے ستر بڑے زمیندار ہیں جو اس کمپنی کےساتھ مختلف حوالوں سے منسلک ہیں۔باقی لاکھوں کسانوں کو اپنی فصل اُسی سفاک آڑھتی کے ہاتھوں فروخت کرنا ہوتی ہے جو کہ چار سے پانچ روپے فی کلو کی ادائیگی کرکے صارف کو بیس سے تیس روپے فی کلو تک بیچ رہا ہے۔جبکہ ایکسپورٹرز کے تو کیا کہنے۔ان کے تو سر کڑاہی میں ہیں جناب۔
فروری کے اواخر اور مارچ کے اوائل میں آلو کی فصل ختم ہوجائے گی۔اس کے بعد ایکسپورٹر ہی اپنے بینک اکاؤنٹس بھریں گے۔کسان تو مکئی اگانے چل پڑے گا کہ اسے بہرحال اپنا اور اپنے بچوں کا پیٹ کسی طور بھرنا ہی ہے۔
حکومت کو چاہیے کہ بروقت آلو،مکئی اور چاول جیسی اجناس کیلیے برآمدی منڈیاں تلاش کرے ، مڈل مین کی اجارہ داری کو توڑے اور یقینی بنائے کہ ایکسپورٹرز چھوٹے کسان کا استحصال نہ کرسکیں۔ جب آپ کا کسان ہی بھوکا مرے گا تو نچلا طبقہ کیسے خوشحال ہوگا ؟ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ جب کسان بہتر معاوضہ پائے گا تو ہی اس سے جڑی لیبر یعنی کھیت سے منڈی تک کا مزدور بہتر اجرت حاصل کرے گا۔کاشتکار کو کی گئی ادائیگی ہی وہ راس ہے جو کسی زرعی ملک کے معاشی پیہے کو دھکا لگاتی ہے۔ لیپا پوتی سے وقتی خوشحالی تو دکھائی جا سکتی ہے مگر عمارت کی کمزور بنیادیں کب تک چھپا سکتے ہیں ؟
حکومت کو چاہیے کہ کھادوں اور بیج پر سبسڈی دے۔تاکہ کسان کو فصل پر اٹھنے والی پیداواری لاگت میں کمی کا احساس ہو اور وہ اپنی محنت کی مناسب قیمت پا سکے۔یہی سبسڈی کاشتکار کی بہترین مدد ثابت ہوسکتی ہے۔آپ میٹرو،اورنج لائن منصوبوں پر سبسڈی دیجیے کہ وہ بھی عوام کیلیے ہی ہے۔مگر کسان کا بھی سوچیے۔آٹھ سال پہلے یوریا کی جو بوری چھ سو روپے میں دستیاب تھی آج اس کی قیمت دو ہزار روپے تک پہنچ چکی ہے۔وجہ ہے آئی۔ایم۔ایف کی جانب سے سبسڈی ختم کروانا۔یہی یوریا بوری بھارت میں پاکستانی کرنسی کے حساب سے سات سو روپے میں مل رہی ہے۔اس مد میں اینگرو کو "شاباش" دینا مت بھولیے گا جنہوں نے پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار یوریا بلیک کیا۔اس ظلم کی قیمت کسان اور عوام نے کیسے چُکائی۔یہ قصہ پھر سہی۔
وزیرِاعظم نے کسان پیکج کا اعلان کیا۔ڈھول تاشے بجائے گئے اور مخالفین نے اس کو عدالت میں چیلنج بھی کردیا مگر کسان کے لیے نہیں بلکہ اپنی سیاست کو وینٹیلیٹر سے ہٹانے کیلیے۔اگرچہ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ آپ باور کرواتے کسان پیکج کی مد میں چھوٹے کاشتکاروں کی دس سے پندرہ فیصد شرح ہی بذریعہ قرعہ اندازی مستفید ہوپائے گی۔ایک سے بارہ ایکڑ تک کے مالکان اس قرعہ اندازی میں شریک ہوکر پانچ ہزار روپے فی ایکڑ حاصل کرپائیں گے۔ باقی پچاسی فیصد کسان کیا کریں گے؟ اگر اپوزیشن کرنا ہی تھی تو یوریا اور بجلی کے بلوں پر سبسڈی کا مطالبہ کرکے کی جاتی ۔جس کا فائدہ ہر کسان کو یکساں پہنچتا ۔بہرحال کسان پیکج کے تحت ڈی۔اے۔پی کھاد کی بوری پر پانچ سو روپے تک کی سبسڈی دی گئی ہے جس کا فائدہ سب کو ہوگا۔مگر ہمارا کسان آج بھی یوریا زیادہ استعمال کرتا ہے۔ایک آگہی مہم تو یہ بھی چلائی جائے کہ کسان کو یوریا کی بجائے ڈی۔اے۔پی اور پوٹاشیم کے استعمال کی جانب راغب کیا جائے جو کہ بہتر پیداوار میں کلیدی کردار ادا کرتے ہیں۔
آلو کا کاشتکار دوسری فصل مکئی کی لگاتا ہے۔جس کی قیمتیں بین الاقوامی منڈیوں میں تین سالوں کے دوران کریش کرگئی ہیں۔نو ساڑھے نو سو روپے فی من بِکنے والی مکئی اب پانچ سو سے چھ سو روپے فی مَن بیچی جارہی ہے۔مگر یہاں بھی حکومتی گرفت دکھائی نہیں دیتی۔فیڈ مِلز ستر سے اسی فیصد مکئی کا استعمال کرتی ہیں اور انہوں نے بجائے فیڈ سستی کرنے کے قیمتیں مزید بڑھا دیں۔جس کی لاٹھی اس کی بھینس۔دوسری جانب کوئی ایک کارن پراڈکٹ کا نام بتایے جس کی قیمتیں اسی تیزی سے نیچے آئی ہوں؟ کارن آئل کا استعمال آج بھی عیاشی کے زمرے میں ہی آتا ہے۔دیگر کارن مصنوعات کا بھی یہی حال ہے۔سال میں مکئی کی دو فصلیں حاصل کی جاتی ہیں؛ بہاریہ مکئی آلو کے فوراً بعد کاشت کی جاتی ہے ۔جس کی پیداواری لاگت چھ سو روپے فی من تک ہوتی ہے اور اچھا کسان اسےپچاس روپے منافع کیساتھ ساڑھے چھ سو روپے فی من میں بیچتا ہے۔اوسط پیداوار پینسٹھ سے ستر من فی ایکڑ ہوا کرتی ہے۔جبکہ موسمی فصل جون سے اگست تک کاشت ہوتی ہے اور چالیس سے پینتالیس من فی ایکڑ تک حاصل کی جاتی ہے۔جس وقت مکئی نو سو روپے فی من بِک رہی تھی تو فیڈ کی ایک بوری گیارہ سو سے بارہ سو روپے کی مل رہی تھی۔آج مکئی ساڑھے چھ سو روپے فی من بیچی جارہی ہے جبکہ فیڈز بوری کی قیمتِ فروخت بائیس سو سے چوبیس سو روپے تک جا پہنچی ہے۔نہ کوئی چیک اینڈ بیلنس ہے اور نہ ہی اپوزیشن یا میڈیا کو فرصت ہے کہ کسان کے اصل مسائل کو سامنے لا کر حکومت کو جگایا جائے۔ہر جانب ڈنگ ٹپاؤ پالیسی ہی دکھائی دیتی ہے۔
Hamesha ki tara ek behtareen tehreer.
جواب دیںحذف کریںبہت عمدہ تجزیہ اور تبصرہ
جواب دیںحذف کریں