کچھ عرصہ میں ایک خیال اپنی جڑیں اتنی مضبوط کرچکاھےکہ اب جھٹلاناممکن نہیں۔اردگردکیانظردوڑائیں اپنےگھروں سے ہی آغاز کرلیں تویقین ھوجاتاھےکہ ہم ذہنی طورپربیمارلوگ ہیں۔دوہرےمعیارنےحق بات سوچنےاوراس پرڈٹ جانےکاحوصلہ ھی چھین لیاھے۔دوغلےپن کی انتہایہ ھےکہ جواخلاقی برائی ایک عورت کیلیےسنگ باری کاباعث بنتی ھےوہی کام ایک مردتمغےکی طرح سینےپرسجائےاکڑکرچلتاھے،اورنجی محافل میں سینہ تان کرفخریہ پیشکش کےطورپر دہراتاھے۔
خاتون کیلیےبچپن کی دہلیز عبورکرتےھی سوال ناموں کی بارش مسلسل ہوتی ھے۔غیرشادی شدہ ھےتوشادی کےغم میں گھلتامعاشرہ،ھوجائےتوخوشخبریوں کےتقاضے،بیٹی پیداھوجائےتوبیٹے کی تلاش میں سرگرداں،بیٹاآجائےتو "جوڑیاں رلانے" کی آرزو۔اور"خوش قسمتی" سے دوبیٹے عطاءھوگئےتوپھراچانک بیٹی کی تمنا دل میں پال لی جاتی ھے۔
اس شادی کومعاشرےکاواحد مسلہءاورتمام مسائل کا واحدحل بھی سمجھ لیاگیاھے۔نکاح کےوقت عمرکافرق،شکل وصورت کاموازنہ کرکےاپنی پست ذھنیت کومکمل طورپر ایک دوسرےکےاذھان میں انڈیلاجاتاھے۔جبکہ لڑکی کواحساس دلوایاجاتاھےکہ احسانِ عظیم ھوگیاھے۔ایسےمیں اگرخدانخواستہ بیوہ ھوگئی ھےتواولادکوکم سنی میں یتیم ھونےکابھرپوراحساس کروانابھی فرضِ عین ھے۔اوراولادنہ ھوتوبیوہ کیلیےدوہراعذاب کہ کوئی "نشانی" ھی چھوڑجاتا۔
مطلقہ ھےتوبھی اسے تمام برائیوں اور غلطیوں کی گھٹڑی اکیلےھی اٹھانی ھے۔ایسےمیں اگرتووالدین حیات ھیں توکچھ بچت کی صورت قائم ھےبصورتِ دیگرکیسےبھائی،کہاں بھائی کی غیرت۔سب خواب وخیال۔پہلےبھی بوجھ اتارپھینکاتھااب بھی بھاری سِل آن پڑی ھےتوجیسےبھی نئی ھو ھٹاؤ بھیا۔نئی جہنم تلاش کرکےروانہ کردیاجاتاھے۔
غضب توتب ھےاگرخاتون تنہااورخودمختارھے۔غیرشادی شدہ ھےتوبھی اس کی ذات کےمتعلق ایسے طعنےاوربہتان گھڑکرپھیلائےجاتےھیں کہ خداکی پناہ۔شوہرفوت ھوگیا،یاکسی وجہ سےشادی ٹوٹ گئی توایسی صورت میں گدہ بناہرتیسرا شخص خاتون پرکم اس کی تنخواہ اورجائیدادپرزیادہ نظریں گاڑےبیٹھاھے۔ہرمحفل میں ایک ھی جملہ گونجتاھے۔۔۔۔۔۔"مردکاآسرا،نام اور چھت بہت ضروری ھے۔" اب یہ ایک الگ معاملہ ھےکہ تمام عمر اس نام نہاد "مرد" کو خاتون ھی کما کرکھلائے۔
بالفرض محال کوئی مطلقہ بہترمستقبل کاسوچتےنکاح کا حق استعمال کرنےکافیصلہ کرھی لیتی ھےتومجال ھےہم عزت سےیہ نیک کام ھولینےدیں۔اس کا ماضی ٹٹولنافرض ٹہرتاھےاورنشرواشاعت واجب۔اگرصاحب بھی عقدِثانی کررہےھیں تویہ ان کاحق ھےاوران کا "شانداروجاندار" ماضی تابناکی سےچمکتارھے۔اس پرانگلی اٹھاناگناہِ کبیرہ ھے۔خاتون اگرتین جوان بچوں کی والدہ ہیں تویہ طعنہ ھےمگرصاحب کی جوان اولاد ان کی شان ھیں۔ایسےمواقع پربڑےبڑے لبرلزاپنا ھی تھوکا چاٹتےدکھائی دیتےھیں۔
پہلےطلاق کیوں ھوئی؟ یہ سوال صرف عورت کیلیےضروری ھے۔مردکو نہ صرف استثنیٰ ھےبلکہ دوسری کو پہلی بیوی سےمکمل موازنےو تقابل کیلیےہمہ وقت تیاررھناھوگا۔تنقیدکرتےیہ نہیں سوچیں گےکہ اگرایساھی مکمل وخوبصورت رشتہ تھاتوایک جنریشن چھوٹی دوسری بیوی کی نوبت ھی کیوں آئی محترم کی زندگی کی آخری اننگ میں۔پنجابی کی ایک کہاوت مشہور ھے،جس کے مطابق "محلےوالے" ہی بسنےنہیں دیتے۔
جب دونوں عاقل بالغ ھیں،بال بچوں والےھیں تو کچھ سوچ کرھی زندگی میں آگےبڑھےھیں نا۔اب یہاں بھی آپ جیسے سماجی رابطےپراپنی بھڑاس نکالتے،زبان دراز اورڈارون کی تھیوری کوسچ ثابت کرنےوالوں کی سنیں؟ آپ کون ھوتےھیں سمجھانےوالےکہ کون اس فریم میں فِٹ بیٹھےگی اور کون اس قابل نہیں۔خود کا تویہ حال ھےکہ میٹرک کےبعدپڑوس کےانکل سے مشورہ ھوتاھےآگےکونسےمضامین پڑھےجائیں۔اپنی زندگی کاسب سے اہم فیصلہ کرنےکی صلاحیت نہیں مگرخاتون میں سارےجہاں کی برائیاں بھی دکھائی دیتی ھیں اور پہلی والی بھابھی دنیاکی بہترین خاتون قرار پاتی ھیں۔سمجھ نہیں آتی اس معاشرے کو کس نے اختیاردیا کہ مرد کو خدا بنائے اورجو عورت اس سے دوسری شادی کرےاس کو مغلظات سے نوازے۔اس کے پہننے اوڑھنےپر پابندیاں لگانے والے آپ کون ھوتے ھیں۔رھی سہی کسریہ کہہ کرپوری فرمادی جاتی ھےکہ شادی حریف کی گہری سازش ھے۔ واللہ اس طرح تو آپ خود اقرارکرتےہیں کہ صاحب میں قوتِ فیصلہ نہیں اور ارادے و ایمان کی پختگی سے عاری ھیں کہ کوئی بھی خاتون شیشےمیں اتار لے۔
جب کسی شخصیت سے اندھی عقیدت ھوجائےتواس کےسب عیوب بھی کارنامےدکھائی دیتےھیں۔چلیےیونہی سہی،مگرصاحب پھران کے شادی کے فیصلےکوبھی خندہ پیشانی سے قبولیت کا درجہ دےکر اپنی زبان کی خندق کو سکون سے بھرلیجیے۔آمرانہ وجارحانہ رویہ ان خاتون کا مقام تو شوہرکی نظرمیں گرا نہیں سکے گا مگرآپ کےگھڑےھوئےمسیحاکےفیصلےکامنہ ضرور چڑھائےگا۔
خاتون کیلیےبچپن کی دہلیز عبورکرتےھی سوال ناموں کی بارش مسلسل ہوتی ھے۔غیرشادی شدہ ھےتوشادی کےغم میں گھلتامعاشرہ،ھوجائےتوخوشخبریوں کےتقاضے،بیٹی پیداھوجائےتوبیٹے کی تلاش میں سرگرداں،بیٹاآجائےتو "جوڑیاں رلانے" کی آرزو۔اور"خوش قسمتی" سے دوبیٹے عطاءھوگئےتوپھراچانک بیٹی کی تمنا دل میں پال لی جاتی ھے۔
اس شادی کومعاشرےکاواحد مسلہءاورتمام مسائل کا واحدحل بھی سمجھ لیاگیاھے۔نکاح کےوقت عمرکافرق،شکل وصورت کاموازنہ کرکےاپنی پست ذھنیت کومکمل طورپر ایک دوسرےکےاذھان میں انڈیلاجاتاھے۔جبکہ لڑکی کواحساس دلوایاجاتاھےکہ احسانِ عظیم ھوگیاھے۔ایسےمیں اگرخدانخواستہ بیوہ ھوگئی ھےتواولادکوکم سنی میں یتیم ھونےکابھرپوراحساس کروانابھی فرضِ عین ھے۔اوراولادنہ ھوتوبیوہ کیلیےدوہراعذاب کہ کوئی "نشانی" ھی چھوڑجاتا۔
مطلقہ ھےتوبھی اسے تمام برائیوں اور غلطیوں کی گھٹڑی اکیلےھی اٹھانی ھے۔ایسےمیں اگرتووالدین حیات ھیں توکچھ بچت کی صورت قائم ھےبصورتِ دیگرکیسےبھائی،کہاں بھائی کی غیرت۔سب خواب وخیال۔پہلےبھی بوجھ اتارپھینکاتھااب بھی بھاری سِل آن پڑی ھےتوجیسےبھی نئی ھو ھٹاؤ بھیا۔نئی جہنم تلاش کرکےروانہ کردیاجاتاھے۔
غضب توتب ھےاگرخاتون تنہااورخودمختارھے۔غیرشادی شدہ ھےتوبھی اس کی ذات کےمتعلق ایسے طعنےاوربہتان گھڑکرپھیلائےجاتےھیں کہ خداکی پناہ۔شوہرفوت ھوگیا،یاکسی وجہ سےشادی ٹوٹ گئی توایسی صورت میں گدہ بناہرتیسرا شخص خاتون پرکم اس کی تنخواہ اورجائیدادپرزیادہ نظریں گاڑےبیٹھاھے۔ہرمحفل میں ایک ھی جملہ گونجتاھے۔۔۔۔۔۔"مردکاآسرا،نام اور چھت بہت ضروری ھے۔" اب یہ ایک الگ معاملہ ھےکہ تمام عمر اس نام نہاد "مرد" کو خاتون ھی کما کرکھلائے۔
بالفرض محال کوئی مطلقہ بہترمستقبل کاسوچتےنکاح کا حق استعمال کرنےکافیصلہ کرھی لیتی ھےتومجال ھےہم عزت سےیہ نیک کام ھولینےدیں۔اس کا ماضی ٹٹولنافرض ٹہرتاھےاورنشرواشاعت واجب۔اگرصاحب بھی عقدِثانی کررہےھیں تویہ ان کاحق ھےاوران کا "شانداروجاندار" ماضی تابناکی سےچمکتارھے۔اس پرانگلی اٹھاناگناہِ کبیرہ ھے۔خاتون اگرتین جوان بچوں کی والدہ ہیں تویہ طعنہ ھےمگرصاحب کی جوان اولاد ان کی شان ھیں۔ایسےمواقع پربڑےبڑے لبرلزاپنا ھی تھوکا چاٹتےدکھائی دیتےھیں۔
پہلےطلاق کیوں ھوئی؟ یہ سوال صرف عورت کیلیےضروری ھے۔مردکو نہ صرف استثنیٰ ھےبلکہ دوسری کو پہلی بیوی سےمکمل موازنےو تقابل کیلیےہمہ وقت تیاررھناھوگا۔تنقیدکرتےیہ نہیں سوچیں گےکہ اگرایساھی مکمل وخوبصورت رشتہ تھاتوایک جنریشن چھوٹی دوسری بیوی کی نوبت ھی کیوں آئی محترم کی زندگی کی آخری اننگ میں۔پنجابی کی ایک کہاوت مشہور ھے،جس کے مطابق "محلےوالے" ہی بسنےنہیں دیتے۔
جب دونوں عاقل بالغ ھیں،بال بچوں والےھیں تو کچھ سوچ کرھی زندگی میں آگےبڑھےھیں نا۔اب یہاں بھی آپ جیسے سماجی رابطےپراپنی بھڑاس نکالتے،زبان دراز اورڈارون کی تھیوری کوسچ ثابت کرنےوالوں کی سنیں؟ آپ کون ھوتےھیں سمجھانےوالےکہ کون اس فریم میں فِٹ بیٹھےگی اور کون اس قابل نہیں۔خود کا تویہ حال ھےکہ میٹرک کےبعدپڑوس کےانکل سے مشورہ ھوتاھےآگےکونسےمضامین پڑھےجائیں۔اپنی زندگی کاسب سے اہم فیصلہ کرنےکی صلاحیت نہیں مگرخاتون میں سارےجہاں کی برائیاں بھی دکھائی دیتی ھیں اور پہلی والی بھابھی دنیاکی بہترین خاتون قرار پاتی ھیں۔سمجھ نہیں آتی اس معاشرے کو کس نے اختیاردیا کہ مرد کو خدا بنائے اورجو عورت اس سے دوسری شادی کرےاس کو مغلظات سے نوازے۔اس کے پہننے اوڑھنےپر پابندیاں لگانے والے آپ کون ھوتے ھیں۔رھی سہی کسریہ کہہ کرپوری فرمادی جاتی ھےکہ شادی حریف کی گہری سازش ھے۔ واللہ اس طرح تو آپ خود اقرارکرتےہیں کہ صاحب میں قوتِ فیصلہ نہیں اور ارادے و ایمان کی پختگی سے عاری ھیں کہ کوئی بھی خاتون شیشےمیں اتار لے۔
جب کسی شخصیت سے اندھی عقیدت ھوجائےتواس کےسب عیوب بھی کارنامےدکھائی دیتےھیں۔چلیےیونہی سہی،مگرصاحب پھران کے شادی کے فیصلےکوبھی خندہ پیشانی سے قبولیت کا درجہ دےکر اپنی زبان کی خندق کو سکون سے بھرلیجیے۔آمرانہ وجارحانہ رویہ ان خاتون کا مقام تو شوہرکی نظرمیں گرا نہیں سکے گا مگرآپ کےگھڑےھوئےمسیحاکےفیصلےکامنہ ضرور چڑھائےگا۔