بدھ، 10 اگست، 2016

غدار سوالات


بلوچستان کی عجب قسمت ہے کہ پرنٹ ، الیکٹرانک اور سوشل میڈیا پر توجہ کا مرکز بننے کے لیے اپنے جوان لاشے دفنایا کرتا ہے۔۸  اگست کو ایک سفاک منصوبے نے بلوچستان بار ایسوسی ایشن کے صدر سمیت وکلاء برادری کی پوری ایک نسل ختم کرڈالی اور دو ٹی۔وی چینلز کے کیمرہ مین بھی شہید ہوگئے۔
سماجی رابطے کی ویب سئٹ پر ایک وکیل برخوردار خان اچکزئی کے مطابق انہیں 6 سال ہوئے لاء لائیسنس لیے ۔گزشتہ ستمبر بلوچستان بار ایسوسی ایشن جوائن کیا۔ نو ماہ کوئٹہ گزارے اور اب ان کے بیچ کے سب لوگ بلوچستان میں ٹاپ پریکٹسنگ وکیل بن گئے ہیں کیونکہ فی الحال وہ زندہ ہیں۔ پچیس تیس سال قانون کی تعلیم، کچھ برس نچلی عدالتوں کے دھکے اور آٹھ دس سال اعلیٰ عدالتوں کا تجربہ۔۔۔حاصل وصول کیا ہوا؟ قربانی کا بیانیہ اور ہم نہیں بھولیں گے وغیرہ؟ تو ان جوانوں کی مائیں سرحد پر ہی بھیج دیتیں ملک کی حفاظت کے لیے۔ کیا ضرورت آن پڑی تھی دیگر عصری میدانوں میں بچے کھپانے کی۔ تمام سینیئر وکلاء اور بیرسٹرز شہید کردیے گئے۔یہ شہداء جو لاپتہ افراد کے مقدمات لڑ رہے تھے۔بلوچوں کے لیے برابری کے انسانی حقوق مانگنے میں پیش پیش تھے۔مسخ شدہ لاشوں کے بارے میں سوال اٹھانے کی جسارت کیا کرتے تھے۔ان سب کے یکدم چلے جانے سے اب سوچیے کہ سینکڑوں جونیئر وکلاء بےروزگار ہوگئے۔ان کے گھروں میں بھوک کیسے ناچے گی۔
دو روز سے خود کو یہ سمجھانے کی کوشش میں مصروف ہوں کہ ریاست کے بیانیے سے متضاد سوالات کرکے غدار اور ایجنٹ کہلوانے سے بہتر ہے خاموش رہوں۔لیکن سوال اور جستجو کی لَت لگ جائے تو کہاں چھوٹتی ہے۔کہتے ہیں ردِعمل میں مت بہیں،طنز نہ کریں،ریاست کا ساتھ دیں اور یہاں ساتھ سے مراد سیکیورٹی اداروں کو جوابدہ نہ سمجھنا ہے۔مجھ پر لیکن ایک عام پاکستانی کی حیثیت سے نشاندہی کرنا فرض ہے کہ آپ کے بیانات میں کتنا اور کہاں کہاں جھول ہے۔
فرمایا "آپریشن ضربِ عضب سے گھبرا کر شدت پسند عناصر بلوچستان میں آگئے ہیں۔" مناسب ہوگیا۔تو کیا اس سے قبل بلوچ مائیں اپنے بیٹوں کے ماتھے بِنا فکر کے چوما کرتی تھیں ؟ چلو مان لیا ایک منٹ کو لیکن پھر مجبور ہوں آپ کو ۸ اگست ۲۰۱۳ء یاد کروانے پر۔پولیس لائنز کوئٹہ میں ایک روز قبل فائرنگ سے شہید ہوجانے والے ایس۔ایچ۔او محب اللہ جان  کے نمازِ جنازہ میں شریک لوگوں کو خود کش حملے میں شہید کردیا گیا۔جن میں ڈی۔آئی۔جی آپریشن فیاض احمد سنبل، ایس پی انور خلجی اور ڈی ایس پی شمس سمیت انتالیس افراد شامل تھے۔اس سے پہلے ۱۶ جون کو سردار بہادر خان وومین یونیورسٹی کی بس میں دھماکہ ہوا چودہ طالبات شہید ہوئیں جبکہ زخمیوں کو جونہی بولان میڈیکل کمپلیکس منتقل کیا گیا تو دوسرا دھماکہ ہوا اور ڈپٹی کمشنر کوئٹہ ، اور ایف۔سی کے جوانوں سمیت مزید شہادتیں ہوئیں۔یہ محض تین واقعات کی تفصیل اس لیے یاد کروائی ہے کہ کوئٹہ شہر نے ۸ اگست ۲۰۱۶ء پہلے بھی بھگتایا ہے جناب۔ وہی انداز،وہی طریقہ واردات اور تاریخ بھی۔
اگلا بیان تھا "راء نے کروایا ہے" ۔ حالیہ کوئٹہ سانحے میں ایران ، افغانستان یا بھارت کسی کا بھی ہاتھ ملوث ہوسکتا ہے۔بالکل بیرونی فنڈنگ ہوسکتی ہے۔لیکن کیا ہم یہ بات نظر انداز کردیں کہ گھر کے اندر سے مدد مِلے بغیر ایسی کاروائیاں ممکن ہی نہیں ؟ حیرت ہے کہ بِنا تفتیش پندرہ منٹ میں نتیجہ کیسے اخذ کرلیا گیا۔اور پھر ہم عامیوں کو سوال کی اجازت بھی نہیں۔ مانتی ہوں کہ ہم ایک ایسے خطے میں رہتے ہیں جہاں شرپسندوں کو دہائیوں تک اثاثے قرار دے کر دودھ پِلایا گیا اور قوم حالتِ جنگ میں ہے لیکن ایسا شہر جہاں ایف۔سی اہلکاروں اور چیک پوسٹس کی تعداد گِنواتے سانس پھول جائے وہاں ایک منظم منصوبے کی تشکیل ہفتوں نہیں مہینوں میں مکمل ہوئی ہوگی اور تعمیل جب ہوئی تو ریپڈ رسپانس فورس کہاں تھی؟آپ یہ کہہ کر بری الذمہ نہیں ہوسکتے کہ ہسپتال میں افراتفری کےدوران کوئی داخل ہوگیا۔منظم منصوبہ بندی سے تیسری بار اسی طرز کا تکنیکی طور پر فول پروف منصوبہ تھا ۔پہلے صدر بار ایسوسی ایشن کو بطور چارہ نشانہ بنایا جانا اور اگلی قسط پہلے سے تراش کر شعبہ حادثات میں فِٹ کر رکھی تھی۔ یاد رہے اس وقت ہسپتال میں معمول کی آمد و رفت ہوگی۔کوئی ایمرجنسی یا افرتفری نہیں تھی۔چھبیس ایجنساں ، نیکٹا ، نمبر وَن انٹیلیجنس کے دعوے اور ایسا طمانچہ؟ یہ کولیشن سپورٹ فنڈ کیا بلا ہوتی ہے ؟ ہم نے نیشنل ایکشن پلان کا سُنا تھا کہ کوئی کمال ہی اقدام ہے۔ تو یہ جو کالعدم جہادی تنظیمیں ملک بھر میں دندناتی پھر رہی ہیں۔نام بدل کر چندے خیرات کی بھیک مانگ رہی ہیں ۔عام شہریوں میں نفرتوں کے بیج بوتے  اہم عسکری شخصیات کی تصاویر والے پوسٹرز اٹھائے ریلیاں نکال رہی ہیں ۔اِن اثاثوں بارے کب ایکشن لیا جائے گا ؟
پھربیان آیا کہ اقتصادی راہداری دشمن کی آنکھ میں کھٹکتی ہے۔ سی۔پیک نہ ہوا بڑھاپے کی اولاد ہوگئی یا پھر گاؤں میں بانگ دینے والا واحد کُکڑ۔ تو صاحب ۳ ستمبر ۲۰۱۰ء کو میزان چوک کوئٹہ میں یوم القدس منانے والے ۶۷ شہید ، ۱۰ جنوری ۲۰۱۳ء کو علمدار روڈ پر ۱۰۶ شہداء  کے لواحقین کِس سے پوچھیں اور ان جیسے درجنوں واقعات  کو سانحات بنانے والے کِس راہداری سے حسد کررہے تھے؟
پھر کہا کہ آسان ہدف کو نشانہ بناتے ہیں۔ تو یعنی آپ کی نیول بیسز ، زیارت ریزیڈینسی ، واہگہ بارڈر سافٹ ٹارگٹ تھے؟ کوئٹہ ہی میں کمشنر آفس کے قریب ڈی۔آئی۔جی فرنٹیئر کور برگیڈیئر فرخ شہزاد کی رہائش گاہ پر بارود سے بھری گاڑی ٹکرا دی جاتی ہے۔جِس میں ان کی اہلیہ ، ایف۔سی کا کرنل اور دیگر اہلکاروں سمیت تیس افراد جان سے گئے۔شاید آسان ہدف ہونے کے باعث۔ ویسے جی۔ایچ۔قیو پر حملے میں کتنے گھنٹوں تک آپریشن جاری رہا ؟ چلو مان لیا کہ گلشن پارک لاہور اور چارسدہ یونیورسٹی آسان ہدف ہوں گے تو کیا آرمی پبلک سکول بھی اتنا ہی سافٹ ٹارگٹ تھا ؟ وہاں تو زخمی بچوں کو بیرون ملک تفریحی دوروں پر بھیج دیا گیا تو یہ جو وکلاء کی ایک نسل قبروں میں جا پڑی ہے ان کے لواحقین کیا اب صرف نوحہ وغیرہ لانچ کرکے بہلائے جائیں گے؟ کیمرہ مین شہزاد اور محمود خان کے یتیم بچے دشمنوں کو پڑھانے سے قبل خود پڑھ پائیں گے؟
ان سوالات کو دبانے کا آسان حل یہ نکالا گیا ہے کہ جو کرے اس کو غدار کہلوایا دیا جائے۔راء ایجنٹ قرار دے کر تذلیل کی جائے۔پھر چاہے وہ آئینِ پاکستان کے تحفظ کا عہد کرکے رکن قومی اسمبلی ہی کیوں نہ بنا ہوا ہو۔کیا ہم اپنے محافظوں سے وجہ پوچھنے کا حق اختیار بھی نہیں رکھتے؟ حب الوطنی کا تمغہ جیتنے کو ہر غلطی ، سیکیورٹی لیپس اور بےڈھنگے بیانیے کا دفاع خود پر فرض کرلیں ؟
الیکٹرانک اور سوشل میڈیا پر جشنِ آزادی کی خوشیاں منانے کا عندیہ دے کر سوگواران کی ہمت بندھانے کا نیا راستہ تلاش کیا ہے۔جِس گھر میں ستر سے زائد لاشیں پڑی ہوں،معاشرے کا باشعور ستون ہِل گیا ہو وہاں قبر کی مٹی سوکھنے والی مثال کا وقت بھی نہیں آیا۔تدفین سے قبل تالیاں پیٹ پیٹ کر "مِلی جوش و جذبے" کے سٹیرائڈز لگائے اور پھانکے جا رہے ہیں۔آرمی پبلک سکول سانحے کےبعد یومِ قائد کی تقریبات اور کرسمس سادگی کےآخری دائرے میں چلی گئی تھیں۔تو کیا میرے پشتون اور بلوچ بھائیوں کی اتنی بھی وقعت نہیں؟
اگلےروز قومی اسمبلی میں کوئٹہ سانحہ پر مذمتی قرارداد متفقہ طور پر منظور کرلی گئی ۔جی ہاں وہی مذمتی قرارداد جو سانحے کی شام کورم پورا نہ ہونے کے باعث کھٹائی میں پڑ گئی تھی لیکن معمول کی کاروائی روک کر ہمارے عوامی نمائندوں نے تقاریر کیں اور خوب آنسو بہاتے بلوچستان میں خونِ ناحق پر افسوس کا اظہار کیا۔اور آج سنا ہے قومی اسمبلی کے اہم ترین اجلاس میں پھر کورم پورا نہیں تھا۔یہاں کون ہے جو فرائض کی ادائیگی میں ڈنڈیاں نہیں مار رہا ؟
قیامتِ صغریٰ کی اصطلاح کب تک ہمارے ہاں بار بار دہرائی جاتی رہے گی؟ یہ کہہ دینا کہ ہزاروں کی تعداد میں سالانہ دھماکے اب سینکڑوں میں آگئے ہیں شاید ریاست کو تو مطمئن کرسکتا ہے لیکن کسی یتیم ، بیوہ اور بےسہارا لاغر ماں  کو ان اعداد و شمار سے بہلانا ممکن نہیں ہے۔یہ طویل جنگ ہے،لڑ رہے ہیں اور جانے کب تلک لڑتے رہیں لیکن خدارا فوری ردِعمل دیتے اپنے الفاظ، عہدہ اور بیان کے دور رس نتائج کو سامنے رکھ لیا کیجیے۔

2 تبصرے:

  1. سمجھ نہیں آ رہا کہ کیا لکهوں دل و دماغ جهنجوڑ کے رکھ دیے آپ کی تحریر نے .جزاک اللہ.
    سلامت رہیں

    جواب دیںحذف کریں