اتوار، 19 اپریل، 2015

نظر کا چشمہ

لاہورسےبذریعہ موٹروےواپسی کےدوران بھیرہ میں کچھ دیرسستانےکوگاڑی روکی اورچشمہ اتارکرٹشوپیپرسےصاف کرتےاچانک ہاتھ سے پھسلتےزمین پردولخت۔۔۔نظرایسی کمزورتونہ تھی مگراس چشمےکی عادت ھوگئی تھی۔یاپھریوں بھی کہ آنکھوں کواس بھرم کی عادت ہوگئی تھی جواس چشمےنےبنارکھاتھا۔
گھرواپسی پرپہلا کام نظرکےمعائنےاورپھرنیاچشمہ تلاش کرناتھا۔ہمیشہ کی  طرح شہرکےبڑےہسپتال کی سینئرماہرِ چشم سےبمشکل وقت ملا اورآنکھوں کامکمل  تسلی بخش معائنہ کروانےکےبعداگلی منزل اپنی پسندیدہ چشموں کی دکان تھی۔گاڑی پارک کرتے اسےوہی بچہ نظرآیا جسے وہ گزشتہ چار سالوں سے اسی کونےپرکھڑا ڈسٹربیچتا دیکھتی آئی تھی۔حقارت بھری نگاہ ڈال کرآگے بڑھ گئی۔
  دکان کی جانب قدم بڑھائےتوایک بچی گلاب کے چندپھول لیےاس کے سامنےکھڑی تھی۔شایدصبح جلدی میں ناشتہ نہ کرنےکےباعث طبیعت چڑچڑی ہورہی تھی ، اس بچی کوڈانٹ کردکان کےاندرچلی آئی۔دکان دار پرانی کسٹمرکودیکھ کرمسکرایااور اسسٹنٹ کوبلوایاکہ میڈم کوچشمےدکھائے۔
چہرےکی مناسبت سے مختلف فریمزلگاکردیوارگیرآئینےمیں جائزہ لیتےتین خوبصورت اور نفیس فریمزکواس نے ایک جانب رکھ دیا۔دکاندارکی نظریں چشموں پرہی تھیں۔فوراً بولا "میڈم کولڈ ڈرنک منگواؤں؟" اس نے نخوت سے نفی میں سرہلایااور ان تینوں چشموں کی قیمت دریافت کرنے لگی۔
سولہ ہزار سے23ہزارکےدرمیان چشموں کی قیمت سنتےہی اس کےماتھےکےبل گنتے دکاندارنے فوراً دکھتی رگ پرہاتھ رکھا "میڈم آپ فرسٹ کاپی دیکھ لیجیے،کوئی بندہ فرق نہیں بتاسکتا۔" اس نے مسکراتی آنکھوں سے دکاندارکودیکھا اور 19000والافریم اٹھاکردوبارہ چہرےکی زینت بناتے بولی 
"کوئی نہیں بتاپائےگا،مگرمجھےتوپتاھوگا۔رہنےدیجیے۔ یہ والا فریم ٹھیک رھےگا۔"ساتھ میں لینززکےلیے ہمیشہ کی ہدایات دہراتی اپنےبٹوےسےویزہ کارڈ نکالتے
 بڑبڑاتی جارہی تھی۔"کیابنےگا اس ملک کا ۔۔۔۔غربت دیکھو۔۔۔۔ہر شےپربھاری ٹیکس لاگوکررکھاھے۔۔۔کام ایک دھیلے کا نہیں کریں گےبس عوام کا خون چوسنے۔۔۔۔۔" اور جانے کیاکیا لیکچردیتےادائیگی کی پرچی پر دستخط گھسیٹتےاسے اپناسر چکراتا محسوس ھوا۔

اس کا من پسند چشمہ اگلی شام تک تیار ہونا تھا۔دکان سے باہرنکلتےاسے ایک بار پھروہی ہری،سہمی آنکھوں والی بچی ہاتھ میں گلاب تھامےکسی گاڑی والے کی جانب بڑھتی دکھائی دی،جس کی نظریں بچی کےپھول دار دوپٹےکوٹٹول رہی تھیں۔اسےگھن محسوس ہوئی اور سرجھٹک کرسامنےاپنے پسندیدہ فاسٹ فوڈ ریسٹورنٹ کی جانب بڑھ گئی۔ناشتہ نہ کرنےکےباعث شاید فشارِ خون اورجسم میں شکر کی مقدارکم ہورہی تھی۔
چیزبرگرکےساتھ ٹھنڈی مرنڈا پیتےحواس بحال ہوئےتو اس نے شیشےسے باہرایک نگاہ ڈالی جہاں اٹھارہ،انیس سالہ لڑکی گودمیں سوئے بچےکواٹھائےمختلف گاڑیوں کی جانب ہاتھ پھیلائےچل رہی تھی۔آج پھراسے حیرت ہوئی کہ چار سالوں سے اس گودکا بچہ ابھی تک چارسےپانچ ماہ کا ہی تھا۔
اس نے جھنجھنی لی اور سر جھٹک کر منہ میں بڑبڑائی "یہاں کبھی کچھ نہیں بدل سکتا۔"اور مرنڈا کاٹھنڈا گھونٹ حلق سے اتارنےلگی۔

6 تبصرے:

  1. منافقت .... ایک بار پھر بے نقاب
    افشاں ! اب آپ اس معاشرے کی کس کس رگ کو پکڑیں گی کہ یہ منا فقت کی وبا ہر گھر کو اپنی لپیٹ میں لے چکی ہے
    اور تو اور اب تو ہم نے منافقت کی "ایکسپورٹ " بھی بڑھا دی ہے
    میری طرف سے ایک بار پھر ہم سب کو آئینہ دیکھا نے کا شکریہ ....

    جواب دیںحذف کریں
  2. جزاک اللہ الخیر۔۔۔۔۔۔
    خبرنہیں کتنی رگیں اس منافقت کی لپیٹ میں ہیں۔۔۔یا شاید ہم پورے ہی سر کے بل اس میں دھنس چکےہیں۔۔۔۔۔۔
    بس کوشش جاری رھےگی کہ ہاتھ پاؤں مارتی رہوں۔

    جواب دیںحذف کریں
  3. بالکل درست کہا آپ نے کہ کچھ چیزیں کبهی نہی بدلتیں کیونکہ ہم انہیں بدلنا نہی چاہتے
    مگر یہ بهی سچ ہے کہ بهوک اور مجبوری بہت کچھ کرواتی ہے

    جواب دیںحذف کریں
  4. یہ تبصرہ بلاگ کے ایک منتظم کی طرف سے ہٹا دیا گیا ہے۔

    جواب دیںحذف کریں