جمعہ، 26 اگست، 2016

سیاسی حرکیات اور کراچی



عمر گزر گئی ایک ہی رٹا رٹایا جواب سنتے "اماں چھوڑو۔ تم کیا جانو ۔کراچی کی سیاسی ڈائنامِکس مختلف ہیں۔"اور یہ کہنے والے اسی ملک کے باسی کہلواتے ہیں جہاں ہر سو کلومیٹر میں دو بار لوگوں کی بولی ، پکوانوں کے نام و لذت ، خوشی و سوگ کی رسومات اور خاندانی روایات بدلتی ہیں۔ "پتہ کدو کا نہیں اور باتیں کراچی کی سیاست کی۔" ایسا کہنے والے آپ کو کشمیر سے لے کر پسرور تک کی گلی محلہ تھڑا سیاست پر تجزیہ دیتے پائے جائیں گے۔دفاعی معاملات میں تو ایسے تاک کہ بس پوچھیے مت۔کور کمانڈرز میٹنگ کا احوال یوں بیان کریں گے کہ مانو وہیں میز تلے گھسے کسی بوٹ میں تسمے پرو رہے تھے۔تو ایسے میں کراچی کی حالیہ صورتحال پر تصویر کے اِس کونے کا ویو دیکھتے ہمارا حصہ ڈالنا بنتا ہے۔
چھ روز سے اربن سندھ میں اپنی مضبوط جڑیں اور الگ پہچان رکھنے والی سیاسی جماعت متحدہ قومی موومنٹ بھوک ہڑتالی کیمپ لگائے بیٹھی تھی۔ان کے تحفظات میں کارکنان کی گرفتاریاں ، لاپتہ افراد اور ماورائے عدالت قتل کے علاوہ دیگر معاملات شامل تھے۔جمہوریت پسندوں کے لیے یہ بات خوش آئیند تھی کہ ایک جماعت جِس پر عرصہ دراز سے اسٹیبلشمنٹ کی ٹیم کا لیبل چسپاں تھا اب دھیرے دھیرے قومی دھارے میں ڈھنگ سے شامل ہوتے سیاسی جماعت کا روپ دھار رہی ہے اور شاید یہ جمہوریت ہی کا سفر ہے جو قائدِ حزبِ اختلاف خورشید شاہ صاحب نے اس ہڑتالی کیمپ کا دورہ کیا۔گزارشات و تحفظات سنے۔ وفاق میں برسرِ اقتدار جماعت کا وفد اس کیمپ میں پہنچا۔بائیس اگست کی صبح تک خبریں تھیں کہ وفاقی وزیرِ اطلاعات پرویز رشید صاحب وزیرِاعظم پاکستان کی خاص ہدایت پر ڈاکٹر فاروق ستار کی سربراہی میں آنے والے ایک وفد سے مِلے۔ دوسرا وفد وزیرِاعلیٰ سندھ سے ملاقات میں تحفظات بیان کرتا پایا گیا۔ اس ملاقات میں کنور نوید ، خواجہ اظہار الحسن ،سید سردار احمد ، نثار کھوڑو ، مولا بخش چانڈیو اور مرتضیٰ وہاب موجود تھے۔یعنی صوبائی و وفاقی حکومتیں مذاکرات کرنے اور تحفظات دور کرنے کی جانب سنجیدگی سے راغب تھیں۔ان تمام تر کاوشوں میں ایک سیاسی جماعت کی تکلیف سمجھنے کی راہ سجھائی دے رہی تھی کہ خبر آتی ہے کہ اس جماعت کے سربراہ نے ستاسی ہزارویں مرتبہ مستعفیٰ ہو کر کارکنان کی پُرزور اپیل پر خود  کو حسبِ روایت بحال کرلیا ہے۔بات یہاں تک رہتی تو عوام اہمیت نہ دیتے لیکن اُنہیں یہ کیا سوجھی۔۔۔
"پاکستان پوری دنیا کے لیے ایک ناسور ہے۔پاکستان دنیا کے لیے ایک عذاب ہے۔۔پاکستان دنیا کے لیے دھشتگردی کا ایک سینٹر ہے۔۔۔ پاکستان مردہ باد۔۔۔  بلال اکبر کو الٹا لٹکاؤں گا۔۔۔ اے۔آر۔وائے ، سماء اور جیو کو جا کر توڑا کیوں نہیں؟ "
اگرچہ ہم روزانہ
شام سات بجے سے رات بارہ بجے تک عوامی ووٹوں سے منتخب ہوکر آئے سیاستدانوں پر کیچڑ اچھالنے کا سرکس دیکھنے کے عادی ہوچکے ہیں۔ اس پرائم ٹائم منڈوے میں کوئی غدار ہے تو کوئی مودی کا یار ، فلاں ایجنٹ ہے تو ڈھمکاں کافر اور کچھ نہیں تو صدرِ مملکت کو حقارت سے "دہی بھلے بیچنے والا" یا پھر  کسی کو میٹر ریڈر ، منشی کا ٹیگ لگانا اب دانشوری اور تجزیہ نگاری کہلواتا ہے۔وہی گِنے چُنے چہرے اور وہی گھسے پِٹے موضوعات۔لیکن الطاف حسین صاحب نے تو ملکی "وقار"  کو لٹکانے کی بات کردی۔
پاکستان مردہ باد کا نعرہ آزادئ اظہار کے زمرے میں رکھیے لیکن یہ یاد رہے کہ سقوطِ ڈھاکہ ہو، ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی یا پھر  بینظیر بھٹو کی شہادت ۔ہر طرح کی تکلیف دہ صورتحال میں ریاست واسطے ایسے نفرت بھرے ٹیکے کسی نے نہیں لگائے تھے۔اور ایک نام نہاد معذرت نامہ جانے کِس نے جاری کروایا جِس کے چوبیس گھنٹوں کے اندر "صاحبَ کیفیت" بھارت سے معافی تلافی اور اسرائیل سے مدد کے طلبگار دکھائی دیے۔ مسئلہ واقعی جذب کی کیفیت کا معلوم ہوتا ہے۔بات بہرحال اپنے پیروکاروں کو تشدد پر اکسانے کی کرلیتے ہیں۔اگرچہ یہ کوشش نہ تو پہلی بار ہوئی اور نا ہی صرف اسی ایک سیاسی جماعت کا پلیٹ فارم اس مقصد کے لیے استعمال ہوا۔دو سال قبل اسلام آباد کے ریڈ زون کا سرکس یاد کیجیے۔جنگ اور جیو نیوز کے دفاتر پر پتھراؤ ، فیلڈ رپورٹرز کی ٹھکائی ، پانی کی بوتلیں پھینک کر خواتین رپورٹرز/اینکرز کو ہراساں کرنا۔ دو ہزار چودہ میں پارلیمنٹ ہاؤس کی دیوار اور گیٹ توڑا گیا ، عدالتِ عظمیٰ کے جنگلوں پر شلواریں ٹانگی گئیں ۔ یکم ستمبر دو ہزار چودہ کی صبح پی۔ٹی۔وی کی نشریات بند کروا کر دو  پریشر گروپس "فتح" کا اعلان کرنے کے منتظر تھے۔اور وہ  لیکڈ آڈیو تو یاد ہوگی "اچھا ہے اچھا ہے۔۔۔ہمیں دکھانا ہے کہ صورتحال ان کے قابو سے باہر ہے۔" اس سے بھی کہیں پہلے انیس سو نناوے کی ایک تصویر ہے جِس میں کچھ وردی والے اسی عمارت کا داخلی گیٹ پھلانگ کر شب خون مار رہے ہیں۔۔۔راستہ کِس نے دکھایا؟ روایت کِس نے ڈالی اور سزا کب کِس نے بھگتی؟ یہ سوالات پھر سہی۔ کیا ایم کیو ایم کی جانب سے بھی کسی نے  اعلان کیا یا دادِ شجاعت دی کہ ہمارے لوگ فلاں ٹی وی سٹیشن پر قابض ہوگئے ہیں؟ ایسا کیسے ممکن ہوا کہ اِدھر تقریر ہوئی اور اُدھر دس منٹ کے اندر مختلف سمتوں سے نقاب پوش ٹولیوں کی صورت اُمڈ آئے ؟ یہ تو فوٹیج میں  ایک نجی ٹی۔وی چینل پر خواتین ڈنڈے لہراتی توڑ پھور میں مصروف دکھائی دیں لیکن سڑکوں پر نقاب پوش کون تھے جو قومی پرچم جلاتے دیکھے گئے ؟ ایسی تنظیم وہ بھی آناً فاناً ، کمال ہے بھئی۔
معافی یا معذرت اگرچہ آدھا اقرارِ جرم ہوتا ہے۔ مصطفیٰ عزیز آبادی کا فوری ردِ عمل یہ تھا کہ "چند شیشے ٹوٹ گئے تو کیا قیامت آگئی۔ہمارے کارکنان شہید ہوئے وہ واپس نہیں آئیں گے۔" کیا کہنے اِس منطق کے اورآفرین ہے اس دفاعی صلاحیت پر۔
یہاں تک کی تمام قسط میں محسوس ہو رہا تھا کہ گھر کو آگ لگی گھر کے چراغ سے کے مصداق ایک کمیونٹی کو اون کرنے والی جماعت کے سربراہ نے "کیفیت"  کے عالم میں سب کچھ ختم کرڈالا ہے۔ لیکن بھلا ہو بھائی ٹھاکر کا کہ جِس طرح معزز اراکینِ قومی اسمبلی  کو دھکیل کر پریس کانفرنس سے قبل حراست میں لے کر گئے۔تو وہ آوازیں جو کچھ لمحے قبل تک قبیح نعروں اور تخریبی رویے پر لعن طعن میں مصروف تھیں انہیں موقع فراہم کردیا کہ اپنی جماعت اور کمیونٹی کے ساتھ غیرامتیازی سلوک پر واویلا مچائیں۔نائن زیرو کو سیل کرنا اور حیدرآباد تک کے دفاتر سیل/مسمار کردینے کا مقصد کیا ہے بھیا؟ کالعد قرار دیا ہے کیا؟ اور جو ایسا کربھی دیں تو کیا ایک سیاسی حقیقت کو یوں مٹایا جاسکتا ہے ؟ ق لیگ لا کر کیا مسلم لیگ ن کو مِٹایا جا سکا؟ کوئی یہ بھی بتلائے  کہ کالعدم مذہبی تنظیموں کے کتنے دفاتر اب تک آپریشنل ہیں اور کِتنوں پر قفل ڈالے گئے ؟ ہم تو یہ بھی نہیں پوچھ سکتے کہ کِس قانون کے تحت پکڑ دکڑ اور تالہ بندی جاری ہے۔کیونکہ پھر بات نصرت بھٹو کی تکالیف سے بھی پہلے کی کرنا پڑے گی۔بےنظیر کے ساتھ ناروا سلوک بھی ہم نہیں بھولے۔بیگم کلثوم نواز کی گاڑی والا واقعہ ہو یا پھر پوچھا جائے کہ لاہور ائیرپورٹ پر نواز شریف کے ساتھ کیا کچھ کیا گیا۔ منتخب وزرائے اعظم کو جیلوں میں پھینکنا اور سیاسی کارکنان کی مونچھیں مونڈھ کر نیم برہنہ حالت میں تشدد سے ادھ مویا کرکے سڑک کنارے پھینک جانا، خواتین کارکنوں پر تشدد ، چیف جسٹس کو بالوں سے گھسیٹنا۔۔۔ اس بارے ایک گہرا سناٹا ہے۔لہذا آپ اتنا یاد رکھیے کہ کسی نہ کسی موقع پر کوئی نہ کوئی پہچان والوں کی کمبختی آتی رہنی چاہیے۔رونق میلہ لگا رہے تو کارگل ، سانحہ بارہ مئی ، آرمی پبلک سکول یا پھر سانحہ کوئٹہ۔۔۔ کسی بھی انسانی سانحے کو یاد رکھنے کا وقت اور ٹی۔آر۔پی دوڑ  کہاں میسر آتی ہے جناب۔
اعلانِ لا تعلقی کی بھی خوب رہی۔ سال تھا شاید انیس سو بانوے اور یہی کوئی تین ماہ تک فیصلہ سازی سے علیحدگی اختیار کرنے کے بعد بھائی جی کی واپسی شان سے ہوگئی تھی۔لیکن آج کی صورتحال میں مارجن تو دینا ہی پڑے گا۔تین دہائیوں میں پہلی بار کائنات کی مشکل ترین جاب پر بیٹھا شخص یہ جملہ نہیں ادا کر پایا، "بھائی کے بیان کو سیاق و سباق سے ہٹ کر دیکھا جارہا ہے۔۔" کچھ مہلت تو دینی ہی پڑے گی۔جب ایک جماعت اپنی ہی اصلاح کی غرض سے مستقبل میں سنبھل کر اٹھنے کی کوشش کررہی ہے تو خوامخواہ کی ٹھاکرگیری کے ذریعے آپ ان کی خاموش سپورٹ میں اضطراب پیدا کرکے مزید پکا کرنے کا کارِ خیر سرانجام دیتے بھلے معلوم ہورہے ہیں۔ لگے رہیے۔
باقی یہ کہ سارے قصے میں سمجھ یہ بھی آتی ہے کہ جِس طرح افغان سِموں کے آوارہ سگنلز گندے ہوتے ہیں یونہی ایک صوبے کی گورنری کے ڈالے دانے کو سگنلز سمجھ کر پکڑنا بھی خواری کا سبب بن سکتا ہے۔پھر بندہ میدانِ یوٹرن میں اترنے پر مجبور ہو کر کانوں کو ہاتھ لگاتے سیاست سے بھی توبہ کرلیتا ہے۔
تاریک کمرے میں روشن لالٹین کے سامنے ہاتھوں کی مدد سے سامنے والی دیوار پر دیو ہیکل سائے والی اشکال تو سب ہی بناتے ہیں۔یونہی غور کرلینے میں کیا حرج ہے۔ کون جانے کہ پرائم ٹائم چکاچوند کے سامنے کِس کا ہاتھ عوام کے ذہن پر نقش و نگار بنا رہا ہے۔اور بطور ایندھن کون استعمال ہو رہا ہے۔
تو بھیا عرض صرف اتنی ہے کہ سیاست، ریاست ، آمریت ، جمہوریت ، انسانیت ، اور دیگر " ست و یت " کے علاوہ ہم جِس خطے میں رہتے ہیں یہاں کی سیاسی جماعتوں کی جبلت کے بنیادی اصول وہی ہوا کرتے ہیں لہذا خوامخواہی کی خفت مٹانے کو ایسے جملے تراش کر کوتاہیوں کی پردہ پوشی سے اجتناب مناسب ہے۔ بات کیجیے اور کرنے دیجیے کہ بہت سے معتدل مزاج اور آزاد سوچ رکھنے والوں کو آپ کی حقارت و نخوت سوچنے پر مجبور کردیتی ہے کہ انہیں کیا افتاد آن پڑی ہے جو آپ کے ساتھ ہونے والی نا انصافی پر آواز اٹھائیں
 کیونکہ جب آپ کی غلطی کی نشاندہی پر تذلیل ہی سہنی ہے اور وہی گھسا پِٹا جواب آنا ہے "اماں چھوڑو! تم کیا جانو کراچی کی سیاست۔"

بدھ، 10 اگست، 2016

غدار سوالات


بلوچستان کی عجب قسمت ہے کہ پرنٹ ، الیکٹرانک اور سوشل میڈیا پر توجہ کا مرکز بننے کے لیے اپنے جوان لاشے دفنایا کرتا ہے۔۸  اگست کو ایک سفاک منصوبے نے بلوچستان بار ایسوسی ایشن کے صدر سمیت وکلاء برادری کی پوری ایک نسل ختم کرڈالی اور دو ٹی۔وی چینلز کے کیمرہ مین بھی شہید ہوگئے۔
سماجی رابطے کی ویب سئٹ پر ایک وکیل برخوردار خان اچکزئی کے مطابق انہیں 6 سال ہوئے لاء لائیسنس لیے ۔گزشتہ ستمبر بلوچستان بار ایسوسی ایشن جوائن کیا۔ نو ماہ کوئٹہ گزارے اور اب ان کے بیچ کے سب لوگ بلوچستان میں ٹاپ پریکٹسنگ وکیل بن گئے ہیں کیونکہ فی الحال وہ زندہ ہیں۔ پچیس تیس سال قانون کی تعلیم، کچھ برس نچلی عدالتوں کے دھکے اور آٹھ دس سال اعلیٰ عدالتوں کا تجربہ۔۔۔حاصل وصول کیا ہوا؟ قربانی کا بیانیہ اور ہم نہیں بھولیں گے وغیرہ؟ تو ان جوانوں کی مائیں سرحد پر ہی بھیج دیتیں ملک کی حفاظت کے لیے۔ کیا ضرورت آن پڑی تھی دیگر عصری میدانوں میں بچے کھپانے کی۔ تمام سینیئر وکلاء اور بیرسٹرز شہید کردیے گئے۔یہ شہداء جو لاپتہ افراد کے مقدمات لڑ رہے تھے۔بلوچوں کے لیے برابری کے انسانی حقوق مانگنے میں پیش پیش تھے۔مسخ شدہ لاشوں کے بارے میں سوال اٹھانے کی جسارت کیا کرتے تھے۔ان سب کے یکدم چلے جانے سے اب سوچیے کہ سینکڑوں جونیئر وکلاء بےروزگار ہوگئے۔ان کے گھروں میں بھوک کیسے ناچے گی۔
دو روز سے خود کو یہ سمجھانے کی کوشش میں مصروف ہوں کہ ریاست کے بیانیے سے متضاد سوالات کرکے غدار اور ایجنٹ کہلوانے سے بہتر ہے خاموش رہوں۔لیکن سوال اور جستجو کی لَت لگ جائے تو کہاں چھوٹتی ہے۔کہتے ہیں ردِعمل میں مت بہیں،طنز نہ کریں،ریاست کا ساتھ دیں اور یہاں ساتھ سے مراد سیکیورٹی اداروں کو جوابدہ نہ سمجھنا ہے۔مجھ پر لیکن ایک عام پاکستانی کی حیثیت سے نشاندہی کرنا فرض ہے کہ آپ کے بیانات میں کتنا اور کہاں کہاں جھول ہے۔
فرمایا "آپریشن ضربِ عضب سے گھبرا کر شدت پسند عناصر بلوچستان میں آگئے ہیں۔" مناسب ہوگیا۔تو کیا اس سے قبل بلوچ مائیں اپنے بیٹوں کے ماتھے بِنا فکر کے چوما کرتی تھیں ؟ چلو مان لیا ایک منٹ کو لیکن پھر مجبور ہوں آپ کو ۸ اگست ۲۰۱۳ء یاد کروانے پر۔پولیس لائنز کوئٹہ میں ایک روز قبل فائرنگ سے شہید ہوجانے والے ایس۔ایچ۔او محب اللہ جان  کے نمازِ جنازہ میں شریک لوگوں کو خود کش حملے میں شہید کردیا گیا۔جن میں ڈی۔آئی۔جی آپریشن فیاض احمد سنبل، ایس پی انور خلجی اور ڈی ایس پی شمس سمیت انتالیس افراد شامل تھے۔اس سے پہلے ۱۶ جون کو سردار بہادر خان وومین یونیورسٹی کی بس میں دھماکہ ہوا چودہ طالبات شہید ہوئیں جبکہ زخمیوں کو جونہی بولان میڈیکل کمپلیکس منتقل کیا گیا تو دوسرا دھماکہ ہوا اور ڈپٹی کمشنر کوئٹہ ، اور ایف۔سی کے جوانوں سمیت مزید شہادتیں ہوئیں۔یہ محض تین واقعات کی تفصیل اس لیے یاد کروائی ہے کہ کوئٹہ شہر نے ۸ اگست ۲۰۱۶ء پہلے بھی بھگتایا ہے جناب۔ وہی انداز،وہی طریقہ واردات اور تاریخ بھی۔
اگلا بیان تھا "راء نے کروایا ہے" ۔ حالیہ کوئٹہ سانحے میں ایران ، افغانستان یا بھارت کسی کا بھی ہاتھ ملوث ہوسکتا ہے۔بالکل بیرونی فنڈنگ ہوسکتی ہے۔لیکن کیا ہم یہ بات نظر انداز کردیں کہ گھر کے اندر سے مدد مِلے بغیر ایسی کاروائیاں ممکن ہی نہیں ؟ حیرت ہے کہ بِنا تفتیش پندرہ منٹ میں نتیجہ کیسے اخذ کرلیا گیا۔اور پھر ہم عامیوں کو سوال کی اجازت بھی نہیں۔ مانتی ہوں کہ ہم ایک ایسے خطے میں رہتے ہیں جہاں شرپسندوں کو دہائیوں تک اثاثے قرار دے کر دودھ پِلایا گیا اور قوم حالتِ جنگ میں ہے لیکن ایسا شہر جہاں ایف۔سی اہلکاروں اور چیک پوسٹس کی تعداد گِنواتے سانس پھول جائے وہاں ایک منظم منصوبے کی تشکیل ہفتوں نہیں مہینوں میں مکمل ہوئی ہوگی اور تعمیل جب ہوئی تو ریپڈ رسپانس فورس کہاں تھی؟آپ یہ کہہ کر بری الذمہ نہیں ہوسکتے کہ ہسپتال میں افراتفری کےدوران کوئی داخل ہوگیا۔منظم منصوبہ بندی سے تیسری بار اسی طرز کا تکنیکی طور پر فول پروف منصوبہ تھا ۔پہلے صدر بار ایسوسی ایشن کو بطور چارہ نشانہ بنایا جانا اور اگلی قسط پہلے سے تراش کر شعبہ حادثات میں فِٹ کر رکھی تھی۔ یاد رہے اس وقت ہسپتال میں معمول کی آمد و رفت ہوگی۔کوئی ایمرجنسی یا افرتفری نہیں تھی۔چھبیس ایجنساں ، نیکٹا ، نمبر وَن انٹیلیجنس کے دعوے اور ایسا طمانچہ؟ یہ کولیشن سپورٹ فنڈ کیا بلا ہوتی ہے ؟ ہم نے نیشنل ایکشن پلان کا سُنا تھا کہ کوئی کمال ہی اقدام ہے۔ تو یہ جو کالعدم جہادی تنظیمیں ملک بھر میں دندناتی پھر رہی ہیں۔نام بدل کر چندے خیرات کی بھیک مانگ رہی ہیں ۔عام شہریوں میں نفرتوں کے بیج بوتے  اہم عسکری شخصیات کی تصاویر والے پوسٹرز اٹھائے ریلیاں نکال رہی ہیں ۔اِن اثاثوں بارے کب ایکشن لیا جائے گا ؟
پھربیان آیا کہ اقتصادی راہداری دشمن کی آنکھ میں کھٹکتی ہے۔ سی۔پیک نہ ہوا بڑھاپے کی اولاد ہوگئی یا پھر گاؤں میں بانگ دینے والا واحد کُکڑ۔ تو صاحب ۳ ستمبر ۲۰۱۰ء کو میزان چوک کوئٹہ میں یوم القدس منانے والے ۶۷ شہید ، ۱۰ جنوری ۲۰۱۳ء کو علمدار روڈ پر ۱۰۶ شہداء  کے لواحقین کِس سے پوچھیں اور ان جیسے درجنوں واقعات  کو سانحات بنانے والے کِس راہداری سے حسد کررہے تھے؟
پھر کہا کہ آسان ہدف کو نشانہ بناتے ہیں۔ تو یعنی آپ کی نیول بیسز ، زیارت ریزیڈینسی ، واہگہ بارڈر سافٹ ٹارگٹ تھے؟ کوئٹہ ہی میں کمشنر آفس کے قریب ڈی۔آئی۔جی فرنٹیئر کور برگیڈیئر فرخ شہزاد کی رہائش گاہ پر بارود سے بھری گاڑی ٹکرا دی جاتی ہے۔جِس میں ان کی اہلیہ ، ایف۔سی کا کرنل اور دیگر اہلکاروں سمیت تیس افراد جان سے گئے۔شاید آسان ہدف ہونے کے باعث۔ ویسے جی۔ایچ۔قیو پر حملے میں کتنے گھنٹوں تک آپریشن جاری رہا ؟ چلو مان لیا کہ گلشن پارک لاہور اور چارسدہ یونیورسٹی آسان ہدف ہوں گے تو کیا آرمی پبلک سکول بھی اتنا ہی سافٹ ٹارگٹ تھا ؟ وہاں تو زخمی بچوں کو بیرون ملک تفریحی دوروں پر بھیج دیا گیا تو یہ جو وکلاء کی ایک نسل قبروں میں جا پڑی ہے ان کے لواحقین کیا اب صرف نوحہ وغیرہ لانچ کرکے بہلائے جائیں گے؟ کیمرہ مین شہزاد اور محمود خان کے یتیم بچے دشمنوں کو پڑھانے سے قبل خود پڑھ پائیں گے؟
ان سوالات کو دبانے کا آسان حل یہ نکالا گیا ہے کہ جو کرے اس کو غدار کہلوایا دیا جائے۔راء ایجنٹ قرار دے کر تذلیل کی جائے۔پھر چاہے وہ آئینِ پاکستان کے تحفظ کا عہد کرکے رکن قومی اسمبلی ہی کیوں نہ بنا ہوا ہو۔کیا ہم اپنے محافظوں سے وجہ پوچھنے کا حق اختیار بھی نہیں رکھتے؟ حب الوطنی کا تمغہ جیتنے کو ہر غلطی ، سیکیورٹی لیپس اور بےڈھنگے بیانیے کا دفاع خود پر فرض کرلیں ؟
الیکٹرانک اور سوشل میڈیا پر جشنِ آزادی کی خوشیاں منانے کا عندیہ دے کر سوگواران کی ہمت بندھانے کا نیا راستہ تلاش کیا ہے۔جِس گھر میں ستر سے زائد لاشیں پڑی ہوں،معاشرے کا باشعور ستون ہِل گیا ہو وہاں قبر کی مٹی سوکھنے والی مثال کا وقت بھی نہیں آیا۔تدفین سے قبل تالیاں پیٹ پیٹ کر "مِلی جوش و جذبے" کے سٹیرائڈز لگائے اور پھانکے جا رہے ہیں۔آرمی پبلک سکول سانحے کےبعد یومِ قائد کی تقریبات اور کرسمس سادگی کےآخری دائرے میں چلی گئی تھیں۔تو کیا میرے پشتون اور بلوچ بھائیوں کی اتنی بھی وقعت نہیں؟
اگلےروز قومی اسمبلی میں کوئٹہ سانحہ پر مذمتی قرارداد متفقہ طور پر منظور کرلی گئی ۔جی ہاں وہی مذمتی قرارداد جو سانحے کی شام کورم پورا نہ ہونے کے باعث کھٹائی میں پڑ گئی تھی لیکن معمول کی کاروائی روک کر ہمارے عوامی نمائندوں نے تقاریر کیں اور خوب آنسو بہاتے بلوچستان میں خونِ ناحق پر افسوس کا اظہار کیا۔اور آج سنا ہے قومی اسمبلی کے اہم ترین اجلاس میں پھر کورم پورا نہیں تھا۔یہاں کون ہے جو فرائض کی ادائیگی میں ڈنڈیاں نہیں مار رہا ؟
قیامتِ صغریٰ کی اصطلاح کب تک ہمارے ہاں بار بار دہرائی جاتی رہے گی؟ یہ کہہ دینا کہ ہزاروں کی تعداد میں سالانہ دھماکے اب سینکڑوں میں آگئے ہیں شاید ریاست کو تو مطمئن کرسکتا ہے لیکن کسی یتیم ، بیوہ اور بےسہارا لاغر ماں  کو ان اعداد و شمار سے بہلانا ممکن نہیں ہے۔یہ طویل جنگ ہے،لڑ رہے ہیں اور جانے کب تلک لڑتے رہیں لیکن خدارا فوری ردِعمل دیتے اپنے الفاظ، عہدہ اور بیان کے دور رس نتائج کو سامنے رکھ لیا کیجیے۔

منگل، 9 اگست، 2016

یہ ہماری ثقات نہیں

"رہے گا تو میراثی کی اولاد ہی ۔کنجر ہی کہلوائیں گے۔"
یہ جواب تھا ایک گروپ ایڈمن کی جانب سے جب میں نے فقط اتنا کہا کہ لوک گلوکار شوکت علی کا بیٹا ایچی سن کا ہونہار طالبعلم رہا ہے اور اپنے والد کے فن کو آگے بڑھا رہا ہے۔خوشی مجھے یہ تھی کہ ہمارا لوک ورثہ اگلی نسل کو منتقل ہورہا ہے جو تعلیم کے میدان میں بھی کامیاب ہے لہذا فن کو نئی جلا بخشیں گے۔ردِعمل مایوس کُن تھا ، حیران کُن نہیں۔وجہ آگے چل کر بیان کرتی ہوں پہلے یہ بتاتی چلوں کہ یہ ایڈمن صاحب موسیقی کی ہر محفل اور کانسرٹس کے پاسز حاصل کرنے کو دنیا جہان کی سفارشیں لگوا لیتے ہیں۔پلٹ کر سوال کرنے کی ہمت نہ تھی کہ بھیا میراثیوں کو سننے والے کیا کہلوائیں گے؟ کیونکہ جواب آتا "فن کے قدردان۔۔۔"
یہ صرف فنِ موسیقی سے منسلک افراد کا دُکھ نہیں ،حیرانی مجھے اس لیے نہیں ہوتی کہ ایسا سلسلہ کافی عرصے سے چل نکلا ہے،بلکہ متوسط طبقے کو منظم طریقے سے احساس دِلوایا جاتا ہے کہ وہ کِس قدر غلیظ بلکہ نالی کے کیڑے ہیں۔کلرک ، لوہار ، موچی ، کمہار ، جولاہا ، چپڑاسی ، لائن مین ، ترکھان اور ایسے کتنے ہی پیشے ہیں جو اب بطور طعنہ اور گالی استعمال ہونے لگے ہیں۔ہنرمندی کو شرمندگی کا باعث بنا دیا گیا ہے۔فیشن چل نکلا ہے کہ اجداد کی مہارت اور فن سے منسلک رہنے والے کتنی ہی ترقی کر جائیں انہیں "اوقات" یاد کرواتے رہنا چاہیے۔نیوز چینلز کے پرائم ٹائم میں عوام کی نباضی کے دعویدار کِس حقارت آمیز لہجے میں کسی کو "کباب لگانے والا ، دہی بھلے بیچنے والا ، منشی" اور ایسے ہی القابات سے یوں نوازتے ہیں کہ مانو ان پیشوں سے رزق روزی کمانے والے بردہ فروشی میں ملوث ہیں۔جمعدار اور لفظ چُوڑا کو جِس طرح سے نتھی کرنے کا رواج ڈال دیا گیا ہے وہ  ایک محنتی طبقے کے ذہنی و سماجی استحصال کا موجب بن رہا ہے اس کا نتیجہ مثبت تو نکلنے والا ہے نہیں۔لیکن فکر مندی کی بات نہیں کیونکہ نام نہاد شرفاء کو اسی طبقے کے پرمٹ سے "فیضیاب" ہونے کی راہ ہمیشہ کھلی ملتی ہے۔
ایک شے ہوا کرتی ہے پیشے کا ایمان۔کبھی بچپن میں سنی تھی یہ اصطلاح لیکن اب ان باتوں کو سکھلانے والے بھی نہیں ہیں اور ماننے والوں کا بھی قحط پڑا ہے۔حد تو یہ ہے کہ اپنی خوشیوں کو چار چاند لگانے اور مسکراہٹیں بانٹنے واسطے جِن فنکاروں کو بلوایا جاتا ہے، آپسی رنجش میں اسی پیشے کو بطور گالی "فلاں تو شکل عقل سے ہے ہی بھانڈ" استعمال کرلیا جاتا ہے۔زیادہ بحث کی صورت میں تاویل جو آتی ہے وہ خاصی مضحکہ خیز ہے ۔۔۔یہ ہماری ثقافت نہیں۔
ثقافت کی بھی خوب کہی ۔ جس برصغیر پر گورے کی حکمرانی کے مظالم گنواتے منہ نہیں سوکھتا وہاں کی ثقافت کیسے صدیوں میں بنی اور پروان چڑھی اس بارے یہ تمام ناصح بالکل خاموش ہیں۔اسلام اور کسی علاقے میں بستے انسانوں (مسلمانوں) کی معاشرتی و ماحولیاتی ضروریات کے مطابق بود و باش کو مترادف یا متضاد کرکے کوئی خدمت تو سرانجام نہیں دی ہاں آپ کارنامہ گردانتے رہیں تو اور بات ہے۔کسی بھی مذہب کی تاریخ اور ایک خطے میں زمانوں تک مل جُل کر رہنے والوں کی تاریخ ۔۔۔فرق ہے،جِس کو سمجھنا ہی نہیں چاہتے۔لہذا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ 
Identity Crisis   یعنی شناختی بحران دماغوں اور انفرادی و اجتماعی شخصیت پر حاوی ہوگیا ہے۔اپنی معاشرتی برائیوں کو پلکوں سے چُن کر سینے سے لگا رکھا ہے جبکہ اچھی باتوں کو اسلام سے جوڑ کر پتلی گلی سے نکل لیے۔تہواروں، رسومات اور میلے ٹھیلوں کو فرزندانِ دین مشرف بہ اسلام کرنے میں سُستی دکھاگئے لہذا ایک ایک کرکے معاشرے میں مسکراہٹوں کے تبادلوں والے تمام مواقع خلیج گہری کرنے کے لیے بدستور سسک کر مرنے پر مجبور کر دیے گئے ہیں ۔
عام فہم میں زبان،لباس،ادب، موسیقی ، غذا اور تہوار سے مِل کر معاشرتی و سماجی معاملات کا جو رنگ نکلتا ہے اسے ثقافت کہتے ہیں۔زندہ اقوام  اپنی تہذیب و تمدن کو سینے سے لگائے فخر کیا کرتی ہیں لیکن ہمارے حصے وہ مولوی ضیائی نسل آئی ہے جِس کے مطابق عربوں کی روایات اور معاشرتی بود وباش شُدھ اسلامی ہے جبکہ برصغیر کی اپنی ثقافت گئی بھاڑ میں۔  علاقائی اور اسلامی معاملات کو کوٹ پیس کر جانے کون سا چورن بنا چھوڑا ہے۔یہ محنت مزدوری قابلِ کراہت  ، وہ کاروبار باعزت ، فلاں ذات اعلیٰ و ارفع اور باقی سب ارزاں مخلوق۔ ذہنی ارتقاء کے نام پر نادیدہ لوہے کے کڑے چڑھا دیے گئے ہیں افراد کی سوچ پر جہاں بہن  کو قتل کردینا غیرت کا معیار بن گیا ہے اور بیٹی یا بیوی کا معاشی مضبوطی کے لیے کام کاج کرنا بے غیرت ہونے کی علامت بن گیا ہے۔
متوسط طبقے کو ہر لحاظ سے تنہا کردینے کا رجحان اگلی نسلوں میں احساسِ کمتری کے علاوہ متذلل خود اعتمادی کی وجہ بن رہا ہے لیکن جناب یاد رہے "یہ ہماری ثقافت ہے۔"

جمعہ، 5 اگست، 2016

بھکاری حال و مستقبل

اس برس لاہور سے گرمیوں کی چھٹیاں گزارنے آئی بھتیجیوں کو جڑواں شہروں کی سیر کروانا ہمارے فرائضِ منصبی میں شامل رہا۔آٹھ روز میں ٹورسٹ گائیڈ اور ڈرائیور بننے کے دوران ہر عوامی و تفریحی مقام گھومتے مسلسل دل و دماغ میں چھوٹے چھوٹے دھماکے ہوتے رہے۔اور ابھی کچھ فرصت ملی ہے تو معذرت کہ راولپنڈی اسلام آباد کے کسی مقام کی خوبصورت یادیں تحریر کرنے کی بجائے بحثیت مجموعی معاشرے کے نظام میں دعووں کے پول کھولتی مکروہ تصویر دکھانا چاہوں گی ۔
آغاز کیے لیتے ہیں نیچرل ہسٹری میوزیم سے جس کے اندر اور باہر سکوت کے باعث کوئی چھابڑی تو کیا بھکاری تک دکھائی نہیں دیتا۔جب رواج ہی نہیں ایسی جگہوں پر جانے کا تو کسی کو کیا پڑی ہے دھندے میں مندا سہے۔جبکہ چند ہی گز کے فاصلے پر لوک ورثہ ہے اور آگے پاکستان مونومنٹ۔پارکنگ سے لے کر اندر سنگی بینچوں اور گھاس کے پلاٹس تک بھکارنوں کا عجب رش ہے۔سب نے گود میں ازلی نیند کا مارا بچہ اٹھا رکھا ہے۔جو گزشتہ کئی برسوں میں اتنے کا اتنا ہی ہے۔ہر عورت کے ماتحت دو چار برہنہ پاء بچے ہیں۔ان مقامات پر انٹری فیس ہے لیکن پھر بھی گزشتہ کئی برس سے یہ لوگ انہی جگہوں پر ڈیرے ڈالے پڑے ہیں۔دامن کوہ سے مونال یا پیر سوہاوہ تک ہو آیے حالات اس سے بھی بدتر ہیں۔۔۔سینٹورس جیسے شاپنگ مال میں چلے جایے تو وہاں ایک نیا سلسلہ چل رہا ہے "میڈم ہم نے کھانا آرڈر کیا تھا لیکن سو روپیہ کم پڑ رہا ہے۔پلیز ھیلپ۔" زمانہ ترقی کرگیا ہے تو بھیک مانگنے کا طریقہ بھی ماڈرن ہونا چاہیے۔کسی سگنل پر رکیں تو نقاب پوش مجبوریاں اور معذور یا ننگے پاؤں گھومتا نام نہاد مستقبل ۔ اس ضمن میں مرغزار چڑیا گھر ، لیک ویو پارک اور ایوب نیشنل پارک بازی لے جا چکے ہیں۔یہاں سیاحوں کی تعداد اب جوان بھکارنوں اور بچوں کی تعداد کے راست متناسب ہوتی ہے۔جبکہ داخلہ ٹکٹ لازم ہے۔انتظامیہ یا کہیے عملہ منہ میں وہسل دبائے وہیں گھومتا رہتا ہے اور محسوس ہوتا ہے کہ نگرانی جاری ہے۔
یہ تو صرف چند تفریحی مقامات ہیں آپ کسی بازار میں چلے جائیں تو ہر طرح کی مجبوری بِکنے کو تیار کھڑی ہے یا معصومیت کاسہ اٹھائے سوال کرتی ہے "کھانا نہیں کھایا ۔۔۔ اسکول شوز اور یونیفارم خریدنا ہے۔کتابیں لینی ہیں۔یہ ڈرائینگ بُکس خرید لیں۔۔۔۔" اور جب ان سے سکول کا اتہ پتہ پوچھو یا وقت تو چند سیکنڈز میں چیل کی مانند کوئی بڑا بھکاری آگے بڑھ کر آپ کا دھیان بٹا لے گا۔ایسا ہر بار ہوتا ہے۔
سلسلہ یہیں تھم نہیں جاتا۔کسی شہر میں کوئی مزار بتا دیجیے جہاں حکومتی دعووں کے برعکس تصویر دکھائی نہ دے۔لائلپور میں نور شاہ ولی کا مزار ہو یا لسوڑی شاہ ، لاہور میں بی۔بی پاکدامن،میاں میر ، شاہ جمال ، داتا علی ہجویری ، پاکپتن میں بابا فرید ، جھنگ میں سلطان باہو ، گولڑہ شریف، ملتان میں حافظ جمال ، بہاؤالدین زکریا اور شاہ رکن عالم ، سیہون شریف میں شہباز قلندر ، اسلام آباد میں بری امام ۔۔۔ غرض ایک طویل ترین فہرست ہے ان بزرگانِ دین کی کہ جِن کی آخری آرام گاہوں کے احاطوں میں ایک طبقہ ریاست کا منہ چڑا رہا ہے۔سالانہ عرس کے نام پر بھری بوریاں اور روزانہ کی بنیاد پر نذرانوں سے اٹی تجوریاں۔۔۔یاد رہے کہ لنگر اور فیض ملنے کا سوال یہاں زیرِ بحث نہیں ہے۔۔۔ میں نے تو کوئی ایسی جگہ نہیں دیکھی جہاں چائلڈ پروٹیکشن بیورو یا پیشہ ور بھکاریوں کے خلاف کریک ڈاؤن کا اثر دکھائی دیتا ہو۔یہ بچے کِس کے ہیں؟ کہاں سے لائے جا رہے ہیں؟ منہ ڈھاپے کون سے "باغیرت" خاندانوں کی یہ مائیں ،بہنیں اور بیٹیاں ہیں ؟ جو گود میں پڑا سردی گرمی اور بھوک پیاس سے بے نیاز اونگھتا معصوم ہے وہ کِس کا لختِ جگر ہے ؟ صرف بھیک ہی نہیں یہ معاشرہ اور کون سے گھناؤنے جرائم اور دیگر سرگرمیوں کی آجگاہیں بن چکا ہے کوئی فکر ہے کِسی کو؟
چائلڈ لیبر کے خاتمے کے لیے چھاپے مارے جاتے ہیں۔اینٹوں کے بھٹوں ،ورکشاپ، فلنگ اسٹیشن سے تو بچوں کو اٹھا کر ماہانہ وظیفہ دیتے اسکول بھیج دیں گے لیکن  کم سن بھکاری اور سال بھر کا معاوضہ ادا کرکے لائے گئے گھروں میں کام کرتے چھوٹے۔۔۔ان کی فکر کون کرے گا؟ سیکس ورکرز بنا اسی ملک کا مَسلا ہوا بیمار حال اور مستقبل کون اپنائے گا ؟ اے فار ایپل یا جیومیٹری و مسئلہ فیثاغورث سکھانے کی بجائے ذہنی و جسمانی صلاحیتوں کے مطابق مثبت و تکنیکی مہارت سکھا کر کارآمد سماجی و معاشرتی رکن بننے کو کِس نے آگے بڑھنا ہے؟ سوالات کا لامتناہی سلسلہ ہے اور جواب شاید جانتے ہوئے بھی انجان بننے کی عادت اپنائی جا چکی ہے۔