پیر، 20 اپریل، 2015

ایک تاریک حقیقت


آج پاکستان میں ہرنیوزچینل اورمحفل میں "پاک چین دوستی زندہ باد" کا ذکر ھے۔یہ دن اس ملک کےلیےایک روشن،خوشحال اور مضبوط پاکستان کےخواب کی تعبیرلےکرآیاھے۔توانائی کے منصوبےاور اربوں ڈالرکی سرمایہ کاری وہ بیش قیمت تحائف ہیں جوچینی صدراس ملک کوترقی کی راہ پر ڈالنےمیں مدد کےلیے لائے ہیں۔

مسلہء مگرپھروہی ازلی "تعصب اورخودترسی" کاھے۔بجائے یہ کہ ہم سینہ ٹھونک کر بھارت اور دیگرممالک کوجتاتےکہ خطےمیں استحکام کےلیےپاکستان کی اہمیت کیاھے،آپس میں سیاسی پوائنٹ اسکورنگ اوراس کثیرسرمایہ کاری کا کریڈٹ لینے یا موجودہ حکومت میں کیڑےنکالنے میں مصروف ہیں۔

بات طویل ہوجائے گی اور اصل معاملہ پھر کہیں دماغ میں کھوجائےگا۔صبح سےایک سیاسی جماعت صرف یہ کریڈٹ لینےمیں جان مار رہی ھےکہ اس چینی سرمایہ کاری کوپاکستان میں لانے کےلیے گزشتہ حکومت کی کاوشیں ہیں۔بجاھےجناب۔مانتےہیں آصف علی زرداری صاحب نے بہت محنت کی۔انہیں بھلاناکسی طور ممکن ہی نہیں۔مگرآئینہ دیکھنےپر کچھ غلطیاں تسلیم کرلی جائیں توتاریخ کادھاراسیدھارہتاھے۔

نندی پور پاورپراجیکٹ پربہت واویلاکیاجاتاھےجبکہ حقائق جانے بنا ہی اصل مجرم کی نشاندہی کی بجائے اندھیرےمیں ٹامک ٹوئیاں مارناہماراقومی مشغلہ ہے۔
چینی کمپنی "فونگ فینگ" نندی پور پراجیکٹ پر کام کررہی تھی 27 بلین روپےکایہ منصوبہ تاخیر کاشکار ھوا،جس کےباعث لاگت 87 بلین روپے پرجاپہنچی۔وجہ اس کی محض پیپلزپارٹی حکومت میں وزیرِقانون سینیٹربابراعوان ہیں۔جنہوں نے اس فائل کو کلئیرکرنے کیلیے 10 کروڑ کی چائے پانی کی چاہت رکھ چھوڑی تھی۔
اب بات کرلیجیے ان چار رینٹل پاورپلانٹس کی جو نوڈیرو کےنام پرفائلوں میں گل سڑ رھےہیں۔کامران فیصل کیس شاید اس قوم کی کمزوریاداشت سے محو ہوچکاھے۔نوڈیرو1 رینٹل پاور پلانٹ پر تحقیقات کرتے اسےموت کی نیندسلاکرخودکشی کانام دےدیاگیا۔یادرھےکہ پاورپلانٹ ایک اہم ترین سیاسی شخصیت کی ملکیت ھے۔اسی دوران "بجلی بچاؤمہم" کی تشہیرکیلیےمیڈیا فرم کو 1.6بلین روپے کی ادائیگی کی گئی۔ بدنامِ زمانہ "میڈاس" نامی فرم سوائے فراڈکی تشہیرکےاورکیاکرسکتی تھی۔
قوم کودن رات پنجاب کےخلاف بھڑکانےوالےبھول جاتےہیں کہ اس سارےقضیےمیں فیصل آباد،لاہور،سیالکوٹ اورگجرانوالہ بدترین لوڈشیڈنگ کاشکاربنے۔
گزشتہ حکومت کےآخری دنوں میں ان نوڈیرو منصوبوں کی فائلز کلئیرکرنےکیلیےسیکرٹری فنانس اور ایک 17ویں گریڈ کےڈیسک آفیسرکواس وقت کے صدرصاحب نےذاتی طور پر طلب کیا۔وہ الگ بات کہ فائل تاخیرکا شکارہوتی رہی اور بالآخرمعاملہ سپریم کورٹ چلاگیا۔
ایسےکتنےپلانٹس ہیں جنہوں نے نیشنل گرڈ اسٹیشن میں ایک میگاواٹ کابھی اضافہ نہیں کیا،ہاں مگر "کیپیسٹی چارجز" کی مد میں اربوں اینٹھ گئے۔یہ سلسلہ توچلتارہتااگرسپریم کورٹ ان تمام معاہدوں کےگورکھ دھندےکومنسوخ نہ کرتی۔
سندھ میں ایک بااثر اور اہم سیاسی شخصیت کی ملکیت میں چلنے والا رینٹل پاورپلانٹ بھی یاد رکھنےوالوں کوکافی ھے۔جب بھی اسےآن کیاگیانیشنل گرڈ میں شامل ھونے کی بجائے ٹرپ کرجاتا۔لاہورواپڈا ہاؤس سے سینئر سٹاف ہیلی کاپٹرکےذریعےنوڈیرو بھیجاگیا۔ٹیم نے بتایاکہ نیشنل گرڈ اسٹیشن سے فریکوئنسی مختلف ھے،لہذا لنک اپ ہونے کی بجائے ٹرپ کرجاتاھے۔بڑے صاحب نےحکم جاری کیا "جتناعلاقہ کنزمپشن میں آتاھےاسےنیشنل گرڈ سےالگ کرکےاس پلانٹ سے منسلک کردیاجائے۔" انہیں باور کروایاگیاکہ عوام کی بجلی پرچلتی اشیاء جل جائیں گی مگرکیاھےنا ملک وقوم کا درد ہی بہت ھےہمیں،اور ہرقیمت پریہ پلانٹ چلاناتھا۔قربان جایےعوامی خدمت کے اس جذبےپر۔
آخری سوال یہ ھےکہ 2010ء میں اس وقت کی حکومت نےدبئی کی ایک کمپنی کو کے۔ای۔ایس۔سی بیچنےکےواسطےایک ترمیم شدہ معاھدےمیں کتنا پیسہ بنایا؟ جبکہ یہ ترمیم وزارتِ پانی وبجلی کےکمیٹی روم میں دھونس زبردستی سےسویرے چاربجےکروائی گئی۔ایسی کیا اُفتاد آن پڑی تھی ؟
یہ تو ایک ہلکی سی جھلک دکھائی ھےکہ جب آپ ملک وقوم کو اندھیروں میں دھکیل کرعصبیت کےبیوپاری بنیں گےتوکہیں نہ کہیں سے ایک چنگاری آپ کا دامن بھی تھام لے گی۔لہذا کچھ "شرم"سے کام لیتےآئیندہ آنے والی نسلوں کاسوچیے،بہترمستقبل کےواسطے ایک دوسرے کی ٹانگ کھینچنے کی بجائے ہاتھ تھامیں۔

اتوار، 19 اپریل، 2015

نظر کا چشمہ

لاہورسےبذریعہ موٹروےواپسی کےدوران بھیرہ میں کچھ دیرسستانےکوگاڑی روکی اورچشمہ اتارکرٹشوپیپرسےصاف کرتےاچانک ہاتھ سے پھسلتےزمین پردولخت۔۔۔نظرایسی کمزورتونہ تھی مگراس چشمےکی عادت ھوگئی تھی۔یاپھریوں بھی کہ آنکھوں کواس بھرم کی عادت ہوگئی تھی جواس چشمےنےبنارکھاتھا۔
گھرواپسی پرپہلا کام نظرکےمعائنےاورپھرنیاچشمہ تلاش کرناتھا۔ہمیشہ کی  طرح شہرکےبڑےہسپتال کی سینئرماہرِ چشم سےبمشکل وقت ملا اورآنکھوں کامکمل  تسلی بخش معائنہ کروانےکےبعداگلی منزل اپنی پسندیدہ چشموں کی دکان تھی۔گاڑی پارک کرتے اسےوہی بچہ نظرآیا جسے وہ گزشتہ چار سالوں سے اسی کونےپرکھڑا ڈسٹربیچتا دیکھتی آئی تھی۔حقارت بھری نگاہ ڈال کرآگے بڑھ گئی۔
  دکان کی جانب قدم بڑھائےتوایک بچی گلاب کے چندپھول لیےاس کے سامنےکھڑی تھی۔شایدصبح جلدی میں ناشتہ نہ کرنےکےباعث طبیعت چڑچڑی ہورہی تھی ، اس بچی کوڈانٹ کردکان کےاندرچلی آئی۔دکان دار پرانی کسٹمرکودیکھ کرمسکرایااور اسسٹنٹ کوبلوایاکہ میڈم کوچشمےدکھائے۔
چہرےکی مناسبت سے مختلف فریمزلگاکردیوارگیرآئینےمیں جائزہ لیتےتین خوبصورت اور نفیس فریمزکواس نے ایک جانب رکھ دیا۔دکاندارکی نظریں چشموں پرہی تھیں۔فوراً بولا "میڈم کولڈ ڈرنک منگواؤں؟" اس نے نخوت سے نفی میں سرہلایااور ان تینوں چشموں کی قیمت دریافت کرنے لگی۔
سولہ ہزار سے23ہزارکےدرمیان چشموں کی قیمت سنتےہی اس کےماتھےکےبل گنتے دکاندارنے فوراً دکھتی رگ پرہاتھ رکھا "میڈم آپ فرسٹ کاپی دیکھ لیجیے،کوئی بندہ فرق نہیں بتاسکتا۔" اس نے مسکراتی آنکھوں سے دکاندارکودیکھا اور 19000والافریم اٹھاکردوبارہ چہرےکی زینت بناتے بولی 
"کوئی نہیں بتاپائےگا،مگرمجھےتوپتاھوگا۔رہنےدیجیے۔ یہ والا فریم ٹھیک رھےگا۔"ساتھ میں لینززکےلیے ہمیشہ کی ہدایات دہراتی اپنےبٹوےسےویزہ کارڈ نکالتے
 بڑبڑاتی جارہی تھی۔"کیابنےگا اس ملک کا ۔۔۔۔غربت دیکھو۔۔۔۔ہر شےپربھاری ٹیکس لاگوکررکھاھے۔۔۔کام ایک دھیلے کا نہیں کریں گےبس عوام کا خون چوسنے۔۔۔۔۔" اور جانے کیاکیا لیکچردیتےادائیگی کی پرچی پر دستخط گھسیٹتےاسے اپناسر چکراتا محسوس ھوا۔

اس کا من پسند چشمہ اگلی شام تک تیار ہونا تھا۔دکان سے باہرنکلتےاسے ایک بار پھروہی ہری،سہمی آنکھوں والی بچی ہاتھ میں گلاب تھامےکسی گاڑی والے کی جانب بڑھتی دکھائی دی،جس کی نظریں بچی کےپھول دار دوپٹےکوٹٹول رہی تھیں۔اسےگھن محسوس ہوئی اور سرجھٹک کرسامنےاپنے پسندیدہ فاسٹ فوڈ ریسٹورنٹ کی جانب بڑھ گئی۔ناشتہ نہ کرنےکےباعث شاید فشارِ خون اورجسم میں شکر کی مقدارکم ہورہی تھی۔
چیزبرگرکےساتھ ٹھنڈی مرنڈا پیتےحواس بحال ہوئےتو اس نے شیشےسے باہرایک نگاہ ڈالی جہاں اٹھارہ،انیس سالہ لڑکی گودمیں سوئے بچےکواٹھائےمختلف گاڑیوں کی جانب ہاتھ پھیلائےچل رہی تھی۔آج پھراسے حیرت ہوئی کہ چار سالوں سے اس گودکا بچہ ابھی تک چارسےپانچ ماہ کا ہی تھا۔
اس نے جھنجھنی لی اور سر جھٹک کر منہ میں بڑبڑائی "یہاں کبھی کچھ نہیں بدل سکتا۔"اور مرنڈا کاٹھنڈا گھونٹ حلق سے اتارنےلگی۔

ہفتہ، 4 اپریل، 2015

معاشرتی گِدھ


ہمارامعاشرہ ہر دور میں دوواضح حصوں میں منقسم رہاھےاور شاید تادمِ آخر کچھ رد و بدل کیساتھ یہی تقسیم رائج رہےگی۔مجھےاس پر کچھ خاص اعتراض بھی نہیں کہ قدرت کے نیارے کھیل ہیں۔اختلاف مگر وہاں شروع ہوتا ہے جب ان دو حصوں میں سےایک کو بہادر و غیور "مرد" اور دوسرے کوکمزور و لاچار "عورت" کے طور پر لیبل کردیا جاتا ہے۔
کچھ کہانیاں، چند واقعات ، کہی سنی یادیں ٹٹولنے کی کوشش کی تو خیال آیا کہ ایک صنف گِدھ اور بھیڑیے نما موقع پرستوں کی بھی موجود ہے۔اسی ماحول میں سانس لیتے آپ کو سینکڑوں سسکتی کہانیوں کے بکھرے وجود ملتے ہیں جنہیں جوڑنے لگیں تو زمانے بیت جائیں۔
عام زبان میں ٹھرکی  کی اصطلاح استعمال کی جاتی ھے۔۔۔مگر مذاق اڑاتے کبھی سوچا کہ اسی ایک لفظ کی آڑ میں معاشرے نے کتنے گدھ اپنے ارد گرد پناہ میں لے رکھے ہیں؟ انہی میں سے چند ایک بے نقاب چہرے لکھے ہیں ۔
پہلی قسم سادہ اور بظاہر بےضرر ٹھرکیوں کی ہے۔ یہ بےبس عورت کو بس سٹاپ اور عوامی جگہوں پر تاڑنے کو ہی بڑی عیاشی سمجھتے ہیں۔جبکہ ایسی نگاہِ غلط کوئی ان کی ہمشیرہ پر ڈال دے تو واجب القتل ہوجائے۔اسی قبیلے کے کچھ افراد آپ کو سوشل میڈیا پر بھی دکھائی دیتے ہیں۔ ہر وقت تنہایوں کا رونا دھونا، لڑکیوں سے ہیلوہائے۔فالوبیک مل گیا تو یہ صاحب سمجھےکہ ہنسی تو پھنسی۔ہاں مگر جرأت ان میں بس اتنی ہی ہوتی ہے کہ ہنسی ٹھٹھےسے آگے نہیں بڑھتے۔
دوسری قسم ان ڈھیٹوں کی ہے جو پبلک ٹرانسپورٹ میں خاتون کے ہاتھ کو چھولینے یا کہنی ماردینے پر خود کو مکمل ترین مرد سمجھتے ہیں۔ان کی زندگی کی اچیومنٹ ہی یہ ھوتی ھے۔ایسے افراد  کے انتہائی چھوٹے گولز ہوتے ہیں۔زیادہ سے زیادہ لڑکی کارابطہ نمبر حاصل کرلیناہی انہیں دوستوں میں طرم خان بنادیتاھے۔سوشل میڈیاکی بات کی جائے تویہ لوگ ہر پھڑکتی ڈی۔پی والی لڑکی کوفالو کریں گے۔ہلکا پھلکا فلرٹ،ایک سٹیٹس فیورٹ کیجیے،پھردیکھیے تماشہ۔بھاگےآئیں گے ڈی۔ایم میں اور ایک دو رسمی جملوں کے تبادلے پر زندگی کا سب سے  بڑا دکھڑا شئیر کردیں گے "ماں نے بالی عمریا میں زبردستی شادی کروادی ۔۔۔بس اپنی زندگی جبرِ مسلسل ،چڑیل بیوی اور چار بچوں کےباوجود خوش نہیں ہوں "۔ اس کے بعد ہمدردی و توجہ حاصل کرنے کے سو حربے۔یہاں گلہ ھے  ڈائجسٹس میں گھسی خیالی دنیا بسائے کم عقل لڑکیوں سے،جوکہ ان "بےسہاروں" کا سہارا بنتے رابطہ نمبر کا تبادلہ کرتی ہیں اور پھر اس کے بعد ایک نا ختم ھونے والے کرب کا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے۔
ایک قسم اُن متقی و پرہیزگاروں کی ہے جن کی زندگی کا مقصد "بھٹکی" ہوئی خواتین کو راہِ مستقیم پر لاناہے۔اکثریت وہ ھوتی ھے جنہوں نے گھر میں ہر اُس شے پر چائلڈ لاک اور پاسورڈ لگا رکھا ہوتا ہے جہاں سے ان کے شغف بےپردہ ھونےکا خدشہ لاحق ہو۔یہ لوگ اپنےگھر کی خواتین کومکمل حجابی کیفیت میں دیکھنا پسند کرتے ہیں۔بس گیجیٹس میں کچھ پوشیدہ فولڈرز ان کے ایمان کو کامل بنا دیتے ہیں۔خاندان کی ہرلڑکی کوتاڑیں گےاوردوپٹہ ٹھیک سے اوڑھنےکی تاکید بھی ھوگی۔سوشل میڈیاپر محرم-نامحرم کی تبلیغ بھی ان جیسوں نے اپنے ذمے لے رکھی ھے۔کسی نے کہا تھا کہ یہ سستی جنت کےبیوپاری ہیں۔عورت کوسیدھی راہ سُجھائیں گے اورخودکوجنت میں کارنر پلاٹ کے مستحق سمجھتے گردن اکڑائے زمین پر چلیں گے۔مقصدِحیات لڑکیوں کی تصاویر وصول کرناہی ہوتا ہے۔اوقات ان کی فقط چائے کافی کی ایک دعوت تک محدود ہوتی ہے۔بعدمیں نجی محافل میں اس لڑکی کےکردارکے پرخچےاڑنا فرضِ عین ہے۔
سب سے خطرناک گِدھ نما بھیڑیے وہ ہیں جودرج بالا تمام منازل طے کرچکے ہوتے ہیں۔لہذا اِن کا طریقۂ واردات خاصا میکانکی اور تجربے سے بھرپور ہوتا ہے۔یہ لوگ آپ کو یونیورسٹیز، دفاتر، فیملی اور تقاریب تک 
 میں ملیں گے۔چھوٹی عمر کی خواتین عموماً اور خودمختار تنہا عورتیں خصوصاً ان کا مرغوب شکار ہیں۔پہلے تو "لاچار مجبورعورت" کی دُکھتی رگ کی کھوج کریں گے۔کامیابی کی صورت میں اسی پر بار بار چوٹ کی جائے گی تاکہ ضبط کھو کر رو دینے پر اپنا "مضبوط" کندھا فراہم کیاجائے۔یہ لوگ بظاہر نہایت شریف النفس ہوتے ہیں اور لیےدیےاندازمیں رہتےہیں۔یہی امپریشن دیا جاتا ہے کہ جناب کے معیار وگولز بہت بلند و بالا ہیں۔نجی زندگی میں بھی کامیاب و مطمئن ہونے کی شاندار اداکاری کریں گےتاکہ شکار کو یقین ہو جائے کہ محض اس کی بھلائی کیلیے اتنی فکرمندی لاحق ہے۔ایسے لوگ پبلک میں نارمل رہیں گے مگر ان باکس سے وٹس۔ایپ ، انسٹاگرام، وائبر اور پھراسکائپ کی منازل طے کرنا انہیں بخوبی آتا ھے۔ان منازل کی درجہ بندی کیلیے شرط یہ ہے کہ خاتون بے وقوفی کے کس درجے پر فائز ہے۔یہ آپ کے غم میں گُھلتے جائیں گے۔کہیں اسلام کا تڑکہ بھی گاہے بگاہے لگانا سود مند رہتا ہے۔اورساتھ میں یہ باور کروانا لازم ہے کہ اس معاشرے میں اکیلی عورت کی زندگی کٹھن اور پُرخطر ھے۔اکثر دیکھنے میں آیا کہ خفیہ شادیوں میں ڈاکٹریٹ کی اعزازی ڈگری کے حامل افراد ہوتے ہیں۔ اگر خاتون ثابت قدم ہو یا پہلی منزل پر ہی دامن بچا لے تو مردانہ انا پرگہری چوٹ کے باعث معافی کی گنجائش کم ہے۔اردگرد موجود لوگوں میں اچھی شہرت کا فائدہ اٹھاتےاُس واہیات، بےہودہ، بےشرم اور آزاد خیال عورت کی ساکھ خراب کرنے میں دو منٹ نہیں لگائیں گے۔ویسے بعض اوقات انصاف کچھ ایسا بھی ہوتاہے کہ خاتون ٹِکا کر ایسا معاشی و معاشرتی جھٹکا دیتی ہے کہ بندہ کسی کو بتانے لائق بھی نہیں رہتا۔وہی سیر کوسوا سیر والا محاورہ جناب۔۔۔ انہی کے بھائی بندو ہوتے ہیں جن کے طریقہ واردات میں بڑے مصنفین کے حوالہ جات، روشن خیالی کا ماسک، بزلہ سنجی اور مطالعہ کی وسعت کا برملا اظہار وقت بے وقت موجود رہتا ہے۔ قصہ مختصر کہ ہزارہا بار دہرائے جملے،اشعار، نثر اور بودے اظہارِ محبت ان کا کُل سرمایۂ فن ہوتے ہیں جس کی بنیاد پر مالی امداد قرضِ حسنہ کے نام پر وصول کی جاتی ہےلیکن انداز ایسا کہ جیسے احسان کررہے ہیں اور ان کی اولاد کے بہتر مسقبل کی ذمہ داری بھی ان کے شکار ہی کی ہے۔ رقم تو خیر کبھی لوٹانے کی نیت سے اینٹھی نہیں ہوتی، یہ بڑے کھلاڑی کبھی پکڑ میں نہیں آتے کیونکہ ان کے دفاع میں دوسرے بڑے نام قسمیں اٹھانے اور متاثرہ انسان کی کردار کشی کے ساتھ ساتھ سازشی کردار ثابت کرنے میدان میں موجود ہوتے ہیں۔ مجاں مجاں دیاں بہناں ہوندیاں نیں۔
مانتی ہوں کہ تالی دونوں ہاتھوں سے ہی بجتی ہے، ہاں مگر کبھی سوچیےگاکہ تالی میں ایک ہاتھ ہمیشہ عورت کے دُکھ کو ٹٹولتا اس کےبدن یا بینک بیلنس تک کیوں پہنچنا چاہتا ہے۔
ابھی جب یہ سطور تحریر کر رہی ہوں توجانتی ہوں کہ مجھےکیسے القابات سے نوازا جائےگا۔مگرپرواہ کسے ہے بھیا؟ شعور، سوال، کھوج، فہم اور آگہی آپ کو ملائکہ سے اوپر کے درجے پر فائز کرتے ہیں ان کو نظرانداز کرکے نچلے درجے پر آنا انسانیت کی معراج کی توہین ہے۔ آنکھیں کھلی، دماغ روشن و ہوادار ہو تو جذباتی پریشانیوں سےبچنا بےحد آسان رہتا ہے۔