ابا اور وڑائچ صاحب
کی دوستی خاصی پرانی تھی۔پیشے سے نقشہ نویس تھے مگر باغبانی سے عشق تھا۔کافی عرصہ
کہتے رھے کہ دو پودے تحفہ کرنے ہیں اور ایک روز جلیبہ شہتوت کے دو بوٹے ریڑھی پر لادے
گھر آن پہنچے۔اپنی نگرانی میں مالی کی مدد سے زمین میں لگوائے، پانی دیا اوریہ جا
وہ جا۔بہرحال باغیچےمیں نیا اضافہ مجھے بہت بھایا۔لسوڑی، جامن،
کینو، امرود، انار اور نیم کے پیڑ دیکھ دیکھ کر دل اوب گیا تھا۔
ان دونوں پیڑوں نے چند ماہ گزرنےپر موسم کا پہلا پھل بھی چَکھا دیا۔ایک تو ہرے رنگ کا تھا۔مگردوسرے پیڑ کا پھل بہت پسند کیاگیا۔کالے اور ہرے دونوں شہتوت لگتے تھے اور لذت و مٹھاس میں ثانی نہ رکھتے۔ یونہی دوتین موسم گزرگئےاور ہر برس گزشتہ موسم سے اچھا پھل ھوتا۔آتے جاتےلوگ سوغات سمجھ کر لے جاتے۔سکول کالج کی دوست بھی کہہ کرمنگواتی تھیں۔
اس دوران ہرے شہتوت والا پیڑ زیادہ توجہ نہ پاسکا۔اور دیکھتےہی دیکھتے عین سیزن میں سُوکھ گیا۔شایدناقدری پرخاموشی سے مرناپسند کرلیا۔ایک بار ٹی۔وی پر کسی دستاویزی فلم میں دیکھا تھا کہ دور پار کے کسی ملک میں جب درخت کی ضرورت نہ رھے تو اسے کاٹتے نہیں بلکہ سب اہلِ علاقہ اکٹھاھو کر اُسے لعن طعن کرتے ھیں،اوریہ عمل کچھ دن تک جاری رہتا ھے پھر وہ پیڑ سوکھ جاتاھے۔جانےکتنا سچ ھے۔
اچھی طرح یاد ھے کہ چوتھے سیزن کالے شہتوت نے اتنا پھل دیا جو سنبھالا نہ جاتاتھا اور ہم بانٹتے تھک جاتے۔کالا شہتوت جہاں گرتا ایک اَن مٹ گہرا داغ چھوڑ دیتا۔اردگرد کی زمین بھی سیاہ ھوچلی تھی
پھر یوں ھوا کہ ابانے گھر کا ایک حصہ کرائے پر اٹھا دیا۔بھلےمانس میاں بیوی تھے اور ایک بیٹا تھاجو شہر کے بڑے پولٹری فیڈرز کے ہاں ملازم تھا ۔
عیدِ قربان سے چار ماہ قبل کرایہ داروں نے بکرا لا کر باندہ لیا۔ہمارے بھائی کو بھی ایساچاؤ ھواکہ ابا کوتنگ کرکے بکراخرید لیاگیا۔اب قربانی کےدونوں جانور اسی شہتوت کے درخت کیساتھ باندھ دیےگئے تھے۔
ایک روز غور کیا تو جس زنجیر سے بکرے بندھے تھے اسی کی کاٹ سے درخت کی چھال اُدھڑ چکی تھی۔فوری طورپر قربانی کے جانور نیم کی چھاؤں میں باندھےاورشہتوت کے درخت کی خبر لی۔نقصان کافی ھوچکا تھا۔دیکھ بھال کی گئی مگردرخت سوکھتاچلاگیا۔اورپھراگلےسیزن تک پھل توکیا آتا، پتےبھی جھڑ چکے تھے۔وہاں ایک تناور پَھلدار پیڑ کی جگہ اجاڑ ویران تنا تھا جس کی جڑیں تو زمین میں پھیلی ھوئی تھیں مگر اس کےساتھ کپڑے پھیلانے کیلیے نائلون کی رسی باندھ دی گئی تھی جس کادوسرا سِرا دیوار میں گڑے کیل کے ساتھ منسلک تھا۔
ان دونوں پیڑوں نے چند ماہ گزرنےپر موسم کا پہلا پھل بھی چَکھا دیا۔ایک تو ہرے رنگ کا تھا۔مگردوسرے پیڑ کا پھل بہت پسند کیاگیا۔کالے اور ہرے دونوں شہتوت لگتے تھے اور لذت و مٹھاس میں ثانی نہ رکھتے۔ یونہی دوتین موسم گزرگئےاور ہر برس گزشتہ موسم سے اچھا پھل ھوتا۔آتے جاتےلوگ سوغات سمجھ کر لے جاتے۔سکول کالج کی دوست بھی کہہ کرمنگواتی تھیں۔
اس دوران ہرے شہتوت والا پیڑ زیادہ توجہ نہ پاسکا۔اور دیکھتےہی دیکھتے عین سیزن میں سُوکھ گیا۔شایدناقدری پرخاموشی سے مرناپسند کرلیا۔ایک بار ٹی۔وی پر کسی دستاویزی فلم میں دیکھا تھا کہ دور پار کے کسی ملک میں جب درخت کی ضرورت نہ رھے تو اسے کاٹتے نہیں بلکہ سب اہلِ علاقہ اکٹھاھو کر اُسے لعن طعن کرتے ھیں،اوریہ عمل کچھ دن تک جاری رہتا ھے پھر وہ پیڑ سوکھ جاتاھے۔جانےکتنا سچ ھے۔
اچھی طرح یاد ھے کہ چوتھے سیزن کالے شہتوت نے اتنا پھل دیا جو سنبھالا نہ جاتاتھا اور ہم بانٹتے تھک جاتے۔کالا شہتوت جہاں گرتا ایک اَن مٹ گہرا داغ چھوڑ دیتا۔اردگرد کی زمین بھی سیاہ ھوچلی تھی
پھر یوں ھوا کہ ابانے گھر کا ایک حصہ کرائے پر اٹھا دیا۔بھلےمانس میاں بیوی تھے اور ایک بیٹا تھاجو شہر کے بڑے پولٹری فیڈرز کے ہاں ملازم تھا ۔
عیدِ قربان سے چار ماہ قبل کرایہ داروں نے بکرا لا کر باندہ لیا۔ہمارے بھائی کو بھی ایساچاؤ ھواکہ ابا کوتنگ کرکے بکراخرید لیاگیا۔اب قربانی کےدونوں جانور اسی شہتوت کے درخت کیساتھ باندھ دیےگئے تھے۔
ایک روز غور کیا تو جس زنجیر سے بکرے بندھے تھے اسی کی کاٹ سے درخت کی چھال اُدھڑ چکی تھی۔فوری طورپر قربانی کے جانور نیم کی چھاؤں میں باندھےاورشہتوت کے درخت کی خبر لی۔نقصان کافی ھوچکا تھا۔دیکھ بھال کی گئی مگردرخت سوکھتاچلاگیا۔اورپھراگلےسیزن تک پھل توکیا آتا، پتےبھی جھڑ چکے تھے۔وہاں ایک تناور پَھلدار پیڑ کی جگہ اجاڑ ویران تنا تھا جس کی جڑیں تو زمین میں پھیلی ھوئی تھیں مگر اس کےساتھ کپڑے پھیلانے کیلیے نائلون کی رسی باندھ دی گئی تھی جس کادوسرا سِرا دیوار میں گڑے کیل کے ساتھ منسلک تھا۔
عمدہ
جواب دیںحذف کریںآپکی تحریر پڑھ کر صبح صبح اداسی چھا گئی!
جواب دیںحذف کریںآپ بیتی میں ایک چھوٹا سا مگر جامع پیغام دے دیا آپ نے, خاطر داری نہ ملنے پر بندے سوکھ جاتے ہیں وہ تو پھر شہتوت کے پیڑ تھے اور ہاں کہیں یہ ٹارزن کے لیے کوئی سبق نامہ تو نہیں ؟ جو ایک عرب شجر لگانے کے بُلند و بانگ دعوے داغ رہے ھاھاھا
جواب دیںحذف کریںجزاک اللہ جواد بهائی...... استاد محترم کاکہناتهاکہ لکهاری کولکهنےسےمطلب...اب اس کی تشریح و معانی کاجہان آباد کرنا قاری کا امتحان هے.☺
حذف کریںشایدناقدری پرخاموشی سے مرناپسند کرلیا۔
جواب دیںحذف کریںنہایت عمدہ تحریر
لاجواب اور معنی خیز
جواب دیںحذف کریںشکریہ.
حذف کریں.آپ کا پهله بلاگ پڑها اب اگلے کا انتظار رهے گا.. عمده اور خوبصورت
جواب دیںحذف کریںپیڑ کو دیمک لگ جائے یا آدم زاد کو غم
جواب دیںحذف کریںدونوں کو ہی امجد ہم نے بچتے دیکھا کم
بہت خوب ۔۔۔بہت عمدہ تحریر۔۔
نیرنگ خیال
بہت بہت شکریہ جناب۔۔۔۔۔ آباد رھیے۔
حذف کریں!! خوبصورت تحریر
جواب دیںحذف کریںیہ حقیقت ہے کہ ناقدری محبت کرنے والے انسان ، وفادار جانور اور پھل داردرختوں کو وقت سے پہلے ھی اجا ڑ دیتی ہے
اللہ ناقدروں سے بچاۓ اور ہمیں محبتوں کا قدردان بناۓ
شکریہ۔۔۔۔۔ آمین۔
حذف کریںتحریرکامعنی خیزہوناہی اس کااصل حسن ہے
جواب دیںحذف کریںجیتی رہیے لکھتی رہیے
نہ جانےیہ بلاگ پہلےنظروں سے کیوں نہ گزرا
بے اعتنائی، بے توجہی، غفلت تن آور درختوں کو بے ثمر کر دیتے ہیں۔۔۔ رشتے تو شاید نازک کونپلوں سے بھی نازک ہیں۔۔۔ استعارے کو کہانی میں ڈھالنے سے زیادہ۔۔۔ کہانی کو استعارے میں ڈھالنا زیادہ دُشوار ہے ۔۔آپ نے بہت اعلٰی نبھایا۔۔۔جیتی رہیئے
جواب دیںحذف کریں