(باقاعدہ
آغاز سےقبل یہ وضاحت ضروری ہے کہ یہ فِکشن سے بھرپور تحریر ہے جس میں کہیں بھی کسی
چوپائے ، مالک ،خدمت گار یا منظر کو بطور استعارہ استعمال نہیں کیا گیا۔اور کسی
قسم کی مماثلت محض اتفاقی ہوگی۔)
یہ قصہ ہے ریاست سفاکستان کا۔یہاں ہفتہ وار بنیادوں پر مختلف میلےٹھیلے کا اہتمام ہوتا ہے ۔اگر کوئی کرتب اپنے دیکھنے والوں میں مقبولیت کے پنجے گاڑ لے تو پھر معاملہ ہفتوں سے مہینوں بلکہ برسوں میں بھی بدل جاتا ہے۔حتیٰ کہ تماش بینوں کا دِل اوب جائے تو انتظامیہ کوئی نیا میلہ ، نئے تنبو قنات اور بظاہر نئے مداریوں کے ساتھ میدان میں لانے پر مجبور ہوجاتی ہے۔ یہاں ہم انہی میں سے کچھ "کھیل تماشے" کا حال بیان کریں گے۔
کچھ ماہ بہترین اور مقوی خوراک کھلا کر مرغے تگڑے کیے جاتےہیں ۔تیل مالش ہوتی ہے اور پھر مقررہ دن فریقین اپنے پٹھے میدان میں لے آتےہیں۔چونچ اور پنجوں کے وار تب تک جاری رہتے ہیں جب تک کہ کوئی ایک دوسرے کو زخمی کرکے نڈھال نہ کردے۔بعض اوقات تو جان سے جاتے ہیں۔ اناؤں کی جنگ زیادہ ہو تو مالکان میں گولیوں کا تبادلہ بھی ہوجاتا ہے۔کوئی مارا جائے تو کچھ روز شور شرابے کے بعد کھیل کا حصہ سمجھ کر اگلے مقابلے کی تیاری شروع کردی جاتی ہے۔
دوسرے ہفتے اس ریاست میں سجنے والے میلے میں دو کتے لڑوائے جاتے ہیں۔ان کی بھی خوب خدمت اور خوراک پر محنت کرکے لاکھوں کے جوئے کے لیے تیار کیا جاتا ہے۔کتوں کے خدمت گزاروں اور مالکوں کے علاوہ شوقین افراد اور تماش بین کھلے میدان میں اکٹھے ہوتے ہیں اور دو تنومند جانوروں کو ایک دوسرے پر چھپٹتا دیکھتے ہیں۔فیصلہ کسی ایک وفادار کو قریب المرگ کرکے ہی ہوتا ہے یا پھر زخموں کی تاب نہ لاتے کچھ کتے بھاگ بھی جاتے ہیں۔ہارنے والا فریق عموماً موقع پر ہی اپنے وفادار پالتو کو گولی مار کر ہار کی ٹیس مٹانے کی کوشش کرتا ہے۔
پھر سجتا ہے بیل جوڑی کا مقابلہ۔۔۔کچی زمین میں گڑھا کھودا جاتا ہے جس میں بیلوں کی آنکھوں میں لال مرچیں جھونک کر کھونٹے سے باندھ دیا جاتا ہے۔مقررہ وقت میں جس جوڑی نے زیادہ چکر کاٹے وہی فاتح۔مزید تیزی لانے کے لیے شادی بیاہ میں استعمال ہونے والے پٹاخے بھی دُم کے ساتھ باندھے جاتے ہیں۔پٹاخے چلتےہیں تو بیل ڈر کر مزید تیز بھاگتے ہیں۔
یونہی خرگوش کتے کی ریس بھی باذوق حضرات میں مقبول مشغلہ بن چکا ہے۔چٹیل میدان میں خرگوش کو بھگا کر اس کے پیچھے خونخوار شکاری کتے چھوڑ دیے جاتے ہیں۔چونکہ چُھپنے یا زمین کھود کر بچنے کی کوئی صورت نہیں ہوتی لہذا جو کتا پہلے اپنے جبڑے میں خرگوش کو جکڑتا ہے وہی فاتح قرار دیا جاتا ہے۔
اس دوران کتا ریس، بیل دوڑ ، گھوڑ دوڑ وغیرہ کا انعقاد بھی ہوتا رہتا ہے۔لیکن کچھ عرصہ ہوا گھوڑ دوڑ میں جوکی کو خچر اور گھوڑے کے مابین پہچان میں خاصی دقت کا سامنا ہورہا ہے۔بہرحال ہم تذکرہ کررہے تھے مارو یا مرجاؤ قسم کے مقابلوں کا۔وقت کے ساتھ اس ریاست میں خون خرابوں سے مزین کرتب زیادہ توجہ لینے کے باعث مقبولیت کے تمام گزشتہ ریکارڈز توڑنے لگے تھے۔لہذا مالکان اور خدمت گزاروں کی زیادہ توجہ انہی کی ترویج پر مبذول کرنا مجبوری ٹہری۔
کچھ باکمال مداری ایک ہی وقت میں بندر ، کتا، بکرا اور ریچھ پالتے ہیں۔ان کو سَدھاتے ہیں۔نفسیاتی حربوں کے طور پر چھریوں سے ڈرا کر اور بعض اوقات بندر کے سامنے بکرے کی درگت بنا کر بلکہ ذبح کرکے بندر کو ایسا سہما دیتے ہیں کہ وہ تمام عمر مداری کے اشاروں کو سمجھ کر گھومتی رسی اور سوٹی کے سامنے تماش بینوں کو رجھانے پر لگ جاتا ہے۔بین پر تھوتھنی پر خول چڑھائے ریچھ ناچتا ہے تو مُڑے ہوئے لانبے سینگوں والا بکرا ایک کے اوپر ایک تین پائے پر چڑھ کر دکھاتا ہے۔ایسے میں کوئی این۔جی۔او، ریاستی قانون یا "جانوروں کے حقوق" سے متعلق بین الاقوامی ادارے نہیں پوچھتے کیونکہ یہ سب کھیل تو ریاست سفاکستان کی "ثقافت و روایات" کا حصہ بن چکے ہیں۔کھیل ختم ہوتا ہے تو تماش بین گھر سے آٹا لاتے ہیں اور تالیاں بجاتے جیب سے کچھ رقم بھی نکال کر تھما دیتے ہیں۔بعض اوقات بعد میں معلوم ہوتا ہے کہ کسی جیب کترے نے پوری جیب پر ہی بلیڈ مارلیا۔
سفاکستان میں ہمالین بھورے ریچھوں کی نسل سنا ہے ناپید ہوتی جارہی ہے۔انہیں بین پر نچانے کے علاوہ ریچھ کتا لڑائی میں استعمال کیا جاتا رہا ہے۔ مالکان کو موٹی رقوم تھمانے کی بجائے متبادل روزگار فراہم کرکے دوسرے ذرائع سے کمانے کی جانب راغب کیا جارہا ہے۔چونکہ اس نایاب نسل کو بچانے کے مقصد میں بیرون ممالک کی تنظیمیں حصہ ڈال رہی ہیں لہذا بازیاب زخمی ریچھوں کی سرجری وغیرہ کے لیے بھی انہی سے مدد لی جاتی ہے۔مالکان بالغ ریچھوں کی آنکھیں، دانت نکال کر اور پنجوں کے ناخن کتر کر ان سے فطری دفاعی صلاحیت چھین لیتے ہیں۔ دو کتے کھلے میدان میں خود سے کئی گنا بڑی جسامت والے کھونٹے سے بندھے ریچھ پر جھپٹ کر اس کی تھوتھنی بھنبھوڑ ڈالتے ہیں۔دوسرے راؤنڈ میں تازہ دم کتوں کی جوڑی پھر چھوڑی جاتی ہے۔۔اب یہ اندھے ریچھ کی مہارت یا قسمت ہے کہ وہ کسی کتے کے اوپر بیٹھ جائے یا اپنے بازؤں میں جکڑ کر بے بس کردے۔ایسے میں مالکان آگے بڑھتے ہیں اور اپنا کتا گھسیٹ کر باہر لے جاتے ہیں۔سنا ہے کہ پہلے ایسی لڑائیوں کے واقعات بہت رپورٹ ہوتے تھے لیکن بتدریج کمی آرہی ہے۔
آخر میں ذکر کرتے ہیں اونٹ ریس کا۔مالک کی طاقت اور امارت کا تخمینہ عموماً اس کی ملکیت میں اونٹوں کی تعداد سے لگایا جاتا ہے۔اونٹوں کو شہد،دودھ،گھی مکھن اور جوس دودھ پر پالا جاتا ہے۔موسم کی مناسبت سے دیکھ بھال ہوتی ہے۔صحرا میں نکالنے سے قبل ان کے منہ پر حفاظتی جالی لگائی جاتی ہے تاکہ غیر معیاری خوراک پر منہ نہ ماریں۔اعلیٰ رہائش،بہترین ماحول ، خوشبویات سے غسل اور ڈاکٹر و ادویات کی سہولیات فراہم کی جاتی ہے۔ان اونٹوں کے خدمت گاروں کو اچھا معاوضہ ملتا ہے۔ ریس کے انعقاد سے قبل سفاکستان میں اونٹ ریس کے لیے جون سے اکتوبر تک تربیتی سیشن ہوتا ہے۔ غربت و مجبوریوں میں پِسے علاقوں سے بچوں کو بطور جوکی لایا جاتا ہے۔ کچھ علاقوں کے ستر تو کہیں نوے فیصد کم عمر بچے جوکی بننے جاچکے ہیں۔جِن کے والدین سمجھتے ہیں کہ بچہ بڑی جگہ پر ملازم ہوجائے گا تو حالات سدھریں گے۔ ریاست توجہ دے گی اور نظام کا حصہ بنا لیے جائیں گے۔ان بچوں کو اونٹ کے ساتھ باندھ دیا جاتا ہے۔اب بچہ جتنا چیخے چلائے گا مالک کا اونٹ اتنا ہی تیز بھاگے گا۔دو جانور ٹکرا جانے پر بچہ زخمی ہو ،عمر بھر کے لیے معذور یا پھر جان سے جائے یہ اس کی اور لواحقین کی قسمت۔مالکان کی بڑے نقصان سے بچت ہی رہتی ہے۔کیونکہ جب یہ نر اونٹ دوڑ کے قابل نہیں رہتے تو اصطبل میں افزائشِ نسل کے کام آنے لگتے ہیں۔
مالک اور پالتو جانور کا سارا کھیل جِن تماش بینوں کے لیے ہوتا ہے انہی میں سے اکثریت آہیں بھرتی کوشاں رہتی ہے کہ کسی طرح خدمت گاری کا موقع اور پکی نوکری مِل جائے۔پنجابی مقولے کے مطابق ساری عمر دیاں روٹیاں تے مالکاں دی چھتر چھایا۔
اس تمام کھیل تماشے کے دوران سفاکستان میں ایک صدا گونجتی رہتی ہے۔۔۔
یہ قصہ ہے ریاست سفاکستان کا۔یہاں ہفتہ وار بنیادوں پر مختلف میلےٹھیلے کا اہتمام ہوتا ہے ۔اگر کوئی کرتب اپنے دیکھنے والوں میں مقبولیت کے پنجے گاڑ لے تو پھر معاملہ ہفتوں سے مہینوں بلکہ برسوں میں بھی بدل جاتا ہے۔حتیٰ کہ تماش بینوں کا دِل اوب جائے تو انتظامیہ کوئی نیا میلہ ، نئے تنبو قنات اور بظاہر نئے مداریوں کے ساتھ میدان میں لانے پر مجبور ہوجاتی ہے۔ یہاں ہم انہی میں سے کچھ "کھیل تماشے" کا حال بیان کریں گے۔
کچھ ماہ بہترین اور مقوی خوراک کھلا کر مرغے تگڑے کیے جاتےہیں ۔تیل مالش ہوتی ہے اور پھر مقررہ دن فریقین اپنے پٹھے میدان میں لے آتےہیں۔چونچ اور پنجوں کے وار تب تک جاری رہتے ہیں جب تک کہ کوئی ایک دوسرے کو زخمی کرکے نڈھال نہ کردے۔بعض اوقات تو جان سے جاتے ہیں۔ اناؤں کی جنگ زیادہ ہو تو مالکان میں گولیوں کا تبادلہ بھی ہوجاتا ہے۔کوئی مارا جائے تو کچھ روز شور شرابے کے بعد کھیل کا حصہ سمجھ کر اگلے مقابلے کی تیاری شروع کردی جاتی ہے۔
دوسرے ہفتے اس ریاست میں سجنے والے میلے میں دو کتے لڑوائے جاتے ہیں۔ان کی بھی خوب خدمت اور خوراک پر محنت کرکے لاکھوں کے جوئے کے لیے تیار کیا جاتا ہے۔کتوں کے خدمت گزاروں اور مالکوں کے علاوہ شوقین افراد اور تماش بین کھلے میدان میں اکٹھے ہوتے ہیں اور دو تنومند جانوروں کو ایک دوسرے پر چھپٹتا دیکھتے ہیں۔فیصلہ کسی ایک وفادار کو قریب المرگ کرکے ہی ہوتا ہے یا پھر زخموں کی تاب نہ لاتے کچھ کتے بھاگ بھی جاتے ہیں۔ہارنے والا فریق عموماً موقع پر ہی اپنے وفادار پالتو کو گولی مار کر ہار کی ٹیس مٹانے کی کوشش کرتا ہے۔
پھر سجتا ہے بیل جوڑی کا مقابلہ۔۔۔کچی زمین میں گڑھا کھودا جاتا ہے جس میں بیلوں کی آنکھوں میں لال مرچیں جھونک کر کھونٹے سے باندھ دیا جاتا ہے۔مقررہ وقت میں جس جوڑی نے زیادہ چکر کاٹے وہی فاتح۔مزید تیزی لانے کے لیے شادی بیاہ میں استعمال ہونے والے پٹاخے بھی دُم کے ساتھ باندھے جاتے ہیں۔پٹاخے چلتےہیں تو بیل ڈر کر مزید تیز بھاگتے ہیں۔
یونہی خرگوش کتے کی ریس بھی باذوق حضرات میں مقبول مشغلہ بن چکا ہے۔چٹیل میدان میں خرگوش کو بھگا کر اس کے پیچھے خونخوار شکاری کتے چھوڑ دیے جاتے ہیں۔چونکہ چُھپنے یا زمین کھود کر بچنے کی کوئی صورت نہیں ہوتی لہذا جو کتا پہلے اپنے جبڑے میں خرگوش کو جکڑتا ہے وہی فاتح قرار دیا جاتا ہے۔
اس دوران کتا ریس، بیل دوڑ ، گھوڑ دوڑ وغیرہ کا انعقاد بھی ہوتا رہتا ہے۔لیکن کچھ عرصہ ہوا گھوڑ دوڑ میں جوکی کو خچر اور گھوڑے کے مابین پہچان میں خاصی دقت کا سامنا ہورہا ہے۔بہرحال ہم تذکرہ کررہے تھے مارو یا مرجاؤ قسم کے مقابلوں کا۔وقت کے ساتھ اس ریاست میں خون خرابوں سے مزین کرتب زیادہ توجہ لینے کے باعث مقبولیت کے تمام گزشتہ ریکارڈز توڑنے لگے تھے۔لہذا مالکان اور خدمت گزاروں کی زیادہ توجہ انہی کی ترویج پر مبذول کرنا مجبوری ٹہری۔
کچھ باکمال مداری ایک ہی وقت میں بندر ، کتا، بکرا اور ریچھ پالتے ہیں۔ان کو سَدھاتے ہیں۔نفسیاتی حربوں کے طور پر چھریوں سے ڈرا کر اور بعض اوقات بندر کے سامنے بکرے کی درگت بنا کر بلکہ ذبح کرکے بندر کو ایسا سہما دیتے ہیں کہ وہ تمام عمر مداری کے اشاروں کو سمجھ کر گھومتی رسی اور سوٹی کے سامنے تماش بینوں کو رجھانے پر لگ جاتا ہے۔بین پر تھوتھنی پر خول چڑھائے ریچھ ناچتا ہے تو مُڑے ہوئے لانبے سینگوں والا بکرا ایک کے اوپر ایک تین پائے پر چڑھ کر دکھاتا ہے۔ایسے میں کوئی این۔جی۔او، ریاستی قانون یا "جانوروں کے حقوق" سے متعلق بین الاقوامی ادارے نہیں پوچھتے کیونکہ یہ سب کھیل تو ریاست سفاکستان کی "ثقافت و روایات" کا حصہ بن چکے ہیں۔کھیل ختم ہوتا ہے تو تماش بین گھر سے آٹا لاتے ہیں اور تالیاں بجاتے جیب سے کچھ رقم بھی نکال کر تھما دیتے ہیں۔بعض اوقات بعد میں معلوم ہوتا ہے کہ کسی جیب کترے نے پوری جیب پر ہی بلیڈ مارلیا۔
سفاکستان میں ہمالین بھورے ریچھوں کی نسل سنا ہے ناپید ہوتی جارہی ہے۔انہیں بین پر نچانے کے علاوہ ریچھ کتا لڑائی میں استعمال کیا جاتا رہا ہے۔ مالکان کو موٹی رقوم تھمانے کی بجائے متبادل روزگار فراہم کرکے دوسرے ذرائع سے کمانے کی جانب راغب کیا جارہا ہے۔چونکہ اس نایاب نسل کو بچانے کے مقصد میں بیرون ممالک کی تنظیمیں حصہ ڈال رہی ہیں لہذا بازیاب زخمی ریچھوں کی سرجری وغیرہ کے لیے بھی انہی سے مدد لی جاتی ہے۔مالکان بالغ ریچھوں کی آنکھیں، دانت نکال کر اور پنجوں کے ناخن کتر کر ان سے فطری دفاعی صلاحیت چھین لیتے ہیں۔ دو کتے کھلے میدان میں خود سے کئی گنا بڑی جسامت والے کھونٹے سے بندھے ریچھ پر جھپٹ کر اس کی تھوتھنی بھنبھوڑ ڈالتے ہیں۔دوسرے راؤنڈ میں تازہ دم کتوں کی جوڑی پھر چھوڑی جاتی ہے۔۔اب یہ اندھے ریچھ کی مہارت یا قسمت ہے کہ وہ کسی کتے کے اوپر بیٹھ جائے یا اپنے بازؤں میں جکڑ کر بے بس کردے۔ایسے میں مالکان آگے بڑھتے ہیں اور اپنا کتا گھسیٹ کر باہر لے جاتے ہیں۔سنا ہے کہ پہلے ایسی لڑائیوں کے واقعات بہت رپورٹ ہوتے تھے لیکن بتدریج کمی آرہی ہے۔
آخر میں ذکر کرتے ہیں اونٹ ریس کا۔مالک کی طاقت اور امارت کا تخمینہ عموماً اس کی ملکیت میں اونٹوں کی تعداد سے لگایا جاتا ہے۔اونٹوں کو شہد،دودھ،گھی مکھن اور جوس دودھ پر پالا جاتا ہے۔موسم کی مناسبت سے دیکھ بھال ہوتی ہے۔صحرا میں نکالنے سے قبل ان کے منہ پر حفاظتی جالی لگائی جاتی ہے تاکہ غیر معیاری خوراک پر منہ نہ ماریں۔اعلیٰ رہائش،بہترین ماحول ، خوشبویات سے غسل اور ڈاکٹر و ادویات کی سہولیات فراہم کی جاتی ہے۔ان اونٹوں کے خدمت گاروں کو اچھا معاوضہ ملتا ہے۔ ریس کے انعقاد سے قبل سفاکستان میں اونٹ ریس کے لیے جون سے اکتوبر تک تربیتی سیشن ہوتا ہے۔ غربت و مجبوریوں میں پِسے علاقوں سے بچوں کو بطور جوکی لایا جاتا ہے۔ کچھ علاقوں کے ستر تو کہیں نوے فیصد کم عمر بچے جوکی بننے جاچکے ہیں۔جِن کے والدین سمجھتے ہیں کہ بچہ بڑی جگہ پر ملازم ہوجائے گا تو حالات سدھریں گے۔ ریاست توجہ دے گی اور نظام کا حصہ بنا لیے جائیں گے۔ان بچوں کو اونٹ کے ساتھ باندھ دیا جاتا ہے۔اب بچہ جتنا چیخے چلائے گا مالک کا اونٹ اتنا ہی تیز بھاگے گا۔دو جانور ٹکرا جانے پر بچہ زخمی ہو ،عمر بھر کے لیے معذور یا پھر جان سے جائے یہ اس کی اور لواحقین کی قسمت۔مالکان کی بڑے نقصان سے بچت ہی رہتی ہے۔کیونکہ جب یہ نر اونٹ دوڑ کے قابل نہیں رہتے تو اصطبل میں افزائشِ نسل کے کام آنے لگتے ہیں۔
مالک اور پالتو جانور کا سارا کھیل جِن تماش بینوں کے لیے ہوتا ہے انہی میں سے اکثریت آہیں بھرتی کوشاں رہتی ہے کہ کسی طرح خدمت گاری کا موقع اور پکی نوکری مِل جائے۔پنجابی مقولے کے مطابق ساری عمر دیاں روٹیاں تے مالکاں دی چھتر چھایا۔
اس تمام کھیل تماشے کے دوران سفاکستان میں ایک صدا گونجتی رہتی ہے۔۔۔
"اللہ
والیو سَکھایا اے ، بندہ نئیں مَندا ، جانور من جاندا اے۔ رسی نہ ہووے ، سوٹی نہ
ہوے تے جانور کدے نئیں مَن دا۔۔۔"
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں